Search the Community
Showing results for tags 'حیات الانبیاء'.
-
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا عقیدہ سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا وَالْـأَرْضُ لَا تَأْکُلُ الْـأَنْبِیَائَ ترجمہ : "اورزمین نبیوں (کے جسموں) کو نہیں کھاتی" سندہ صحیح [مصنّف ابن أبي شيبة: 27/13] مکمل حدیث یہ ہے سیّدنا انس بن مالک رضی الله عنه سے روایت ہے : ’’جب صحابہ کرام نے تستر کو فتح کیا، تو وہاں تابوت میں ایک شخص کا جسم دیکھا، ان کی ناک ہمارے ایک ہاتھ کے برابر تھی۔وہاں کے لوگ اس تابوت کے وسیلے سے غلبہ و بارش طلب کیا کرتے تھے۔ سیّدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے امیر المومنین سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھ کر سارا واقعہ بیان کیا۔سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کے نبیوں میں سے ایک نبی ہیں۔نہ آگ نبی کو کھاتی ہے نہ زمین۔ پھر فرمایا:تم اور تمہارے ساتھی کوئی ایسی جگہ دیکھو جس کا تم دونوں کے علاوہ کسی کو علم نہ ہو، وہاں اس تابوت کو دفن کر دو۔سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:میں اور سیّدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما گئے اور انہیں دفن کر دیا۔‘‘ دوسری احادیث میں موجود کہ وہ الله کے نبی حضرت دانیال عليه السلام تھے۔ اس صحیح حدیث کو غیر مقلد وھابی زبیر علی زئی اپنے دعوی ( کہ انبیاء کے جسموں کو مٹی نہیں کھاتی) کی دلیل کے طور پیش کیا۔ (فضائل درود وسلام : صفحہ 66) اسی طرح غیر مقلد ظہیر امن پوری نے بھی اسکا صحیح ہونا تسلیم کیا۔ (وفات النبی : صفحہ 171) تابعی ابو عالیہ رحمتہ الله کا عقیدہ حضرت دانیال عليه السلام والا واقعہ مخلتلف الفاظ کے ساتھ تابعی ابو عالیہ رحمتہ الله سے بھی مروی ہے۔ مشہور تابعی،ابو العالیہ رحمه الله بیان کرتے ہیں: ’’ہم نے جب تستر شہر کو فتح کیا،تو ہرمزان کے بیت المال میں ایک چارپائی دیکھی،جس پر ایک فوت شدہ شخص پڑا تھا۔اس کے سر کے پاس ایک کتاب پڑی تھی۔ہم نے وہ کتاب اٹھالی اور اسے سیّدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لے گئے۔انہوں نے کعب احبار تابعی رحمہ اللہ کو بلایا، جنہوں نے اس کتاب کا عربی میں ترجمہ کر دیا۔میں عربوں میں پہلا شخص تھا،جس نے اس کتاب کو پڑھا۔میں اس کتاب کو یوں پڑھ رہا تھا گویا کہ قرآن کو پڑھ رہا ہوں۔ ابو العالیہ رحمہ اللہ کے شاگرد کہتے ہیں:میں نے ان سے پوچھا:اس کتاب میں کیا لکھاتھا؟انہوں نے فرمایا:اس میں امت ِمحمدیہ کی سیرت،معاملات،دین، تمہارے لہجے اور بعد کے حالات پر روشنی ڈالی گئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں (ابو العالیہ کے شاگرد) نے کہا:کیا ان کے جسم میں کوئی تبدیلی آئی تھی؟ انہوں نے فرمایا:بس گدی سے چند بال گرے تھے،کیونکہ انبیاء ِ کرام کے اجسام میں نہ زمین تصرف کرتی ہے، نہ درندے اسے کھاتے ہیں۔‘‘ [السیرۃ لابن إسحاق : 66، 67، طبع دار الفکر، دلائل النبوّۃ للبیہقي : 382/1]-وسندہ حسن غیر مقلد ظہیر امن پوری نے اس حدیث کو مختصر لکھ کے اسے حسن کہا۔