Jump to content

کمیونٹی میں تلاش کریں

Showing results for tags 'محدث فورم'.

  • ٹیگ میں سرچ کریں

    ایک سے زائد ٹیگ کاما کی مدد سے علیحدہ کیے جا سکتے ہیں۔
  • تحریر کرنے والا

مواد کی قسم


اسلامی محفل

  • اردو فورم
    • اردو ادب
    • فیضان اسلام
    • مناظرہ اور ردِ بدمذہب
    • سوال و درخواست
    • گفتگو فورم
    • میڈیا
    • اسلامی بہنیں
  • انگلش اور عربی فورمز
    • English Forums
    • المنتدی الاسلامی باللغۃ العربیہ
  • اسلامی محفل سے متعلق
    • معلومات اسلامی محفل
  • Arabic Forums

تتیجہ ڈھونڈیں...

وہ نتیجہ نکالیں جن میں یہ الفاظ ہوں


تاریخ اجراء

  • Start

    End


Last Updated

  • Start

    End


نمبرز کے حساب سے ترتیب دیں...

Joined

  • Start

    End


Group


AIM


MSN


Website URL


ICQ


Yahoo


Jabber


Skype


مقام


Interests


پیر

  1. ایک اہلحدیث نے اپنے محدث فورم پر یہ دعوی کیا ہے کہ ’’ما فوق الاسباب اللہ تعالی کیلئے خاص ہیں‘‘ اور اس پر مندرجہ ذیل چھے دلائل دیے ہیں، ان دلائل کا جواب چاہیے:۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ممکن ہے کوئی یہ کہہ دے کہ ما فوق الاسباب اللہ تعالیٰ کے لئے خاص کرنے کی دلیل نہیں، لہٰذا ہم اس کی وضاحت بھی کئے دیتے ہیں کہ بالکل ما فوق الاسباب اللہ تعالیٰ کے لئے ہی خاص ہے؛ 1 اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے: فَاطِرُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَمِنَ الْأَنْعَامِ أَزْوَاجًا يَذْرَؤُكُمْ فِيهِ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (سورة الشورى 11) آسمانوں اور زمین کا بنانے والا، تمہارے لیے تمہیں میں سے جوڑے بنائے اور نر و مادہ چوپائے، اس سے تمہاری نسل پھیلاتا ہے، اس جیسا کوئی نہیں، اور وہی سنتا دیکھتا ہے (ترجمہ: احمد رضا خان بریلوی) اس آیت کی تفسیر میں پیر کرم شاہ الازہری فرماتے ہیں: کوئی چیز ذات میں یا صفات میں اللہ تعالیٰ کی مانند نہیں تاکہ اگر اللہ کو چھوڑ کر اس کی پناہ لی جائے تو اس کا کام بن جائے۔ انسان کو اپنے خالق کا در چھوڑ کر کہیں پناہ نہیں مل سکتی۔ وہ سمع اور بصیر ہے۔ اپنی ہر مخلوق کی فریاد اور اس کا نالۂ و درد بھی سُن رہا ہے اور اس کی حالت زار کو بھی دیکھ رہا ہے۔ اور کون ہے جس کی یہ شان ہو۔ صفحہ 366 (2448) جلد 04 ضیاء القرآن – محمد کرم شاہ الازہری – ضیاء القرآن پبلی کیشنز، لاہور 2 قاضی ابو الفضل (عیاض) رحمۃ اللہ علیہ اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دے، فرماتے ہیں: اب میں اسی فصل میں اس کے ذیل اور ضمنی ایک نکتہ بیان کرکے اس قسم کو ختم کرتا ہوں اور اس نکتہ کے ذریعے ان مشکلوں کو دور کردوں گا جو ہر کمزور وہم اور بیمار فہم کو پیش آئے ہوں گے تاکہ اس کو تشبیہ کے غاروں سے نکالے اور ملمع سازوں سے دور کردے۔ وہ یہ اعتقاد رکھے کہ اللہ تعالیٰ جل اسمہ، اپنی سفات، عظمت کبریاء ملکوت اور اسماء حسنی اور صفات علیاء میں اس حد تک ہے کہ اس کی مخلوق میں کوئی بھی ادنیٰ سا مشابہ بھی نہیں ہے اور نہ کسی کو اس سے تشبیہ بھی دی جاسکتی ہے۔ بلا شک وشبہ وہ جو شریعت نے مخلوق پر بولا ہے۔ ان دونوں میں حقیقی معنی میں کوئی مشابہت ہی نہیں ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات قدیم ہیں بخلاف مخلوق کی صفات کے جیسے کہ اس کی ذات تبارک و تعالیٰ دوسری ذاتوں کے مشابہ نہیں ہے ایسے ہی اس کی صفات مخلوق کی صفات کے مشابہ نہیں۔ کیونکہ مخلوق کی صفات اعراض و اغراض سے جدا نہیں ہوتیں اور اللہ تبارک و تعالیٰ اس سے پاک ومنزہ ہے بلکہ وہ اپنی صفات و اسماء کے ساتھ ہمیشہ سے ہے، اس بارے میں یہ فرمان کافی ہے: لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ﴿الشُّورَى : 11﴾ اس جیسا کوئی نہیں۔ اور اللہ تعالیٰ ہی کے لئے خوبی ہے۔ جن علماء عارفین، محققین نے یہ کہا کہ توحید ایسی ذات کے ثابت کرنے کا نام ہے جو کہ اور ذاتوں کے مشابہ نہیں اور نہ صفات سے معطل ہے۔ واسطی رحمۃ اللہ علیہ نے اس نکتہ کو خوب بڑھا کر بیان ہے اور یہی ہمارا مقصود ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ذات کے مثل کوئی ذات نہیں اور نہ اس کے نام کے مثل کوئی نام اور نہ اس کے فعل کے مثل کوئی فعل ہے اور نہ اس کی صفت کے مثل کوئی صفت۔ مگر صرف لفظ کی لفظ کے ساتھ موافقت کی وجہ سے ہے۔ اس کی قدیم ذات برتر ہے کہ اس کی کوئی صفت حادث ہو۔ جیسے کہ یہ محال ہے کہ کسی حادث ذات میں کوئی صفت قدیم ہو۔ یہ کل کا کل اہل سنت و جماعت کا مذہب ہے۔ بلا شبہ امام ابو القاسم قیشری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے اس قول کی اور زیادہ وضاحت کے ساتھ تفسیر کی ہے اور فرمایا کہ یہ حکایت تمام مسائل توحید کو مشتمل ہے۔ کیونکر اس کی ذات، محدث ذاتوں کے مشابہ ہو اس کی ذات اپنے وجود میں مستغنی ہے اور کیونکر اس کا فعل مخلوق کے فعل کے مشابہ ہو وہ فعل تو نفع محبت اور دفع نقص کے بغیر ہے اور نہ خطروں اور غرضوں کا گزر ہے اور نہ اعمال و محنت سے ظاہر ہوا اور مخلوق ان وجوہات سے باہر نہیں۔ ہمارے مشائخ میں سے ایک بزرگ نے کہا ہے کہ جو کچھ تم اپنے وہموں سے وہم کرتے ہو یا اپنی عقلوں سے معلوم کرتے ہو۔ وہ تمہاری طرح حادث ہے۔ ابو المعالی رحمۃ اللہ علیہ جوینی فرماتے ہیں کہ جو شخص اس موجود کی طرف مطمئن ہو گیا اور اس طرف اپنی فکر بس کردی۔ ارے وہ تو مشبہ ہے اور جو شخص نفی محض کی طرف ہو گیا وہ معطل ہے اور جو شخص ایک ایسے موجود کے ساتھ علاقہ رکھ کر اس کی حقیقت کے ادراک سے عجز کا اعتراف کرے، بس وہی موحد ہے۔ حجرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ نے توحید کی حقیقت میں کیا خوب کہا ہے کہ تم اس بات کو جان لو کہ اللہ تعالیٰ کی قدرت چیزوں میں بغیر محنت سے ہے اور مخلوق کا بنانا بلا مزاج اور سبب کے ہے۔ ہر چیز کی علت اس کی صفت ہے اور اس کی صفت کے لئے کوئی علت نہیں اور تمہارے وہم میں جو بھی متسور ہو اللہ اس کے برعکس ہے۔ یہ کلام نہایت عجیب عمدہ اور محقق ہے اور اس کا آخری فقرہ اللہ تعالیٰ کے اس قول کی تفسیر ہے : لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ﴿الشُّورَى : 11﴾ سے اور دوسرا اس کے فرمان ہے: لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ ﴿الْأَنْبِيَاءِ : 23﴾جو اللہ کرتا ہے اس سے پوچھا نہ جائے گا۔ حالانکہ وہ خود مسئول ہیں۔ اور تیسرا ٹکڑا اللہ کے اس فرمان کی تفسیر ہے: إِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَيْءٍ إِذَا أَرَدْنَاهُ أَنْ نَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ ﴿النَّحْلِ : 40﴾ جو چیز ہم چاہیں اس سے ہمارا فرمانا یہ ہی ہوتا ہے کہ ہم کہیں ہو جا وہ فوراً ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور تمہیں توحید اور اس کے اژبات اور اس کی تنزیہہ پر ثابت و قائم رکھے اور ضلالت و گمراہی یعنی تعطل و تشبیہ کے کناروں سے اپنے فضل و احسان کے طفیل محفوظ رکھے۔ آمین۔ صفحہ 222 – 223 جلد 01 الشفا بتعریف حقوق المصطفیٰ – مترجم غلام معین الدین نعیمی – مکتبہ اعلیٰ حضرت، لاہور 3 سعد الدین تفتازانی کی شرح العقائد میں ہے:۔ (للخَلْقِ) أي المخلوق، من الملك والإنس والجن، بخلاف علم الخالق تعالى، فإنه لذاته لا لسبب من الأسباب. ( علم کے اسباب) مخلوق کے لئے یعنی فرشتہ اور انسان اور جن کے لئے بخلاف حق تعالیٰ کے علم کے، اس لئے کہ وہ ذاتی ہے اسباب میں سے کسی سبب کی وجہ سے نہیں۔ یعنی کہ اللہ تعالیٰ کی صفات ما فوق الاسباب ہیں! https://archive.org/stream/DarjaAlSadisa6thYear/SharhUlAqaidUnNasafiyah-AlBushra#page/n39/mode/2up https://archive.org/stream/BayanUlFawaid/Bayan%20ul%20Fawaid%20Sharh%20Urdu%20Sharh%20ul%20Aqaid%201%2C2%20By%20Maulana%20Mujibullah#page/n49/mode/2up 4 يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا قُلِ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنْظِرُونِ ﴿سورة الأعراف 194- 195﴾ بیشک وہ جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو تمہاری طرح بندے ہیں تو انہیں پکارو پھر وہ تمہیں جواب دیں اگر تم سچے ہو، ﴿﴾کیا ان کے پاؤں ہیں جن سے چلیں یا ان کے ہاتھ ہیں جن سے گرفت کریں یا ان کے آنکھیں ہیں جن سے دیکھیں یا ان کے کان ہیں جن سے سنیں تم فرماؤ کہ اپنے شریکوں کو پکارو اور مجھ پر داؤ چلو اور مجھے مہلت نہ دو (ترجمہ : احمد رضا خان بریلوی) اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں غیر اللہ کی پکار کے بطلان کو بیان کرتے ہوئے غیر اللہ کو اسباب کا محتاج ٹھہرایا ہے، کہ اللہ کے علاوہ جنہیں پکارا جاتا ہے، ان کے پاس وہ اسباب ہے ہی کہاں کہ وہ تمہاری پکار کو سن سکیں اور اس کا جواب دے سکیں! جبکہ اللہ تعالیٰ تو کسی سبب کا محتاج نہیں ، بلکہ اس کی تمام صفات فوق الاسباب ہیں! اللہ تعالیٰ تو وہ ذات پاک ہے کہ جس نے مخلوق بھی پیدا کی اور اپنی مخلوق کے لئے اسباب بھی پیدا کئے ہیں! قرآن کی یہ آیت اس بات کی صریح دلیل ہے کہ ما تحت الاسباب مخلوق کی مدد طلب کرنا ایک الگ بات ہے، اور ما فوق الاسباب مخلوق کی مدد طلب کرنا ایک الگ بات ہے۔ قرآن کی یہ آیت اس امر میں بھی صریح دلیل ہے کہ ما فوق الاسباب کسی مخلوق کو پکارنا اور اس سے مدد طلب کرنا اسے معبود بنانا اور اور شرک ہے، جبکہ ما تحت الاسباب کی اس امر مین داخل نہیں 5 لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ مخلوق کی صفات کے ما فوق الاسباب ہونے کی نفی کر دیتی ہے 6 جبکہ کسی ''ولی'' کا محض ''ہاتھ پھیرنا'' کوئی سبب نہیں! البتہ ہاتھ پھیر کر دعا اور دم کرنا ما فوق الاسباب اللہ کو پکارنا ہے! اس میں بھی شرعی تقاضوں کو مدّنظر رکھنا لازم ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ إِسْحَاقُ : أَخْبَرَنَا وقَالَ زُهَيْرٌ : وَاللَّفْظُ لَهُ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي الضُّحَى ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قالت : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اشْتَكَى مِنَّا إِنْسَانٌمَسَحَهُ بِيَمِينِهِ ، ثُمَّ قَالَ : " أَذْهِبْ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ ، وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِي لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ ، شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا " ، فَلَمَّا مَرِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَثَقُلَ أَخَذْتُ بِيَدِهِ لِأَصْنَعَ بِهِ نَحْوَ مَا كَانَ يَصْنَعُ ، فَانْتَزَعَ يَدَهُ مِنْ يَدِي ، ثُمَّ قَالَ : " اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَاجْعَلْنِي مَعَ الرَّفِيقِ الْأَعْلَى " ، قَالَتْ : فَذَهَبْتُ أَنْظُرُ فَإِذَا هُوَ قَدْ قَضَى. عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ہم میں سے جب کوئی بیمار ہوتا تو رسول اللہ اس پر اپنا دایاں ہاتھ پھیرتے پھر فرماتے تکلیف کو دور کر دے اے لوگوں کے پروردگار شفاء دے تو ہی شفا دینے والا ہے تیری شفاء کے علاوہ کوئی شفا نہیں ہے ایسی شفا دینے والا ہے تیری شفا کہ کوئی بیماری باقی نہ رہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور بیماری شدید ہوگئی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑا تاکہ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے اسی طرح کروں جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ سے کھینچ لیا پھر فرمایا اے اللہ میری مغفرت فرما اور مجھے رفیق اعلی کے ساتھ کر دے سیدہ فرماتی ہیں میں نے آپ کی طرف دیکھنا شروع کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے تھے۔ صحيح مسلم » كِتَاب السَّلَامِ » بَاب اسْتِحْبَابِ رُقْيَةِ الْمَرِيضِ
×
×
  • Create New...