Jump to content

کمیونٹی میں تلاش کریں

Showing results for tags 'من زار قبري حدیث توثیق'.

  • ٹیگ میں سرچ کریں

    ایک سے زائد ٹیگ کاما کی مدد سے علیحدہ کیے جا سکتے ہیں۔
  • تحریر کرنے والا

مواد کی قسم


اسلامی محفل

  • اردو فورم
    • اردو ادب
    • فیضان اسلام
    • مناظرہ اور ردِ بدمذہب
    • سوال و درخواست
    • گفتگو فورم
    • میڈیا
    • اسلامی بہنیں
  • انگلش اور عربی فورمز
    • English Forums
    • المنتدی الاسلامی باللغۃ العربیہ
  • اسلامی محفل سے متعلق
    • معلومات اسلامی محفل
  • Arabic Forums

تتیجہ ڈھونڈیں...

وہ نتیجہ نکالیں جن میں یہ الفاظ ہوں


تاریخ اجراء

  • Start

    End


Last Updated

  • Start

    End


نمبرز کے حساب سے ترتیب دیں...

Joined

  • Start

    End


Group


AIM


MSN


Website URL


ICQ


Yahoo


Jabber


Skype


مقام


Interests


پیر

  1. حدیث :من زار قبري، وجبت له شفاعتي: پر غیر مقلدین کے اعتراضات کا رد بے شمار محدثین بشمول امام دارقطنی ، امام بیھقی ، امام نورالدين الهيثمي، امام خطیب بغدادی ، قاضی عیاض اور بہت سے محدثین نے اس رویت کو مختلف اسناد سے نقل کیا ہے ۔ ہم اسکی ایک سند یہاں بیان کرتے ہیں جو کہ بالکل حسن درجے کی سند ہے اسکو روایت کیا ہے امام ابو طاہر السلفی الاصبھانی ؒ (المتوفی 576ھ) وہ برقم ۔9 روایت نقل کرتے ہیں اپنی سند سے حدثنا عبيد الله بن أحمد، نا أحمد بن محمد بن عبد الخالق، نا عبيد بن محمد الوراق، نا موسى بن هلال، عن عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من زار قبري، وجبت له شفاعتي» ] الكتاب: الجزء الخامس من المشيخة البغدادية المؤلف: صدر الدين، أبو طاهر السِّلَفي أحمد بن محمد بن أحمد بن محمد بن إبراهيم سِلَفَه الأصبهاني (المتوفى: 576هـ)[ اس روایت کے سارے راوی قوی ہیں اور یہ روایت حسن درجے کی ہے محدثین کی نظر میں ۔۔۔ غیر مقلدین اس روایت کے ایک راوی موسیٰ بن ھلال کومجہول کہہ کر اس رویت کو ضعیف قرار دیتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ راوی حسن الحدیث درجے کا راوی ہے ۔ غیر مقلدین دو اماموں سے جرح پیش کرکے سادہ لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف ہے اور نبی پاکؐ کی قبر کی زیارت کرنے کا حکم کسی صحیح یا حسن حدیث سے ثابت نہیں (معاذ اللہ) غیر مقلدین جو اعتراض پیش کرتے ہیں ان میں سے ایک امام ابو حاتم کا ہے اور دوسرا امام عقیلی کا ہے جو کہ مندرجہ زیل ہیں !! ابو حاتم موسیٰ بن ھلال کے بارے کہتے ہیں : مجھول اور امام عقیلی کہتے ہیں کہ : لَا يَصِحُّ حَدِيثُ مُوسَى وَلَا يُتَابَعُ عَلَيْهِ کہ یہ حدیث صحیح نہیں اور موسیٰ کا کوئی متابع نہیں۔ غیر مقلدین کے پاس موسیٰ بن ھلال پر ان دو اماموں سے جرح مبھم ہیں جبکہ تحقیقی بات یہ ہے کہ یہ راوی حسن الحدیث درجے کا ہے اور اس کی توثیق ثابت ہے ۔ امام ابن عدیؒ انکے بر عکس کہتے ہیں ارجو انہ لا باس بہ۔۔ یعنی ان سے حدیث لینے میں کوئی حرج نہیں اور امام ذھبی ؒنے کہا کہ یہ صالح الحدیث ہیں (میزان الاعتدال برقم8937) امام ابن حجر عسقلانیؒ اپنی تصنیف التلخيص الحبير میں امام عقیلی کی یہ جرح نقل کرکے اسکا رد رد موسیٰ بن ھلال کی متابعت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : وَفِي قَوْلِهِ لَا يُتَابَعُ عَلَيْهِ نَظَرٌ فَقَدْ رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ مِنْ طَرِيقِ مَسْلَمَةَ بْنِ سَالِمِ الْجُهَنِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بِلَفْظِ "مَنْ جَاءَنِي زَائِرًا لَا تُعْمِلُهُ حَاجَةٌ إلَّا زِيَارَتِي كَانَ حَقًّا عَلَيَّ أَنْ أَكُونَ لَهُ شَفِيعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ (: التلخيص الحبير في تخريج أحاديث الرافعي الكبير ج ۲ ص ۵۶۹) کہ امام عقیلی کا یہ قول :لا یتابع علیہ: یہ محل تامل ہے ۔ جبکہ امام طبرانی نے مسلمہ بن سالم سے اسکی مثل روایت بیان کی ہے ابن عمر سے ان الفاظ سے کہ جو میری قبر کی زیارت کی نیت سے آیا تو میرا حق ہے اس پر کہ میں روز قیامت کے دن اسکی شفاعت کرو تو جب امام ابن حجر عسقلانی نے انکی بات کو رد ثبوت سے کر دیا تو امام عقیلی کی جرح خود بخود ساقط ہو گئی اسی طرح امام ذھبی نے میزان الاعتدال ج ۴ ص ۶۶۴ پر موسیٰ بن ھلال کے ترجمے میں اما م ابو حاتم اور عقیلی کی جرح نقل کر کے انکا رد فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ قلت : میں کہتا ہوں کہ موسی بن ھلال صالح الحدیث ہے ۔ اسی طرح امام ابن المقلن سراج الدین الشافعی المصری (المتوفی 804ھ) اس روایت کو نقل کرنے کے بعد بسند جید کا حکم لگاتے ہیں (البدر المنير في تخريج الأحاديث ج۶ ص ۲۹۶) عرب کے محقق علامہ شعیب الارنووط جو کہ متفقہ محقق ہیں غیر مقلدین کے نزدیک بھی وہ مسند احمد کی ایک روایت جس کو امام احمد بن حنبلؒ اپنے شیخ یعنی مسیٰ بن ھلال سے روایت کرتے ہیں تو اس روایت پر حکم لگاتے ہوئے علامہ شعیب الارنووط لکھتے ہیں : حديث صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن، موسى بن هلال -وهو العبدي شيخ المصنف- حسن الحديث، فقد روى عنه جمع، وقال ابن عدي: أرجو أنه لا بأس به، وقال الذهبي: صالح الحديث. (مسند احمد بن حنبل برقم : 12031) تو امام ابو حاتم کا مجھول کہنا مردود ہوا اور اسی طرح امام عقیلی کی جرح بھی مبھم و مردود ثابت ہوئی کیونکہ یہ مسلمہ اصول ہے کہ جب کوئی کسی کو مجھول کہے اور دوسرا امام اسکی توثیق کرے تو اس راوی کی جہالت خود بن خود ختم ہو جاتی ہے اور جب کچھ محدثین ایک راوی کی توثیق کریں اور اس پر جرح مبھم ہو تو اس پر تعدیل مقدم ہوتی ہے ۔ یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے۔ اور یہ سند حسن ہے ۔ موسیٰ بن ھلال جو العبدی ہے اور وہ شیخ یعنی استاز ہیں مصنف (امام احمد بن حنبلؒ) کے یہ حسن الحدیث ہیں ۔ امام ابن عدی نے کہا ان سے روایت لینے میں کوئی حرج نہیں ۔ اور امام ذھبیؒ نے کہا یہ صالح الحدیث ہیں تو موسیٰ بن ھلال حسن الحدیث درجے کا راوی ہے اور اس پر کوئی جرح مفسر ثابت نہیں ہے ۔ اور یہ روایت حسن ہے۔ (دعا گو۔ا سد الطحاوی خادم الحدیث ۶ ستمبر 2018) تمام اسکین نیچے موجود ہیں
×
×
  • Create New...