Search the Community
Showing results for tags 'جواب'.
-
*سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے وفات کے وقت تین باتوں کا اقرار جرم کیا تھا؟* *اس کی حقیقت کیا ہے؟* *✍️شیعہ کی جہالت کا جواب✍️* *الصلوۃ والسلام علیک یاسیدی یارسول اللہؐ۔* *وعلی الک واصحبک یاسیدی یا خاتم المرسلین۔* *صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم* *⚔️🗡️ضرب حیدری🗡️⚔️* عبد الرحمن ابن عوف ، ابوبکر کی بیماری کے ایام میں اسکے پاس اسکی عیادت کرنے گیا اور اسے سلام کیا، باتوں باتوں میں ابوبکر نے اس سے ایسے کہا: مجھے کسی شے پر کوئی افسوس نہیں ہے، مگر صرف تین چیزوں پر افسوس ہے کہ اے کاش میں تین چیزوں کو انجام نہ دیتا، اور اے کاش کہ تین چیزوں کو انجام دیتا، اور اے کاش کہ تین چیزوں کے بارے میں رسول خدا سے سوال پوچھ لیتا، اے کاش میں فاطمہ کے گھر کی حرمت شکنی نہ کرتا، اگرچہ اس گھر کا دروازہ مجھ سے جنگ کرنے کے لیے ہی بند کیا گیا ہوتا. *الجواب بعون الوہاب* ✍️پہلی بات اس روایت کی تین اسنادہیں اور تینوں ہی قابل قبول نہیں ہیں۔ ان میں کوئی ایک سند بھی درجہ صحیح و حسن تک نہیں جاتی۔ *طریق نمبر 1* أنا حميد أنا عثمان بن صالح، حدثني الليث بن سعد بن عبد الرحمن الفهمي، حدثني علوان، عن صالح بن كيسان، عن حميد بن عبد الرحمن بن عوف، أن أباه عبد الرحمن بن عوف، دخل علي أبي بكر الصديق رحمة الله عليه في مرضه الذي قبض فيه ... فقال [أبو بكر] : « أجل إني لا آسي من الدنيا إلا علي ثَلاثٍ فَعَلْتُهُنَّ وَدِدْتُ أَنِّي تَرَكْتُهُنَّ، وثلاث تركتهن وددت أني فعلتهن، وثلاث وددت أني سألت عنهن رسول الله (ص)، أما اللاتي وددت أني تركتهن، فوددت أني لم أَكُنْ كَشَفْتُ بيتَ فاطِمَةَ عن شيء، وإن كانوا قد أَغْلَقُوا علي الحرب. *الخرساني،زنجويه الأموال، ج 1، ص 387۔* *الدينوري، الإمامة والسياسة، ج 1، ص 21، تحقيق: خليل المنصور، باتحقيق شيري، ج1، ص36، و با تحقيق، زيني، ج1، ص24.* *تاريخ الطبري، ج 2، ص 353.* *العقد الفريد، ج 4، ص 254.* *مروج الذهب، ج 1، ص 290* ترجمہ اوپر والا ہی ہے یہ اس کی عربی عبارت ہے۔ ✍️اس سند میں علوان بن داود البجلی منکر الحدیث ہے۔۔ *1* قال البخاري: علوان بن داود ويُقال: ابن صالح *منكر الحديث.* *2* وقال العقيلي: *له حديث لا يتابع عليه، وَلا يعرف إلا به.* *3* وقال أبو سعيد بن يونس: *منكر الحديث.* *طریق نمبر 2* أخبرنا أبو البركات عبد الله بن محمد بن الفضل الفراوي وأم المؤيد نازيين المعروفة بجمعة بنت أبي حرب محمد بن الفضل بن أبي حرب قالا أنا أبو القاسم الفضل بن أبي حرب الجرجاني أنبأ أبو بكر أحمد بن الحسن نا أبو العباس أحمد بن يعقوب نا الحسن بن مكرم بن حسان البزار أبو علي ببغداد حدثني أبو الهيثم خالد بن القاسم قال حدثنا ليث بن سعد عن صالح بن كيسان عن حميد بن عبد الرحمن بن عوف عن أبيه. *ابن عساكر الشافعي.* *تاريخ مدينة دمشق وذكر فضلها وتسمية من حلها من الأماثل، ج 30، ص417 ـ 419۔* ✍️اس نقل کرنے کے بعد امام مدائنی نے کہا سند مختصر ہے مطلب سند میں انقطاع ہے۔ *كذا رواه خالد بن القاسم المدائني عن الليث وأسقط منه علوان بن داود وقد وقع لي عاليا من حديث الليث وفيه ذكر علوان.* ✍️امام عقیلیؒ نے علوان والے طریق کو نقل کرنے کے بعد فرمایا اور لیث والا بھی اور آخر میں فرمایا کہ *ابو بکر والی حدیث اضطراب کا شکار ہے۔* ✍️ *وأورد العقيلي أيضًا من طريق الليث:* حدثني علوان بن صالح عن صالح بن كيسان أن معاوية قدم المدينة أول حجة حجها بعد اجتماع الناس عليه ... فذكر قصة له مع عائشة بنت عثمان , وقال: لا يعرف علوان إلا بهذا مع اضطرابه في حديث أبي بكر. طریق نمبر 2 کی سند میں ایک راوی ہے ✍️أبو الهيثم خالد بن القاسم اس پر کذاب، متروک اور وضح تک ہی جرح ہے۔✍️ اس کا پورا نام: *خالد بن قاسم* ہے اور اس نے شہرت: *خالد بن القاسم المدائني* کے نام سے پائی اور اس کی کنیت:*أبو الهيثم* ہے *1* إسحاق بن راهويهؒ فرماتے ہیں کہ: *كذاب.* *2* إبراهيم بن يعقوب الجوزجاني فرماتے ہیں کہ: *کذاب يزيد في الأسانيد* *3* محمد بن إسماعيل البخاريؒ فرماتے ہیں کہ: *متروك تركه علي والناس.* *4* مسلم بن الحجاج النيسابوريؒ فرماتے ہیں کہ: *متروك الحديث.* *5* أبو أحمد بن عدي الجرجانيؒ فرماتے ہیں کہ: *له عن الليث مناكير.* *6* امام الذهبيؒ فرماتے ہیں کہ : *ذكر فيه ما يقتضي الوضع.* *طریق نمبر 3* حدثني حفص بن عمر، ثنا الهيثم بن عدي عن يونس بن يزيد الأيلي عن الزهري أن عبد الرحمن بن عوف قال: دخلت علي أبي بكر في مرضه. *البلاذري. أنساب الأشراف، ج 3، ص 406 ، طبق برنامه الجامع الكبير.* ✍️اس طریق میں *الهيثم بن عدي* متروک الحدیث ہے۔ اور اضطراب بھی تینوں اسناد میں ہے۔ اس کا پورا نام:. *الهيثم بن عدي بن عبد الرحمن بن زيد بن أسيد بن جابر بن عدي بن خالد بن خيثم بن أبي حارثة* ہے *1:* أبو بكر البيهقيؒ فرماتے ہیں کہ *متروك الحديث، ونقل عن ابن عدي أنه: ضعيف جدا* *2:* أبو حاتم الرازيؒ فماتے ہیں کہ *متروك الحديث۔* *3:* أبو داود السجستانيؒ فرماتے ہیں کہ: *كذاب.* *4:* أبو زرعة الرازي فرماتے ہیں کہ : *ليس بشيء* *5:* امام يحيى بن معين الحنفیؒ فرماتے ہیں کہ: *ليس هو بثقة، ومرة: ليس بشيء، ومرة: ليس بثقة كان يكذب* خلاصہ کلام آپ کی پیش کردہ روایت سے استدلال کرنا ہی سرے سے غلط ہے کیوں کہ تینوں طریق میں ایک طریق بھی قابل استدلال نہی ہے۔ تینوں اسناد میں وضح،کذاب اور متروک راوی موجود ہیں۔ الحکم الحدیث: متروک (طالب دعا : محمد عمران علی حیدری) 17.09.2021. 09 صفر المظفر 1443ھ
-
★ تــحـقـیـــق حـــدیـثــــــ اســـماءالـرجــال ★ کــیــا حنــفــی گــمــراہ فــرقــہ ہــے انــجیــنئر مــرزا کــــی جـہـالـتـــــ کــا رد اَلصَّـــلٰوةُ وَالسَّـــلَامُ عَلَیــْـكَ یَارَسُـــوْلَ اللّہ وَعَلیٰ اَلِکَ وَاَصْحَابِکَ یَاحَبِیْبَ اللّٰہﷺ ❁◐••┈┉•••۞═۞═۞═۞═◐•••┉┈••◐❁ مشہور زمانہ فتنہ علمی یتیم جونیئر مرزا جہلمی غنیۃ الطالبین کے حوالے سے اعتراض کرتا ہے کہ اس کتاب میں سیدنا غوث الاعظمؓ نے حنفیہ کو مرجئہ فرقوں میں شمار کیا ہے ان شاءاللہ اس کا رد بلیغ کریں گے ✧✧✧ـــــــــــــــــ{﷽}ـــــــــــــــــــــ✧✧✧ سب سے پہلے یہ جان لیں کہ مرجئہ کے معنی کیا ہیں مرجئہ کا لفظ ارجاء سے ہے جس کے لغوی معنیٰ موخر کرنا ہیں اصطلاحی معنیٰ کے متعلق حافظ ابن حجر عسقلانیؒ 852ھ لکھتے ہیں وَمِنْهُم من أَرَادَ تَأْخِير القَوْل فِي الحكم على من أَتَى الْكَبَائِر وَترك الْفَرَائِض بالنَّار لِأَن الْإِيمَان عِنْدهم الْإِقْرَار والاعتقاد وَلَا يضر الْعَمَل مَعَ ذَلِك مقدمہ فتح الباری ص646📕 کہ بعض کے ہاں ارجاء سے مراد گناہِ کبیرہ کے مرتکب اور فرائض کے تارک پر دخول فی النار [آگ میں داخل ہونا] کے حکم کو مؤخر کرنا ہے کیونکہ ان [مرجئہ] کے ہاں ایمان محض اقرار اور اعتقاد کا نام ہے ارتکابِ کبیرہ اور ترکِ فرائض ایمان کے ہوتے ہوئے نقصان دہ نہیں سلطان المحدثین ملا علی قاریؒ 1014ھ فرماتے ہیں ثم المرجئه طائفته قالوا لایضر مع الایمان ذنب کمالا ینفع مع الکفر طاعته فزعموا ان احدا من المسلمین لایعاقب علي شئي من الکبائر شرح فقہ اکبر ص75📔 ترجمہ: مرجئہ ایسا فرقہ ہے جس کا اعتقاد یہ ہے کہ ایمان کے ہوتے ہوئے گناہ کچھ نقصان دہ نہیں، جیسے کفر کی موجودگی میں طاعت کچھ فائدہ مند نہیں ان کا اعتقاد یہ ہے کہ کوئی مسلمان کبیرہ گناہ کی وجہ سے سزا پا ہی نہیں سکتا ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ تو آپ لوگوں کو اس فرقے کا تعارف تو پتہ چل ہی گیا ہوگا اب اصل میں یہ فرقہ حنفیہ نہیں بلکہ فرقہ غسانیہ ہے یعنی غسان ابن عبا الکوفی کے متبعین کو فرقہ غسانیہ کہتے ہیں ان کے عقائد آپ کو اوپر بتائے جا چکے ہیں مزید دیکھ لیں امام عبدالقاھر البغدادیؒ 429ھ فرقہ مرجئہ کے پیرو غسان مرجئی کے بارے میں لکھتے ہیں قال انه يزيد ولا ينقص وزعم غسان هذا فى كتابه ان قوله فى هذا الكتاب كقول أبى حنيفة فيه وهذا غلط منه عليه لأن أبا حنيفة قال إن الايمان هو المعرفة والاقرار بالله تعالٰى وبرسله وبما جاء من الله تعالى ورسله فى الجملة دون التفصيل وانه لا يزيد ولا ينقص وغسان قد قال بأنه يزيد ولا ينقص الفرق بين الفرق ص188📒 ترجمہ: غسان مرجئی کہتا ہے کہ ایمان بڑھتا تو ہے کم نہیں ہوتا اس غسان نے اپنی کتاب میں یہ کہا ہے کہ اس کا یہ قول امام ابوحنیفہؓ کے قول کی طرح ہے، لیکن امام صاحب کے بارے میں اس کی یہ بات غلط ہے، کیونکہ امام ابوحنیفہؓ تو یہ کہتے ہیں کہ ایمان معرفت اللہ اور رسول ﷺ کے اقرار اور ان چیزوں کے اجمالی اقرار کا نام ہے جو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے آئی ہیں بغیر تفصیل کے اور یہ نفسِ ایمان نہ کم ہوتا ہے نہ زیادہ لیکن غسان مرجئی کہتا تھا کہ ایمان زیادہ ہوتا ہے کم نہیں ہوتا ================================ اب یہ عقیدہ نہ تو امام ابو حنیفہؓ کا ہے نہ آپ کے متبعین کا دراصل غسان ابن عبا اور اس کے متبعین لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے یہ کہا کرتے تھے کہ جو عقیدہ ہمارا ہے امام ابو حنیفہؓ کا بھی یہی عقیدہ تھا اور پھر یہ فرقہ غسانیہ کے نام سے بدل کر حنفیہ کے نام سے مشہور ہو گیا اس لئے شیخ عبدالقادر جیلانیؓ نے جس نام سے یہ فرقہ مشہور تھا اسی نام سے اس کو مرجئہ میں شامل کیا ┄┅════❁✾✾✾❁════┅┄ اور امام اعظم ابو حنیفہؓ نے تو خود اس عقیدہ کا اپنی کتاب میں رد کیا ہے جو غسان ابن عبا کا تھا امام ابوحنیفہؓ نے اس کا رد اپنی کتاب فقہ الاکبر میں صراحت سے کیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں ولا نقول ان حسناتنا مقبولۃ وسیئاتنا مغفورۃ کقول المرجئۃ ولکن نقول المسئلۃ مبینۃ مفصلۃ من عمل حسنۃ بشرائطہا خالیۃ عن العیوب المفسدۃ والمعانی المبطلۃ ولم یبطلہا حتی خرج من الدنیا فان اللہ تعالیٰ لایضیعہا بل یقبلہا منہ ویثیبہ علیہا الفقہ الاکبر مع الشرح ص77،78📙 ترجمہ: ہمارا یہ اعتقاد نہیں ہے کہ ہماری نیکیاں مقبول اور گناہ بخشے ہوئے ہیں جیسا کہ مرجئہ کا اعتقاد ہے (کہ ایمان کے ساتھ کسی قسم کی برائی نقصان دہ نہیں اور نافرمان کی نافرمانی پر کوئی سزا نہیں) بلکہ ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ جو شخص کوئی نیک کام اس کی شرطوں کے ساتھ کرے، اور وہ کام تمام مفاسد سے خالی ہو، اور اس کام کو باطل نہ کیا ہو، اور وہ شخص دنیا سے ایمان کی حالت میں رخصت ہوا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کےعمل کو ضائع نہیں کرے گا بلکہ اس کو قبول کرکے اس پر ثواب عطا فرمائے گا خـــــــلاصــــہ کـــــــلام تو تمام دلائل سے یہ ثابت ہوا کہ فرقہ مرجئہ کے جو عقائد ہیں وہ نہ تو امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ہیں نہ آپ کے متبعین کے ہیں بلکہ وہ غسان ابن عبا اور اس کے متبعین کے ہیں ️اور بہت سے مستند علماء کرام نے اس بات کی بھی صراحت کی ہے کہ یہ عبارت شیخ عبدالقادر جیلانی کی نہیں بلکہ کسی مخالف کی ہے اور غنیۃ الطالبین شیخ عبدالقادر جیلانی کی کتاب ہے مگر اس میں تحریف ہو چکی ہے بہت سے مسائل میں یہ بھی مستند علماء کرام اور محدثین کا موقف ہے انجینئر مرزا اپنے اکابرین کی تقلید کرتے ہوئے امام اعظمؓ سے ذاتی بغض اور کینہ کی بنا پر یہ بات اور یہ الزام شیخ عبدالقادر جیلانیؓ پر عائد کیا کہ گویا کہ شیخ عبدالقادر جیلانیؓ نے حنفیوں کو مرجئہی کہا اور سب سے اہم بات انجینئر مرزا جہاں کی چھپی ہوئی کتابوں کو بہت اہمیت دیتا ہے دار الکتب العلمیہ بیروت وہاں سے شائع ہونے والی غنیۃ الطالبین میں حنفیہ کی جگہ غسانیہ ہی لکھا ہے ملاحظہ ہو 👈 غنیۃ الطالبین (بیروت) 1/186 پھر اسی کتاب میں سیّدنا غوث الاعظمؓ جب ایک مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے امام ابو حنیفہؓ کا تعارف کرواتے ہیں تو ان الفاظ کے ساتھ کرواتے ہیں وهو مذهب الإمام الأعظم أبى حنيفة النعمان رحمه الله تعالى یہ مذہب ہے امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا اب انجینئر بتائے بقول انجینئر جن کے فرقے کو اور جن کو وہ مرجیئہ کہہ رہے ہیں ان کو رحمۃ اللہ تعالی علیہ اور امام اعظم بھی کہیں گے؟؟ جبکہ وہ خود امام احمد بن حنبلؒ کے مقلد ہیں فقہ میں اپنی پوری کتاب میں انہوں نے اپنے امام کو امام اعظم نہیں کہا۔ ملاحظہ ہو 👈 غنیۃ الطالبین (بیروت) 2/85 ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ اللہ تعالی ہمیں سوچنے سمجھنے اور راہ حق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ✍️ شــــــــــــــــــــــرف قلــــــــــــــــــم خادم اہلسنّت و جماعت محمد عاقب حسین رضوی
- 1 reply
-
- 1
-
- گمراہ
- انجینئر مرزا
- (and 13 more)