Jump to content

الإِنْتِبَاهُ لِلْخَوَارِجِ وَالْحَرُوْرَاءِ (Gustakh E Rasool Salallaho Aleh Wasallam) Ki Alamaat.


NAJAMMIRANI

تجویز کردہ جواب

. عَنْ أبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه يَقُولُ : بَعَثَ عَلِيُّ بْنُ أبِي طَالِبٍ رضی الله عنه إِلَی رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم مِنَ اليمن بِذُهَيْبَةٍ فِي أدِيْمٍ مَقْرُوْظٍ لَمْ تُحَصَّلْ مِنْ تُرَابِهَا. قَالَ : فَقَسَمَهَا بَيْنَ أرْبَعَةِ نَفَرٍ بَيْنَ عُيَيْنَةَ ابْنِ بَدْرٍ وَ أقْرَعَ بْنِ حَابِسٍ وَ زَيْدِ الْخَيْلِ وَ الرَّابِعُ إِمَّا عَلْقَمَةُ وَ إِمَّا عَامِرُ بْنُ الطُّفَيْلِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أصْحَابِهِ : کُنَّا نَحْنُ أحَقَّ بِهَذَا مِنْ هَؤُلَاءِ قَالَ : فَبَلَغَ ذَلِکَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ : ألاَ تَأمَنُوْنِي وَ أنَا أمِيْنُ مَنْ فِي السَّمَاءِ يَأتِينِي خَبَرُ السَّمَاءِ صَبَاحًا وَ مَسَاءً، قَالَ : فَقَامَ رَجُلٌ غَائِرُ العَيْنَيْنِ، مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ، نَاشِزُ الجَبْهَةِ، کَثُّ اللِّحْيَةِ، مَحْلُوقُ الرَّأسِ، مُشَمَّرُ الإِزَارِ. فَقَالَ : يَارَسُولَ اﷲِ، اتَّقِ اﷲَ، قَالَ : وَيْلَکَ أوَلَسْتُ أحَقَّ أهْلِ الأرْضِ أنْ يَتَّقِيَ اﷲَ؟ قَالَ : ثُمَّ وَلَّی الرَّجُلُ، قَالَ خَالِدُ بْنُ الوليد : يَا رَسُولَ اﷲِ! ألاَ أضْرِبُ عُنُقَهُ؟ قَالَ : لاَ، لَعَلَّهُ أنْ يَکُونَ يُصَلِّي. فَقَالَ خَالِدٌ : وَ کَمْ مِنْ مُصَلٍّ يَقُولُ بِلِسَانِهِ مَا لَيْسَ فِي قَلْبِهِ، قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنِّي لَمْ أوْمَرْ أنْ أنْقُبَ عَنْ قُلُوبِ النَّاسِ، وَلاَ أشُقَّ بُطُونَهُمْ، قَالَ : ثُمَّ نَظَرَ إِلَيْهِ وَهُوَ مُقَفٍّ، فَقَالَ : إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِيئِ هَذَا قَوْمٌ يَتْلُوْنَ کِتَابَ اﷲِ رَطْبًا لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَما يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ. وَ أظُنُّهُ قَالَ : لَئِنْ أدْرَکْتُهُمْ لَأقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُوْدَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

 

الحديث رقم 1 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المغازي، باب : بعث علي بن أبي طالب و خالد بن الوليد رضي اﷲ عنهما إلي اليمن قبل حجة الوداع، 4 / 1581، الرقم : 4094، و مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج و صفاتهم، 2 / 742، الرقم : 1064، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 4، الرقم : 11021، و ابن خزيمة في الصحيح، 4 / 71، الرقم : 2373، و ابن حبان في الصحيح، 1 / 205، الرقم : 25، و أبو يعلي في المسند، 2 / 390، الرقم : 1163، و أبو نعيم في المسند المستخرج، 3 / 128، الرقم : 2375، و في حلية الأولياء، 5 / 71، و العسقلاني في فتح الباري، 8 / 68، الرقم : 4094، و حاشية ابن القيم، 13 / 16، و السيوطي في الديباج، 3 / 160، الرقم : 1064، و ابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 188، 192.

 

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں چمڑے کے تھیلے میں بھر کر کچھ سونا بھیجا، جس سے ابھی تک مٹی بھی صاف نہیں کی گئی تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ سونا چار آدمیوں میں تقسیم فرما دیا، عیینہ بن بدر، اقرع بن حابس، زید بن خیل اور چوتھے علقمہ یا عامر بن طفیل کے درمیان۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی نے کہا : ان لوگوں سے تو ہم زیادہ حقدار تھے۔ جب یہ بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم مجھے امانت دار شمار نہیں کرتے؟ حالانکہ آسمان والوں کے نزدیک تو میں امین ہوں۔ اس کی خبریں تو میرے پاس صبح و شام آتی رہتی ہیں۔ راوی کا بیان ہے کہ پھر ایک آدمی کھڑا ہو گیا جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں، رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئیں، اونچی پیشانی، گھنی داڑھی، سر منڈا ہوا اور اونچا تہبند باندھے ہوئے تھا، وہ کہنے لگا : یا رسول اللہ! خدا سے ڈریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو ہلاک ہو، کیا میں تمام اہل زمین سے زیادہ خدا سے ڈرنے کا مستحق نہیں ہوں؟ سو جب وہ آدمی جانے کے لئے مڑا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایسا نہ کرو، شاید یہ نمازی ہو، حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : بہت سے ایسے نمازی بھی تو ہیں کہ جو کچھ ان کی زبان پر ہے وہ دل میں نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ لوگوں کے دلوں میں نقب لگاؤں اور ان کے پیٹ چاک کروں۔ راوی کا بیان ہے کہ وہ پلٹا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اس کی جانب دیکھا تو فرمایا : اس کی پشت سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ کی کتاب کی تلاوت سے زبان تر رکھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر میں ان لوگوں کو پاؤں تو قوم ثمود کی طرح انہیں قتل کر دوں۔‘‘

 

2. وَ فِي رِوَايَةِ مُسْلِمٍ زَادَ : فَقَامَ إِلَيْهِ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ رضي اﷲ عنه، فَقَالَ : يَا رَسُولَ اﷲِ، ألاَ أضْرِبُ عُنُقَهُ؟ قَالَ : لاَ، قَالَ : ثُمَّ أدْبَرَ فَقَامَ إِلَيْهِ خَالِدٌ سَيْفُ اﷲِ. فَقَالَ : يَا رَسُولَ اﷲِ ألاَ أضْرِبُ عُنُقَهُ؟ قَالَ : لاَ، فَقَالَ : إِنَّهُ سَيَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِئِی هَذَا قَوْمٌ، يَتْلُونَ کِتَابَ اﷲِ لَيِّنًا رَطْبًا، (وَ قَالَ : قَالَ عَمَّارَةُ : حَسِبْتُهُ) قَالَ : لَئِنْ أدْرَکْتُهُمْ لَأقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُوْدَ.

 

الحديث رقم 2 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج و صفاتهم، 2 / 743، الرقم : 1064.

 

’’اور مسلم کی ایک روایت میں اضافہ ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا میں اس (منافق) کی گردن نہ اڑادوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں، پھر وہ شخص چلا گیا، پھر حضرت خالد سیف اللہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ! میں اس (منافق) کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں اس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن بہت ہی اچھا پڑھیں گے (راوی) عمارہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا : اگر میں ان لوگوں کو پالیتا تو (قومِ) ثمود کی طرح ضرور انہیں قتل کر دیتا۔‘‘

 

3. عَنْ أبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : بَيْنَا النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقْسِمُ ذَاتَ يَوْمٍ قِسْمًا فَقَالَ ذُوالْخُوَيْصَرَةِ رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَمِيْمٍ : يَا رَسُولَ اﷲِ، اعْدِلْ، قَالَ : وَيْلَکَ مَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أعْدِلْ؟ فَقَالَ عُمَرُ : ائْذَنْ لِي فَلْأضْرِبْ عُنُقَهُ، قَالَ : لَا، إِنَّ لَهُ أصْحَابًا يَحْقِرُ أحَدُکُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ، وَ صِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّيْنِ کَمُرُوْقِ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ يَنْظُرُ إِلَی نَصْلِهِ فَلاَ يُوجَدُ فِيْهِ شَيئٌ ثُمَّ يَنْظُرُ إِلَی رِصَافِهِ فَلاَ يُوجَدُ فِيْهِ شَيئٌ ثُمَّ يَنْظُرُ إِلَی نَضِيِّهِ فَلاَ يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ ثُمَّ يَنْظُرُ إِلَی قُذَذِهِ فَلاَ يُوجَدُ فِيْهِ شَيئٌ، قَدْ سَبَقَ الْفَرْثَ وَ الدَّمَ يَخْرُجُونَ عَلَی حِيْنَ فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ آيَتُهُمْ رَجُلٌ إِحْدَی يَدَيْهِ مِثْلُ ثَدْيِ المَرْأةِ أوْ مِثْلُ البَضْعَةِ تَدَرْدَرُ. قَالَ أبُو سَعِيْدٍ : أشْهَدُ لَسَمِعْتُهُ مِنَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، وَ أشْهَدُ أنِّي کُنْتُ مَعَ عَلِيٍّ حِيْنَ قَاتَلَهُمْ فَالْتُمِسَ فِي الْقَتْلَی فَأتِيَ بِهِ عَلَی النَّعْتِ الَّذِي نَعْتَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم.

 

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

 

الحديث رقم 3 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الأدب، باب : ماجاء في قول الرجل ويلک، 5 / 2281، الرقم : 5811، و في کتاب : استتابة المرتدين والمعاندين و قتالهم، باب : من ترک قتال الخوارج للتألف وأن لا ينفر الناس عنه، 6 / 2540، الرقم : 6534، و مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج و صفاتهم، 2 / 744، الرقم : 1064، و النسائي في السنن الکبري، 5 / 159، الرقم : 8560.8561، 6 / 355، الرقم : 11220، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 65، الرقم : 11639، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 140، الرقم : 6741، و البيهقي في السنن الکبري، 8 / 171، و عبدالرزاق في المصنف، 10 / 146.

 

’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا : کہ ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مالِ (غنیمت) تقسیم فرما رہے تھے تو ذوالخویصرہ نامی شخص جو کہ بنی تمیم سے تھا، نے کہا : یا رسول اللہ! انصاف کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو ہلاک ہو، اگر میں انصاف نہ کروں تو اور کون انصاف کرے گا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : مجھے اجازت دیں کہ اس کی گردن اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں، کیونکہ اس کے ساتھی بھی ہیں کہ تم ان کی نمازوں کے مقابلے میں اپنی نمازوں کو حقیر جانو گے اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں اپنے روزوں کو حقیر جانو گے۔ وہ دین سے اس طرح نکلے ہوئے ہوں گے جیسے شکار سے تیر نکل جاتا ہے، پھر اس کے پیکان پر کچھ نظر نہیں آتا، اس کے پٹھے پر بھی کچھ نظر نہیں آتا، اس کی لکڑی پر بھی کچھ نظر نہیں آتا اور نہ اس کے پروں پر کچھ نظر آتا ہے، وہ گوبر اور خون کو بھی چھوڑ کر نکل جاتا ہے۔ وہ لوگوں میں فرقہ بندی کے وقت (اسے ہوا دینے کے لئے) نکلیں گے۔ ان کی نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک آدمی کا ہاتھ عورت کے پستان یا گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہلتا ہو گا۔ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث پاک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہے اور میں (یہ بھی) گواہی دیتا ہے کہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا جب ان لوگوں سے جنگ کی گئی، اس شخص کو مقتولین میں تلاش کیا گیا تو اس وصف کا ایک آدمی مل گیا جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا تھا۔‘‘

 

4. عَنْ أبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ : بَعَثَ عَلِيٌّ رضی الله عنه وَ هُوَ بِاليمن إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم بِذُهَيْبَةٍ فِي تُرْبَتٍِهَا فَقَسَمَهَا بَيْنَ الْأقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ الْحَنْظَلِيِّ ثُمَّ أحَدِ بَنِي مُجَاشِعٍ وَ بَيْنَ عُيَيْنَةَ بْنِ بَدْرٍ الْغَزَارِيِّ وَ بَيْنَ عَلْقَمَةَ بْنِ عُلَاثَةَ الْعَامِرِيِّ ثُمَّ أحَدِ بَنِي کِلَابٍ وَ بَيْنَ زَيْدِ الْخَيْلِ الطَّائِيِّ ثُمَّ أحَدِ بَنِي نَبْهَانَ فَتَغَيَّظَتْ قُرَيْشٌ وَالْأنْصَارُ فَقَالُوْا : يُعْطِيْهِ صَنَادِيْدَ أهْلِ نَجْدٍ وَ يَدَعُنَا، قَالَ : إِنَّمَا أتَألَّفُهُمْ فَأقْبَلَ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَيْنَيْنِ نَاتِءُ الْجَبِيْنِ، کَثُ اللِّحْيَةِ، مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ، مَحْلُوقُ الرَّأسِ، فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ، اِتَّقِ اﷲَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : فَمَنْ يُطِيْعُ اﷲَ إِذَا عَصَيْتُهُ فَيَأمَنُنِي عَلَی أهْلِ الْأرْضِ، وَ لَاتَأمَنُوْنِي؟ فَسَألَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ قَتْلَهُ أرَاهُ خَالِدَ بْنَ الوليد فَمَنَعَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم (وَ فِي رِوَايَةِ أبِي نُعَيْمٍ : فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ، اتَّقِ اﷲَ، وَ اعْدِلْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : يَأمَنُنِي أهْلُ السَّمَاءِ وَ لَا تَأمَنُوْنِي؟ فَقَالَ أبُوْ بَکْرٍ : أضْرِبُ رَقَبَتَهُ يَا رَسُولَ اﷲِ؟ قَالَ : نَعَمْ، فَذَهَبَ فَوَجَدَهُ يُصَلِّي، فَجَاءَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : وَجَدْتُهُ يُصَلِّي فَقَالَ آخَرُ : أنَا أضْرِبُ رَقَبَتَهُ؟) فَلَمَّا وَلَّی قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ مِنْ ضِئْضِيئِ هَذَا قَوْمًا يَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الإِسْلاَمِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ يَقْتُلُوْنَ أهْلَ الإِسْلَامِ وَ يَدْعُوْنَ أهْلَ الْأوثَانِ لَئِنْ أدْرَکْتُهُمْ لَأقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ عَادٍ.

 

مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَ هَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ.

 

الحديث رقم 4 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : التوحيد، باب : قول اﷲ تعالي : تعرج الملائکة و الروح إليه، 6 / 2702، الرقم : 6995، و في کتاب : الأنبياء، باب : قول اﷲ عزوجل : و أما عاد فأهلکوا بريح صرصر شديدة عاتية، 3 / 1219، الرقم : 3166، و مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج و صفاتهم، 2 / 741، الرقم : 1064، و أبو داود في السنن، کتاب : السنة، باب : في قتال الخوارج، 4 / 243، الرقم : 4764، و النسائي في السنن، کتاب : تحريم الدم، باب : من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 / 118، الرقم : 4101، و في کتاب : الزکاة، باب : المؤلفة قلوبهم، 5 / 87، الرقم : 2578، و في السنن الکبري، 6 / 356، الرقم : 11221، و أبو نعيم في المسند المستخرج علي صحيح الإمام مسلم، 3 / 127، الرقم : 2373، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 68، 73، الرقم : 11666، 11713، و عبد الرزاق في المصنف، 10 / 156، و البيهقي في السنن الکبري، 6 / 339، الرقم : 12724، 7 / 18، الرقم : 12962، و ابن منصور في کتاب السنن، 2 / 373، الرقم : 2903، و أبو نعيم في حلية الأولياء، 5 / 72، و الشوکاني في نيل الأوطار، 7 / 345، و ابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 196.

 

’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے مٹی میں ملا ہوا تھوڑا سا سونا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اقرع بن حابس جو بنی مجاشع کا ایک فرد تھا اور عیینہ بن بدر فزاری، علقمہ بن علاثہ عامری، جو بنی کلاب سے تھا اور زید الخیل طائی، جو بنی نبہان سے تھا ان چاروں کے درمیان تقسیم فرما دیا۔ اس پر قریش اور انصار کو ناراضگی ہوئی اور انہوں نے کہا کہ اہلِ نجد کے سرداروں کو مال دیتے ہیں اور ہمیں نظر انداز کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تو ان کی تالیف قلب کے لئے کرتا ہوں۔ اسی اثناء میں ایک شخص آیا جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں، پیشانی ابھری ہوئی، داڑھی گھنی، گال پھولے ہوئے اور سرمنڈا ہوا تھا اور اس نے کہا : اے محمد! اﷲ سے ڈرو، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والا کون ہے؟ اگر میں اس کی نافرمانی کرتا ہوں حالانکہ اس نے مجھے زمین والوں پر امین بنایا ہے اور تم مجھے امین نہیں مانتے۔ تو صحابہ میں سے ایک شخص نے اسے قتل کرنے کی اجازت مانگی میرے خیال میں وہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں منع فرما دیا (اور ابو نعیم کی روایت میں ہے کہ ’’اس شخص نے کہا : اے محمد اﷲ سے ڈرو اور عدل کرو، تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آسمان والوں کے ہاں میں امانتدار ہوں اور تم مجھے امین نہیں سمجھتے؟ تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! میں اس کی گردن کاٹ دوں؟ فرمایا : ہاں، سو وہ گئے تو اسے نماز پڑھتے ہوئے پایا، تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : میں نے اسے نماز پڑھتے پایا (اس لئے قتل نہیں کیا) تو کسی دوسرے صحابی نے عرض کیا : میں اس کی گردن کاٹ دوں؟ جب وہ چلا گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس شخص کی نسل سے ایسی قوم پیدا ہوگی کہ وہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، وہ بت پرستوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کو قتل کریں گے اگر میں انہیں پاؤں تو قوم عاد کی طرح ضرور انہیں قتل کر دوں۔‘‘

 

5. عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ : إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ : سَيَخْرُجُ قَومٌ فِي آخِرِ الزَّمَانِ أحْدَاثُ الْأسْنَانِ سُفَهَاءُ الْأحْلَامِ يَقُولُوْنَ مِنْ خَيْرِ قَولِ الْبَرِيَّةِ، لاَ يُجَاوِزُ إِيْمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، فَأيْنَمَا لَقِيْتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوْهُمْ، فَإِنَّ فِي قَتْلِهِمْ أجْرًا لِمَنْ قَتَلَهُمْ يَومَ الْقِيَامَةِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

 

و أخرجه أبو عيسي الترمذي عن عبد اﷲ بن مسعود رضي الله عنه في سننه و قال : و في الباب عن علي و أبي سعيد و أبي ذرّ رضي الله عنهم و هذا حديث حسن صحيح و قد رُوي في غير هذا الحديث : عَنِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم حَيثُ وَ صَفَ هَؤُلَاءِ الْقَومَ الَّذِينَ يقرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ. إنما هم الخوارج الحروريّة و غيرهم من الخوارج.

 

الحديث رقم 5 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : استتابة المرتدين و المعاندين و قتالهم، باب : قتل الخوارج و الملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 / 2539، الرقم : 6531، و مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : التحريض علي قتل الخوارج، 2 / 746، الرقم : 1066، و الترمذي في السنن، کتاب : الفتن عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : في صفة المارقة، 4 / 481، الرقم : 2188، و النسائي في السنن، کتاب : تحريم الدم، باب : من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 / 119، الرقم : 4102، و ابن ماجة في السنن، المقدمة، باب : في ذکر الخوارج، 1 / 59، الرقم : 168، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 81، 113، 131، الرقم : 616، 912، 1086، و ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 553، الرقم : 37883، و عبد الرزاق في المصنف، 10 / 157، و البزار في المسند، 2 / 188، الرقم : 568، و أبو يعلي في المسند، 1 / 273، الرقم : 324، و البيهقي في السنن الکبري، 8 / 170، و الطبراني في المعجم الصغير، 2 / 213، الرقم : 1049، و عبد اﷲ بن أحمد في السنة، 2 / 443، الرقم : 914، و الطيالسي في المسند، 1 / 24، الرقم : 168.

 

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ عنقریب آخری زمانے میں ایسے لوگ ظاہر ہوں گے یا نکلیں گے جو نوعمر اور عقل سے کورے ہوں گے وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث بیان کریں گے لیکن ایمان ان کے اپنے حلق سے نہیں اترے گا۔ دین سے وہ یوں خارج ہوں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے پس تم انہیں جہاں کہیں پاؤ تو قتل کر دینا کیونکہ ان کو قتل کرنے والوں کو قیامت کے دن ثواب ملے گا۔‘‘

 

’’امام ابو عیسیٰ ترمذی نے بھی اپنی سنن میں اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرمایا : یہ روایت حضرت علی، حضرت ابو سعید اور حضرت ابو ذر رضی اللہ عنھم سے بھی مروی ہے اور یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اس حدیث کے علاوہ بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جبکہ ایک ایسی قوم ظاہر ہو گی جس میں یہ اوصاف ہوں گے جو قرآن مجید کو تلاوت کرتے ہوں گے لیکن وہ ان کے حلقوں سے نہیں اترے گا وہ لوگ دین سے اس طرح خارج ہوں گے جس طرح تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔ بیشک وہ خوارج حروریہ ہوں گے اور اس کے علاوہ خوارج میں سے لوگ ہوں گے۔‘‘

 

6. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضي الله عنه‘ قَالَ : بَيْنَا النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم يَقْسِمُ، جَاءَ عَبْدُاﷲِ بْنُ ذِي الْخُوَيْصِرَةِ التَّمِيْمِيُّ فَقَالَ : اعْدِلْ يَا رَسُولَ اﷲِ! قَالَ : وَ يْحَکَ، وَمَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَعْدِلْ. قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : ائْذَنْ لِي فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، قَالَ : دَعْهُ، فَإِنَّ لَهُ أَصْحَابًا، يَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِ وَ صِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِ، يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنَ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، يُنْظَرُ فِي قُذَذِهِ فَلَا يُوجَدُ فِيْهِ شَيئٌ‘ ثُمَّ يُنْظَرُ فِي نَصْلِهِ فَلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ ثُمٌ يُنْظَرُ فِي رِصَافِهِ فَلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ، ثُمَّ يُنْظَرُ فِي نَضِيِّهِ فَلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ، قَدْ سَبَقَ الفَرْثَ وَالدَّمَ. . . الحديث. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

 

الحديث رقم 6 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : استابة المرتدين و المعاندين، باب : مَن ترک قتال الخوارجِ لِلتَّألُّفِ، وَ لِءَلَّا ينْفِرَ النَّاسُ عَنه، 6 / 2540، الرقم : 6534، 6532، و في کتاب : المناقب، باب : علاماتِ النُّبُوّةِ في الإِسلامِ، 3 / 1321، الرقم : 3414، و في کتاب : فضائل القرآن، باب : البکاء عند قراء ة القرآن، 4 / 1928، الرقم : 4771، و في کتاب : الأدب، باب : ما جاء في قول الرَّجلِ : ويلَکَ، 5 / 2281، الرقم : 5811، و مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج و صفاتهم، 2 / 744، الرقم : 1064، و نحوه النسائي عن أبي برزة رضي الله عنه في السنن، کتاب : تحريم الدم، باب : من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 / 119، الرقم : 4103، و في السنن الکبري، 6 / 355، الرقم : 11220، و ابن ماجة في السنن، المقدمة، باب : في ذکر الخوارج، 1 / 61، الرقم : 172، و ابن الجارود في المنتقي، 1 / 272، الرقم : 1083، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 140، الرقم : 6741، و الحاکم عن أبي برزة رضي الله عنه في المستدرک، 2 / 160، الرقم : 2647، و قال : هذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 56، الرقم : 11554، 14861، و البيهقي في السنن الکبري، 8 / 171، و ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 562، الرقم : 37932، و عبد الرزاق في المصنف، 10 / 146، و نحوه البزار عن أبي برزة رضي الله عنه في المسند، 9 / 305، الرقم : 3846، و الطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 35، الرقم : 9060، و أبو يعلي في المسند، 2 / 298، الرقم : 1022، و البخاري عن جابر رضي الله عنه في الأدب المفرد، 1 / 270، الرقم : 774.

 

’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے کہ عبداللہ بن ذی الخویصرہ تمیمی آیا اور کہنے لگا یارسول اللہ! انصاف سے تقسیم کیجئے (اس کے اس طعن پر) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کمبخت اگر میں انصاف نہیں کرتا تو اور کون کرتا ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! اجازت عطا فرمائیے میں اس (خبیث) کی گردن اڑا دوں، فرمایا : رہنے دو اس کے کچھ ساتھی ایسے ہیں (یا ہوں گے) کہ ان کی نمازوں اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں تم اپنی نمازوں اور روزوں کو حقیر جانوگے۔ لیکن وہ لوگ دین سے اس طرح خارج ہوں گے جس طرح تیر نشانہ سے پار نکل جاتا ہے۔ (تیر پھینکنے کے بعد) تیر کے پر کو دیکھا جائے گا تو اس میں بھی خون کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ تیر کی باڑ کو دیکھا جائے گا تو اس میں بھی خون کا کوئی نشان نہ ہو گا اور تیر (جانور کے ) گو بر اور خون سے پار نکل چکا ہوگا۔ (ایسی ہی ان خبیثوں کی مثال ہے کہ دین کے ساتھ ان کا سرے سے کوئی تعلق نہ ہوگا)۔‘‘

 

7. عَنْ جَابِرٍ رضی الله عنه يَقُولُ : بَصَرَ عَيْنِي وَ سَمِعَ أُذُنِي رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بِالْجِعْرَانَةِ وَ فِي ثَوبِ بِلَالٍ فِضَّةٌ وَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقْبِضُهَا لِلنَّاسِ يُعْطِيْهِمْ، فَقَالَ رَجُلٌ : اعْدِلْ، قَالَ : وَيْلَکَ، وَمَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَکُنْ أَعْدِلُ؟ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ : يَا رَسُولَ اﷲِ، دَعْنِي أَقْتُلْ هَذَا الْمُنَافِقَ الْخَبِيْثَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَعَاذَ اﷲِ أَنْ يَتَحَدَّثَ النَّاسُ أَنِّي أَقْتُلُ أَصْحَابِي، إِنَّ هَذَا وَ أَصْحَابَهُ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لاَ يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَ أَبُو نُعَيْمٍ.

 

الحديث رقم 7 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 354، الرقم : 1461، و أبو نعيم في المسند المستخرج علي صحيح الإمام مسلم، 3 / 127، الرقم : 2372.

 

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میری آنکھوں نے دیکھا اور کانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوفرماتے سنا : جعرانہ کے مقام پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑوں (گود) میں چاندی تھی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں سے مٹھیاں بھر بھر کے لوگوں کو عطا فرما رہے ہیں تو ایک شخص نے کہا : عدل کریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو ہلاک ہو۔ اگر میں عدل نہیں کروں گا تو کون عدل کرے گا؟ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! مجھے چھوڑ دیں کہ میں اس خبیث منافق کو قتل کر دوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں لوگوں کے اس قول سے کہ میں اپنے ساتھیوں کو قتل کرنے لگ گیا ہوں اﷲ کی پناہ چاہتا ہوں۔ بیشک یہ اور اس کے ساتھی قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے حلق سے نہیں اترے گا، وہ دین کے دائرے سے ایسے خارج ہو جائیں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔‘‘

 

8. عَنْ أبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : يَخْرُجُ نَاسٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ وَ يَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، ثُمَّ لَا يَعُوْدُوْنَ فِيْهِ حَتَّی يَعُودَ السَّهْمُ إِلَی فُوقِهِ، قِيْلَ مَا سِيْمَاهُمْ؟ قَالَ : سِيْمَاهُمُ التَّحْلِيْقُ أوْ قَالَ : التَسْبِيْدُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

 

وَ فِي رِوَايَةٍ : عَنْ يُسَيْرِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ : سَألْتُ سَهْلَ بْنَ حُنَيفٍ رضی الله عنه هَلْ سَمِعْتَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَذْکُرُ الْخَوَارِجَ؟ فَقَالَ : سَمِعْتُهُ وَ أشَارَ بِيَدِهِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ قَوْمٌ يَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ بِألْسِنَتِهِمْ لَا يَعْدُوْا تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

 

الحديث رقم 8 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : التوحيد، باب : قراءة الفاجر و المنافق و أصواتهم و تلاوتهم لاتجاوز حناجرهم، 6 / 2748، الرقم : 7123، و مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : الخوارج شر الخلق و الخليفة، 2 / 750، الرقم : 1068، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 64، الرقم : 11632، 3 / 486، و ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 563، الرقم : 37397، و أبو يعلي في المسند، 2 / 408، الرقم : 1193، و الطبراني في المعجم الکبير، 6 / 91، الرقم : 5609، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 490، الرقم : 909، و قال : إسناده صحيح، و أبو نعيم في المسند المستخرج، 3 / 135، الرقم : 2390.

 

’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مشرق کی جانب سے کچھ لوگ نکلیں گے کہ وہ قرآن پاک پڑھیں گے مگر وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے اور پھر وہ دین میں واپس نہیں آئیں گے جب تک تیر اپنی جگہ پر واپس نہ لوٹ آئے۔ دریافت کیا گیا کہ ان کی نشانی کیا ہے؟ فرمایا : ان کی نشانی سر منڈانا ہے یا فرمایا : سر منڈائے رکھنا ہے۔

 

اور مسلم کی روایت میں ہے : يُسیر بن عمرو کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے پوچھا : کیا آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خوارج کا ذکر سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا : ہاں! میں نے سنا ہے اور اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کرکے کہا : وہ اپنی زبانوں سے قرآن مجید پڑھیں گے مگر وہ ان کے حلق سے نہیں اترے گا اور دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے۔‘‘

 

9. عَنْ زَيْدِ بْنِ وَهْبٍ الْجُهْنِيِّ أَنَّهُ کَانَ فِي الْجَيْشِ الَّذِيْنَ کَانُوا مَعَ عَلِيٍّ رضي الله عنه الَّذِيْنَ سَارُوا إِلَي الْخَوَارِجِ، فَقَالَ عَلِيٌّ رضي الله عنه : أَيَّهَا النَّاسُ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُولُ : يَخْرُجُ قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِي يَقْرَءُوْنَ القُرْآنَ لَيْسَ قِراءَتُکُمْ إِلَي قِرَاءَتِهِمْ بِشَيءٍ وَلاَ صَلَاتُکُمْ إِلَي صَلاَتِهِمْ بِشَيءٍ وَلاَ صِيَامُکُمْ إِلَي صِيَامِهِمْ بِشَيءٍ يَقْرَءُوْنَ القُرآنَ يَحْسِبُونَ أَنَّهُ لَهُمْ، وَهُوَ عَلَيْهِمْ لاَ تُجَاوِزُ صَلَاتُهُمْ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الإِسْلاَمِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ. . . الحديث. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

 

الحديث رقم 9 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة باب : التحريض علي قتل الخوارج، 2 / 748، الرقم : 1066، وأبوداود في السنن، کتاب : السنة، باب : في قتال الخوارج، 4 / 244، الرقم : 4768، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 163، الرقم : 8571، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 91، الرقم : 706، و عبد الرزاق في المصنف، 10 / 147؛ والبزار في المسند، 2 / 197، الرقم : 581، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 445. 446، والبيهقي في السنن الکبري، 8 / 170.

 

’’زید بن وہب جہنی بیان کرتے ہیں کہ وہ اس لشکر میں تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خوارج سے جنگ کے لئے گیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے لوگو! میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت میں سے ایک قوم ظاہر ہوگی وہ ایسا قرآن پڑھیں گے کہ ان کے پڑھنے کے سامنے تمہارے قرآن پڑھنے کی کوئی حیثیت نہ ہوگی، نہ ان کی نمازوں کے سامنے تمہاری نمازوں کی کچھ حیثیت ہوگی وہ یہ سمجھ کر قرآن پڑھیں گے کہ وہ ان کے لئے مفید ہے لیکن درحقیقت وہ ان کے لئے مضر ہوگا، نماز ان کے گلے کے نیچے سے نہیں اتر سکے گی اور وہ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔‘‘

 

10. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضی الله عنه : أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم ذَکَرَ قَومًا يَکُونُونَ فِي أُمَّتِهِ يَخْرُجُونَ فِي فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ سِيْمَاهُمُ التَّحَالُقُ، قَالَ : هُمْ شَرُّالْخَلْقِ (أَوْ مِنْ أَشَرِّالْخَلْقِ) يَقْتُلُهُمْ أَدْنَی الطَّائِفَتَيْنِ إِلَی الْحَقِّ، قَالَ : فَضَرَبَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم لَهُمْ مَثَلاً أَوْ قَالَ قَولاً : الرَّجُلُ يَرْمِی الرَّّمِيَّةَ (أَوْ قَالَ : الْغَرَضَ) فَيَنْظُرُ فِي النَّصْلِ فَلاَ يَرَی بَصِيْرَةً وَيَنْظُرُ فِي النَّضِيِّ فَلاَ يَرَی بَصِيرَةً وَيَنْظُرُ فِي الْفُوقِ فَلَا يَرَی بَصِيْرَةً. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

 

الحديث رقم 10 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 / 745، الرقم : 1065، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 5، الرقم : 11031، و عبداﷲ بن أحمد في السنة : 2 / 622، الرقم : 1482، وقال : إسناده صحيح.

 

’’حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک قوم کا ذکر کیا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں پیدا ہو گی، اس کا ظہور اس وقت ہوگا جب لوگوں میں فرقہ بندی ہو جائے گی۔ ان کی علامت سر منڈانا ہوگی اور وہ مخلوق میں سب سے بد تر (یا بدترین) ہوں گے اور انہیں دوجماعتوں میں سے وہ جماعت قتل کرے گی جو حق کے زیادہ قریب ہوگی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان لوگوں کی ایک مثال بیان فرمائی کہ جب آدمی کسی شکار یا نشانہ کو تیر مارتا ہے تو پر کو دیکھتا ہے اس میں کچھ اثر نہیں ہوتا اور تیر کی لکڑی کو دیکھتا ہے اور وہاں بھی اثر نہیں ہوتا، پھر اس حصہ کو دیکھتا ہے جو تیر انداز کی چٹکی میں ہوتا ہے تو وہاں بھی کچھ اثر نہیں پاتا۔‘‘

 

11. عَنْ أبِي سَلَمَةَ وَ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ : أنَّهُمَا أتَيَا أبَا سَعِيْدٍ الْخُدْرِيَّ رضي الله عنه فَسَألاَهُ عَنِ الْحَرُوْرِيَّةِ أ سَمِعْتَ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم ؟ قَالَ : لَا أدْرِي مَا الْحَرُوْرِيَّةُ؟ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُولُ : يَخْرُجُ فِي هَذِهِ الْأمَّةِ وَ لَمْ يَقُلْ مِنْهَا قَوْمٌ تَحْقِرُوْنَ صَلَاتَکُمْ مَعَ صَلَاتِهِمْ يَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حُلُوْقَهُمْ أوْ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّيْنِ مُرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ. . . الحديث. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

 

الحديث رقم 11 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : استتابة المرتدين والمعاندين و قتالهم، باب : قتل الخوارج و الملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 / 2540، الرقم : 6532، و في فضائل القرآن، باب : إثم من رائي بقرائة القرآن أو تاکل به أو فخر به، 4 / 1928، الرقم : 4771، و مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج و صفاتهم، 2 / 743، الرقم : 1064، و مالک في الموطأ، کتاب : القرآن، باب : ماجاء في القرآن، 1 / 204، الرقم : 478، و النسائي في السنن الکبري، 3 / 31، الرقم : 8089، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 60، الرقم : 11596، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 132، الرقم : 6737، و البخاري في خلق أفعال العباد، 1 / 53 وا بن أبي شيبة في المصنف، 7 / 560، الرقم : 37920، و أبو يعلي في المسند، 2 / 430، الرقم : 1233، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 456، الرقم : 935، و البيهقي في شعب الإيمان، 2 / 537، الرقم : 2640، و الربيع في المسند، 1 / 34، الرقم : 36.

 

’’حضرت ابو سلمہ اور حضرت عطاء بن یسار رضی اﷲ عنہما دونوں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حروریہ کے بارے میں کچھ سنا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے نہیں معلوم کہ حروریہ کیا ہے؟ ہاں میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس امت میں سے کچھ ایسے لوگ نکلیں گے اور یہ نہیں فرمایا کہ ایک ایسی قوم نکلے گی (بلکہ لوگ فرمایا) جن کی نمازوں کے مقابلے میں تم اپنی نمازوں کو حقیر جانو گے، وہ قرآن مجید کی تلاوت کریں گے لیکن یہ (قرآن) ان کے حلق سے نہیں اترے گا یا یہ فرمایا کہ ان کے نرخرے سے نیچے نہیں اترے گا اور وہ دین سے یوں خارج ہو جائیں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔‘‘

 

12. عَنْ أبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ وَ أنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي اﷲ عنهما عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : سَيَکُونُ فِي أمَّتِي اخْتِلَافٌ وَ فُرْقَةٌ قَوْمٌ يُحْسِنُوْنَ الْقِيْلَ وَ يُسِيْءُونَ الْفِعْلَ يَقْرَأوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ (وَ فِي رِوَايَةٍ : يَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ وَ صِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ) يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ مُرُوْقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ لَا يَرْجِعُوْنَ حَتَّی يَرْتَدَّ عَلَی فُوْقِهِ هُمْ شَرُّالْخَلْقِ وَ الْخَلِيْقَةِ طُوبَی لِمَنْ قَتَلَهُمْ وَ قَتَلُوهُ يَدْعُونَ إِلَی کِتَابِ اﷲِ وَ لَيْسُوا مِنْهُ فِي شَيءٍ مَنْ قَاتَلَهُمْ کَانَ أوْلَی بِاﷲِ مِنْهُمْ قَالُوْا : يَا رَسُولَ اﷲِ مَا سِيْمَاهُمْ؟ قَالَ : التَّحْلِيقُ.

 

وَ فِي رِوَايَةٍ : عَنْ أنَسٍ رضی الله عنه أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ نَحْوَهُ : سِيْمَاهُمْ التَّحْلِيْقُ وَ التَّسْبِيْدُ.

 

رَوَاهُ أبُودَاوُدَ وَ ابْنُ مَاجَةَ مُخْتَصْرًا وَ أحْمَدُ وَ الْحَاکِمُ.

 

الحديث رقم 12 : أخرجه أبو داود في السنن، کتاب : السنة، باب : في : قتال الخوارج، 4 / 243، الرقم : 4765، و ابن ماجة في السنن، المقدمة، باب : في ذکر الخوارج، 1 / 60، الرقم : 169، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 224، الرقم : 13362، والحاکم في المستدرک، 2 / 161، الرقم : 2649، و البيهقي في السنن الکبري، 8 / 171، و المقدسي في الأحاديث المختارة، 7 / 15، الرقم : 2391. 2392، و قال : إسناده صحيح، و أبو يعلي في المسند، 5 / 426، الرقم : 3117، و الطبراني نحوه في المعجم الکبير، 8 / 121، الرقم : 7553، و المروزي في السنة، 1 / 20، الرقم : 52.

 

’’حضرت ابوسعید خدری اور حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عنقریب میری امت میں اختلاف اور تفرقہ بازی ہو گی، ایک قوم ایسی ہوگی کہ وہ لوگ گفتار کے اچھے اور کردار کے برے ہوں گے، قرآن پاک پڑھیں گے جو ان کے گلے سے نہیں اترے گا (اور ایک روایت میں ہے کہ تم اپنی نمازوں اور روزوں کو ان کی نمازوں اور روزوں کے مقابلہ میں حقیر سمجھو گے) وہ دین سے ایسے خارج جائیں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے، اور واپس نہیں آئیں گے جب تک تیر کمان میں واپس نہ آ جائے وہ ساری مخلوق میں سب سے برے ہوں گے، خوشخبری ہو اسے جو انہیں قتل کرے اور جسے وہ قتل کریں۔ وہ اﷲ عزوجل کی کتاب کی طرف بلائیں گے لیکن اس کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہو گا ان کا قاتل ان کی نسبت اﷲ تعالیٰ کے زیادہ قریب ہو گا، صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! ان کی نشانی کیا ہے؟ فرمایا : سر منڈانا۔

 

ایک اور روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی طرح فرمایا : ان کی نشانی سر منڈانا اور ہمیشہ منڈائے رکھنا ہے۔‘‘

 

13. عَنْ شَرِيْکِ بْنِ شِهَابٍ قَالَ : کُنْتُ أتَمَنَّی أنْ ألْقَی رَجُلاً مِنْ أصْحَابِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أسْألُهُ عَنِ الْخَوَارِجِ، فَلَقِيْتُ أبَا بَرْزَةَ فِي يَومِ عِيْدٍ فِي نَفَرٍ مِنْ أصْحَابِهِ فَقُلْتُ لَهُ : هَلْ سَمِعْتَ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَذْکُرُ الْخَوَارِجَ؟ فَقَالَ : نَعَمْ، سَمِعْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بِأذُنِي وَرَأيْتُهُ بِعَيْنِي أتِيَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بِمَالٍ فَقَسَمَهُ، فَأعْطَی مَنْ عَنْ يَمِيْنِهِ وَ مَنْ عَنْ شِمَالِهِ، وَلَمْ يُعْطِ مَنْ وَرَاءَهُ شَيْئًا، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ وَرَائِهِ. فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ، مَا عَدَلْتَ فِي القِسْمَةِ، رَجُلٌ أسْوَدُ مَطْمُومُ الشَّعْرِ، عَلَيْهِ ثَوْبَانِ أبْيَضَانِ (وزَادَ أحْمدُ : بَيْنَ عَيْنَيْهِ أثَرُ السُّجُودِ)، فَغَضِبَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم غَضَبًا شَدِيْدًا، وَ قَالَ : وَاﷲِ، لَا تَجِدُوْنَ بَعْدِي رَجُلًا هُوَ أعْدَلُ مِنِّي، ثُمَّ قَالَ : يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ کَأنَّ هَذَا مِنْهُمْ (وَ فِي رِوَايَةٍ : قَالَ : يَخْرُجُ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ رِجَالٌ کَانَ هَذَا مِنْهُمْ هَدْيُهُمْ هَکَذَا) يَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الإِسْلَامِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، سِيْمَاهُمُ التَّحْلِيْقُ، لَا يَزَالُوْنَ يَخْرُجُونَ حَتَّی يَخْرُجَ آخِرُهُمْ مَعَ المَسِيْحِ الدَّجَّالِ، فَإِذَا لَقِيْتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ، هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ.

 

رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَ أحْمَدُ وَالْبَزَّارُ وَالْحَاکِمُ.

 

وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ. وَ رِجَالُهُ رِجَالُ الصحيح کَمَا قَالَ الْهَيْثَمِيُّ.

 

الحديث رقم 13 : أخرجه النسائي في السنن، کتاب : تحريم الدم، باب : من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 / 119، الرقم : 4103، و في السنن الکبري، 2 / 312، الرقم : 3566، و أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 421، والبزار في المسند، 9 / 294، 305، الرقم : 3846، والحاکم في المستدرک، 2 / 160، الرقم : 2647، و ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 559، الرقم : 37917، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 452، الرقم 927، والطيالسي في المسند، 1 / 124، الرقم : 923، والعسقلاني في فتح الباري، 12 / 292، و ابن القيسراني في تذکرة الحفاظ، 3 / 1101، و ابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 188.

 

’’حضرت شریک بن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے اس بات کی خواہش تھی کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی صحابی سے ملوں اور ان سے خوارج کے متعلق دریافت کروں۔ اتفاقاً میں نے عید کے روز حضرت ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کو آپ کے کئی دوستوں کے ساتھ دیکھا میں نے دریافت کیا : کیا آپ نے خارجیوں کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ سنا ہے؟ آپ نے فرمایا : ہاں، میں نے اپنے کانوں سے سنا اور آنکھوں سے دیکھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں کچھ مال پیش کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مال کو ان لوگوں میں تقسیم فرما دیا جو دائیں اور بائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے اور جو لوگ پیچھے بیٹھے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں کچھ عنایت نہ فرمایا چنانچہ ان میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا، اے محمد! آپ نے انصاف سے تقسیم نہیں کی۔ وہ سیاہ رنگ، سر منڈا اور سفید کپڑے پہنے ہوئے تھا (اور امام احمد بن حنبل نے اضافہ کیا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان (پیشانی پر) سجدوں کا اثر تھا)۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شدید ناراض ہوئے اور فرمایا : خدا کی قسم! تم میرے بعد مجھ سے بڑھ کر کسی شخص کو انصاف کرنے والا نہ پاؤگے، پھر فرمایا : آخری زمانے میں کچھ لوگ پیدا ہوں گے یہ شخص بھی انہیں لوگوں میں سے ہے (اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مشرق کی طرف سے ایک قوم نکلے گی یہ آدمی بھی ان لوگوں میں سے ہے اور ان کا طور طریقہ بھی یہی ہوگا) وہ قرآن مجید کی تلاوت کریں گے مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ ان کی نشانی یہ ہے کہ وہ سرمنڈے ہوں گے ہمیشہ نکلتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ دجال کے ساتھ نکلے گا جب تم ان سے ملو تو انہیں قتل کردو۔ وہ تمام مخلوق سے بدترین ہیں۔‘‘

 

14. عَنْ أبِي سَلَمَةَ قَالَ : قُلْتُ لِأبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه : هَلْ سَمِعْتَ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَذْکَرُ فِي الْحَرُورِيَةِ شَيْئًا؟ فَقَالَ : سَمِعْتُهُ يَذْکُرُ قَوْمًا يَتَعَبَّدُونَ (وَ فِي رِوَايَةِ أحْمَدٍ : يَتَعَمَّقُوْنَ فِي الدِّيْنِ) يَحْقِرُ أحَدُکُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ وَ صَومَهُ مَعَ صَومِهِمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَةِ أخَذَ سَهْمَهُ فَنَظَرَ فِي نَصْلِهِ فَلَمْ يَرَ شَيْئًا، فَنَظَرَ فِي رِصَافِهِ فَلَمْ يَرَ شَيْئًا فَنَظَرَ فِي قِدْحِهِ فَلَمْ يَرَ شَيْئًا، فَنَظَرَ فِي الْقُذَذِ فَتَمَارَی هَلْ يَرَی شَيْئًا أمْ لَا. رَوَاهُ ابْنُ ماجة وَ أحْمَدُ.

 

الحديث رقم 14 : أخرجه ابن ماجة في السنن، المقدمة، باب : في ذکر الخوارج، 1 / 60، الرقم : 169، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 33، الرقم : 11309، و ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 557، الرقم : 37909.

 

’’ابو سلمہ کہتے ہیں میں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا : کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حروریہ (یعنی خوارج) کے متعلق کوئی حدیث سنی ہے؟ انہوں نے فرمایا : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک قوم کا ذکر فرمایا ہے جو خوب عبادت کرے گی (امام احمد کی ایک روایت میں ہے کہ وہ دین میں انتہائی پختہ نظر آئیں گے) اور (یہاں تک کہ) تم اپنی نمازوں اور روزوں کو ان کی نمازوں اور روزوں کے مقابلہ میں حقیر سمجھوگے۔ وہ دین سے ایسے نکل جائیں گی جیسے تیر شکار سے، کہ آدمی اپنے تیر کو اٹھا کر اس کے پھل کو دیکھے تو اس میں کوئی خون وغیرہ نظر نہ آئے پھر وہ تیر کی لکڑی کو دیکھے اس میں کوئی نشان نہ پائے پھر اس کی نوک کو دیکھے اور کوئی بھی نشان نظر نہ آئے پھر تیر کے پر کو دیکھے اس میں بھی کچھ نظر نہ آئے۔‘‘

 

15. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ وَ هُوَ عَلَی الْمِنْبَرِ : ألاَ إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا يُشِيْرُ إِلَی الْمَشْرِقِ مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَ هَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ.

 

الحديث رقم 15 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : نسبة اليمن إلي إسماعيل، 3 / 1293، الرقم : 3320، و في کتاب : بدء الخلق، باب : صفة إبليس و جنوده، 3 / 1195، الرقم : 3105، و مسلم في الصحيح، کتاب : الفتن و أشراط الساعة، باب : الفتنة من المشرق من حيث يطلع قرنا الشيطان، 4 / 2229، الرقم : 2905، و مالک في الموطأ، کتاب : الاستئذان، باب : ما جاء في المشرق، 2 / 975، الرقم : 1757، و أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 73، الرقم : 5428، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 25، الرقم : 6649.

 

’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا : خبردار ہو جاؤ فتنہ ادھر ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : یہیں سے شیطان کا سینگ ظاہر ہو گا

۔‘‘ . عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرٍو رضي اﷲ عنهما قَالَ : يَأتِي عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ يَجْتَمِعُونَ وَ يُصَلُّونَ فِي الْمَسَاجِدِ وَ لَيْسَ فِيْهِمْ مُؤْمِنٌ.

 

رَوَاهُ ابْنُ أبِي شيبة وَ الْحَاکِمُ.

 

وَ قَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ عَلَی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ.

 

الحديث رقم 28 : أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 163، الرقم : 30355، 7 / 505، الرقم : 37586، و الحاکم في المستدرک، 4 / 489، الرقم : 8365، و الديلمي في الفردوس بماثور الخطاب، 5 / 441، الرقم : 8086، و أبو المحاسن في معتصر المختصر، 2 / 266، و الفريابي في صفة المنافق، 1 / 80، الرقم : 108.110.

 

’’حضرت عبد اﷲ بن عمرو رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ وہ مساجد میں جمع ہوں گے اور نمازیں ادا کریں گے لیکن ان میں سے مومن کوئی نہیں ہو گا۔‘‘

 

29. عَنْ أبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه يَقُولُ : قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ رِجَالٌ يَخْتِلُونَ الدُّنْيَا بِالدِّيْنِ يَلْبَسُونَ لِلنَّاسِ جُلُودَ الضَّأنِ مِنَ الِلّيْنِ، ألْسِنَتُهُمْ أحْلَی مِنَ السُّکْرِ (وَفِي رِوَايَةٍ : أَلْسِنَتُهُمْ أحْلَی مِنَ الْعَسَلِ) وَ قُلُوبُهُمْ قَلُوبُ الذِّءَابِ، يَقُولُ اﷲُ عزوجل : أبِي يَغْتَرُّوْنَ أمْ عَلَيَّ يَجْتَرِءُوْنَ؟ فَبِي حَلَفْتُ لَأبْعَثَنَّ عَلَی أوْلَئِکَ مِنْهُمْ فِتْنَةً تَدَعُ الْحَلِيْمَ مِنْهُمْ حَيْرَانًا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

 

وَ قَالَ أبُو عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

 

الحديث رقم 29 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الزهد عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : (59)، 4 / 604، الرقم : 2404.2405، و ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 235، الرقم : 35624، والبيهقي في شعب الإيمان، 5 / 362، الرقم : 6956، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 379، و ابن المبارک في الزهد، 1 / 17، الرقم : 50، والديلمي في الفردوس بما ثور الخطاب، 5 / 510، الرقم : 8919، والمنذري في الترغيب والترهيب، 1 / 32، الرقم : 41، و ابن هناد في الزهد، 2 / 437، الرقم : 860.

 

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آخری زمانے میں کچھ لوگ پیدا ہوں گے جو دنیا کو دین کے ذریعے حاصل کریں گے، لوگوں کے سامنے بھیڑ کی کھالوں کا نرم لباس پہنیں گے۔ ان کی زبانیں شکر سے زیادہ شیریں ہوں گی (ایک روایت میں ہے کہ شہد سے بھی زیادہ میٹھی ہوں گی) اور ان کے دل بھیڑیوں کے دل ہوں گے۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے : ’’کیا یہ لوگ مجھے دھوکہ دینا چاہتے ہیں یا مجھ پر دلیری کرتے ہیں؟ (کہ مجھ سے نہیں ڈرتے؟) مجھے اپنی (ذات کی) قسم! جو لوگ ان میں سے ہوں گے۔ میں ضرور ان پر ایسے فتنے بھیجوں گا جو ان میں سے بردبار لوگوں کو بھی حیران کر دیں گے۔‘‘

 

30. عَنْ أَبِي بَکْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : سَيَخْرُجُ قَوْمٌ أَحْدَاثٌ أَحِدَّاءُ أَشِدَّاءُ ذَلِقَةٌ أَلْسِنَتُهُمْ بِالْقُرْآنِ يَقْرَءُونَهُ لاَ يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ. فَإِذَا لَقِيْتُمُوهُمْ فَأَنِيْمُوهُمْ ثُمَّ إِذَا لَقِيْتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ فَإِنَّهُ يُؤْجَرُ قَاتِلُهُمْ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.

 

رِجَالُ أَحْمَدُ رِجَالُ الصحيح، وَ قَالَ ابْنُ أَبِي عَاصِمٍ : إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ، وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.

 

الحديث رقم 30 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 36، 44، والحاکم في المستدرک، 2 / 159، الرقم : 2645، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 456، الرقم : 937، وعبد اﷲ بن أحمد في السنة، 2 / 637، الرقم : 1519، وقال : إسناده حسن، والبيهقي في السنن الکبري، 8 / 187، والديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 2 / 322، الرقم : 3460، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 230، والحارث في المسند، (زوائد الهيثمي)، 2 / 714، الرقم : 704.

 

’’حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عنقریب نو عمر لوگ نکلیں گے جوکہ نہایت تیز طرار اور قرآن کو نہایت فصاحت و بلاغت سے پڑھنے والے ہوں گے وہ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ سو جب تم ان سے ملو تو انہیں مار دو پھر جب (ان کا کوئی دوسرا گروہ نکلے اور) تم انہیں ملو تو انہیں بھی قتل کر دو یقیناً ان کے قاتل کو اجر عطا کیا جائے گا۔‘‘

 

31. عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه : أَنَّ أَبَا بَکْرٍ رضی الله عنه جَاءَ إِلَی رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ : يَارَسُولَ اﷲِ، إِنِّي مَرَرْتُ بِوَادٍ کَذَا وَکَذَا فَإِذَا رَجُلٌ مُتَخَشِّعٌ، حَسَنُ الْهَيْئَةِ، يُصَلِّي فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : اذْهَبْ إِلَيْهِ، فَاقْتُلْهُ، قَالَ : فَذَهَبَ إِلَيْهِ أَبُوبَکْرٍ، فَلَمَّا رَآهُ عَلَی تِلْکَ الْحَالِ کَرِهَ أَنْ يَقْتُلَهُ، فَرَجَعَ إِلَی رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، قَالَ : فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم لِعُمَرَ : اذْهَبْ فَاقْتُلْهُ فَذَهَبَ عُمَرُ فَرَآهُ عَلَی تِلْکَ الْحَالِ الَّتِي رَآهُ أَبُوبَکْرٍ قَالَ : فَکَرِهَ أَنْ يَقْتُلَهُ، قَالَ : فَرَجَعَ فَقَالَ : يَارَسُولَ اﷲِ، إِنِّي رَأَيْتُهُ يُصَلِّي مُتَخَشِّعًا فَکَرِهْتُ أَنْ أَقْتُلَهُ، قَالَ : يَا عَلِيُّ اذْهَبْ فَاقْتُلْهُ، قَالَ : فَذَهَبَ عَلِيٌّ، فَلَمْ يَرَهُ فَرَجَعَ عَلِيٌّ، فَقَالَ : يَارَسُولَ اﷲِ، إِنَّهُ لَمْ يَرَهْ، قَالَ : فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ هَذَا وَأَصْحَابَهُ يَقْرَءُونَ الْقُرآنَ لاَ يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَةِ ثُمَّ لاَ يَعُودُونَ فِيْهِ حَتَّی يَعُودُ السَّّهْمُ فِي فُوقِهِ فَاقْتُلُوهُمْ هُمْ شَرُّالْبَرِيَةِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ.

 

الحديث رقم 31 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 15، الرقم : 11133، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 225، وقال : رجاله ثقات، والعسقلاني في فتح الباري، 12 / 229، وابن حزم في المحلي، 11 / 104، والشوکاني في نيل الأوطار، 7 / 351.

 

’’حضرت ابوسعيد خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا : یارسول اﷲ! میں فلاں فلاں وادی سے گزرا تو میں نے ایک نہایت متواضع ظاہراً خوبصورت دکھائی دینے والے شخص کو نماز پڑھتے دیکھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا : اس کے پاس جاکر اسے قتل کردو۔ راوی نے کہا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اس کی طرف گئے تو انہوں نے جب اسے اس حال میں (نماز پڑھتے) دیکھا تو اسے قتل کرنا مناسب نہ سمجھا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں (ویسے ہی) لوٹ آئے راوی نے کہا پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا : جاؤ اسے قتل کرو، حضرت عمر گئے اور انہوں نے بھی اسے اسی حالت میں دیکھا جیسے کہ حضرت ابوبکر نے دیکھا تھا۔ انہوں نے بھی اس کے قتل کو ناپسند کیا۔ کہا کہ وہ بھی لوٹ آئے۔ اور عرض کیا : یارسول اﷲ! میں نے اسے نہایت خشوع و خضوع سے نماز پڑھتے دیکھا تو (اس حالت میں) اسے قتل کرنا پسند نہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے علی! جاؤ اسے قتل کردو کہا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لے گئے، تو انہیں وہ نظر نہ آیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ لوٹ آئے، پھر عرض کیا : یارسول اﷲ! وہ کہیں دکھائی نہیں دیا۔ کہا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یقیناً یہ اور اس کے ساتھی قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے پھر وہ اس میں پلٹ کر نہیں آئیں گے یہاں تک کہ تیر پلٹ کر کمان میں نہ آجائے (یعنی ان کا پلٹ کر دین کی طرف لوٹنا ناممکن ہے) سو تم انہیں (جب بھی پاؤ) قتل کر دو وہ بدترین مخلوق ہیں۔‘‘

 

32. عَنْ أَبِي بَکْرَةَ رضی الله عنه : أَنَّ نَبِيَّ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مَرَّ بِرَجُلٍ سَاجِدٍ وَهُوَ يَنْطَلِقُ إِلَي الصَّلاَةِ فَقَضَي الصَّلَاةَ وَرَجَعَ عَلَيْهِ وَهُوَ سَاجِدٌ فَقَامَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ : مَنْ يَقْتُلُ هَذَا؟ فَقَامَ رَجُلٌ فَحَسَرَ عَنَ يَدَيْهِ فَاخْتَرَطَ سَيْفَهُ وَهَزَّهُ ثُمَّ قَالَ : يَانَبِيَّ اﷲِ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، کَيْفَ أَقْتُلُ رَجُلاً سَاجِدًا يَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اﷲُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ؟ ثُمَّ قَالَ : مَنْ يَقْتُلُ هَذَا؟ فَقَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ : أَنَا فَحَسَرَ عَنْ ذِرَاعَيْهِ وَاخْتَرَطَ سَيْفَهُ وَهَزَّهُ حَتَّي أَرْعَدَتْ يَدُهُ، فَقَالَ، يَانَبِيَّ اﷲِ، کَيْفَ أَقْتُلُ رَجُلاً سَاجِدًا يَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اﷲُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَوْ قَتَلْتُمُوهُ لَکَانَ أَوَّلَ فِتْنَةٍ وَآخِرَهَا.

 

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.

 

إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ وَرِجَالُهُ کُلُّهُمْ ثِقَاتٌ کَمَا قَالَ ابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَالْهَيْثَمِيُّ.

 

الحديث رقم 32 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 42، الرقم : 19536، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 457، الرقم : 938، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 225، وقال رواه أحمد والطبراني ورجال أحمد رجال الصحيح، والحارث في المسند (زوائد الهيثمي) 2 / 713، الرقم : 703، وابن رجب فيجامع العلوم والحکم 1 / 131.

 

’’حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک شخص کے پاس سے گزرے جو حالت سجدہ میں تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لئے تشریف لے جا رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز ادا کی اور اس کی طرف لوٹے اور وہ اس وقت بھی (حالتِ) سجدہ میں تھا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوگئے پھر فرمایا : کون اسے قتل کرے گا؟ تو ایک آدمی کھڑا ہوا اس نے اپنے بازو چڑھائے تلوار سونتی اور اسے لہرایا (اس کی طرف دیکھا تو اس کی ظاہری وضع و قطع کو دیکھ کر متاثر ہوگیا)۔ پھر عرض کیا : یا نبی اﷲ! میرے ماں باپ آپ پر قربان! میں کیسے اس شخص کو قتل کر دوں جو حالت سجدہ میں ہے اور گواہی دیتا ہے کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کون اسے قتل کرے گا؟ تو ایک شخص کھڑا ہوا، عرض کیا : میں، تو اس نے اپنے بازو چڑھائے اور اپنی تلوار سونتی اور اسے لہرایا (اسے قتل کرنے ہی لگا تھا) کہ اس کے ہاتھ کانپے، عرض کیا : اے اﷲ کے نبی! میں کیسے ایسے شخص کو قتل کروں جو حالت سجدہ میں گواہی دیتا ہے کہ اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور بیشک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں؟ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان ہے! اگر تم اسے قتل کردیتے تو وہ فتنہ کا اول و آخر تھا (یعنی یہ فتنہ اسی پر ختم ہو جاتا)۔‘‘

 

33. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ : کَانَ فِي عَهْدِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم رَجُلٌ يُعْجِبُنَا تَعَبُّدُهُ وَ اجْتِهَادُهُ (وَ فِي رِوَايَةٍ : حَتَّی جَعَلَ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّ لَهُ فَضْلاً عَلَيْهِمْ) قَدْ عَرَّفْنَاهُ لِرَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بِاسْمِهِ وَ وَصَّفْنَاهُ بِصِفَتِهِ فَبَيْنَمَا نَحْنُ نَذْکُرُهُ إِذْ طَلَعَ الرَّجُلُ قُلْنَا : هُوَ، هَذَا. قَالَ : إِنَّکُمْ لَتُخْبِرُوْنَ عَنْ رَجُلٍ إِنَّ عَلَی وَجْهِهِ سُفْعَةً مِنَ الشَّيْطَانِ فَأَقْبَلَ حَتَّی وَقَفَ عَلَيْهِمْ وَ لَمْ يُسَلِّمْ، فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنْشُدُکَ بِاﷲِ، هَلْ قُلْتَ فِي نَفْسِکَ حِيْنَ وَقَفْتَ عَلَی الْمَجْلِسِ مَا فِي الْقَومِ أَحَدٌ أَفْضَلُ أَوْ أَخْيَرُ مِنِّي؟ قَالَ : اللَّهُمَّ نَعَمْ، ثُمَّ دَخَلَ يُصَلِّي (وَفِي رِوَايَةٍ : ثُمَّ انْصَرَفَ فَأَتَی نَاحِيَةً مِنَ الْمَسْجِدِ فَخَطَّ خَطًّا بِرِجْلِهِ ثُمَّ صَفَّ کَعْبَيْهِ فَقَامَ يُصَلِّي) فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ يَقْتُلُ الرَّجُلَ؟ فَقَالَ أَبُوْبَکْرٍ : أَنَا فَدَخَلَ عَلَيْهِ فَوَجَدَهُ يُصَلِّي فَقَالَ : سُبْحَانَ اﷲِ أَقْتُلُ رَجُلًا يُصَلِّي؟ وَ قَدْ نَهَی رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَنْ ضَرْبِ الْمُصَلِّيْنَ فَخَرَجَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا فَعَلْتَ؟ قَالَ : کَرِهْتُ أَنْ أَقْتُلَهُ وَ هُوَ يُصَلِّي وَ قَدْ نَهَيْتَ عَنْ ضَرْبِ الْمُصَلِّيْنَ. قَالَ : مَنْ يَقْتُلُ الرَّجُلَ؟ قَالَ عُمَرُ : أَنَا، فَدَخَلَ فَوَجَدَهُ وَاضِعًا وَجْهَهُ، قَالَ عُمَرُ : أَبُوبَکْرٍ أَفْضَلُ مِنِّي، فَخَرَجَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا فَعَلْتَ؟ قَالَ : وَجَدْتُهُ وَاضِعًا وَجْهَهُﷲِ فَکَرِهْتُ أَنْ أَقْتُلَهُ. قَالَ : مَنْ يَقْتُلُ الرَّجُلَ؟ فَقَالَ عَلِيٌّ : أَنَا، قَالَ : أَنْتَ لَهُ إِنْ أَدْرَکْتَهُ. قَالَ : فَدَخَلَ عَلَيْهِ فَوَجَدَهُ قَدْ خَرَجَ فَرَجَعَ إِلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : مَا فَعَلْتَ؟ قَالَ : وَجَدْتُهُ وَ قَدْ خَرَجَ قَالَ : لَوْ قُتِلَ مَا اخْتَلَفَ فِي أُمَّتِي رَجُلَانِ کَانَ أَوَّلُهُمْ وَ آخِرُهُمْ. قَالَ مُوْسَی : سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ کَعْبٍ يَقُولُ : هُوَ الَّذِي قَتَلَهُ عَلِيٌّ رضی الله عنه ذَا الثَّدْيَةِ.

 

وَ فِي رِوَايَةٍ : فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : هَذَا أَوَّلُ قَرْنٍ مِنَ الشَّيْطَانِ طَلَعَ فِي أُمَّتِي (أَوْ أَوَّلُ قَرْنٍ طَلَعَ مِنْ أُمَّتِي) أَمَّا إِنَّکُمْ لَوْ قَتَلْتُمُوهُ مَا اخْتَلَفَ مِنْکُمْ رَجُلَانِ، إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيْلَ اخْتَلَفُوا عَلَی إِحْدَی أَوِ اثْنَتَيْنِ وَ سَبْعِيْنَ فِرْقَةً، وَ إِنَّکُمْ سَتَخْتَلِفُوْنَ مِثْلَهُمْ أَوْ أَکْثَرَ، لَيْسَ مِنْهَا صَوَابٌ إِلَّا وَاحِدَةٌ. قِيْلَ : يَا رَسُولَ اﷲِ، وَ مَا هَذِهِ الْوَاحِدَةُ؟ قَالَ : الْجَمَاعَةُ، وَ آخِرُهَا فِي النَّارِ. رَوَاهُ أَبُو يعلی وَ عَبْدُالرَّزَّاقِ وَ أَبُو نُعِيْمٍ.

 

وَ رِجَالُهُ رِجَالُ الصحيح کَمَا قَالَ الْهَيْثَمِيُّ. وَ إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ.

 

الحديث رقم 33 : أخرجه أبو يعلي في المسند، 1 / 90، الرقم : 90، 7 / 155، 168، الرقم : 4143، 4127، و عبدالرزاق في المصنف، 10 / 155، الرقم : 18674، و أبو نعيم فيحلية الأولياء، 3 / 52، و المروزي في السنة، 1 / 21، الرقم : 53، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 17 / 69، الرقم : 2499، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 226.

 

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ایک شخص تھا جس کی عبارت گزاری اور مجاہدے نے ہمیں حیرانگی میں مبتلا کیا ہوا تھا۔ (اور ایک روایت میں ہے کہ یہاں تک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام میں سے بعض اسے خود سے بھی افضل گرداننے لگے تھے) ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اس کا نام اور اس کی صفات بیان کرکے اس کا تعارف کرایا۔ ایک دفعہ ہم اس کا ذکر کر رہے تھے کہ وہ شخص آ گیا۔ ہم نے عرض کیا : وہ یہ شخص ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیشک تم جس شخص کی خبریں دیتے تھے یقیناً اس کے چہرے پر شیطانی رنگ ہے سو وہ شخص قریب آیا یہاں تک کہ ان کے پاس آ کر کھڑا ہو گیا اور اس نے سلام بھی نہیں کیا۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا : میں تجھے اللہ کی قسم دیتا ہوں (تمہیں کہ سچ بتانا) کہ جب تو مجلس کے پاس کھڑا تھا تو نے اپنے دل میں یہ نہیں کہا تھا کہ لوگوں میں مجھ سے افضل یا مجھ سے زیادہ برگزیدہ شخص کوئی نہیں؟ اس نے کہا : اللہ کی قسم! ہاں (میں نے کہا تھا)۔ پھر وہ (مسجد میں) داخل ہوا نماز پڑھنے لگا۔ (اور ایک روایت میں ہے کہ پھر وہ شخص مڑا مسجد کے صحن میں آیا، نماز کی تیاری کی، ٹانگیں سیدھی کیں اور نماز پڑھنے لگا) تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس شخص کو کون قتل کرے گا؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں کروں گا سو وہ اس کے پاس گئے تو اسے نماز پڑھتے ہوئے پایا کہنے لگے۔ سبحان اللہ میں نماز پڑھتے شخص کو (کیسے) قتل کروں؟ جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازیوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے۔ تو وہ باہر نکل گئے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے کیا کیا؟ عرض کیا : میں نے اس حالت میں کہ وہ نماز پڑھ رہا تھا اسے قتل کرنا نا پسند کیا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازیوں کو قتل کرنے سے منع کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس شخص کو کون قتل کرے گا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں کروں گا سو وہ اس کے پاس گئے تو اسے اللہ عزوجل کی بارگاہ میں چہرہ جھکائے دیکھا۔ حضرت عمر نے کہا : حضرت ابوبکر مجھ سے افضل ہیں لہٰذا وہ بھی (اسے قتل کئے بغیر) باہر نکل گئے۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے کیا کیا؟ عرض کیا : میں نے اسے اللہ تعالی کی بارگاہ میں سرجھکائے دیکھا تو (اس حالت میں) اسے قتل کرنا ناپسند کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کون اس شخص کو قتل کرے گا؟ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں کروں گا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم ہی اس کے (قتل کے) لئے ہو اگر تم نے اسے پالیا تو (تم ضرور اسے قتل کر لو گے) راوی نے بیان کیا کہ وہ اندر اس کے پاس گئے تو دیکھا کہ وہ چلا گیا تھا وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لوٹ آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے کیا کیا؟ حضرت علی نے عرض کیا : میں نے دیکھا تو وہ چلا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر وہ قتل کردیا جاتا تو میری امت میں دوآدمیوں میں بھی کبھی اختلاف نہ ہوتا وہ (فتنہ میں) ان کا اول و آخر تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بیان کیا میں نے حضرت محمد بن کعب رضی اللہ عنہ سے سنا : فرماتے ہیں : وہ وہی پستان (کے مشابہ ہاتھ) والا تھا جسے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قتل کیا تھا۔‘‘

 

اور ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ شیطان کا پہلا سینگ ہے جو میری امت میں ظاہر ہوگا (یا پہلا سینگ ہے جو میری امت میں ظاہر ہوا) جبکہ اگر تم اسے قتل کر دیتے تو تم میں سے دو آدمیوں میں کبھی اختلاف نہ ہوتا۔ بیشک بنی اسرائیل میں اختلاف سے وہ اکتہر یا بہتر فرقوں میں بٹ گئے اور تم عنقریب اتنے ہی یا اس سے بھی زیادہ فرقوں میں بٹ جاؤ گے ان میں سے کوئی راہ راست پر نہیں ہوگا سوائے ایک کے، عرض کیا گیا : یا رسول اللہ! وہ ایک فرقہ کون سا ہوگا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جماعت (سب سے بڑا گروہ) اس کے علاوہ دوسرے سب آگ میں جائیں گے۔‘‘

 

34. عَنْ طَارِقِ بْنِ زِيَادٍ قَالَ : خَرَجْنَا مَعَ عَلِيٍّ رضی الله عنه إِلَی الْخَوَارِجِ فَقَتَلَهُمْ، ثُمَّ قَالَ : انْظُرُوا فَإِنَّ نَبِيَّ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِنَّهُ سَيَخْرُجُ قَومٌ يَتَکَلَّمُونَ بِالْحَقِّ لاَ يُجَاوِزُ حَلْقَهُمْ، يَخْرُجُونَ مِنَ الْحَقِّ کَمَا يَخْرُجُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَةِ . . . الحديث. رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.

 

الحديث رقم 34 : أخرجه النسائي في السنن الکبري، 5 / 161، الرقم : 8566، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 107، الرقم : 848، وفي فضائل الصحابة، 2 / 714، الرقم : 1224، والخطيب في تاريخ بغداد، 14 / 362، الرقم : 7689، والمروزي في تعظيم قدر الصلاة، 1 / 256، الرقم : 247، والمزي في تهذيب الکمال، 13 / 338، الرقم : 2948.

 

’’حضرت طارق بن زیاد نے بیان کیا کہ ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خوارج کی طرف (ان سے جنگ کے لیے) نکلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں قتل کیا پھر فرمایا : دیکھو بیشک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عنقریب ایسے لوگ نکلیں گے کہ حق کی بات کریں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا وہ حق سے یوں نکل جائیں گے جیسے کہ تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔‘‘

 

35. عَنْ مِقْسَمٍ أَبِي الْقَاسِمِ مَوْلَی عَبْدِ اﷲِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوفَلٍ عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضی الله عنهم . . . فَذَکَرَ الحديث وَ فِيْهِ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : فَإِنَّهُ سَيَکُونُ لَهُ شِيَعَةٌ يَتَعَمَّقُونَ فِي الدِّيْنِ حَتَّی يَخْرُجُوا مِنْهُ کَمَا يَخْرُجُ السَّهْمُ مِنَ الرَّّمِيَةِ . . . وَذَکَرَ تَمَامَ الحديث.

 

رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ.

 

وَقَالَ ابْنُ أَبِي عَاصِمٍ : إِسْنَادُهُ جَيِدٌ وَ رِجَالُهُ کُلُّهُمْ ثِقَاتٌ.

 

الحديث رقم 35 : أخرجه أحمد بن حنبل في الصحيح، 2 / 219، الرقم : 7038، و ابن أبي عاصم في السنة 2 / 453. 454، الرقم : 929.930، و عبداﷲ بن أحمد في السنة، 2 / 631، الرقم : 1504، وابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 237، والعسقلاني في فتح الباري، 12 / 292، والطبري في تاريخ الأمم والملوک، 2 / 176.

 

’’عبداﷲ بن حارث بن نوفل مولی مقسم ابوالقاسم رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداﷲ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عنقریب اس کا ایک گروہ ہو گا جو دین سے (ظاہراً) بہت گہری وابستگی رکھنے والے نظر آئیں گے مگر دین سے یوں نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ ۔ ۔ پھر مکمل حدیث ذکر کی۔‘‘

 

36. عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : سَيَخْرُجُ أقْوَامٌ مِنْ أمَّتِي يَشْرَبُوْنَ الْقُرْآنَ کَشُرْبِهِمُ اللَّبَنَ.

 

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَ رِجَالُهُ ثِقَاتٌ کَمَا قَالَ الْهَيْثَمِيُّ وَ الْمَنَاوِيُّ.

 

الحديث رقم 36 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 17 / 297، الرقم : 821، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 229، و المناوي في فيض القدير، 4 / 118.

 

’’حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عنقریب میری امت میں سے ایسے لوگ نکلیں گے جو قرآن کو یوں (غٹ غٹ) پڑھیں گے گویا وہ دودھ پی رہے ہیں۔‘‘

 

37. عَنْ أنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه أنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم دَخَلَ عَامَ الْفَتْحِ وَ عَلَی رَأسِهِ الْمِغْفَرُ فَلَمَّا نَزَعَهُ جَاءَ رَجُلٌ فَقَالَ : إِنَّ ابْنَ خَطَلٍ مُتَعَلِّقٌ بِأسْتَارِ الْکَعْبَةِ فَقَالَ : اقْتُلُوْهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

 

الحديث رقم 37 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الحج، باب : دخول الحرم و مکة بغير إحرام، 2 / 655، الرقم : 1749، و في کتاب : الجهاد والسير، 3 / 1107، الرقم : 2879، و في کتاب : المغازي، باب : أين رکز النبي صلي الله عليه وآله وسلم الرأية يوم الفتح، 4 / 1561، الرقم : 4035، و مسلم في الصحيح، کتاب : الحج، باب : جواز دخول مکة بغير إحرام، 2 / 989، الرقم : 1357، و الترمذي في السنن، کتاب : الجهاد عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ماجاء في المغفر، و قال : هذا حديث حسن صحيح، 4 / 202، الرقم : 1693، و أبو داود في السنن، کتاب : الجهاد، باب : قتل الأسير ولايعرض عليه الإسلام، 3 / 60، الرقم : 2685، و النسائي في السنن، کتاب : مناسک الحج، باب : دخول مکة بغير إحرام، 5 / 200، الرقم : 2867، و في السنن الکبري، 2 / 382، الرقم : 3850، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 185، 231.232، الرقم : 12955، 13437، 13461، 13542، و ابن حبان في الصحيح، 9 / 37، الرقم : 3721، و االطحاوي في شرح معاني الآثار، 2 / 259، و الطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 29، الرقم : 9034، و ابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 140.

 

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فتح (مکہ) کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر مبارک پر لوہے کا خود تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اتارا تو ایک شخص نے آ کر عرض کیا : (یا رسول اﷲ! آپ کا گستاخ) ابنِ خطل (جان بچانے کے لئے) کعبہ کے پردوں سے لٹکا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسے قتل کر دو۔‘‘

 

38. عَنْ عُرْوَةَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ رَجُلٍ مِنْ بِلْقِيْنَ : أنَّ امْرَأةً کَانَتْ تَسُبُّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم . فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ يَکْفِيْنِي عَدُوِّي؟ فَخَرَجَ إِلَيْهَا خَالِدُ بْنُ الوليد رضی الله عنه فَقَتَلَهَا. رَوَاهُ عَبْدُالرَّزَّاقِ وَالبيهقي.

 

الحديث رقم 38 : أخرجه عبدالرزاق في المصنف، 5 / 307، الرقم : 9705، والبيهقي في السنن الکبري، 8 / 202، و ابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 140.

 

’’عروہ بن محمد نے بلقین کے کسی شخص سے روایت کی کہ ایک عورت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے دشمن سے میرا بدلہ کون لے گا؟ تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ اس کی طرف گئے اور اسے قتل کر دیا۔‘‘

 

39. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما : أنَّ رَجُلًا مِنَ الْمُشْرِکِيْنَ شَتَمَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ يَکفِيْنِي عَدُوِّي؟ فَقَالَ الزُّبَيْرُ : أنَا، فَبَارَزَهُ، فَقَتَلَهُ، فَأعْطَاهُ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم سَلَبَهُ. رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَ أبُونُعَيْمٍ.

 

الحديث رقم 39 : أخرجه عبدالرزاق في المصنف، 5 / 237، 307، الرقم : 9477، 9704، و أبو نعيم في حلية الأولياء، 8 / 45، و ابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 154.

 

’’حضرت (عبداللہ) بن عباس ر ضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ ایک مشرک شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں دیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کون میرے دشمن سے بدلہ لے گا؟ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں پھر میدان میں نکل کر اسے قتل کر دیا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مقتول کے جسم کا سامان حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو دے دیا۔‘‘

 

40. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ بَدَّلَ دِيْنَهُ فَاقْتُلُوْهُ.

 

رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَ التِّرْمِذِيُّ وَ أبُو دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَ ابْنُ ماجة وَاللَّفْظُ لَهُمَا.

 

الحديث رقم 40 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الجهاد و السير، باب : لا يعذب بعذاب اﷲ، 3 / 1098، الرقم : 2854، و الترمذي في السنن، کتاب : الحدود عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب : ماجاء في المرتد، 4 / 59، الرقم : 1458، و أبو داود في السنن، کتاب : الحدود، باب : الحکم فيمن ارتد، 4 / 126، الرقم : 4351، والنسائي في السنن، کتاب : تحريم الدم، باب : الحکم في المرتد، 7 / 103، الرقم : 4059، و ابن ماجة في السنن، کتاب : الحدود، باب : المرتد عن دينه، 2 / 848، الرقم : 2535، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 322، الرقم : 2968، و ابن حبان في الصحيح، 10 / 327، الرقم : 4475.

 

’’حضرت (عبداللہ) بن عباس رضی اﷲ عنھما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو (مسلمان) اپنا دین بدل لے (یعنی اس سے پھر جائے) اسے قتل کر دو۔‘‘

 

41. عَنْ عَبْدِالْمَلِکِ عَنْ أبِي حُرَّةِ : أنَّ عَلِيًّا رضی الله عنه لَمَّا بَعَثَ أبَا مُوْسَي ِلإنْفَاذِ الْحَکُومَةِ، اجْتَمَعَ الْخَوَارِجُ فِي مَنْزِلِ عَبْدِ اﷲِ بْنِ وَهَبِ الرَّاسِبِيِّ مِنْ رُؤُوْسِ الْخَوَارِجٍ، فَخَطَبَهُمْ خُطْبَةً بَلِيْغَةً زَهَّدَهُمْ فِي هَذِهِ الدُّنْيَا وَ رَغَّبَهُمْ فِي الْآخِرَةِ وَالْجَنَّةِ وَ حَثَّهُمْ عَلَی الْأمْرِ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّهْيِ عَنِ الْمُنْکَرِ ثُمَّ قَالَ : فَاخْرُجُوا بِنَا إِخْوَانِنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أهْلُهَا إِلَی جَانِبِ هَذَا السَّوَادِ إِلَی بَعْضِ کُوَرِ الْجِبَالِ أوْ بَعْضِ هَذِهِ الْمَدَائِنِ مُنْکَرِيْنَ لِهَذِهِ الْبِدَعٍ الْمُضِلَّةِ. . . ثُمَّ اجْتَمَعُوا فِي مَنْزِلِ شُرَيْحِ بْنِ أوْفَی الْعَبَسِيِّ فَقَالَ ابْنُ وَهَبٍ : اشْخَصُوا بِنَا إِلَی بَلَدَةٍ نَجْتَمِعُ فِيْهَاِلإِنْفَاذِ حُکْمِ اﷲِ فَإِنَّکُمْ أهْلُ الْحَقِّ. رَوَاهُ ابْنُ جَرِيْرٍ وَابْنُ الْأثِيْرِ وَابْنُ کَثِيْرٍ.

 

الحديث رقم 41 : أخرجه ابن جرير الطبري في تاريخ الأمم والملوک، 3 / 115، وابن الأثير في الکامل، 3 / 213. 214، وابن کثير في البداية والنهاية، 7 / 285.286 وابن الجوزي في المنتظم في تاريخ الملوک والأمم، (حتي 257ه)، 5 / 130.131.

 

’’عبدالملک نے ابوحرہ سے روایت بیان کی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو موسیٰ (اشعری رضی اللہ عنہ) کو (اپنا گورنر بنا کر) نفاذ حکومت کے لئے بھیجا تو خوارج عبداللہ بن وھب راسبی (خارجی سردار) کے گھر میں جمع ہوئے اور اس نے انہیں بلیغ خطبہ دیا جس میں اس نے انہیں اس دنیا سے بے رغبتی اور آخرت اور جنت کی رغبت دلائی اور انہیں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر ابھارا۔ پھر کہا : ہمارے لئے ضروری ہے ہم پہاڑوں یا دوسرے شہروں کی طرف نکل جائیں تاکہ ان گمراہ کرنے والی بدعتوں سے ہمارا انکار ثابت ہوجائے۔ ۔ ۔ پھر سب شریح بن ابی اوفی عبسی کے گھر جمع ہوئے تو ابن وھب نے کہا : اب کوئی شہر ایسا دیکھنا چاہئے کہ (اسے اپنا مرکز بناکر) ہم سب اسی میں جمع ہوں اور اللہ تعالیٰ کا حکم جاری کریں۔ کیونکہ اہلِ حق اب تم ہی لوگ ہو۔‘‘

 

42. ذکر ابن الأثير في الکامل : خَرَجَ الْأشْعَثُ بِالْکِتَابِ يَقْرَؤُهُ عَلَي النَّاسِ حَتَّي مَرَّ عَلَي طَائِفَةٍ مِنْ بَنِي تَمِيْمٍ فِيْهِمْ عُرْوَةُ بْنِ أدَيَةِ أخُو أبِي بِلَالٍ فَقَرَأ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ عُرْوَةُ : تَحَکَّمُونَ فِي أمْرِ اﷲِ الرِّجَالُ؟ لَا حُکْمَ إِلَّا لِلّٰهِ.

 

الحديث رقم 42 : أخرجه ابن الأثير في الکامل، 3 / 196، و ابن الجوزي في المنتظم في تاريخ الملوک والأمم (حتي 257ه)، 5 / 123.

 

’’امام ابن اثیر نے ’’الکامل‘‘ میں بیان کیا : ’’اشعث بن قیس نے اس عہدنامہ کو (جو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان ہوا تھا) لے کر ہر ہر قبیلہ میں لوگوں کو سنانا شروع کیا۔ جب قبیلہ بنی تمیم میں پہنچے تو عروہ بن اُدیہ (خارجی) جو ابوبلال کا بھائی تھا بھی ان میں تھا جب اس نے وہ معاہدہ انہیں سنایا تو عروہ (خارجی) کہنے لگا : اللہ کے امر میں آدمیوں کو حَکم بناتے ہو؟ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی حُکم نہیں کر سکتا۔‘‘

 

43. عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه أنَّهُ کَتَبَ إِلَی الْخَوَارِجِ بِالنَّهْرِ : بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ، مِنْ عَبْدِ اﷲِ عَلِيٍّ أمِيْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ إِلَی زَيْدِ بْنِ حُصَينٍ وَ عَبْدِ اﷲِ بْنِ وَهَبٍ وَ مَنْ مَعَهُمَا مِنَ النَّاسِ. أمَّا بَعْدُ فَإِنَّ هَذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ اللَّذَيْنِ ارْتَضَيْنَا حَکَمَينِ قَدْ خَالَفَا کِتَابَ اﷲِ وَاتَّبَعَا هَوَاهُمَا بِغَيْرِ هُدًی مِنَ اﷲِ فَلَمْ يَعْمَلَا بِالسنة وَلَمْ يُنْفَذَا الْقُرْآنَ حُکْمًا فَبَرِی ءَ اﷲُ مِنْهُمَا وَ رَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ، فَإِذَا بَلَغَکُمْ کِتَابِي هَذَا فَأقْبِلُوا إِلَيْنَا فَإِنَّا سَائِرُونَ إِلَی عَدُوِّنَا وَ عَدُوِّکُمْ وَ نَحْنُ عَلَی الْأمْرِ الْأوَّلِ الَّذِي کُنَّا عَلَيْهِ.

 

فَکَتَبُوا (الخوارج) إِلَيْهِ : أمَّا بَعْدُ فَإِنَّکَ لَمْ تَغْضَبْ لِرَبِّکَ وَ إِنَّمَا غَضِبْتَ لِنَفْسِکَ فَإِنْ شَهِدْتَ عَلَی نَفْسِکَ بِالْکُفْرِ وَاسْتَقْبَلْتَ التَّوْبَةَ نَظَرْنَا فِيْمَا بِيْنَنَا وَ بَيْنَکَ وَ إِلَّا فَقَدْ نَبَذْنَاکَ عَلَی سَوَاءٍ، إِنَّ اﷲَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِيْنَ.

 

فَلَمَّا قَرَأ کِتَابَهُمْ أيِسَ مِنْهُمْ وَرَأی أنْ يَدَعَهُمْ وَ يَمْضِيَ بِالنَّاسِ حَتَّی يَلْقَی أهْلَ الشَّامِ حَتَّی يَلْقَاهُمْ.

 

رَوَاهُ ابْنُ جَرِيْرٍ وَالإِبْنُ الْأثِيْرِ وَابْنُ کَثِيْرٍ.

 

الحديث رقم 43 : أخرجه ابن جرير الطبري في تاريخ الأمم والملوک، 3 / 117، وابن الأثير في الکامل، 3 / 216، وابن کثير في البداية والنهاية، 7 / 287، و ابن الجوزي في المنتظم، 5 / 132.

 

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے خوارج کو نہروان سے خط لکھا : ’’اللہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے : اللہ کے بندے امیر المؤمنین علی کی طرف سے زید بن حصین اور عبداللہ بن وھب اور ان کے پیروکاروں کے لئے۔ واضح ہو کہ یہ دو شخص جن کے فیصلہ پر ہم راضی ہوئے تھے انہوں نے کتاب اللہ کے خلاف کیا اور اللہ کی ہدایت کے بغیر اپنی خواہشات کی پیروی کی۔ جب انہوں نے قرآن و سنت پر عمل نہیں کیا تو اللہ اور اللہ کا رسول اور سب اہل ایمان ان سے بری ہوگئے۔ تم لوگ اس خط کو دیکھتے ہی ہماری طرف چلے آؤ تاکہ ہم اپنے اور تمہارے دشمن کی طرف نکلیں اور ہم اب بھی اپنی اسی پہلی بات پر ہیں۔

 

اس خط کے جواب میں انہوں نے (یعنی خوارج نے) حضرت علی رضی اللہ عنہ کو لکھا : ’’واضح ہو کہ اب تمہارا غضب اللہ کے لئے نہیں ہے اس میں نفسانیت شریک ہے اب اگر تم اپنے کفر پر گواہ ہو جاؤ (یعنی کافر ہونے کا اقرار کر لو) اور نئے سرے سے توبہ کرتے ہو تو دیکھا جائے گا ورنہ ہم نے تمہیں دور کردیا کیونکہ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔

 

سو جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کا جوابی خط پڑھا تو ان کی طرف سے (ہدایت کی طرف لوٹنے سے) مایوس ہوگئے لہٰذا انہیں ان کے حال پر چھوڑنے کا فیصلہ کرکے اپنے لشکر کے ساتھ اہل شام سے جا ملے۔‘‘

 

44. عَنْ زِيَادِ بْنِ أبِيْهِ أنَّ عُرْوَةً بْنَ حُدَيْرٍ (الخارجي) نَجَا بَعْدَ ذَلِکَ مِنْ حَرْبِ النَّهَرْوَانِ وَ بَقِيَ إِلَی أيَامِ مُعَاوِيَةَ رضی الله عنهم. ثُمَّ أتَی إِلَی زِيَادِ بْنِ أبِيْهِ وَ مَعَهُ مَولَی لَهُ، فَسَألَهُ زِيَادُ عَنْ عُثْمَانَ رضي اﷲ عنه، فَقَالَ : کُنْتُ أوَالِيَ عُثْمَانَ عَلَی أحْوَالِهِ فِي خِلَافَتِهِ سِتَّ سِنِيْنَ. ثُمَّ تَبَرَأتُ مِنْهُ بِعْدَ ذَلِکَ لِلْأحْدَاثِ الَّتِي أحْدَثَهَا، وَ شَهِدَ عَلَيْهِ بِالْکُفْرِ. وَسَألَهُ عَنْ أمِيْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلِيِّ رضی الله عنه فَقَالَ : کُنْتُ أتَوَلَّاهُ إِلَی أنْ حَکَمَ الْحَاکِمِيْنَ، ثُمَّ تَبَرَأتُ مِنْهُ بَعْدَ ذَلِکَ، وَ شَهِدَ عَلَيْهِ بِالْکُفْرِ وَسَألَهُ عَنْ مُعَاوِيَةَ رضی الله عنه فَسَبَّهُ سَبًّا قَبِيْحًا. . . فَأمَرَ زِيَادُ بِضَرْبِ عُنُقِهِ. رَوَاهُ الشَّهَرَسْتَانِيُّ.

 

الحديث رقم 44 : أخرجه عبدالکريم الشهرستاني في الملل والنحل، 1 / 137.

 

’’زیاد بن امیہ سے مروی ہے کہ عروہ بن حدیر (خارجی) نہروان کی جنگ سے بچ گیا اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور تک زندہ رہا پھر وہ زیاد بن ابیہ کے پاس لایا گیا اس کے ساتھ اس کا غلام بھی تھا تو زیاد نے اس سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا حال دریافت کیا؟ اس نے کہا : ابتدا میں چھ سال تک ان کو میں بہت دوست رکھتا تھا پھر جب انہوں نے بدعتیں شروع کیں تو ان سے علیحدہ ہو گیا اس لئے کہ وہ آخر میں (نعوذ باﷲ) کافر ہوگئے تھے۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حال پوچھا؟ کہا : وہ بھی اوائل میں اچھے تھے جب حکم بنایا (نعوذ باﷲ) کافر ہوگئے۔ اس لئے ان سے بھی علیحدہ ہوگیا۔ پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا حال دریافت کیا؟ تو انہیں اس نے سخت گالیاں دیں۔ ۔ ۔ پھر زیاد نے اسکی گردن مارنے کا حکم دے دیا۔‘‘

 

45. عَنْ أبِي الطُّفَيْلِ : أنَّ رَجُلًا وُلِدَ لَهُ غُلَامٌ عَلَی عَهْدِ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَأتَی النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَأخَذَ بِبَشَرَةِ وَجْهِهِ وَ دَعَا لَهُ بِالْبَرَکَةِ قَالَ : فَنَبتَتْ شَعَرَةٌ فِي جَبْهَتِهِ کَهَيْئَةِ الْقَوسِ وَ شَبَّ الْغُلَامُ فَلَمَّا کَانَ زَمَنَ الْخَوَارِجِ أحَبَّهُمْ فَسَقَطَتِ الشَّعَرَةُ عَنْ جَبْهَتِهِ فَأخَذَهُ أبُوهُ فَقَيَدَهُ وَ حَسَبَهُ مَخَافَةَ أنْ يَلْحَقَ بِهِمْ قَالَ : فَدَخَلْنَا عَلَيْهِ فَوَعَظْنَاهُ وَ قُلْنَا لَهُ فِيْمَا نَقُولُ ألَمْ تَرَ أنَّ بَرَکَةَ دَعْوَةِ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَدْ وَقَعَتْ عَنْ جَبْهَتِکَ فَمَا زِلْنَا بِهِ حَتَّی رَجَعَ عَنْ رَأيِهِمْ فَرَدَّ اﷲُ عَلَيْهِ الشَّعَرَةَ بَعْدُ فِي جَبْهَتِهِ وَ تَابَ.

 

رَوَاهُ أحْمَدُ وَابْنُ أبِي شيبة.

 

الحديث رقم 45 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 456، الرقم : 23856، و ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 556، الرقم : 37904، والأصبهاني في دلائل النبوة، 1 / 174، الرقم : 220، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 243، 10 / 275، وقال : رواه أحمد والطبراني ورجاله رجال علي ابن زيد وقد وثق، والعسقلاني في الإصابة، 5 / 359، الرقم : 6972.

 

’’ابو طفیل سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں ایک لڑکا پیدا ہوا وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں لایا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اس کے چہرے سے پکڑا اور اسے دعا دی اور اس کا یہ اثر ہوا کہ اس کی پیشانی پر خاص طور پر بال اگے جو تمام بالوں سے ممتاز تھے وہ لڑکا جوان ہوا اور خوارج کا زمانہ آیا تو اسے ان سے محبت ہو گئی (یعنی خوارج کا گرویدہ ہو گیا) اسی وقت وہ بال جو دست مبارک کا اثر تھے جھڑ گئے اس کے باپ نے جو یہ حال دیکھا اسے قید کر دیا کہ کہیں ان میں مل نہ جائے۔ ابو طفیل کہتے ہیں کہ ہم لوگ اس کے پاس گئے اور وعظ و نصیحت کی اور کہا دیکھو تم جب ان لوگوں کی طرف مائل ہوئے ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا کی برکت تمہاری پیشانی سے جاتی رہی غرض جب تک اس شخص نے ان کی رائے سے رجوع نہ کیا ہم اس کے پاس سے ہٹے نہیں پھر جب خوارج کی محبت اس کے دل سے نکل گئی تو اللہ تعالیٰ نے دوبارہ اس کی پیشانی میں وہ مبارک بال لوٹا دیئے پھر تو اس نے ان کے عقائد سے توبہ کی۔‘‘

 

46. عَنْ سَعِيْدِ بْنِ جُهْمَانٍ قَالَ : کَانَتِ الْخَوَارِجُ قَدْ تَدْعُوْنِي حَتَّی کِدْتُ انْ ادْخُلَ فِيْهِمْ، فَرَاتْ اخْتُ ابِي بِلاَلٍ فِي النَّوْمِ انَّ ابَا بِلاَلٍ کَلْبٌ اهْلَبُ اسْوَدُ عَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ. فَقَالَتْ : بِابِي انْتَ يَا ابَا بِلَالٍ مَا شَانُکَ ارَاکَ هَکَذَا؟ وَ کَانَ ابُو بِلاَلٍ مِنْ رُؤُوسِ الْخَوَارِجِ.

 

رَوَاهُ ابْنُ ابِي شَيْبَةَ وَ ابْنُ ابِي عَاصِمٍ وَاللَّفْظُ لَهُ اسْنَادُهُ صَحِيْحٌ.

 

الحديث رقم 46 : اخرجه ابن ابي شيبة في المصنف، 7 / 555، الرقم : 37895، و عبد اﷲ بن احمد في السنة، 2 / 634، الرقم : 1509.

 

’’سعید بن جہمان سے مروی ہے بیان کیا کہ خوارج مجھے (اپنی طرف) دعوت دیا کرتے تھے (سو اس سے متاثر ہوکر) قریب تھا کہ میں ان کے ساتھ شامل ہو جاتا کہ ابو بلال کی بہن نے خواب میں دیکھا کہ ابو بلال کالے لمبے بالوں والے کتوں کی شکل میں ہے اس کی آنکھیں بہہ رہی تھیں۔ بیان کیا کہ اس نے کہا : اے ابو بلال میرا باپ آپ پر قربان کیا وجہ ہے کہ میں تمہیں اس حال میں دیکھ رہی ہوں؟ اس نے کہا ہم لوگ تمہارے بعد دوزخ کے کتے بنا دیئے گئے ہیں وہ ابو بلال خارجیوں کے سرداروں میں سے تھا۔‘‘

 

47. عَنْ ابِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ : سَالَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي يَرْبُوعٍ، اوْ مِنْ بَنِي تَمِيْمٍ. عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضی الله عنه عَنِ (الذَّارِيَاتِ وَالْمُرْسَلَاتِ وَالنَّازِعَاتِ) اوْ عَنْ بَعْضِهِنَّ، فَقَالَ عُمَرُ : ضَعْ عَنْ رَاسِکَ، فَاذَا لَهُ وَفْرَةٌ، فَقَالَ عُمَرُ رضی الله عنه : امَا وَاﷲِ لَوْ رَايْتُکَ مَحْلُوقًا لَضَرَبْتُ الَّذِي فِيْهِ عَيْنَاکَ، ثُمَّ قَالَ : ثُمَّ کَتَبَ الَی اهْلِ الْبَصْرَةِ اوْ قَالَ الَيْنَا. انْ لَا تُجَالِسُوهُ، قَالَ : فَلَوْ جَاءَ وَ نَحْنُ مِاءَةٌ تَفَرَّقْنَا.

 

رَوَاهُ سَعِيْدُ بْنُ يَحْيَی الْامْوِيُّ وَغَيْرُهُ بِاسْنَادٍ صَحِيْحٍ کَمَا قَالَ ابْنُ تَيْمِيَةَ.

 

الحديث رقم 47 : أخرجه ابن تيمية في الصارم المسلول، 1 / 195.

 

’’حضرت ابو عثمان نہدی بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ بنی یربوع یا بنی تمیم کے ایک آدمی نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ’الزَّارِيَاتِ وَالْمُرْسَلَاتِ وَالنَّازِعَاتِ‘ کے کیا معنی ہیں؟ یا ان میں سے کسی ایک کے بارے میں پوچھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اپنے سر سے کپڑا اتارو، جب دیکھا تو اس کے بال کانوں تک لمبے تھے۔ فرمایا : بخدا! اگر میں تمہیں سر منڈا ہوا پاتا تو تمہارا یہ سر اڑا دیتا جس میں تمہاری آنکھیں دھنسی ہوئی ہیں۔ شعبی کہتے ہیں پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اھل بصرہ کے نام خط لکھا یا کہا کہ ہمیں خط لکھا جس میں تحریر کیا کہ ایسے شخص کے پاس نہ بیٹھا کرو۔ راوی کہتا ہے کہ جب وہ آتا، ہماری تعداد ایک سو بھی ہوتی تو بھی ہم الگ الگ ہوجاتے تھے۔‘‘

 

48. عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيْدَ : قَالَ : فَبَيْنَمَا عُمَرُ رضی الله عنه ذَاتَ يَوْمٍ جَالِسًا يُغَدِّي النّاسَ اذَا جَاءَ رَجُلٌ عَلَيْهِ ثِيَابٌ وَ عِمَامَةٌ فَتَغَدَّی حَتَّی اذَا فَرَغَ قَالَ : يَا امِيْرَ المُؤْمِنِيْنَ، (وَالذَّارِيَاتِ ذَرْوًا فَالْحَامِلَاتِ وِقْرًا) فَقَالَ عُمَرُ رضی الله عنه : انْتَ هُوَ فَقَامَ الَيْهِ وَ حَسَرَ عَنْ ذِرَاعَيْهِ فَلَمْ يَزَلْ يَجْلِدُهُ حَتَّی سَقَطَتْ عِمَامَتُهُ، فَقَالَ : وَالَّذِي نَفْسُ عُمَرُ بِيَدِهِ، لَوْ وَجَدْتُکَ مَحْلُوقًا لَضَرَبْتُ رَاسَکَ. رَوَاهُ الامَامُ أَبُوالْقَاسِمِ هِبَةُ اﷲِ الْلاَلکَائِيُّ.

 

الحديث رقم 48 : أخرجه هبة اﷲ الالکائي في اعتقاد اهل السنة، 4 / 634، الرقم : 1136، والشوکاني في نيل الاوطار، 1 / 155، والعظيم آبادي في عون المعبود، 11 / 166، و ابن قدامة في المغني، 1 / 65، 9 / 8.

 

’’حضرت سائب بن یزید نے بیان کیا کہ ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ لوگوں کے ساتھ بیٹھے دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے اسی اثنا میں ایک شخص آیا اس نے (اعلیٰ) کپڑے پہن رکھے تھے اور عمامہ باندھا ہوا تھا تو اس نے بھی دوپہر کا کھانا کھایا جب فارغ ہوا تو کہا : اے امیر المومنین (وَالزَّارِيَاتِ ذَرْوًا فَالْحَامِلَاتِ وِقْرًا) کا کیا معنی ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تو وہی (گستاخِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ہے۔ پھر اس کی طرف بڑھے اور اپنے بازو چڑھا کر اسے اتنے کوڑے مارے یہاں تک کہ اس کا عمامہ گرگیا۔ پھر فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! اگر میں تجھے سر منڈا ہوا پاتا تو تیرا سر کاٹ دیتا۔‘‘

 

49. عَنْ ابِي يَحْيَی قَالَ : سَمِعَ رَجُلًا مِنَ الْخَوَارِجِ وَ هُوَ يُصَلِّي صَلَاةَ الْفَجْرِ يَقُولُ : (وَلَقَدْ اوْحِيَ الَيْکَ وَالَی الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِکَ لَءِنْ اشْرَکْتَ لَيَحْبِطَنَّ عَمَلُکَ وَ لَتَکُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِيْنَ)،(الزمر، 39 : 65)، قَالَ فَتَرَکَ سُورَتَهُ الَّتِي کَانَتْ فِيْهَا قَالَ : وَ قَرَا (فَاصْبِرْ انَّ وَعْدَ اﷲِ حَقٌّ وَلَا يَسْتَخِفَّنَّکَ الَّذِيْنَ لَا يُوقِنُونَ)، (الروم، 30 : 60).

 

رَوَاهُ ابْنُ ابِي شَيْبَةَ.

 

الحديث رقم 49 : اخرجه ابن ابي شيبة في المصنف، 7 / 554، الرقم : 37891.

 

’’ابو یحییٰ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ ایک خارجی نے صبح کی نماز میں یہ آیت پڑھی ’’اور فی الحقیقت آپ کی طرف (یہ) وحی کی گئی ہے اور اُن (پیغمبروں) کی طرف (بھی) جو آپ سے پہلے (مبعوث ہوئے) تھے کہ ( اے انسان!) اگر تُو نے شرک کیا تو یقیناً تیرا عمل برباد ہو جائے گا اور تُو ضرور نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا‘‘ مزید بیان کیا : پھر اس سورت کو چھوڑ کر اس نے دوسری سورت کی یہ آیت پڑھ ڈالی ’’پس آپ صبر کیجئے، بیشک اﷲ کا وعدہ سچا ہے، جو لوگ یقین نہیں رکھتے کہیں آپ کو کمزور ہی نہ کر دیں۔ (خوارج ان آیات قرآنی کو چن چن کر نماز میں پڑھتے تھے جن سے بزعم خویش ان بدبختوں کے معاذ اﷲ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تنقیص شان کا کوئی شائبہ پیدا ہوتا تھا۔ یہ ان کی گستاخانہ سوچ اور بدبختی تھی)۔‘‘

Edited by Umm-e-Anwaar Raza
Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...