Jump to content

کمیونٹی میں تلاش کریں

Showing results for tags 'hadees'.

  • ٹیگ میں سرچ کریں

    ایک سے زائد ٹیگ کاما کی مدد سے علیحدہ کیے جا سکتے ہیں۔
  • تحریر کرنے والا

مواد کی قسم


اسلامی محفل

  • اردو فورم
    • اردو ادب
    • فیضان اسلام
    • مناظرہ اور ردِ بدمذہب
    • سوال و درخواست
    • گفتگو فورم
    • میڈیا
    • اسلامی بہنیں
  • انگلش اور عربی فورمز
    • English Forums
    • المنتدی الاسلامی باللغۃ العربیہ
  • اسلامی محفل سے متعلق
    • معلومات اسلامی محفل
  • Arabic Forums

تتیجہ ڈھونڈیں...

وہ نتیجہ نکالیں جن میں یہ الفاظ ہوں


تاریخ اجراء

  • Start

    End


Last Updated

  • Start

    End


نمبرز کے حساب سے ترتیب دیں...

Joined

  • Start

    End


Group


AIM


MSN


Website URL


ICQ


Yahoo


Jabber


Skype


مقام


Interests


پیر

  1. از مفتی ابو اسامہ سائر القادری حفظہ الله| اقسام حدیث باعتبار اصل یعنی اصل کے اعتبار سے حدیث کی تین قسمیں ہیں۔ (۱) مرفوع (۲) موقوف (۳) مقطوع پھر حدیث خواہ مرفوع ہو یا موقوف ہو یا مقطوع ہو ان میں سے ہر ایک کی تین قسمیں ہیں۔ (۱) قولی (۲) فعلی (۳) تقریری ۔ اقسام حدیث باعتبار نقل یعنی نقل کے اعتبار سے حدیث کی دوقسمیں ہیں (۱) متواتر (۲) غیر متواتر۔ پھر راویوں کے تعداد کے اعتبار سے حدیث کی تین قسمیں ہیں۔ (۱) مشہور (۲) عزیز (۳) غریب۔ پھر مراتب کے اعتبار سے حدیث کی چار قسمیں ہیں۔ (۱) صحیح لذاتہ (۲) صحیح لغیرہ (۳) حسن لذاتہ (۴) حسن لغیرہ۔ (ماخوذ: اصول علم حدیث صفحہ ۵ ، تا ۹) اور حدیث کے منکر پر حکم شرع یہ ہے کہ اگر کسی نے حدیث کا انکار کیا تو وہ کافر ہے میرے آقا اعلٰی حضرت امام اہل سنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں: حدیث متواتر کے انکار پر حکم تکفیر کی جاتی (یعنی حکم کفر لگایا جاتا) ہے خواہ متواتر باللفظ ہو یا متواتر المعنیٰ اور حدیث ٹھہرا کر جو کوئی استخفاف کرے تو یہ مطلقا کفر ہے اگرچہ حدیث احاد بلکہ ضعیف بلکہ فی الواقع اس سے بھی نازل (یعنی کم درجہ) ہو۔ ( فتاویٰ رضویہ جلد ۱۴ صفحہ ۲۸۰) نوٹ: حدیث ٹھہرا کر انکار کرنے کا معنیٰ یہ ہے کہ قائل یہ مراد لے کہ فلاں بات سرکار کائنات ﷺ نے معاذ اللہ غلط ارشاد فرما دی تو یہ قائل قطعی کافر و مرتد ہے۔ اور رہی بات مطلقاً حدیث کا انکار کرنے والا کافر ہے یا کسی خاص حدیث کا انکار کرنے والا کافر ہے؟ تو جان لیجئے کہ مطلقاً حدیث کا انکار کرنے والا شخص کافر ہے اور کسی خاص حدیث کا انکار کرتا ہے اور وہ حدیث مجروح ہو تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں اور اگر کسی حدیث صحیح کا انکار کرتا ہے اور جانتا بھی ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے تو وہ شخص گمراہ ہے۔ اس پر توبہ تجدید ایمان لازم و ضروری ہے۔ جیسا کہ فتاویٰ شارح بخاری میں ہے: حدیث کا مطلقاً انکار کرنے والا کافر ہے۔ مثلاً کوئی یہ کہے کہ میں حدیث نہیں مانتا۔ لیکن اگر کسی نے کسی خاص حدیث کے بارے میں کہا کہ میں اسے نہیں مانتا اور وہ حدیث مجروح ہے تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں لیکن اگر کسی حدیث صحیح کے بارے میں یہ کہا اور اسے معلوم بھی ہو کہ یہ حدیث صحیح ہے تو وہ گمراہ ہے اور اگر کسی نے یہ کہا میں پوری کتاب (مشکوٰۃ) میں جو حدیثیں ہیں (یعنی یہ کہا کہ مشکوٰۃ میں جتنی حدیثیں ہیں ان میں سے کسی کو نہیں مانتا) اس کو نہیں مانتا تو وہ بھی ضرور کافر ہے اس پر توبہ تجدید ایمان تجدید نکاح لازم ہے۔ ( فتاویٰ شارح بخاری جلد اول صفحہ ۵۶۴، ۵۶۵) اور فتاویٰ مرکز تربیت افتاء میں ہے: اگر کسی شخص نے حدیث کا انکار کیا اگر وہ بیان کردہ حدیث متواتر ہے اور وہ شخص اس کا منکر ہے تو اس کے کفر میں کوئی شک نہیں اس پر علانیہ توبہ استغفار واجب ہے۔ بیوی والا ہو تو نکاح جدید بمہر جدید کرے اور تجدید ایمان بھی کرے اگر مرید ہے تو بیعت بھی کرے اگر وہ حدیث مشہور ہے تو اس کا منکر کافر نہیں بلکہ وہ گمراہ مسلمان ہے۔ (فتاویٰ مرکز تربیت افتاء جلد دوم صفحہ ۱۰۹) اور منکرِحدیث کے بارے میں میرے آقا اعلیٰ حضرت، اِمامِ اہلسنت ، مولاناشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ الرضوان فرماتے ہیں : جو شخص حدیث کا منکر ہے وہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ وسلم کا منکر ہے اور جو نبی صَلَّی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کا منکر ہے وہ قرآن مجید کا منکر اور جو قراٰن مجید کا منکر ہے اللّٰہ واحد قہار کا منکر ہے اور جو اللّٰہ کا منکر ہے صریح مرتد کافِر ہے ۔ (فتاوٰی رضویہ جلد ۱۴ صفحہ ۳۱۲) واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
  2. لولاک لما خلقت الأفلاك kisi ne mujy kaha hay ye hadees jhoti hay khud se ghari howi hay.. kia ye sach hay? agr is ka koye saboot ho tu batain plz mukhalif jawab main ye post karta hay:: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ مَا أُرِيدُ مِنْهُمْ مِنْ رِزْقٍ وَمَا أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِ إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ فَإِنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا ذَنُوبًا مِثْلَ ذَنُوبِ أَصْحَابِهِمْ فَلَا يَسْتَعْجِلُونِ
  3. Assalamo Alaikum! Hadees e Iftaraaq e Ummat k hawalajaat Nisai,Ibn e Maja, Abu Daud aor Tirmizi sy chahiey..... Ulama Ikram Kasarahomul Karim ki mukhtalif Kitabon sy kai saal pehly in charon books mein ic Hadees k hawalajaat parhy hein........koi bhai Reference aor Scane Lga dy. Jazak Allah Ral Salafi Anjuman Talaba-e-Islam ATI
  4. Nazeer Ahmed_1360

    Hadees E Nabvi

    as sallam o elikum bhaiyu
  5. mera sawal ye hai k hazoor s.a.w kay noor honey par kul kitne ahadees hein.jazakallah
  6. Required Scan Hadith Noor musanaf abdul razzaq... bhai ye kisi wahabi ka sawal hay
  7. کیا فقہ حنفی میں متعہ جائز ہے؟ غیر مقلدین کا دھوکہ غیر مقلدین کا فقہ حنفی پہ ایک اعتراض یہ ہے کہ فقہ حنفی میں معین مدت تک نکاح یعنی کہ متعہ جائز ہے لیکن غیر مقلدین ہمیشہ کی طرح یہاں بھی دھوکہ دیتے ہیں۔ اصل مسئلہ طلاق کی نیت سے نکاح کرنے کا ہے جس میں فقہا کا اختلاف ہے اور اسی بات کو فتاوی عالمگیری میں ذکر کیا گیا ہے جس کو غیر مقلد دھوکہ سے متعہ بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ سب سے پہلی بات کہ یہ فتوی ان غیر مقلدین نے شیعہ سے چوری کیا ہے۔ شیعہ یہ الزام اہلسنت پہ لگاتے ہیں کہ اہلسنت کے نزدیک متعہ جائز ہے جس کو غیر مقلدین احناف اور فقہ حنفی کے بغض اور حسد میں آگے پھیلا رہے ہیں غیر مقلدین کی اطلاع کے لئے سعودیہ کے مشہور محدث علامہ ابن بازؒ کے نزدیک بھی طلاق کی نیت سے نکاح کرنا جائز ہے اور یہ متعہ نہیں کہلاتا۔ علامہ ابن بازؒ کا یہ فتوی ان کی کتاب ـ(مقالات و فتاوی ابن باز،ج4 صفحہ 30 اور مسائل امام ابن باز، ج1 صفحہ 185) پر واضح طور پہ دیکھا جا سکتا ہے۔ علامہ ابن بازؒ کے علاوہ کئی اکابرین کے نزدیک طلاق کی نیت سے نکاح جائز ہے۔ امام نووی الشافعی کہتے ہیں: وبه قال القاضي أبو بكر الباقلاني قال القاضي وأجمعوا على أن من نكح نكاحا مطلقا ونيته أن لا يمكث معها الا مدة نواها فنكاحه صحيح حلال وليس نكاح متعة وإنما نكاح المتعة ما وقع بالشرط المذكور اور یہ وہ ہے جو قاضی ابو بکر الباقلانی نے کہا ہے۔ قاضی کہتے ہیں:'اس بات پر اجماع" ہے کہ جو بھی مطلق نکاح(نکاح دائمی) کرتا ہے لیکن نیت یہ ہوتی ہے کہ عورت کے ساتھ صرف کچھ مدت کے لیے ہی رہے گا، تو بلاشبہ ایسا نکاح صحیح اور حلال ہے اور یہ نکاح المتعہ (کی طرح حرام) نہیں ہے کیونکہ نکاح المتعہ میں پہلے سے ہی یہ شرط مذکور ہوتی ہے (کہ ایک مدت کے بعد خود بخود طلاق ہو جائے گی)۔اور امام مالک ؒکے نزدیک یہ اخلاق میں سے نہیں ہے اور امام اوزاعیؒ کے نزدیک یہ متعہ ہی ہے۔ ( کتاب المنہاج شرح مسلم، جلد 9 صفحہ 182 ) امام اہلسنت ابن قدامہ الحنبلی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: إن تزوجها بغير شرط، إلا أن في نيته طلاقها بعد شهر، أو إذا انقضت حاجته في هذا البلد، فالنكاح صحيح في قول عامة أهل العلم إلا الأوزاعي، قال: هو نكاح متعة. والصحيح أنه لا بأس به اگر وہ عورت سے (مدت) کی کوئی شرط کیے بغیر نکاح کرتا ہے لیکن دل میں نیت ہے کہ اُسے ایک ماہ کے بعد طلاق دے دے گا یا پھر اُس علاقے یا ملک میں اپنی ضرورت پوری ہونے کے بعد طلاق دے دے گا (اور پھر آگے روانہ ہو جائے گا) تو پھر اہل علم کے مطابق بلاشبہ ایسا نکاح بالکل صحیح ہے ، سوائے الاوزاعی کے جنہوں نے اسے عقد المتعہ ہی جانا ہے لیکن صحیح یہی رائے ہے(جو اہل علم کی ہے) کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ( المغنی، جلد 7، صفحہ 573 ) سعودی ِعرب کے سابق مفتی ِاعظم شیخ ابن باز فرماتے ہیں: [شیخ ابن باز صاحب سے سوال]: آپ نے ایک فتوی جاری کیا ہے کہ اس بات کی اجازت ہے کہ ویسٹرن [مغربی] ممالک میں اس نیت سے شادی کر لی جائے کہ کچھ عرصے کے بعد عورت کو طلاق دے دی جائے۔۔۔۔۔ تو پھر آپکے اس فتوے اور عقد متعہ میں کیا فرق ہوا؟ [شیخ ابن باز کا جواب]: جی ہاں، یہ فتوی سعودیہ کی مفتی حضرات کی مستقل کونسل کی جانب سے جاری ہوا ہے اور میں اس کونسل کا سربراہ ہوں اور یہ ہمارا مشترکہ فتوی ہے کہ اس بات کی اجازت ہے کہ شادی کی جائے اور دل میں نیت ہو کہ کچھ عرصے کے بعد طلاق دینی ہے [ہمارا تبصرہ: یعنی لڑکی کو دھوکے میں رکھنا جائز ہے اور اسے بتانے کی ضرورت نہیں کہ دل میں نیت تو کچھ عرصے بعد طلاق کی کر رکھی ہے]۔ اور یہ (طلاق کی نیت) معاملہ ہے اللہ اور اسکے بندے کے درمیان۔ اگر کوئی شخص (سٹوڈنٹ) مغربی ملک میں اس نیت سے شادی کرتا ہے کہ اپنی تعلیم مکمل ہونے کے بعد یا نوکری ملنے کے بعد لڑکی کو طلاق دے دے گا تو اس میں تمام علماء کی رائے کے مطابق ہرگز کوئی حرج نہیں ہے۔ نیت کا یہ معاملہ اللہ اور اسکے بندے کے درمیان ہے اور یہ نیت نکاح کی شرائط میں سے نہیں ہے۔ عقد متعہ اور مسیار میں فرق یہ ہے کہ عقد متعہ میں باقاعدہ ایک مقررہ وقت کے بعد طلاق کی شرط موجود ہے جیسے مہینے ، دو مہینے یا سال یا دو سال وغیرہ۔ عقد متعہ میں جب یہ مدت ختم ہو جاتی ہے تو خود بخود طلاق ہو جاتی ہے اور نکاح منسوخ ہو جاتا ہے، چنانچہ یہ شرط عقد متعہ کو حرام بناتی ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص اللہ اور اسکے رسول ص کی سنت کے مطابق نکاح کرتا ہے، چاہے وہ دل میں طلاق کی نیت ہی کیوں نہ رکھتا ہو کہ جب وہ مغربی ملک کو تعلیم کے بعد چھوڑے گا تو لڑکی کو طلاق دے دے گا، تو اس چیز میں کوئی مضائقہ نہیں، اور یہ ایک طریقہ ہے جس سے انسان اپنے آپ کو برائیوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے اور زناکاری سے بچ سکتا ہے، اور یہ اہل علم کی رائے ہے۔ (مقالات و فتاوی ابن باز،ج4 صفحہ 30 اور مسائل امام ابن باز، ج1 صفحہ 185، فتاوی اسلامیہ، جلد 3 صفحہ 264) غیر مقلدین کے مکتبہ دار السلام سے غیر مقلدین کی تصدیق شدہ کتاب ''کتاب النکاح'' میں بھی سید سابقؒ کے حوالے سے طلاق کی نیت سے نکاح کو صحیح مانا گیا ہے۔ اس کتاب کو عمران ایوب لاہوری نے لکھا ہے اور اس میں علامہ البانیؒ کی تحقیق سے استفادہ کیا گیا ہے اور غیر مقلدین کے مکتبہ دارالسلام نے اس کتاب کو چھاپا ہے۔ کیا غیر مقلدین علامہ ابن بازؒ، علامہ البانیؒ اور عمران ایوب لاہوری پہ یہ فتوی لگائیں گے کہ ان علماء کے نزدیک بھی احناف کی طرح متعہ جائز ہے؟ یہ تھی غیرمقلدین کے جاہلانہ الزام کی حقیقت اور اب غیر مقلدین سے گزارش ہے کہ اگر وہ قرآن و حدیث کے ماننے والے ہیں تو احناف کے ساتھ ساتھ ان اکابرین پہ بھی متعہ کے جائز کہنے کا فتوی لگائیں ۔ شکریہ غلامِ خاتم النبیینﷺ محسن اقبال
  8. انی لا ستنشق روح الرحمن من طرف الیمن (تذکرۃ الاولیاء) احب الاولیاء الی اللہ لاتقیاء الاخفیاء (ماخوذ تاریخ اولیاء،تذکرۃ الاولیاء) ان یھب اللہ من امتی بشفاعنہ بالصواب بنی کلیب واشعارھا
  9. حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "سب سے پہلے جو چیز انسان کے ترازوۓ اعمال میں رکھی جاۓ گی وہ انسان کا وہ خرچ ہو گا جو اس نے اپنے گھر والوں پر کیا ہو گا۔
  10. mjhe bhat argent me is Hadees e Pak ka scan page chaiye kia koi bhai meri help kr skta hai.. agar scan page ni ho to complete hawala with hadees number bata de.. 1. Syedna Zaid bin Sabit (Radi Allahu Anhu) se marwi hai ke; “Rasool (Sallallahu Allaihe Wasallam) ne Yemen ki taraf deka aur ye dua farmai, Aye Allah! Inn ke dilo ko meri taraf mayal farma aurIraq ki taraf dekha aur ye dua farmai, Aye Allah! Inn ke dilo mein meri taraf mayal farma, aur Shaam ki taraf dekha aur ye dua farmai, Aye Allah! Inn ke dilo mein meri taraf mayal farma, Aye Allah! Hamaray liye sa`aa aur hamaray madd mein barkat ataa farma.” (Kanzul-ul-Aamaal, Vol. 9, Pg. 136 Muajjam-ul-Sagheer, Vol. 1, Pg. 173, al`Maktabt-ul-Islami, Beirut Muajjam-ul-Kabeer, Vol. 5, Pg. 116, Maktabat-ul-Uloom wa`Hikm, Mousal) 2. “Nabi (Salllallahu Allaihe Wasallam) ne Shaam ki taraf nazar ki aur ye dua ki, Aye Allah! Inn ke dilo ko apni ataa'at ki taraf mayal farma aur inn ke ird`girdd apni rehmat ghair de. Phir Yemen ki taraf nazar ki aur iss ki misl dua farmai, phir Iraq ki taraf nazar ki aur waisay hi dua farmai.” (Majmoa`-al`Zawaid, Vol. 3, Pg. 304, Darul Riyan-ul-Tiraas, Qahira, Darul Kitab al`Arabi, Beirut al`Adb-ul-Mufarrid, Vol. 1, Pg. 169, Darul Bashair-ul-Islamiya, Beirut) 3. Umm-ul-Momineen Hazrat Umm-e-Salma (Radi Allahu Anha) nay farmaya; “Imam Mahdi ki khidmat mein Shaam ke abdaal aur Iraq ke loog giroh`dar`giroh hazir ho kar bayt karein gay.” (Sunan Abu Duad, Vol. 4, Pg. 107, Darul`Fikr, Beirut Sahih Ibn Hibban, Vol. 10, Pg. 59, Beirut)
×
×
  • Create New...