Jump to content

Search the Community

Showing results for tags 'کو غسل دیا جاتا ہے'.

  • Search By Tags

    Type tags separated by commas.
  • Search By Author

Content Type


Forums

  • Urdu Forums
    • Urdu Literature
    • Faizan-e-Islam
    • Munazra & Radd-e-Badmazhab
    • Questions & Requests
    • General Discussion
    • Media
    • Islami Sisters
  • English & Arabic Forums
    • English Forums
    • المنتدی الاسلامی باللغۃ العربیہ
  • IslamiMehfil Team & Support
    • Islami Mehfil Specials
  • Arabic Forums

Find results in...

Find results that contain...


Date Created

  • Start

    End


Last Updated

  • Start

    End


Filter by number of...

Joined

  • Start

    End


Group


AIM


MSN


Website URL


ICQ


Yahoo


Jabber


Skype



Interests


Found 1 result

  1. حدیث ﴿ جب میت کو غسل دیا جاتا ہے تو قرآن مجید اس کے سرہانے کھڑا رہتا ہے اور جب میت کو قبر میں داخل کیا جاتا ہے تو قرآن مجید منکر نکیر اور میت کے درمیان حائل ہو جاتا ہے ﴾ کی مکمل تحقیق مکمل روایت اصل متن کے ساتھ درج ذیل ہے حضرت عبادة بن الصامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں تم میں سے جب کوئی شخص رات كو بيدار ہو تو بلند آواز سے قرأت کرے کیونکہ وہ اپنى تلاوت سے سرکش شیاطین اور فاسق جنات بھگا رہا ہوتا ہے فضاء اور گھر میں رہنے والے فرشتے اس کی نماز کے ساتھ نماز پڑھتے اور اس کی قرأت کو غور سے سنتے ہیں اور گزرنے والى رات آئندہ آنے والى رات کو یہ کہتے ہوئے وصیت کرکے جاتى ہے کہ تو بھى اس ( قرآن پڑھنے والے ) کو رات کى اسى گھڑى میں بیدار کرنا اور اس پر ہلکى رہنا چنانچہ جب اس کی وفات کا وقت ہوتا ہے تو قرآن کریم آتا ہے اور جب تک اس کے گھر والے اسے غسل دے رہے ہوتے ہیں قرآن کریم اس شخص کے سرہانے کھڑا رہتا ہے جیسے ہی گھر والے اس کے غسل وکفن سے فارغ ہوتے ہیں تو قرآن کریم آتا ہے اور اس شخص کے کفن اور سینے كے درمیان جاگزیں ہوجاتا ہے پھرجب اسے دفن کیا جاتا ہے اور منکر نکیر ( دو خاص فرشتوں کے نام ) اس کے پاس آتے ہیں تو قرآن کریم نکل کر میت اور ان فرشتوں کے درمیان حائل ہوجاتا ہے وہ فرشتے قرآن كريم سے کہتے ہیں ہمارے سامنے سے ہٹ جاؤ تاکہ ہم اس سے سوال و جواب کر سکیں تو قرآن کریم جواب میں کہتا ہے نہیں بخدا میں اس سے اس وقت تک نہیں ہٹوں گا جب تک ميں اسے جنت میں نہ داخل کرا دوں اور اگر تمہیں اس شخص کے بارے میں اللہ تعالى کى طرف سے کوئی حکم دیا گیا ہے تو تم اس حکم کو پورا کر گزرو پھر قرآن كريم اس میت کی طرف دیکھ کر کہتا ہے کیا تم مجھے پہچانتے ہو تو وہ کہتا ہے نہیں تب وہ قرآن اس سے کہتا ہے میں وہى قرآن تو ہوں جو تجھے رات كو جگائے رکھتا تھا ( تہجد میں بیدار ہو کر تم میرى تلاوت کیا کرتے تھے ) اور تمہیں دن بھر پیاسا رکھتا تھا اور تجھے تیرى شہوت سے روکے رکھتا تھا اور تیرے کانوں اور تیری آنکھوں کو ( غلط کاموں سے ) روکتا تھا سو تو مجھے دوستوں میں سچا دوست اور بھائیوں میں سچا بھائی پائے گا تجھے خوشخبرى ہو کہ منکر نکیر کے سوال و جواب کے بعد تمہیں کوئى غم اور پریشانى نہیں ہوگى پھر قرآن کریم اوپر اللہ تعالی كى طرف جائے گا اور اللہ تعالى سے اس کے لیے بستر اور چادر مانگے گا تو الله تعالى اس کے لیے بستر چادر جنت کے نور کا ايک چراغ اور جنت کی یاسمین ( چنبیلی ) عنايت كيے جانے کا فرشتوں كو حكم فرمائیں گے چنانچہ حکم کى تعمیل میں ایک ہزار آسمانی مقرب فرشتے ان چیزوں کو اٹھا کر لائیں گے ایسے میں قرآن کریم ان فرشتوں سے پہلے اس ميت كے پاس پہنچ جائے گا اور اس سے کہے گا تجھے میرے یہاں سے جانے کے بعد كوئى گھبراہٹ تو نہیں ہوئی ( میں یہاں سے جانے کے بعد ) مسلسل اللہ تعالى سے تیرے بارے میں سفارش کرتا رہا یہاں تک کہ اللہ تعالی نے تیرے لیے بستر چادر اور جنت کے نور کا چراغ اور جنت کی یاسمین ( چنبیلی ) عنايت كيے جانے کا حکم دے دیا پھر فرشتے اس ميت کو اوپر اٹھاتے ہیں اور اس كے لیے بستر بچھاتے ہیں اور اوڑھنى ( چادر ) میت کی پاؤں کی جانب رکھ دیتے ہیں اور یاسمین ( چنبیلی ) اس کے سینے کے پاس رکھ دیتے ہیں پھر اس ميت کو دائیں کروٹ پر لٹاتے ہیں اور وہ فرشتے اس کے پاس چلے جاتے ہیں یہ مردہ ان فرشتوں کو جاتا ہوا برابر دیکھتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ آسمان میں گم ہو جاتے ہیں پھر قرآن کریم میت کے لیے اوپر جاتا ہے تو قبر کے قبلہ کى جانب کو پانچ سو سال کی مسافت کے برابر کشادہ کردیا جاتا ہے یا جتنا اللہ تعالى کشادہ فرمانا چاہیں اتنى کشادہ کر دى جاتى ہے پھر قرآن کریم اس یاسمین ( چنبیلی ) كو اٹھا کر اس میت کے ناک کے نتھنوں کے پاس رکھ دیتا ہے ( تاکہ مسلسل وہ یاسمین کى خوشبو سے محظوظ ہوتا رہے ) پھر وہ قرآن کریم اس میت کے گھر والوں کے پاس ہر روز ایک یا دو دفعہ جاتا ہے اور ان کی خیر خبر اس میت کے پاس لاتا ہے اور اس کے گھر والوں کے لیے بھلائی کی دعا کرتا رہتا ہے اگر اس میت کى اولاد میں کوئى قرآن کریم سیکھ ليتا ہے تو قرآن كريم آكر اس ميت كو اس بات کی خوشخبری سناتا ہے اور اگر اس میت کے پسماندگان برے ہوں تب بھى روزانہ ایک یا دو مرتبہ قرآن کریم ان کے پاس آکر ان کے حال پر کڑھتا اور روتا رہتا ہے اور یہ سلسلہ قیامت کے صور پھونکے جانے تک جارى رہتا ہے۔ اس اثر کو باسند درج ذیل کتب میں روایت کیا گیا ❶ التهجد وقيام الليل لابن أبي الدنيا رقم الحدیث :- 30 ❷ كتاب المتفق والمفترق رقم الحدیث :- 1513 ❸ كتاب مسند الحارث رقم الحدیث :- 730 ❹ كتاب أخلاق أهل القرآن رقم الحدیث :- 90 ❺ كتاب فضائل القرآن لابن الضريس رقم الحدیث :- 115 گزشتہ کتب میں یہ روایت جن اسناد کے ساتھ نقل کی گئی ہے ان کی تحقیق ❶ حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا دَاوُدُ أَبُو بَحْرٍ ، عَنْ صِهْرٍ لَهُ يُقَالُ لَهُ : مُسْلِمُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ مُوَرِّقٍ الْعِجْلِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالا : " ....... یہ سند ضعیف ہے کیونکہ سند میں " أبو بحر داود بن راشد الطفاوي " لين الحدیث ہے اس سند کے بقیہ رجال ثقہ صدوق ہیں ( التقريب التهذيب :- 1789 ) ❷ أخبرنا بسر بن عبد الله الفاتني والقاضي أبو العلاء الواسطي قالا أخبرنا أحمد بن جعفر بن حمدان بن مالك القطيعي حدثنا بشر بن موسى حدثنا أبو عبد الرحمن المقرئ حدثنا رجل من أهل كرمان يقال له داود أبو بحر ح وقال أبو العلاء داود أبو يحيى والصواب أبو بحر وأخبرنا علي بن محمد بن علي الإيادي أخبرنا أحمد بن يوسف بن خلاد العطار حدثنا الحارث بن محمد التميمي حدثنا أبو عبد الرحمن المقرئ حدثنا داود أبو بحر عن صهر له يقال له مسلم بن أبي مسلم عن مورق العجلي عن عبيد ابن عمير الليثي قال قال عبادة بن الصامت رضي الله عنه ان دونوں اسناد میں بھی أبو بحر داود بن راشد الطفاوي کا ضعف موجود ہے ❸ حدثنا أبو عبد الرحمن المقرئ , ثنا داود أبو بحر , عن صهر , له يقال له مسلم بن مسلم , عن مورق العجلي , عن عبيد بن عمير الليثي قال: قال عبادة بن الصامت: " اس سند میں بھی داؤد موجود ہے لہذا یہ بھی ضعیف ہے ❹ أخبرنا أبو علي بن مسلمة , حدثكم أبو الحسن الحمامي , إملاء من لفظه , نا أبو القاسم عبد الله بن الحسن النحاس , أنا أبو بكر محمد بن القاسم بن بشار النحوي , نا محمد بن يونس الكديمي , نا يونس بن عبيد الله العنبري , نا داود بن يحيى الكرماني , عن مسلم بن شداد , عن عبيد الله بن عمير , عن عبادة بن الصامت صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: یہ سند تو ضعیف جداً ہے کسی کھاتے میں نہیں اس میں سب سے بڑا ضعف " محمد بن يونس الكديمي " ہے جس پر احادیث گھڑنے کا الزام ہے . نیز سند مقلوب بھی ہے . مثلاً داؤد بن راشد کی جگہ راوی کی غلطی سے داؤد بن یحییٰ آگیا اسی طرح ایک دو اور مقامات پر بھی سند مقلوب ہے ( ميزان الاعتدال :- 8353 ) ❺ أخبرنا أحمد، قال: حدثنا محمد، قال: أخبرنا عمرو بن مرزوق، أخبرنا داود أبو بحر الكرماني، عن مسلم بن أبي مسلم، عن مورق العجلي، أنه كان يحدث عن عبيد بن عمير الليثي، أنه سمع عبادة بن الصامت، يقول: " .... اس سند میں بھی داؤد متفرد ہے جس کا ضعف بیان کیا جاچکا ہے ان تمام اسناد کی تحقیق کے بعد یہ بات معلوم ہوگئی کہ اس روایت کو بیان کرنے میں " أبو بحر داود بن راشد الطفاوي " متفرد ہے اس کا کوئی متابع ہماری تحقیق میں نہیں اور راوی لین الحدیث ہے اور ایسے راوی کا تفرد آئمہ قبول نہیں کرتے جیسا کہ علامہ عینی رحمہ اللہ نے فرمایا ( شرح سنن أبي داود للعيني 3/423 ) البتہ اس روایت کا ایک ضعیف مرفوع شاہد موجود ہے ملاحظہ ہو حدثنا سلمة بن شبيب، قال: أخبرنا بسطام بن خالد الحراني، قال: أخبرنا نصر بن عبد الله أبو الفتح، عن ثور بن يزيد، عن خالد بن معدان، عن معاذ بن جبل رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من صلى منكم من الليل فليجهر بقراءته؛ فإن الملائكة تصلي بصلاته، وتسمع لقراءته، وإن مؤمني الجن الذين يكونون في الهواء، وجيرانه معه في مسكنه يصلون بصلاته، ويستمعون قراءته، وإنه ليطرد بجهر قراءته عن داره، وعن الدور التي حوله فساق الجن، ومردة الشياطين، وإن البيت الذي يقرأ فيه القرآن عليه خيمة من نور يقتدي بها أهل السماء كما يقتدون بالكوكب الدري في لجج البحار، وفي الأرض القفر فإذا مات صاحب القرآن رفعت تلك الخيمة فينظر الملائكة من السماء فلا يرون ذلك النور فتنعاه الملائكة من سماء إلى سماء فتصلي الملائكة على روحه في الأرواح، ثم تستقبل الملائكة الحافظين اللذين كانا معه، ثم تستغفر له الملائكة إلى يوم يبعث، وما من رجل تعلم كتاب الله، ثم صلى ساعة من الليل إلا أوصت به تلك الليلة الماضية الليلة المستقبلة أن تنبهه لساعته، وأن تكون عليه خفيفة، وإذا مات وكان أهله في جهازه يجيء القرآن في صورة حسنة جميلة واقفا عند رأسه حتى يدرج في أكفانه فيكون القرآن على صدره دون الكفن، فإذا وضع في قبره، وسوي عليه، وتفرق عنه أصحابه أتاه منكر، ونكير فيجلسانه في قبره يجيء القرآن حتى يكون بينه وبينهما فيقولان له: إليك حتى نسأله، فيقول: لا ورب الكعبة إنه لصاحبي، وخليلي ولست أخذله على حال فإن كنتما أمرتما بشيء فامضيا لما أمرتما، ودعاني مكاني فإني لست أفارقه حتى أدخله الجنة إن شاء الله، ثم ينظر القرآن إلى صاحبه، فيقول له: اسكن فإنك ستجدني من الجيران جار صدق ومن الأخلاء خليل صدق، ومن الأصحاب صاحب صدق، فيقول له: من أنت؟، فيقول: أنا القرآن الذي كنت تجهر بي، وتخفيني، وكنت تحبني فأنا حبيبك فمن أحببته أحبه الله ليس عليك بعد مسألة منكر، ونكير من غم، ولا هم، ولا حزن، فيسأله منكر، ونكير، ويصعدان، ويبقى هو والقرآن، فيقول: لأفرشنك فراشا لينا، ولأدثرنك دثارا حسنا جميلا جزاء لك بما أسهرت ليلك، وأنصبت نهارك، قال، فيصعد القرآن إلى السماء أسرع من الطرف فيسأل الله ذلك له فيعطيه الله ذلك، فينزل به ألف ألف من مقربي السماء السادسة فيجيئه القرآن، ويقول: هل استوحشت؟ ما زلت مذ فارقتك أن كلمت الله تبارك وتعالى حتى أخرجت لك منه فراشا، ودثارا، ومصباحا وقد جئتك به فقم حتى تفرشك الملائكة، قال: فتنهضه الملائكة إنهاضا لطيفا، ثم يفسح له في قبره مسيرة أربع مائة عام ثم يوضع له فراش بطانته من حرير أخضر حشوه المسك الأذخر، ويوضع له مرافق عند رجليه ورأسه من السندس، والإستبرق، ويسرج له سراجان من نور الجنة عند رأسه ورجليه يزهران إلى يوم القيامة، ثم تضجعه الملائكة على شقه الأيمن مستقبل القبلة، ثم يؤتى بياسمين من ياسمين الجنة ، ويصعد عنه، ويبقى هو والقرآن فيأخذ القرآن الياسمين فيضعه على أنفه غضا فيستنشقه حتى يبعث، ويرجع القرآن إلى أهله فيخبره بخبرهم كل يوم وليلة، ويتعاهده كما يتعاهد الوالد الشفيق ولده بالخبر فإن تعلم أحد من ولده القرآن بشره بذلك، وإن كان عقبه عقب السوء دعا لهم بالصلاح والإقبال " ترجمہ :- حضرت سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس گھر میں قرآن مجید کی تلاوت کی جاتی ہے اس گھر پر نور کا ایک خیمہ ہوتا ہے جس سے آسمان والے رہنمائی حاصل کرتے ہیں جس طرح ٹھاٹھیں مارتے سمندر اور چٹیل میدانوں میں موتی جیسے تارے سے راہنمائی کی جاتی ہے ، جب تلاوت کرنے والا فوت ہو جاتا ہے تو وہ نوری خیمہ اٹھا لیا جا تا ہے چنانچہ فرشتے آسمان سے دیکھتے ہیں تو انہیں وہ نور نظر نہیں آتا پھر فرشتے اسے ایک آسمان سے دوسرے آسمان پر لے جاتے اور اس کی روح پر درود بھیجتے ہیں پھر قیامت تک اس کے لیے استغفار کرتے ہیں اور جو بھی مومن کتاب اللہ سیکھتا ہے اور پھر رات کی کسی گھڑی میں نماز پڑھتا ہے تو وہ رات اگلی رات کو وصیت کرتی ہے کہ اس مومن کو وقت مقررہ پر بیدار کر دینا اور اس کے لیے آسان ہو جانا، جب وہ فوت ہو جاتا ہے تو اس کے گھر والے اس کے کفن کی تیاری میں مشغول ہوتے ہیں جبکہ قرآن کریم انتہائی حسین صورت میں اس کے سر کے پاس آکر ٹھہر جاتا ہے پھر کفن کے نیچے اور سینے کے اوپر آ جاتا ہے اور جب اسے قبر میں رکھ کر اس پر مٹی برابر کر دی جاتی اور دوست احباب واپس چلے جاتے ہیں تو نکیرین آکر اسے قبر میں بٹھا دیتے ہیں اتنے میں قرآن مجید مؤمن اور فرشتوں کے درمیان حائل ہو جاتا ہے فرشتے کہتے ہیں ایک طرف ہو جاؤ تا کہ ہم اس سے سوال کریں وہ کہتا ہے رب کعبہ کی قسم ایسا ہر گز نہ ہو گا کیونکہ یہ میرا مصاحب اور میرا دوست ہے میں اسے کسی حال میں اکیلا نہ چھوڑوں گا البتہ اگر تمہیں کسی بات کا حکم ہے تو تم اس پر عمل کرو اور مجھے میری جگہ پر رہنے دو کیونکہ میں اسے جنت میں پہنچانے سے پہلے اس سے جدا نہیں ہوں گا پھر قرآن پاک اپنے دوست کی طرف دیکھ کر کہتا ہے میں وہی قرآن ہوں جسے تو کبھی بلند آواز سے اور کبھی آہستہ پڑھتا تھا اور مجھ سے محبت رکھتا تھا پس مجھے تجھ سے محبت ہے اور جس سے میں محبت کرتا ہوں اللہ عزوجل بھی اسے محبوب بنالیتا ہے نکیرین کے سوالات کے بعد تجھ پر کوئی خوف ہے نہ کوئی غم نکیرین سوالات کرنے کے بعد تشریف لے جاتے ہیں اب مومن ہوتا ہے اور قرآن کریم کلام مجید فرماتا ہے میں تیرے لیے نرم و آرام وہ بستر بچھاؤں گا اور حسین و جمیل چادر عطا کروں گا کیونکہ تو رات بھر میرے لیے جاگتا اور دن بھر میرے لیے مشت اٹھاتا تھا پھر قرآن پاک پلک جھپکنے سے بھی جلدی آسمان کی طرف پرواز کر جاتا ہے اور رب ذوالجلال سے بستر اور چادر کا سوال کرتا ہے تو وہ اسے عطا کر دیے جاتے ہیں پھر چھٹے آسمان کے ایک ہزار مقرب فرشتے اس کے ساتھ اترتے ہیں اور قرآن کریم مومن سے دریافت فرماتا ہے کہ تو میری عدم موجودگی میں وحشت زدہ تو نہیں ہوا میں رب ذوالجلال کے پاس تیرے لیے بستر اور چادر لینے گیا تھا اور وہ لے بھی آیا ہوں لہذا کھڑا ہوجا تاکہ فرشتے بستر بچھادیں، پھر فرشتے اسے انتہائی نرمی سے اٹھاتے ہیں اور اس کی قبر 400 سال کی مسافت تک وسیع کر دی جاتی ہے پھر اس کے لیے اذفر خوشبو لگا سبز ریشم بچھایا جاتا ہے اور اس کے سر اور پاؤں کی جانب باریک اور موٹے ریشم کے تکیے لگائے جاتے ہیں اس کے سر اور قدموں کی طرف جنتی نور کے دو چراغ جلائے جاتے ہیں جو قیامت تک جلتے رہیں گے پھر فرشتے اسے دائیں پہلو پر قبلہ رخ کرکے اور اسے جنتی یاسمین دے کر پرواز کر جاتے ہیں اور پھر قیامت تک وہ اور قرآن رہ جاتے ہیں قرآن مجید شب و روز اس کی خبر اس کے گھر والوں کو دیتا ہے اور اس کے ساتھ اس طرح رہتا ہے جس طرح مہربان باپ اپنے بچے کے ساتھ رہتا ہے اگر اس کی اولاد میں سے کسی نے قرآن پاک پڑھ لیا تو قرآن کریم اس کو خوشخبری سناتا ہے اور اگر اس کے پیچھے اس کی اولاد میں سے کوئی برا ہو تو قرآن مجید اس کی اصلاح اور بہتری کے لیے دعا کرتا ہے ( كتاب مسند البزار رقم الحدیث :- 27655 :- وسندہ ضعیف ) اس حدیث کے ضعف کی وجہ امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے بیان فرمائی هذا حديث غريب في إسناده جهالة وإنقطاع یہ حدیث غریب ہے اور اس کی سند میں مجہول راوی بھی ہے اور انقطاع بھی ہے ( كتاب شرح الصدور بشرح حال الموتى والقبور ص132 ) شیخ الاسلام حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فرمایا قلت: وفيه مع انقطاعه نصر بن عبد الله ما عرفته، وبقية رجاله ثقات میں کہتا ہوں اس کی سند میں انقطاع کے ساتھ ساتھ نصر بن عبداللہ ہے جسے میں نہیں جانتا اور باقی راوی ثقہ ہیں ( نتائج الافکار 2/20 ) امام نور الدین ہیثمی رحمہ اللہ نے فرمایا رواه البزار وقال خالد: ابن معدان لم يسمع من معاذ، ... قلت: وفيه من لم أجد من ترجمه اس کو امام بزار نے روایت کیا اور کہا خالد بن معدان نے معاذ بن جبل رضي الله عنه سے سماع نہیں کیا اور میں ( ہیثمی ) کہتا ہوں اس کی سند میں ایسا راوی ہے جس کا ترجمہ مجھے نہیں ملا ( كتاب مجمع الزوائد ومنبع الفوائد 2/254 ) لہذا مکمل تحقیق کے بعد خلاصہ کلام یہ ہوا کہ اثر عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ ضعیف ہے کیونکہ اس کو بیان کرنے میں " أبو بحر داود بن راشد الطفاوي " کا تفرد ہے اور یہ لین الحدیث ہے جیسا کہ پیچھے بیان کیا گیا اور اس اثر کا مرفوع شاہد جو کہ حدیث معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہے وہ بھی ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں نصر بن عبدالله مجہول الحال ہے اور ابن معدان اور حضرت معاذ بن جبل کے درمیان انقطاع ہے لہذا یہ روایت مرفوعاً و موقوفاً ضعیف ہے اس کو دونوں طرح فضائل کے باب میں بیان کرنا درست ہے مرفوعاً و موقوفاً مگر زیادہ احتیاط اس کو موقوفاً بیان کرنے میں ہے کیونکہ اس میں نسبت نبی ﷺ کی طرف نہیں ہو رہی فقط واللہ و رسولہٗ أعلم بالصواب خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی مؤرخہ 17 ذو الحجہ 1443ھ
×
×
  • Create New...