Jump to content

کمیونٹی میں تلاش کریں

Showing results for tags 'مصنف عبدالرزاق کی سند پر اعتراض،'.

  • ٹیگ میں سرچ کریں

    ایک سے زائد ٹیگ کاما کی مدد سے علیحدہ کیے جا سکتے ہیں۔
  • تحریر کرنے والا

مواد کی قسم


اسلامی محفل

  • اردو فورم
    • اردو ادب
    • فیضان اسلام
    • مناظرہ اور ردِ بدمذہب
    • سوال و درخواست
    • گفتگو فورم
    • میڈیا
    • اسلامی بہنیں
  • انگلش اور عربی فورمز
    • English Forums
    • المنتدی الاسلامی باللغۃ العربیہ
  • اسلامی محفل سے متعلق
    • معلومات اسلامی محفل
  • Arabic Forums

تتیجہ ڈھونڈیں...

وہ نتیجہ نکالیں جن میں یہ الفاظ ہوں


تاریخ اجراء

  • Start

    End


Last Updated

  • Start

    End


نمبرز کے حساب سے ترتیب دیں...

Joined

  • Start

    End


Group


AIM


MSN


Website URL


ICQ


Yahoo


Jabber


Skype


مقام


Interests


پیر

  1. ایک جاہل منکر الحدیث بنام عاطف کی طرف سے مصنف عبدالرزاق پرکیے گئے اعتراضات کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ (بقلم: اسد الطحاوی الحنفی بریلوی ) ہم سب سے پہلے اس جاہل میاں کے اعتراضات نقل کرتے ہیں پھر بلترتیب اسکا رد کرتے جائیں گے جیسا کہ یہ لکھتا ہے : مطبوعہ مصنف عبد الرزاق تین راویوں سے مجموعہ ہے۔ یعنی تین راویوں سے جمع کردہ ہے : ۱۔ محمد بن یوسف حُذاقی: => اس سے اھل الکِتابَین مروی ہے ۔ ۲۔ محمد بن علی النجّار: => اس سے کتاب البیوع اور اھل الکتاب مروی ہے ۔ ۳۔ باقی ماندہ کتاب اسحاق بن ابراہیم الدَبَری سے مروی ہے ۔ ان تینوں رواۃ کا فردا فردا جائزہ لیتے ہیں : ۱۔ محمد بن یوسف حُذاقی یہ مجہول اور نامعلوم شخص ہے جس کا کوئی اتا پتا نہیں کہ کون تھا اور کیسا تھا ۔ ایسے مجہول اور نامعلوم راویوں کی روایات یا کتب جعلی اور ضعیف ہوتی ہیں ۔ ****** الجواب: اس جاہل نے پھر اپنی جہالت دیکھاتے ہوئے بغیر علم اور مدلل تحقیق کے محمد بن یوسف حذاقی کو مجہول مجہول العین قرار دے دیا جبکہ اس سے بھی احتجاج کیا گیا ہے حدیث و اثار میں علامہ ابن حزم الظاھری نے ایک تصنیف لکھی بنام : حجة الوداع لابن حزم اور اس کتاب کے شروع میں اپنا منہج مقدمے میں بیان کرتے ہوئے علاومہ ابن حذم لکھتے ہیں : ثُمَّ نُثَنِّي إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى بِذِكْرِ الْأَحَادِيثِ الْوَارِدَةِ بِكَيْفِيَّةِ مَا ذَكَرْنَاهُ نَحْنُ بِالْأَسَانِيدِ الْمُتَّصِلَةِ الصِّحَاحِ الْمُنْتَقَاةِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِمَّا بِلَفْظِهِ وَإِمَّا بِلَفْظِ مَنْ شَاهَدَ فِعْلَهُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، مِنْ أَصْحَابِهِ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْ جَمِيعِهِمْ، لِيَكُونَ بِبَيِّنَةِ عَدْلٍ وَشَوَاهِدِ حَقٍّ عَلَى صِدْقِ مَا أَوْرَدْنَاهُ بِأَلْفَاظِنَا مِنْ ذَلِكَ. ثُمَّ نُثَلِّثُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِذِكْرِ مَا ظَنَّ قَوْمٌ أَنَّهُ يُعَارِضُ بَعْضَ هَذِهِ الْآثَارِ الَّتِي اسْتَشْهَدْنَا بِهَا، وَنُبَيِّنُ بِتَأْيِيدِ اللَّهِ تَعَالَى لَنَا أَنَّهُ لَا تَعَارُضَ فِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ بِبَرَاهِينَ ظَاهِرَةٍ لِكُلِّ مَنْ لَهُ حَظٌّ مِنَ الْإِنْصَافِ وَالتَّمْيِيزِ حَاشَا الْفَصْلِ الَّذِي ذَكَرْنَا أَنَّهُ اغْتَمَّ عَلَيْنَا: أَيُّ النَّقْلَيْنِ الْوَارِدَيْنِ فِيهِ هُوَ الصَّحِيحُ وَأَيُّهُمَا هُوَ الْوَهْمُ، فَإِنَّنَا أَوْرَدْنَاهُمَا مَعًا وَمَا عَارَضَهُمَا أَيْضًا، ابن حزم لکھتے ہیں : اب ان شاءاللہ اس (مسلے ) کے حوالے سے جتنی احادیث وارد ہیں انکو ذکر کرینگے اور جو متصل اسانید الصحیحیہ ہیں جو نبی کریمﷺ تک اسی کو ہم بیان کرینگے یا تو الفاظ کے ساتھ بیان کرینگے یا ایسے الفاظ کے ساتھ کہ انکےشواہد ہونگے انکے لیے ، اور اسی کے بعد ہم وہی ذکر کرینگے جیسا کہ بعض لوگ گمان کرتے ہیں ایسی کوئی احادیث نہیں ہیں بعض لوگ کہتے ہیں ان صحیح احادیث کو بعض روایات سے تعارض ہے تو ہم اسی کو ذکر کرینگے کہ انکے درمیان کوئی تعارض نہیں ہے (یعنی تطبیق دینگے ) بلکہ بالکل صحیح ہے (المقدمہ المصنف ابن حذم ص ۱۱۳) خلاصہ یہ کہ : صحیح متصل اسانید ذکر کرینگے، الفاظ ہی کے ساتھ، یہ ان الفاظ کے الفاظ کے ساتھ جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کا مشاہدہ کیا ہے، صحابہ میں سے ،عادل (راویوں پر مشتمل ) آور شواہد حقہ کے ساتھ اور تعارض کو دور کرینگے۔ اب محمد بن یوسف الحذاقی سے ابن حزم نے اپنی تصنیف میں درجنوں جگہ روایات بیان کی ہیں اور استدلال بھی کیا ہے اور کوئی نقد بھی نہیں کیا سند کے حوالے سے 234 - وَهَكَذَا حَدَّثَنَا حُمَامٌ، عَنِ الْبَاجِيِّ، عَنْ أَحْمَدَ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْكَشْوَرِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ الْحُذَاقِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: كَانَ عَطَاءٌ يَكْرَهُ الطِّيبَ عِنْدَ الْإِحْرَامِ، كَانَ يَأْخُذُ بِشَأْنِ صَاحِبِ الْجُبَّةِ، وَكَانَ شَأْنُ صَاحِبِ الْجُبَّةِ قَبْلَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَالْآخِرَ، فَالْآخِرُ مِنْ أَمْرِ رَسُولِ [ص:244] اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَقُّ. هَذَا نَصُّ كَلَامِ ابْنِ جُرَيْجٍ. فَإِنْ تَعَلَّقُوا فِي كَرَاهَةِ الطِّيبِ بِمَا: اس روایت کو بیان کر کے ابن حذم اسکو نص قرار دے رہے ہیں ابن جریج کی طرف سے استدلال کرتے ہوئے جبکہ سند میں محمد بن یوسف الحذاقی ہی ہے جو عبدالرزاق سے بیان کرنے والے ہیں اسی طرح پھر الحذاقی کے طریق سے عبدالرزاق سے اور روایت نقل کرتے ہیں: 269 - كَمَا حَدَّثَنَا حُمَامٌ، عَنِ الْبَاجِيِّ، عَنْ أَحْمَدَ بْنِ خَالِدٍ، عَنِ الْكَشْوَرِيِّ، عَنِ الْحُذَاقِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا الثَّوْرِيُّ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَ: سُئِلَتْ عَنِ الْمُحْرِمِ يَمُوتُ، قَالَتِ: اصْنَعُوا بِهِ كَمَا تَصْنَعُونَ بِمَوْتَاكُمْ پھر الحذاقی سے دوسرا اثر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے مطابق اخذ کیا ہے امام مالک ، اور فقہا کی جماعت نے وَبِهِ إِلَى عَبْدِ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، قَالَ: تُوُفِّيَ وَاقِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ مَعَ ابْنِ عُمَرَ بِالْجُحْفَةِ، وَهُوَ مُحْرِمٌ، فَأَخَذَ ابْنُ عُمَرَ رَأْسَهُ وَقَمَّصَهُ وَعَمَّمَهُ وَلَفَّهُ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ، قَالَ: هَذَا يَقْطَعُ إِحْرَامَهُ حِينَ تُوُفِّيَ، وَلَوْلَا أَنَّا مُحْرِمُونَ؛ أَمْسَسْنَاهُ طِيبًا، وَبِهَذَا يَأْخُذُ مَالِكٌ وَجَمَاعَةٌ مِنْ فُقَهَاءِ الْأَمْصَارِ، وَخَالَفَهُمْ آخَرُونَ پھر آخر والوں نے مخالفت کی ہے پھر انکی دلیل دیتے ہوئے روایت لکھتے ہیں : 271 - كَمَا حَدَّثَنَا حُمَامٌ، عَنِ الْبَاجِيِّ، عَنِ ابْنِ خَالِدٍ، عَنِ الْكَشْوَرِيِّ [ص:273]، عَنِ الْحُذَاقِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: خَرَجَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْوَلِيدِ مُعْتَمِرًا، مَعَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، فَمَاتَ بِالسُّقْيَا، وَهُوَ مُحْرِمٌ، فَلَمْ يُغَيِّبْ عُثْمَانُ رَأْسَهُ، وَلَمْ يُمْسِسْهُ طِيبًا، فَأَخَذَ النَّاسُ بِذَلِكَ 272 - وَبِهِ إِلَى عَبْدِ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: تُوُفِّيَ عُبَيْدُ بْنُ يَزِيدَ بِالْمُزْدَلِفَةِ وَهُوَ مُحْرِمٌ فَلَمْ يُغَيِّبِ الْمُغِيرَةُ بْنُ حَكِيمٍ رَأْسَهُ، وَبِهَذَا أَخَذَ الشَّافِعِيُّ وَأَصْحَابُهُ وَجُمْهُورُ أَصْحَابِ الْحَدِيثِ، وَأَصْحَابُ الظَّاهِرِ، پھر الحذاقی کے طریق سے ہی روایت نقل کر کے امام شافعی اور جمہور اصحاب الحدیث و اہل ظاھر کی دلیل قرار دیتے ہیں اور اسکے بعد پھر تطبیق دیتے ہیں اور ایک اور بھی خوبصورت دلیل پیش کر دیتے ہیں اسی ہی کتاب سے : 406 - حَدَّثَنَا حُمَامٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ الْبَاجِيُّ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْكَشْوَرِيُّ،** حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ الْحُذَاقِيُّ، **حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ،** حَدَّثَنَا أَبُو حَنِيفَةَ هُوَ النُّعْمَانُ بْنُ ثَابِتٍ**، عَنْ حَمَّادِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: بَيْنَا وَأَنَا وَاقِفٌ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِعَرَفَةَ عَشِيَّةَ عَرَفَةَ، فَإِذَا هُوَ بِرَجُلٍ شَعْرُهُ يَفُوحُ مِنْهُ رِيحُ الطِّيبِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: أَمُحْرِمٌ أَنْتَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: مَا هَيْئَتُكَ بِهَيْئَةِ مُحْرِمٍ، إِنَّمَا الْمُحْرِمُ الشَّعِثُ الْأَغْبَرُ الْأَذْفَرُ، قَالَ: إِنِّي قَدِمْتُ مُتَمَتِّعًا، وَكَانَ مَعِي أَهْلِي، وَإِنَّمَا أَحْرَمْتُ الْيَوْمَ، فَقَالَ عُمَرُ عِنْدَ ذَلِكَ: لَا تَتَمَتَّعُوا فِي هَذِهِ الْأَيَّامِ، فَإِنِّي لَوْ رَخَّصْتُ فِي الْمُتْعَةِ لَهُمْ لَعَرَّسُوا بِهِنَّ الْأَرَاكَ، ثُمَّ رَاحُوا بِهِنَّ حُجَّاجًا قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ رَحِمَهُ اللَّهُ: فَكَانَ مَاذَا؟ وَحَبَّذَا ذَلِكَ، قَدْ طَافَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى نِسَائِهِ، ثُمَّ أَصْبَحَ، وَلَا خِلَافَ فِي أَنَّ الْوَطْءَ مُبَاحٌ قَبْلَ الْإِحْرَامِ بِطَرْفَةِ عَيْنٍ، وَهَذَا يُبَيِّنُ أَنَّ هَذَا مِنْ عُمَرَ رَأْيٌ رَآهُ، وَلَا حُجَّةَ فِي ذَلِكَ ابن حزم الحذاقی سے باروایت عبدالرزاق سے جو وہ اپنے شیخ امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت سے بیان کرتے ہیں اور وہ اپنے شیخ حماد بن ابی سلیمان سے اور وہ اپنے شیخ ابراہیم النخعی سے اور وہ اپنے شیخ الاسود سے وہ حضرت عمر فاروق سے ایک اثر بیان کرتے ہیں جسکو بیان کرنے کے بعد علامہ ابن حزم فرماتے ہیں : یہ کیا تھا؟؟حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج پر تشریف لے گئے۔؎پھر صبح کی ،اس میں کسی کا اختلاف نہیں کہ احترام سے ذرا قبل وطی یعنی ہمبستری کرنا مباح ہے اس سے واضح ہوا کہ یہ عمر کی اپنی رائے تھی جو اس نے قائم کی تھی۔۔اس میں کوئی حجت نہیں۔ (حجة الوداع ابن حذم، برقم :۴۰۶) اس کتاب میں وارد بعض روایات و اثار کا رد بھی کیا ہے ابن حذم نے سند و متن کی وجہ سے جیسا کہ ایک روایت پر کہتے ہیں : وَأَمَّا الرِّوَايَةُ عَنْ أَبِي ذَرٍّ، فَإِنَّمَا رَوَاهُ الْمُرَقِّعُ الْأَسَدِيُّ، وَهُوَ مَجْهُولٌ، وَمُوسَى بْنُ عُبَيْدَةَ، وَهُوَ ضَعِيفٌ، وَسُلَيْمَانُ أَوْ سُلَيْمٌ، هَذَا بِالشَّكِّ وَهُوَ أَيْضًا مَجْهُولٌ، فَلَا تَعَلُّقَ لَهُمْ بِشَيْءٍ مِنْ هَذِهِ الرِّوَايَةِ أَصْلًا ابی زر کی روایت جس کی سند مین مذکور الاسدی ہے جو کہ مجہول ہے ، اور موسی بن عیبدہ جو کہ ضعیف ہے اور سلیمان یا سلیم جس مین شک ہے نام کی وجہ سے وہ بھی مجہول ہے ایک اور جگہ ایک اثر کی صیحت کے بارے لکھتے ہیں : 496 - وَبِهَذَا السَّنَدِ إِلَى وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي لَيْلَى، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَبَّيْكَ بِحَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ مَعًا» قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ رَحِمَهُ اللَّهُ: مُصْعَبُ بْنُ سُلَيْمٍ ثِقَةٌ، خَرَّجَ مُسْلِمٌ مِنْ طَرِيقِهِ، وَهُوَ غَيْرُ مُصْعَبِ بْنِ سَلَّامٍ ذَلِكَ ضَعِيفٌ اور یہ سند وکیع کے طریق سے ابن ابی لیلیٰ سے ثابت البنانی سے حضرت انس سے نبی کریم سے ہے اسکے بعد روایت بیان کرنے کے بعد علامہ ابن حذم اپنا تبصرہ کرتے ہیں : مصعب بن سلیم یہ ثقہ ہے اس سے امام مسلم نے روایت لی ہے طریق سے اور یہ مصعب بن سلام نہیں وہ ضعیف ہے تو معلوم ہوا کہ ابن حذم نے اس کتاب میں اپنے منہج کے مطابق جن روایات سے احتجاج کیا یا تطبیق دی ہیں وہ انکے نزدیک صحیح ہیں اور ثابت روایات ہیں اور جو انکے نزدیک ثابت نہیں تھیں انکی اسناد کا حال بیان کر دیا تو الحذاقی کو مجہول العین کہنا یہ جناب کی جہالت اور علم رجال سے نا واقفی ہے تو یہ بھی صدوق راوی ثابت ہوا اسی طرح امام ابن عبدالبر نے بھی التمہید میں الحذاقی کی عبدالرزاق کے طریق سے روایت کی تخریج کی ہے *******************8 اگلا اعتراض : ۲۔ دوسرا راوی محمد بن علی بن سفیان نجّار بھی مجہول اور نامعلوم ہے۔ تاریخ رجال اس کے حال کے بارے میں خاموش ہے ۔ لہذا یہ دونوں تو مجہول ہیں اور ان کے روایت کردہ تین ابواب غیر ثابت اور ضعیف ہیں۔ **************** الجواب : اس جاہل اعظم کی جہالت پر اسکو ۲۱ توپوں کی سلامی دینی پڑے گی کہ بغیر تحقیق کے اس جاہل نے یہ ڈینگ مار دی کہ تاریخ رجال اسکے بارے خاموش ہے پہلے اسکی اس کذب بیانی کو ثابت کرتے ہیں : امام ذھبی تاریخ السلام میں اس راوی کے بارے فرماتے ہیں : 581- محمد بْن عليّ بْن سُفْيَان الصَّنْعانيّ النّجّار. أبو عبد الله. سمع: عبد الرّزّاق. روى عَنْهُ: محمد بْن حمدون الْأَعْمَش، وأبو عوانة. تُوُفِّيَ فِي رمضان سنة أربع وسبعين. ورّخه ابنُ عُقْدة، وقَالَ: بلغني أنّه مات وله مائة سنة وشهران أو ثلاثة. محمد بن علی بن سفیان النجار اسکی کونیت ابو عبداللہ ہے اس نے امام عبدالرزاق سے سماع کیا ہے اور اس سے محمد بن احمد امام الاعمش اور امام ابی عوانہ (اپنی الصحیح المسند ) میں روایت کیا ہے (تاریخ الاسلام الذھبی) اس سے تین بڑے امام روایت کرتے ہیں لیکن یہ جاہل اعظم المروف عاطف کہتا ہے کہ رجال کی کتب خاموش ہیں بلکہ یہ خود اندھا ہے ورنہ کتب خاموش نہیں ہیں اور دوسری بات کہ اس جاہل اعظم کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ضروری نہیں کہ ہر راوی کی صریح توثیق ملے تو راوی سے احتجاج ہوگی اور کوئی قرائن یا ضمنی توثیق سے راوی کی توثیق ثابت نہیں ہو سکتی ؟ پہلے اس جاہل کو سمجھاتے ہیں کہ ضمنی توثیق بھی قابل قبول ہوتی ہے : ۱۔ امام ذھبیؒ امام ذھبیؒ راوی کی توثیق کے اصول بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : الثة : من وثقة کثیر ولم یضعف ، ودونه : من لیم یوثق ولا ضعف فان خرج حدیث ھذا فی الصحیح فھو موثق بذالک، وان صحح له مثل الترمذی وابن خذیمة فجیدا ایضا ، وان صحح له کالدارقطنی ، والحاکم ، احواله: حسن الحدیث ثقہ: وہ ہوتا ہے جس کو (محدثین و ناقدین)ثقہ کہیں ، اور اسکی تضعیف کی ہی نہ گئی ہو ، اور اس سے کم درجے میں وہ راوی ہے جس کی نہ توثیق کی گئی ہو اور نہ تضعیف ، تو پس ایسے شخص کی حدیث اگر صحیحین (بخاری ومسلم) میں ہو تو اس وجہ سے وہ اسکی توثیق ہوگی، اور اگر اسکی حدیث کی تصحیح امام ترمذی ، اور امام ابن خذیمہ جیسے محدثین کر دیں تو وہ بھی اسی ہی طرح جید ہوگی اور اگر امام دارقطنی ، و حاکم جیسے اسکی حدیث کی تصحیح کر دیں تو کم از کم وہ حسن الحدیث درجے کا راوی ہوگا (الموقظة فی علم مصطلح الحدیث ، ص ۷۸) ۲۔ امام ابن حجر عسقلانیؒ امام حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : اخرج ابن حبان فی الصحیحه من طریق ابی سلام عنه احادیث صرح فیھا بالتحدیث کہ امام ابن حبان نے اپنی صحیح (ابن حبان) میں (راوی) ابو سلام کی روایت لی ہے جو کہ اس چیز کی متقاضی ہے کہ انکے نزدیک ابو سلام (راوی) ثقہ ہیں (تعجیل المنفعة بزوائد رجال الائمة الاربعة 703) اسی طرح متقدمین میں امام حاکم مقدمہ المستدرک میں فرماتے ہیں : وانا استعین اللہ علی اخراج احادیث رواتہا ثقات ، قد احتج بثملھا الشیخان رضی اللہ عنہھما او احدھما ، وھذا شرط الصحیح عند کافة فقھا ء اھل الاسلام امام حاکم فرماتے ہیں : اگر صاحب صحیح جیسا کہ شیخین اور ان جیسے محدثین کسی حدیث سے احتجاج کریں یا اسکو صحیح کہیں وہ (راویان )بھی ثقات میں سے ہوتے ہیں (المقدمہ المستدرک ، ص۲) یعنی محدثین و ناقدین کی تصریحات ہیں کہ ایسا راوی جسکو مصنف اپنی صحیح میں لے لے اور اس پر کوئی جرح نہ ہو تو ایسا راوی ثقہ یا صدوق ہوتا ہے یا کوئی ناقد کسی راوی کی منفرد روایت سے احتجاج کرے تو بھی اس روایت کے تمام رواتہ کی توثیق ہوتی ہے اب وہ مصنفین جنہوں نے اپنی کتب میں صحیح احادیث کا التزام کیا ہے صحیحین کے علاوہ جیسا کہ الصحیح ابن حبان ، الصحیح مسند ابی عوانہ ، الصحیح ابن خذیمہ ، وغیرہ اور مستخرج ابی عوانہ کے بارے میں امام ذھبی امام ابی عوانہ کا منہج بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : صاحب (المسند الصحيح ؛الذي خرجه على (صحيح مسلم) ، وزاد أحاديث قليلة في أواخر الأبواب. صاحب مسند الصحیح (ابی عوانہ ) نے روایات لی ہیں صحیح مسلم کی شرائط پر اور اسکے اخری ابواب میں کم روایات وارد کی ہیں (سیر اعلام النبلاء ، جلد ۱۴ ، ص ۴۱۷) یعنی امام ابی عوانہ نے بھی اپنی مسند میں صحیح روایات کا التزام کیا ہے صحیح مسلم کی شرائط پر جن روایات کو امام مسلم نے نہ لیا تھا اسی طرح یہی اصول وہابیہ کے متشدد محقق البانی بھی تسلیم کرتا ہے اور وہ لکھتا ہے ؒ وکذالك وثقة کل من صحح حدیثه اما اخرجہ ایاہ فی الصحیح مسلم ، و ابی عوانة او بالنص علی صحته لاترمذی البانی صاحب ثقہ راوی کی فصل میں لکھتے ہیں : اور اسی طرح ان تمام محدثین نے بھی اسے ثقہ قرار دیا ہے ہے جنہوں نے اسکی حدیث کی تصحیح کی چاہے وہ اسکی حدیث کو صحیح میں روایت کرنے کی صورت میں ہو جیسا کہ صحیح مسلم ، اور صحیح ابی عوانہ یا اس (راوی) کی روایت پر صراحت کے ساتھ حکم ہو امام ترمذی کا (سلسلہ احادیث الصحیحة، ص ۱۶) ((نوٹ : یہ یاد رہے امام ترمذی تحسین حدیث میں متساہل تھے اپنے منفرد منہج کی وجہ سے لیکن امام ترمذی حدیث کی تصحیح میں بالکل متساہل نہیں تھے لیکن اکثر جہلاء کو دیکھا ہے کہ وہ امام ترمذی کو مطلق متساہل سمجھتے ہوئے انکی تصحیح کا بھی انکار کرتے نظر آتے ہیں غیر مقلدین مین بھی کچھ ایسے ہیں تو وہ اپنے البانی صاحب کی بات پر غور کریں )) اب امام ابی عوانہ سے پیش کرتے ہیں ثبوت کہ انہوں نے اس راوی : محمد بن علی بن النجار کی روایات کی تخریج کی ہے 5106 - ** حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ النَّجَّارُ، قثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ** ، قَالَ: أنبا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنِ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، أَجْلَى الْيَهُودَ، وَالنَّصَارَى مِنْ أَرْضِ الْحِجَازِ، وَأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " لَمَّا ظَهَرَ عَلَى خَيْبَرَ أَرَادَ إِخْرَاجَ الْيَهُودِ مِنْهَا، وَكَانَ الْأَرْضُ حِينَ ظَهَرَ عَلَيْهَا لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُسْلِمِينَ، 6020 - **حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ النَّجَّارُ، وَأَبُو الْأَزْهَرِ، قَالَا: ثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ**، قَالَ: أنبا مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ الطَّائِفِيُّ، عَنْ عَمْرِو بنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى بِشَاهِدٍ وَيَمِينٍ» وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ النَّجَّارُ، قثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: نُهِينَا أَنْ يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ، وَإِنْ كَانَ أَبَاهُ وَأَخَاهُ رَوَى ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: نُهِينَا أَنْ يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ ) : مستخرج أبي عوانة) امام ابی عوانہ نے تو اسکی ساری روایات امام عبدالرزاق سے تخریج کی ہیں اور یہ شاگرد ہی صرف امام عبدالرزاق کا تھا تو معلوم ہوا کہ یہ راوی صدوق درجے کا ہے اسکو مجہول العین کہنا عاطف مجہولیے کی جہالت اور علم رجال سے جہالت ہے ************************ اسکا اگلا اعتراض : ۳۔ اس کا تیسرا راوی اسحاق بن ابراہیم دَبَری ہے جس سے مصنف کا اکثر حصہ مروی ہے ۔ => اسحاق بن ابراہیم کے بارے میں : ۱۔ ابن عدی نے کہا : عبد الرزاق سے روایت کرنے میں اس کی کوئی حیثیت نہیں سمجھی جاتی ۔ یہ بہت چھوٹا تھا جب اس کا باپ اسے عبد الرزاق کے پاس لاتا تھا ، پھر وہ کہتا پھرتا تھا کہ ہم نے عبد الرزاق پر پڑھا ہے ۔ جب کہ پڑھتا کوئی اور تھا یہ تو صرف وہاں موجود ہوتا تھا ، اور اس نے عبد الرزاق سے منکر حدیث بیان کی ہے {الكامل: ٣٣٨/١} => یعنی پڑھتا کوئی اور تھا لیکن یہ لوگوں کو دھوکا دینے کے لیے کہتا پھرتا کہ میں پڑھ کر سناتا تھا الجواب : جاہل جی نے یہاں جہالت کے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں ابن عدی کا کلام ایک تو مبہم ہے اور صیغہ مجہول ہے کہ کن کے نزدیک اسکی حیثیت نہیں سمجھی جاتی ہے ؟ اور باقی جو یہ ابن عدی نے لکھا ہے یہ کہتا کہ عبد الرزاق پر پڑھا ہے لیکن پڑھتا کوئی اور تھا ۔۔۔۔ وہ اور کون بندہ تھا ؟ وہی تو الدبری کا والد تھا جو کہ عبدالرزاق کے ثبت شاگردوں میں سے ایک تھے اور الدبری اپنے والد کی موجودگی میں مصنف عبدالرزاق کی تصنیف کو پڑھتے تھے لیکن اس جاہل کو یہ سمجھ نہیں آئی ہے کہ محدثین نے تخصیص کی ہے کہ جو روایات الدبری نے اپنے والد کی مدد سے عبدالرزاق پر انکی تصنیف کی روایات قرات کی ہیں وہ بالکل صحیح ہیں اور اسکا سماع بھی بالکل صحیح ہے لیکن جو روایات عبدالرزاق سے الدبری نے ایسی بیان کی ہیں جو المصنف میں درج نہیں تو وہ روایات میں الدبری اپنے والد کے بغیر سنتا رہا بعد از اختلاط عبدالرزاق سے جس میں نکارت پیدا ہوئی گئی تھی اسکی تفصیل آگے آئے گی ****************** اسکا اگلا اعتراض: ۲۔ ابن صلاح نے کہا : مجھے طبرانی کی سند سے جو احادیث ملی ہیں جنہیں اسحاق بن ابراہیم نے عبد الرزاق سے بیان کی ہیں، میں انہیں سخت منکر سمجھتا ہوں۔ پس اس معاملے کا جائزہ لینے کےبعد معلوم ہوا کہ عبد الرزاق سے دَبَری کا سماع بہت آخر کا ہے ، ابراہیم حَرْبی نے کہا ہے کہ عبد الرزاق کی موت کے وقت دَبَری چھ یا سات سال کا تھا {مقدمة ابن صلاح: ٣٩٦} روایت سننے کے لیے ۵ سال تک کی عمر کافی ہوتی ہے اور جبکہ یہ راوی راجح قول کے مطابق ۱۰ سال کا تھا اور اس نے کتاب کا سماع کیا تھا عبدالرزاق سے اپنے والد کی موجودگی میں جس میں تو کچھ بھی مسلہ نہیں ہوتا ہے ************** الجواب: اور یہاں اس جاہل جی نے ابن صلاح سے الدبری تک کوئی متصل سند بھی بیان نہیں کی ہے بقول اسکے ابن صلاح کے خواب میں آکر یہ بات بیان کی تھی یا یہاں یہ ابن صلاح کی بات بغیر سند مان لیگا ؟ اگر مان لیگا تو اور محدثین کی آراء کو تسلیم کرنے میں اسکو کیا موت پڑتی ہے جیسا کہ اسکی منافقت آگے عیاں کرونگا *********** اسکا اگلا اعتراض : ۳،۔ ذہبی نے کہا : یہ آدمی صاحب حدیث نہیں تھا ، اسے تو صرف اس کے باپ نے حدیثیں سنائی تھیں جنہیں اس نے محفوظ کر لیا ، اس نے عبد الرزاق سے اس کی تصانیف بھی تب سنی ہیں جب کہ وہ سات سال کا تھا ، لیکن اس نے عبد الرزاق سے منکر احادیث روایت کی ہیں ، جس میں تردد واقع ہوتا ہے کہ ، آیا یہ منکرات اس کی طرف سے ہیں یا یہ عبد الرزاق سے معروف ہیں {ميزان الاعتدال: ١٨١/١} ************* الجواب : اس جاہل اعظم نے یہاں لوگوں کو دھوکا دینے کی کوشش کی ہے اور امام ذھبی کا مکمل موقف تک بیان نہیں کیا دوسری کتب سے اور نہ ہی میزان کا موقف صحیح سے بیان کیا ہے امام ذھبی نے جو یہ فرمایا کہ اس نے ۷ یا ۱۰ سال کی عمر میں اپنے شیخ عبدالرزاق سے انکی کتاب سنی تھی اسکی تفصیل یہ ہے کہ ا اس سے پہلے وہ عبدالرزاق کی روایات پر الدبری مطلع اپنے والد کےطریق سے تھے لیکن جب وہ ۱۰ سال تک ہوئے تھے تو انکے والد نے عبدالرزاق پر انکے سامنے روایات بیان کر کے انکو بھی سامع بنا دیا کہ یہ ڈریکٹ بھی عبدالرزاق سے انکی وہ روایات جو انکی تصنیف میں ہیں وہ بیان کر سکتے ہیں اور جو امام ذھبی نے فرمایا ہے کہ اسکی روایات جن میں منکرات ہیں اس میں معلوم نہین غلطی کس کی ہے وہ تصانیف کے علاوہ ہیں نہ کہ تصانیف والی راویات بھی ان میں شامل ہیں امام ذھبی کے کلام کو سمجھنے کے لیے انکی دوسری تصنیف تاریخ الاسلام میں انکا موقف سمجھا جا سکتا ہے وہ لکھتے ہیں : 135- إِسْحَاق بن إِبْرَاهِيم بن عبّاد [2] . أبو يعقوب الدَّبَرِيُّ اليماني الصَّنْعَانيّ. سَمِعَ مصنّفات عبد الرزاق سنة عشرة باعتناء والده إِبْرَاهِيم، وكان صحيح السّماع. ومولده على ما ذكر الخليلي سنة خمسٍ وتسعين ومائة. روى عنه: أبو عوانة في «صحيحه» ، وَخَيْثَمَة الأَطْرَابُلُسيّ، وَمحمد بن عبد الله التقوي، وَمحمد بن محمد بن حمزة، وأبو الْقَاسِم الطَّبَرَانيّ، وجماعة. وَتُوُفِّي سنة خمسٍ وثمانين بصنعاء [3] قَالَ ابن عَدِيّ: استصغر في عبد الرزاق، أحضره أبوه عنده وَهُوَ صغير جدًا، فكان يَقُولُ: قرأنا على عبد الرزاق قراءة غيره، وحدّث عنه بأحاديث منكرة . قُلْتُ: ساق له حديثًا واحدًا من طريق ابن أنعم الإفريقي يحتمل مثله، فأين الأحاديث الذي [2] ادّعى أنّها له مناكير. كُتبًا، فَإِذَا جاء كما سمعها. وَقَالَ الحاكم: سألت الدَّارَقُطْنيّ عن الدَّبري أيدخل في الصحيح؟ قَالَ: أي والله، هُوَ صدوق، ما رأيت فيه خلافًا. امام ذھبی فرماتے ہیں کہ الدبری نے امام عبدالرزاق کی تصانیف کو سنا ہے دس سال کی عمر میں اپنے والد کے زریعے اور انکا سماع بالکل صحیح ہے (تصانیف کا ) ابی عوانہ نے اپنی صحیح میں ان کی تخریج کی ہے (یہ توثیق ہے ) اور امام طبرانی اکثر روایات انہیں سے بیان کرتے ہیں دارقطنی نے انکی توثیق کی ہے کہ انکی صحیح روایات لی جائے امام ابن عدی کی جرح جو انہوں نے الکامل میں الدبری پر کی ہے اسکا رد کیا ہے امام ذھبی نے یہ کہتے ہوئے کہ انکو سوائے اس طریق کے علاوہ اور کوئی منکر نہ ملی (تاریخ الاسلام ) اور ایسے ہی امام ذھبی نے سیر اعلام النبلاء میں الدبری کو صدوق قرار دیتے ہوئے دفاع کیا اور ابن عدی کا رد کیا اب ہم یہ حقیقت پیش کرتے ہیں کہ ابن عدی کا رد امام ذھبی نے کیوں کیا اسکی دلیل پیش کرتے ہیں ابن عدی نے جیسا کہ ابن عدی نے الکامل میں جس روایت کو بنیاد بنا کر الدبری پر الزام لگایا ہے کہ وہ سند منکر ہے اور اسکو الدبری نے وضعہ کیا ہے وہ بالکل باطل ہے اور فقط اس ایک روایت کے اور کوئی منکر روایت نہ ملی ابن عدی کو اور ابن عدی نے اسکا الزام الدبری پر لگا دیا جبکہ یہ روایت امام خلیلی نے اپنی الارشاد میں نقل کی ہے جسکی سند الدبری سے ہے : 107 - حَدِيثٌ حَدَّثَنَاهُ جَدِّي، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَلَمَةَ، وَأَبِي، وَسُلَيْمَانُ بْنُ يَزِيدَ، وَأَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ الْأَعْرَابِي، بِمَكَّةَ , قَالُوا: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّبَرِيُّ، بِصَنْعَاءَ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادِ بْنِ أَنْعَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ أَحَدٌ إِلَّا بِجَوَازِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ هَذَا كِتَابٌ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ لِفُلَانٍ ابْنِ فُلَانٍ , أَدْخِلُوهُ جَنَّةً عَالِيَةً , قُطُوفُهَا دَانِيَةٌ» تَفَرَّدَ بِهِ عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنِ الثَّوْرِيِّ , وَالدَّبَرِيُّ بِهِ مَشْهُورٌ وَ امام خلیلی پہلے یہ روایت الدبری کے طریق سے عبدالرزاق سے بیان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اس میں تفرد ہے عبدالرزاق کا الثوری سے اور الدبری مشہور ہے (اس روایت کے ساتھ ) اسکے بعد امام خلیلی آگے لکھتے ہیں : حدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُزَكِّي النَّيْسَابُورِيُّ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَمْدُونَ بْنِ خَالِدٍ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ النَّجَّارِ الصَّنْعَانِيُّ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ مِثْلَهُ پھر امام خلیلی نے دوسری متصل سند سے یہی روایت علی بن النجار سے بھی بیان کی ہے عبدالرزاق سے یعنی الدبری اس روایت کو عبد الرزق سے بیان کرنےمیں منفرد نہین تو ابن عدی کا الدبری پر اس روایت کی وجہ سے الزام لگانا باطل ہے تبھی امام خٰلیلی نے عبدالرزاق کا ثوری سے تفرد بیان کیا ہے کیونکہ الدبری کی متابعت محمد بن علی بن نجار نے کر رکھی ہے (الإرشاد في معرفة علماء الحديث) ************** اسکا اگلا اعتراض : ۴۔ اصل میں عبد الرزاق کے بارے میں احمد بن حنبل کا قول ہے کہ : عبد الرزاق ہمارے پاس دو سو ہجری سے قبل آیا تھا تو اس کی نظر صحیح تھی، پس جس نے اس سے اس کے اندھے ہونے کے بعد احادیث سنی ہیں وہ ضعیف ہیں ، اور ان احادیث پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی {تاريخ ابو زرعة دمشقي: ١١٦٠، سوالات ابن هاني: ٢٢٨٥} ا ب جیسے کے یہ واضح ہو چکا ہے کہ اسحاق بن ابراہیم نے عبد الرزاق کا آخری زمانہ پایا ہے تو اس کی عبد الرزاق سے بیان کردہ روایات ضعیف ہیں جن کی طرف کوئی توجہ نہیں کی جائے گی ۔ ***************** الجواب : اس جاہل نے پھر وہی جہالت دیکھائی اوپر خود تسلیم بھی کرتا ہے ابن عدی کے حوالے سے اور ہم نے دلائل سے ثابت کیا کہ اسکا عبدالرزاق پر انکی لکھی ہوئی تصانیف پڑھنا ثابت ہے اپنے والد کی مدد سے عبدالرزاق کی تصانیف تب لکھی تھی جب عبدالرزاق صحیح تھے انکے نابینا ہونے کے بعد بے شک ان سے منفرد رروایات میں سماع جو ہوگا الدبری کا وہ بے شک ضعیف ہے لیکن جو تصانیف قرات کی عبدالرزاق پر اپنے والد کے ساتھ جو کہ عبدالرزاق کے ثبت شاگرد ہیں اس میں کیسا ضعف ثابت کرنے کی یہ کوشش کر رہا ہے ؟ اسی لیے اس جاہل کو معلوم ہی نہیں کہ یہ ثابت کیا کر رہا ہے *************** اسکا اگلا اعتراض : اسحاق بن ابراہیم کے بارے میں صرف چار سو ہجری کے عالم دارَقُطنی کا کلام ملتا ہے جسے توثیق میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کلام کو ابو عبد اللہ الحاکم نے نقل کیا کہ: => حاکم نے کہا: میں نے دارقطنی سے اسحاق دَبَری کے متعلق سوال کیا تو انہوں نے کہا: صَدوق (یعنی سچا) تھا۔ میں نے اس کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں دیکھا۔ اس کے بارے میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ : یہ ان رجال میں سے نہیں تھا جن کی یہ شان ہوتی ہے۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ: میں اسے صحیح (یعنی مستدرک) میں داخل کروں؟ انہوں نے کہا : ہاں۔ {سوالات الحاكم: ٦٢} => لیکن دارقطنی کا یہ کلام تین وجوہات کی باعث لائق التفات نہیں: ۱۔ انہوں نے صدوق کہا ہے جس سے راوی مطلقا ثقہ و قابل احتجاج ثابت نہیں ہوتا۔ کتب رجال میں کئی صدوق و سچے راوی ہیں جو منکر الحدیث ہیں اور اسحاق دَبَری میں ان میں سے ایک ہے ۔ ۲۔ پھر دارقطنی کا کہنا کہ انہیں اس میں اختلاف معلوم نہ ہو سکا۔ تو یہ ان کا مبلغ علم ہے ۔ جب کہ ان سے قدیم عالم ابن عدی نے اس کی حیثیت کو واضح کر دیا تھا۔لہذا دارقطنی کے کلام کی کوئی حیثیت نہیں۔ غالبا دارَقُطنی کی مصنف عبد الرزاق کی بچانے کی کوشش ہے۔ ۳۔ دارَقُطنی سے سوال کرنے والا ابو عبد اللہ الحاکم صاحب مستدرک ہے۔ یہ شدید وہمی تھا جس نے اپنی کتب میں راویوں اور روایات کے معاملے میں بہت غلطیاں کی ہیں۔ یہاں بھی پتا نہیں کون اسحاق تھا جسے اس نے دَبَری بنا دیا ۔ =< لہذا اسحاق بن ابراہیم خود بھی ضعیف و منکر الحدیث ہے اور عبد الرزاق سے اس کا سماع اختلاط کے بعد کا ہے اس لیے عبد الرزاق سے اس کی روایات منکر ہیں ۔ ************* الجواب : امام حاکم سے امام دارقطنی کی توثیق کو باطل ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے یہ پلاسٹکی محکک میاں لکھتا ہے کہ : امام درقطنی سے بیان کرنے والے توثیق امام حاکم ہین وہ متساہل ہیں انہون نے کوئی اور اسحاق سمجھا ہوگا اور دارقطنی کا یہ کہنا کہ اس میں اختلاف نہیں جانتا اس پر جو بے ہودہ اعتراض کیے یہ اسکی جہالت مطلق کو ثابت کرنے کے لیے کافی ثبوت ہے ۱۔ پہلی جہالت اسکی یہ ہے کہ اسکو یہ معلوم نہین امام حاکم کا تساہل صرف مستدرک تک محدود ہے کیونکہ وہ انہوں نے زندگی کے بالکل اخری دور میں لکھی تھی ۲۔ امام حاکم کا مستدرک میں تساہل روایات کی تصحیح تک بھی محدود ہے نہ کہ روایان کی تصحیح میں ۳۔ تیسری بات امام حاکم نے یہ توثیق سوالات الدارقطنی میں بیان کی ہے جو مستدرک سے بہت پہلے کی تصنیف ہے اور رجال کی توثیق کی کتاب ہے پھر یہ جاہل یہ اندھی گھماتا ہے کہ امام حاکم کو معلوم ہی نہیں کہ یہ کون سا اسحاق ہے اس جاہل کو چاہیے تھا کہ امام حاکم کی مستدرک دیکھ لیتا جس میں عبدالرزاق سے اسحاق الدبری کی روایات کی تخریج کی ہے امام حاکم نے اور امام ذھبی نے بھی تلخیص میں تصحیح کی ہے باقی امام دارقطنی کی توثیق کو کہتا ہے سوائے ۴۰۰ ہجرکے کے امام کے علاوہ کوئی توثیق نہیں اس جاہل کو یہ بھی نہیں معلوم جس امام سے یہ جرح کی دلیل لے رہا ہے اور جسکی توثیق رد کر رہا ہے دونوں ہم عصر امام رہے ہیں ابن عدی کی بات پر یہ ایک ٹانگ پر ناچ رہا تھا ابن عدی (المتوفى: 365هـ)ہیں اور امام دارقطنی : (المتوفیٰ 385ھ) ہیں جبکہ امام دارقطنی علل کے ماہر اور متقن امام ہیں اسکے بعد اسکی تحریر میں کوئی بات نہین بچی جسکا جواب دیا جائے باقی جہالت بھری باتوں کا جواب دینے کی ضرورت نہیں اور اسکا رد میں تھوڑی نرمی برتی ہے کیونکہ یہ اس قابل بھی نہیں کہ اسکا تفصیلی رد لکھا جائے اور نہ ہی میرے خیال میں اسکی پوسٹ کا رد لکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ ایسے نئے نمونے مارکیٹ میں اکثر آتے جاتے رہتے ہیں اسکی تحریر اتنی بے ہودہ اور منہج محدثین اور علم رجال سے خالی ہے کہ جسکی کوئی مثال نہیں خلاصہ تحقیق : عبدالرزاق کے تینوں شاگر د صدوق و حسن الحدیث ہیں اور الدبری کا سماع عبدالرزاق کی تصانیف کا صحیح السماع ہے اور اسکے علاوہ اسکو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ جن اماموں سے یہ جرح و تعدیل کے آدھے ادھورے اقوال پیش کر رہا تھا اسکو یہ معلوم ہی نہیں کہ کتب کو قبول کرنے کا منہج کیا ہے ہر کتاب کے لیے صحیح سند کا ہونا بھی ضروری نہیں بلکہ جس کتاب کو متواتر سے قبول کیا جائے اور اسکو منسوب کیا جائے اہل علم کی طرف سے مصنف کی طرف یہ بات اسکو سند کی حاجت سے آزاد کر دیتی ہے جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانی النکت علی ابن صلاح میں فرماتے ہیں : کہ کتاب کو قبول کرنے کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم سے لیکر مصنف تک کتاب کی سند جید رجال پر مشتمل یعنی امام نسائی کی کتاب کے لیے اس بات کی ضروری نہیں کہ ہم سے لیکر امام نسائی تک اسکی سند جید ہو بلکہ اہل علم کا کسی مصنف کی طرف کتاب کو منسوب کرنا مشہور کرنا اس چیز کے لیے کافی ہے کہ یہ کتاب مصنف کی ہے (النکت علی ابن صلاح ، ابن حجر ) یہ منکر حدیثوں کو یہ کتابوں کا رد کرنے کا موقع بھی بر صغیر میں زبیر زئی نے دیا تھا کیونکہ کتب پر صحیح الاسناد کی شرط پہلی بار زبیر زئی نے لگائی اسکی وجہ سے منکرین حدیث کو بھی بہانا مل گیا اہلسنت کی مشہور کتب پر وار کرنے کا تحقیق دعاگو : اسد الطحاوی الحنفی البریلوی ۱۹ مارچ ۲۰۲۰
×
×
  • Create New...