Jump to content

کمیونٹی میں تلاش کریں

Showing results for tags 'عقائد اهل السنة والجماعة'.

  • ٹیگ میں سرچ کریں

    ایک سے زائد ٹیگ کاما کی مدد سے علیحدہ کیے جا سکتے ہیں۔
  • تحریر کرنے والا

مواد کی قسم


اسلامی محفل

  • اردو فورم
    • اردو ادب
    • فیضان اسلام
    • مناظرہ اور ردِ بدمذہب
    • سوال و درخواست
    • گفتگو فورم
    • میڈیا
    • اسلامی بہنیں
  • انگلش اور عربی فورمز
    • English Forums
    • المنتدی الاسلامی باللغۃ العربیہ
  • اسلامی محفل سے متعلق
    • معلومات اسلامی محفل
  • Arabic Forums

تتیجہ ڈھونڈیں...

وہ نتیجہ نکالیں جن میں یہ الفاظ ہوں


تاریخ اجراء

  • Start

    End


Last Updated

  • Start

    End


نمبرز کے حساب سے ترتیب دیں...

Joined

  • Start

    End


Group


AIM


MSN


Website URL


ICQ


Yahoo


Jabber


Skype


مقام


Interests


پیر

  1. قبورِ اولیاء اللہ و صالحین علیہم الرّحمہ سے تبرک ٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ جمہور امتِ مسلمہ میں حصولِ برکت کا ایک ذریعہ قبورِ اولیاء و صالحین پر حاضری بھی رہا ہے۔ تاریخِ اسلام میں شاید ہی کوئی ایسی بابرکت ہستی گزری ہوگی جس کی قبر مبارک پر عامۃ الناس اور اکابرینِ امت نے حاضری نہ دی ہو۔ انبیاء کرام علیہم السلام سے لے کر اہلِ بیتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، صحابہ کرام رضی اللہ عنھم، صالحین، زاہدین، محدّثین اور اولیاء رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہم کی قبور پر حاضری امتِ مسلمہ کی تاریخ کا حصہ رہی ہے۔ سطورِ ذیل میں اسی حوالے سے دلیل کے طور پر چند صالحین کی قبور پر عامۃ الناس اور ائمہ کی حاضری کے واقعات درج کئے جاتے ہیں۔ (1) حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی قبر سے تبرک امام شمس الدین سخاوی (متوفی 902ھ) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں : وجعل علي قبره قبة فهو يزار ويتبرک به. ’’اُن کی قبر مبارک پر قبہ بنایا گیا، اس کی زیارت کی جاتی ہے اور اس سے برکت حاصل کی جاتی ہے۔‘‘ شمس الدين سخاوي، التحفة اللطيفة في تاريخ المدينة الشريفة، 1 : 307 (2) حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی قبر سے تبرک امام ابنِ عبد البر الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب میں نقل کرتے ہیں کہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ اکابر صحابہ رضی اللہ عنھم میں سے تھے۔ معرکۂ قسطنطنیہ میں آپ شریک جہاد ہوئے۔ دشمن کی سرحد کے قریب آپ رضی اللہ عنہ بیمار پڑگئے۔ مرض نے شدت اختیارکی تو وصیت فرمائی : إذا أنا متّ فاحملوني، فإذا صاففتم العدو فادفنوني تحت أقدامکم. ’’جب میں فوت ہوجاؤں تو میری میت ساتھ اُٹھا لینا، پھر جب دشمن کے سامنے صف آرا ہوجاؤ تو مجھے اپنے قدموں میں دفن کر دینا۔‘‘ ابن عبد البر، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، 1 : 404 - 405 چنانچہ آپ کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے مجاہدینِ اسلام نے آپ کو قلعہ کے دامن میں دفن کردیا اور دشمنوں کو متنبہ کیا کہ اگر اس جلیل القدر صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کی بے حرمتی کی گئی توبلادِ اسلامیہ میں اُن کا کوئی گرجا محفوظ نہ رہے گا۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ کی قبر مبارک کا دشمن بھی احترام کرنے پر مجبور ہوگئے اور بہت جلد اس کے فیوض و برکات کا لوگوں کوپتہ چل گیا کہ یہاں کی جانے والی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ علامہ ابنِ عبد البر مزید فرماتے ہیں : وقبر أبي أيوب قرب سورها معلوم. . . يستسقون به، فيسقون. ’’حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کی قبر قلعہ کی فصیل کے قریب ہے، سب کو معلوم ہے کہ وہاں پہنچ کر لوگ اس کے وسیلہ سے بارش کے لیے دعا کرتے ہیں تو بارش ہوجاتی ہے۔‘‘ ابن عبد البر، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، 1 : 405 حضرت مجاہد بن جبیر فرماتے ہیں : کانوا إذا أمحلوا کشفوا عن قبره، فمطروا. ’’جب بھی قحط پڑ جائے تو (حصولِ برکت کے لئے) لوگ قبر کھول دیتے ہیں، تو بارش ہوجاتی ہے۔‘‘ ابن عبد البر، الاستيعاب في معرفة الأصحاب، 4 : 6 (3) امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا امامِ اعظم رضی اللہ عنہ کی قبر سے تبرک خطيب بغدادی (م 463ھ) اور بہت سے ائمہ کی تحقیق کے مطابق امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ جب بغداد میں ہوتے تو حصولِ برکت کی غرض سے امامِ اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کی قبر مبارک کی زیارت کرتے۔ خطيب بغدادی رحمۃ اللہ علیہ نقل کرتے ہیں کہ امام شافعی، امام ابو حنیفہ (متوفی150ھ) کے مزار کی برکات کے بارے میں خود اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : إنّي لأتبرّک بأبي حنيفة، وأجيء إلي قبره في کلّ يوم. يعني زائرًا. فإذا عُرضت لي حاجة صلّيت رکعتين، وجئتُ إلي قبره، و سألت اﷲ تعالي الحاجة عنده، فما تبعد عنّي حتي تقضي. ’’میں امام ابو حنیفہ کی ذات سے برکت حاصل کرتا ہوں اور روزانہ ان کی قبر پر زیارت کے لیے آتا ہوں۔ جب مجھے کوئی ضرورت اور مشکل پیش آتی ہے تو دو رکعت نماز پڑھ کر ان کی قبر پر آتا ہوں اور اس کے پاس (کھڑے ہوکر) حاجت برآری کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں۔ پس میں وہاں سے نہیں ہٹتا یہاں تک کہ (قبر کی برکت کے سبب) میری حاجت پوری ہوچکی ہوتی ہے۔‘‘ 1. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 1 : 123 2. ابن حجر هيتمي، الخيرات الحسان في مناقب الإمام الأعظم : 94 3. ابن عابدين شامي، رد المحتار علي الدر المختار، 1 : 41 4. زاهد الکوثري، مقالات الکوثري : 381 (4) امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ کی قبر سے تبرک امام موسیٰ بن جعفر کاظم (متوفی 183ھ) کی قبر مبارک کے بارے میں ابو علی الخلال کہتے ہیں : ما همّني أمر فقصدت قبر موسي بن جعفر فتوسلت به إلا سهل اﷲ تعالي لي ما أحب. ’’جب مجھے کوئی مشکل درپیش ہوتی تو میں امام موسیٰ بن جعفر کی قبر پر جا کر اُن کو وسیلہ بناتا تو جیسے میں چاہتا اﷲ تعالیٰ ویسے ہی میرے لئے راستہ نکال دیتا۔‘‘ خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 1 : 120 امام المحدّثین شاہ عبد الحق محدّث دہلوی (م 1052ھ) اشعۃ اللّمعات میں حضرت موسیٰ کاظم رحمۃ اللہ علیہ کی قبرِ انور کے حوالے سے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا درج ذیل قول نقل کرتے ہیں : ’’حضرت موسیٰ کاظم رحمۃ اللہ علیہ کی قبرِ انور قبولیتِ دعا کے لیے تریاقِ مجرّب ہے۔‘‘ عبدالحق محدّث دهلوي، أشعة اللمعات شرح مشکوٰة المصابيح، 2 : 923 (5) امام علی رضی اللہ عنہ رضا بن موسیٰ کی قبر سے تبرک مشہور محدّث امام ابنِ حبان (م 354ھ) حضرت امام علی رضا بن موسیٰ علیہ السلام کے مزار مبارک کے بارے میں اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : قد زرته مراراً کثيرة، وما حلّت بي شدّة في وقت مقامي بطوس، وزرت قبر علي بن موسي الرضا صلوات اﷲ علي جده وعليه، ودعوت اﷲ تعاليٰ إزالتها عنّي إلا استجيب لي، وزالت عنّي تلک الشدّة وهذا شئ جرّبته مراراً فوجدته کذلک، أماتنا اﷲ علي محبة المصطفيٰ وأهل بيته صلي اﷲ وسلم عليه وعليهم أجمعين. ’’میں نے اُن کے مزار کی کئی مرتبہ زیارت کی ہے، شہر طوس قیام کے دوران جب بھی مجھے کوئی مشکل پیش آئی اور حضرت امام موسیٰ رضا رضی اللہ عنہ کے مزار مبارک پر حاضری دے کر، اللہ تعالیٰ سے وہ مشکل دور کرنے کی دعا کی تو وہ دعا ضرور قبول ہوئی، اور مشکل دور ہوگئی۔ یہ ایسی حقیقت ہے جسے میں نے بارہا آزمایا تو اسی طرح پایا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حضور نبی اکرم اور آپ کے اہلِ بیت صلی اﷲ وسلم علیہ وعلیہم اجمعین کی محبت پر موت نصیب فرمائے۔‘‘ ابن أبي حاتم رازي، کتاب الثقات، 8 : 457، رقم : 14411 (6)۔ سید المحدّثین امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی قبر سے تبرک امام ذہبی (م 748ھ) نے امیر المؤمنین فی الحدیث اور سید المحدّثین امام محمد بن اسماعیل بخاری (م 256ھ) کی قبر مبارک سے تبرک کا ایک واقعہ درج کیا ہے : ابو الفتح نصر بن حسن السکتی سمرقندی نے بیان کیا کہ ایک بار سمرقند میں کچھ سالوں سے بارش نہ ہوئی تو لوگوں کو تشویش لاحق ہوئی پس انہوں نے کئی بار نمازِ استسقاء ادا کی لیکن بارش نہ ہوئی۔ اسی اثناء اُن کے پاس ایک صالح شخص جو ’’صلاح‘‘ کے نام سے معروف تھا، سمر قند کے قاضی کے پاس گیا اور اس سے کہا : میں آپ سے اپنی ایک رائے کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ قاضی نے کہا : وہ کیا ہے؟ اس نے کہا : أري أن تخرج ويخرج الناس معک إلي قبر الإمام محمد بن إسماعيل البخاري، وقبره بخرتنک، ونستسقي عنده فعسي اﷲ أن يسقينا. قال : فقال القاضي : نعم، ما رأيت. فخرج القاضي والناس معه، واستسقي القاضي بالناس، وبکي الناس عند القبر وتشفعوا بصاحبه. فأرسل اﷲ تعالي السماء بماء عظيم غزير، أقام الناس من أجله بخرتنک سبعة أيام أو نحوها لا يستطيع أحد الوصول إلي سمرقند من کثرة المطر وغزارته، وبين خرتنک وسمرقند نحو ثلاثة أميال. ’’میری رائے ہے کہ آپ کو اور آپ کے ساتھ تمام لوگوں کو امام محمد بن اسماعیل بخاری کی قبر مبارک پر حاضری دینی چاہیے، ان کی قبر خرتنک میں واقع ہے، ہمیں قبر کے پاس جا کر بارش طلب کرنی چاہیے عین ممکن ہے کہ اﷲتعالیٰ ہمیں بارش سے سیراب کردے۔ قاضی نے کہا : آپ کی رائے بہت اچھی ہے۔ پس قاضی اور اس کے ساتھ تمام لوگ وہاں جانے کے لئے نکل کھڑے ہوئے قاضی نے لوگوں کے ساتھ مل کر بارش کے لئے دعا کی اور لوگ قبر کے پاس رونے لگے اور اللہ کے حضور صاحبِ قبر کی سفارش کرنے لگے۔ اﷲ تبارک وتعالیٰ نے اسی وقت (اپنے صالح بندہ کی برکت کے سبب) وافر پانی کے ساتھ بادلوں کو بھیج دیا، تمام لوگ تقریباً سات دن تک خرتنک میں رکے رہے، اُن میں سے کسی ایک میں بھی کثیر بارش کی وجہ سے سمرقند پہنچنے کی ہمت نہ تھی حالانکہ خرتنک اور سمرقند کے درمیان تین میل کا فاصلہ تھا۔‘‘ ذهبي، سير أعلام النبلاء، 12 : 469 (7) امام ابراہیم بن اسحاق حربی رحمۃ اللہ علیہ کی قبر سے تبرک علامہ ابنِ جوزی اولیاء کرام کی سوانح پر اپنی کتاب صفۃ الصفوۃ میں امام ابراہیم بن اسحاق حربی کے بارے میں لکھتے ہیں : و قبره ظاهر يتبرّک به النّاس. ’’اور ان کی قبر (اپنے فیوض و برکات کے اعتبار سے) ظاہر ہے۔ لوگ اس سے برکت حاصل کرتے ہیں۔‘‘ ابن جوزي، صفة الصفوة، 2 : 266 (8) حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ کی قبر سے تبرک امام ابو القاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ کا شمار اکابر صوفیہ و محدّثین میں ہوتا ہے۔ چوتھی اور پانچویں صدی ہجری میں آپ کی ذات مرجعء اہلِ علم تھی۔ آپ مشہور بزرگ اور ولی کامل حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں لکھتے ہیں : کان من المشائخ الکبار، مجاب الدعوة، يستشفي بقبره. يقول البغداديون : قبر معروف ترياق مجرّب. ’’آپ بزرگ ترین مشائخ میں سے تھے۔ آپ کی دعا قبول ہوتی تھی۔ آج بھی آپ کی قبر مبارک کے پاس کھڑے ہوکر شفایابی کی دعا کی جاتی ہے۔ اہلِ بغداد کہتے ہیں : حضرت معروف کرخی کی قبر مجرّب اکسیر ہے۔‘‘ 1. قشيري، الرسالة القشيرية : 41 2. خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 1 : 122 3. ابن جوزي، صفة الصفوة، 2 : 214 حضرت معروف کرخی کی قبر مبارک کے بارے میں عبدالرحمٰن بن محمد الزاہری فرماتے ہیں : قبر معروف الکرخي مجرّب لقضاء الحوائج، ويقال : إنّه من قرأ عنده مائة مرّة : قُلْ هُوَ اﷲُ أحَدٌ، وسأل اﷲ تعالي ما يريد، قضي اﷲ له حاجته. ’’قضائے حاجات کے لئے حضرت معروف کرخی کی قبر مجرّب ہے، کہا جاتا ہے کہ جو شخص اس کے پاس سو مرتبہ سورۃ اخلاص (قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ) پڑھ کر اﷲتعالیٰ سے جو چاہے طلب کرے، اﷲتعالیٰ اس کی حاجت پوری فرماتا ہے۔‘‘ خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 1 : 123 (9) حضرت علی رحمۃ اللہ علیہ بن محمد بن بشار کی قبر سے تبرک علامہ محمد بن ابو یعلی حنبلی (متوفی 521ھ) ’’طبقات الحنابلۃ‘‘ (2 : 63) میں صوفی زاہد علی بن محمد بن بشار کے ترجمہ میں لکھتے ہیں کہ جب اُن کاوصال ہوا تو دفن بالعقبة قريباً من النجمي، وقبره الآن ظاهر يتبرک الناس بزيارته. ’’انہیں نجمی کے قریب گھاٹی میں دفن کیاگیا، اب وہاں اُن کی قبر مشہور و معروف ہے، لوگ اس کی زیارت سے برکت حاصل کرتے ہیں۔‘‘ (10) حضرت ابو الحسن علی بن محمد بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی قبر سے تبرک علامہ محمد بن ابو یعلی حنبلی ہی ایک اور فقیہ زاہد ابو الحسن علی بن محمد بن عبدالرحمٰن بغدادی کے ترجمہ میں درج کرتے ہیں : مات بآمد سنة سبع أو ثمان وستين وأربعمائة، وقبره هناک، يقصد و يتبرک به. ’’آپ کا 467ھ / 468ھ میں آمد کے مقام پر وصال ہوا، یہی آپ کی قبر ہے جس کا قصد کیا جاتا اور برکت حاصل کی جاتی ہے۔‘‘ ابن ابي يعلي حنبلي، طبقات الحنابلة، 2 : 234 (11) حافظِ حدیث عبدالغنی مقدسی رحمۃ اللہ علیہ کی قبر سے تبرک علامہ ابنِ نقطہ حنبلی (م 629ھ) نے حافظِ حدیث عبدالغنی بن عبدالواحد مقدسی کے ترجمہ میں درج کیا ہے : بلغنا أنه توفي بمصر في بيع الأوّل من سنة ستمائة في يوم الإثنين الرابع والعشرين من الشهر، وقبره بالقرافة يتبرک به. ’’ہمیں یہ خبر پہنچی ہے کہ پیر کے روز ربیع الاوّل کے مہینہ 624ھ میں مصر میں اُن کا وصال ہوا، اُن کی قبر قرافہ میں واقع ہے جس سے برکت حاصل کی جاتی ہے۔‘‘ ابن نقطه، التقييد لمعرفة رواة السنن والمسانيد، 1 : 370 (12) حضرت عثمان بن موسیٰ طائی رحمۃ اللہ علیہ کی قبر سے تبرک امام ابنِ رجب حنبلی (م 795ھ) حضرت عثمان بن موسیٰ طائی کے تعارف میں لکھتے ہیں : ويقال : إن الدعاء يستجاب عند قبره. ’’کہا جاتا ہے کہ ان کی قبر کے پاس دعا قبول ہوتی ہے۔‘‘ ابن رجب، ذيل طبقات الحنابلة، 4 : 287 معتبر کتب سے درج بالا تحقیقات سے ثابت ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم، اولیاء عظام اور محدّثینِ کبار کی قبورِ مبارکہ پر حاضری دینا، زیارت کرنا اور اُن سے برکت حاصل کرنا عام مسلمانوں اور اکابرینِ امت کا طریقہ رہا ہے۔ جلیل القدر محدّثین، فقہاء اور صالحین اپنے زمانہ کے اور ما قبل زمانہ کے اکابر شیوخ و صوفیاء کی قبور پر حصولِ برکت کے لئے اور حلِ مشکلات کے لئے حاضر ہونے کو اپنی خوش بختی سمجھتے تھے۔ عامۃ الناس اور اکابر اِن بابرکت قبور کو مستجاب الدعاء ٹھہراتے تھے اور وہاں پہنچ کر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں اُن کی برکت کے سبب سے بارش، شفایابی اور دیگر مشکلات کا حل طلب کرتے تھے۔ سوچنے اور غور کرنے کی بات ہے کہ وہ ائمہ جو امت کے لئے اصولِ دین مرتب کرتے رہے ان کا اپنا عمل یہ تھا کہ وہ صالحین کی قبروں سے حصولِ برکت کو سعادت سمجھتے تھے۔ صاف ظاہر ہے اگر اس عمل میں ذرا بھر بھی شرک و بدعت کا شائبہ ہوتا تو یہ ہرگز اس پر کاربند نہ ہوتے۔ 6۔ قبورِ اولیاء اور صالحین سے تبرک پر ائمہ کے اقوال قبورِ صالحین سے تبرک کو اطراف واکناف کے علماء کی طرف سے جواز کی سند حاصل ہے۔ اس پر چند ائمہ کرام کے درج ذیل اقوال ہیں۔ 1۔ اس حدیث کے تحت ابنِ عبدالبر نے شرح مؤطا التمہید میں لکھا ہے : وفي هذا الحديث دليل علي التّبرّک بمواضع الأنبياء والصّالحين ومقامهم ومساکنهم. ’’اس حدیث میں انبیاء اور صالحین کے رہنے والی جگہوں، مقامات اور ان کی رہائش گاہوں سے تبرک کا ثبوت ہے۔‘‘ ابن عبدالبر، التمهيد، 13 : 66 (1) امام محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ کا قول حجۃ الاسلام امام ابوحامد محمد غزالی (م 505ھ) احیاء علوم الدین میں آداب السفر کے ضمن میں فرماتے ہیں : ويدخل في جملته زيارة قبور الأنبياء عليهم السلام، وزيارة قبور الصحابة والتابعين وسائر العلماء والأولياء، وکل من يتبرک بمشاهدته في حياته يتبرک بزيارته بعد وفاته. ’’سفر کی دوسری قسم میں انبیاء کرام علیہم السلام، صحابہ، تابعین اور دیگر علماء و اولیاء کے مزارات کی زیارت بھی داخل ہے۔ ہر وہ شخص کہ جس کی زندگی میں زیارت سے برکت حاصل کی جاسکتی ہے، وفات کے بعد بھی اس کی زیارت سے برکت حاصل کی جا سکتی ہے۔‘‘ غزالي، إحياء علوم الدين، 2 : 247 (2) امام ابن الحاج فاسی رحمۃ اللہ علیہ کا قول امام ابن الحاج فاسی (م 737ھ) نے اپنی کتاب المدخل میں مزاراتِ اولیاء سے برکت حاصل کرنے پر لکھا ہے : وما زال النّاس من العلماء والأکابر کابرًا عن کابر مشرقاً ومغرباً يتبرّکون بزيارة قبورهم ويجدون برکة ذلک حسًا ومعني. ’’مشرق و مغرب کے علماء اور اکابر مزاراتِ اولیاء کی زیارت سے برکت حاصل کرتے رہے ہیں اور حسی اور معنوی طور پر اس کی برکت پاتے رہے ہیں۔‘‘ ابن الحاج، المدخل، 1 : 249 (3) امام ابوعبد اللہ رحمۃ اللہ علیہ بن نعمان کا قول اِمام ابن الحاج الفاسی رحمۃ اللہ علیہ امام ابو عبداﷲ بن نعمان کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ اولیاء کرام کی قبروں کے پاس برکت کی غرض سے دعا کرنا اور ان کو وسیلہ بنانا ہمارے علماء محققین، ائمہِ دین کا معمول ہے۔ امام ابو عبداﷲ بن نعمان فرماتے ہیں : تحقق لذوي البصائر والاعتبار أن زيارة قبور الصّالحين محبوبة لأجل التبرّک مع الاعتبار فإنّ برکة الصّالحين جارية بعد مماتهم کما کانت في حياتهم والدعاء عند قبور الصّالحين والتشفّع بهم معمول به عند علمائنا المحققين من أئمة الدّين. ’’اربابِ بصیرت و اعتبار کے نزدیک ثابت ہے کہ اولیائے کرام کے مزارات کی زیارت برکت اور عبرت حاصل کرنے کے لیے محبوب عمل ہے، کیونکہ اولیائے کرام کی برکت ان کی (ظاہری) زندگی کی طرح وصال کے بعد بھی جاری ہے، اولیائے کرام کی قبروں کے پاس دعا کرنا اور ان کو وسیلہ بنانا ہمارے علماء محققین، ائمہ دین کا معمول ہے۔‘‘ ابن الحاج، المدخل، 1 : 249 (4) علامہ ابنِ جزی رحمۃ اللہ علیہ کا قول علامہ ابنِ جزی الکلبی المالکی (م 741 ھ) نے انبیاء کرام علیھم السلام اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی قبور سے برکت حاصل کرنے پر لکھا ہے : ومن المواضع التي ينبغي قصدها تبرکاً قبر إسماعيل عليه السلام وأمه هاجر و هما في الحجر، وقبر آدم عليه السلام في جبل أبي قبيس، والغار المذکور في القرآن وهو في جبل أبي ثور، والغار الذي في جبل حراء حيث ابتداء نزول الوحي علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، وزيارة قبور من بمکة والمدينة من الصحابة والتابعين والأئمة. ’’وہ مقامات جن سے برکت حاصل کرنے کے لئے جانا چاہئے ان میں مقامِ حجر میں واقع حضرت اسماعیل اور حضرت ہاجرہ علیھما السلام کی قبور ہیں، جبلِ ابی قبیس پر حضرت آدم علیہ السلام کی قبر ہے، قرآن میں مذکور غار جبلِ ابی ثور پر واقع ہے، وہ غار جہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کی ابتداء ہوئی جبلِ حراء میں واقع ہے، اسی طرح مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں صحابہ کرام، تابعین اور ائمہ کی قبور مشہور زیارت گاہیں ہیں۔‘‘ ابن جزي، القوانين الفقهية، 1 : 96 (5) علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ کا قول علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ زیارتِ قبور کے حوالے سے بحث کرتے ہوئے قبورِ اولیاء کے بارے میں لکھتے ہیں : وأما الأولياء فإنهم متفاوتون في القرب من اﷲ تعالٰي، ونفع الزائرين بحسب معارفهم وأسرارهم. ’’اولیاء کو اللہ رب العزت کے ہاں قربت کے لحاظ سے مختلف مقام حاصل ہوتے ہیں، (اس وجہ سے) زائرین کو (اُن کی قبور کی زیارت کے وقت) اُن کے معارف اور اسرار کے حسبِ حال نفع حاصل ہوتا ہے۔‘‘ ابن عابدين، حاشية رد المحتار علي الدر المختار، 2 : 242 (6)۔ علامہ سلیمان بن عمر البجیرمی رحمۃ اللہ علیہ کا قول علامہ سلیمان بن عمر بن محمد البجیرمی شافعی رحمۃ اللہ علیہ (م 1221ھ) قبورِ صالحین سے تبرک پر لکھتے ہیں : إن قصد بتقبيل أضرحتهم أي وأعتابهم التبرک لم يکره. ’’اگر اولیاء کی قبور یا اُن کے دروازوں کی چوکھٹ کو بطور تبرک چوما جائے تو اس میں کوئی کراہت نہیں۔‘‘ بجيرمي، حاشية البجيرمي علي شرح منهج الطلاب، 1 : 495 - 496 (7)۔ علامہ عبدالحمید شروانی رحمۃ اللہ علیہ کا قول علامہ عبدالحمید شروانی شافعی رحمۃ اللہ علیہ (م 1301ھ) نے قبورِ اولیاء سے تبرک پر تحریر کیا ہے : إن قصد بتقبيل أضرحتهم التبرک لم يکره. ’’اولیاء کی قبور کو حصولِ برکت کے لئے چومنا مکروہ نہیں۔‘‘ شرواني، حواشي الشرواني علي تحفة المنهاج بشرح المنهاج، 3 : 175 کیمیا پیدا کن اَز مشتِ گلے بوسہ زن بر آستانِ کاملے اﷲ رب العزت کی فضل اور عطاء سے بعض ہستیاں، ان کے آثار اور مقامات فیض رساں اور بابرکت ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرونِ اولیٰ سے لے کر آج تک اہل ایمان نہ صرف یہ کہ آثارِ انبیاء و اولیاء سے حصولِ برکت کو سعادت سمجھتے ہیں بلکہ کسی صالح بزرگ ہستی، متبرک مقام اور آثار سے حصولِ فیض اور برکت کے لئے دور دراز علاقوں کا سفر بھی اختیار کرتے رہے ہیں۔ جسے وہ منافی توحید نہیں سمجھتے تھے او نہ کسی نے اس عمل خیر کو شرک بدعت قرار دیا۔
×
×
  • Create New...