Jump to content

کمیونٹی میں تلاش کریں

Showing results for tags 'تراویح،8 رکعت'.

  • ٹیگ میں سرچ کریں

    ایک سے زائد ٹیگ کاما کی مدد سے علیحدہ کیے جا سکتے ہیں۔
  • تحریر کرنے والا

مواد کی قسم


اسلامی محفل

  • اردو فورم
    • اردو ادب
    • فیضان اسلام
    • مناظرہ اور ردِ بدمذہب
    • سوال و درخواست
    • گفتگو فورم
    • میڈیا
    • اسلامی بہنیں
  • انگلش اور عربی فورمز
    • English Forums
    • المنتدی الاسلامی باللغۃ العربیہ
  • اسلامی محفل سے متعلق
    • معلومات اسلامی محفل
  • Arabic Forums

تتیجہ ڈھونڈیں...

وہ نتیجہ نکالیں جن میں یہ الفاظ ہوں


تاریخ اجراء

  • Start

    End


Last Updated

  • Start

    End


نمبرز کے حساب سے ترتیب دیں...

Joined

  • Start

    End


Group


AIM


MSN


Website URL


ICQ


Yahoo


Jabber


Skype


مقام


Interests


پیر

  1. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی رمضان میں 8 رکعت والی روایت کا تحقیقی جائزہ کفایت اللہ سنابلی کی پیش کردہ پہلی حدیث کفایت اللہ سنابلی اپنی کتاب انوار التوضیح ص21 تا 106 پہلی حدیث پیش کر کے بحث کرتےہیں۔ امام بخاري رحمه الله (المتوفى256)نے کہا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ سَعِيدٍ المَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، كَيْفَ كَانَتْ صَلاَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: «مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلاَ فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلاَثًا» ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی چار رکعت پڑھتے، تم ان کی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، پھر چار رکعت پڑھتے، ان کی بھی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، آخر میں تین رکعت (وتر) پڑھتے تھے۔ میں نے ایک بار پوچھا، یا رسول اللہ! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔(صحیح البخاری( 3/ 45) :کتاب صلاة التراویح: باب فضل من قام رمضان ، رقم 2013)۔ اس حدیث سے ثابت ہوتاہے کہ تراویح کی مسنون رکعات آٹھ ہیں۔ بعض لوگ اس حدیث پرعمل نہ کرنے کا یہ بہانا بناتے ہیں کہ اس حدیث میں تہجد کی رکعات کاذکر ہے نہ کہ تراویح کی رکعات کا۔ جواب: گذارش ہے تراویح کے موضوع پر صحیح بخاری و صحیح مسلم کی روایت پر بحث خلط مبحث ہے،تراویح کے موضوع پر وضاحت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں نماز تراویح پڑھی جانے والی روایات سے ہوتی ہے۔اس لیے مخالفین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ والی احادیث پیش کر کے تحقیق کو دوسری طرف لاجانے کی کوشش کرتے ہیں۔سنابلی صاحب نے لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے اپنی کتاب انوار التوضیح ص21 تا 106اس حدیث کے بارے میں طویل بحث کرنی کی ناکام کوشش کی ہے اور وہ بھی اس لیے کہ عوام الناس کا دھیان اصل موضوع اور بحث سے ہٹ کر اسی طرف لگا رہے۔غیر مقلدین حضرات ایک طرف تو 8اور 11 کو مسنون کہنے پر زور لگاتے ہیں مگر خود اس کے برعکس جب روایات پیش کی جاتی ہیں تو بوکھلاہٹ کو شکار ہو کر11 سے کم رکعت کو بھی مسننون کہنی کی نفی نہیں کرتے یعنی 11 سے کم تراویح 2،3،5،6،7،8 جتنی بھی پڑھ لیں اس پر پر موصوف کفایت اللہ سنابلی صاحب انکار نہیں کرتے اس کو مسنون ہی کہتے ہیں۔مگر 11 رکعت سے زیادہ تعداد پر ان کو مسلکی تعصب یاد آجاتا ہے۔11 سے زیادہ تعداد کسی روایت میں ثابت ہو تو اسے نوافل پر محمول کرتے ہیں ۔عجب تحقیق ہے کہ 11 سے کم مسنون اور 11سے زائد تراویح پر نفل کا اطلاق؟کفایت اللہ سنابلی صاحب کادعوی پیش خدمت ہے۔ کفایت اللہ سنابلی صاحب کا دعوی: کفایت اللہ سنابلی صاحب کے نزدیک تراویح کی حد11 رکعت ہے ،ان کے نزدیک 11 رکعت سے زیادہ پڑھی نہیں جاسکتی اور 11 سے کم پر ان کو کوئی اعتراض نہیں۔ کفایت اللہ سنابلی صاحب نے اپنی کتاب انوار التوضیح ص149 پر لکھتے ہیں۔ "ہمارا موقف یہی ہے کہ گیارہ سے زائد رکعات پڑھنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے نہ رمضان میں نہ غیر رمضان میں ، البتہ گیارہ سے کم رکعات کی ہم نفی کرتے ہی نہیں ، لہٰذا اگرکسی روایت میں ملتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی روایت گیارہ سے کم تعداد میں رات کی نماز پڑھی تو یہ بات نہ تو حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کے خلاف ہے اور نہ ہی حدیث جابر رضی اللہ عنہ کے خلاف ہے ۔" اس حوالہ سے یہ بات ثابت ہوئی کہ غیر مقلد کفایت اللہ سنابلی صاحب کے نزدیک تراویح 11 رکعت سے کم تو مسنون ہوسکتی ہے مگر11 رکعت سے زیادہ تراویح مسنون نہیں ۔جبکہ عوام الناس میں یہ دھوکا دیتے ہیں کہ تراویح پر کسی پر کوئی طعن نہیں ہے کیونکہ یہ نفلی نماز ہے اس میں کوئی عدد متعین نہیں ہے۔موصوف کا دھوکا ملاحظہ کریں کہ عوام الناس میں تراویح کو نفل نماز کہہ کر اس کی عدد پر اختلاف نہ کرنے کو کہتے ہیں جبکہ خود زیادہ سے زیادہ 11 رکعت تراویح پر بضد ہیں۔ وضاحت: مگر اس مقام پر مختصرا چند امور جاننے کی بہت اہمیت ہے۔ اول:غیر مقلدین حضرات اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے کسی بھی غیر علمی بات یا تاویل تک جانے کی کوشش کرتے ہیں ۔قیام اللیل،نفل،تراویح،تہجد،اور وتر کو ویسے الگ الگ بیان کرتے ہیں مگر جس روایت میں 8 رکعت سے زیادہ تراویح ثابت ہو،اس کو تہجد،وتر ،نقل اور قیام اللیل کہہ کر رد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔قارئین کرام یہ سمجھ لیں کہ محدثین کرام کے نزدیک اعمال کی بنیادی طو ر پر 2 اقسام پیش کرتے ہیں۔ 1-فرض 2-نفل جو اعمال فرائض میں سے نہ ہو ان کو نفل کانام دیا جاتا ہے،اور غیر فرائض میں واجب،سنت موکدہ،سنت غیر موکدہ اور مستحب شامل ہوتے ہیں۔ رات کی نماز کی متعدد رکعات احادیث کی روشنی میں: آقا کریمﷺ کا رات کی نماز میں مختلف رکعات ادا کرنا ثابت ہیں جس پر کچھ دلائل ملاحظہ کریں،یہ بھی نوٹ کریں کہ پیش کردہ روایات کے تراجم انہی غیر مقلدین کے علماء کے کیے ہوئے ہیں تاکہ مخالفین یہ بھی اعتراض نہ کرسکے کہ تراجم میں گڑھ بڑھ کی ہے۔ 13رکعات نفل ہر دو رکعت کے بعد سلام اور آخر میں وتر۔ حضرت عبداللہ بن عباسhفرماتےہیں کہ 764 حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة حدثنا غندر عن شعبة ح وحدثنا بن المثنى وبن بشار قالا حدثنا محمد بن جعفر حدثنا شعبة عن أبي جمرة قال سمعت بن عباس يقول * كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي من الليل ثلاث عشرة ركعة۔ مفہوم :نبی کریم ﷺ نے رات کو 13 رکعات نماز پڑھتے تھے۔ (صحیح مسلم1803) حضرت عبداللہ بن عباس hنے ان 13 رکعات کی تفصیل بھی بتائی ہے۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ عَنْ مَالِكٍ عَنْ مَخْرَمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ عَنْ كُرَيْبٍ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ بَاتَ عِنْدَ مَيْمُونَةَ وَهِيَ خَالَتُهُ فَاضْطَجَعْتُ فِي عَرْضِ وِسَادَةٍ وَاضْطَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَهْلُهُ فِي طُولِهَا فَنَامَ حَتَّى انْتَصَفَ اللَّيْلُ أَوْ قَرِيبًا مِنْهُ فَاسْتَيْقَظَ يَمْسَحُ النَّوْمَ عَنْ وَجْهِهِ ثُمَّ قَرَأَ عَشْرَ آيَاتٍ مِنْ آلِ عِمْرَانَ ثُمَّ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى شَنٍّ مُعَلَّقَةٍ فَتَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي فَصَنَعْتُ مِثْلَهُ فَقُمْتُ إِلَى جَنْبهِ فَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى رَأْسِي وَأَخَذَ بِأُذُنِي يَفْتِلُهَا ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ أَوْتَرَ ثُمَّ اضْطَجَعَ حَتَّى جَاءَهُ الْمُؤَذِّنُ فَقَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الصُّبْحَ۔ ) صحیح بخاری992صحیح مسلم1788) ترجمہ :حضرت عبداللہ بن عباسh فرماتے ہیں کہ پھر میں آپﷺ کی بائیں جناب کھڑا ہوگیا ،آپﷺ نے اپنا دائیاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرے کان سے پکڑتے ہوئے مجھے دائیں طرف کھڑا کرد یا،پھر آپ ﷺ نے دو رکعتیں پڑھیں،پھر دو رکعتیں پڑھیں،پھر دو رکعتین پڑھیں،،پھر دو رکعتین پڑھیں،پھر دو رکعتین پڑھیں،پھر دو رکعتین پڑھیں، پھر اسے وتر کرکے نماز پڑھی،اس کے بعد آپ نے آرام فرمایا،یہاں تک کہ آپ ﷺ کے پاس موذن آگیا،پھرآپﷺ کھڑے ہوئے اور ہلکلی سی دو رکعتین ادا کیں پھر مسجد تشریف لے گئے اور نماز فجر پڑھائی۔ کفایت اللہ سنابلی صاحب ی موشگافیاں: اس حدیث میں کیونکہ 13 رکعت کا اثبات تھا اس لیے کفایت اللہ سنابلی صاحب نے ایک دوسری روایت کا کچھ متن لیا،پھر تیسری روایت کا متن لیا اور پھر قیاس کرتے ہوئے اپنی ہی ایک تطبیق پر مطمئن ہونے کی کوشش کی ۔نہ ہی وہ تطبیق بنتی ہے اور نہ اس پر زیادہ کلام کرنے کی ضرورت ہے۔ اول: صحیح بخاری رقم الحدیث 992 میں تیرہ رکعت رات کی نماز ثابت ہے۔اب اس تیرہ رکعت نماز کے بارے میں کفایت اللہ سنابلی نے انوار التوضیح ص63 پر صحیح بخاری رقم الحدیث 117 بیان کی کہ اس میں عشاء کی رکعت کا بھی ذکر ہے۔ حدثنا آدم، قال: حدثنا شعبة، قال: حدثنا الحكم، قال: سمعت سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال:" بت في بيت خالتي ميمونة بنت الحارث زوج النبي صلى الله عليه وسلم، وكان النبي صلى الله عليه وسلم عندها في ليلتها، فصلى النبي صلى الله عليه وسلم العشاء، ثم جاء إلى منزله فصلى اربع ركعات، ثم نام، ثم قام، ثم قال: نام الغليم او كلمة تشبهها، ثم قام، فقمت عن يساره فجعلني عن يمينه، فصلى خمس ركعات، ثم صلى ركعتين، ثم نام حتى سمعت غطيطه او خطيطه، ثم خرج إلى الصلاة". )صحیح بخاری رقم الحدیث117) ترجمہ :ہم سے آدم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو شعبہ نے خبر دی، ان کو حکم نے کہا کہ میں نے سعید بن جبیر سے سنا، وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کرتے ہیں کہ ایک رات میں نے اپنی خالہ میمونہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا زوجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گزاری اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (اس دن) ان کی رات میں ان ہی کے گھر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز مسجد میں پڑھی۔ پھر گھر تشریف لائے اور چار رکعت پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے، پھر اٹھے اور فرمایا کہ (ابھی تک یہ) لڑکا سو رہا ہے یا اسی جیسا لفظ فرمایا۔ پھر آپ (نماز پڑھنے) کھڑے ہو گئے اور میں (بھی وضو کر کے) آپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دائیں جانب (کھڑا) کر لیا، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ رکعت پڑھیں۔ پھر دو پڑھیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے۔ یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خراٹے کی آواز سنی، پھر آپ کھڑے ہو کر نماز کے لیے (باہر) تشریف لے آئے۔ صحیح بخاری رقم الحدیث 117 میں نماز کی رکعات کا بیان 4 رکعت ،5رکعت اور 2 رکعت کا ہوا۔ ز4 رکعت عشاء کی سنت 8] رکعت کا ذکر نہیں۔بقول سنابلی صاحب راوی کا ختصار ہے۔] ز5 رکعت وتر ز2 رکعت نفل یہ نوٹ کریں کہ موصوف کفایت اللہ سنابلی صاحب5 عدد رکعات وتر تسلیم کیا ہے مگر 8 رکعت تراویح کا کہیں ثبوت نہیں۔سنابلی صاحب یہ سمجھانا چارہے ہیں کہ اس روایت میں 8 رکعت تراویح ذکر نہیں کیونکہ راوی نے اختصار سے کام لیا ہے۔ نوٹ: قارئین کرام آپ اس بحث میں 5رکعت وتر کو ذہن نشین کرلیں کیونکہ یہ نکتہ اس لیے اہم ہے کہ موصوف کفایت اللہ سنابلی صاحب اپنے کتاب انوار التوضیح ص16 پر مقدمہ میں یہ بات ترجیح دیوتے ہوئے تسلیم کرتے ہیں کہ تراویح 8 مع وتر 3،کل 11رکعات کو ہی مسنون کہتے ہیں۔اب وتر کو1 یا 5 کہنا کس طرح مسنون ہوگا؟ دوم: اب جناب کفایت اللہ سنابلی صاحب نے اس اعتراض کو رفع کرنے کے لیے الزام روایت کے راوی سعید بن جبیر یا ان کے شاگرد پر ڈال دیا کہ انہوں نے روایت میں اختصار کیا ہے اور 4 رکعت عشاء کی سند کے بعد 4 رکعت نفل بعد ذکر نہیں کیا۔ [اس مقام پر بھی قارئین کرام غور کریں کہ 5 رکعت وتر پر کوئی تبصرہ نہیں] اب موصوف نے اس 4 رکعت نفل کے ذخر نہ ہونے کو رفع کرنے کے لیے سنن نسائی الکبری رقم 1342 پیش کی{ FR 11026 } اور اس میں دو دو رکعات کی کل 8 رکعات اور 5 رکعات وتر پڑھنے کا اقرار کیا۔اس بارے میں کفایت اللہ سنابلی صاحب نے لکھا کہ حضرت عبداللہ بن عباس نےان آٹھ میں 4 ابتدائی عشاء کی رکعات کا شمار کیا۔ ز8رکعت نفل[2،2رکعت نماز] ز5 رکعت وتر کفایت اللہ سنابلی صاحب نے سنن نسائی الکبری رقم 1342 کی یہ حدیث اس لیے پیش کی کہ اس میں اگرچہ 4رکعت عشاء کی سنتوں کا ذکر نہیں ہے مگر 8 رکعت کا ذکر ہے اور یہ وہ 8 رکعت ہیں جس کو صحیح بخاری میں کسی راوی نے بیان نہیں کیا۔ اب کفایت اللہ سنابلی صاحب کے اس نکتہ سے یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کہ دن رات صرف صحیح بخاری وصحیح مسلم کی بات کرنے والوں کا اپنا موقف ثابت نہ ہوا تو سنن الکبری النسائی کا حوالہ پیش کیا۔بالفرض کفایت اللہ سنابلی صاحب کا یہ موقف مان بھی لیں تو ادھر بھی وہی نکتہ ابھی قائم ہے کہ موصوف تو 3 وترمسنون کے قائل ہیں اور ادھر 5 وتر کا اثبات ہے۔مزید یہ کہ سنن نسائی الکبری میں بھی یہ ثابت نہیں کہ وہ 8 رکعت کس نوعیت کی تھیں؟کیا ان8 میں 4 رکعت عشاء کی سنت کے نہیں ہوسکتے؟اور یہ یاد رہے کہ خود کفایت اللہ سنابلی سونے کے بعد عشاء کی رکعات کے پڑھنے کو اپنی کتاب میں تسلیم کرتا ہے۔اب احتمالات اور ممکنات پر موصوف اپنا موقف ثابت کرتے ہیں۔جناب اہل سنت کو قیاس کرنے پر مطعون کر کے خود قیاس تو کیا احتمال کی بنیاد پر اپنا دعوی ثابت کررہے ہیں؟مگر اس قیاس باطل کے باوجود بھی آپ کا موقف ثابت نہیں ہوتا کیونکہ سنن نسائی الکبری 1342 کے متن سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ یہ 8 رکعات بطور نفل تھے؟یا بطور عشاء کی سنت ؟ اس لیے ایسے دلائل سے اپنے حوارین کو خوش کرسکتے ہیں مگر ان کا تحقیق میدان میں کوئی حیثیت نہیں۔ حضرت زید بن خالد الجھنی رضی اللہ عنہ کی روایت: حضرت زید بن خالد الجھنیh نے بھی اسی طرح 13 رکعت بغیربغیر عشاء کی نماز اور علاوہ فجر کی سنت کی حدیث بیان کی ہے۔ وحدثنا قتيبة بن سعيد عن مالك بن أنس عن عبد الله بن أبي بكر عن أبيه أن عبد الله بن قيس بن مخرمة أخبره عن زيد بن خالد الجهني أنه قال * لأرمقن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم الليلة فصلى ركعتين خفيفتين ثم صلى ركعتين طويلتين طويلتين طويلتين ثم صلى ركعتين وهما دون اللتين قبلهما ثم صلى ركعتين وهما دون اللتين قبلهما ثم صلى ركعتين وهما دون اللتين قبلهما ثم صلى ركعتين وهما دون اللتين قبلهما ثم أوتر فذلك ثلاث عشرة ركعة۔ ترجمہ:‏ سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز دیکھوں گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت ہلکی پڑھیں پھر دو رکعت پڑھیں اور لمبی سے لمبی اور لمبی سے لمبی پھر دو رکعت اور کہ وہ ان سے کم تھیں پھر دو اور کہ وہ ان سے بھی کم تھیں پھر دو اور کہ وہ ان سے بھی کم تھیں پھر دو اور کہ وہ ان سے بھی کم تھیں پھر وتر پڑھا یہ سب تیرہ رکعات ہوئیں۔ )صحیح مسلم1804) کفایت اللہ سنابلی صاحب کی موشگافیاں کفایت اللہ سنابلی صاحب سے اس حدیث کو کوئی جواب نہیں ہوا،اس لیے ا اپنی کتاب انوار التوضیح ص69پر لکھتے ہیں۔ اس حدیث میں یہ صراحت نہیں کہ یہ تیرہ رکعات،سنت عشاء کے علاوہ تھیں۔ جواب: گذار ش ہے کہ علمی وتحقیق میدان میں دلائل سے بات کی جاتی ہے،ایسی باتوں دعوی کا ثبوت اور مخالفین کی دلیل کا رد نہیں ہوسکتا ہے۔ویسے بھی آپ نے پوری کتاب لکھی ہی اپنی فہم سے ممکنات اور قیاس کی وجہ سے۔پوری کتاب میں آپ نے کوئی صریح دلیل پیش نہیں کی اور اب اس روایت کو صرف اپنے قیاس کی وجہ سے رد کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔جناب پیش کردہ روایت کا جواب ہے تو عوام الناس کے سامنے پیش کریں۔ایسا ہے یا ویسا ہے، سے دعوی ہرگز ثابت نہیں ہوگا۔ سنابلی صاحب کا تطبیق دینا: کفایت اللہ سنابلی صاحب انوار التوضیح ص76 پر لکھتے ہیں۔ ہمارےنزدیک راجح اور اقرب علی الصواب بات یہی ہے کہ گیار ہ اور تیرہ رکعات سے متعلق جملہ روایات میں تطبیق کی صورت یہی ہے کہ تیرہ والی روایت میں یا تو سنت عشاء یا سنت فجر کی دو رکعات بھی شمار کی گئی ہیں۔ جواب: گذارش ہے کہ آپ نے دراصل 11 کا عدد کا ثبوت دینا ہے اس لیے 13 رکعت میں اضافی دو رکعت کے بارے میں یہ تطبیق یا وضاحت دینا چاہتے ہیں کہ یہ دو رکعت یا تو فرض عشاء کے بعد کی 2 سنتیں ہیں یا پھر فرض فجر سے پہلے 2 رکعت سنت۔مگر شاید موصوف بھول گئے کہ اگر 13 رکعت میں سے 11 کو تراویح یا قیام اللیل کو مان لیا جائے توموصوف نے خود جو روایات پیش کیں ہیں اس میں وتر کی تعداد 5 ہے۔اس طرح تو تراویح کی رکعات 6 بنتی ہیں۔جبکہ آپ مسنون 8 تراویح اور 3 وتر کے قائل ہیں۔ایک ہی دعوی کے ایک حصہ کو آپ اپنی ہی پیش کردہ روایات سے غلط ثابت کررہے ہیں۔اور اگر دعوی کے دوسرے حصہ یعنی 5 رکعت وتر کو مان لیا جائے تو پھر تراویح کی 6 رکعات مسنون تسلیم کریں گے؟حالانکہ آپ کا دعوی8رکعت تراویح اور 3 رکعت وتر مسنون کا ہے۔اس لیے ایسی دلیل اپنے لوگوں کو خوش کرنے کے لیے ضرور پیش کریں مگر یاد رہے کہ ایسی دلیل کی علمی میدان میں کوئی حیثیت نہیں۔ جب کفایت اللہ سنابلی صاحب کی پیش کردوہ روایت سے ان کی دعوی ہی ثابت نہیں ہوتا تو اس پر مزید بحث کہ مذکورہ روایت کا تعلق تہجد سے ہے یا تراویح سے؟ یا تراویح اور تہجد الگ الگ ہیں یا ایک نماز؟کوئی ضروری نہیں۔البتہ رات کی نماز کے بارے میں چند مزید روایات پیش خدمت ہیں ،جن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ رات کی نماز میںاعمال اور وتر کی تعداد غیر مقلدین حضرات کے دعوی کے برعکس ہے۔ 13 رکعات،ہر دو رکعات کے بعد سلام، آخری پانچ رکعتیں ایک ہی تشہد حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ روایت بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ ہر دو رکعات کے بعد سلام،اور آخری پانچ رکعتین ایک ہی تشہد کے ساتھ۔ وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وابو كريب ، قالا: حدثنا عبد الله بن نمير . ح، وحدثنا ابن نمير ، حدثنا ابي ، حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، " يصلي من الليل ثلاث عشرة ركعة، يوتر من ذلك بخمس، لا يجلس في شيء إلا في آخرها ". ترجمہ:‏‏ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تیرہ رکعت پڑھتے پانچ ان میں سے وتر ہوتیں کہ بیٹھتے مگر ان کے آخر میں۔ )صحیح مسلم1720) اس روایت سے وتر کی تعداد5 ثابت ہوتی ہے جبکہ کفایت اللہ سنابلی صاحب نے مسنون تراویح 8 رکعت اور5 رکعت وتر کا موقف لکھا ہے۔ مزید یہ کہ موصوف پیش کردہ روایت 8رکعت،5 وتر رکعات میں کس کے بارے میں یہ کہیں گے کہ اس میں عشاء کے دوسنتیں یا فجر سے قبل کی 2 سنتیں ہیں؟اور یہ یاد رہے کہ 5 رکعت وتر میں تو کوئی تخصیص اس لیے بھی نہیں ہوسکتی کہ اس میں 5 رکعات کو ایک تشہد کے ساتھ پڑھنے کا ذکر ہے۔اس لیے یہ دلیل بھی کفایت اللہ سنابلی صاحب کے خلاف ثابت ہوئی۔ 9 رکعات،تشہد صرف آخری رکعت میں پھر ایک سے وتر بنایا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم میں روایت ہے کہ ۔۔قال قلت يا أم المؤمنين أنبئيني عن وتر رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت كنا نعد له سواكه وطهوره فيبعثه الله ما شاء أن يبعثه من الليل فيتسوك ويتوضأ ويصلي تسع ركعات لا يجلس فيها إلا في الثامنة فيذكر الله ويحمده ويدعوه ثم ينهض ولا يسلم ثم يقوم فيصلي التاسعة ثم يقعد فيذكر الله ويحمده ويدعوه ثم يسلم تسليما يسمعنا ثم يصلي ركعتين بعد ما يسلم وهو قاعد فتلك إحدى عشرة ركعة يا بني فلما سن نبي الله صلى الله عليه وسلم وأخذه اللحم أوتر بسبع وصنع في الركعتين مثل صنيعه الأول۔ ترجمہ:۔۔۔ اے ام المؤمنین! خبر دیجئے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کی۔ تب انہوں نے فرمایا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مسواک اور وضو کا پانی تیار رکھتے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب چاہتا اٹھا دیتا تھا رات کو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کرتے تھے اور وضو، پھر نو رکعت پڑھتے تھے نہ بیٹھتے اس میں مگر آٹھویں رکعت کے بعد اور یاد کرتے اللہ تعالیٰ کو اور اس کی حمد کرتے اور دعا کرتے (یعنی تشہد پڑھتے) پھر کھڑے ہو جاتے اور سلام نہ پھیرتے اور نویں رکعت پڑھتے پھر بیٹھتے اور اللہ کو یاد کرتے اور اس کی تعریف کرتے اور اس سے دعا کرتے اور اس طرح سلام پھیرتے کہ ہم کو سنا دیتے (تاکہ سوتے جاگ اٹھیں) پھر دو رکعت پڑھتے اس کے بعد، بیٹھے بیٹھے بعد سلام کے۔ غرض یہ گیارہ رکعات ہوئیں اے میرے بیٹے! پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر زیادہ ہو گئی اور بعد میں گوشت آ گیا، سات رکعات وتر پڑھنے لگے اور دو رکعتیں ویسی ہی پڑھتے جیسے اوپر ہم نے بیان کیں۔ غرض یہ سب نو رکعتیں ہوئیں۔ اے میرے بیٹے! (یعنی سات وتر و تہجد کی اور دو بعد وتر کے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب کوئی نماز پڑھتے اس پر ہمیشگی کرتے۔(صحیح مسلم1739) 7رکعات وتر،تشہد آخر رکعت میں حضرت عائشہ روایت بیان کرتی ہیں۔ حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا محمد بن بشر ، حدثنا سعيد بن ابي عروبة ، عن قتادة ، عن زرارة بن اوفى ، عن سعد بن هشام ، قال: سالت عائشة ، قلت: يا ام المؤمنين، افتيني عن وتر رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت:" كنا نعد له سواكه وطهوره، فيبعثه الله فيما شاء ان يبعثه من الليل، فيتسوك ويتوضا، ثم يصلي تسع ركعات لا يجلس فيها إلا عند الثامنة، فيدعو ربه فيذكر الله ويحمده ويدعوه، ثم ينهض ولا يسلم، ثم يقوم فيصلي التاسعة، ثم يقعد فيذكر الله ويحمده ويدعو ربه ويصلي على نبيه، ثم يسلم تسليما يسمعنا، ثم يصلي ركعتين بعد ما يسلم وهو قاعد، فتلك إحدى عشرة ركعة، فلما اسن رسول الله صلى الله عليه وسلم، واخذ اللحم اوتر بسبع، وصلى ركعتين بعد ما سلم". ترجمہ :سعد بن ہشام کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: ام المؤمنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وتر کے بارے میں بتائیے، تو انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مسواک اور وضو کا پانی تیار رکھتے، پھر اللہ تعالیٰ جب چاہتا رات میں آپ کو بیدار کر دیتا، آپ مسواک اور وضو کرتے، پھر نو رکعتیں پڑھتے، بیچ میں کسی بھی رکعت پر نہ بیٹھتے، ہاں آٹھویں رکعت پر بیٹھتے، اپنے رب سے دعا کرتے، اس کا ذکر کرتے اور حمد کرتے ہوئے اسے پکارتے، پھر اٹھ جاتے، سلام نہ پھیرتے اور کھڑے ہو کر نویں رکعت پڑھتے، پھر بیٹھتے اور اللہ کا ذکر اور اس کی حمد و ثنا کرتے، اور اپنے رب سے دعا کرتے، اور اس کے نبی پر درود (صلاۃ) پڑھتے، پھر اتنی آواز سے سلام پھیرتے کہ ہم سن لیتے، سلام پھیرنے کے بعد بیٹھے بیٹھے دو رکعت پڑھتے، یہ سب گیارہ رکعتیں ہوئیں، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر زیادہ ہو گئی، اور آپ کا جسم مبارک بھاری ہو گیا، تو آپ سات رکعتیں وتر پڑھتے اور سلام پھیرنے کے بعد دو رکعت پڑھتے تھے۔صحیح ابن ماجہ1191 7 رکعت اور چھٹی رکعت میں تشہد۔ حضرت عائشہ رضی اللہ فرماتی ہیں۔ أَنَّ عَائِشَةَ سُئِلَتْ عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: «كُنَّا نُعِدُّ لَهُ سِوَاكَهُ وَطَهُورَهُ، فَيَبْعَثُهُ اللَّهُ لِمَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَهُ مِنَ اللَّيْلِ، فَيَتَسَوَّكُ وَيَتَوَضَّأُ، ثُمَّ يُصَلِّي سَبْعَ رَكَعَاتٍ، وَلَا يَجْلِسُ فِيهِنَّ إِلَّا عِنْدَ السَّادِسَةِ، فَيَجْلِسُ وَيَذْكُرُ اللَّهَ وَيَدْعُو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے وتر کے بارے میہں پوچھا گیا ہے تو انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریمﷺ سات رکعت وتر پڑھتے مگر چھٹی رکعت پر تشہد فرماتے تھے۔(صحیح ابن حبان2441) 5 رکعات،ان میں تشہد آخری رکعت پر حضرت عائشہ رضی اللہ بیان فرماتی ہیں۔ وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وابو كريب ، قالا: حدثنا عبد الله بن نمير . ح، وحدثنا ابن نمير ، حدثنا ابي ، حدثنا هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، " يصلي من الليل ثلاث عشرة ركعة، يوتر من ذلك بخمس، لا يجلس في شيء إلا في آخرها ". ‏‏‏‏ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تیرہ رکعت پڑھتے پانچ ان میں سے وتر ہوتیں کہ بیٹھتے مگر ان کے آخر میں۔ )صحیح مسلم1720) اعتراض: اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ وتر پر بھی صلاۃ الیل کا اطلاق ہوا ہے کیونکہ چند روایات اس پر پیش کی جاتی ہیں۔ کچھ احادیث ملاحظہ ہوں جن سے ثابت ہوتاہے کہ پوری صلاۃ الیل پربھی وتر کا اطلاق ہواہے۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَلاَةِ اللَّيْلِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ: «صَلاَةُ اللَّيْلِ مَثْنَى مَثْنَى، فَإِذَا خَشِيَ أَحَدُكُمُ الصُّبْحَ صَلَّى رَكْعَةً وَاحِدَةً تُوتِرُ لَهُ مَا قَدْ صَلَّى» [صحيح البخاري 2/ 24] [امام مسلم روایت کرتے ہیں] عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ خَافَ أَنْ لَا يَقُومَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ فَلْيُوتِرْ أَوَّلَهُ، وَمَنْ طَمِعَ أَنْ يَقُومَ آخِرَهُ فَلْيُوتِرْ آخِرَ اللَّيْلِ، فَإِنَّ صَلَاةَ آخِرِ اللَّيْلِ مَشْهُودَةٌ، وَذَلِكَ أَفْضَلُ»[صحيح مسلم 2/ 520] ان دونوں احادیث میں پوری صلاۃ اللیل پر وترکااطلاق ہواہے۔ جواب: گذارش ہے کہ غیر مقلدین نے 11 کا عدد ثابت کرنے کے لیے ہر اصول کی نفی ضرور کرنی ہے۔جس روایات سے وتر کا5،7،یا9 عدد ثابت ہوتا ہے۔اس کو یہ لوگ قیام الیل کے ضمن میں لانے کی کوشش کرتے ہیں۔بالفرض اگر وتر پر قیام الیل یا قیام الیل پر وتر کا اطلاق مان لیا جائے تو پھر ہماری پیش کردہ روایت میں 5،7،9 وتر پڑھنے کا طریقہ کار ہے وہ آپ کے وضع کردہ اصول کو غلط ثابت کرتا ہے۔ان روایت میں یہ ثابت ہے کہ 9 رکعات میں آخری رکعت میں تشہد کیا،7رکعات وترمیںتشہد آخر رکعت میں،7 رکعات میں چھٹی رکعت میں تشہد،5 رکعات میں تشہد آخری رکعت پر ۔ اب پیش کردہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایات تو آپ کے اعتراض اور دعوی دونوں کے برخلاف ہیں۔مزید یہ بھی کہ ان روایات میں تو جس طرح 9،یا7یا6یا5 عدد وتر اور اس کا طریقہ کار ہے وہ بھی موصوف کے موقف کے خلاف ہے کیونکہ اول تو موصوف کا دعوی ہے کہ مسنون تراویح 8 اور 3رکعت ہے۔جبکہ ان روایت میں تو وتر کی تعداد 5،6،7،9 ایک ہی سلام کے ساتھ ثابت ہے اور اگر ان وتر والی رکعات سے قیام الیل کی دلیل لینی ہے تو پھر ان رکعات کے پڑھنے کا طریقہ کار ہی آپ کے خلاف ہے۔ اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ کفایت اللہ سنابلی کی پیش کردہ روایت سے 11 رکعت تراویح مسنون ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ رات کی نماز کی تعداد؟ یہ نکتہ بھی بہت اہم ہے کہ نبی کریمﷺ کی رات کی نماز چاہے رمضان ہو یا غیر رمضان وہ کتنی ہوتی تھی؟ تحقیق سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ کفایت اللہ سنابلی کی پیش کردہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں جو 11 رکعت سے زیادہ نہ پڑھنے کی روایت ہے اس پر دیگر صحابہ کرام نے مختلف روایات بیان کی ہیں۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم میں 13 رکعت کی نماز ثابت ہے جس میں نہ تو عشاء کی نماز شامل ہے اور نہ ہی فجر سے قبل 2 رکعات سنت۔اس پر روایت پر گمان کے طور پر کوئی حکم لگانا یا قیاس کرنا غیر مقلدین حضرات کے اپنے ہی منہج کے خلاف ہے۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم میں روایت ہے کہ جس میں آقا کریمﷺ سے کوئی معین تعداد کی نماز کی نفی ہوتی ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عمرسے مروی ہے۔ حدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، قال: سمعت عقبة بن حريث ، قال: سمعت ابن عمر يحدث، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " صلاة الليل مثنى مثنى، فإذا رايت ان الصبح يدركك فاوتر بواحدة "، فقيل لابن عمر: ما مثنى مثنى؟ قال: ان تسلم في كل ركعتين. ‏‏‏ترجمہ:‏ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کی نماز دو دو رکعت ہے پھر جب تجھے معلوم ہو کہ صبح آ پہنچی تو ایک رکعت وتر پڑھ لے۔“ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا گیا کہ دو دو رکعت کے کیا معنی ہیں؟ انہوں نے کہا: ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتا جائے۔صحیح مسلم1763 اس مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ رات سے لے کر صبح تک قیام الیل میں نبی کریم ﷺکو جتنا وقت بھی میسر ہوتا اس میں 2،2 رکعات کر کےنماز پڑھتے،اور ہر دو رکعات کے بعد سلام پھیرتے۔اس حدیث سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ وقت میسر کے تحت قیام اللیل کی ادائیگی میں رکعات کا اضافہ ہوتا رہتا،جن صحابہ نے جو دیکھا اس کو بیان کر دیا۔مگر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نبی کریمﷺ سے علی الاطلاق8یا 11 کا تعین کرنا اور پھر اس تعداد کو اپنے مسلکی حمایت میں ہی مسنون کہنے پر بضد ہونا مناسب عمل نہیں۔ [صحیح مسلم رقم الحدیث 1763 میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کا یہ حصہ کہ " فإذا رايت ان الصبح يدركك فاوتر بواحدة پھر جب تجھے معلوم ہو کہ صبح آ پہنچی تو ایک رکعت وتر پڑھ لے"بھی بہت اہم ہے کیونکہ یہ روایت اس بات کی بھی وضاحت کر رہی ہے کہ ایک رکعت وتر پڑھنا کن معنوں اور کس پس منظر میں ہے،اس کی مزید تفصیل علامہ فقیر محمد جہلمی صاحب کی 3رکعات وتر والی کتاب کی تحقیق میں پیش کی جائیگی۔ان شاء اللہ۔] یہ بات یاد رہے کہ مسنون تراویح کی تعداد کا تعیین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ہوتا ہے کیونکہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جیل القدر صحابی ہونے کی حیثیت سے ان افعال کا زیادہ مشاہدہ رکھتے تھے اور انہی کے فیصلہ پر دیگر صحابہ کرام نے اتفاق کیا اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے صحیح اسانید سے 20 رکعت تراویح ثابت ہے۔ پھر جس تابعی یا تبع تابعی نے رات کےنوافل میں اضافہ کیا ،انہوں نے 20 رکعت کو مسنون مان کر ہی اس پر نوافل زائدہ کی ادائیگی کی جس کہ وجہ علامہ عینی نے البنایہ اور دیگر علماء نے پیش کی ہے۔ اس تحقیق سے یہ ثابت ہوا کہ ایک تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے ایک طرق کو پیش کر کے دیگر روایات کو نظر انداز کرنا علمی خیانت ہے۔پھر دیگر روایات سے جو رکعات اور افعال ثابت ہوئے اس پر غیر مقلدین حضرات کا بالکل ہی عمل نہیں ہے۔کفایت اللہ سنابلی صاحب نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ والی حدیث پر پیش کیے جانے والے احتمالات کے جوابات میں بہت زور لگایا مگر اس کا کوئی فائدہ نہیں۔
×
×
  • Create New...