Jump to content

کمیونٹی میں تلاش کریں

Showing results for tags 'اعلیحضرت'.

  • ٹیگ میں سرچ کریں

    ایک سے زائد ٹیگ کاما کی مدد سے علیحدہ کیے جا سکتے ہیں۔
  • تحریر کرنے والا

مواد کی قسم


اسلامی محفل

  • اردو فورم
    • اردو ادب
    • فیضان اسلام
    • مناظرہ اور ردِ بدمذہب
    • سوال و درخواست
    • گفتگو فورم
    • میڈیا
    • اسلامی بہنیں
  • انگلش اور عربی فورمز
    • English Forums
    • المنتدی الاسلامی باللغۃ العربیہ
  • اسلامی محفل سے متعلق
    • معلومات اسلامی محفل
  • Arabic Forums

تتیجہ ڈھونڈیں...

وہ نتیجہ نکالیں جن میں یہ الفاظ ہوں


تاریخ اجراء

  • Start

    End


Last Updated

  • Start

    End


نمبرز کے حساب سے ترتیب دیں...

Joined

  • Start

    End


Group


AIM


MSN


Website URL


ICQ


Yahoo


Jabber


Skype


مقام


Interests


پیر

  1. اعلیٰ حضرت مولانا امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ والرضوان کا اردو ترجمہ قرآن آپ نے 1911ء میں قرآن مجید کا ترجمہ کیا جو اردو تراجم قرآن میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا اور مشہور ترجمہ ہے، اس ترجمہ کا ترجمہ ہندی، سندھی، انگریزی، ڈچ، گجراتی، پشتو اور بنگلہ میں ہو چکا ہے۔ اس پر سب سے زیادہ مقالہ جات لکھے جا چکے ہیں، ڈاکٹر مجید اللہ قادری نے کنزالایمان اور معروف تراجم قرآن کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ہے۔[1] انگریزی تراجم ترميم کنز الایمان کو اب تک پانچ شخصیات نے انگریزی میں ترجمہ کیا ہے، ۔ پروفیسر محمد حنیف اختر فاطمی (کویت یونیورسٹی )۔[5] پروفیسر شاہ فریدالحق نے 1988ء میں مکمل کیا اور اسے بھارت اور پاکستان میں شائع کیا گیا ہے۔[6] ڈاکٹر مجیداللہ، لاہور۔ عاقب فرید قادری نے 2002ء کے قریب شائع کیا۔ ڈاکٹر سید جمال الدین اسلم ماہروی، ایٹہ بھارت۔ سید آل رسول حسنین میاں نظمی ماہروی، ایٹہ، بھارت۔ سندھی تراجم ترميم مفتی محمد رحیم سکندری نے سندھی زبان میں ترجمہ کر دیا ہے۔ مولانا عبد الوحید سرہندی ہندی تراجم ترميم مولانا نور الدین نظامی۔[2] کریول ترجمہ ترميم مولانا منصور اور مولانا نجیب (ماریشس) نے کریول زبان میں ترجمہ کیا۔ قرآن کا یہ ترجمہ سب سے پہلے شمیم اشرف ازہری جامع مسجد، ماریشس کے خطیب کی نگرانی میں 17 جنوری 1996ء کو شائع کیا گیا تھا۔ ان کے ساتھ اس اس کام میں دیگر علما اور اہل علم نے مدد کی۔ گجراتی ترجمہ ترميم گجراتی زبان میں مولانا حسن آدم گجراتی نے کنزالایمان مع تفسیر خزائن العرفان کا گجراتی ترجمہ کیا ہے جو گجراتی دان طبقہ میں کافی مقبول ہے۔[7] بنگلہ ترجمہ ترميم مفتی عبد المنان۔[2] پشتو ترجمہ ترميم قاری نور الہدیٰ نعیمی۔[2] ذاکر اللہ نقشبندی۔[2] ڈچ ترجمہ ترميم مولانا غلام رسول الٰہ دین۔[2] ترکی ترميم مولانا اسماعیل حقی۔[2] سرائیکی ترميم مولانا ریاض الدین شاہ۔[2] چترالی ترميم مولانا پیر محمد چشتی۔[2] منقول
  2. یہ محیر العقول واقعہ جہاں خدا کی قدرت کا روشن ثبوت ہے، وہیں اسے پڑھنے کے بعد یہ بھی اندازہ ہو جاتا ہے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ کا کیا رتبہ ہے۔ امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ اپنی مشہور کتاب ”الدولة المکیة“ کے حاشیے ”انباء الحی“ میں خود لکھتے ہیں: ” ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ فجر کی نماز کے لئے آخری وقت میں بیدار ہو پایا۔ احتلام ہوا تھا۔ پہلے نجاست کو پاک کیا، آرام سے استنجا کیا، مسواک اور خلال کیا، تب تک غسل خانے میں پانی رکھ دیا گیا۔ غسل خانے میں داخل ہونے سے پہلے جیب سے گھڑی نکال کر دیکھی تو سورج طلوع ہونے میں دس ہی منٹ کا وقت بچ رہا تھا۔ گھڑی زمین پر رکھ دی اور دعا پڑھ کر غسل خانے میں داخل ہوگئے۔ سردی کا زمانہ تھا؛ ایک ایک کرکے کپڑے اتارے۔ نہانے میں یہ بات ذہن سے بالکل اتر گئی کہ وقت بہت کم ہے؛ اعضائے وضو کو مبالغے سے تین تین بار دھوئے، پورے اطمینان سے نہایا، پھر سر کے بالوں کو تولیہ سے اچھی طرح پوچھ کر خشک کیا۔ غسل خانے سے جوں ہی باہر نکلا، سامنے زمین پر گھڑی رکھی تھی۔ اسے دیکھ کر اچانک قلت وقت کا خیال ہوا، دل میں سوچنے لگا کہ شاید نماز قضا ہو گئی ہے۔ لیکن گھڑی دیکھ کر حیران رہ گیا؛ اس میں طلوع آفتاب کو اب بھی دس منٹ باقی تھے۔ وقت ایک سکنڈ بھی زیادہ نہ ہوا تھا۔ افق کی طرف نظر پڑی تو زبان حال سے کہ رہا تھا کہ وقت ابھی باقی ہے؛ صرف فرض ہی نہیں سنت کی بھی گنجائش موجود ہے۔ نماز سے فراغت کے بعد جیبی گھڑی کو دوسری عمدہ گھڑیوں سے ملایا تو وقت سب میں مساوی تھا۔ بالفرض اگر میری جیبی گھڑی بند ہوگئی تھی تو وقت میں ضرور فرق ہوتا۔ اس بات پر اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس نے فقیر (امام احمد رضا خان) کے لئے ایک سکنڈ سے کم کے زمانے کو اتنا پھیلا دیا کہ اس لمحہ بھر میں اتنے کام ہو گئے جو دس منٹ میں بھی ممکن نہیں تھے۔ (انباء الحي انّ كلامه المصوّن تبيان لكلّ شئ، مترجم، ص ١٤٥) اعلی حضرت عظیم المرتبت امام حمد رضا خان علیہ الرحمہ نے یہ بھی وضاحت فرمائی ہے کہ اس طرح کی خارق عادت باتیں ایک سے زائد بار واقع ہوچکی ہیں، لیکن حضرت امام کی عاجزی دیکھیے کہ اسے کرامت کے بجائے معونت سے تعبیر کرتے ہیں۔
×
×
  • Create New...