Jump to content

کمیونٹی میں تلاش کریں

Showing results for tags 'نماز'.

  • ٹیگ میں سرچ کریں

    ایک سے زائد ٹیگ کاما کی مدد سے علیحدہ کیے جا سکتے ہیں۔
  • تحریر کرنے والا

مواد کی قسم


اسلامی محفل

  • اردو فورم
    • اردو ادب
    • فیضان اسلام
    • مناظرہ اور ردِ بدمذہب
    • سوال و درخواست
    • گفتگو فورم
    • میڈیا
    • اسلامی بہنیں
  • انگلش اور عربی فورمز
    • English Forums
    • المنتدی الاسلامی باللغۃ العربیہ
  • اسلامی محفل سے متعلق
    • معلومات اسلامی محفل
  • Arabic Forums

تتیجہ ڈھونڈیں...

وہ نتیجہ نکالیں جن میں یہ الفاظ ہوں


تاریخ اجراء

  • Start

    End


Last Updated

  • Start

    End


نمبرز کے حساب سے ترتیب دیں...

Joined

  • Start

    End


Group


AIM


MSN


Website URL


ICQ


Yahoo


Jabber


Skype


مقام


Interests


پیر

  1. (امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا 40 سال تک عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھنا اور پلمبری فرقے کا اعتراض ) محترم قارئین كرام بیشک اللّه رب العزت نے اپنے مقریب بندوں کو بیشمار کمالات و کرامات سے نوازا ہے۔۔ لیکن کچھ لوگ اپنی جہالت سے مجبور ہیں اور آئے دن اولیا عظام و صحابہ كرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی تنقیص و توہین کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں جس میں سرِ فہرست دورِ حاضر کا بدترین فتنہ نام نہاد انجینئر مرزا بھی ہے : اعتراض:(انجینئر محمد علی مرزا عرف پلمبر اپنی ایک ویڈیو میں بکواس کرتے ہوے کہتا ہے کہ ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی شخص مسلسل چالیس سال عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھے یہ تو کہانی ہے جو کہ علماء احناف نے معاذ اللہ خود سے بنائی ہے) °°°°°°°°°°°الجواب و باللہ التوفیق°°°°°°°°° پہلی عرض تو یہ ہے کہ بیشک کرامات حق ہیں جس کہ دلائل قرآن و احادیث میں بیشمار موجود ہیں اور امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عشاء کے وضو سے چالیس سال تک فجر کی نماز پڑھنا یہ بھی کرامت میں سے ہی ہے اور کرامت کہتے ہی اسی ہیں جو عقل سے بلاتر ہو جس کی ایک دلیل قرآن سے ملاحظہ فرمائیں: ______________________________________ ارشاد باری تعالٰی ہے: (قَالَ الَّذِیْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْكِتٰبِ اَنَا اٰتِیْكَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْكَ طَرْفُكَؕ-فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٗ قَالَ هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ ﱎ لِیَبْلُوَنِیْۤ ءَاَشْكُرُ اَمْ اَكْفُرُؕ-وَ مَنْ شَكَرَ فَاِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ كَرِیْمٌ(۴۰)) ترجمہ:اُس نے عرض کی جس کے پاس کتاب کا علم تھاکہ میں اسے آپ کی بارگاہ میں آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے لے آؤں گا (چنانچہ) پھر جب سلیمان نے اس تخت کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا تو فرمایا: یہ میرے رب کے فضل سے ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری؟ اور جو شکر کرے تو وہ اپنی ذات کے لئے ہی شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا رب بے پرواہ ہے، کرم فرمانے والا ہے۔(پ19،النمل:40) __________________________________________ محترم قارئین كرام آپ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے امّتی حضرت آصف بن برخیا رحمہ اللہ کا واقعہ پڑھا جن کہ پاس کتاب کا کچھ علم تھا اور وہ اتنی بڑی کرامت دیکھا گئے پلک جھپکنے سے بھی پہلے وہ تخت جو ہزاروں میل کہ فاصلہ پر تھا اس کو اٹھا کر حضرت سلیمان علیہ السلام کے سامنے پیش کر دیا۔۔ تو معلوم ہوا کہ اللّه رب العزت اپنی عطا سے اولیائے عظام کو کرامات عطا فرماتا ہے اب یہاں تو حضرت سلیمان علیہ السلام کہ امتی حضرت آصف تھے جن کہ کمال کا یہ عالم تھا عوام اہلسنّت ذرا دل پر ہاتھ رکھ کر ایمان کی ٹھنڈک کو محسوس کرتے ہوۓ سوچیں جب حضرت سلیمان کہ امتی جن کے پاس کتاب کا کچھ علم ہو ان کہ کمالات و کرامات کا یہ عالم ہے تو پھر جو امّت تمام امّتوں میں سب سے افضل ہو یعنی امّت محمدی اِس امّت کہ امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کرامات و كامالات کا عالم کیا ہوگا۔۔ اب آتے ہیں ان مستند اور معتبر محدثین کی طرف جنہوں نے امام اعظم کی اس کرامت کو اپنی کتب کی زینت بنایا ہے _______________________________________ امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں وعن زافر بن سليمان، قال كان أبو حنيفة يحيى الليل بركعة يقرأ فيها القرآن. وعن أسد بن عمرو، قال: صلى أبو حنيفة صلاة الفجر بوضوء العشاء أربعين سنة، وكان عامة الليل يقرأ القرآن فى ركعة، وكان يسمع بكاؤه حتى ترحمه جيرانه، وحفظ عليه أنه ختم القرآن فى الموضع الذى توفى فيه سبعة آلاف مرة زافر بن سلیمان نے کہا ابو حنیفہ رات کو ایک رکعت پڑھتے جس میں وہ پورا قرآن پڑھتے تھے۔ اسد بن عمرو سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: ابو حنیفہ نے چالیس سال تک فجر کی نماز عشا کے وضو سے پڑھی، اور رات کے اکثر حصے میں ایک ہی رکعت میں پورا قرآن پڑھا کرتے تھے 📓(لكتاب: تهذيب الأسماء واللغات جلد2 صفحہ88) ________________________________________ امام شمس الدین ذھبی الشافعی لکھتے ہیں: وعن أسد بن عمرو: أن أبا حنيفة رحمه الله-صلى العشاء والصبح بوضوء أربعين سنة اسد بن عمرو سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا امام ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ نے چالیس سال تک فجر کی نماز عشاء کہ وضو سے پڑھی۔ 📗(الكتاب: سير أعلام النبلاء جلد6 صفحہ 399) _______________________________________ امام ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اسد بن عمرو نے روایت کی ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ رات کو نماز پڑھتے تھے اور ہر شب کو قرآن پڑھتے تھے اور روتے تھے حتی کہ آپکے پڑوسیوں کو آپ پر رحم آ جا تا تھا آپ چالیس سال تک عشاء کے وضو سے صبح کی نماز پڑھتے رہے اور جس جگہ آپ نے وفات پائی آپ نے اس میں ستر ہزار دفعہ قرآن ختم کیا 📓(الکتاب:تاریخ ابن کثیر جلد10 صفحہ134) ______________________________________ خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطی الشافعی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ابی یحییٰ حمانی امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعض تلامذہ سے روایت کرتے ہیں امام صاحب عشاء کے وضو سے فجر کی نماز پڑھتے تھے اور رات میں نوافل پڑھنے کے لیے ریش مبارک میں کنگھی کر کے مزین فرماتے تھے۔ 📕(الکتاب:تبییض الصحیفة صفحہ61) محترم قارئین كرام یہ تمام وہ اکابرین و آئمہ حدیث ہیں جن کو مرزا صاحب اپنا مانتے ہیں اور اپنی ویڈیوز میں انھیں کتب سے حوالہ جات دیکھا رہے ہوتے ہیں۔۔ یہی مرزا صاحب کا دجل ہے اور منافقت ہے کہ اپنے مقصد کی بات کو لے لیتے ہیں اور باقی سب ان کہ نذدیک کہانی قصہ اور معاذ اللہ بدعت ہوتی ہے تو اب مرزا صاحب اور ان کہ اندھے مقلدین ذرا ہمّت کریں اور لگائیں فتویٰ امام نووی۔امام ذھبی۔امام ابن کثیر رحمہ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین پر اللّه تعالیٰ حق پات سمجھنے کی توفیق عطا فرماۓ آمین بجاہ النبی الامین ______________________________________ ازقلم:خادم اھلسنّةوالجماعة محمد حسن رضا قادری رضوی الحنفی البریلوی
  2. *جس نے جان بوجھ کر ایک نماز چھوڑی اس کا نام جہنم کے دروازے پر لکھ دیا جاتا ہے جس میں وہ داخل ہوگا۔* 1 📕حدثنا إبراهيم بن محمد بن يحيى المزكي النيسابوري، في جماعة قالوا: ثنا محمد بن إسحاق الثقفي، ثنا أبو معمر صالح بن حرب , ثنا إسماعيل بن يحيى، عن مسعر، عن عطية، عن أبي سعيد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من ترك صلاة متعمدا كتب اسمه على باب النار فيمن يدخلها» تفرد به صالح , عن إسماعيل، عنه (حلیاۃ اولیاء و طبقات اصفیاء7/254) 2 :📕473 - أخبركم أبو الفضل الزهري، نا أبي، نا محمد بن غالب، نا صالح بن حرب، نا إسماعيل بن يحيى بن طلحة بن عبيد الله، عن مسعر، عن عطية، عن أبي سعيد الخدري، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا ترك الرجل الصلاة متعمدا كتب اسمه على باب النار فيمن يدخلها» (حدیث ابیی فضل الزھری: صفحہ465) دونوں میں اسماعیل مسعر سے روایت کر رہا ہے اس کی حقیقت ہم آگے بیان کرتے ہیں 1 *إسماعيل بن يحيى* اس کا پورا نام: اسماعیل بن یحیی بن عبيد الله بن طلحة بن عبد الله بن عبد الرحمن بن أبي بكر الصديق۔ ✍️یہ ایک یضح الحدیث راوی ہے اس پر کذاب جروحات بھی موجود ہیں ✍️اور ایسے راوی کی روایت موضوع ہوتی ہے۔ ✍️اور اس پر ایک خاص جرح مسعر کے حوالہ سے ہے کہ مالک و مسعر سے یہ موضوع رویات نقل کرتا ہے۔ ✍️اور اس کذاب راوی نے یہ روایت بھی مسعر سے روایت کی ہے لہذا یہ روایت بھی موضوع ہے۔ خود صاحب حلیاۃ اولیاء (امام ابو نعیم اصبھانی رحتہ اللہ علیہ) اپنی کتاب الضعفاء الابیی نعیم صفحہ 60 پر فرماتے ہیں کہ: 12- إسماعيل بن يحيى بن عبيد الله التيمي حدث عن مسعر ومالك بالموضوعات يشمئز القلب وينفر من حديثه متروك، کہتے ہیں کہ اسماعیل مالک و مسعر سے موضوعات بیان کرتا ہے اور دل میں کراہت و نفرت سی ہے اس کے لیے اور اسکو حدیث میں ترک(چھوڑ دینا) ہے۔ 2: عطیہ عوفی راوی مشھور ضعیف الحدیث راوی ہے، ✍️لیکن یہ حدیث اسماعیل کی وجہ سے موضوع ہے ✍️اس میں صالح اور اسماعیل کا تفرد بھی ہے جیسا کہ خود صاحب حلیاۃ اولیاء نے فرمایا ہے۔ اسکا مطلب اس کے علاوہ اس کی کوئی اور سند بھی نہیں ہے الحکم الحدیث:- موضوع (محمد عمران علی حیدری) 01.04.2022. 28شعبان 1443ھ
  3. ★تــحـقـیـــق حـــدیـثــــــ اســـماءالـرجــال★ الـســــــوال ↓↓↓↓↓ ☆اَلسَّــلَامْ عَلَیْڪُمْ وَرَحمَةُ اللہِ وَبَرَڪَاتُہْ☆ نماز کی حالت میں ماں کے آواز دینے پر نماز توڑ دینے والی روایت کی تحقیق فرما دیں کیا یہ روایت صحیح ہے اور اگر صحیح ہے تو کیا یہ ہر نماز کے لئے ہے یا کسی نماز کے ساتھ خاص ہے مکمل تفصیل بتا دیں اور کیا باپ کے بلانے پر بھی نماز توڑ سکتے ہیں ؟؟ جزاک اللہ ❖◉➻══•══※✦※══•══➻◉❖ 📝الجــــــــــــــــــــــــــوابــــــــــــــــــــ بعـــــون المــلــــك الــــــوهــــــــــــاب اَلصَّـــلٰوةُ وَالسَّـــلَامُ عَلَیــْـكَ یَارَسُـــوْلَ اللّہ وَعَلیٰ اَلِکَ وَاَصْحَابِکَ یَاحَبِیْبَ اللّٰہﷺ ★وَعَلَیْڪُمْ اَلسَّــلَامْ وَرَحْمَةُ اللہِ وَبَرَڪَاتُہْ★ ┄┅════❁✾✾✾❁════┅┄ روایـتــــ کــی مـکمــل تحـقیـق درج ذیـــل ہـــے ⇊ ✍️ یہ روایت متصلاً ہمیں دو قسم کے الفاظوں کے ساتھ ملتی ہے👇 امام بیہقیؒ (المتوفى: 458هـ) نے فرمایا 7497 - أَخْبَرَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ بْنُ بِشْرَانَ، أنا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّزَّازُ، نا يَحْيَى بْنُ جَعْفَرٍ، أنا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، نا يَاسِينُ بْنُ مُعَاذٍ، نا عَبْدُ اللهِ بْنُ مَرْثَدٍ، عَنْ طَلْقِ بْنِ عَلِيٍّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَوْ أَدْرَكْتُ وَالِدَيَّ أَوْ أَحَدَهُمَا وَأَنَا فِي صَلَاةِ الْعِشَاءِ، وَقَدْ قَرَأْتُ فِيهَا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ تُنَادِي: يَا مُحَمَّدُ، لَأَجَبْتُهَا: لَبَّيْكِ " يَاسِينُ بْنُ مُعَاذٍ ضَعِيفٌ 📓شعب الإيمان 10/284 📒كتاب مجموع فيه مصنفات أبي جعفر ابن البختري 1/210 اور جن الفاظ کے ساتھ یہ روایت مشہور ہے 👇 امام ابن الجوزیؒ (المتوفى: 597هـ) نے فرمایا 25 - أخبرنا أَبُو الْقَاسِمِ الْجُرَيْرِيُّ، قَالَ: أَنْبَأَ أَبُو بَكْرٍ الْخَيَّاطُ، قَالَ: أَنْبَأَ ابْنُ دُوسْتَ الْعَلَّافُ، قثنا أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ الْمُنَادِي، قثنا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قثنا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، قثنا يَاسِينُ بْنُ مُعَاذٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ قُوَيْدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ طَلْقَ بْن عَلِيٍّ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ أَدْرَكْتُ وَالِدَيَّ أَوْ أَحَدَهُمَا وَقَدِ افْتَتَحْتُ صَلَاةَ الْعِشَاءِ فَقَرَأْتُ فَاتِحَةَ الْكِتَابِ *فَدَعَتْنِي أُمِّي تَقُولُ:* يَا مُحَمَّدُ لَقُلْتُ لَبَّيْكِ " 📙كتاب البر والصلة لابن الجوزي ص57 📕كتاب كنز العمال 16/470 ترجمہ: اگر میں میرے والدین، یا ان دونوں میں سے کسی ایک کو پاتا ، جبکہ میں عشاء کی نمازشروع کرکے سورہ فاتحہ پڑچکا ہوتا ، اور وہ مجھے پکارتے (یا ماں پکارتی ) : اے محمد ﷺ ، تو میں جواباً لبیک کہتا ============================ اس حدیث کی سند کا دارومدار ياسين بن معاذ پر ہے جو روایت کرتا ہے عبد الله بن قریر اور وہ روایت کرتے ہیں طلق بن علی سے عبداللہ کے والد کا نام مختلف اسانید میں محرف آیا ہے مرثد ٫ قرین ٫ قوید مگر اصل نام قُرَیر) ہے ) ملاحظہ ہو 👇 📗 الاکمال لابن ماکولا (7/ 84) ============================ ‼️ متصل سند میں یاسین بن معاذ سخت ترین مجروح راوی ہے اس کے بارے میں ائمہ جرح و تعدیل کا کلام ملاحظہ ہو 👇 ◈ محمد بن إسماعيل البخاريؒ : *منكر الحديث* ◈ مسلم بن الحجاج النيسابوريؒ : *منكر الحديث* ◈ أحمد بن شعيب النسائيؒ : *متروك الحديث* ◈ أبو بكر البيهقيؒ : *متروك، وضعيف* ◈ أبو حاتم بن حبانؒ البستي : يروى الموضوعات عن الثقات، وينفرد بالمعضلات عن الأثبات، لا يجوز الاحتجاج به خلاصہ یہ ہوا کہ یہ راوی متروک الحدیث ہے اس کی روایت سے احتجاج نہیں کیا جا سکتا اور وہ قابل اعتبار بھی نہیں ❗ مزید اس سند کو نقل کر کے ائمہ نے کیا فرمایا 👇 ◉ امام ابن الجوزیؒ نے فرمایا 👇 هَذَا مَوْضُوع عَلَى رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفِيهِ ياسين 📓 كتاب الموضوعات لابن الجوزي 3/85 ◉ خاتم الحفاظ امام جلال الدین سیوطیؒ نے فرمایا 👇 مَوْضُوع: آفَتُهُ ياسين (قُلْتُ) أخرجه الْبَيْهَقِيّ وَالله أعلم. 📕 كتاب اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة 2/250 ◉ امام محمد طاہر الفَتَّنِيؒ نے فرمایا 👇 مَوْضُوع قلت أخرجه الْبَيْهَقِيّ، وَفِي الْوَجِيز هُوَ حَدِيث طلق عَن عَليّ رَضِي الله عَنهُ وَفِيه يس بن معَاذ يروي الموضوعات قلت قَالَ الْبَيْهَقِيّ ضَعِيف 📙 كتاب تذكرة الموضوعات للفتني ص202 ‼️ ائمہ جرح و تعدیل و محدثین کی تصریحات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ روایت متصلاً ہرگز قابل احتجاج نہیں اور قابل اعتبار نہیں ◉➻═════════════➻◉ ✍️ ہاں مگر اس طرح کی روایت کو مرسلاً بھی دو طرق سے بیان کیا گیا ہے ملاحظہ ہو ⇊ 8013 - حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ قَالَ: ثنا حَفْصٌ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا دَعَتْكَ أُمُّكَ فِي الصَّلَاةِ فَأَجِبْهَا، وَإِذَا دَعَاكَ أَبُوكَ فَلَا تُجِبْهُ» 📓 مصنف ابن أبي شيبة 2/191 8014 - حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ مَكْحُولٍ، قَالَ: «إِذَا دَعَتْكَ وَالِدَتُكَ وَأَنْتَ فِي الصَّلَاةِ فَأَجِبْهَا، وَإِذَا دَعَاكَ أَبُوكَ فَلَا تُجِبْهُ حَتَّى تَفْرُغَ» 📕 مصنف ابن أبي شيبة 2/191 📗 شعب الإيمان 10/285 ترجمہ: امام ابن ابی شیبہؒ نے محمد بن المنکدرؒ اور مکحولؒ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تمہاری ماں تم کو نماز میں بلائے تو اس کی خدمت میں حاضر ہو اور جب تمہارا باپ بلائے تو حاضر نہ ہو حتیٰ کہ تم نماز سے فارغ ہو جاؤ [ ھذا حدیث مرسل صحیح ] ============================ ‼️ جیسا کہ واضح ہو گیا کہ یہ روایت مرسلاً صحیح ہے البتہ متصلاً جو الفاظ ہیں وہ ہرگز قابل احتجاج اور اعتبار نہیں مرسل حدیث پر مطلقاً ضعیف ہونے کا حکم دور حاضر کے وہابی غیرمقلدین لگاتے ہیں 🌟 جب کہ مرسل تمام صحابہ کرامؓ و تابعینؒ اور ائمہ اربعہؒ کے ہاں حجت ہے البتہ امام شافعیؒ کے ہاں مرسل معتضد حجت ہے ❗ اس موضوع پر جامع اور مفصل تحریر لکھی جا سکتی ہے مرسل کی حجیت پر مگر اختصاراً ایک دلیل ہی عرض کر دیتا ہوں 👇 وَقَالَ ابْنُ جَرِيرٍ: وَأَجْمَعَ التَّابِعُونَ بِأَسْرِهِمْ عَلَى قَبُولِ الْمُرْسَلِ، وَلَمْ يَأْتِ عَنْهُمْ إِنْكَارُهُ، وَلَا عَنْ أَحَدٍ مِنَ الْأَئِمَّةِ بَعْدَهُمْ إِلَى رَأْسِ الْمِائَتَيْنِ قَالَ ابْنُ عَبْدِ الْبَرِّ: كَأَنَّهُ يَعْنِي أَنَّ الشَّافِعِيَّ أَوَّلُ مَنْ رَدَّهُ ترجمہ: علامہ ابن جریر ؒ فرماتے ہیں ’’تابعین سب کے سب اس امر پر متفق تھے کہ مرسل قابل احتجاج ہے ۔ تابعین سے لے کر دوسری صدی کے آخر تک ائمہ میں سےکسی شخص نے مرسل کے قبول کرنے کا انکار نہیں کیا ۔ امام ابن عبدالبرؒفرماتے ہیں کہ گویاامام شافعیؒ ہی وہ پہلےبزرگ ہیں جنہوں نے مرسل کے ساتھ احتجاج کا انکار کیاہے‘‘۔ 📓 كتاب تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي 1/223 ‼️ جیسا کہ واضح ہوگیا کہ تمام تابعینؒ کا مرسل کی حجیت پر اتفاق تھا اسی طرح مذہب احناف مالکیہ اور حنابلہ کا بھی لہذا خلاصہ یہ ہوا کہ مرسل حجت ہے اور یہ حدیث مرسل صحیح ہے ❖◉➻══•══※✦※══•══➻◉❖ خـــــــــــــلاصـــــــــــــہ کـــــــــــــــــــلام ✍️ چناچہ پوری تحقیق سے ثابت ہوا کہ جن الفاظ کے ساتھ یہ روایت متصلاً ملتی ہے وہ صحیح نہیں البتہ یہ روایت مرسلاً صحیح ہے 1 جیسا کہ بتایا گیا یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ صحیح ہے 👇 رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تمہاری ماں تم کو نماز میں بلائے تو اس کی خدمت میں حاضر ہو اور جب تمہارا باپ بلائے تو حاضر نہ ہو حتیٰ کہ تم نماز سے فارغ ہو جاؤ 2 جی بالکل یہ روایت نوافل نماز کے ساتھ خاص ہے ہاں البتہ فرض نماز بھی اگر پڑھ رہا ہو اور والدین مصیبت میں پکاریں تو پھر یہ حکم فرض کا ہے کہ وہ نماز ترک کر دے اور ان کی بارگاہ میں حاضر ہو جائے اور اگر کسی سخت ضرورت اور مدد کے لیے نہ پکاریں تو فرض نماز توڑنا جائز نہیں اگر نفل نماز پڑھ رہا ہے اور والدین کو معلوم نہیں کہ بیٹا نماز پڑھ رہا ہے تو ان کے پکارنے یا آواز دینے پر نماز توڑ کر ان کی خدمت میں حاضر ہو جائے اور اگر انہیں معلوم ہے تو پھر تلاوت کو بلند کرے یا سبحان اللہ کہہ کر احساس دلانے کی کوشش کرے اگر پھر بھی بلائیں تو ترک کرکے ان کی خدمت میں حاضر ہو جائے 3 جی بالکل باپ کا بھی وہی حکم ہے جو اوپر بیان کر دیا گیا اگر فرض ہو اور سخت مصیبت اور پریشانی میں بلائے تو ترک کرکے ان کی خدمت میں پہنچ جائے اگر نفل ہو اور ان کو معلوم نہ ہو تو پھر بلائیں تو پھر ترک کرکے ان کی خدمت میں پہنچ جائے اور اگر ان کو معلوم ہو تو احساس دلانے کی کوشش کرے اگر پھر بھی بلائیں تو ترک کرکے ان کی خدمت میں حاضر ہو جائے دلیل ملاحظہ ہو 👇 "قلت: لکن ظاهر الفتح أنه نفي للجواز وبه صرح في الإمداد بقوله: أي: لایجوز قطعها بنداء أحد أبویه من غیر استغاثة وطلب إعانة لأن قطعها لایجوز إلا لضرورة، وقال الطحطاوي: هذا في الفرض، وإن کان في نافلة إن علم أحد أبویه أنه في الصلاة وناداه لا بأس أن لایجیبه، وإن لم یعلم یجیبه قوله: إلا في النفل أي فیجیبه وجوبًا و إن لم یستغث لأنه لیم عابد بني إسرائیل علی ترکه الإجابة وقال ﷺ ما معناه: لو کان فقیهًا لأجاب أمّه، وهذا إن لم یعلم أنه یصلي، فإن علم لاتجب الإجابة لکنّها أولی کما یستفاد من قوله: لا باس" 📓 كتاب الدر المختار وحاشية ابن عابدين 1/654 📕كتاب مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح ص138 📙كتاب حاشية الطحطاوي ص372 ╭┄┅─══════════════─┅┄╮ ༻◉ لبیک یا رسول اللہ ﷺ ◉༺ ╰┄┅─══════════════─┅┄╯ فقـــــــــــــط واللہ ورسولـــــــــــــہٗ اعلـــــــــم ____خادم اہلسنت و جماعت محمد عاقب حسین رضوی____★᭄✨🌸
  4. امام صاحب تراویح کی پہلی رکعت میں قرآن پاک کی تلاوت کر رہے ہوتے ہیں تو کچھ مقتدی پیچھے بیٹھے رہتے ہیں جب امام صاحب رکوع میں جانے لگتے ہیں تو فورا نماز میں شامل ہوجاتے ہیں ایسا طریقہ درست ہے یا نہیں؟
  5. کیاعورت اندھیرے میں ننگے سر نماز پڑھ سکتی ہے؟
×
×
  • Create New...