Jump to content

Zulfi.Boy

اراکین
  • کل پوسٹس

    498
  • تاریخِ رجسٹریشن

  • آخری تشریف آوری

  • جیتے ہوئے دن

    18

پوسٹس ںے Zulfi.Boy کیا

  1. امام یحیٰی بن معین کہتے ہیں:

    کان أبو حنیفۃ ثقۃ، لا یحدّث بالحدیث إلّا ما حفظ، ولا یحدّث بمالا یحفظ۔

     

    ‘‘امام ابو حنیفہ ثقہ تھے، صرف وہ حدیث بیان کرتے، جو یاد ہوتی اور جو یاد نہ ہوتی، وہ بیان نہ کرتے۔’’

    (تاریخ بغداد للخطیب:۳۱۹/۱۳)

  2. امام اجل محدث جلیل حضرت ابو جعفر احمد بن محمد طحاوی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے طحاوی شریف میں ان روایات کو نقل فرمایا ہے.

    1f56f.png?عبیداللہ بن مقسم فرماتے ہیں:
    *ان ابن عمر قال لہ اذا صلیت وحدک فاقرا فی الرکعتین الاولین من الظهر و العصر بام القرآن و سودة سورة و فی الرکعتین الاخریین بام القرآن ...الخ*

    1f4d6.png? یعنی حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنهما نے ان سے فرمایا: جب تم تنہا نماز پڑهو تو ظہر اور عصر کی پہلی رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور کوئی دوسری سورت پڑهو اور پچهلی دو رکعتوں میں صرف سورہ فاتحہ پڑهو ( شرح معانی الآثار المعروف طحاوی، باب القرآءة فی الظہر والعصر)
    اس کے علاوہ اور بهی روایات اسی باب میں موجود ہیں.

    1f4a1.png?امام عبدالله بن محمد بن ابی شیبہ نے *مصنف* میں باب قائم کیا

    *من کان یقراء فی الاولیین بفاتحة الکتاب و سورة و فی الآخرين بفاتحة الکتاب*

    1f6e2.png?اس باب میں متعدد روایات نقل فرمائیں

    1f56f.png?ابن سیرین رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں : *نبئت ان ابن مسعود کان یقراء فی الظہر والعصر فی الرکعتین الاولین بفاتحة الکتاب و ما تیسر و فی الآخریین بفاتحة الکتاب*

    1f4d6.png? یعنی مجهے خبر دی گئی ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ ظہر و عصر کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ پڑهتے اور جتنا قرآن آسانی سے پڑهه سکیں ، اور بعد کی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ پڑهتے

    1f4d8.png? *( مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الصلوٰہ جلد 1 صفحہ 406)*

    1f56f.png?اسی باب میں سیدنا فاروق اعظم، حضرت ابو درداء ، حضرت جابر ، ام المومنین سیدہ صدیقہ، شیر خدا علی المرتضی رضی اللہ تعالٰی عنهم کے معمول اور ارشادات درج ہیں جن کا خلاصہ یہی ہے کہ فرض نماز کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے ساتھ کوئی سورت یا آیات کو پڑها جائے اور بعد کی دو رکعتوں میں فقط سورہ فاتحہ

    • Like 2
  3. IS riwayat ko mufassireen ne ayat ki tafseer me baghair kisi tanqeed ke likh dia hai, aur jab ek ahleilm ki jamaat kisi riwayat ko le, to unke nazdeek iski haqeeqat hoti hai, warna kam se kam unka apna aqeeda hi isse wazeh ho jata hai,ke unka aqeeda yehi hai... kuch mufasireen kazikr

     امام ابن جریر اطبری لکھتے ہیں

    ،وكان رجلاً يعلـم علـم الغيب قد علِّـم ذلك،
    وہ حضرت خضر علیہ السلام علم غیب جانتے تھے کہ انہوں نے جان لیا

    اسی طرح ملاحظہ ہو 
    تفسير روح البيان اسماعيل حقي (ت 1127 هـ) مصنف و مدقق 
    وعلمناه من لدنا علما 

    کے تحت لکھا ہے کہ

    خاصا هو علم الغيوب والاخبار عنها باذنه تعالى على ما ذهب اليه ابن عباس رضى الله عنهما ا
    ترجمہ :
    حضرت خضر علیہ السلام کو جو لدنی علم سکھایا گیا وہ علم غیب ہے اور اس غیب کے متعلق خبر دینا ہے خدا کے حکم سے جیسا کہ اس طرف ابن عباس رضی اللہ عنہما گئے ہیں ۔

    3rd ibne kaseer


    agar phir bi nahi... to Allah Ka farman to maan le,
    وَعَلَّمْنَاهُ مِن لَّدُنَّا عِلْمًا
    ilm e ludni kya hai??

    تفسير  البيضاوي (ت 685 هـ)
    ہم نے ان کو اپنا علم لدنی عطا کیا ،حضرت خضر کو وہ علم سکھائے جو ہمارے ساتھ خاص ہیں بغیر ہمارے بتائے کوئی نہیں جانتا اور وہ علم غیب ہے



    rahi baat laghvi aur shryi ki to ALa hazrat ne ye farmaya

    علم جب کہ مطلق بولا جائے خصوصا جب کہ غیب کی طرف مضاف ہو تو اس سے مراد علم ذاتی ہوتا ہے 
    ye inki istelah hai, ibne kaseer ki ye istelah nahi, unke nazdeek ilm ghaib, sharyi ghaib hi hai, warna istelah ki daleel de unki...

    kyu ke Ala hazrat ka aqeeda ye hai
    حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم قطعاً بے شمار غیوب و ماکان مایکون کے عالم ہیں 

    umeed hai samajh ayi hogi,,, baki ahleilm jesa kahe

    • Like 1
×
×
  • Create New...