Jump to content

Search the Community

Showing results for tags 'شرک'.

  • Search By Tags

    Type tags separated by commas.
  • Search By Author

Content Type


Forums

  • Urdu Forums
    • Urdu Literature
    • Faizan-e-Islam
    • Munazra & Radd-e-Badmazhab
    • Questions & Requests
    • General Discussion
    • Media
    • Islami Sisters
  • English & Arabic Forums
    • English Forums
    • المنتدی الاسلامی باللغۃ العربیہ
  • IslamiMehfil Team & Support
    • Islami Mehfil Specials
  • Arabic Forums

Find results in...

Find results that contain...


Date Created

  • Start

    End


Last Updated

  • Start

    End


Filter by number of...

Joined

  • Start

    End


Group


AIM


MSN


Website URL


ICQ


Yahoo


Jabber


Skype



Interests


Found 3 results

  1. ⛲ امت شرک نہی کرے گی⛲ ✍️نبی علیہ السلام نے قسم کھا کے فرمایا کہ تم میرے بعد شرک نہی کرو گے۔✍️ ✍️شرک والوں کے درمیان تم لوگ اس طرح ہوگے جیسے سیاہ بیل کے جسم پر سفید بال ہوتے ہیں یا سرخ جسم پر سیاہ بال✍️ یا اللہ عزوجل یارسول اللہ صلو علیہ وآلہ واصحابہ وسلم الصلوۃ والسلام علیک یا سیدی یا رسول اللہ وعلی الک واصحبک یامحمد الرسول اللہ۔ 📚 1 : حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ , حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ , عَنْ أَبِي الْخَيْرِ , عَنْ عُقْبَةَ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ , ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ , فَقَالَ : إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ , وَإِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ , وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ , أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ , وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي وَلَكِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا. (صحیح بخاری جلد2 حدیث4085) ھذا حدیث صحیح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر تشریف لائے اور شہداء احد پر نماز جنازہ ادا کی، جیسے مردوں پر ادا کی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہارے آگے جاؤں گا، میں تمہارے حق میں گواہ رہوں گا۔ میں اب بھی اپنے (ملکیت ہے تو فرمایا اپنے )حوض (حوض کوثر) کو دیکھ رہا ہوں۔ مجھے دنیا کے خزانوں کی کنجی عطا فرمائی گئی ہے یا «مفاتيح الأرض» یعنی زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں تمہارے بارے میں اس سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے اس کا ڈر ہے کہ تم دنیا کے لیے حرص کرنے لگو گے۔ (محمد عمران علی حیدری) 📘 2 : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ , أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ عَدِيٍّ , أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ , عَنْ حَيْوَةَ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ , عَنْ أَبِي الْخَيْرِ , عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ , قَالَ : صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَتْلَى أُحُدٍ بَعْدَ ثَمَانِي سِنِينَ كَالْمُوَدِّعِ لِلْأَحْيَاءِ وَالْأَمْوَاتِ , ثُمَّ طَلَعَ الْمِنْبَرَ فَقَالَ : إِنِّي بَيْنَ أَيْدِيكُمْ فَرَطٌ , وَأَنَا عَلَيْكُمْ شَهِيدٌ , وَإِنَّ مَوْعِدَكُمُ الْحَوْضُ وَإِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَيْهِ مِنْ مَقَامِي هَذَا , وَإِنِّي لَسْتُ أَخْشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا وَلَكِنِّي أَخْشَى عَلَيْكُمُ الدُّنْيَا أَنْ تَنَافَسُوهَا , قَالَ : فَكَانَتْ آخِرَ نَظْرَةٍ نَظَرْتُهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. (صحیح بخاری جلد2حدیث 4042.) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ سال بعد یعنی آٹھویں برس میں غزوہ احد کے شہداء پر نماز جنازہ ادا کی۔ جیسے آپ زندوں اور مردوں سب سے رخصت ہو رہے ہوں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا ”میں تم سے آگے آگے ہوں، میں تم پر گواہ رہوں گا اور مجھ سے ( قیامت کے دن ) تمہاری ملاقات حوض ( کوثر ) پر ہو گی۔ اس وقت بھی میں اپنی اس جگہ سے حوض ( کوثر ) کو دیکھ رہا ہوں۔ تمہارے بارے میں مجھے اس کا کوئی خطرہ نہیں ہے کہ تم شرک کرو گے، ہاں میں تمہارے بارے میں دنیا سے ڈرتا ہوں کہ تم کہیں دنیا کے لیے آپس میں مقابلہ نہ کرنے لگو۔“ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ آخری دیدار تھا جو مجھ کو نصیب ہوا۔ (محمد عمران علی حیدری) 📙 3: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ شُرَحْبِيلٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ ، فَقَالَ: إِنِّي فَرَطُكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ إِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ ، وَإِنِّي قَدْ أُعْطِيتُ خَزَائِنَ مَفَاتِيحِ الْأَرْضِ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ بَعْدِي أَنْ تُشْرِكُوا وَلَكِنْ أَخَافُ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا. (صحیح بخاری جلد2 حدیث3596) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن مدینہ سے باہر نکلے اور شہداء احد پر نماز پڑھی جیسے میت پر پڑھتے ہیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میں ( حوض کوثر پر ) تم سے پہلے پہنچوں گا اور قیامت کے دن تمہارے لیے میر سامان بنوں گا۔ میں تم پر گواہی دوں گا اور اللہ کی قسم میں اپنے حوض کوثر کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں، مجھے روئے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں اور قسم اللہ کی مجھے تمہارے بارے میں یہ خوف نہیں کہ تم شرک کرنے لگو گے۔ میں تو اس سے ڈرتا ہوں کہ کہیں دنیا داری میں پڑ کر ایک دوسرے سے رشک و حسد نہ کرنے لگو۔ (محمد عمران علی حیدری) 📗 4: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ , فَقَالَ : إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ ، وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي وَلَكِنْ أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا. (صحیح بخاری جلد2 حدیث1344) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر تشریف لائے اور احد کے شہیدوں پر اس طرح نماز پڑھی جیسے میت پر پڑھی جاتی ہے۔ پھر منبر پر تشریف لائے اور فرمایا۔ دیکھو میں تم سے پہلے جا کر تمہارے لیے میر ساماں بنوں گا اور میں تم پر گواہ رہوں گا۔ اور قسم اللہ کی میں اس وقت اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں یا ( یہ فرمایا کہ ) مجھے زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں اور قسم اللہ کی مجھے اس کا ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرو گے بلکہ اس کا ڈر ہے کہ تم لوگ دنیا حاصل کرنے میں رغبت کرو گے۔ (محمد عمران علی حیدری) 📖 5 : حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا ، فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ ، فَقَالَ : إِنِّي فَرَطُكُمْ ، وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ ، وَإِنِّي قَدْ أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي ، وَلَكِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا. (صحیح بخاری جلد3 حدیث6426) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور جنگ احد کے شہیدوں کے لیے اس طرح نماز پڑھی جس طرح مردہ پر نماز پڑھی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ممبر پر تشریف لائے اور فرمایا آخرت میں میں تم سے آگے جاؤں گا اور میں تم پر گواہ ہوں گا، واللہ میں اپنے حوض کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں یا ( فرمایا کہ ) زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں اور اللہ کی قسم! میں تمہارے متعلق اس سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرو گے بلکہ مجھے تمہارے متعلق یہ خوف ہے کہ تم دنیا کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگو گے۔ 📘 6: حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ ، حَدَّثَنَا وهيب ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى ثَلَاثِ طَرَائِقَ رَاغِبِينَ رَاهِبِينَ ، وَاثْنَانِ عَلَى بَعِيرٍ ، وَثَلَاثَةٌ عَلَى بَعِيرٍ ، وَأَرْبَعَةٌ عَلَى بَعِيرٍ ، وَعَشَرَةٌ عَلَى بَعِيرٍ ، وَيَحْشُرُ بَقِيَّتَهُمُ النَّارُ ، تَقِيلُ مَعَهُمْ حَيْثُ قَالُوا ، وَتَبِيتُ مَعَهُمْ حَيْثُ بَاتُوا ، وَتُصْبِحُ مَعَهُمْ حَيْثُ أَصْبَحُوا ، وَتُمْسِي مَعَهُمْ حَيْثُ أَمْسَوْا. (صحیح بخاری جلد3 حدیث6522) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”لوگوں کا حشر تین فرقوں میں ہو گا ( ایک فرقہ والے ) لوگ رغبت کرنے نیز ڈرنے والے ہوں گے۔ ایک اونٹ پر دو آدمی سوار ہوں گے کسی اونٹ پر تین ہوں گے، کسی اونٹ پر چار ہوں گے اور کسی پر دس ہوں گے۔ اور باقی لوگوں کو آگ جمع کرے گی جب وہ قیلولہ کریں گے تو آگ بھی ان کے ساتھ ٹھہری ہو گی جب وہ رات گزاریں گے تو آگ بھی ان کے ساتھ وہاں ٹھہری ہو گی جب وہ صبح کریں گے تو آگ بھی صبح کے وقت وہاں موجود ہو گی اور جب وہ شام کریں گے تو آگ بھی شام کے وقت ان کے ساتھ موجود ہو گی۔ (محمد عمران علی حیدری) 📚 7: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ فِي قُبَّةٍ فَقَالَ : أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الْجَنَّةِ ؟ ، قُلْنَا : نَعَمْ ، قَالَ : أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَهْلِ الْجَنَّةِ؟ ، قُلْنَا : نَعَمْ ، قَالَ : أَتَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا شَطْرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ ؟ ، قُلْنَا : نَعَمْ ، قَالَ : وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ ، إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا نِصْفَ أَهْلِ الْجَنَّةِ ، وَذَلِكَ أَنَّ الْجَنَّةَ لَا يَدْخُلُهَا إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ ، وَمَا أَنْتُمْ فِي أَهْلِ الشِّرْكِ إِلَّا كَالشَّعْرَةِ الْبَيْضَاءِ فِي جِلْدِ الثَّوْرِ الْأَسْوَدِ ، أَوْ كَالشَّعْرَةِ السَّوْدَاءِ فِي جِلْدِ الثَّوْرِ الْأَحْمَرِ. (صحیح بخاری جلد3 حدیث6528) ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک خیمہ میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر راضی ہو کہ اہل جنت کا ایک چوتھائی رہو؟ ہم نے کہا کہ جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر راضی ہو کہ اہل جنت کا تم ایک تہائی رہو؟ ہم نے کہا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر راضی ہو کہ اہل جنت کا تم نصف رہو؟ ہم نے کہا جی ہاں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے، مجھے امید ہے کہ تم لوگ ( امت مسلمہ ) اہل جنت کا حصہ ہو گے اور ایسا اس لیے ہو گا کہ جنت میں فرمانبردار نفس کے علاوہ اور کوئی داخل نہ ہو گا اور *تم لوگ شرک کرنے والوں کے درمیان اس طرح ہو گے جیسے سیاہ بیل کے جسم پر سفید بال ہوتے ہیں یا جیسے سرخ کے جسم پر ایک سیاہ بال ہو۔* (محمد عمران علی حیدری) 📕 8: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عُقْبَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ ، ثُمَّ انْصَرَفَ عَلَى الْمِنْبَرِ ، فَقَالَ : إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ ، وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ ، أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي ، وَلَكِنْ أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا. 6590صحیح بخاری جلد3 حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور شہداء احد کے لیے اس طرح دعا کی جس طرح میت کے لیے جنازہ میں دعا کی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا ”لوگو! میں تم سے آگے جاؤں گا اور تم پر گواہ رہوں گا اور میں واللہ اپنے حوض کی طرف اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں یا فرمایا کہ زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں تمہارے بارے میں اس بات سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرو گے، البتہ اس سے ڈرتا ہوں کہ تم دنیا کے لالچ میں پڑ کر ایک دوسرے سے حسد کرنے لگو گے۔ (محمد عمران علی حیدری) ✍️نبی علیہ السلام نے امت کو شرک سے اتنا ڈرایا کہ اب یہ امید ہی نہیں کی جا سکتی کہ امت شرک کرے۔ ✍️کیوں شرک کی ممانعت قرآن و حدیث میں بہت آئی ہے اس لیے۔ ✍️یہاں تک کہ آخر میں سیدی، آقا کائنات، ذات بابرکات، نے فرمایا کہ مجھے یہ امید نہیں کہ تم میرے بعد شرک کرو گے بلکہ فرمایا کہ دنیا میں راغبت کرو گے۔ ✍️قرآن کہتا ہے کہ: 📖 :وَمَا يَنۡطِقُ عَنِ الۡهَوٰىؕ ترجمہ: وہ اپنی خواہش سے کلام نہیں کرتے۔ النجم۔(03،) ✍️لہذا جن احادیث میں شرک کی وعید ہے وہ ان احادیث سے پہلے کی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اتنا ڈرایا کہ آخر فرمایا کہ میرے بعد شرک نہیں کرو گے۔ ✍️اگر سیدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ نہ فرماتے ہیں میرے بعد شرک نہیں کرو گے تو پھر امت شرک کرتی۔ ✍️لہذا جن آیات احادیث میں شرک کی ممانعت ہے ان سے واضح طو پر شرک جلی مراد ہے جو کہ امت کبھی نہ کرے گی نہ اس پر جمع ہوگی مگر کفار۔ ✍️شرک خفی ریاکاری ہے اس کا شکار گناہ میں ہوتا ہے جو جلی ہے اس سے مراد ذات واحدہ لاشریک کے ساتھ دوسرا الہ یا خدا ماننا ہے اور یہ امت کبھی نہیں کرے گی۔ ✍️امت اجابت شرک نہیں کرے گی کبھی بھی یہ صحیح احادیث سے ثابت ہو چکا ہے۔ ✍️باقی شرک ڈرایا بہت گیا ہے اور ایسا کہیں بھی نہیں کہا کے میرے بعد تم لوگ شرک کرو گے بلکہ کہا کہ میرے بعد شرک نہیں کرو گے بلکہ دنیا کی حرص میں پڑ جاو گے۔ ✍️اور کچھ خارجی مخلوق کفار اور بتوں کے بارے نازل شدہ آیات مسلمانوں پر چسپا کرتے ہیں پریشان نہ ہوں ایسے لوگوں کو خارجی کہا جاتا ان کی یہی پہچان ہے۔ ✍️ شرک کا فتوئ لگانے والے پر واپس لوٹتا ہے ہے یہ حدیث بھی پڑھ لیں۔ 📚 :37308- عن حذيفة قال قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: إن مما أتخوف عليكم رجلا قرأ القرآن حتى إذا رؤيت بهجته وكان ردء الإسلام أعره إلى ما شاء الله انسلخ منه، ونبذه وراء ظهره، وخرج على جاره بالسيف، ورماه بالشرك، قلت: يا رسول الله أيهما أولى بالشرك المرمى أو الرامى قال: لا بل الرامى۔ (أبو نعيم) [كنز العمال 8985] أخرجه أيضًا: ابن حبان (1/281، رقم81) ،والبزار(7/220، رقم 2793) ترجمہ: سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، رسول اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:. یعنی مجھے تم پر ایک ایسے آدمی کا اندیشہ ہے جو قرآن پڑھے گا حتیٰ کہ اس کی روشنی اس پر دکھائی دینے لگے گی،اور اس کی چادر (ظاہری روپ) اسلام ہوگا ۔ یہ حالت اس کے پاس رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا ،پھر وہ اس سے نکل جائے گا اسے پس پشت ڈال دے گا ، اور اپنے (مسلمان) ہمسائے پر تلوار اٹھائے گا اور اس پر شرک کا فتویٰ جڑے گا،راوی کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا : یانبی اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و صحبہ وسلّم ! دونوں میں شرک کا حقدار کون ہوگا ؟ جس پر فتویٰ لگا یا فتویٰ لگانے والا ، آپ نے فرمایا : فتویٰ لگانے والا (مشرک ہوگا) ۔ یعنی وہ فتویٰ مسلمان پر چسپاں نہیں ہوگا بلکہ جدھر سے صادر ہوا تھا واپس اسی کی طرف لوٹ جائے گا ، اور وہ مسلمان کو مشرک کہنے والا خود مشرک بن جائے گا. ( محمد عمران علی حیدری) : الحدیث 📖: الخوارج کلاب النار۔ خوارج جہنم کے کتے ہیں۔ _____✍️ نوٹ ✍️____ _____✍️ NOTE✍️____ ✍️ خارجیت کی پہچان✍️ 📓 :وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ، يَرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ اللَّهِ، وَقَالَ: «إِنَّهُمُ انْطَلَقُوا إِلَى آيَاتٍ نَزَلَتْ فِي الكُفَّارِ، فَجَعَلُوهَا عَلَى المُؤْمِنِينَ» ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما خارجی لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے ، کیونکہ انہوں نے یہ کام کیا کہ جو آیات کافروں کے باب میں اتری تھیں ، ان کو مسلمانوں پر چسپاں کر دیا. : تخریج .وسند صحیح 1 صحيح بخاري ، كتاب استتابة) :( المرتدين والمعاندين وقتالهم ، باب : قتل (الخوارج والملحدين بعد اقامة الحجة عليهم،) 2:(الاعتصام کتاب النغی۔باب قتال الخوارج) 3:(:اسباب الخطا فی التفسیر ص975) لہذا اب کسی تاویل کی کنجائش باقی نہیں رہی سنی دوستوں اب آپ اس سے واضح طور پر سمجھ چکے ہیں۔ (ازقلم وطالب دعا: محمد عمران علی حیدری.) 26 صفر المظفر 1443ھ۔ 04.10.2021.
  2. یہ نجدیوں لعینوں کے مضامین میں سے ہے۔ اسکا حتمی جواب چاہیے ''شرک تو صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو واجب الوجود مانا جائے یا اُس کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات مانا جائے یا اس کو مستحقِ عبادت قرار دیا جائے۔ اس کے سوا کوئی قول اور فعل شرک نہیں ہے۔'' (نعمۃ الباري في شرح صحیح البخاري:۲؍۱۸۵) شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ رقم طراز ہیں: ''واعلم أن للتوحید أربع مراتب: إحداھا حصر وجوب الوجود فیه تعالیٰ فلا یکون غیرہ واجبًا۔ والثانیة حصر خلق العرش والسموات والأرض وسائر الجواھر فیه تعالیٰ وھاتان المرتبتان لم تبحث الکتب الالھیة عنھما ولم یخالف فیھما مشرکوا العرب ولا الیھود ولا النصارٰی بل القرآن ناص علی أنھما من المقدمات المسلمة عندھم'' ''تو جان لے یقینا توحید کے چار درجے ہیں:پہلا یہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی میں واجب الوجود ہونے کی صفت پائی جاتی ہے پس اس کے سوا واجب الوجود کوئی نہیں ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی عرش، آسمانوں، زمینوں اور تمام جواہر کا خالق ہے۔ (یاد رہے کہ) آسمانی کتابوں نے ان دو مراتب سے بحث نہیں کی اور نہ ہی مشرکینِ عرب اور یہود و نصاریٰ نے ان میں اختلاف کیاہے بلکہ قرآنِ پاک کی اس پر نص قطعی ہے کہ ان کے نزدیک یہ دونوں باتیں مسلمات میں سے ہیں۔'' (حجۃ اﷲ البالغۃ:۱؍۵۹) مشرکینِ عرب اپنے معبودانِ باطلہ کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق و ملکیت مانتے تھے اور ان کی صفات و اختیارات اور قوت کو قدیم اور مستقل بالذات نہیں مانتے تھے بلکہ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ صفات و اختیارات ان کے ذاتی نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی عطا کردہ ہیں اُسی کی ملکیت اور اُس کے ماتحت ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے، فرماتے ہیں: کان المشرکون یقولون لبیك لا شریك لك قال فیقول رسول اﷲ ﷺ: ویلکم قدٍ قدٍ فیقولون: إلا شریکًا ھو لك تملکه وما مَلَك۔یقولون ھذا وھم یطوفون بالبیت (صحیح مسلم:۱۱۸۵) ''مشرکین بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے کہتے تھے:''لبیک لا شریک لک'' تو رسول اللہ1 فرماتے: ''ہلاکت ہو تمہارے لیے، اسی پر اکتفا کرو'' لیکن وہ کہتے ''إلا شریکًا ھو لک تملکہ وما مَلَک'' یعنی ''اے اللہ! تیرا کوئی شریک نہیں مگر ایسا شریک جو تیرے لیے ہے، تو اس شریک کا بھی مالک ہے اور اس چیز کا بھی مالک ہے جو اس شریک کے اختیار میں ہے۔'' مشرکین مکہ تقربِ الٰہی اور سفارش کے لئے دوسروں کو شریک کرتے تھے! مشرکین عرب اپنے معبودوں کی پرستش اس لیے کرتے تھے کہ ان کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل ہوجائے یا اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ ہماری سفارش کریں، ان کو مستحق عبادت سمجھ کر ان کی پوجا نہیں کرتے تھے، کیونکہ سفارشی مستقل نہیں ہوتابلکہ غیر مستقل ہی ہوتا ہے مجھے ان اعتراضوں کے شرعی جواب چاہیئیں۔ میری دماغی حالت ایسی ہے فی الحال کے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔۔ میں نے شاید کچھ سوالوں کو دہرا بھی دیا قدرے مختلف الفاظ سے۔۔ بدیہی بات بھی کہیں سمجھ نہیں سکا۔۔۔ و العذر عند کرام الناس مقبول ۱ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی بات کا جاننا ہے کہ کیا واقعی اہل کتاب و مشرکین نے اللہ تعالی کو ہی واجب الوجود اور خالق کل شی مانا ہے اور اسمیں اختلاف نہیں کیا؟ ۲ نجدیوں کی اس بات کا کیا جواب ہوگا کہ مشرکین اپنے بتوں کو اللہ کی مخلوق اور ملکیت مانتے تھے ۳ نجدیوں خبیثوں کی اس بات کا جواب کہ مشرکین کے جھوٹے معبودوں کے پاس جو اختیارات مانتے تھے، وہ اللہ کی عطا سے مانتے تھے ۴ نجدی لعینوں کا یہ اعتراض کہ مشرکین اپنے جھوٹے معبودوں کی پرستش ان کو مستحق عبادت مان کر نہیں کرتے تھے ۵ یہ بات مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ جب مشرکین اپنے بتوں کو قدیم اور مستقل بالذات مانتے تھے تو پھر انہیں مملوک کیوں مانتے تھے؟ ۶ اگر ایک بندہ پتھر کا ایک بت بنائے اور پھر یہ عقیدہ رکھے کہ اس بت کے پاس اللہ کی طرف سے عطا کردہ نفع و نقصان پہنچانے کی قوت ہے، تو کیا ایسا بندہ مشرک ہوگا یا نہیں؟ ۷ کیا کسی کو واجب الوجود ماننا اسے الٰہ ماننا ہے؟ اور کیا کسی کو مستقل بالذات ماننا اسے الٰہ ماننا ہے؟ ۹ ایک ٹوپک میں سیدی سعیدی صاحب نے لکھا تھا کہ ’’کسی غیرمستحق کو عبادت کے لائق ماننا اُسے الٰہ ماننا ہے۔‘‘ تو اللہ پاک کو مستحق عبادت ماننا سے الٰہ ماننا ہوگا؟ ۱۰ اسی ٹوپک میں میرے سید علامہ سعیدی صاحب نے یہ بھی بیان فرمایا کہ ’’آپ نے الٰہ ماننے سے واجب الوجودماننا لازم سمجھا۔ آپ نے واجب الوجودماننے کوالٰہ ماننے کی شرط کادرجہ دیا۔وہ الٰہ برحق ماننے کی شرط ضرور ہے۔مطلق معبود ماننے کی شرط ہرگزنہیں۔اس کومطلق الٰہ ماننے کی شرط سمجھنا بھی آپ نے غلط سمجھا۔ مجھے یہ پوچھنا ہے کہ مطلق معبود ماننے کی شرط کیا ہے؟ (جب کوئی کسی غیرخدا کو واجب الوجود مانے گا تو اسے الہ مان رہا ہوگا یا نہیں)؟ نیز گلشن توحید و رسالت جلد اول صفحہ ۴۰۰ اور ۴۰۱ پر میرے سید علامہ اشرف صاحب سیالوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ’’کسی کو الہ ماننے سے اسکے لیے عظمت ذاتی ماننا لازم ہے‘‘۔ کیا واجب الوجود ماننا اور عظمت ذاتی ماننا ایک ہی بات ہے یا نہیں اور گلشن توحید و رسالت کی مذکورہ بات کا اصل معنی و مفہوم بھی بیان فرمائیں۔ ۱۱ ایس ٹوپک میں میرے شیخ جناب سعیدی صاحب نے ذکر فرمایا کہ ’’آپ نے محض عطائی نہ مانناہی استقلال ذاتی سمجھا۔یہ بھی آپ غلط سمجھے۔‘‘ اسکی بھی مجھے سمجھ نہیں آ رہی۔۔جب اختیارات کو عطائی نہیں مانا جائے گا تو اسطرح وہ اختیارات ذاتی ثابت نہیں ہوں گے؟ اور یوں استقلال ثابت نہیں ہوگا؟ ۱۲ اگلے صفحے پر مزید فرمایا میرے سید نے ’’استقلال ذاتی ماننا تب ہوتاہے جب باذن اللہ کی قید کے بغیرمانا جائے۔‘‘ اس سے متعلق مجھے یہ پتہ کرنا ہے کہ اگر باذن اللہ کی قید سے مانا جائے مگر عطائی نہیں بلکہ ذاتی، تو اب شرک ہوگا یا نہیں؟ ۱۳ میرے قابل صد احترام جناب خلیل رانا صاحب نے اسی ٹوپک میں اپنی پوسٹ میں تحریر فرمایا کہ ’’جب مشرکین نے اپنے بتوں کو الہ مان لیا تو کیا خدائی اختیارات کے بغیر الہ مان لیا‘‘ یعنی خدائی اختیارات مانے بغیر کسی کو الہ ماننا ناممکن ہے؟ ۱۴ اگر کوئی شخص اپنے جھوٹے معبود کیلئے یہ مانے کہ ’’میرے بت جسے میں نے اپنا معبود بنایا ہوا ہے، کے پاس اختیارات باذن اللہ ہیں‘‘ اور ایک دوسرا شخص اپنے جھوٹے معبود کے متعلق یہ کہے ’’میں نے اپنے بت جسے میں نے اپنا معبود بنایا ہوا ہے، کے پاس اختیارات اللہ کی عطا سے ہیں‘‘ کیا ان دونوں اشخاص کے اقوال کا معنی و مطلب بعینہ ایک ہی ہے اور دونوں کا ایک ہی شرعی حکم ہے اور دونوں شرک کے مرتکب ہوئے یا نہیں اور دونوں نے کفر کیا یا نہیں؟؟ ۱۵ اگر باذن اللہ کی قید سے غیر اللہ کے اختیارات مقید مانے جائیں تو اب شرک ہرگز نہیں ہوسکتا۔ لیکن اگر غیر اللہ کے اختیارات کو اللہ کی عطا کی قید سے مقید مانا جائے تو اب شرک ہو سکتا ہے؟؟؟ ۱۶ باذن اللہ اور بعطا اللہ کا مفاد ایک ہی ہوتا ہے اس باب میں؟ ۱۷ نجدیوں نے حدیث تلبیہ کا ترجمہ درست کیا ہے یا وما ملک کا ترجمہ اس چیز کا بھی مالک ہے جو اس شریک کے اختیار میں ہے کرتے ہوئے غلطی کی ہے؟ اگر غلطی ہے تو نشاندہی فرمائیں اور درست ترجمہ بھی عنایت فرما دیں اگر ہو سکے تو نجدیوں اہلحدیث کی معتبر کتاب سے۔ ۱۹ نجدیوں نے مملوک ہونے سے ماذون ہونا مراد لیا ہے (ما تملکہ و ما ملک کے الفاظ سے)۔انکے اس اصول کا رد چاہیے دلائل شرعیہ سے۔ ۲۰ مشرکین مکہ وغیرہ کا اصل شرک آخر تھا کیا؟ ان کے شرک کی کیا کیا اقسام تھیں؟ ۲۱ اس بات کی کیا دلیل ہے کہ مشرکین مکہ اپنے جھوٹے معبودوں کیلئے استقلال ذاتی مانتے تھے یا انہیں واجب الوجود مانتے تھے؟ (جبکہ تلبیہ میں وہ انہیں مملوک بھی مان رہے تھے)۔پلیز اسکا بھی بتائیں۔،۔،۔
×
×
  • Create New...