Jump to content

کمیونٹی میں تلاش کریں

Showing results for tags 'ہے'.

  • ٹیگ میں سرچ کریں

    ایک سے زائد ٹیگ کاما کی مدد سے علیحدہ کیے جا سکتے ہیں۔
  • تحریر کرنے والا

مواد کی قسم


اسلامی محفل

  • اردو فورم
    • اردو ادب
    • فیضان اسلام
    • مناظرہ اور ردِ بدمذہب
    • سوال و درخواست
    • گفتگو فورم
    • میڈیا
    • اسلامی بہنیں
  • انگلش اور عربی فورمز
    • English Forums
    • المنتدی الاسلامی باللغۃ العربیہ
  • اسلامی محفل سے متعلق
    • معلومات اسلامی محفل
  • Arabic Forums

تتیجہ ڈھونڈیں...

وہ نتیجہ نکالیں جن میں یہ الفاظ ہوں


تاریخ اجراء

  • Start

    End


Last Updated

  • Start

    End


نمبرز کے حساب سے ترتیب دیں...

Joined

  • Start

    End


Group


AIM


MSN


Website URL


ICQ


Yahoo


Jabber


Skype


مقام


Interests


پیر

  1. جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے۔ روایت کی تحقیق 25: حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ فُورَكٍ، قال: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ النَّشَابيّ ُ، قال: ثنا مَنْصُورُ بْنُ مُهَاجِرٍ الْبَكْرِيُّ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ الأَبَّارِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «الْجَنَّةُ تَحْتَ أَقْدَامِ الْأُمَّهَاتِ. ترجمہ: سیدنا حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: نبی علیہ السلام نے فرمایا کہ جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے۔ (الفوائد لأبي الشيخ الأصبهاني 58 ص.الرقم:25.) (مسند الشهاب القضاعي 1/102.الرقم: 119.) (طبقات المحدثين بأصبهان والواردين عليها 3/567.) ✍️:أَبُو النَّضْرِ الْبَصْرِيُّ الْأَبَّارُ: مجھول الحال۔ ✍️: وسند ضعیف والحدیث صحیح۔ اسکا صحیح درجہ کا شاھد موجود ہے۔👇 3104: أَخْبَرَنَا ‌عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْحَكَمِ الْوَرَّاقُ، قَالَ: حَدَّثَنَا ‌حَجَّاجٌ، عَنِ ‌ابْنِ جُرَيْجٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي ‌مُحَمَّدُ بْنُ طَلْحَةَ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِيهِ ‌طَلْحَةَ ، عَنْ ‌مُعَاوِيَةَ بْنِ جَاهِمَةَ السَّلَمِيِّ : «أَنَّ جَاهِمَةَ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، أَرَدْتُ أَنْ أَغْزُوَ وَقَدْ جِئْتُ أَسْتَشِيرُكَ. فَقَالَ: هَلْ لَكَ مِنْ أُمٍّ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَالْزَمْهَا، فَإِنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ رِجْلَيْهَا». ترجمہ: حضرت معاویہ بن جاہمہؓ سے روایت ہے کہ: جاہمہ نبی علیہ السلام کے پاس آۓ اور کہنے لگے کہ میں نے جہاد کرنے کا ارادہ کیا ہے اور اس بارے میں آپؐ سے مشورہ کرنے آیا ہوں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تیری والدہ ہے۔ جواب دیا کہ جی ہاں آپؑ نے فرمایا جا اس کے ساتھ (خدمت کر) رہو جنت اس کے قدموں کے نیچے(تلے) ہے۔ (سنن النسائي 6/11)۔ ✍️: یہی حدیث مستدرک میں دو جگہ موجود ہے۔👇 (المستدرك على الصحيحين للحاكم - ط العلمية 7248 .2502.) (شعب الإيمان: 7448.) (البر والصلة لابن الجوزي 67س.الرقم: 46.) (السنن الكبرى - البيهقي - 18/ 90.الرقم: 17890.) واسناد صحیح لہذا وہ روایت ماں کے قدموں تلے جنت ہے ثابت ہوئی کیونکہ اس کا متن دوسری صحیح روایت سے ثابت ہوگیا ہے۔ حکم الخلاصہ:ھذا حدیث صحیح۔ ✍️: ماں باپ جنت کا دروازہ ہیں. حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ الْهُجَيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَجُلًا أَتَاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنّ لِيَ امْرَأَةً، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ أُمِّي تَأْمُرُنِي بِطَلَاقِهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ الْوَالِدُ أَوْسَطُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ فَإِنْ شِئْتَ فَأَضِعْ ذَلِكَ الْبَابَ أَوِ احْفَظْهُ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ:‏‏‏‏ إِنَّ أُمِّي، ‏‏‏‏‏‏وَرُبَّمَا قَالَ أَبِي، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيُّ اسْمُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حَبِيبٍ۔ ترجمہ: حضرت ابو الدرداء ؓ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے ان کے پاس آ کر کہا: میری ایک بیوی ہے، اور میری ماں اس کو طلاق دینے کا حکم دیتی ہے،ابوالدرداء ؓ نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے: باپ جنت کا درمیانی دروازہ ہے، اگر تم چاہو تو اس دروازہ کو ضائع کر دو اور چاہو تو اس کی حفاظت کرو۔ سفیان بن عیینہ نے کبھی «إن امی» (میری ماں) کہا اور کبھی «إن أبی» (میرا باپ) کہا۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔ (سنن الترمذي :- 1900.) صحیح۔ (سنن ابن ماجه :- 3663.) صحیح ابن ماجہ میں امام سفیانؒ کے قول کو نقل نہیں کیا گیا کہ وہ کیا کیا کہتے تھے۔ واللہ و رسول اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم۔ ازقلم و طلب دعا: محمد عمران علی حیدری۔ 19.03.2023. چھبیس(26) شعبان المعظم 1444ھ
  2. دیوبندی عقیدہ امکان کذبِ باری تعالی کا رد ائمہ سلف کے قلم سے امتناعِ کذب باری تعالی کے دلائل آئمہ سلف سے ازقلم:حسن رضا حنفی دیوبندیوں کا عقیدہ ہے کے اللہ تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے دیوبندیوں کے غوث اعظم مولوی رشید گنگوہی صاحب لکھتے ہیں الحاصل امکان کذب سے مراد دخول کذب تحت قدرت باری تعالیٰ ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ وعید فرمایا ہے اس کے خلاف پر قادر ہے اگرچہ وقوع اس کا نہ ہو امکان کو وقوع لازم نہیں بلکہ ہو سکتا ہے کہ کوئی شے ممکن بالذات ہو اور کسی وجہ خارجی سے اس کو استحالہ لاحق ہوا ہو (تالیفاتِ رشیدیہ ص 98) اس عبارت سے معلوم ہوا کہ رشید احمد گنگوہی دیوبندی امکانِ کذبِ باری تعالیٰ کا عقیدہ رکھتے تھے امکان کہتے ہیں ممکن ہونا اور کذب جھوٹ کوکہتے ہیں یعنی دیوبندیوں کے نزدیک اس بات کا امکان ہے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے معاذاللہ محترم قارئین دیوبندیوں کا باطل عقیدہ ملاحظہ کرنے کے بعد اب اس عقیدے کا رد آئمہ اہلسنّت سے ملاحظہ فرمائیں تفسیر مدارک میں دیوبندیوں کے باطل عقیدے کا رد صاحب تفسیر مدارک لکھتے ہیں {ومن أصدق من الله حديثا} تمييز وهو استفهام بمعنى النفي أي لا أحد أصدق منه في إخباره ووعده ووعيده لاستحالة الكذب عليه لقبحه لكونه إخبارا عن الشئ بخلاف ما هو عليه یعنی اللہ تعالیٰ سے کوئی شخص نہ خبر و وعدہ میں سچا ہے اور نہ ہی وعید میں کیونکہ اللہ تعالیٰ پر کذب محال ہے (تفسیر نسفی ص 334) علامہ فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں فاذا جوز عليه الخلف فقد جوز الكذب على الله وهذا خطاء عظيم بل يقرب من ان يكون كفراً جب اللہ تعالی پر خلف جائز رکھا گیا تو اس پر کذب جائز رکھا گیا اور یہ عظیم خطا ہے بلکہ کفر کے قریب ہے (تفسیر کبیر جلد 9۔10 صفحہ 226) امام بیضاوی رحمہ اللہ فرماتے فرماتے ہیں قال البيضاوي إنكار أن يكون أحد أكثر صدقا منه، فإنه لا يتطرق الكذب إلى خبره بوجه لأنه نقص، وهو على الله محال اللہ تعالی اس آیت میں انکار فرماتا ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالی سے زیادہ سچا ہو کیوں نکہ اس کی خبر میں کذب راستہ نہیں پاسکتا اس لیے کہ کذب نقص ہے اور نقص اللہ تعالیٰ پر محال ہے (حاشية العلوي على تفسير البيضاوي ص 169) علامہ اسماعیل حقی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں لا يتطرق الكذب الى خبره بوجه لانه نقص وهو على الله محال کذب اللہ تعالیٰ کی خبر کی طرف راستہ نہیں پاسکتا اس لیے کہ کذب نقص ہے اور نقص اللہ تعالیٰ پر محال ہے (تفسیر روح البیان صفحہ 296) محترم قارئین کرام ملاحظہ فرمائیں کہ اہلسنّت کا اس پر اجماع ہے کہ امکانِ کذب باری تعالی اللہ تعالیٰ کے لیے نقص اور عیب ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے محال ہے اللہ تعالیٰ حق بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
  3. دیوبندی عقیدہ امکان کذبِ باری تعالی کا رد ائمہ سلف کے قلم سے امتناعِ کذب باری تعالی کے دلائل آئمہ سلف سے ازقلم:حسن رضا حنفی دیوبندیوں کا عقیدہ ہے کے اللہ تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے دیوبندیوں کے غوث اعظم مولوی رشید گنگوہی صاحب لکھتے ہیں الحاصل امکان کذب سے مراد دخول کذب تحت قدرت باری تعالیٰ ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ وعید فرمایا ہے اس کے خلاف پر قادر ہے اگرچہ وقوع اس کا نہ ہو امکان کو وقوع لازم نہیں بلکہ ہو سکتا ہے کہ کوئی شے ممکن بالذات ہو اور کسی وجہ خارجی سے اس کو استحالہ لاحق ہوا ہو (تالیفاتِ رشیدیہ ص 98) اس عبارت سے معلوم ہوا کہ رشید احمد گنگوہی دیوبندی امکانِ کذبِ باری تعالیٰ کا عقیدہ رکھتے تھے امکان کہتے ہیں ممکن ہونا اور کذب جھوٹ کوکہتے ہیں یعنی دیوبندیوں کے نزدیک اس بات کا امکان ہے کہ اللہ تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے معاذاللہ محترم قارئین دیوبندیوں کا باطل عقیدہ ملاحظہ کرنے کے بعد اب اس عقیدے کا رد آئمہ اہلسنّت سے ملاحظہ فرمائیں تفسیر مدارک میں دیوبندیوں کے باطل عقیدے کا رد صاحب تفسیر مدارک لکھتے ہیں {ومن أصدق من الله حديثا} تمييز وهو استفهام بمعنى النفي أي لا أحد أصدق منه في إخباره ووعده ووعيده لاستحالة الكذب عليه لقبحه لكونه إخبارا عن الشئ بخلاف ما هو عليه یعنی اللہ تعالیٰ سے کوئی شخص نہ خبر و وعدہ میں سچا ہے اور نہ ہی وعید میں کیونکہ اللہ تعالیٰ پر کذب محال ہے (تفسیر نسفی ص 334) علامہ فخر الدین رازی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں فاذا جوز عليه الخلف فقد جوز الكذب على الله وهذا خطاء عظيم بل يقرب من ان يكون كفراً جب اللہ تعالی پر خلف جائز رکھا گیا تو اس پر کذب جائز رکھا گیا اور یہ عظیم خطا ہے بلکہ کفر کے قریب ہے (تفسیر کبیر جلد 9۔10 صفحہ 226) امام بیضاوی رحمہ اللہ فرماتے فرماتے ہیں قال البيضاوي إنكار أن يكون أحد أكثر صدقا منه، فإنه لا يتطرق الكذب إلى خبره بوجه لأنه نقص، وهو على الله محال اللہ تعالی اس آیت میں انکار فرماتا ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالی سے زیادہ سچا ہو کیوں نکہ اس کی خبر میں کذب راستہ نہیں پاسکتا اس لیے کہ کذب نقص ہے اور نقص اللہ تعالیٰ پر محال ہے (حاشية العلوي على تفسير البيضاوي ص 169) علامہ اسماعیل حقی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں لا يتطرق الكذب الى خبره بوجه لانه نقص وهو على الله محال کذب اللہ تعالیٰ کی خبر کی طرف راستہ نہیں پاسکتا اس لیے کہ کذب نقص ہے اور نقص اللہ تعالیٰ پر محال ہے (تفسیر روح البیان صفحہ 296) محترم قارئین کرام ملاحظہ فرمائیں کہ اہلسنّت کا اس پر اجماع ہے کہ امکانِ کذب باری تعالی اللہ تعالیٰ کے لیے نقص اور عیب ہے اور اللہ تعالیٰ کے لیے محال ہے اللہ تعالیٰ حق بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
  4. یہ ان الفاظ کے ساتھ مشہور ہے إن الزنا دين إذا أقرضته ... كان الوفا من أهل بيتك فاعلم بلاشبہ زنا ایک قرض ہے، اگر تم اس قرض میں مبتلا ہوئے ہو، تو یاد رکھو! اس قرض کی ادائیگی بھی تمہارے گھر ہی سے ہوگی نہ تو یہ حدیث ہے اور نہ ہی کسی بزرگ کا قول بلکہ یہ اصول شریعت کے بھی خلاف ہے کوئی کسی کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھاتا قرآن کی نص ہے وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى ۚ اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گی سورۃ فاطر :- 18 یہ اشعار ناصر الحدیث امام محمد بن ادریس الشافعی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب دیوان الشافعی میں موجود ہیں اسی بنیاد پر بعض لوگ اسے امام شافعی کا قول کہتے ہیں لیکن امام شافعی کی ذات مبارکہ اس سے بری ہے والحمدللہ دیوان شافعی امام شافعی سے ثابت نہیں فقط واللہ و رسولہ اعلم باالصواب خادم الحدیث النبوی ﷺ سید محمد عاقب حسین رضوی
  5. *ابو بکر سے محبت کرنا اور ان کا شکریہ ادا کرنا میری اُمت پر واجب ہے حدیث کی تحقیق* حُبُّ اَبِیْ بَکْرٍ وَشُکْرُہٗ وَاجِبٌ عَلٰی اُمَّتِی ابو بکر سے محبت کرنا اور ان کا شکریہ ادا کرنا میری اُمت پر واجب ہے۔ ✍️یہ روایت موضوع ہے اس کے دو طریق ہیں اور دونوں میں ایک کذاب راوی موجود ہے۔ *طریق نمبر 1:.* 2726 - أحمد بن محمد بن العلاء حدث عن عمر بن إبراهيم الكردي، روى عنه: ابن أخيه محمد بن عبيد الله بن محمد بن العلاء الكاتب 📕أخبرني الحسن بن أبي طالب، قال: حدثنا يوسف بن عمر القواس، قالا: حدثنا أبو جعفر محمد بن عبيد الله بن محمد بن العلاء الكاتب، قال: حدثني عمي أحمد بن محمد بن العلاء، قال: حدثنا *عمر بن إبراهيم يعرف بالكردي،* قال: حدثنا محمد بن عبد الرحمن بن المغيرة بن أبي ذئب، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن أمن الناس علي في صحبته وذات يده أبو بكر الصديق، فحبه وشكره وحفظه واجب على أمتي " 1📘: ✍️تفرد به عمر بن إبراهيم -ويعرف بالكردي- عن ابن أبي ذئب، وعمر ذاهب الحديث. *قال الخطيب أيضا (3/ 475):* ✍️ذاھب الحدیث کہنا بھی ایک سخت جرح ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ راوی کو راوی کذاب ہے۔ 📘محمد بن عبد الله بن العلاء الكاتب، حدثنا عمى أحمد بن محمد بن العلاء، حدثنا عمر بن إبراهيم الكردى، حدثنا ابن أبي ذئب، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: حب أبي بكر وشكره واجب على أمتى. هذامنكر جدا. *قال الدارقطني: كذاب.* طریق نمبر 2:. نا أبو بكر محمد بن إسماعيل الوراق نا علي بن محمد بن أحمد المصري نا أحمد بن يحيى بن خالد بن حماد بن المبارك نا حماد بن المبارك نا صالح بن عمر القرشي نا *عمر بن إبراهيم بن خالد* عن ابن أبي ذئب عن ابن أبي لبيبة عن أنس بن مالك قال قال رسول الله (صلى الله عليه وسلم) *حب أبي بكر وشكره واجب على أمتي* وروي عن ابن أبي ذئب بإسناد آخر أخبرناه أبو بكر وجيه بن طاهر أنا أبو بكر يعقوب بن أحمد بن محمد الصيرفي أنا أبو نعيم أحمد بن محمد بن إبراهيم بن عيسى الأزهري بن الشيخ العدل نا أبو بكر أحمد بن إسحاق بن إبراهيم بن جعفر الصيدلاني إملاء نا أحمد بن محمد بن نصر اللباد *ابن عساکر جلد30.ص141* ✍️اس طریق میں بھی وہی راوی موجود ہے عمر بن ابراھیم۔ مسند الفروس بماثور الخطاب میں صاحب فردوس نے بغیر سند کے اس کو نقل کیا ہے ✍️2724 - سهل بن سعد: حب أبي بكر وشكره واجب على أمتي *مسند الفردوس 142/2* امام اصبھانی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اسکو نقل کیا ہے وہی طرق سیدنا سھل بن سعد والا 85 - أخبرنا عمر بن أحمد، ثنا محمد بن عبد الله بن دينار والحسن بن يحيى النيسابوري قالا: ثنا أحمد بن نصر اللباد، *ثنا عمر بن إبراهيم،* ثنا محمد بن عبد الرحمن بن أبي ذئب، ثنا أبو حازم، عن سهل بن سعد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «حب أبي بكر وشكره واجب على أمتي» *فضائل الخلفاء الراشدین ابی نعیم الاصبھانی۔ص89* ✍️اس میں بھی وہی راوی عمر بن ابراھیم موجود ہے۔ وروى محمد بن عبد الله بن العلاء الكاتب، حدثنا عمى أحمد بن محمد بن العلاء، حدثنا عمر بن إبراهيم الكردى، حدثنا ابن أبي ذئب، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: حب أبي بكر وشكره واجب على أمتى. هذا منكر جدا. قال الدارقطني۔ عمر بن ابراھیم :كذاب. *میزان اعتدال3/180.امام ذھبی علیہ الرحمہ* اس میں بھی وہی راوی عمر بن ابراھیم موجود ہے کذاب ہے۔ ✍️✍️✍️✍️✍️✍️📚مرکزی راوی عمر بن ابراھیم پر کلام:- ✍️أبو حاتم بن حبان البستی فرماتے ہیں کہ: لا يجوز الاحتجاج بخبره ہے۔ ✍️الخطيب البغدادي فرماتے ہیں کہ : غير ثقة، ومرة: يروي المناكير عن الاثبات۔ ثقہ سے مناکیر بیان کرتا ہے ✍️امام الدارقطني فرماتے ہیں کہ : كذاب خبيث يضع الحديث ہے۔ ✍️امام الذهبي فرماتے ہیں کہ : عمر بن ابراھیم كذاب ہے۔ ✍️میزان اعتدال جلد5ص225. الرقم: 6050. کذاب. 📖خلاصہ کلام:-✍️✍️ اس روایت کے مجھے دو طریق ملے ہیں،جس میں ایک مرکزی راوی ہے، جس کی وجہ سے یہ روایت قابل استدلال اور فضائل و مناقب میں بیان کے کے قابل نہیں ہے۔ اور محققین نے اس حدیث کو موضوعات میں درج کیا ہے جیسا امام ملا علی قاری حنفی رحمتہ اللہ علیہ امام ابن جوزی رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ۔ اس راوی کا نام عمر بن إبراهيم بن خالد بن عبد الرحمن ہے۔اس کو عمر بن ابراھیم الکردی کے نام سے جانا جاتا ہے جیسا کہ اوپر رویات میں درج ہے۔یہ اسکا نسب ہے اسے الکردی کے ساتھ ساتھا القرشی الهاشمی بھی کہا جاتا ہے۔ اس راوی پر کذاب، ذاھب الحدیث،، یروی مناکیر اوریضح الحدیث کی جروحات ہیں۔ ✍️الحکم الحدیث: موضوع (طالب دعا محمد عمران علی حیدری)
  6. ★ تــحـقـیـــق حـــدیـثــــــ اســـماءالـرجــال ★ کــیــا حنــفــی گــمــراہ فــرقــہ ہــے انــجیــنئر مــرزا کــــی جـہـالـتـــــ کــا رد اَلصَّـــلٰوةُ وَالسَّـــلَامُ عَلَیــْـكَ یَارَسُـــوْلَ اللّہ وَعَلیٰ اَلِکَ وَاَصْحَابِکَ یَاحَبِیْبَ اللّٰہﷺ ❁◐••┈┉•••۞═۞═۞═۞═◐•••┉┈••◐❁ مشہور زمانہ فتنہ علمی یتیم جونیئر مرزا جہلمی غنیۃ الطالبین کے حوالے سے اعتراض کرتا ہے کہ اس کتاب میں سیدنا غوث الاعظمؓ نے حنفیہ کو مرجئہ فرقوں میں شمار کیا ہے ان شاءاللہ اس کا رد بلیغ کریں گے ✧✧✧ـــــــــــــــــ{﷽}ـــــــــــــــــــــ✧✧✧ سب سے پہلے یہ جان لیں کہ مرجئہ کے معنی کیا ہیں مرجئہ کا لفظ ارجاء سے ہے جس کے لغوی معنیٰ موخر کرنا ہیں اصطلاحی معنیٰ کے متعلق حافظ ابن حجر عسقلانیؒ 852ھ لکھتے ہیں وَمِنْهُم من أَرَادَ تَأْخِير القَوْل فِي الحكم على من أَتَى الْكَبَائِر وَترك الْفَرَائِض بالنَّار لِأَن الْإِيمَان عِنْدهم الْإِقْرَار والاعتقاد وَلَا يضر الْعَمَل مَعَ ذَلِك مقدمہ فتح الباری ص646📕 کہ بعض کے ہاں ارجاء سے مراد گناہِ کبیرہ کے مرتکب اور فرائض کے تارک پر دخول فی النار [آگ میں داخل ہونا] کے حکم کو مؤخر کرنا ہے کیونکہ ان [مرجئہ] کے ہاں ایمان محض اقرار اور اعتقاد کا نام ہے ارتکابِ کبیرہ اور ترکِ فرائض ایمان کے ہوتے ہوئے نقصان دہ نہیں سلطان المحدثین ملا علی قاریؒ 1014ھ فرماتے ہیں ثم المرجئه طائفته قالوا لایضر مع الایمان ذنب کمالا ینفع مع الکفر طاعته فزعموا ان احدا من المسلمین لایعاقب علي شئي من الکبائر شرح فقہ اکبر ص75📔 ترجمہ: مرجئہ ایسا فرقہ ہے جس کا اعتقاد یہ ہے کہ ایمان کے ہوتے ہوئے گناہ کچھ نقصان دہ نہیں، جیسے کفر کی موجودگی میں طاعت کچھ فائدہ مند نہیں ان کا اعتقاد یہ ہے کہ کوئی مسلمان کبیرہ گناہ کی وجہ سے سزا پا ہی نہیں سکتا ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ تو آپ لوگوں کو اس فرقے کا تعارف تو پتہ چل ہی گیا ہوگا اب اصل میں یہ فرقہ حنفیہ نہیں بلکہ فرقہ غسانیہ ہے یعنی غسان ابن عبا الکوفی کے متبعین کو فرقہ غسانیہ کہتے ہیں ان کے عقائد آپ کو اوپر بتائے جا چکے ہیں مزید دیکھ لیں امام عبدالقاھر البغدادیؒ 429ھ فرقہ مرجئہ کے پیرو غسان مرجئی کے بارے میں لکھتے ہیں قال انه يزيد ولا ينقص وزعم غسان هذا فى كتابه ان قوله فى هذا الكتاب كقول أبى حنيفة فيه وهذا غلط منه عليه لأن أبا حنيفة قال إن الايمان هو المعرفة والاقرار بالله تعالٰى وبرسله وبما جاء من الله تعالى ورسله فى الجملة دون التفصيل وانه لا يزيد ولا ينقص وغسان قد قال بأنه يزيد ولا ينقص الفرق بين الفرق ص188📒 ترجمہ: غسان مرجئی کہتا ہے کہ ایمان بڑھتا تو ہے کم نہیں ہوتا اس غسان نے اپنی کتاب میں یہ کہا ہے کہ اس کا یہ قول امام ابوحنیفہؓ کے قول کی طرح ہے، لیکن امام صاحب کے بارے میں اس کی یہ بات غلط ہے، کیونکہ امام ابوحنیفہؓ تو یہ کہتے ہیں کہ ایمان معرفت اللہ اور رسول ﷺ کے اقرار اور ان چیزوں کے اجمالی اقرار کا نام ہے جو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے آئی ہیں بغیر تفصیل کے اور یہ نفسِ ایمان نہ کم ہوتا ہے نہ زیادہ لیکن غسان مرجئی کہتا تھا کہ ایمان زیادہ ہوتا ہے کم نہیں ہوتا ================================ اب یہ عقیدہ نہ تو امام ابو حنیفہؓ کا ہے نہ آپ کے متبعین کا دراصل غسان ابن عبا اور اس کے متبعین لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے یہ کہا کرتے تھے کہ جو عقیدہ ہمارا ہے امام ابو حنیفہؓ کا بھی یہی عقیدہ تھا اور پھر یہ فرقہ غسانیہ کے نام سے بدل کر حنفیہ کے نام سے مشہور ہو گیا اس لئے شیخ عبدالقادر جیلانیؓ نے جس نام سے یہ فرقہ مشہور تھا اسی نام سے اس کو مرجئہ میں شامل کیا ┄┅════❁✾✾✾❁════┅┄ اور امام اعظم ابو حنیفہؓ نے تو خود اس عقیدہ کا اپنی کتاب میں رد کیا ہے جو غسان ابن عبا کا تھا امام ابوحنیفہؓ نے اس کا رد اپنی کتاب فقہ الاکبر میں صراحت سے کیا ہے چنانچہ فرماتے ہیں ولا نقول ان حسناتنا مقبولۃ وسیئاتنا مغفورۃ کقول المرجئۃ ولکن نقول المسئلۃ مبینۃ مفصلۃ من عمل حسنۃ بشرائطہا خالیۃ عن العیوب المفسدۃ والمعانی المبطلۃ ولم یبطلہا حتی خرج من الدنیا فان اللہ تعالیٰ لایضیعہا بل یقبلہا منہ ویثیبہ علیہا الفقہ الاکبر مع الشرح ص77،78📙 ترجمہ: ہمارا یہ اعتقاد نہیں ہے کہ ہماری نیکیاں مقبول اور گناہ بخشے ہوئے ہیں جیسا کہ مرجئہ کا اعتقاد ہے (کہ ایمان کے ساتھ کسی قسم کی برائی نقصان دہ نہیں اور نافرمان کی نافرمانی پر کوئی سزا نہیں) بلکہ ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ جو شخص کوئی نیک کام اس کی شرطوں کے ساتھ کرے، اور وہ کام تمام مفاسد سے خالی ہو، اور اس کام کو باطل نہ کیا ہو، اور وہ شخص دنیا سے ایمان کی حالت میں رخصت ہوا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کےعمل کو ضائع نہیں کرے گا بلکہ اس کو قبول کرکے اس پر ثواب عطا فرمائے گا خـــــــلاصــــہ کـــــــلام تو تمام دلائل سے یہ ثابت ہوا کہ فرقہ مرجئہ کے جو عقائد ہیں وہ نہ تو امام ابو حنیفہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ہیں نہ آپ کے متبعین کے ہیں بلکہ وہ غسان ابن عبا اور اس کے متبعین کے ہیں ️اور بہت سے مستند علماء کرام نے اس بات کی بھی صراحت کی ہے کہ یہ عبارت شیخ عبدالقادر جیلانی کی نہیں بلکہ کسی مخالف کی ہے اور غنیۃ الطالبین شیخ عبدالقادر جیلانی کی کتاب ہے مگر اس میں تحریف ہو چکی ہے بہت سے مسائل میں یہ بھی مستند علماء کرام اور محدثین کا موقف ہے انجینئر مرزا اپنے اکابرین کی تقلید کرتے ہوئے امام اعظمؓ سے ذاتی بغض اور کینہ کی بنا پر یہ بات اور یہ الزام شیخ عبدالقادر جیلانیؓ پر عائد کیا کہ گویا کہ شیخ عبدالقادر جیلانیؓ نے حنفیوں کو مرجئہی کہا اور سب سے اہم بات انجینئر مرزا جہاں کی چھپی ہوئی کتابوں کو بہت اہمیت دیتا ہے دار الکتب العلمیہ بیروت وہاں سے شائع ہونے والی غنیۃ الطالبین میں حنفیہ کی جگہ غسانیہ ہی لکھا ہے ملاحظہ ہو 👈 غنیۃ الطالبین (بیروت) 1/186 پھر اسی کتاب میں سیّدنا غوث الاعظمؓ جب ایک مسئلہ پر گفتگو کرتے ہوئے امام ابو حنیفہؓ کا تعارف کرواتے ہیں تو ان الفاظ کے ساتھ کرواتے ہیں وهو مذهب الإمام الأعظم أبى حنيفة النعمان رحمه الله تعالى یہ مذہب ہے امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا اب انجینئر بتائے بقول انجینئر جن کے فرقے کو اور جن کو وہ مرجیئہ کہہ رہے ہیں ان کو رحمۃ اللہ تعالی علیہ اور امام اعظم بھی کہیں گے؟؟ جبکہ وہ خود امام احمد بن حنبلؒ کے مقلد ہیں فقہ میں اپنی پوری کتاب میں انہوں نے اپنے امام کو امام اعظم نہیں کہا۔ ملاحظہ ہو 👈 غنیۃ الطالبین (بیروت) 2/85 ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ ════ ❥ ❥ ❥ اللہ تعالی ہمیں سوچنے سمجھنے اور راہ حق پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ✍️ شــــــــــــــــــــــرف قلــــــــــــــــــم خادم اہلسنّت و جماعت محمد عاقب حسین رضوی
  7. زمین آسمان کی کنجیاں اور سلطنت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہے یا اللہ عزوجل یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الصلوۃ والسلام علیک یا سیدی یا رسول اللہؐ ✍️اللہ نے مرتبہ دیا ہے ۔ تم کیوں جلتے ہو؟ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه واله وسلم : رَوَاهُ الْمُحِبُّ الطَّبَرِيُّ.31 /31) 3-4: أخرجه محب الدين الطبري في الرياض النضرة، 1 /366، الرقم: 109، وإسماعيل الأصبهاني في دلائل النبوة، 1 /65، الرقم: 25، والسيوطي في الخصائص الکبري، 2 /388، والثعالبي في الکشف والبيان، 7 / 468. ’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: جب قیامت کا دن ہو گا تو اﷲ تعالیٰ اگلوں پچھلوں کو جمع فرمائے گا اور دو نورانی منبر لائے جائیں گے، ایک عرش کی دائیں جانب اور دوسرا عرش کی بائیں جانب نصب کیا جائے گا، اِن منبروں پر دو شخص نمودار ہوں گے، پس وہ جو عرش کی دائیں جانب ہو گا ندا دے گا: اے گروہانِ مخلوقات! جس نے مجھے پہچان لیا اُس نے جان لیا اور جس نے مجھے نہیں جانا (تو وہ جان لے) کہ میں جنت کا داروغہ رضوان ہوں۔ اﷲ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں جنت کی کنجیاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تھما دوں، اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اُنہیں ابو بکر و عمر (رضی اﷲ عنہما) کو تھما دوں تاکہ وہ اپنے ساتھ محبت کرنے والوں کو جنت میں داخل کر سکیں۔ پس تم آگاہ ہو جاؤ۔ پھر وہ شخص جو عرش کی بائیں جانب ہو گا ندا دے گا: جس نے مجھے جان لیا سو جان لیا اور جس نے مجھے نہیں جانا تو وہ جان لے کہ میں مالک، جہنم کا داروغہ ہوں۔ اﷲ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں جہنم کی کنجیاں محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو دے دوں اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں یہ کنجیاں ابو بکر و عمر کو دے دوں تاکہ وہ اپنے ساتھ بغض رکھنے والوں کو جہنم میں دھکیل سکیں۔ سو تم سب اِس پر گواہ ہو جاؤ۔‘‘ اِسے محب الدین الطبری نے روایت کیا ہے۔ اس روایت کو کتاب موجبات الجنہ لابن الفاجر میں ابن الفاجر نے بھی نقل کیا ہے۔ 317 - ثنا الإمام عمي قال، ثنا أبو علي الوزير إملاءً قال، ثنا يوسف بن محمد الزاهد. -وأنبا أبو طاهر الصوفي بقراءاتي عليه قال، ثنا يوسف بن محمد في كتابه، قال، حدثنا أحمد بن إبراهيم بن أحمد قال، ثنا القاسم بن محمد السراج، ثنا محمد بن أحمد الضبي الدينوري بمكة في المسجد الحرام قال، ثنا أحمد بن يحيى قال، ثنا الصابر الجارود قال، ثنا هشيم عن هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((إذا كان يوم القيامة ينصب ميزانٌ من ذهبٍ أمام العرش فيأتي ملكٌ من الملائكة فيعلو أحدهما فيقول من عرفني فقد عرفني، ومن لم يعرفني فأنا رضوان خازن الجنة، وهذا مفاتيحها بيدي، أمرني الله -عز وجل- أن أدفعها إلى النبي صلى الله عليه وسلم وأمرني النبي صلى الله عليه وسلم أن أدفعها إلى أبي بكر رضي الله عنه يدخل الجنة محبيه ومحبي عائشة بغير حسابٍ، ويأتي ملكٌ من الملائكة فيعلو المنبر الثاني، ويقول: من عرفني فقد عرفني، ومن لم يعرفني فأنا مالكٌ خازن النار، وهذا مفاتيحها بيدي، أمرني الله أن أدفعها إلى النبي صلى الله عليه وسلم وأمرني النبي صلى الله عليه وسلم أن أدفعها إلى أبي بكر الصديق رضي الله عنه يدخل النار مبغضيه ومبغضي عائشة بغير حسابٍ)). قال أبو بكر: سمع هذا الحديث الكرخي، وقال: لو كان هذا الحديث مكتوباً على الجدار لكان الواجب أن يكتب بماء الذهب. كتاب موجبات الجنة لابن الفاخر. ابن الفاخِر بابٌ في ذكر أن محبي أبي بكر وعائشة -رضي الله عنها- يدخلون الجنة بغير حساب. ✍️ اس کی سند پر کلام ہے اس حدیث کا متن بالکل قرآن و صحیح احادیث سے ثابت شدہ ہے وَلَـلۡاٰخِرَةُ خَيۡرٌ لَّكَ مِنَ الۡاُوۡلٰىؕ. 4 سورۃ الضحى : ترجمہ اور بیشک بعد والی ساعت آپ کے لئے پہلی ساعت سے بہتر 📖تفسیر میں مفسرین نے کیا فرمایا دو کتب سےمفہوم کہ آنے والے اَحوال آپ کے لئے گزشتہ سے بہتر و برتر ہیں گویا کہ حق تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ روز بروز آپ کے درجے بلند کرے گا اور عزت پر عزت اور منصب پر منصب زیادہ فرمائے گا اورہر آنے والی گھڑی میں آپ کے مَراتب ترقیوں میں رہیں گے۔ مدارک، الضّحی، تحت الآیۃ:4 تفسیرکبیر، الضّحی، تحت الآیۃ4 2 : وَلَسَوۡفَ يُعۡطِيۡكَ رَبُّكَ فَتَرۡضٰىؕ. ( الضحی 5) :ترجمہ اور عنقریب آپ کا رب آپ کو اتنا دے گا کہ آپ راضی ہوجائیں گے. اسکا متن آپ خود دیکھ لیں گے۔ آپ ایک بار اوپر والی روایت کو غور سے پڑھیں پھر ان احادیث کو پڑھتے جائیں ۔إن شاءالله۔۔آپ خود ہی سمجھ جائیں گے۔ 📘 1 : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ , فَقَالَ : إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ ، وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ ، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي وَلَكِنْ أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا۔ صحیح بخاری جلد1 حدیث. 1344.2977.3596 ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر تشریف لائے اور احد کے شہیدوں پر اس طرح نماز پڑھی جیسے میت پر پڑھی جاتی ہے۔ پھر منبر پر تشریف لائے اور فرمایا۔ دیکھو میں تم سے پہلے جا کر تمہارے لیے میر ساماں بنوں گا اور میں تم پر گواہ رہوں گا۔ اور قسم اللہ کی میں اس وقت اپنے حوض کو دیکھ رہا ہوں اور مجھے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں یا مجھے زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں اور قسم اللہ کی مجھے اس کا ڈر نہیں کہ میرے بعد تم شرک کرو گے بلکہ اس کا ڈر ہے کہ تم لوگ دنیا حاصل کرنے میں رغبت کرو گے۔ (محمد عمران علی حیدری) ✍️اس میں واضح طور پر سمجھا جا سکتا ہے یہی بات اوپر والی روایت میں کی گئی بات ہے۔ ✍️یہ حدیث بخاری میں چار جگہ پر موجود ہے اس کے علاوہ بھی بہت ساری کتب میں درج ہے الفاظ مختلف مفہوم ایک ہی ہے کہ ذات محبوب کبریا عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ اب اسکا تعین کرنا کون کون سے خزانے ہیں ہمارے بس کی بات نہیں۔ ✍️اور نہ ہم اس مسلہ میں قید و بند لگا سکتے ہیں حدیث پر کہ ہاں یہ ہوگا یہ نہیں۔ ایسا کرنا وہابیہ کا کام ہے ہمارا نہی۔ ✍️ہم نے بس مان لیا کہ ہاں دے دی گئی ہیں اب دینے والا اور لینے والا جانے۔ ✍️میرے خیال میں اور حقائق سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ کنجیاں کا لفظ کہنا یہ مقصد تھا کہ رسائی،(پہنچ) اختیار ،بادشاہت اللہ نے دےدی ہے۔ 📘 2: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ , حَدَّثَنَا اللَّيْثُ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ , عَنْ أَبِي الْخَيْرِ , عَنْ عُقْبَةَ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ, ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ , فَقَالَ: إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ , وَإِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ, وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ, أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ, وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي وَلَكِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا. صحیح بخاری جلد2 حدیث 4085 ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر تشریف لائے اور شہداء احد پر نماز جنازہ ادا کی، جیسے مردوں پر ادا کی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہارے آگے جاؤں گا، میں تمہارے حق میں گواہ رہوں گا۔ میں اب بھی اپنے حوض ( حوض کوثر) کو دیکھ رہا ہوں۔ مجھے دنیا کے خزانوں کی کنجی عطا فرمائی گئی ہے یا مفاتيح الأرض یعنی زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ اللہ کی قسم! میں تمہارے بارے میں اس سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے اس کا ڈر ہے کہ تم دنیا کے لیے حرص کرنے لگو گے۔ ✍️اب اس حدیث پر غور کریں تو نبی علیہ السلام فرما رہے ہین کہ اپنے حوض کوثر کو دیکھ رہا ہوں حوض کوثر کہاں ہے اور لفظ حضورؑ نے فرمایا اپنے یعنی میرا۔ مالکیت ظاہر ہورہی ہے۔ ✍️ سلطنت آسمان پر بھی ہے جس کی سلطنت ہو اختیار ہو و چابیاں بھی اسی کے پاس ہوتی ہیں ✍️جیسا کہ ایک بادشاہ کا وزیر ہوتا ہے بادشاہ اس کو بہت سارے اختیار دیتا ہے وزیر اسے استعمال کرتا ہے۔ کیونکہ وزیر کو سب دے دیا جاتا ہے ہر چیز پر وہ حکمرانی کرتا ہے۔ جیسا حدیث میں ہے واللہ یعطی انا القاسم اسی طرح ایک اور حدیث ہے ۔ اگر میں چاہوں تو میرے ساتھ سونے کے پہاڑ چلیں. ( مشکوات شریف ص ٥٢١ )۔ (محمد عمران علی حیدری) 📘 3 حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، قَالَ : حَدَّثَنِي أَخِي، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وِعَاءَيْنِ، فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَبَثَثْتُهُ ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَلَوْ بَثَثْتُهُ قُطِعَ هَذَا الْبُلْعُومُ. صحیح بخاری جلد1 حدیث 120. ترجمہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ( علم کے ) دو برتن یاد کر لیے ہیں، ایک کو میں نے پھیلا دیا ہے اور دوسرا برتن اگر میں پھیلاؤں تو میرا یہ نرخرا کاٹ دیا جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ «بلعوم» سے مراد وہ نرخرا ہے جس سے کھانا اترتا ہے۔ (محمد عمران علی حیدری) 📘 4 :حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ ذَكَرَ دَاوُدُ،‏‏‏‏ عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ سَيِّدَا كُهُولِ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ مَا خَلَا النَّبِيِّينَ وَالْمُرْسَلِينَ، ‏‏‏‏‏‏لَا تُخْبِرْهُمَا يَا عَلِيُّ۔ سنن الترمذی جلد2 حدیث 3666 ھذا حدیث صحیح ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابوبکر و عمر جنت کے ادھیڑ عمر کے لوگوں کے سردار ہیں، خواہ وہ اگلے ہوں یا پچھلے، سوائے نبیوں اور رسولوں کے، لیکن علی! تم انہیں نہ بتانا“۔ (محمد عمران علی حیدری) ✍️جسے چاہیں جو جو عطا کریں سب دیا آپ کی سلطنت میں 📘 5 :حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْوَاسِطِيُّ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا الْمُعَلَّى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَأَبُوهُمَا خَيْرٌ مِنْهُمَا۔ سنن ابن ماجہ جلد١حدیث 118 ھذا حدیث صحیح ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حسن و حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں، اور ان کے والد ان سے بہتر ہیں ۔ 📘 6: وَعَنْ أُمِّ سَلَمَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا فَاطِمَةَ عَامَ الْفَتْحِ فَنَاجَاهَا فَبَكَتْ ثُمَّ حَدَّثَهَا فَضَحِكَتْ فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلْتُهَا عَنْ بُكَائِهَا وَضَحِكِهَا. قَالَتْ: أَخْبَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ يَمُوتُ فَبَكَيْتُ ثُمَّ أَخْبَرَنِي أَنِّي سَيِّدَةُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ إِلَّا مَرْيَمَ بِنْتَ عِمْرَانَ فَضَحِكْتُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ مشکوۃ شریف ترجمہ: حضرت ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے سال رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فاطمہ ؓ کو بلایا اور ان سے سرگوشی فرمائی تو وہ رو پڑیں ، پھر ان سے کوئی بات کی تو وہ ہنس پڑی ، جب رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وفات پائی تو میں نے ان کے رونے اور ان کی ہنسی کے متعلق ان سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بتایا تھا کہ میں فوت ہو جاؤں گا تو میں رو پڑی ، پھر آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے مجھے بتایا کہ مریم بنت عمران کے علاوہ اہل جنت کی خواتین کی میں سردار ہوں ۔‘‘ اس پر میں ہنس دی ۔ رواہ الترمذی. (محمد عمران علی حیدری) 📘 7 :ﺣﺪﺛﻨﺎ ﺃﺑﻮ ﻋﻠﻲ اﻟﺤﺎﻓﻆ، ﺛنا ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﺩﺣﻴﻢ اﻟﺪﻣﺸﻘﻲ، ﺣﺪﺛﻨﻲ ﺃﺑﻲ، ﺛﻨﺎ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺇﺳﻤﺎﻋﻴﻞ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻓﺪﻳﻚ، ﻋﻦ ﻣﻮﺳﻰ ﺑﻦ ﻳﻌﻘﻮﺏ اﻟﺰﻣﻌﻲ، ﻋﻦ ﻋﻤﺮ ﺑﻦ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﺷﺮﻳﺢ، ﺃﻥ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﺣﻤﻴﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺣﺪﺛﻪ ﺃﻇﻨﻪ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ، ﺃﻥ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﺯﻳﺪ ﺣﺪﺛﻪ، ﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺎﻝ: «ﻋﺸﺮﺓ ﻓﻲ اﻟﺠﻨﺔ ﺃﺑﻮ ﺑﻜﺮ، ﻭﻋﻤﺮ، ﻭﻋﺜﻤﺎﻥ، ﻭﻋﻠﻲ، ﻭاﻟﺰﺑﻴﺮ، ﻭﻃﻠﺤﺔ، ﻭﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ، ﻭﺳﻌﺪ، ﻭﺃﺑﻮ ﻋﺒﻴﺪﺓ ﺑﻦ اﻟﺠﺮاﺡ ﻭﻫﺆﻻء ﺗﺴﻌﺔ» ، ﺛﻢ ﺳﻜﺖ ﻓﻘﺎﻟﻮا: ﻧﻨﺸﺪﻙ اﻟﻠﻪ ﺃﻻ ﺃﺧﺒﺮﺗﻨﺎ ﻣﻦ اﻟﻌﺎﺷﺮ، ﻓﻘﺎﻝ: «ﻧﺸﺪﺗﻤﻮﻧﻲ ﺑﺎﻟﻠﻪ ﺃﺑﻮ اﻷﻋﻮﺭ ﻓﻲ اﻟﺠﻨﺔ» ﺳﻜﺖ ﻋﻨﻪ اﻟﺬﻫﺒﻲ ﻓﻲ اﻟﺘﻠﺨﻴص (المستدرك علي الصحيحين: رقم الحديث 5858جلد3 498صفحہ,ط:دارالكتب العلمية۔) اگر وہابی یہ آیت پیش کریں لَّهٗ مَقَالِيۡدُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ‌ؕ وَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ اُولٰٓئِكَ هُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ. 63الزمر آیت : ترجمہ اسی کے پاس آسمانوں اور زمینوں کی چابیاں ہیں اور جن لوگوں نے اللہ کی آیتوں کے ساتھ کفر کیا ہے وہی نقصان اٹھانے والے ہیں. میں پوچھنا چاھتا ہوں اوپر بیان کی گئی احادیث کو مانوں گے یا انکار کردو گے؟؟ ہاں یہ بات سنی ہی سمجھ سکتا ہے اور سمجھا سکتا ہے ورنہ ایسے نے تو سیدنا علیؓ پر بھی شرک کا فتوئ لگا دیا تھا۔ العیاذ بااللہ۔ اس آیت کو سمجھنے کے لیے درج ذیل تفاسیر کو پڑھیے ۔ خزائن العرفان۔ تبیان القرآن ۔ صرط الجنان۔ روح البیان۔ وغیرہ۔ ملکِ سخن کی شاہی تم کو رضؔا مسلّم جس سمت آگئے ہو سکّے بٹھادیے ہیں۔ ( طالب دعا: محمد عمران علی حیدری)
×
×
  • Create New...