Search the Community
Showing results for tags 'نستعین'.
-
ایاک نعبد اور وایاک نسعین کا صحیح فہم کتب تفاسیر سے ایک آیت کی پانچ معتبر کتب تفسیر سے وضاحت کہ علماء نے اسے کیسے سمجھا اسکی تفصیل درج ذیل ہے۔ طالب دعا محمد عمران علی حیدری ✍️( درخواست ساری پوسٹ پڑھیں اور بزرگوں کو فالو کریں👏👏 ⛲أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم⛲ ⛲بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ⛲ یا اللہ جَلَّ جَلَالُہٗ یارسول ﷺ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ وعَلٰی اٰلِکَ وَ اَصْحٰبِکَ یَا حَبِیْبَ اللہ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلاَمُ عَلَیْکَ یَا نَبِیَّ اللّٰہ وَعَلٰی اٰلِکَ وَ اَصْحٰبِکَ یَا نُوْرَ اللّٰہ 🌹 فیض رضا جاری رہے گا⛲ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ترجمہ: اے پروردگار ! ) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مددچاہتے ہیں۔.. مختلف کتب سے تفاسیر پیش خدمت ہیں ھدایت اللہ نے دینی ہے بس۔۔۔ 1نمبر 📘ضیاالقرآن📕 9 ف عبادت کیا ہے ؟ آپ کو لغت و تفسیر کی ساری کتابوں میں اس کا یہ معنی ملے گا۔ اقصی غایۃ الخضوع والتذلل یعنی حددرجہ کی عاجزی اور انکسار۔ مفسرین اس کی مثال سجدہ سے دیتے ہیں۔ حالانکہ صرف سجدہ ہی عبادت نہیں بلکہ حالت نماز میں تمام حرکات و سکنات عبادت ہیں۔ ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونا، رکوع اور رکوع کے بعد ہاتھ چھوڑ کر کھڑے ہونا، سجدہ اور اس کے بعد حالت التحیات میں دو زانو بیٹھنا، سلام کے لئے دائیں بائیں منہ پھیرنا۔ یہ سب عبادت ہیں اگر عبادت صرف تذلل و انکسار کے آخری مرتبہ کا نام ہے اور یہ آخری مرتبہ سجدہ ہی ہے تو کیا یہ باقی چیزیں عبادت نہیں۔ اس کا تو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اور اگر یہ ساری چیزیں مطلقا عبادت ہیں تو اگر کوئی شاگرد اپنے استاد کے سامنے اور بیٹا اپنے باپ کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھتا ہے یا ان کی آمد پر کھڑا ہوجاتا ہے تو کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ اس نے اپنے استاد یا باپ کی عبادت کی اور ان کو اپنا معبود بنا لیا۔ حاشاد وکلا۔ پھر وہ کونسی چیز ہے ہے جو ان حرکات و سکنات کو اگر یہ نماز میں ہوں تو عبادت بنا دیتی ہے اور یوں کھڑے ہونے کو (ہاتھ باندھے یا کھولے ہوئے) اور اس طرح بیٹھنے کو اور دائیں بائیں منہ پھیرنے کو تذلل و انکسار کے آخری مرتبہ پر پہنچا دیتی ہے۔ اور اگر یہی امور نماز سے خارج ہوں تو نہ ان میں غایتہ خضوع ہے اور نہ یہ عبادت متصور ہوتے ہیں۔ تو اس کا ممیز ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ جس ذات کے لئے اور جس کے سامنے آپ یہ افعال کر رہے ہیں اس کے متعلق آپ کا عقیدہ کیا ہے۔ اگر آپ اس کو اللہ اور معبود یقین کرتے ہیں تو یہ سب اعمال عبادت ہیں اور سب میں غایتہ تذلل و خضوع پایا جاتا ہے لیکن اگر آپ اس کو عبد اور بندہ سمجھتے ہیں نہ خدا، نہ خدا کا بیٹا، نہ اس کی بیوی، نہ اس کا اوتار تو یہ اعمال عبادت نہیں کہلائیں گے۔ ہاں آپ ان کو احترام، اجلال اور تعظیم کہہ سکتے ہیں۔ البتہ شریعت محمدیہ علی صاحبہا اجمل الصلاۃ واطیب السلام میں غیر خدا کے لئے سجدہ تعظیمی بھی ممنوع ہے۔ یہ سمجھ لینے کے بعد اب یہ بات خود بخود واضح ہوگئی کہ اللہ تعالی کی ذات پاک کے بغیر کوئی دوسری چیز ایسی نہیں جس کی عبادت شرعا یا عقلا درست ہو۔ سب سے بالاتر اور قوی تر وہ، سب کا خالق اور سب کو اپنی تربیت سے مرتبہ کمال تک پہنچانے والا وہ لطف وکرم پیہم مینہ برسانے والا وہ، بندہ ہزار خطائیں کرے لاکھوں جرم کرے اپنی رحمت سے معاف فرمانے والا وہ، اور قیامت کے دن ہر نیک وبد کی قسمت کا فیصلہ فرمانے والا وہ، تو اسے چھوڑ کر انسان کسی غیر کی عبادت کرے تو آخر کیوں ؟ بلکہ اس کے بغیر اور ہے ہی کون جو معبود اور اللہ ہو اور اس کی پرستش کی جائے ؟ اسی لیے قرآن نے ہمیں صرف یہی تعلیم نہیں دی کہ نعبدک کہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں کیونکہ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ ہم تیری عبادت کرتے ہیں اور تیرے ساتھ اوروں کی بھی۔ بلکہ یہ سبق سکھایا کہ ایاک نعبد۔ صرف تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں اور کسی کی نہیں کرتے مفسرین کرام نے ایاک کو مقدم کرنے میں حصرو تخصیص کے علاوہ دیگر لطائف کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ فرماتے ہیں یہاں تین چیزیں ہیں۔ عابد، عبادت اور معبود۔ عارف کو چاہیے کہ اس مقام پر اپنے آپ کو بھی بھول جائے۔ عبادت کو بھی مقصود نہ بنائے بلکہ اس کی نگاہ ہو تو صرف اپنے معبود حقیقی پر تاکہ اس کے انوار جمال و جلال کے مشاہدہ میں استغراق کی نعمت سے سرفراز کیا جائے۔ اس لئے فرمایا ایاک نعبد۔ عابد واحد ہے لیکن صیغہ جمع کا استعمال کر رہا ہے۔ اس میں نکتہ یہ ہے کہ اپنی ناقص عبادت کو مقربین بارگاہ صمدیت کی اخلاص ونیاز میں ڈوبی ہوئی عبادت کے ساتھ پیش کرے تاکہ ان کی برکت سے اس کی عبادت کو بھی شرف پذیرائی نصیب ہو۔ 1 ٠ ف یعنی جیسے ہم عبادت صرف تیری ہی کرتے ہیں اسی طرح مدد بھی تجھی سے طلب کرتے ہیں تو ہی کارساز حقیقی ہے تو ہی مالک حقیقی ہے ہر کام میں ہر حاجت میں تیرے سامنے ہی دست سوال دراز کرتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس عالم اسباب میں اسباب سے قطع نظر کرلی جائے۔ بیمار ہوئے تو علاج سے کنارہ کش، تلاش رزق کے وقت وسائل معاش سے دست بردار، حصول علم کے لئے صحبت استاد سے بیزار۔ اس طریقۂ کار سے اسلام اور توحید کو کوئی سروکار نہیں۔ کیونکہ وہ جو شافی، رزاق اور حکیم ہے اسی نے ان نتائج کو ان اسباب سے وابستہ کردیا ہے۔ اسی نے ان اسباب میں تاثیر رکھی ہے۔ اب ان اسباب کی طرف رجوع استعانت بالغیر نہیں ہوگی۔ اسی طرح ان جملہ اسباب میں سب سے قوی تر اور اثر آفریں سبب دعا ہے۔ حضور علیہ الصلوۃ والتسلیم نے فرمایا دعاء یرد القضاء کہ دعا تو تقدیر کو بھی بدل دیتی ہے۔ اور اس میں بھی کلام نہیں کہ محبوبان خدا کے ساتھ اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ وہ ان کی عاجزانہ اور نیاز مندانہ التجاؤں کو ضرور شرف قبول بخشے گا۔ چنانچہ حدیث قدسی جسے امام بخاری (رح) اور دیگر محدثین نے روایت کیا ہے میں مذکور ہے کہ اللہ تعالی اپنے مقبول بندوں کے متعلق ارشاد فرماتا ہے۔ لان سألنی لاعطینہ ولان استعاذنی لاعیذنہ۔ اگر میرا مقبول بندہ مجھ سے مانگے گا تو میں ضرور اس کا سوال پورا کروں گا۔ اور اگر وہ مجھ سے پناہ طلب کرے گا تو میں ضرور اسے پناہ دوں گا۔.. تو اب اگر کوئی شخص ان محبوبان الہی کی جناب میں خصوصا حبیب کبریا علیہ التحیۃ والثناء کے حضور میں کسی نعمت کے حصول یا کسی مشکل کی کشود کے لئے التماس دعا کرتا ہے تو یہ بھی استعانت بالغیر اور شرک نہیں بلکہ عین اسلام اور عین توحید ہے۔ ہاں اگر کسی ولی، شہید یا نبی کے متعلق کسی کا یہ عقیدہ ہو کہ یہ مستقل بالذات ہے اور خدا نہ چاہے تب بھی یہ کرسکتا ہے تو یہ شرک ہے اور ایسا کرنے والا مشرک ہے۔ اس حقیقت کو حضرت شاہ عبد العزیز (رح) نے نہایت بسط کے ساتھ اپنی تفسیر میں رقم فرمایا ہے۔ اور اس کا ماحصل مولانا محمود الحسن صاحب نے اپنے حاشیہ قرآن میں ان جامع الفاظ میں بیان کیا ہے :۔ ” اس آیت شریفہ سے معلوم ہوا کہ اس کی ذات پاک کے سوا کسی سے حقیقت میں مدد مانگنی بالکل ناجائز ہے۔ ہاں اگر کسی مقبول بندہ کو محض واسطہ رحمت الہی اور غیر مستعمل سمجھ کر استعانت ظاہری اس سے کرے تو یہ جائز ہے کہ یہ استعانت در حقیقت حق تعالی سے ہی استعانت ہے۔ “ اور اس طرح کی استعانت تو پاکان امت کا ہمیشہ سے معمول رہا ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ (رح) جناب رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں عرض کرتے ہیں وانت مجیری من ھجوم ملمۃ اذا انشبت فی القلب شر المخالب۔ بانی دار العلوم دیوبند عرض کرتے ہیں مدد کر اے کرم احمدی کہ تیرے سوا نہیں ہے قاسم بےکس کا کوئی حامی کار۔ (قصائد قاسمی دیوبندی) (محمد عمران علی حیدری) نمبر 2 📕نور العرفان📘 ف 6 ۔ نعبد کے جمع فرمانے سے معلوم ہوا کہ نماز جماعت سے پڑھنی چاہیے اگر ایک کی قبول ہو سب کی قبول ہو۔ ف 7 ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حقیقتا مدد اللہ کی ہے جیسے حقیقتا حمد رب کی ہے خواہ واسطے سے ہو یا بلاواسطہ خیا ل رہے کہ عبادت صرف اللہ کی ہے مدد لینا حقیقتا اللہ سے مجازا اس کے بندوں سے اس فرق کی وجہ سے ان دو چیزوں کو علیحدہ جملوں میں ارشاد فرمایا، خیال رہے کہ عبادت اور مدد لینے میں فرق یہ ہے کہ مدد تو مجازی طو رپر غیر خدا سے بھی حاصل کی جاتی ہے، رب فرماتا انما ولیکم اللہ و رسولہ اور فرماتا ہے و تعاونوا علی البر والتقوی، لیکن عبادت غیر خدا کی نہیں کی جاسکتی نہ حقیقتا نہ حکما، کیونکہ عبادت کے معنی ہیں کسی کو خالق یا خالق کی ملع مان کر اس کی بندگی یا اطاعت کرنا یہ غیر خدا کے لیے شرک ہے اگر عبادت کی طرح دوسرے سے استعانت بھی شرک ہوتی تو یہاں یوں ارشاد ہوتا ، ایاک نعبد وایاک نستعین یہ بھی خیال رہے کہ دنیاوی یا دینی امور میں کبھی اسباب سے مدد لینا یہ درپردہ رب سے ہی مدد لینا ہے ، بیمار کا حکیم کے پاس جانا مظلوم کا حاکم سے فریاد کرنا ، گنہگار کا جناب محمد سے عرض کرنا اس آیت کے خلاف نہیں۔ جیسے کسی بندہ کی تعریف کرنا الحمد للہ کے عموم کے خلاف نہیں کیونکہ وہ بھی حمد بھی بالواسطہ رب ہی کی حمد ہے ، یہ بھی خیال رہے کہ اللہ کے نیک بندے بعد وفات بھی مدد فرماتے ہیں، معراج کی رات موسیٰ (علیہ السلام) نے پچاس نمازوں کی پانچ کرا دیں، اب بھی حضور کے نام کی برکت سے کافر کلمہ پڑھ کر مومن ہوتا ہے ، لہذا صالحین سے ان کی وفات کے بعد بھی مدد مانگنا اس آیت کے خلاف نہیں۔. ( محمد عمران علی حیدری) 3نمبر صراط الجنان {ایاك نعبد و ایاك نستعین:ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔} ا س سے پہلی ایات میں بیان ہوا کہ ہر طرح کی حمد و ثنا کا حقیقی مستحق اللہ تعالی ہے جو کہ سب جہانوں کا پالنے والا، بہت مہربا ن اور رحم فرمانے والا ہے اور اس ایت سے بندوں کو سکھایا جارہا ہے کہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں اپنی بندگی کا اظہار یوں کرو کہ اے اللہ !عزوجل، ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں کیونکہ عبادت کا مستحق صرف تو ہی ہے اور تیرے علاوہ اور کوئی اس لائق ہی نہیں کہ اس کی عبادت کی جا سکے اور حقیقی مدد کرنے والا بھی تو ہی ہے۔تیری اجازت و مرضی کے بغیر کوئی کسی کی کسی قسم کی ظاہری، باطنی، جسمانی روحانی، چھوٹی بڑی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ عبادت اور تعظیم میں فرق: عبادت کامفہوم بہت واضح ہے، سمجھنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ کسی کو عبادت کے لائق سمجھتے ہوئے اس کی کسی قسم کی تعظیم کرنا’’ عبادت‘‘ کہلاتاہے اور اگر عبادت کے لائق نہ سمجھیں تو وہ محض’’ تعظیم‘‘ ہوگی عبادت نہیں کہلائے گی، جیسے نماز میں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا عبادت ہے لیکن یہی نماز کی طرح ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا استاد، پیر یا ماں باپ کے لئے ہو تومحض تعظیم ہے عبادت نہیں اوردو نوں میں فرق وہی ہے جو ابھی بیان کیاگیا ہے۔ ایت’’ایاك نعبد‘‘ سے معلوم ہونے والی اہم باتیں : ایت میں جمع کے صیغے ہیں جیسے ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنی چاہئے اور دوسروں کو بھی عبادت کرنے میں شریک کرنے کا فائدہ یہ ہے کہ گناہگاروں کی عبادتیں اللہ تعالی کی بارگاہ کے محبوب اور مقبول بندوں کی عبادتوں کے ساتھ جمع ہو کر قبولیت کادرجہ پالیتی ہیں۔نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں اپنی حاجت عرض کرنے سے پہلے اپنی بندگی کا اظہار کرنا چاہئے۔ امام عبد اللہ بن احمد نسفیرحمۃاللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں :عبادت کو مدد طلب کرنے سے پہلے ذکر کیاگیا کیونکہ حاجت طلب کرنے سے پہلے اللہ تعالی کی بارگاہ میں وسیلہ پیش کرنا قبولیت کے زیادہ قریب ہے۔ 📖(مدارک، الفاتحۃ، تحت الایۃ: ۴، ص۱۴) اللہ تعالی کی بارگاہ میں وسیلہ پیش کرنے کی برکت: ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں کسی کا وسیلہ پیش کر کے اپنی حاجات کے لئے دعا کیا کرے تاکہ اس وسیلے کے صدقے دعا جلدمقبول ہو جائے اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں وسیلہ پیش کرنا قران و حدیث سے ثابت ہے، چنانچہ وسیلے کے بارے میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے: ’’ یایها الذین امنوا اتقوا الله و ابتغوا الیه الوسیلة ‘‘ 📖( مائدہ: ۳۵) ترجمہ:اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو۔ اور ’’سنن ابن ماجہ‘‘ میں ہیکہ ایک نابینا صحابی بارگاہ رسالت صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم میں حاضر ہو کر دعا کے طالب ہوئے تو اپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلمنے انہیں اس طرح دعا مانگنے کا حکم دیا: ’’ *اللہم انی اسالک واتوجہ الیک بمحمد نبی الرحمۃ یا محمد انی قد توجہت بک الی ربی فی حاجتی ہذہ لتقضی اللہم فشفعہ فی*‘‘ اے اللہ! عزوجلمیں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف نبی رحمت حضرت محمد صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے ساتھ متوجہ ہوتا ہوں اے محمد ! صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم، میں نے اپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے وسیلے سے اپنے رب عزوجل کی طرف اپنی اس حاجت میں توجہ کی تاکہ میری حاجت پوری کردی جائے ، اے اللہ!عزوجل ، پس تومیرے لئے حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی شفاعت قبول فرما۔ 📖(ابن ماجہ، کتاب الصلاۃ، باب ما جاء فی صلاۃ الحاجۃ، ۲/۱۵۷، الحدیث: ۱۳۸۵) نوٹ صراط الجنان سے یا محمد کے بارے ایک چھوٹی سی وضاحت میں نے درج نہی کی جب کہ تفسیر میں موجود ہے میں نے تحریر میں درج نہی وہ مضمون کافی وضاحت طلب ہے ✍️إن شاءالله اس پر موقع کی مناسبت پر ایک تحریر لکھوں گا ۔اور ادھر درج نہ کرنے کی ایک اور وجہ موضوع سے ہٹ کی تھی یہ بات اس لیےبھی۔ اگر برا لگا تو معزرت چاھتا ہوں اللہ میری غلطیوں کا معاف کرے آمین۔۔🤲 ناچیز احقر عمران { و ایاك نستعین : اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔}اس ایت میں بیان کیاگیا کہ مدد طلب کرنا خواہ واسطے کے ساتھ ہو یا واسطے کے بغیر ہو ہر طرح سے اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہے اور اللہ تعالی کی ذات ہی ایسی ہے جس سے حقیقی طور پر مدد طلب کی جائے ۔اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃاللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں : ’’ حقیقی مدد طلب کرنے سے مراد یہ ہے کہ جس سے مدد طلب کی جائے اسے بالذات قادر،مستقل مالک اور غنی بے نیاز جانا جائے کہ وہ اللہ تعالی کی عطا کے بغیر خود اپنی ذات سے ا س کام (یعنی مدد کرنے)کی قدرت رکھتا ہے۔ اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا ہر مسلمان کے نزدیک’’ شرک‘‘ ہے اور کوئی مسلمان اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کے بارے میں ایسا ’’عقیدہ‘‘ نہیں رکھتا اور اللہ تعالی کے مقبول بندوں کے بارے میں مسلمان یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی بارگاہ تک پہنچنے کے لئے واسطہ اور حاجات پوری ہونے کا وسیلہ اور ذریعہ ہیں تو جس طرح حقیقی وجود کہ کسی کے پیدا کئے بغیر خود اپنی ذات سے موجود ہونا اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہے،اس کے باوجود کسی کو موجود کہنا اس وقت تک شرک نہیں جب تک وہی حقیقی وجود مراد نہ لیا جائے، یونہی حقیقی علم کہ کسی کی عطا کے بغیر خود اپنی ذات سے ہو اور حقیقی تعلیم کہ کسی چیزکی محتاجی کے بغیر از خود کسی کو سکھانا اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہے، اس کے باوجود دوسرے کو عالم کہنا یا اس سے علم طلب کرنا اس وقت تک شرک نہیں ہو سکتا جب تک وہی اصلی معنی مقصود نہ ہوں تو اسی طرح کسی سے مدد طلب کرنے کا معاملہ ہے کہ اس کا حقیقی معنی اللہ تعالی کے ساتھ خاص ہے اور وسیلہ و واسطہ کے معنی میں اللہ تعالی کے علاوہ کے لئے ثابت ہے اور حق ہے بلکہ یہ معنی تو غیرخدا ہی کے لئے خاص ہیں کیونکہ اللہ تعالی وسیلہ اور واسطہ بننے سے پاک ہے ،اس سے اوپر کون ہے کہ یہ اس کی طرف وسیلہ ہو گا اور اس کے سوا حقیقی حاجت روا کون ہے کہ یہ بیچ میں واسطہ بنے گا۔ بدمذہبوں کی طرف سے ہونے والا ایک اعتراض ذکر کر کے اس کے جواب میں فرماتے ہیں : ’’یہ نہیں ہو سکتا کہ خدا سے توسل کر کے اسے کسی کے یہاں وسیلہ و ذریعہ بنایا جائے ، اس وسیلہ بننے کو ہم اولیاء کرام سے مانگتے ہیں کہ وہ دربار الہی میں ہمارا وسیلہ،ذریعہ اور قضائے حاجات کاواسطہ ہو جائیں ، اس بے وقوفی کے سوال کا جواب اللہ تعالی نے اس ایت کریمہ میں دیا ہے: ’’ و لو انهم اذ ظلموا انفسهم جآءوك فاستغفروا الله و استغفر لهم الرسول لوجدوا الله توابا رحیما 📖(۶۴)‘‘(النساء: ۶۴) ترجمہ:اور جب وہ اپنی جانوں پر ظلم یعنی گناہ کر کے تیرے پاس حاضر ہوں اور اللہ سے معافی چاہیں اور معافی مانگے ان کے لئے رسول ،تو بے شک اللہ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے۔ کیا اللہ تعالی اپنے آپ نہیں بخش سکتا تھا پھر کیوں یہ فرمایا کہ اے نبی! تیرے پاس حاضر ہوں اورتو اللہ سے ان کی بخشش چاہے تویہ دولت و نعمت پائیں۔ یہی ہمارا مطلب ہے جو قران کی ایت صاف فرما رہی ہے۔ 📖(فتاوی رضویہ، ۲۱ /۳۰۴-۳۰۵۔) زیر تفسیر ایت کریمہ کے بارے میں مزید تفصیل جاننے کے لئے فتاوی رضویہ کی 21ویں جلد میں موجود اعلی حضرت امام احمد رضا خاں رحمۃاللہ تعالی علیہ کا رسالہ’’برکات الامداد لاہل الاستمداد(مدد طلب کرنے والوں کے لئے امداد کی برکتیں ) ‘‘کا مطالعہ فرمائیں۔ اللہ تعالی کی عطا سے بندوں کا مدد کرنا اللہ تعالی ہی کا مدد کرنا ہوتا ہے: یاد رہے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کو دوسروں کی مدد کرنے کا اختیار دیتا ہے اور اس اختیار کی بنا پر ان بندوں کا مدد کرنا اللہ تعالی ہی کا مدد کرنا ہوتا ہے، جیسے غزوۂ بدر میں فرشتوں نے اکر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہمکی مدد کی، لیکن اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا: ’’ و لقد نصركم الله ببدر و انتم اذلة ‘‘ 📖( ال عمران: ۱۲۳) ترجمہ:اور بیشک اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی جب تم بالکل بے سر و سامان تھے۔ یہاں فرشتوں کی مدد کو اللہ تعالی کی مدد کہا گیا، اس کی وجہ یہی ہے کہ فرشتوں کو مدد کرنے کا اختیار اللہ تعالی کے دینے سے ہے تو حقیقتا یہ اللہ تعالی ہی کی مدد ہوئی۔ یہی معاملہ انبیا ء کرام علیہم الصلوۃ والسلام اور اولیاء عظام رحمۃاللہ تعالی علیہمکا ہے کہ وہ اللہ عزوجل کی عطا سے مدد کرتے ہیں اور حقیقتا وہ مدد اللہ تعالی کی ہوتی ہے، جیسے حضرت سلیمان علیہ الصلوۃ والسلامنے اپنے وزیر حضرت اصف بن برخیا رضی اللہ تعالی عنہسے تخت لانے کا فرمایا اور انہوں نے پلک جھپکنے میں تخت حاضر کردیا۔اس پر انہوں نے فرمایا: ’’ هذا من فضل ربی‘‘ترجمہ:یہ میرے رب کے فضل سے ہے۔ 📖(نمل :۴۰) اورتاجدار رسالت صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی سیرت مبارکہ میں مدد کرنے کی تو اتنی مثالیں موجود ہیں کہ اگر سب جمع کی جائیں تو ایک ضخیم کتاب مرتب ہو سکتی ہے،ان میں سے چند مثالیں یہ ہیں : (1)…صحیح بخاری میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلمنے تھوڑے سے کھانے سے پورے لشکر کو سیر کیا۔ 📖(بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ الخندق۔۔۔ الخ، ۳/۵۱-۵۲، الحدیث: ۴۱۰۱، الخصائص الکبری، باب معجزاتہ صلی اللہ علیہ وسلم فی تکثیر الطعام غیر ما تقدم، ۲/۸۵) (2)…اپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلمنے دودھ کے ایک پیالے سے ستر صحابہ کوسیراب کردیا۔(بخاری، کتاب الرقاق، باب کیف کان عیش النبی۔۔۔ الخ، ۴/۲۳۴، الحدیث: ۶۴۵۲، عمدۃ القاری، کتاب الرقاق، باب کیف کان عیش النبی۔۔۔ الخ، ۱۵/۵۳۶) (3)… انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری کر کے چودہ سو(1400)یا اس سے بھی زائد افراد کو سیراب کر دیا۔ 📖(بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ الحدیبیۃ، ۳/۶۹، الحدیث: ۴۱۵۲-۴۱۵۳) (4)… لعاب د ہن سے بہت سے لوگوں کوشفا عطا فرمائی ۔ 📖(الخصائص الکبری، باب ایاتہ صلی اللہ علیہ وسلم فی ابراء المرضی۔۔۔ الخ، ۲/۱۱۵-۱۱۸) اور یہ تمام مددیں چونکہ اللہ تعالی کی عطا کردہ طاقت سے تھیں لہذا سب اللہ تعالی کی ہی مددیں ہیں۔ اس بارے میں مزید تفصیل کے لئے فتاوی رضویہ کی30ویں جلد میں موجود اعلی حضرت،امام اہلسنت،مولاناشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن کے رسالے ’’ا لامن والعلی لناعتی المصطفی بدافع البلاء( مصطفی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو دافع البلاء یعنی بلائیں دور کرنے والا کہنے والوں کے لئے انعامات)‘‘کامطالعہ فرمائیے۔ ( محمد عمران علی حیدری) 4 نمبر 📘نور العرفان📕 ف 6 ۔ نعبد کے جمع فرمانے سے معلوم ہوا کہ نماز جماعت سے پڑھنی چاہیے اگر ایک کی قبول ہو سب کی قبول ہو۔ ف 7 ۔ اس سے معلوم ہوا کہ حقیقتا مدد اللہ کی ہے جیسے حقیقتا حمد رب کی ہے خواہ واسطے سے ہو یا بلاواسطہ خیا ل رہے کہ عبادت صرف اللہ کی ہے مدد لینا حقیقتا اللہ سے مجازا اس کے بندوں سے اس فرق کی وجہ سے ان دو چیزوں کو علیحدہ جملوں میں ارشاد فرمایا، خیال رہے کہ عبادت اور مدد لینے میں فرق یہ ہے کہ مدد تو مجازی طو رپر غیر خدا سے بھی حاصل کی جاتی ہے، رب فرماتا انما ولیکم اللہ و رسولہ اور فرماتا ہے و تعاونوا علی البر والتقوی، لیکن عبادت غیر خدا کی نہیں کی جاسکتی نہ حقیقتا نہ حکما، کیونکہ عبادت کے معنی ہیں کسی کو خالق یا خالق کی ملع مان کر اس کی بندگی یا اطاعت کرنا یہ غیر خدا کے لیے شرک ہے اگر عبادت کی طرح دوسرے سے استعانت بھی شرک ہوتی تو یہاں یوں ارشاد ہوتا ، ایاک نعبد وایاک نستعین یہ بھی خیال رہے کہ دنیاوی یا دینی امور میں کبھی اسباب سے مدد لینا یہ درپردہ رب سے ہی مدد لینا ہے ، بیمار کا حکیم کے پاس جانا مظلوم کا حاکم سے فریاد کرنا ، گنہگار کا جناب محمد سے عرض کرنا اس آیت کے خلاف نہیں۔ جیسے کسی بندہ کی تعریف کرنا الحمد للہ کے عموم کے خلاف نہیں کیونکہ وہ بھی حمد بھی بالواسطہ رب ہی کی حمد ہے ، یہ بھی خیال رہے کہ اللہ کے نیک بندے بعد وفات بھی مدد فرماتے ہیں، معراج کی رات موسیٰ (علیہ السلام) نے پچاس نمازوں کی پانچ کرا دیں، اب بھی حضور کے نام کی برکت سے کافر کلمہ پڑھ کر مومن ہوتا ہے ، لہذا صالحین سے ان کی وفات کے بعد بھی مدد مانگنا اس آیت کے خلاف نہیں. ( محمد عمران علی حیدری) نمبر 5 📕تبیان القرآن📘 اللہ تعالی کا ارشاد ہے : روز جزاء کا مالک ہے (الفاتحہ : ٣) - مالک اور ملک کی دو قراءتیں : - مالک اور ملک اس آیت میں دونوں متواتر قراءتیں ہیں ‘ امام عاصم ‘ امام کسائی اور امام یعقوب کی قراءت میں مالک ہے۔ باقی پانچ ائمہ کی قرات میں ملک ہے۔ - مالک اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنی مملوکہ چیزوں میں جس طرح چاہے تصرف کرنے پر قادر ہو اور ملک اس شخص کو کہتے ہیں اپنی رعایا میں احکام (امر و نہی) نافذ کرتا ہو۔ - قرآن مجید کی بعض آیات مالک کی موافقت میں ہیں اور بعض ملک کی۔ - اللہ تعالی کا ارشاد ہے : - (آیت) ” قل اللہ ملک الملک تؤتی الملک من تشآء وتنزع الملک ممن تشآء وتعزمن تشآء وتذل من تشآء، بیدک الخیر۔ 📖(آل عمران : ٢٦) کہیے : اے اللہ ! ملک کے مالک ! تو جس کو چاہتا ہے ملک دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے ملک چھین لیتا ہے اور تو جس کو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ذلت میں مبتلا کرتا ہے ‘ اور تمام بھلائی تیری ہاتھ میں ہے۔- (آیت) ” یوم لا تملک نفس لنفس شیئا، والامر یومئذ للہ . 📖(الانفطار : ١٩) یہ وہ دن ہے جس میں کوئی شخص کسی شخص کے لیے کسی چیز کا مالک نہیں ہوگا ‘ اور اس دن اللہ ہی کا ہوگا۔- ان دونوں آیتوں سے مالک کی تائید ہوتی ہے۔ - (آیت) ” قل اعوذ برب الناس ملک الناس“۔ 📖(الناس : ٢۔ ١) آپ کہیے : میں تمام لوگوں کے رب ‘ تمام لوگوں کے بادشاہ کی پناہ میں آتا ہوں۔- (آیت) ” لمن الملک الیوم ‘ للہ الواحدالقھار “۔ 📖(المومن : ١٦) آج کس کی بادشاہی ہے ؟ اللہ کی جو واحد ہے اور سب پر غالب ہے۔- (آیت) ” الملک یومئذللہ یحکم بینہم“۔ 📖(الحج : ٥٦ ). اس دن صرف اللہ ہی کی بادشاہی ہوگی ‘ وہی ان کے درمیان فیصلہ فرمائے گا۔ - اور ان دو آیتوں سے ملک کی تائید ہوتی ہے۔ - یوم کا عرفی اور شرعی معنی : - علامہ آلوسی لکھتے ہیں : - عرف میں طلوع شمس سے لے کر غروب شمس تک کے زمانہ کو یوم کہتے ہیں ‘ اور اعمش کے سو اہل سنت کے نزدیک شریعت میں طلوع فجر ثانی سے لے کر غروب شمس تک کے وقت کو یوم کہتے ہیں اور یوم قیامت اپنے معروف معنی میں حقیقت شرعیہ ہے۔ 📖(روح المعانی ج ١ ص ٨٤‘ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت)- یوم قیامت کی مقدار : - قیامت کے دن کے متعلق قرآن مجید میں ہے : - (آیت) ” تخرج الملئکۃ والروح الیہ فی یوم کان مقدارہ خمسین الف سنۃ. 📖(المعارج : ٤) جبرئیل اور فرشتے اس کی طرف عروج کرتے ہیں (جس دن عذاب ہوگا) اس دن کی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔ - امام ابو یعلی روایت کرتے ہیں : - حضرت ابوسعید خدری (رض) روایت کرتے ہیں ‘ عرض کیا گیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قرآن مجید میں اس دن کے متعلق ہے کہ وہ پچاس ہزار برس کا ہوگا ‘ یہ کتنا لمبادن دن ہوگا ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قسم اس ذات کی جس کے قبضہ وقدرت میں (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے ! مومن پر اس دن میں تخفیف کی جائے گی ‘ حتی کہ وہ جتنی دیر میں دنیا میں فرض نماز پڑھتا تھا اس پر وہ دن اس سے بھی کم وقت میں گزرے گا۔ 📖(مسند ابو یعلی ج ٢ ص ١٣٤‘ مطبوعہ دارالمامون ترات ‘ بیروت ‘ ١٤٠٤ ھ) - ✍️( آقا و مولا نے کمال کردی پکی بات قسم کھاکے بتائی یہ غیب نہی تو کیا ہے یہ کام قیامت کو ہونا ہے لیکن پہلے بتا دیا گیا اور کیا غیب تجھ سے نہاں جب خدا ہی نہ چپا آپ سے ؟ عمران) اس حدیث کو حافظ ابن جریر 📖(جامع البیان ج ٢٩ ص ٤٥) اور حافظ ابن کثیر (تفسیر ابن کثیر ج ٧ ص ١١٣) نے بھی اپنی اپنی سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے اور امام ابن حبان نے بھی اس کو روایت کیا ہے۔ 📖(موارد الظمان الی زاوائد ابن حبان ‘ ص ٦٣٨‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت) - امام بیہقی نے بھی اس کو روایت کیا ہے۔ - علامہ سیوطی نے بھی اس کو امام احمد ‘ امام ابویعلی ‘ امام ابن جریر ‘ امام ابن حبان ‘ اور امام بیہقی ‘ کے حوالوں سے ذکر کیا ہے۔ 📖(الدرالمنثور ج ٦ ص ٢٦٥۔ ٢٦٤‘ مطبوعہ مکتبہ آیۃ اللہ العظمی ‘ ایران) - علامہ آلوسی نے بھی اس کو مذکور الصدر حوالہ جات کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ 📖(روح المعانی ج ٢٩ ص ٥٧‘ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت)- حضرت ابوسعید خدری (رض) کی حدیث مذکور کے متعلق حافظ الہیثمی لکھتے ہیں : - اس حدیث کو امام احمد اور امام ابو یعلی نے روایت کیا ہے ‘ اس کا ایک راوی ضعیف ہے اور اس کی سند حسن ہے۔ 📖(مجمع الزوائد ج ١٠ ص ٣٣٧‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ ١٤٠٢ ھ). نیز حافظ الہیثمی لکھتے ہیں : - حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لوگ رب العلمین ‘ کے سامنے آدھے دن تک کھڑے رہیں گے جو پچاس ہزار برس کا ہوگا اور مومن پر آسانی کردی جائے گی ‘ جیسے سورج کے مائل بہ غروب ہونے سے اس کے غروب ہونے تک ‘ اس حدیث کو امام ابو یعلی نے روایت کیا ہے اور یہ حدیث صحیح ہے۔ 📖(مجمع الزوائد ج ١٠ ص ٣٣٧‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ ١٤٠٢ ھ) - امام احمد روایت کرتے ہیں : - حضرت ابو سعید خدری (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں کہ کافر کے لیے قیامت کا دین پچاس ہزار برس کا مقرر کیا جائے گا کیونکہ اس نے دنیا میں نیک عمل نہیں کئے۔ 📖(مسند ج ٣ ص ٧٥‘ مطبوعہ مکتب اسلامی ‘ بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ) - عدل و انصاف کا یہ تقاضا ہے کہ جو لوگ دنیا میں اس طرح نماز پڑھتے ہیں کہ گویا وہ نماز میں اللہ تعالی کو دیکھ رہے ہیں ‘ پھر وہ اس میں اس طرح محو ہوجاتے ہیں کہ انہیں گرد وپیش کا ہوش نہیں رہتا ‘ امام ابوحنیفہ نماز پڑھ رہے تھے کہ مسجد کی چھت سے سانپ گرپڑا ‘ افراتفری مچ گئی مگر وہ اسی محویت سے نماز پڑھتے رہے ‘ ایک انصاری صحابی کو نماز کے دوران تیر لگا ‘ خون بہتا رہا اور وہ اسی انہماک سے نماز پڑھتے رہے ‘ امام بخاری کو نماز میں تتیہ نے سترہ ڈنک مارے اور انہیں احساس تک نہ ہوا ‘ سو ایسے ہی کاملین کی یہ جزاء ہوگی کہ قیامت کے دن ان کو فی الواقع دیدار الہی عطا کیا جائے اور جب ان کو دیدار الہی عطا کیا جائے گا تو وہ اس کی دید میں ایسے مستغرق ہوں گے کہ قیامت کے ہنگامہ خیز پچاس ہزار برس گزر جائیں گے اور ان کو یوں معلوم ہوگا جیسے ایک فرض نماز پڑھنے کا وقت گزرا ہو ‘ لیکن اللہ تعالی ہم پر عدل نہیں کرم فرماتا ہے ‘ عدل کے لحاظ سے تو ہم دنیا میں بھی کسی نعمت کے مستحق نہیں ہیں ‘ اللہ تعالی دنیا میں بھی ہم کو دنیکوں کے صدقہ میں نعمتیں دیتا ہے ‘ سو آخرت میں بھی ان نیکوں کے طفیل ہم پر قیامت کا دن بہ قدر فرض نماز گزرے گا اور اپنے دیدار سے معمور فرمائے گا۔ - وقوع قیامت پر عقلی دلیل : - ہم اس دنیا میں دیکھتے رہتے ہیں کہ بعض لوگ ظلم کرتے کرتے مرجاتے ہیں اور ان کو ان کے ظلم پر کوئی سزا نہیں ملتی اور بعض لوگ ظلم سہتے سہتے مرجاتے ہیں اور ان کی مظلومیت پر کوئی جزا نہیں ملتی ‘ اگر اس جہان کے بعد کوئی اور جہان نہ ہو تو ظالم سزا کے بغیر اور مظلوم جزا کے بغیر رہ جائے گا اور یہ چیز اللہ تعالی کی حکمت کے خلاف ہے ‘ اس لیے یہ ضروری ہے کہ اس عالم کے بعد کوئی اور عالم ہو جس میں ظالم کو سزا دی جائے اور مظلوم کو جزا۔ - اور جزاء اور سزاء کے نظام کے برپا کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس عالم کو بالکلیہ ختم کردیا جائے ‘ کیونکہ جزاء اور سزا اس وقت جاری ہوسکتی ہے جب بندوں کے اعمال ختم ہوجائیں ‘ اور جب تک تمام انسان اور یہ کائنات ختم نہیں ہوجاتی لوگوں کے اعمال کا سلسلہ ختم نہیں ہوگا ‘ مثلا قابیل نے قتل کرنے کا طریقہ ایجاد کیا ‘ اب اس کے بعد جتنے قتل ہوں گے ان کے قتل کے جرم سے قابیل کے نامہ اعمال میں گناہ لکھا جاتا رہے گا ‘ اس لیے جب تک قتل کا سلسلہ ختم نہیں ہوجاتا قابیل کا نامہ اعمال مکمل نہیں ہوگا ‘ اسی طرح ہابیل نے ظالم سے بدلہ نہ لینے کی رسم ایجاد کی ‘ اب اس کے بعد جو شخص بھی یہ نیکی کرے گا اس کی نیکی میں سے ہابیل کے نامہ اعمال میں نیکی لکھی جاتی رہے گی ‘ اس لیے جب تک اس نیکی کا سلسلہ ختم نہیں ہوجاتا ہابیل کا نامہ اعمال مکمل نہیں ہوگا ‘ اسی طرح ایک شخص مسجد یا کنواں بنا کر مرجاتا ہے تو جب تک اس مسجد میں نماز پڑھی جاتی رہے گی ‘ جب تک اس کنوئیں سے پانی پیا جاتا رہے گا ‘ اس شخص کے نامہ اعمال میں نیکیاں لکھی جاتی رہیں گی اور کوئی شخص بت خانہ یا شراب خانہ بنا کر مرگیا تو جب تک وہاں بت پرستی یا شراب نوشی ہوتی رہے گی اس کے نامہ اعمال میں برائیاں لکھی جاتی رہیں گی۔ - اس لیے جب تک یہ دنیا اور اس دنیا میں انسان موجود ہیں اس وقت تک لوگوں کا نامہ اعمال مکمل نہیں ہوسکتا اور لوگوں کے نامہ اعمال کو مکمل کرنے کے لیے دنیا اور دنیا والوں کو مکمل ختم کرنا ضروری ہے اور اسی کا نام قیامت ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کی حکمت اس کی متقاضی ہے کہ جزا اور سزا کا نظام قائم کیا جائے اور جزا اور سزا کو نافذ کرنے سے پہلے قیامت کا قائم کرنا ضروری ہے۔ - وقوع قیامت پر شرعی دلائل :- یہ دنیا دارالامتحان ہے اور اس میں انسان کی آزمائش کی جاتی ہے اور اس امتحان کا نتیجہ اس دنیا میں ظاہر نہیں ہوتا لیکن نیک اور بد ‘ اطاعت گزار اور نافرمان ‘ موافق اور مخالف اور مومن اور کافر میں فرق کرنا ضروری ہے اور یہ فرق صرف قیامت کے دن ظاہر ہوگا۔ اللہ تعالی فرماتا ہے :۔- (آیت) ” لیجزی الذین اسآء وا بما عملوا ویجزی الذین احسنوا بالحسنی. 📖(النجم : ٣١) تاکہ برے کام کرنے والوں کو ان کی سزا دے اور نیکی کرنے والوں کو اچھی جزا دے۔ - (آیت) ” ام نجعل الذین امنوا وعملوا الصلحت کالمفسدین فی الارض ام نجعل المتقین کالفجار. 📖(ص : ٢٨) کیا ہم ایمان والوں اور نیکی کرنے والوں کو زمین میں فساد کرنے والوں کی طرح کردیں گے ؟ یا ہم پرہیزگاروں کو بدکاروں جیسا کردیں گے ؟۔ (آیت) ” ام حسب الذین اجترحوا السیات ان نجعلہم کالذین امنوا وعملوا الصلحت ‘ سوآء محیاھم ومماتھم سآء ما یحکمون. 📖 (الجاثیہ : ٢١) کیا برے کام کرنے والوں نے یہ گمان کرلیا ہے کہ ہم ان کو ان لوگوں کی طرف کردیں گے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے کہ (ان سب کی) زندگی اور موت برابر ہوجائے ؟ وہ کیسا برا فیصلہ کرتے ہیں۔ - (آیت) ” افنجعل المسلمین کالمجرمین مالکم کیف تحکمون 📖(القلم : ٣٦۔ ٣٥) کیا ہم فرمانبرداروں کو مجرموں جیسا کردیں گے تمہیں کیا ہوا ‘ تم کیسا فیصلہ کرتے ہو ؟ - دنیا میں راحت اور مصیبت کا آنا مکمل جزاء اور سزا نہیں ہے : - ہر چند کہ بعض لوگوں کو دنیا میں ہی ان کی بداعمالیوں کی سزا مل جاتی ہے۔ مثلا ان کا مالی نقصان ہوجاتا ہے ‘ یا وہ ہولناک بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں یا ان پر دشمنوں کا خوف طاری ہوجاتا ہے ‘ لیکن یہ ان کی بداعمالیوں کی پوری پوری سزا نہیں ہوتی ‘ اور ہم کتنے ہی لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ ساری عمر عیش پرستی ‘ ہوس ناکیوں اور ظلم وستم کرنے میں گزار دیتے ہیں ‘ پھر اچانک ان پر کوئی مصیبت ٹوٹ پڑتی ہے اور ان کی دولت اور طاقت کانشہ کافور ہوجاتا ہے۔ لیکن ان کے جرائم کے مقابلہ میں یہ بہت کم سزا ہوتی ہے ‘ اس لیے ان کی مکمل سزا کے لیے ایک اور جہاں کی ضرورت ہے جہاں قیامت کے بعد ان کو پوری پوری سزا ملے گی۔ - (آیت) ” ولنذیقنھم من العذاب الادنی دون العذاب الاکبر لعلہم یرجعون۔ 📖(السجدہ : ٢١) اور ہم ان کو بڑے عذاب سے پہلے (دنیا میں) ہلکا عذاب ضرور چکھائیں گے تاکہ وہ باز آجائیں۔ - اس طرح بہت سے نیک بندے ساری عمر ظلم وستم سہتے رہتے ہیں اور مصائب برداشت کرتے رہتے ہیں اور انہیں اپنی زندگی میں آرام اور راحت کا بہت کم موقعہ ملتا ہے ‘ اس لیے اللہ تعالی قیامت کو قائم کرے گا اور ہر شخص کو اسکی نیکی اور بدی کی پوری پوری جزا اور سزا دے گا۔ (آیت) ” فمن یعمل مثقال ذرۃ خیرا یرہ ومن یعمل مثقال ذرۃ شرا یرہ 📖(الزلزال : ٨۔ ٧) سو جو ذرہ برابر نیکی کرے گا وہ اس کی (جزا) پائے گا اور جو ذرہ برابر برائی کرے گا وہ اس کی (سزا) پائے گا۔- دین کا لغوی معنی : - علامہ زبیدی لکھتے ہیں : - دین کا معنی ہے جزا اور مکافات ‘ قرآن مجید میں (آیت) ” مالک یوم الدین “ کا معنی ہے : یوم جزاء کا مالک ‘ دین کا معنی عادت بھی ہے ‘ کہا جاتا ہے :” مازال ذالک دینی “ میری ہمیشہ سے یہ عادت ہے ‘ اور دین کا معنی اللہ تعالی کی عبادت ہے ‘ اور دین کا معنی طاعت ہے ‘ حدیث میں ہے :- یمرقون من الدین مروق السھم من الرمیۃ : وہ امام کی اطاعت سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔- (علامہ سید محمد مرتضی حسینی زبیدی حنفی متوفی ١٢٠٥‘ 📖(تاج العروس ج ٩ ص ٢٠٨۔ ٢٠٧‘ مطبوعہ المطبعۃ الخیریہ ‘ مصر ١٣٠٦ ھ) - دین ‘ شریعت اور مذہب وغیرہ کی تعریفات : میر سید شریف لکھتے ہیں : - دین ایک الہی دستور ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ہوتا ہے جو عقل والوں کو قبول کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ دین اور ملت متحد بالذات ہیں اور مختلف بالاعتبار ہیں کیونکہ شریعت بہ حیثیت اطاعت دین ہے اور بہ حیثیت ضبط اور تحریر ملت ہے ‘ اور جس حیثیت سے اس کی طرف رجوع کیا جائے مذہب ہے ‘ ایک قول یہ ہے کہ دین اللہ کی طرف منسوب ہے اور ملت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف منسوب ہے اور مذہب مجتہد کی طرف منسوب ہے۔ 📖(کتاب التعریفات ص ٤٧‘ مطبوعہ المطبعۃ الخیریہ ‘ مصر ١٣٠٦ ھ) - عبودیت کا التزام کرکے حکم ماننا شریعت ہے ‘ ایک قوم یہ ہے کہ شریعت دین کا ایک راستہ ہے۔ 📖 (کتاب التعریفات ص ٥٥‘ مطبوعہ المطبعۃ الخیریہ ‘ مصر ١٣٠٦ ھ) - علامہ بدرالدین عینی لکھتے ہیں : - ” شرعۃ ومنھاجا “ کی تفسیر میں قتادہ (رض) نے کہا : دین ایک ہے اور شریعت مختلف ہے۔ 📖(عمدۃ القاری ج ١ ص ١١٧‘ مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ ‘ مصر ١٣٤٨ ھ) - علامہ قطبی مالکی لکھتے ہیں : - اللہ تعالی نے اہل تورات کے لیے تورات مقرر کی اور اہل انجیل کے لیے انجیل اور اہل قرآن کیلیے قرآن مقرر کیا اور یہ تقرر شریعتوں اور عبادتوں میں ہے اور اصل توحید ہے جس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ 📖 (الجامع الاحکام القرآن ج ٢ ص ٢١١ مطبوعہ انتشارات ناصر خسرو ایران ٗ ١٣٨٧ ھ) - امام بخاری مجاہد سے روایت کرتے ہیں :- اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم نے آپ کو اور حضرت نوح (علیہ السلام) کو ایک ہی دین کی وصیت کی ہے۔ 📖(صحیح بخاری ج ١ ص ‘ ٦ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)- قرآن مجید میں ہے : - اللہ تعالی نے تمہارے لیے اسی دین کا راستہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوح کو دیا تھا اور جس دین کی ہم نے آپ کی طرف وحی فرمائی ہے اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) ، موسی (علیہ السلام) اور عیسی (علیہ السلام) کو دیا تھا کہ اسی دین کو قائم رکھو اور اس میں تفرقہ نہ دالو۔ - اس آیت سے معلوم ہوا کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) کا دین واحد ہے اور وہ اسلام ہے۔ - (آیت) ” لکل جعلنا منکم شرعۃ ومنھا جاء “۔ (المائدہ : ٤٨) ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے الگ الگ شریعت اور واضح راہ عمل بنائی ہے۔ - اس آیت سے معلوم ہوا کہ ہر نبی کی شریعت الگ ہے۔ - قرآن مجید کی ان آیات اور احادیث اور عبارات علماء کا حاصل یہ ہے کہ جو عقائد اور اصول تمام انبیاء میں مشترک ہیں مثلا توحید ‘ رسالت قیامت جزاء ‘ سزا ‘ اللہ کی تعظیم اور اس کے شکر کا واجب ہونا ‘ قتل اور زنا کا حرام ہونا ‘ ان کا نام دین ہے اور ہر نبی نے اپنے زمانہ کے مخصوص حالات کے اعتبار سے عبادات اور نظام حیات کے جو مخصوص احکام بتائے وہ شریعت ہے ‘ ان کو مدون اور منضبط کرنا ملت ہے اور امام اور مجتہد نے کتاب اور سنت سے جو احکام مستنبط کیے ان کا نام مذہب ہے ‘ اور مشائخ طریقت نے جو اوراد اور وظائف کے مخصوص طریقے بتائے ان کا نام مسلک اور مشرب ہے اور کسی مخصوص درسگاہ کے نظریات کا نام مکتب فکر ہے ‘ مثلا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہم دین کے اعتبار سے مسلمان ہیں ‘ شریعت کے اعتبار سے محمدی ہیں ‘ مذہب کے اعتبار سے ماتریدی اور حنفی ہیں اور مسلک اور مشرب کے اعتبار سے قادری ہیں اور مکتب فکر کے لحاظ سے بریلوی ہیں۔ - اللہ ‘ رب ‘ رحمن ‘ رحیم اور مالک یوم الدین میں وجہ ارتباط :- سورة فاتحہ کے شروع میں اللہ تعالی نے اپنے پانچ اسماء ذکر کئے ہیں : اللہ ‘ رب ‘ رحمن ‘ رحیم اور مالک یوم الدین اور ان میں ارتباط اس طرح ہے کہ ” اللہ “ کے تقاضے سے اس نے انسان کو پیدا کیا ‘ ” رب “ کے تقاضے سے اس نے غیر متناہی نعمتوں سے انسان کی پرورش کی ‘ ” رحمن “ کے تقاضے سے انسان کے گناہوں پر پردہ رکھا ‘” رحیم “ کے تقاضے سے انسان کی توبہ قبول کرکے اس کو معاف فرمایا اور (آیت) ” مالک یوم الدین“ کے تقاضے سے انسان کو اس کے اعمال صالحہ کی جزاء عطا فرمائی۔ - اگر یہ سوال ہو کہ ” بسم اللہ الرحمن الرحیم “ میں بھی اللہ تعالی کی صفت رحمن و رحیم کا ذکر ہے اور سورة فاتحہ کی ابتداء میں پھر ان صفات کا ذکر ہے ‘ اس کی کیا وجہ ہے کہ رحمن اور رحیم کو دو مرتبہ ذکر کیا ہے اور باقی اسماء کا دو مرتبہ ذکر نہیں ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اس میں یہ اشارہ ہو کہ اللہ تعالی پر رحمت کا غلبہ ہے اس لیے بندہ کو اس سے مایوس نہیں ہونا چاہیے اور ہر وقت اس کی رحمت پر نظر رکھنی چاہیے ‘ اس کے بعد (آیت) ” مالک یوم الدین “ فرمایا کہ کہیں اس کی رحمت سے دھوکا کھا کر انسان گناہوں پر دلیر نہ ہوجائے کیونکہ وہ ” مالک یوم الدین “ بھی ہے۔ - جس طرح اس آیت میں فرمایا ہے :- غافر الذنب وقابل التوب شدید العقاب ذی الطول۔ (المومن : ٤٠) وہ گناہ بخشنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ‘ بہت سخت عذاب دینے والا قدرت والا ہے۔ - ” الحمد للہ “ میں مسند الیہ مقدم ہے اور خبر معرفہ ہے اور عربی قواعد کے مطابق ایسی ترکیب مفید حصر ہوتی ہے ‘ نیز اللہ تعالی کی صفات رب ’ رحیم ‘ اور (آیت) ” *مالک یوم الدین* “ بہ منزلہ علت ہیں ‘ اس اعتبار سے معنی یہ ہے کہ اللہ تعالی کے سوا اور کوئی حمد کا مستحق نہیں ہے کیونکہ وہی رب ہے ‘ وہی رحمن، رحیم اور مالک روز جزاء ہے ‘ اور اس میں یہ رمز ہے کہ جس میں یہ صفات نہ ہوں وہ تو ستائش کے لائق بھی نہیں ہے چہ جائیکہ وہ پرستش کا مستحق ہو اور جب یہ معلوم ہوگیا کہ اللہ ہی حمد وثناء کے لائق ہے اور وہی عبادت کا مستحق ہے تو ہم سے یہ کہلوایا : اے پروردگار ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں۔.۔ ( دعاؤں کا طلبگار محمد عمران علی حیدری ) (post5) 20.04.2021 7.رمضان المبارک1443ھ