Jump to content

Engr. MA Saeedi

اراکین
  • کل پوسٹس

    23
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

About Engr. MA Saeedi

  • Birthday 07/07/1969

Previous Fields

  • پیر
    سید احمد سعید کاظمی

Engr. MA Saeedi's Achievements

Apprentice

Apprentice (3/14)

  • First Post
  • Collaborator
  • Week One Done
  • One Month Later
  • One Year In

Recent Badges

2

کمیونٹی میں شہرت

  1. حوالہ (أخرجه أحمد ( 3 / 146 (و ابن حبان ( 2271 - موارد (و الطبراني في " المعجم الكبير " ( 22 / 300 / 763 (والحاكم ( 2 / 20 (و من طريقه البيهقي ( 3 / 249 / 3451 (و الضياء المقدسي في " المختارة " ( 1 / 515
  2. کون تیار ہے ایسے سودے کیلئے؟ اِنَّ اَصحابی بِمنزلۃِ النُجوم فی السماء فاِنَّما اَخَذتُم بِہ اِھتَدَیتُم ! "میرے صحابہ کی مثال یوں ہے جیسے آسمان میں ستارے، انمیں سے جس کا بھی دامن تھام لوگے، ہدایت یافتہ ہوجاؤگے --- سبحان اللہ! صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے حالات و واقعات ہمارے لئے مشعلِ راہ ہیں۔ انکے مطالعہ سے نورِ ایمان میں اضافہ نصیب ہوتا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ پیش خدمت ہے : ۔ سرکارِ دو عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے درمیان تشریف فرما تھے کہ ایک یتیم جوان شکایت لیئے حاضرِ خدمت ہوا۔ کہنے لگا یا رسول اللہ؛ میں اپنی کھجوروں کے باغ کے ارد گرد دیوار تعمیر کرا رہا تھا کہ میرے ہمسائے کی کھجور کا ایک درخت دیوار کے درمیان میں آ گیا۔ میں نے اپنے ہمسائے سے درخواست کی کہ وہ اپنی کھجور کا درخت میرے لیئے چھوڑ دے تاکہ میں اپنی دیوار سیدھی بنوا سکوں، اُس نے دینے سے انکار کیا تو میں نے اُس کھجور کے درخت کو خریدنے کی پیشکس کر ڈالی، میرے ہمسائے نے مجھے کھجور کا درخت بیچنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس نوجوان کے ہمسائے کو بلا بھیجا۔ ہمسایہ حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے نوجوان کی شکایت سُنائی جسے اُس نے تسلیم کیا کہ واقعتا ایسا ہی ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے فرمایا کہ تم اپنی کھجور کا درخت اِس نوجوان کیلئے چھوڑ دو یا اُس درخت کو نوجوان کے ہاتھوں فروخت کر دو اور قیمت لے لو۔ اُس آدمی نے دونوں حالتوں میں انکار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات کو ایک بار پھر دہرایا؛ کھجور کا درخت اِس نوجوان کو فروخت کر کے پیسے بھی وصول کر لو اور تمہیں جنت میں بھی ایک عظیم الشان کھجور کا درخت ملے گا جِس کے سائے کی طوالت میں سوار سو سال تک چلتا رہے گا۔ دُنیا کےایک درخت کے بدلے میں جنت میں ایک درخت کی پیشکش ایسی عظیم تھی جسکو سُن کر مجلس میں موجود سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہما دنگ رہ گئے۔ سب یہی سوچ رہے تھے کہ ایسا شخص جو جنت میں ایسے عظیم الشان درخت کا مالک ہو کیسے جنت سے محروم ہو کر دوزخ میں جائے گا۔ مگر افسوس کہ دنیاوی مال و متاع کی لالچ اور طمع آڑے آ گئی اور اُس شخص نے اپنا کھجور کا درخت بیچنے سے انکار کردیا۔ اتنے میں مجلس میں موجود ایک صحابی (ابا الدحداح رضی اللہ تعالی عنہ) آگے بڑھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اگر میں کسی طرح وہ درخت خرید کر اِس نوجوان کو دیدوں تو کیا مجھے جنت کا وہ درخت ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ہاں تمہیں وہ درخت ملے گا۔ ابا الدحداح رضی اللہ تعالی عنہ اُس آدمی کی طرف پلٹے اور اُس سے پوچھا میرے کھجوروں کے باغ کو جانتے ہو؟ اُس آدمی نے فورا جواب دیا؛ جی کیوں نہیں، مدینے کا کونسا ایسا شخص ہے جو اباالدحداح کے چھ سو کھجوروں کے باغ کو نہ جانتا ہو، ایسا باغ جس کے اندر ہی ایک محل تعمیر کیا گیا ہے، باغ میں میٹھے پانی کا ایک کنواں اور باغ کے ارد گرد تعمیر خوبصورت اور نمایاں دیوار دور سے ہی نظر آتی ہے۔ مدینہ کے سارے تاجر تیرے باغ کی اعلٰی اقسام کی کھجوروں کو کھانے اور خریدنے کے انتطار میں رہتے ہیں۔ ابالداحداح رضی اللہ تعالی عنہ نے اُس شخص کی بات کو مکمل ہونے پر کہا، تو پھر کیا تم اپنے اُس کھجور کے ایک درخت کو میرے سارے باغ، محل، کنویں اور اُس خوبصورت دیوار کے بدلے میں فروخت کرتے ہو؟ اُس شخص نے غیر یقینی سے سرکارِ دوعالم کی طرف دیکھا کہ کیا عقل مانتی ہے کہ ایک کھجور کے بدلے میں اُسے ابالداحداح کے چھ سو کھجوروں کے باغ کا قبضہ بھی مِل پائے گا کہ نہیں؟ معاملہ تو ہر لحاظ سے فائدہ مند نظر آ رہا تھا۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور مجلس میں موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہما نے گواہی دی اور معاملہ طے پا گیا۔ ابالداحداح رضی اللہ تعالی عنہ نے خوشی سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور سوال کیا؛ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، جنت میں میرا ایک کھجور کا درخت پکا ہو گیا ناں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ ابالدحداح رضی اللہ تعالی عنہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے حیرت زدہ سے ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات کو مکمل کرتے ہوئے جو کچھ فرمایا اُس کا مفہوم یوں بنتا ہے کہ؛ اللہ رب العزت نے تو جنت میں ایک درخت محض ایک درخت کے بدلے میں دینا تھا۔ تم نے تو اپنا پورا باغ ہی دیدیا۔ اللہ رب العزت جود و کرم میں بے مثال ہیں اُنہوں نے تجھے جنت میں کھجوروں کے اتنے باغات عطاء کیئے ہیں کثرت کی بنا پر جنکے درختوں کی گنتی بھی نہیں کی جا سکتی۔ ابالدحداح، میں تجھے پھل سے لدے ہوئے اُن درختوں کی کسقدر تعریف بیان کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اِس بات کو اسقدر دہراتے رہے کہ محفل میں موجود ہر شخص یہ حسرت کرنے لگا اے کاش وہ ابالداحداح ہوتا۔ ابالداحداح رضی اللہ تعالی عنہ وہاں سے اُٹھ کر جب اپنے گھر کو لوٹے تو خوشی کو چُھپا نہ پا رہے تھے۔ گھر کے باہر سے ہی اپنی زوجہ محترمہ کو آواز دی کہ میں نے چار دیواری سمیت یہ باغ، محل اور کنواں بیچ دیا ہے۔ زوجہ محترمہ اپنے خاوند کی کاروباری خوبیوں اور صلاحیتوں کو اچھی طرح جانتی تھی، اُس نے اپنے خاوند سے پوچھا؛ ابالداحداح کتنے میں بیچا ہے یہ سب کُچھ؟ ابالداحداح نے اپنی زوجہ محترمہ سے کہا کہ میں نے یہاں کا ایک درخت جنت میں لگے ایسے ایک درخت کے بدلے میں بیچا ہے جِس کے سایہ میں سوار سو سال تک چلتا رہے۔ ابالداحداح کی زوجہ محترمہ نے خوشی سے چلاتے ہوئے کہا. ابالداحداح، تو نے منافع کا سودا کیا ہے۔ ابالداحداح، تو نے منافع کا سودا کیا ہے۔ دنیا کی قُربانی کے بدلے میں آخرت کی بھلائی یا دُنیا میں اُٹھائی گئی تھوڑی سی مشقت کے بدلے آخرت میں ہمیشہ ہمیشہ کی راحت۔۔۔۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اپنے آقا کے فرمان پر کتنا پختہ یقین تھا !!! ۔ ۔ ۔ اور آج ہم ہیں کہ دنیا کے عارضی مفاد کے پیچھے مارے مارے پھرتے ہیں! آہ ۔ ۔ ۔ آج ہم میں سے کون تیار ہے ایسے سودے کیلئے؟؟؟ پیارے دوستو ! زندگی کی سمت متعین کرنے کیلئے یہ واقعہ ہمارے سامنے روشنی کا مینار ہے ۔ ۔ ۔ ۔ آئیے سوچیں اور اپنی اپنی اصلاح کا عزم کریں!!! اللہ تعالی ہمارے احوال کی اصلاح فرمائے۔ آمین!!! والسلام علیکم و رحمۃاللہ وبرکاتہ۔
  3. استنِ حنانہ کا نالہءِغم - عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایمان افروز واقعہ اسلام کے ابتدائی دور میں آقا دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجدِ نبوی میں کھجور کے ایک خشک تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر وعظ فرمایا کرتے تھے اور اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کافی دیر کھڑے رہنا پڑتا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ مشقت شاق گزری۔ ایک صحابی جس کا بیٹا بڑھئی تھا، نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے منبر بنانے کی درخواست کی تاکہ اُس پر بیٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ دیا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس درخواست کو پذیرائی بخشی، چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور کے تنے کو چھوڑ کر اس منبر پر خطبہ دینا شروع کیا۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گذری تھی کہ اس تنے سے شدید گریہ و زاری کی آوازیں آنے لگیں۔ اُس مجلسِ وعظ میں موجود تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے اُس کے رونے کی آواز سنی۔ آقا ئے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب یہ کیفیت دیکھی تو منبر سے اُتر کر اس ستون کے پاس تشریف لے گئے اور اُسے اپنے دستِ شفقت سے تھپکی دی تو وہ بچوں کی طرح سسکیاں بھرتا ہوا چپ ہو گیا۔ ابن ماجہ، 1 : 2455 دارمی، السنن، 1 : 29، رقم : 332 طبرانی، المعجم الاوسط، 2 : 367، رقم : 2250 :اُس ستون کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کی روایت اس طرح ہے کان النبی صلی الله عليه وآله وسلم يخطب إلی جذع، فلما اتخذ المنبر تحوّل إليه فحن الجذع، فأتاه فمسح يده عليه. بخاری، الصحيح، 3 : 1314، کتاب المناقب، رقم : 23390 ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 594، ابواب المناقب، رقم : 33627 ابن حبان، الصحيح، 14 : 435، رقم : 46506 بيهقي، السنن الکبري، 3 : 195، رقم : 5489 ’’رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک کھجور کے تنے کے ساتھ خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔ جب منبر تیار ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُسے چھوڑ کر منبر پر جلوہ افروز ہوئے۔ اُس تنے نے رونا شروع کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کے پاس تشریف لے گئے اور اُس پر دستِ شفقت رکھا۔‘‘ :حضرت جابر بن عبداللہ رضی اﷲ عنہما تنے کی کیفیت بیان کرتے ہیں .فصاحت النخله صياح الصبي، ثم نزل النبي صلي الله عليه وآله وسلم فضمها إليه، تئن أنين الصبي الذي يسکن بخاري، الصحيح، 3 : 1314، رقم : 23391 بيهقي، السنن الکبري، 3 : 195، رقم : 5489 ’’کھجور کے تنے نے بچوں کی طرح گریہ و زاری شروع کر دی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبرسے اُتر کر اُس کے قریب کھڑے ہو گئے اور اُسے اپنی آغوش میں لے لیا، اس پر وہ تنا بچوں کی طرح سسکیاں لیتا خاموش ہو گیا۔‘‘ :حضرت انس بن مالک اور حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اللہ عنھم اُس تنے کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں .فسمعنا لذالک الجذع صوتا کصوتِ العشار، حتی جاء النبی صلی الله عليه وآله وسلم فوضع يده عليها فسکنت بخاري، الصحيح، 3 : 1314، کتاب المناقب، رقم : 23392 دارمي، السنن، 1 : 30، رقم : 334 بيهقي، السنن الکبري، 3 : 195، رقم : 45487 ابن سعد، طبقات الکبري، 1 : 5253 ابن جوزي، صفوۃ الصفوه، 1 : 98 ’’ہم نے اُس تنے کے رونے کی آواز سنی، وہ اُس طرح رویا جس طرح کوئی اُونٹنی اپنے بچے کے فراق میں روتی ہے حتٰی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تشریف لا کر اُس پر اپنا دستِ شفقت رکھا اور وہ خاموش ہو گیا۔‘‘ :صحابہ کرام رضی اللہ عنھم فرماتے ہیں .لولم أحتضنه لحن إلی يوم القيامة ابن ماجه، السنن، 1 : 454، کتاب اقامة الصلوٰة والسنة فيها، رقم : 21415 احمد بن حنبل، المسند، 1 : 3363 ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 319، رقم : 431746 ابويعلي، المسند، 6 : 114، رقم : 53384 عبد بن حميد، المسند، 1 : 396، رقم : 1336 ’’اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس ستون کو بانہوں میں لے کر چپ نہ کراتے تو قیامت تک روتا رہتا۔‘‘ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشتِ اقدس کے لمس کا اثر تھا کہ ایک بے جان اور بے زبان لکڑی میں آثارِ حیات نمودار ہوئے جس کا حاضرینِ مجلس نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ :حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی حدیثِ مبارکہ میں اس طرح ہیں کان جذع نخلة فی المسجد يسند رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ظهره إليه إذا کان يوم الجمعة أوحدث أمر يريد أن يکلم الناس، فقالوا : ألانجعل لک يارسول اﷲ شيئاً کقدر قيامک، قال : لا، عليکم أن تفعلوا. فصنعوا له منبراً ثلاث مراق. قال : فجلس عليه، قال : فخار الجذع کما تخور البقرة جزعا علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فالتزمه و مسحه حتي سکن. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 109 ’’مسجد نبوی میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ پڑھنے کے لئے جمعہ کے دن یا کسی ایسے وقت میں جب لوگوں کو کوئی حکمِ الٰہی پہنچانا ہوتا، کھجور کے ایک ستون سے پشت مبارک لگا کر کھڑے ہوا کرتے تھے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا کہ اگر آپ حکم فرمائیں تو آپ کے لئے کوئی ایسی شے تیار کی جائے جس پر آپ کھڑے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر ایسا کر سکتے ہو تو اجازت ہے۔ چنانچہ تین درجوں والا ایک منبر تیار کرایا گیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کہتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس پر کھڑے ہو کر خطبہ پڑھنے لگے تو ستون سے رونے کی آواز سنی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوراً منبر سے اُترے، اُسے سینہ سے لگایا اور (جیسا کہ بچوں کے چپ کرانے کے لئے کیا جاتا ہے) اُس پر محبت اور شفقت سے ہاتھ پھیرتے رہے، یہاں تک کہ وہ پرسکون ہو گیا۔‘‘ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے اِسی ایمان افروز واقعہ کو اپنے پیار بھرے اشعار میں بیان کیا ہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے مع ترجمہ حاضر ہیں استنِ حنانہ در ہجرِ رسول نالہ میزد ہمچو اربابِ عقول (رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فراق میں کھجور کا ستون انسانوں کی طرح رو دیا۔) درمیانِ مجلسِ وعظ آنچناں کزوے آگاہ گشت ہم پیر و جواں (وہ اس مجلسِ وعظ میں اس طرح رویا کہ تمام اہلِ مجلس اس پر مطلع ہوگئے۔) در تحیر ماند اصحابِ رسول کز چہ مے نالد ستوں با عرض و طول (تمام صحابہ حیران ہوئے کہ یہ ستون کس سبب سے سرتاپا محوِ گریہ ہے۔) گفت پیغمبر چہ خواہی اے ستوں گفت جانم از فراقت گشت خوں (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ستون تو کیا چاہتا ہے؟ اس نے عرض کیا : میری جان آپ کے فراق میں خون ہوگئی ہے۔) مسندت من بودم از من تاختی بر سرِ منبر تو مسند ساختی (پہلے تو میں آپ کی مسند تھا، آپ نے مجھ سے کنارہ کش ہوکر منبر کو مسند بنالیا۔) پس رسولش گفت کای نیکو درخت اے شدہ باسر تو ہمراز بخت گرہمے خواہی ترا نخلے کنند شرقی و غربی ز تو میوہ چنند (آپ نے فرمایا : اے وہ درخت جس کے باطن میں خوش بختی ہے، اگر تو چاہے تو تجھ کو پھر ہری بھری کھجور بنا دیں حتی کہ مشرق و مغرب کے لوگ تیرا پھل کھائیں۔) یا دراں عالم حقت سروے کند تا ترو تازہ بمانی تا ابد (یا اللہ تعالیٰ تجھے اگلے جہاں بہشت کا سرو بنا دے تاکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تروتازہ رہے۔) گفت آن خواہم کہ دائم شد بقاش بشنو اے غافل کم از چوبے مباش (اس نے عرض کیا : میں وہ بننا چاہتا ہوں جو ہمیشہ رہے۔ اے غافل! تو بھی بیدار ہو اور ایک خشک لکڑی سے پیچھے نہ رہ جا (یعنی جب ایک لکڑی دار البقاء کی طلب گار ہے تو انسان کو تو بطریقِ اولیٰ اس کی خواہش اور آرزو کرنی چاہئیے۔) آں ستون را دفن کرد اندر زمین تاچو مردم حشر گردد یومِ دیں (اس ستون کو زمین میں دفن کردیا گیا، تاکہ قیامت کے دن اسے انسانوں کی طرح اٹھایا جائے۔) ساتھیو! جس جگہ پر کھجور کا یہ خشک تنا دفن کیا گیا تھا ، بعد میں اس جگہ پر ایک ستون بنا دیا گیا۔ یہ ستون ریاض الجنۃ میں محراب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بالکل متصل آج بھی موجود ہے اور دنیا بھر سے آنے والے عشاقانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو زبانِ حال سے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا درس دیتا محسوس ہوتا ہے۔ حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ جب وہ کھجور کے تنے کے گریہ والی حدیث کو بیان کرتے تو خود بھی بے اختیار رونے لگتے اور فرماتے : لوگو ! کجھور کی ایک خشک لکڑی آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے شوق ومحبت میں روتی تھی ، تمہیں تو اس سے بھی زیادہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور شوقِ ملاقات میں بے قرار ہونا چاہئے ۔ جن دوستوں نے مسجد نبوی شریف کی زیارت کا شرف حاصل کیا ہے ، انہوں نے تو اس مبارک ستون کی زیارت کی ہی ہوگی مگر جو احباب ابھی تک شوقِ زیارت میں تڑپتے ہیں ، ان کےلئے اس مبارک ستون کی تصویر اور محل وقوع کا نقشہ یہاں شیئر کرتا ہوں، اس دعا کے ساتھ کہ اللہ کریم جلد از جلد انہیں بھی یہ سعادت عطا فرمائے تصویر میں محراب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے تکون شکل والے حصے کے ساتھ ہی جس ستون پر گول دائرے میں "ھذہ اسطوانۃ الحنانہ" لکھا ہوا ہے، عین اسی ستون کے نیچے کجھور کا وہ مبارک تنا دفن ہے ہے جو ہجرِرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں رویا اور حیات ابدی پاگیا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں فنا کردے اور درِحبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی بار بار حاضری عطا فرمائے۔ آمین !اللہ حافظ ! والسلامُ علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
  4. Mashallah! May ALLAH subhana hu wa ta'ala accept these efforts. Ameen.
  5. محترم سیفی بھائی السلام علیکم و رحمةاللہ و برکاتہ الحب للہ والبغض للہ ۔ محبت بھی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کیلیے اور بغض بھی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے، یہ ہمیشہ سے اللہ کے محبوب بندوں کا طریقہ رہا ہے۔ اور یہی سنہری اصول ہم سب کے لیے بھی ضابطہ حیات ہونا چاہیے۔ میرے بھائی خدا نخواستہ میری آپ سے کوئی عداوت نہیں تھی۔ جو کچھ لکھا واللہ حق ، سچ جان کر لکھا اور فقط اللہ تعالی کے لیے لکھا۔ اوپر جو موضوع زیر بحث تھا ، تو بات دو فریقوں کی ہو رہی تھی۔ humaray Punjabi mein aksar kehtay hain " Wadeyan di gal wich nikyan da koi kam nahi honda " Meri har bhai se request hai ke baron ke ikhtalafat mein chotay na uljhain aur Mashaikh kraam par ungliyan na uthain . Humain chahiye ke sab ki izat karen aur adab karen Ikhtilafat humaray Ulema ke beech hain choton ka kya kaam bich mein aa ke ek doosray se larnay ka ?? EK BAAT ZAROOR KAROON GA . farz kijiye jo Hazrat Maulana Ilyas Attar Qadri Sahib ko MazzAllah ghalat kehtay hain. kya aap yeh jantay hain ke Allah ki bargah mein unka kya muqam hai ?? Ya Kya aap MazzAllah yeh jaan gaye hain ke woh Allah ki bargah mein maqbool ya Mazzallah Allah ke Walli nahin hain ?? agar nahin jantay toh phir kya aap log jantay hain ke kisi Wali Allah se Adawat kitni khatarnak ho sakti hai ?? Baraye karam mil ke aik doosray ka diffa karen Ikhtalafat to Hamesha se hi Ulema mein rehtay hain . humain choton ko chahiye ke hum apnay baron ka diffa karen aur Dushman ko koi moqa na den ... بہرحال اب جب کہ آپ یہ لکھ رہے ہیں کہ Main phir waziyah kar doon main ne jo pichli post ki us mein mera maqsad har giz takfeer ke muamlay mein adab ki baat nahin thi . balkeh Sirf jo Ahle Sunnat ke Mashaikh aur Awliya hain Rehmatullah Alyehim unka Adab karna chahiye. Janab ab doosri baat yeh hai ke agar aap ko yahi laga ke main ne Kuffar aur takfeer ke muamlay mein baat ki ho to . MainMUAFI MANGTA HOON . aur agar meray dil mein aisa khayal bhi ho to Tobah karta hoon . MAIN TAKFEER KE MUAMLAY MEIN NAHIN BOLTA . AUR SUNNI TABLIGHI JAMMAT KE KHILAAF TO MAIN NE PEHLAY BHI IS FORUM MEIN BOLA HAI . YEH LOG AHLE SUNNAT KO BANTANA CHAHTAY HAIN , aur MAIN DAWET ISLAMI SE MUHABBAT KARTA HOON. AUR YAHI DUA KARTA HOON : AE DAWAT E ISLAMI TERI DHOOM MACHI HO . تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب آپ فریق ثانی جسکی تفصیل اوپر بیان کی گئی ہے ، کی حمایت نہیں کرتے اور ان سب فتویٰ باز جھوٹے اور شرپسند مفتیوں سے اپنی برآت کا واضح اعلان کر رہے ہیں۔ الحمد للہ ۔ ۔ ۔ الحمد للہ رب العالمین والصلوٰة والسلام علی رسولہ الکریم۔ مزید یہ کہ ہم سب الحمد للہ تعالی :- سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کے بندے اور انسان ہیں پھر مسلمان ہیں اور پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام لیوا اور پیار کر نے والے امتی ہیں۔ اور پھر اہل سنت ہیں چاہے حنفی ہوں ، شافعی ہوں مالکی ہوں یا حنبلی ہوں ۔ اور اس پہچان کی ضرورت صرف اس لیے پیدا ہوئی کہ مسلمانوں میں کچھ گروہ صحابہ و تابعین ، ائمہ کرام ، اولیاء عظام اور سلف صالحین رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کی سنت سے ہٹ کر گمراہ ہو گئے۔ باقی سب تشخصات اس اصل تشخص کی لڑیاں ہیں۔ اور ان سب لڑیوں سے وابستہ سب کے سب اکابر اہل سنت علماء کرام و مشائخ عظام ہم سب کے لیے نہایت ہی قابل احترام ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہی سنہری اصول اتحاد امت کی بنیاد ہے جو ہمیں ہر ہر قدم پر اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے۔ باقی یہ کہ آپ نے لکھا کہ میں غصے میں لگ رہا تھا ، تو میرے پیارے بھائی ، میں کیا اور میری اوقات کیا ۔ ۔ ۔ بھلا میں کیوں اور کس طرح سے اپنے مسلمان بھائیوں پر غصہ کر سکتا ہوں ، یا ان کے بارے میں برا خیال بھی دل میں لا سکتا ہوں؟ جب کہ میں خود انتہائی عاجز اور خطاکار انسان ہوں۔ یہ سب آپکا کرم ہے آقا کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے اگر میرے کسی بھی لفظ سے کسی بھی ساتھی کو غصے کا گمان ہوا ہے تو میں اللہ تبارک و تعالی کی بارگاہ میں بھی اور آپ سب دوستوں کی خدمت میں بھی با ادب ملتمس ہوں ، کہ اس عاجز کو معاف فرمائیں۔ جزاک اللہ۔ اللہ حافظ۔ والسلام علیکم و رحمةاللہ و برکاتہ
  6. جناب غلام احمد صاحب السلام علیکم و رحمةاللہ وبرکاتہ آپ نے باقی باتوں کی تو وضاحت کردی ، مگر کچھ سوال ابھی آپکے ذمہ باقی ہیں ۔ یہاں پہلے بات ہوچکی کہ ایک ساتھی نے کہا "صلح کلیت ایک گھناؤنا روگ ہے جو اس معاشرے کو چاٹ رہا ہے اور ایسی صلح کلیت جو ہر برے کو اچھا سمجھے ، اسے معاشرے کا ناسور نہیں قرار دیا جائے گا کیا؟ اب آپ براہ مہربانی مندرجہ ذیل سوالات پر منہاج کا مؤقف واضح فرمائیں تاکہ بات کو کسی نتیجے تک پہنچایا جا سکے ۔ 1 ۔ آپ کے نزدیک صلح کلیت سے کیا مراد ہے؟ ۔ 2 ۔ کیا منہاج والے ہر برے کو اچھا کہتے ہیں؟ ۔ 3 ۔ اگر دین کی دعوت کو گمراہ فرقوں کے ان لوگوں تک پہچانا مقصود ہو ، جنکے دلوں میں تلاش حق کا جذبہ موجود ہے ، تو منہاج القرآن کا طریقہ باقی جماعتوں سے کس کس نہج سے مختلف ہے اور کن دلائل کی بنا پر؟ ۔ 4 ۔ اس طرح غیر مسلم دنیا میں دعوت دین کے معاملے میں منہاج القرآن والوں کا طریقہ باقی جماعتوں سے کس کس نہج سے مختلف ہے اور کن دلائل کی بنا پر؟ ۔ 5 ۔ آپ منہاج القرآن جماعت پر لگائے گئے صلح کلیت کے الزام کا کن دلائل کی بنا پر دفاع کرتے ہیں؟ براہ مہربانی ان سوالات پر تھوڑا تفصیلی جواب لائیے ، تاکہ اس فورم کے قارئین اس معاملے پر کوئی رائے قائم کر سکیں۔ شکریہ۔ والسلام علیکم و رحمةاللہ و برکاتہ
  7. بھائی صاحب، آپکی پوسٹ میں میرے سوال کا جواب کہاں ہے؟ براہ مہربانی خود کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے منصب پر نہ بٹھائیں اور اس منصب سے نیچے اتر کر بات کریں۔ میں نے آپ سے جو سوال دو جمع دو چار کی طرح پوچھا تھا وہ یہ تھا کہ اب آپ بتائیں کہ اوپر زیر بحث معاملہ جس میں ایک فریق کا کفر یقینی ہے ، یہ سب جانتے ہوئے جو کوئی ان دونوں فریقوں کے ادب و احترام کا درس دےتو وہ خود آپ ہی کے بیان کردہ فارمولے کے مطابق صلح کلی ہے کہ نہیں؟ اب یہ ادب و احترام کا درس کون دے رہا تھا؟ اگر اوپر کی پوسٹیں غور سے پڑھیں تو یہاں سیفی بھائی کی بات ہو رہی تھی نہ کہ منہاج والوں کی۔ کچھ سمجھ میں آئی بات؟ اگر اس کے بعد بھی آپ ڈھٹائی پر قائم رہیں تو پھر میں "انا للہ و انا الیہ راجعون" کے علاوہ کیا لکھوں؟ اور غور سے سنیں جو سوال آپ نے کیے تھے ، ان کا جواب دینا منہاج والوں کے نمائیندے کے ذمہ ہے ، مجھ سے اس معاملے میں مت الجھیں۔ اور ہاں ہر بات کو مناظرانہ انداز میں مت لیا کریں۔ جب کسی کو دین کی بات سمجھانی مقصود ہو تو قرآن کریم ہمیں حکمت اور دانائی کا طریقہ سمجھاتا ہے، اور الحمد للہ ہر دور میں اکابر اولیاءاللہ اور مشائخ عظام کا یہی طریقہ رہا ہے کہ جب ان کے پاس کوئی شخص کسی بھی سلسلے میں آتا تو وہ ہمیشہ اس کو پیار سے ، حکمت سے اور نصیحت آموز طریق پر سمجھاتے تھے جسکا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ اپنے تو اپنے، غیر بھی آتے تو انکے دامن میں وسعت دیکھ کر ، اور انکا پیار بھرا انداز دیکھ کر متآثر ہوئے بغیر واپس نہ جاتے۔ مگر افسوس آج اکابر کی یہ سنت اور قرآن کریم کا دیا ہوا یہ درس محبت و الفت ہمیں سرے سے یاد ہی نہیں ہے۔ اور جو کوئی اللہ کا بندہ اس بھولے ہوئے سبق کو یاد دلانے کی کوشش کرے ، ہم لوگ تحقیق کیے بغیر اس کے پیچھے فتووں کی لاٹھی لے کر چڑھ دوڑتے ہیں۔ آج ہماری اسی غلط روش کا نتیجہ ہے کہ غیروں کو تو ہم نے کیا اسلام میں داخل کرنا تھا ، خود اپنے بھائیوں کو ہی ہر وقت دائرہ اسلام سے نکالنے پر تلے رہتے ہیں۔ اب یہ تھریڈ جسمیں دعوت اسلامی پر سنگین ترین الزامات لگائے گئے ہیں ، اس بات کا کھلا ثبوت نہیں ہے کیا؟ برا نہ منائیں تو ایک آخری بات آپ سے کرتا ہوں۔ دوسروں کے دل کا حال تو ہم نہیں جانتے مگر اپنے اپنے دلوں کا حال ہم سب بخوبی جانتے ہیں۔ لھٰذا دوسروں کے اندر عیب ڈھونڈنے سے بہتر یہی ہے کہ ہم سب اپنے اپنے عیبوں کو ڈھونڈنے کی کوشش کریں تو یہ ہمارے لیے زیادہ فائدہ مند ہوگا۔ اور آپ کو بھی میرا یہی مشورہ ہے۔ اسی موقع پر شاعر نے کیا خوب کہا ہے نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنی خبر، رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر پڑی اپنے عیبوں پہ جو نظر ، تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا اللہ تعالی کی بارگاہ عالی میں دعا ہے کہ وہ ہم سب کو حق کہنے ، حق سننے اور حق کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔ اللہم صل و سلم و بارک علیٰ سیدنا و مولیٰنا محمدٍوّ علیٰ آلہ و عترتہ بعددِ کلّ معلوم لک استغفراللہ العظیم الذی لا الہ الا ھو علیہ توکلت و ھو رب العرش العظیم ۔ اللہ حافظ ۔ والسلام علیکم و رحمةاللہ و برکاتہ
  8. محترم عثمان رضوی صاحب السلام علیکم و رحمةاللہ و برکاتہ غلطی کی نشاندہی کا بہت شکریہ۔ دراصل ایک اچانک مصروفیت آجانے کے باعث اس پوسٹ کی پروف ریڈنگ مکمل کیے بغیرلاگ آف ہونا پڑا جس کی وجہ سے ایسا ہوا۔ اور آج دوبارہ اس فورم میں آنے سے پہلے پہلے آپکا تبصرہ پوسٹ ہو چکا تھا۔ اب میں نے چاہا کہ گذشتہ پوسٹ کو ایڈٹ کردوں مگر ایڈٹنگ آپشن اب موجود نہیں ہے۔ لھٰذا تمام قارئین سے التماس ہے کہ میری گذشتہ پوسٹ کے آخری پیرا گراف کو اس طرح سے پڑھا جائے آخری بات جو میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ آپ اپنا آئی ڈی نام "ایکسپوزنگ نفاق" بھی درست کرلیں ، کیونکہ نفاق خالصتاً ایک قلبی کیفیت کا نام ہے جس کا انکشاف اللہ تعالیٰ عز و جل یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ اور کوئی نہیں کرسکتا الا ماشاءاللہ۔ اس معاملے پر جذباتی ہوکر نہیں بلکہ ٹھنڈے دل و دماغ سے غور فرمائیں تو بات آپکو سمجھ آجائے گی انشاءاللہ تعالیٰ۔ اللہ تعالی عزوجل کی بارگاہ عالی میں ملتمس ہوں کہ سہواً جو غلطی ہوئی اس کو معاف فرمائے۔ ہم سب کو روز قیامت حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست مبارک سے جامِ کوثر نصیب فرمائے اور جنت میں پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفاقت عطا فرمائے۔ آمین۔ والسلام علیکم و رحمةاللہ وبرکاتہ
  9. بھائی صاحب، چلو اچھا ہوا اب آپ خود مان گئے کہ صلح کلیت ایک گھناؤنا روگ ہے جو ہمارے معاشرے کو چاٹ رہا ہے۔ اور "کیا ایسی صلح کلیت جو ہر برے کو اچھا سمجھے ، کیا اسے معاشرے کا ناسور نہیں قرار دیا جائیگا؟" ٹھیک ہے میں نے بھی تو یہی کہا تھا کہ جب دونوںمیں سے ایک فریق کا کفر یقینی ہے تو اسکا مطلب ہے کہ بجائے غلط کو غلط کہنے کے، آپ کافر فریق (عنداللہ جو بھی ہے)کی عزت اور ادب کرنے کا درس دے رہے ہیں ، صرف اس لیے کہ وہ آپ کے بڑے ہیں؟اسی موقعہ کے لیے شاعر نے کہا ہے کہ دورنگی چھوڑدے ، یک رنگ ہوجا سراسر موم یا پھر سنگ ہوجا اب آپ ایمان سے بتائیے کہ اس فورم کے خود اپنے بنائے ہوئے فارمولے کے مطابق ، صلح کلیت اسی سوچ کو کہتے ہیں یاکسی اور شے کو؟ اور یہ آپ جانتے ہی ہونگے کہ ایسی سوچ گمراہی کی سوچ ہے!!! اب آپ بتائیں کہ اوپر زیر بحث معاملہ جس میں ایک فریق کا کفر یقینی ہے ، یہ سب جانتے ہوئے جو کوئی ان دونوں فریقوں کے ادب و احترام کا درس دے وہ خود آپ ہی کے بیان کردہ فارمولے کے مطابق ، صلح کلی ہے کہ نہیں؟ ایمان سے بتائیے گا ، بڑوں کے متآثر ہونے کی وجہ سے ڈنڈی نہیں مارنی۔ اب آتے ہیں اس سوال کی جانب کہ ان دو فریقوں کے اختلاف کی وجہ سے منہاج والوں کی لاٹری نکل آئی ہے اور ان لوگوں کو موقع مل گیا ہے ، اس بات پر وضاحت کرنا اب منہاج والوں کے ذمے ہے۔ اگرچہ غلام احمد صاحب نے اوپر ایک ویڈیو لگائی ہے جس میں دعوت اسلامی کیلیے نیک جذبات کا اظہار کیا گیا ہے، مزید وہ پہلے ہی یہ بھی لکھ چکے ہیں کہ منہاج والے زیر بحث فتووں کو لغو اور بے بنیاد سمجھتے ہیں، پھر بھی میں غلام احمد صاحب سے یہ گذارش کروں گا کہ اس بارے میں اگر وہ مزید کچھ وضاحت پیش کرسکتے ہیں تو بسم اللہ ، ساتھ میں اس بات پر بھی منہاج والوں کا موقف واضح کیا جانا چاہیے کہ کیا منہاج والے ہر برے کو اچھا کہتے ہیں؟ ایک بات یہاں پر میں ضرور کہنا چاہوں گا کہ اسلام کا یہ بنیادی قاعدہ ہے کہ نفرت گناہ سے ہونی چاہیے نہ کہ گنہگار سے۔ کیونکہ نہ معلوم کس وقت وہ گنہگار اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرلے اور اپنے سارے گناہوں کی تلافی کرلے۔ اور ہم جیسوں کو ہر وقت اللہ پاک عز وجل سے ڈرتے رہنا چاہیے ، کہ نہ معلوم کس وقت ہم سے کوئی ایسی غلطی سرزد ہوجائے کہ ہم اس کی پکڑ میں آجائیں۔ ایک ھدیث پاک کا مفہوم یہ ہے کہ ایک آدمی ساری زندگی نیکیاں کرتا رہتا ہے ، حتیٰ کہ اسکے اور جنت کے درمیان صرف موت کا پردہ باقی رہ جاتا ہے ، مگر عین موت سے چند لمحے پہلے وہ ایسا گناہ کر بیٹھتا ہے کہ جو اسکی ساری زنگی کی نیکیاں غارت کردیتا ہے اور اسطرح وہ شخص جنت کی بجائے جہنم میں پہنچ جاتا ہے۔ اس کے برعکس ایک شخص ساری زندگی گناہ کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ اسکے اور جہنم کے درمیان صرف موت کا پردہ باقی رہ جاتا ہے۔ پھر موت سے چند لمحے پہلے وہ کوئی ایسا نیک کام کر گذرتا ہے کہ اسکی ساری زندگی کے گناہ مٹادیے جاتے ہیں، اور اللہ پاک اسکو جہنم کی بجائے جنت میں داخلے کا پروانہ عطا فرما دیتے ہیں۔ سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم۔ اس وجہ سے ہر دور میں اکابر اپنے متوسلین سے خاتمہ بالایمان ہونے کی دعا کرنے کی تاکید کرتے نظر آتے تھے۔ مجھے بہت اچھی طرح سے آج بھی یاد ہے کہ میرے شیخ حضور غزالی زماں علامہ احمد سعید کاظمی رحمةاللہ علیہ و نوّر اللہ مرقدہ کی خدمت میں جب بھی حاضری ہوتی تھی تو وہ ہر دعا کے آخر میں یہ فقرے ضرور بالضرور ارشاد فرماتے تھے کہ "حاضرین میرے لیے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ خاتمہ ایمان پر عطا فرمائے" ۔ آج بھی جب انکی پیاری اور نورانی صورت آنکھوں کے سامنے آتی ہے تو انکے یہ الفاظ کانوں سے ٹکراتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں اور ایمان کو تازگی دے جاتے ہیں۔ تو کہنے کا مقصد یہ تھا کہ جب دعوت دین کو پیش کیا جائے تو نفرت گنہگار سے نہیں بلکہ گناہ سے ہونی چاہیے۔ اور مقصد صرف اور صرف اصلاح کا ہونا چاہیے ، کسی کی تحقیر ہرگز نہیں۔ اسلام اس بارے میں بہت ہی واضح طریقے سے رہنمائی کرتا ہے کہ ادعُ إِلىٰ سَبيلِ رَبِّكَ بِالحِكمَةِ وَالمَوعِظَةِ الحَسَنَةِ وَجٰدِلهُم بِالَّتى هِىَ أَحسَنُ آخری بات جو میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ آپ اپنا آئی ڈی نام "ایکسپوزنگ نفاق" بھی درست کرلیں ، کیونکہ نفاق خالصتاً ایک قلبی کیفیت کا نام ہے جس کا انکشاف اللہ تعالیٰ عز و جل یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ اور کوئی نہیں کرسکتا الا ماشاءاللہ۔ اس معاملے پر جذباتی ہوکر نہیں بلکہ ٹھنڈے دل و دماغ سے غور فرمائیں تو بات آپکو سمجھ آجائے گی انشاءاللہ تعالیٰ۔
  10. بھائی مجھے نہیں معلوم اسی لیے تو پوچھا تھا ، اسمیں بھلا خفا ہونے کی کیا بات تھی؟ یہ اس فورم پر ہر بات کو منفی انداز میں کیوں لیا جاتا ہے؟ اب بظاہر دیکھنے میں تو یہ انڈیا کا ہی پرچم نظر آرہا ہے ، مگر یقین نہیں تھا اسی لیے پوچھا تھا۔ امید ہے کہ آپ کی نظر تو شاید تیز ہے اس لیے اب آپ ہی بتادیں کہ یہ کس چیز کا پرچم ہے ؟؟؟
  11. محترم عثمان رضوی صاحب السلام علیکم و رحمةاللہ و برکاتہ بہت بہت شکریہ بھائی۔ ماشاءللہ یہ بہت اچھی کتاب ہے اس موضوع پر۔ اگر کسی ساتھی کے پاس اس موضوع سے متعلق مزید مواد موجود ہو تو یہاں پوسٹ کردیں۔ والسلام علیکم و رحمةاللہ و برکاتہ
  12. Engr. MA Saeedi

    اسلام میں بچوں کے حقوق

    اسلام میں بچوں کے حقوق عزیز دوستو السلام علیکم و رحمةاللہ و برکاتہ میں نے اس فورم پر اب تک جتنے ٹاپک دیکھے ہیں ، ان میں سے اکثر کا تعلق فقہی بحثوں اور کسی نہ کسی فرقے کے بارے میں الزامات اور جوابی الزامات سے ہے۔ اس میں ہم اکثر اپنے آپ کوچھوڑ کر ہمیشہ دوسروں کے بارے میں بحث کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ میں نے سوچا کہ ان بحثوں میں پڑ کر کہیں ہم لوگ اپنے آپ کو ہی نہ بھول بیٹھیں۔ اس لیے آج آپ کی خدمت میں مثبت سوچ کے ساتھ ایک صحت مند اور تعمیری موضوع لیکر حاضر خدمت ہوں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ اور قوم کے مستقبل کے تحفظ کی ضمانت اِس اَمر میں مضمر ہے کہ اس کے بچوں کی تعمیرِ شخصیت اور تشکیلِ کردار پر پوری توجہ دی جائے۔ یہ اَمر اُس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک بچوں کے حقوق کا واضح تصور اور ان حقوق کے اِحترام کا باقاعدہ نظام موجود نہ ہو۔ اِسلام دیگر اَفرادِ معاشرہ کیطرح بچوں کے حقوق کو کس طرح سے بیان کر تا ہے ، یہ ہمارے اس تھریڈ کا موضوع ہے۔ جن ساتھیوں کےپاس اس موضوع سے متعلق مستند مواد موجود ہو ، براہ مہربانی یہاں پوسٹ کردیں۔ تاکہ ہمارے قارئین یہ جان سکیں کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہم اپنے بچوں کی تربیت کس طرح سے کریں اور انکے حقوق کے حوالے سے ہم سے عام طور پر جو لغزشیں اورکوتاہیاں ہو جاتی ہیں انکا تدارک کس طرح سے کریں۔ امید ہے کہ تمام ساتھی اس مثبت موضوع میں باقی موضاعات سے بڑھ کر دلچسپی لیں گے۔ شکریہ والسلام علیکم و رحمةاللہ و برکاتہ
  13. یہ تو ایسے لگ رہا ہے کہ کسی کی سالگرہ کا کیک کاٹا جا رہا ہے۔ کیک پر ایک طرف پاکستان تو دوسری طرف انڈیا کا قومی پرچم ہے ۔ یہ کس ایونٹ کی سالگرہ منائی جا رہی ہے ، کسی کے پاس اس کی تفصیل ہے؟
  14. معلوم نہیں ہمارے بھائی ہر بات میں صرف غیروں کی سازش ہی کیوں دیکھتے ہیں ؟ کبھی اپنے گھر کی بھی خبر لی ہوتی !کاش ہم نے اپنی صفوں میں چھپے ہوئے نادان دوستوں کا بھی محاسبہ کیا ہوتا تو آج یہ حالت نہ ہوتی!۔ وائے ناکامی ، متاع کارواں جاتا رہا کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا اگر ہم لوگ ان فتووں کو واقعی میں جھوٹا اور لغو سمجھتے ہیں تو کھل کر اسکی مذمت کیوں نہیں کرتے؟ اور ان جھّوٹے مفتیوں کے خلاف کوئی ٹھوس لائحہ عمل کیوں وضع نہیں کرتے ، تاکہ سادہ لوح عوام اس طرح کے دھوکے میں آئیندہ نہ آسکیں؟
  15. عقیدہ وحدت الوجود از علامہ احمد سعید کاظمی رح صفحہ نمبر 1 وحدت الوجود۱.bmp صفحہ نمبر 2 وحدت الوجود2.bmp صفحہ نمبر 3 وحدت الوجود3.bmp صفحہ نمبر 4 وحدت الوجود4.bmp صفحہ نمبر 5 وحدت الوجود5.bmp
×
×
  • Create New...