Jump to content

القَوْلُ الصَّوَابُ فِي مَنَاقِبِ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ رضي الله عنه


NAJAMMIRANI

تجویز کردہ جواب

ابٌ فِيْمَا يَتَعَلَّقُ بِإِسْلَامِه رضي اﷲ عنه

 

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کا بیان1. عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : أللَّهُمَّ أعِزَّ الْإِسْلَامَ بِأَحَبِّ هٰذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ إِلَيْکَ بِأَبِيْ جَهْلٍ أوْ بِعُمَرَ ابْنِ الْخَطَّابِ قَالَ : وَکَانَ أحَبَّهُمَا إِلَيْهِ عُمَرُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

 

وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

 

’’حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی : اے اﷲ! تو ابو جہل یا عمر بن خطاب دونوں میں سے اپنے ایک پسندیدہ بندے کے ذریعے اسلام کو غلبہ اور عزت عطا فرما۔ راوی کہتے ہیں کہ ان دونوں میں اﷲ کو محبوب حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے (جن کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا قبول ہوئی اور آپ مشرف بہ اسلام ہوئے)۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 1 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 617، الحديث رقم : 3681، و أحمد بن حنبل فی المسند، 2 / 95، الحديث رقم : 5696، و ابن حبان فی الصحيح، 15 / 305، الحديث رقم : 6881، و الحاکم في المستدرک، 3 / 574، الحديث رقم : 6129، و البزار في المسند، 6 / 57، الحديث رقم : 2119، و عبد بن حميد في المسند، 1 / 245، الحديث رقم : 759.

 

2. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : أللَّهُمَّ أعِزَّ الْإِسْلَامَ بِأبِيْ جَهْلِ بْنِ هَشَّامٍ أوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ : فَأصْبَحَ فَغَدَا عُمَرُ عَلٰی رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَأسْلَمَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

 

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی : اے اﷲ! ابو جہل بن ہشام یا عمر بن خطاب دونوں میں سے کسی ایک کے ذریعے اسلام کو غلبہ و عزت عطا فرما، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اگلے دن علی الصبح حاضر ہوئے اور مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 2 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 618، الحديث رقم : 3683، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 249، الحديث رقم : 311، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 61، .

 

3. عَنِ ابْنِ عَبَاسٍ رضي اﷲ عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ قَالَ أللَّهُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلاَمَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ

 

وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ الإِسْنَادِ.

 

’’حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی : اے اللہ! عمر بن الخطاب کے ذریعے اسلام کو عزت عطا فرما۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 3 : أخرجه الحاکم فی المستدرک علی الصحيحين، 3 / 89، الحديث رقم : 4484، و الطبرانی فی المعجم الکبير، 2 / 97، الحديث رقم : 1428.

 

4. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : لَمَّا أَسْلَمَ عُمَرُ نَزَلَ جِبْرِيْلُ فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ! لَقَدْ إِسْتَبْشَرَ أَهْلُ السَّمَاءِ بِإِسْلَامِ عُمَرَ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ

 

’’حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایمان لائے تو جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوئے اور کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! تحقیق اہلِ آسمان نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے پر خوشی منائی ہے (اور مبارکبادیاں دی ہیں)۔ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 4 : أخرجه ابن ماجة في السنن، 1 / 38، في المقدمة، باب فضل عمر، الحديث رقم : 103، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 307، الحديث رقم : 6883، و الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 80، الحديث رقم : 11109، و الهيثمي في موارد الظمان، 1 / 535، الحديث رقم : 2182.

 

5. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : لَمَّا أسْلَمَ عُمَرُ أَتَانِي جِبْرِيْلُ فَقَالَ : قَدِ اسْتَبْشَرَ أَهْلُ السَّمَاءِ بِإِسْلَامِ عُمَرَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ

 

وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثُ صَحِيْحُ

 

’’حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب عمر مشرف بہ اسلام ہوئے تواہل آسمان نے ان کے اسلام لانے پر خوشیاں منائیں۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث صحیح ہے۔

 

الحديث رقم 5 : أخرجه الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 90، الحديث رقم : 4491، و المناوي في فيض القدير، 5 / 299.

 

6. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : لَمَّا أَسْلَمَ عمر رضي الله عنه قَالَ الْمُشْرِکُوْنَ : ألْيَوْمَ قَدِ انْتَصَفَ الْقَوْمُ مِنَّا، رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْطَّبَرَانِيُّ فِيْ الْمُعَجَمِ الکبير.

 

وَ قَالَ الْحَاکِمُ : صَحِيْحٌ الإِسْنَادِ.

 

’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو مشرکین نے کہا آج کے دن ہماری قوم دو حصوں میں بٹ گئی ہے (اور آدھی رہ گئی ہے)۔ اس حدیث کو امام حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے، امام حاکم نے کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 6 : أخرجه الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 91، الحديث رقم : 4494، والطبراني في المعجم الکبير، 11 / 255، الحديث رقم : 11659، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 248، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 62.

 

7. عَنْ عَبْدِاللّٰهِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ضَرَبَ صَدْرَ عُمَرَبنِ الْخَطَّابِ بَيْدِهِ حِيْنَ أسْلَمَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ وَ هُوَ يَقُوْلُ : أللَّهُمَّ أَخْرِجْ مَا فِيْ صَدْرِه مِنْ غِلٍّ وَ أَبْدِلْهُ إِيْمَانًا يَقُوْلُ ذٰلِکَ ثَلاَثاً رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الکبير وَ الأوْسَطِ.

 

وَ قَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ مُسْتَقِيْمُ الْإِسْنَادِ

 

’’حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب اسلام لائے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سینے پر تین دفعہ اپنا دست اقدس مارا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرما رہے تھے۔ اے اﷲ! عمر کے سینے میں جو غل (سابقہ عداوت کا اثر) ہے اس کو نکال دے اور اس کی جگہ ایمان ڈال دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کلمات تین مرتبہ دہرائے۔ اس حدیث کو امام حاکم نے مستدرک میں اور طبرانی نے المعجم الکبير اور المعجم الاوسط میں روایت کیا ہے اور امام حاکم نے کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 7 : أخرجه الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 91، الحديث رقم : 4492، والطبراني في المعجم الاوسط، 2 / 20، الحديث رقم : 1096، والطبراني في المعجم الکبير، 12 / 305، الحديث رقم : 13191، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 65.

 

8. عَنْ عَبْدِاللّٰهِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ : إِنْ کَانَ إِسْلَامُ عُمَرَ لَفَتْحًا، ، وَ إِمَارَتُهُ لَرَحْمَةً وَاﷲِ مَا اسْتَطَعْنَا أَنْ نُّصَلِّيَ بِالْبَيْتِ حَتَّي أَسْلَمَ عُمَرُ، فَلَمَّا أسْلَمَ قَابَلَهُمْ حَتَّي دَعُوْنَا فَصَلَّيْنَا. رَوَاهُ الطَّبْرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الکبير.

 

’’حضرت عبد اﷲ ابن مسعود رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ بے شک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام (ہمارے لئے) ایک فتح تھی اور ان کی امارت ایک رحمت تھی، خدا کی قسم ہم بیت اللہ میں نماز پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے، یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے۔ پس جب وہ اسلام لائے تو آپ نے مشرکینِ مکہ کا سامنا کیا یہاں تک کہ انہوں نے ہمیں چھوڑ دیا تب ہم نے خانہ کعبہ میں نماز پڑھی۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا۔‘‘

 

الحديث رقم 8 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 9 / 165، الحديث رقم : 8820، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 62.

 

9. عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : لَمَّا أسْلَمَ عُمَرُ قَالَ : مَنْ أَنَمُّ النَّاسِ؟ قَالُوْا : فُلاَنٌ قَالَ : فَأَتَاهُ، فَقَالَ : إِنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ فَلاَ تُخْبِرَنَّ أَحَدًا قَالَ : فَخَرَجَ يَجُرُّ إِزَارَهُ وَ طَرَفُهُ عَلَي عَاتِقِهِ فَقَالَ : أَلاَ إِنَّ عُمَرَ قَدْ صَبَا قَالَ : وَ أَنَا أَقُوْلُ : کَذَبْتَ وَ لَکِنِّيْ أَسْلَمْتُ وَعَلَيْهِ قَمِيْصٌ فَقَامَ إِلَيْهِ خَلْقٌ مِنْ قُرِيْشٍ فَقَاتَلُوْهُ فَقَاتَلَهُمْ حَتَّي سَقَطَ وَ أکَبُّوْا عَلَيْهِ فَجَائَ رَجُلٌ عَلَيْهِ قَمِيْصٌ، فَقَالَ : مَا لَکُمْ وَ لِلْرَجُلِ أتَرَوْنَ بَنيِ عُدَيٍّ بْنِ کَعْبٍ يُخَلُّوْنَ عَنْکُمْ وَعَنْ صَاحِبِهِمْ؟ تَقْتُلُوْنَ رَجُلاً إِخْتَارَ لِنَفْسِهِ إِتِّبَاعَ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ فَتَکَشَّفَ الْقَوْمُ عَنْهُ. قَالَ ابْنُ عُمَرَ : فَقُلْتُ لِأَبِي : مَنِ الرَّجُلُ؟ قَالَ : الْعَاصُ بْنُ وَاِئلٍ السَّهْمِيُّ. رَوَاهُ الْبَزَّارًُ.

 

’’حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ اسلام لائے تو انہوں نے کہا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ چغل خور کون ہے؟ لوگوں نے کہا کہ فلاں۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کے پاس تشریف لائے اور کہا تحقیق میں اسلام لے آیا ہوں پس تو کسی کو اس بارے نہ بتانا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد وہ شخص اپنا تہہ بند جس کا ایک کنارا اس کے کندھے پر تھا گھسیٹتے ہوئے باہر نکلا اور کہنے لگا آگاہ ہو جاؤ! عمر اپنے دین سے پھر گیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں تو جھوٹ بولتا ہے میں اسلام لے آیا ہوں۔ اسی اثنا میں قریش کا ایک گروہ آپ کی طرف بڑھا اور آپ سے قتال کرنے لگا، آپ رضی اللہ عنہ نے بھی ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا یہاں تک کہ آپ گر گئے اور کفار مکہ آپ رضی اللہ عنہ پر ٹوٹ پڑے۔ اتنے میں ایک آدمی آیا جس نے قمیض پہن رکھی تھی اور کہنے لگا تمہارا ا س آدمی کے ساتھ کیا معاملہ ہے؟ کیا تم اس آدمی کو قتل کرنا چاہتے ہو جس نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع اختیار کی ہے۔ تم کیا سمجھتے ہو کہ عدی بن کعب کے بیٹے تمہیں اپنے صاحب کے معاملہ میں ایسے ہی چھوڑ دیں گے۔ سو لوگ آپ رضی اللہ عنہ سے پیچھے ہٹ گئے۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کہتے ہیں میں نے اپنے والد محترم سے پوچھا وہ آدمی کون تھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا عاص بن وائل سہمی رضی اللہ عنہ۔ اس حدیث کو بزار نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 9 : أخرجه البزار في المسند، 1 / 260، الحديث رقم : 156، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 65

 

 

 

بَابٌ فِي مَنْزِلَتِهِ رضی الله عنه عِنْدَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم

 

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں آپ رضی اللہ عنہ کا مقام10. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ هِشَّامٍ قَالَ : کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، وَ هُوَ اٰخِذٌ بِيَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

 

’’حضرت عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 10 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1351، الحديث رقم : 3491، و في کتاب الإستئذان، باب المصافحة، 5 / 2311، الحديث رقم : 5909، و ابن حبان فی الصحيح، 16 / 355، الحديث رقم : 7356، و البيهقي في شعب الإيمان، 2 / 132، الحديث رقم : 1382.

 

11. عَنْ أنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : قُبِضَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَ هُوَ بْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّيْنَ، وًأَبُوْبَکْرٍ وَهُوَ بْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّيْنَ، وَ عُمَرُ وَ هُوَ بْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّيْنَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

 

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وصال فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک تریسٹھ (63) برس تھی، اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے وصال فرمایا تو ان کی عمر بھی تریسٹھ (63) برس تھی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وصال فرمایا تو ان کی عمر مبارک بھی تریسٹھ (63) برس تھی۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔‘‘ ( اس سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں انکی اتباع و قرابتِ روحانی اور فنائیتِ باطنی ثابت ہوتی ہے)۔

 

الحديث رقم 11 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب کم سن النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 4 / 1825، الحديث رقم : 2348.

 

12. عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ قَالَ : لَمَّا طُعِنَ عُمَرُ جَعَلَ يَألَمُ، فَقَالَ لَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ، وَکَأنَّهُ يُجَزِّعُهُ : يَا أمِيْرَ الْمُؤْمِنِينَ، وَلَئِنْ کَانَ ذَاکَ، لَقَدْ صَحِبْتَ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَأحْسَنْتَ صُحْبَتَهُ، ثُمَّ فَارَقْتَهُ وَهُوَ عَنْکَ رَاضٍ، ثُمَّ صَحِبْتَ أبَابَکْرٍ فَأحْسَنْتَ صُحْبَتَهُ، ثُمَّ فَارَقْتَهُ وَهُوَ عَنْکَ رَاضٍ، ثُمَّ صَحِبْتَهُمْ فَأحْسَنْتَ صُحْبَتَهُمْ، وَلَئِنْ فَارَقْتَهُمْ لَتُفَارِقَنَّهُمْ وَ هُمْ عَنْکَ رَاضُوْنَ، قَالَ : أمَّا مَا ذَکَرْتَ مِنْ صُحْبَةِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَ رِضَاهُ، فَإِنَّمَا ذَاکَ مَنٌّ مِنَ اﷲِ تَعَالَی مَنَّ بِهِ عَلَيَّ، وَأمَّا مَا ذَکَرْتَ مِنْ صُحْبَةِ أبِيْ بَکْرٍ وَ رِضَاهُ، فَإِنَّمَا ذَاکَ مَنٌّ مِّنَ اﷲِ جَلَّ ذِکْرُهُ مَنَّ بِهِ عَلَيَّ، وَأمَّا مَا تَرَی مِنْ جَزَعِيْ، فَهُوَ مِنْ أجْلِکَ وَ أجْلِ أصْحَابِکَ، وَاﷲِ لَوْ أنَّ لِي طِلاَعَ الأرْضِ ذَهَباً، لَافْتَدَيْتُ بِهِ مِنْ عَذَابٍ اﷲِ عزوجل قَبْلَ أنْ أرَاهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

 

’’حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو زخمی کیا گیا تو وہ تکلیف محسوس کرنے لگے پس حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا : گویا وہ انہیں تسلی دے رہے تھے۔ اے امیر المومنین! یہ بات تو ہوگئی بے شک آپ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہے ہیں اور آپ نے ان کا اچھا ساتھ دیا۔ پھر وہ آپ سے جدا ہوئے تو وہ آپ سے راضی تھے۔ پھر آپ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے اور اچھی طرح ان کا ساتھ دیا پھر وہ آپ سے جدا ہوئے تو وہ بھی آپ سے راضی تھے۔ پھر آپ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ساتھ رہے اور اچھی طرح ان کا ساتھ دیا اور آپ ان سے جدا ہوں گے تو ضرور اس حال میں جدا ہوں گے کہ وہ لوگ آپ سے راضی ہوں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یہ جو آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اور ان کی رضا کا ذکر کیا ہے تو یہ اللہ کا احسان تھا جو اس نے مجھ پر فرمایا۔ پھر آپ نے جو ابو بکر کی صحبت اور ان کے راضی ہونے کا ذکر کیا تو یہ بھی اللہ کا احسان تھا جو اس نے مجھ پر کیا اور جو تم نے میری گھبراہٹ کا ذکر کیا تو وہ تمہاری اور تمہارے ساتھیوں کی وجہ سے ہے۔ خدا کی قسم اگر میرے پاس زمین کے برابر بھی سونا ہوتا تو عذاب الٰہی سے پہلے اسے عذاب کے بدلے میں فدیۃً دے دیتا۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 12 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1350، الحديث رقم : 3489

 

13. عَنِ ابْنِ أَبِيْ مُلَيْکَةَ قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ : وُضِعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابُ عَلٰی سَرِيْرِه فَتَکَنَّفَهُ النَّاسُ يَدْعُوْنَ وَيُثْنُوْنَ وَيُصَلُّوْنَ عَلَيْهِ قَبْلَ أَنْ يُرْفَعَ وَأَنَا فِيهِمْ قَالَ : فَلَمْ يَرُعْنِي إِلاَّ بِرَجُلٍ قَدْ أَخَذَ بِمَنْکِبِيْ مِنْ وَرَائِيْ. فًالْتَفَتُّ إِلَيْهِ فَإِذَا هُوَ عَلِيٌّ فَتَرَحَّمَ عَلَی عُمَرَ وَقَالَ : مَا خَلَّفْتَ أَحَدًا أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أَلْقَی اﷲَ بِمِثْلِ عَمَلِهِ، مِنْکَ وَأيْمُ اﷲِ ! إنْ کُنْتُ لَأَظُنُّ أَنْ يَجْعَلَکَ اﷲُ مَعَ صَاحِبَيْکَ وَ ذَاکَ إِنِّيْ کُنْتُ أکَثِّرُ أَسْمَعُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ جِئْتُ أَنَا وَ أَبُوبَکْرٍ وَّ عُمَرُ وَ دَخَلْتُ أَنَا وَ أَبُوبَکْرٍ وَعُمَرُ وَخَرَجْتُ أَنَا وَ أَبُوْ بَکْرٍ وَ عُمَرُ. فَإِنْ کُنْتُ لَأَرْجُو، أوْ لَأظُنُّ، أَنْ يَجْعَلَکَ اﷲُ مَعَهُمَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَ هَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.

 

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا جنازہ تخت پر رکھا گیا تو لوگ ان کے گرد جمع ہوگئے، وہ ان کے حق میں دعا کرتے، تحسین آمیز کلمات کہتے اور جنازہ اٹھائے جانے سے بھی پہلے ان پر صلوٰۃ (یعنی دعا) پڑھ رہے تھے، میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا، اچانک ایک شحص نے پیچھے سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا، میں نے گھبرا کر مڑ کے دیکھا تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے، انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے رحمت کی دعا کی اور کہا (اے عمر!) آپ نے اپنے بعد کوئی ایسا شخص نہیں چھوڑا جس کے کیے ہوئے اعمال کے ساتھ مجھے اﷲ تعالیٰ سے ملاقات کرنا پسند ہو بخدا مجھے یقین ہے کہ اﷲتعالیٰ آپ کا درجہ آپ کے دونوں صاحبوں کے ساتھ کر دے گا، کیونکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہ کثرت یہ سنتا تھا، ’’میں اور ابوبکر و عمر آئے، میں اور ابوبکر و عمر داخل ہوئے، میں اور ابوبکر و عمر نکلے‘‘ اور مجھے یقین ہے کہ اﷲ تعالیٰ آپ کو (اسی طرح) آپ کے دونوں صاحبوں کے ساتھ رکھے گا۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ امام مسلم کے ہیں۔‘‘

 

الحديث رقم 13 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمربن الخطاب، 3 / 1348، الحديث رقم : 3482، و مسلم فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عمر، 4 / 1858، الحديث رقم : 2389، وأحمد بن حنبل فی المسند، 1 / 112، الحديث رقم : 898، و الحاکم فی المستدرک علی الصحيحن، 3 / 71، الحديث رقم : 4427.

 

 

14. عَنْ سَعِيْدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَ أَبِيْ سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَا : سَمِعْنَا أَبَا هُرَيْرَةَ رضی الله عنه يَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : بَيْنَمَا رَاعٍ فِيْ غَنَمِهِ عَدَا الذِّئْبُ فَأَخَذَ مِنْهَا شَاةً، فَطَلَبَهَا حَتَّی اسْتَنْقَذَهَا، فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ الذِّئْبُ، فَقَالَ لَهُ : مَنْ لَهَا يَوْمَ السَّبُعِ، لَيْسَ لَهَا رَاعٍ غَيْرِيْ. فَقَالَ النَّاسُ : سُبْحَانَ اﷲِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَإِنِّيْ أُوْمِنُ بِهِ وَ أَبُوْبَکْرٍ وَ عُمَرُ. وَ مَا ثَمَّ أَبُوْبَکْرٍ وَ عُمَرُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

 

’’حضرت سعید بن مسیب اور ابو سلمہ بن عبد الرحمن رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم نے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک چرواہا اپنے ریوڑ کے ساتھ تھا کہ بھیڑئیے نے اس کے ریوڑ پر حملہ کر دیا اور ایک بکری پکڑ لی، چرواہے نے اس کا پیچھا کیا اور بکری چھڑوا لی۔ بھیڑئیے نے اس کی جانب متوجہ ہو کر کہا : بتاؤ چیر پھاڑ کے دن کون ان کی حفاظت کرے گا جب میرے سوا کوئی ان کا چرواہا نہیں ہوگا۔ لوگوں نے اس پر تعجب کیا اور کہا سبحان اللہ (کہ بھیڑیا انسانوں کی طرح بول رہا ہے)۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں اس واقعہ کی صحت پر یقین رکھتا ہوں اور ابوبکر و عمر بھی اس پر یقین رکھتے ہیں۔ حالانکہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہما وہاں موجود ہی نہ تھے۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 14 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1349، الحديث رقم : 3487، و في کتاب فضائل الصحابة، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم لو کنت متخذا خليلا، 3 / 1339، الحديث رقم : 3463، و مسلم فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل أبی بکر، 4 / 1857، الحديث رقم : 2388، و النسائی فی السنن الکبریٰ، 5 / 38، الحديث رقم : 8114، و البخاري في الأدب المفرد، 1 / 310، الحديث رقم : 902.

 

15. عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : بَيْنَمَا رَجُلٌ يَرْعٰی غَنَمًا لَهُ إِذْ جَاءَ ذِئْبٌ فَأَخَذَ شَاةً فَجَآءَ صَاحِبُهَا فَانْتَزَعَهَا مِنْهُ، فَقَالَ الذِّئْبُ : کَيْفَ تَصْنَعُ بِهَا يَوْمَ السَّبُعِ يَوْمَ لاَ رَاعِيَ لَهَا غَيْرِيْ؟ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَاٰمَنْتُ بِذَالِکَ أَنَا وَأَبُوْبَکْرٍ وَ عُمَرُ. قَالَ أَبُوْسَلَمَةَ : وَ مَا هُمَا فِي الْقَوْمِ يَوْمَئِذٍ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ

 

وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

 

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک چرواہا بکریاں چرا رہا تھا کہ اچانک ایک بھیڑیا آیا اور اس کی بکری پکڑ لی۔ چرواہے نے اس سے بکری چھین لی۔ بھیڑیا کہنے لگا کہ تم اس دن کیا کرو گے، جس دن صرف درندے رہ جائیں گے اور میرے علاوہ کوئی چرواہا نہ ہو گا؟ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں ابوبکر اور عمر اس واقعہ کو صحیح مانتے ہیں۔ ابو سلمہ فرماتے ہیں کہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بات فرمائی اس وقت یہ دونوں حضرات مجلس میں بھی موجود نہیں تھے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 15 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 623، الحديث رقم : 3695، و أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 382، الحديث رقم : 8950، و حميدي في المسند، 2 / 454، الحديث رقم : 1054.

 

 

16. عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَجُلاً سَأَلَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم السَّاعَةِ فَقَالَ : مَتَی السَّاعَةُ؟ قَالَ : وَ مَاذَا أعْدَدْتَ لَهَا؟ قَالَ : لَا شَيْئَ إِلَّا أنِّي أحِبُّ اﷲَ وَ رَسُوْلَهُ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : أنْتَ مَعَ مَنْ أحْبَبْتَ. قَالَ أنَسٌ : فَمَا فَرِحْنَا بِشَيْئٍ فَرِحْنَا بِقَوْلِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : أنْتَ مَعَ مَنْ أحْبَبْتَ قَالَ أنَسٌ : فَأنَا أُحِبُّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم وَ أبَا بَکْرٍ وَ عُمَرَ وَ أرْجُو أنْ أکُونَ مَعَهُمْ بِحُبِّيْ إِيَّاهُمْ، وَ إِنْ لَمْ أعْمَلْ بِمِثْلِ أعْمَالِهِمْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

 

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی صحابی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی؟ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا! تم نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے؟ وہ صحابی عرض گزار ہوا! میرے پاس تو کوئی عمل نہیں سوائے اس کے کہ میں اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں۔ فرمایا : تمہیں آخرت میں اسی کی معیت اور سنگت نصیب ہو گی جس سے تم محبت کرتے ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں کسی خبر نے اتنا خوش نہیں کیا جتنا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان نے کیا کہ ’’تم اسی کے ساتھ ہوگے جس سے محبت کرتے ہو‘‘۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا : میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں اور ابو بکر و عمر سے بھی لہٰذا امیدوار ہوں کہ ان کی محبت کے باعث ان حضرات کے ساتھ ہوں گا اگرچہ میرے اعمال ان جیسے نہیں۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 16 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1349، الحديث رقم : 3485، و مسلم في الصحيح، کتاب البر و الصلة و الأدب، باب المرء مع من أحب، 4 / 2032، الحديث رقم : 2639، و أحمد بن حنبل فی المسند، 3 / 227، الحديث رقم : 13395، و أبو يعلیٰ فی المسند، 6 / 180، الحديث رقم : 3465، و عبد بن حميد في المسند، 1 / 397، الحديث رقم : 1339، و المنذری في الترغيب و الترهيب، 4 / 14، 15، الحديث رقم : 4594.

 

17. عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا مِنْ نَبِيٍّ إِلاَّ لَهُ وَزِيرَانِ مِنْ أَهْلِ السَّمَاءِ، وَ وَزِيرَانِ مِنْ أَهْلِ الْأرْضِ، فَأَمَّا وَزِيرَايَ مِنْ أَهْلِ السَّمَاءِ فجِبْرِيلُ وَمِيکَائِيلُ، وَأَمَّا وَزِيرَايَ مِنْ أَهْلِ الأرْضِ فَأَبُوبَکْرٍ وَعُمَرُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ

 

وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

 

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر نبی کے لئے دو وزیر اہل آسمان سے اور دو وزیر اہل زمین سے ہوتے ہیں۔ پس اہل آسمان میں سے میرے دو وزیر جبرئیل و میکائیل ہیں اور اہل زمین میں سے میرے دو وزیر ابوبکر وعمر ہیں۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا : یہ حدیث حسن ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 17 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب مناقب ابوبکر و عمر، 5 / 616، الحديث رقم : 3680، و الحاکم في المستدرک، 2 / 290، الحديث رقم : 3047، و ابن الجعد في المسند، 1 / 298، الحديث رقم : 2026، و الديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 4 / 382، الحديث رقم : 7111.

 

18. عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يَخْرُجُ عَلَی أَصْحَابِهِ مِنَ المُهَاجِرِينَ وَ الأنْصَارِ، وَ هُمْ جُلُوسٌ، وَ فِيهِمْ أَبُوبَکْرٍ وَ عُمَرُ، فَلاَ يَرْفَعُ إِلَيْهِ أَحَدٌ مِنْهُمْ بَصَرَهُ إِلاَّ أَبُوبَکْرٍ وَ عُمَرُ، فَإِنَّهُمَا کَانَا يَنْظُرَانِ إِلَيْهِ وَ يَنْظُرُ إِلَيْهِمَا وَ يَتَبَسَّمَانِ إِلَيْهِ، وَ يَتَبَسَّمُ إِلَيْهِمَا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

 

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مہاجرین و انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی مجلس میں تشریف لاتے جس میں حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما بھی موجود ہوتے تو اس مجلس صحابہ میں سے ابوبکر و عمر کے علاوہ کوئی ایک شخص بھی آنکھ اٹھا کر چہرہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نہ دیکھ سکتا تھا۔ حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی طرف دیکھتے اور مسکراتے تھے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 18 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب مناقب أبوبکر و عمر، 5 / 612، الحديث رقم : 3668، و الطبري في الرياض النظرة، 1 / 338.

 

19. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ قَالَ : قَالَ عُمَرُ لِأبِيْ بَکْرٍ : يَا خَيْرَ النَّاسِ بَعْدَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ أَبُوْبَکْرٍ : أَمَا إنَّکَ إِنْ قُلْتَ ذَاکَ فَلَقَدْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ عَلٰی رَجُلٍ خَيْرٍ مِنْ عُمَرَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

 

وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِيْ الدَّرْدَاءِ.

 

’’حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا : ’’اے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے بہترین یہ سن کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا آگاہ ہوجاؤ اگر تم نے یہ کہا ہے تو میں نے بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عمر سے بہتر کسی آدمی پر ابھی تک سورج طلوع نہیں ہوا۔ اس حدیث امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘ اس باب میں حضرت ابو درداء سے بھی روایت مذکور ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 19 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 618، الحديث رقم : 3684، و الحاکم فی المستدرک، 3 : 96، الحديث رقم : 4508.

 

20. عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ اسْتَأْذَنَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فِی الْعُمْرَةِ فَقَالَ أَيْ أَخِيْ أَشْرِکْنَا فِيْ دُعَائِکَ وَ لَا تَنْسَنَا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَ ابْنُ مَاجَةَ.

 

وَ قَالَ التِّرْمِذِيُّ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

 

’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عمرہ کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا : اے میرے بھائی! ہمیں بھی اپنی دعاؤں میں شریک رکھنا اور ہمیں نہیں بھولنا۔ اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اورترمذی نے کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 20 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب الدعوات، باب فی دعاء النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 5 / 559، الحديث رقم : 3562. و إبن ماجه فی السنن، 2 / 966، الحديث رقم : 2894، و البيهقی فی شعب الإيمان، 6 / 502، الحديث رقم : 9059

 

21. عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم رَأَیٰ عَلَی عُمَرَ قَمِيْصًا أَبْيَضَ فَقَالَ ثَوْبُکَ هَذَا غَسِيْلٌ أَمْ جَدِيْدٌ؟ قَالَ : لَا. بَلْ غَسِيْلٌ : قَالَ : إِلْبَسْ جَدِيْدًا، وَ عِشْ حَمِيْدًا، وَ مُتْ شَهِيْدًا. رَوَاهُ ابْنَُماجة.

 

’’ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو سفید قمیض زیب تن کئے ہوئے دیکھا تو دریافت فرمایا : (اے عمر) تمہارا یہ قمیص نیا ہے یا پرانا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : یہ پرانا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (اﷲ کرے) تم ہمیشہ نیا لباس پہنو اور پر سکون زندگی بسر کرو اور تمہیں شہادت کی موت نصیب ہو۔ اس حدیث کو امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 21 : أخرجه أبن ماجه فی السنن، کتاب اللباس، باب ما يقول الرجل إذا لبس ثوبًا جديداً، 2 / 1178، الحديث رقم : 3558، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 88، الحديث رقم : 5620، والطبرانی فی المعجم الکبير، 12 / 283، الحديث رقم : 13127، وأبويعلیٰ في المسند، 9 / 402، الحديث رقم : 5545.

 

22. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ هِشَّامٍ قَالَ : کُنَّا مَعَ النَّبِيِ صلی الله عليه وآله وسلم، وَ هُوَ اٰخِذُ بِيَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه فَقَالَ وَاﷲِ يَا رَسُوْلَ اﷲِ لَأنْتَ أحَبُّ إِلَيَّ مِنْ کُلِّ شَيْئٍ إِلَّا نَفْسِيْ، فَقَالَ النَّبِیُّ صلی الله عليه وآله وسلم وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهِ لَا يُؤْمِنُ أحَدُکُمْ حَتَّی أکُوْنَ أحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ نَفْسِهِ، قَالَ فَأنْتَ الآنَ أحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِيْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم اَلآنَ يَا عُمَُرُ. رَوَاهُ أحْمَدُ وَ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الأوْسَطِ وَ الْحَاکِمُ.

 

’’حضرت عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ مجھے ہر چیز سے بڑھ کر محبوب ہیں سوائے میری جان کے۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کی جان سے بڑھ کر محبوب نہیں ہو جاتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! اب آپ مجھے میری جان سے بھی بڑھ کر محبوب ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عمر! اب تمہارا ایمان کامل ہو گیا ہے۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل نے مسند میں حاکم نے المستدرک میں اور طبرانی نے المعجم الاوسط میں روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 22 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 336، و الحاکم في المستدرک، 3 / 516، الحديث رقم : 5922، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 102، الحديث رقم : 317، و البزار في المسند، 8 / 384، الحديث رقم : 3459.

 

23. عَنِ الأسْوَدِ بْنِ سَرِيعٍ قَالَ : أَتَيْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنِّي قَدْ حَمِدْتُ رَبِّي تَبَارَکَ وَتَعَالَی بِمَحَامِدَ وَ مِدَحٍ، وَإِيَاکَ، قَالَ : هَاتِ مَاحَمِدْتَ بِهِ رَبَّکَ عَزَّوَجَلَّ، قَالَ : فَجَعَلْتُ أُنْشِدُهُ، فَجَاءَ رَجُلٌ أَدْلَمُ فَاسْتَأْذَنَ، قَالَ : فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بَيِّنْ بَيِّنْ، قَالَ : فَتَکَلَّمَ سَاعَةً ثُمَّ خَرَجَ، قَالَ : فَجَعَلْتُ أُنْشِدُهُ، قَالَ : ثُمَّ جَاءَ فَاسْتَأْذَنَ، قَالَ : فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : بَيِّنْ بَيِّنْ، فَفَعَلَ ذَاکَ مَرَّتَيْنِ أَوْثَلَاثًا، قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَنْ هَذَا الَّذِی اسْتَنْصَتَّنِي لَهُ؟ قَالَ : عُمَرُبْنُ الخَطَّابِ، هَذَا رَجُلٌ لاَ يُحِبُّ الْبَاطِلَ. رَوَاهُ أحْمَدُ.

 

’’ حضرت اسود بن سریع سے روایت ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا : یا رسول اﷲ! میں نے اﷲ تبارک و تعالیٰ کی حمد و ثنا اور آپ کی مدحت و نعت بیان کی ہے۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے جو اپنے رب کی حمد و ثنا کی ہے مجھے بھی سناؤ۔ راوی کہتے ہیں میں نے (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے) پڑھنا شروع کیا پھر ایک دراز قامت آدمی آیا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت طلب کی۔ راوی کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیان کرو، بیان کرو۔ راوی کہتے ہیں اس آدمی نے تھوڑی دیر کلام کیا پھر باہر چلا گیا۔ میں نے دوبارہ کلام پڑھنا شروع کیا تو وہ آدمی دوبارہ آگیا اور اجازت طلب کی۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیان کرو، بیان کرو! اس آدمی نے اس طرح دو دفعہ یاتین دفعہ کیا : میں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! یہ آدمی کون ہے جس کے لئے آپ نے مجھے چپ کرایا؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ عمر بن الخطاب ہے اور یہ وہ آدمی ہے جو باطل کو پسند نہیں کرتا۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 23 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 435، و البخاري في الأدب المفرد، 1 / 125، الحديث رقم : 342، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 118.

 

24. عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيْرِيْنَ قَالَ : مَا أَظُنُّ رَجُلاً يَنْتَقِصُ أَبَابَکْرٍ وَ عُمَرَ يُحِبُّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ

 

وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

 

’’حضرت محمد بن سیرین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں یہ خیال نہیں کرتا کہ جو شخص حضرت ابو بکر و عمر رضی اﷲ عنہما کی تنقیص کرتا ہے وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھتا ہو۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اورکہا یہ حدیث حسن ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 24 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 618، الحديث رقم : 3685

 

 

 

 

(3) بَابٌ فِي قَوْلِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : لَوْکَانَ نَبِيٌّ بَعْدِيْ لَکَانَ عُمَرُ

 

فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا 25. عَنْ أبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَقَدْ کَان فِيْمَا قَبْلکُمْ مِنَ الأمَمِ مُحَدَّثُوْنَ فَإِنْ يَکُ فِي أمَّتِي أحَدٌ فَإِنَّهُ عُمَرُ. و زَادَ زَکَرِ يَاءُ بْنُ أبِي زَائِدَةَ عَنْ سَعْدٍ عَنْ أبِي سَلَمَةَ عَنْ أبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : لَقَدْ کَانَ فِيمَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ مِنْ بَنِيْ إِسْرَائِيْلَ رِجَالٌ يُکَلَّمُوْنَ مِنْ غَيْرِ أنْ يَّکُوْنُوْا أنْبِيَاءَ فَإِنْ يَکُنْ مِنْ أمَّتِي مِنْهُمْ أحَدٌ فَعُمَرُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

 

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلی امتوں میں محدَّث ہوا کرتے تھے اگر میری امت میں کوئی محدَّث ہے تو وہ عمر رضی اللہ عنہ ہے۔ زکریا بن ابی زائدہ نے سعد سے اور انہوں نے ابی سلمہ سے انہوں نے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے یہ الفاظ زیادہ روایت کئے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلے لوگوں یعنی بنی اسرائیل میں ایسے لوگ بھی ہوا کرتے تھے جن کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کلام فرماتا تھا حالانکہ وہ نبی نہ تھے۔ اگر ان جیسا میری امت کے اندر کوئی ہوتا تو وہ عمر ہوتا۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 25 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة باب مناقب عمر بن الخطابص، 3 / 1349، الحديث رقم : 3486، و في کتاب الأنبياء، باب أم حسبت أن أصحاب الکهف و الرقيم، 3 / 1279، الحديث رقم : 2382، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 583، الحديث رقم : 1261.

 

26. عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صلی الله عليه وآله وسلم، أَنَّهُ کَانَ يَقُوْلُ : قَدْ کَانَ يَکُوْنُ فِی الْأُمَمِ قَبْلَکُمْ مُحَدَّثُوْنَ فَإِنْ يَکُنْ فِي أُمَّتِی مِنْهُمْ أَحَدٌ، فَإِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ مِنْهُمْ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَ التِّرْمَذِيُّ.

 

وقَالَ ابْنُ وَهْبٍ : تَفْسِيْرُ مُحَدَّثُوْنَ مُلْهَمُوْنَ.

 

’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ تم سے پہلی امتوں میں محدَّثون ہوتے تھے۔ اگر میری امت میں کوئی محدَّث ان میں سے ہے تو وہ عمر بن الخطاب ہے، ابن وہب نے کہا محدَّث اس شخص کو کہتے ہیں جس پر الہام کیا جاتا ہو۔ اس حدیث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 26 : أخرجه مسلم فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة باب من فضائل عمر، 4 / 1864، الحديث رقم : 2398، و الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر بن الخطاب، 5 / 622، الحديث رقم : 3693، و ابن حبان فی الصحيح، 15 / 317، الحديث رقم : 6894، و الحاکم فی المستدرک علی الصحيحين، 3 / 92، الحديث رقم : 4499، و النسائي في السنن الکبریٰ، 5 / 39، الحديث رقم : 8119.

 

27. عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَوْکَانَ نَبِيٌّ بَعْدِيْ لَکَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ

 

وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

 

’’حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن الخطاب ہوتا۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اورکہا : یہ حدیث حسن ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 27 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 619، الحديث رقم : 3686، و أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 154، و الحاکم في المستدرک، 3 / 92، الحديث رقم : 4495، و الطبرانی فی المعجم الکبير، 17 / 298، الحديث رقم : 822، و الرویاني في المسند، 1 / 174، الحديث رقم : 223، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 356، الحديث رقم : 519.

ابٌ فِيْمَا يَتَعَلَّقُ بِإِسْلَامِه رضي اﷲ عنه

 

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کا بیان1. عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : أللَّهُمَّ أعِزَّ الْإِسْلَامَ بِأَحَبِّ هٰذَيْنِ الرَّجُلَيْنِ إِلَيْکَ بِأَبِيْ جَهْلٍ أوْ بِعُمَرَ ابْنِ الْخَطَّابِ قَالَ : وَکَانَ أحَبَّهُمَا إِلَيْهِ عُمَرُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

 

وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

 

’’حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی : اے اﷲ! تو ابو جہل یا عمر بن خطاب دونوں میں سے اپنے ایک پسندیدہ بندے کے ذریعے اسلام کو غلبہ اور عزت عطا فرما۔ راوی کہتے ہیں کہ ان دونوں میں اﷲ کو محبوب حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے (جن کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا قبول ہوئی اور آپ مشرف بہ اسلام ہوئے)۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 1 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 617، الحديث رقم : 3681، و أحمد بن حنبل فی المسند، 2 / 95، الحديث رقم : 5696، و ابن حبان فی الصحيح، 15 / 305، الحديث رقم : 6881، و الحاکم في المستدرک، 3 / 574، الحديث رقم : 6129، و البزار في المسند، 6 / 57، الحديث رقم : 2119، و عبد بن حميد في المسند، 1 / 245، الحديث رقم : 759.

 

2. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : أللَّهُمَّ أعِزَّ الْإِسْلَامَ بِأبِيْ جَهْلِ بْنِ هَشَّامٍ أوْ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ : فَأصْبَحَ فَغَدَا عُمَرُ عَلٰی رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَأسْلَمَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

 

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی : اے اﷲ! ابو جہل بن ہشام یا عمر بن خطاب دونوں میں سے کسی ایک کے ذریعے اسلام کو غلبہ و عزت عطا فرما، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اگلے دن علی الصبح حاضر ہوئے اور مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 2 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 618، الحديث رقم : 3683، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 249، الحديث رقم : 311، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 61، .

 

3. عَنِ ابْنِ عَبَاسٍ رضي اﷲ عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ قَالَ أللَّهُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلاَمَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ

 

وَقَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ الإِسْنَادِ.

 

’’حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی : اے اللہ! عمر بن الخطاب کے ذریعے اسلام کو عزت عطا فرما۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 3 : أخرجه الحاکم فی المستدرک علی الصحيحين، 3 / 89، الحديث رقم : 4484، و الطبرانی فی المعجم الکبير، 2 / 97، الحديث رقم : 1428.

 

4. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ : لَمَّا أَسْلَمَ عُمَرُ نَزَلَ جِبْرِيْلُ فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ! لَقَدْ إِسْتَبْشَرَ أَهْلُ السَّمَاءِ بِإِسْلَامِ عُمَرَ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ

 

’’حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایمان لائے تو جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوئے اور کہا اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! تحقیق اہلِ آسمان نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے پر خوشی منائی ہے (اور مبارکبادیاں دی ہیں)۔ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 4 : أخرجه ابن ماجة في السنن، 1 / 38، في المقدمة، باب فضل عمر، الحديث رقم : 103، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 307، الحديث رقم : 6883، و الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 80، الحديث رقم : 11109، و الهيثمي في موارد الظمان، 1 / 535، الحديث رقم : 2182.

 

5. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : لَمَّا أسْلَمَ عُمَرُ أَتَانِي جِبْرِيْلُ فَقَالَ : قَدِ اسْتَبْشَرَ أَهْلُ السَّمَاءِ بِإِسْلَامِ عُمَرَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ

 

وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثُ صَحِيْحُ

 

’’حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب عمر مشرف بہ اسلام ہوئے تواہل آسمان نے ان کے اسلام لانے پر خوشیاں منائیں۔‘‘ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث صحیح ہے۔

 

الحديث رقم 5 : أخرجه الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 90، الحديث رقم : 4491، و المناوي في فيض القدير، 5 / 299.

 

6. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : لَمَّا أَسْلَمَ عمر رضي الله عنه قَالَ الْمُشْرِکُوْنَ : ألْيَوْمَ قَدِ انْتَصَفَ الْقَوْمُ مِنَّا، رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْطَّبَرَانِيُّ فِيْ الْمُعَجَمِ الکبير.

 

وَ قَالَ الْحَاکِمُ : صَحِيْحٌ الإِسْنَادِ.

 

’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو مشرکین نے کہا آج کے دن ہماری قوم دو حصوں میں بٹ گئی ہے (اور آدھی رہ گئی ہے)۔ اس حدیث کو امام حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے، امام حاکم نے کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 6 : أخرجه الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 91، الحديث رقم : 4494، والطبراني في المعجم الکبير، 11 / 255، الحديث رقم : 11659، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 248، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 62.

 

7. عَنْ عَبْدِاللّٰهِ ابْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم ضَرَبَ صَدْرَ عُمَرَبنِ الْخَطَّابِ بَيْدِهِ حِيْنَ أسْلَمَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ وَ هُوَ يَقُوْلُ : أللَّهُمَّ أَخْرِجْ مَا فِيْ صَدْرِه مِنْ غِلٍّ وَ أَبْدِلْهُ إِيْمَانًا يَقُوْلُ ذٰلِکَ ثَلاَثاً رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الکبير وَ الأوْسَطِ.

 

وَ قَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ مُسْتَقِيْمُ الْإِسْنَادِ

 

’’حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب اسلام لائے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سینے پر تین دفعہ اپنا دست اقدس مارا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرما رہے تھے۔ اے اﷲ! عمر کے سینے میں جو غل (سابقہ عداوت کا اثر) ہے اس کو نکال دے اور اس کی جگہ ایمان ڈال دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کلمات تین مرتبہ دہرائے۔ اس حدیث کو امام حاکم نے مستدرک میں اور طبرانی نے المعجم الکبير اور المعجم الاوسط میں روایت کیا ہے اور امام حاکم نے کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 7 : أخرجه الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 91، الحديث رقم : 4492، والطبراني في المعجم الاوسط، 2 / 20، الحديث رقم : 1096، والطبراني في المعجم الکبير، 12 / 305، الحديث رقم : 13191، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 65.

 

8. عَنْ عَبْدِاللّٰهِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ : إِنْ کَانَ إِسْلَامُ عُمَرَ لَفَتْحًا، ، وَ إِمَارَتُهُ لَرَحْمَةً وَاﷲِ مَا اسْتَطَعْنَا أَنْ نُّصَلِّيَ بِالْبَيْتِ حَتَّي أَسْلَمَ عُمَرُ، فَلَمَّا أسْلَمَ قَابَلَهُمْ حَتَّي دَعُوْنَا فَصَلَّيْنَا. رَوَاهُ الطَّبْرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الکبير.

 

’’حضرت عبد اﷲ ابن مسعود رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ بے شک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام (ہمارے لئے) ایک فتح تھی اور ان کی امارت ایک رحمت تھی، خدا کی قسم ہم بیت اللہ میں نماز پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے، یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے۔ پس جب وہ اسلام لائے تو آپ نے مشرکینِ مکہ کا سامنا کیا یہاں تک کہ انہوں نے ہمیں چھوڑ دیا تب ہم نے خانہ کعبہ میں نماز پڑھی۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا۔‘‘

 

الحديث رقم 8 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 9 / 165، الحديث رقم : 8820، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 62.

 

9. عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : لَمَّا أسْلَمَ عُمَرُ قَالَ : مَنْ أَنَمُّ النَّاسِ؟ قَالُوْا : فُلاَنٌ قَالَ : فَأَتَاهُ، فَقَالَ : إِنِّي قَدْ أَسْلَمْتُ فَلاَ تُخْبِرَنَّ أَحَدًا قَالَ : فَخَرَجَ يَجُرُّ إِزَارَهُ وَ طَرَفُهُ عَلَي عَاتِقِهِ فَقَالَ : أَلاَ إِنَّ عُمَرَ قَدْ صَبَا قَالَ : وَ أَنَا أَقُوْلُ : کَذَبْتَ وَ لَکِنِّيْ أَسْلَمْتُ وَعَلَيْهِ قَمِيْصٌ فَقَامَ إِلَيْهِ خَلْقٌ مِنْ قُرِيْشٍ فَقَاتَلُوْهُ فَقَاتَلَهُمْ حَتَّي سَقَطَ وَ أکَبُّوْا عَلَيْهِ فَجَائَ رَجُلٌ عَلَيْهِ قَمِيْصٌ، فَقَالَ : مَا لَکُمْ وَ لِلْرَجُلِ أتَرَوْنَ بَنيِ عُدَيٍّ بْنِ کَعْبٍ يُخَلُّوْنَ عَنْکُمْ وَعَنْ صَاحِبِهِمْ؟ تَقْتُلُوْنَ رَجُلاً إِخْتَارَ لِنَفْسِهِ إِتِّبَاعَ مُحَمَّدٍ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ فَتَکَشَّفَ الْقَوْمُ عَنْهُ. قَالَ ابْنُ عُمَرَ : فَقُلْتُ لِأَبِي : مَنِ الرَّجُلُ؟ قَالَ : الْعَاصُ بْنُ وَاِئلٍ السَّهْمِيُّ. رَوَاهُ الْبَزَّارًُ.

 

’’حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ اسلام لائے تو انہوں نے کہا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ چغل خور کون ہے؟ لوگوں نے کہا کہ فلاں۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کے پاس تشریف لائے اور کہا تحقیق میں اسلام لے آیا ہوں پس تو کسی کو اس بارے نہ بتانا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد وہ شخص اپنا تہہ بند جس کا ایک کنارا اس کے کندھے پر تھا گھسیٹتے ہوئے باہر نکلا اور کہنے لگا آگاہ ہو جاؤ! عمر اپنے دین سے پھر گیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں تو جھوٹ بولتا ہے میں اسلام لے آیا ہوں۔ اسی اثنا میں قریش کا ایک گروہ آپ کی طرف بڑھا اور آپ سے قتال کرنے لگا، آپ رضی اللہ عنہ نے بھی ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا یہاں تک کہ آپ گر گئے اور کفار مکہ آپ رضی اللہ عنہ پر ٹوٹ پڑے۔ اتنے میں ایک آدمی آیا جس نے قمیض پہن رکھی تھی اور کہنے لگا تمہارا ا س آدمی کے ساتھ کیا معاملہ ہے؟ کیا تم اس آدمی کو قتل کرنا چاہتے ہو جس نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع اختیار کی ہے۔ تم کیا سمجھتے ہو کہ عدی بن کعب کے بیٹے تمہیں اپنے صاحب کے معاملہ میں ایسے ہی چھوڑ دیں گے۔ سو لوگ آپ رضی اللہ عنہ سے پیچھے ہٹ گئے۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کہتے ہیں میں نے اپنے والد محترم سے پوچھا وہ آدمی کون تھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا عاص بن وائل سہمی رضی اللہ عنہ۔ اس حدیث کو بزار نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 9 : أخرجه البزار في المسند، 1 / 260، الحديث رقم : 156، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 65

 

 

 

بَابٌ فِي مَنْزِلَتِهِ رضی الله عنه عِنْدَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم

 

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں آپ رضی اللہ عنہ کا مقام10. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ هِشَّامٍ قَالَ : کُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، وَ هُوَ اٰخِذٌ بِيَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

 

’’حضرت عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 10 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1351، الحديث رقم : 3491، و في کتاب الإستئذان، باب المصافحة، 5 / 2311، الحديث رقم : 5909، و ابن حبان فی الصحيح، 16 / 355، الحديث رقم : 7356، و البيهقي في شعب الإيمان، 2 / 132، الحديث رقم : 1382.

 

11. عَنْ أنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : قُبِضَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَ هُوَ بْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّيْنَ، وًأَبُوْبَکْرٍ وَهُوَ بْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّيْنَ، وَ عُمَرُ وَ هُوَ بْنُ ثَلاَثٍ وَسِتِّيْنَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

 

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وصال فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر مبارک تریسٹھ (63) برس تھی، اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے وصال فرمایا تو ان کی عمر بھی تریسٹھ (63) برس تھی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وصال فرمایا تو ان کی عمر مبارک بھی تریسٹھ (63) برس تھی۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔‘‘ ( اس سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں انکی اتباع و قرابتِ روحانی اور فنائیتِ باطنی ثابت ہوتی ہے)۔

 

الحديث رقم 11 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب کم سن النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 4 / 1825، الحديث رقم : 2348.

 

12. عَنِ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ قَالَ : لَمَّا طُعِنَ عُمَرُ جَعَلَ يَألَمُ، فَقَالَ لَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ، وَکَأنَّهُ يُجَزِّعُهُ : يَا أمِيْرَ الْمُؤْمِنِينَ، وَلَئِنْ کَانَ ذَاکَ، لَقَدْ صَحِبْتَ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَأحْسَنْتَ صُحْبَتَهُ، ثُمَّ فَارَقْتَهُ وَهُوَ عَنْکَ رَاضٍ، ثُمَّ صَحِبْتَ أبَابَکْرٍ فَأحْسَنْتَ صُحْبَتَهُ، ثُمَّ فَارَقْتَهُ وَهُوَ عَنْکَ رَاضٍ، ثُمَّ صَحِبْتَهُمْ فَأحْسَنْتَ صُحْبَتَهُمْ، وَلَئِنْ فَارَقْتَهُمْ لَتُفَارِقَنَّهُمْ وَ هُمْ عَنْکَ رَاضُوْنَ، قَالَ : أمَّا مَا ذَکَرْتَ مِنْ صُحْبَةِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَ رِضَاهُ، فَإِنَّمَا ذَاکَ مَنٌّ مِنَ اﷲِ تَعَالَی مَنَّ بِهِ عَلَيَّ، وَأمَّا مَا ذَکَرْتَ مِنْ صُحْبَةِ أبِيْ بَکْرٍ وَ رِضَاهُ، فَإِنَّمَا ذَاکَ مَنٌّ مِّنَ اﷲِ جَلَّ ذِکْرُهُ مَنَّ بِهِ عَلَيَّ، وَأمَّا مَا تَرَی مِنْ جَزَعِيْ، فَهُوَ مِنْ أجْلِکَ وَ أجْلِ أصْحَابِکَ، وَاﷲِ لَوْ أنَّ لِي طِلاَعَ الأرْضِ ذَهَباً، لَافْتَدَيْتُ بِهِ مِنْ عَذَابٍ اﷲِ عزوجل قَبْلَ أنْ أرَاهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

 

’’حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو زخمی کیا گیا تو وہ تکلیف محسوس کرنے لگے پس حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا : گویا وہ انہیں تسلی دے رہے تھے۔ اے امیر المومنین! یہ بات تو ہوگئی بے شک آپ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہے ہیں اور آپ نے ان کا اچھا ساتھ دیا۔ پھر وہ آپ سے جدا ہوئے تو وہ آپ سے راضی تھے۔ پھر آپ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے اور اچھی طرح ان کا ساتھ دیا پھر وہ آپ سے جدا ہوئے تو وہ بھی آپ سے راضی تھے۔ پھر آپ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ساتھ رہے اور اچھی طرح ان کا ساتھ دیا اور آپ ان سے جدا ہوں گے تو ضرور اس حال میں جدا ہوں گے کہ وہ لوگ آپ سے راضی ہوں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یہ جو آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اور ان کی رضا کا ذکر کیا ہے تو یہ اللہ کا احسان تھا جو اس نے مجھ پر فرمایا۔ پھر آپ نے جو ابو بکر کی صحبت اور ان کے راضی ہونے کا ذکر کیا تو یہ بھی اللہ کا احسان تھا جو اس نے مجھ پر کیا اور جو تم نے میری گھبراہٹ کا ذکر کیا تو وہ تمہاری اور تمہارے ساتھیوں کی وجہ سے ہے۔ خدا کی قسم اگر میرے پاس زمین کے برابر بھی سونا ہوتا تو عذاب الٰہی سے پہلے اسے عذاب کے بدلے میں فدیۃً دے دیتا۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 12 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1350، الحديث رقم : 3489

 

13. عَنِ ابْنِ أَبِيْ مُلَيْکَةَ قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُولُ : وُضِعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابُ عَلٰی سَرِيْرِه فَتَکَنَّفَهُ النَّاسُ يَدْعُوْنَ وَيُثْنُوْنَ وَيُصَلُّوْنَ عَلَيْهِ قَبْلَ أَنْ يُرْفَعَ وَأَنَا فِيهِمْ قَالَ : فَلَمْ يَرُعْنِي إِلاَّ بِرَجُلٍ قَدْ أَخَذَ بِمَنْکِبِيْ مِنْ وَرَائِيْ. فًالْتَفَتُّ إِلَيْهِ فَإِذَا هُوَ عَلِيٌّ فَتَرَحَّمَ عَلَی عُمَرَ وَقَالَ : مَا خَلَّفْتَ أَحَدًا أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أَلْقَی اﷲَ بِمِثْلِ عَمَلِهِ، مِنْکَ وَأيْمُ اﷲِ ! إنْ کُنْتُ لَأَظُنُّ أَنْ يَجْعَلَکَ اﷲُ مَعَ صَاحِبَيْکَ وَ ذَاکَ إِنِّيْ کُنْتُ أکَثِّرُ أَسْمَعُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ جِئْتُ أَنَا وَ أَبُوبَکْرٍ وَّ عُمَرُ وَ دَخَلْتُ أَنَا وَ أَبُوبَکْرٍ وَعُمَرُ وَخَرَجْتُ أَنَا وَ أَبُوْ بَکْرٍ وَ عُمَرُ. فَإِنْ کُنْتُ لَأَرْجُو، أوْ لَأظُنُّ، أَنْ يَجْعَلَکَ اﷲُ مَعَهُمَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَ هَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.

 

’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا جنازہ تخت پر رکھا گیا تو لوگ ان کے گرد جمع ہوگئے، وہ ان کے حق میں دعا کرتے، تحسین آمیز کلمات کہتے اور جنازہ اٹھائے جانے سے بھی پہلے ان پر صلوٰۃ (یعنی دعا) پڑھ رہے تھے، میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا، اچانک ایک شحص نے پیچھے سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا، میں نے گھبرا کر مڑ کے دیکھا تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے، انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے رحمت کی دعا کی اور کہا (اے عمر!) آپ نے اپنے بعد کوئی ایسا شخص نہیں چھوڑا جس کے کیے ہوئے اعمال کے ساتھ مجھے اﷲ تعالیٰ سے ملاقات کرنا پسند ہو بخدا مجھے یقین ہے کہ اﷲتعالیٰ آپ کا درجہ آپ کے دونوں صاحبوں کے ساتھ کر دے گا، کیونکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہ کثرت یہ سنتا تھا، ’’میں اور ابوبکر و عمر آئے، میں اور ابوبکر و عمر داخل ہوئے، میں اور ابوبکر و عمر نکلے‘‘ اور مجھے یقین ہے کہ اﷲ تعالیٰ آپ کو (اسی طرح) آپ کے دونوں صاحبوں کے ساتھ رکھے گا۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ امام مسلم کے ہیں۔‘‘

 

الحديث رقم 13 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمربن الخطاب، 3 / 1348، الحديث رقم : 3482، و مسلم فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عمر، 4 / 1858، الحديث رقم : 2389، وأحمد بن حنبل فی المسند، 1 / 112، الحديث رقم : 898، و الحاکم فی المستدرک علی الصحيحن، 3 / 71، الحديث رقم : 4427.

 

 

14. عَنْ سَعِيْدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَ أَبِيْ سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ قَالَا : سَمِعْنَا أَبَا هُرَيْرَةَ رضی الله عنه يَقُوْلُ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : بَيْنَمَا رَاعٍ فِيْ غَنَمِهِ عَدَا الذِّئْبُ فَأَخَذَ مِنْهَا شَاةً، فَطَلَبَهَا حَتَّی اسْتَنْقَذَهَا، فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ الذِّئْبُ، فَقَالَ لَهُ : مَنْ لَهَا يَوْمَ السَّبُعِ، لَيْسَ لَهَا رَاعٍ غَيْرِيْ. فَقَالَ النَّاسُ : سُبْحَانَ اﷲِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَإِنِّيْ أُوْمِنُ بِهِ وَ أَبُوْبَکْرٍ وَ عُمَرُ. وَ مَا ثَمَّ أَبُوْبَکْرٍ وَ عُمَرُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

 

’’حضرت سعید بن مسیب اور ابو سلمہ بن عبد الرحمن رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم نے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک چرواہا اپنے ریوڑ کے ساتھ تھا کہ بھیڑئیے نے اس کے ریوڑ پر حملہ کر دیا اور ایک بکری پکڑ لی، چرواہے نے اس کا پیچھا کیا اور بکری چھڑوا لی۔ بھیڑئیے نے اس کی جانب متوجہ ہو کر کہا : بتاؤ چیر پھاڑ کے دن کون ان کی حفاظت کرے گا جب میرے سوا کوئی ان کا چرواہا نہیں ہوگا۔ لوگوں نے اس پر تعجب کیا اور کہا سبحان اللہ (کہ بھیڑیا انسانوں کی طرح بول رہا ہے)۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں اس واقعہ کی صحت پر یقین رکھتا ہوں اور ابوبکر و عمر بھی اس پر یقین رکھتے ہیں۔ حالانکہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہما وہاں موجود ہی نہ تھے۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 14 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1349، الحديث رقم : 3487، و في کتاب فضائل الصحابة، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم لو کنت متخذا خليلا، 3 / 1339، الحديث رقم : 3463، و مسلم فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل أبی بکر، 4 / 1857، الحديث رقم : 2388، و النسائی فی السنن الکبریٰ، 5 / 38، الحديث رقم : 8114، و البخاري في الأدب المفرد، 1 / 310، الحديث رقم : 902.

 

15. عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : بَيْنَمَا رَجُلٌ يَرْعٰی غَنَمًا لَهُ إِذْ جَاءَ ذِئْبٌ فَأَخَذَ شَاةً فَجَآءَ صَاحِبُهَا فَانْتَزَعَهَا مِنْهُ، فَقَالَ الذِّئْبُ : کَيْفَ تَصْنَعُ بِهَا يَوْمَ السَّبُعِ يَوْمَ لاَ رَاعِيَ لَهَا غَيْرِيْ؟ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَاٰمَنْتُ بِذَالِکَ أَنَا وَأَبُوْبَکْرٍ وَ عُمَرُ. قَالَ أَبُوْسَلَمَةَ : وَ مَا هُمَا فِي الْقَوْمِ يَوْمَئِذٍ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ

 

وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

 

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک چرواہا بکریاں چرا رہا تھا کہ اچانک ایک بھیڑیا آیا اور اس کی بکری پکڑ لی۔ چرواہے نے اس سے بکری چھین لی۔ بھیڑیا کہنے لگا کہ تم اس دن کیا کرو گے، جس دن صرف درندے رہ جائیں گے اور میرے علاوہ کوئی چرواہا نہ ہو گا؟ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں ابوبکر اور عمر اس واقعہ کو صحیح مانتے ہیں۔ ابو سلمہ فرماتے ہیں کہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بات فرمائی اس وقت یہ دونوں حضرات مجلس میں بھی موجود نہیں تھے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 15 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 623، الحديث رقم : 3695، و أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 382، الحديث رقم : 8950، و حميدي في المسند، 2 / 454، الحديث رقم : 1054.

 

 

16. عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَجُلاً سَأَلَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم السَّاعَةِ فَقَالَ : مَتَی السَّاعَةُ؟ قَالَ : وَ مَاذَا أعْدَدْتَ لَهَا؟ قَالَ : لَا شَيْئَ إِلَّا أنِّي أحِبُّ اﷲَ وَ رَسُوْلَهُ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : أنْتَ مَعَ مَنْ أحْبَبْتَ. قَالَ أنَسٌ : فَمَا فَرِحْنَا بِشَيْئٍ فَرِحْنَا بِقَوْلِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : أنْتَ مَعَ مَنْ أحْبَبْتَ قَالَ أنَسٌ : فَأنَا أُحِبُّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم وَ أبَا بَکْرٍ وَ عُمَرَ وَ أرْجُو أنْ أکُونَ مَعَهُمْ بِحُبِّيْ إِيَّاهُمْ، وَ إِنْ لَمْ أعْمَلْ بِمِثْلِ أعْمَالِهِمْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

 

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی صحابی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی؟ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا! تم نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے؟ وہ صحابی عرض گزار ہوا! میرے پاس تو کوئی عمل نہیں سوائے اس کے کہ میں اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں۔ فرمایا : تمہیں آخرت میں اسی کی معیت اور سنگت نصیب ہو گی جس سے تم محبت کرتے ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں کسی خبر نے اتنا خوش نہیں کیا جتنا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان نے کیا کہ ’’تم اسی کے ساتھ ہوگے جس سے محبت کرتے ہو‘‘۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا : میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں اور ابو بکر و عمر سے بھی لہٰذا امیدوار ہوں کہ ان کی محبت کے باعث ان حضرات کے ساتھ ہوں گا اگرچہ میرے اعمال ان جیسے نہیں۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 16 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1349، الحديث رقم : 3485، و مسلم في الصحيح، کتاب البر و الصلة و الأدب، باب المرء مع من أحب، 4 / 2032، الحديث رقم : 2639، و أحمد بن حنبل فی المسند، 3 / 227، الحديث رقم : 13395، و أبو يعلیٰ فی المسند، 6 / 180، الحديث رقم : 3465، و عبد بن حميد في المسند، 1 / 397، الحديث رقم : 1339، و المنذری في الترغيب و الترهيب، 4 / 14، 15، الحديث رقم : 4594.

 

17. عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا مِنْ نَبِيٍّ إِلاَّ لَهُ وَزِيرَانِ مِنْ أَهْلِ السَّمَاءِ، وَ وَزِيرَانِ مِنْ أَهْلِ الْأرْضِ، فَأَمَّا وَزِيرَايَ مِنْ أَهْلِ السَّمَاءِ فجِبْرِيلُ وَمِيکَائِيلُ، وَأَمَّا وَزِيرَايَ مِنْ أَهْلِ الأرْضِ فَأَبُوبَکْرٍ وَعُمَرُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ

 

وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

 

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر نبی کے لئے دو وزیر اہل آسمان سے اور دو وزیر اہل زمین سے ہوتے ہیں۔ پس اہل آسمان میں سے میرے دو وزیر جبرئیل و میکائیل ہیں اور اہل زمین میں سے میرے دو وزیر ابوبکر وعمر ہیں۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا : یہ حدیث حسن ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 17 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب مناقب ابوبکر و عمر، 5 / 616، الحديث رقم : 3680، و الحاکم في المستدرک، 2 / 290، الحديث رقم : 3047، و ابن الجعد في المسند، 1 / 298، الحديث رقم : 2026، و الديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 4 / 382، الحديث رقم : 7111.

 

18. عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يَخْرُجُ عَلَی أَصْحَابِهِ مِنَ المُهَاجِرِينَ وَ الأنْصَارِ، وَ هُمْ جُلُوسٌ، وَ فِيهِمْ أَبُوبَکْرٍ وَ عُمَرُ، فَلاَ يَرْفَعُ إِلَيْهِ أَحَدٌ مِنْهُمْ بَصَرَهُ إِلاَّ أَبُوبَکْرٍ وَ عُمَرُ، فَإِنَّهُمَا کَانَا يَنْظُرَانِ إِلَيْهِ وَ يَنْظُرُ إِلَيْهِمَا وَ يَتَبَسَّمَانِ إِلَيْهِ، وَ يَتَبَسَّمُ إِلَيْهِمَا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

 

’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مہاجرین و انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی مجلس میں تشریف لاتے جس میں حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما بھی موجود ہوتے تو اس مجلس صحابہ میں سے ابوبکر و عمر کے علاوہ کوئی ایک شخص بھی آنکھ اٹھا کر چہرہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نہ دیکھ سکتا تھا۔ حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی طرف دیکھتے اور مسکراتے تھے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 18 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب مناقب أبوبکر و عمر، 5 / 612، الحديث رقم : 3668، و الطبري في الرياض النظرة، 1 / 338.

 

19. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ قَالَ : قَالَ عُمَرُ لِأبِيْ بَکْرٍ : يَا خَيْرَ النَّاسِ بَعْدَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ أَبُوْبَکْرٍ : أَمَا إنَّکَ إِنْ قُلْتَ ذَاکَ فَلَقَدْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ عَلٰی رَجُلٍ خَيْرٍ مِنْ عُمَرَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

 

وَفِي الْبَابِ عَنْ أَبِيْ الدَّرْدَاءِ.

 

’’حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا : ’’اے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے بہترین یہ سن کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا آگاہ ہوجاؤ اگر تم نے یہ کہا ہے تو میں نے بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عمر سے بہتر کسی آدمی پر ابھی تک سورج طلوع نہیں ہوا۔ اس حدیث امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘ اس باب میں حضرت ابو درداء سے بھی روایت مذکور ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 19 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 618، الحديث رقم : 3684، و الحاکم فی المستدرک، 3 : 96، الحديث رقم : 4508.

 

20. عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ اسْتَأْذَنَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فِی الْعُمْرَةِ فَقَالَ أَيْ أَخِيْ أَشْرِکْنَا فِيْ دُعَائِکَ وَ لَا تَنْسَنَا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَ ابْنُ مَاجَةَ.

 

وَ قَالَ التِّرْمِذِيُّ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

 

’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عمرہ کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا : اے میرے بھائی! ہمیں بھی اپنی دعاؤں میں شریک رکھنا اور ہمیں نہیں بھولنا۔ اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اورترمذی نے کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 20 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب الدعوات، باب فی دعاء النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 5 / 559، الحديث رقم : 3562. و إبن ماجه فی السنن، 2 / 966، الحديث رقم : 2894، و البيهقی فی شعب الإيمان، 6 / 502، الحديث رقم : 9059

 

21. عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم رَأَیٰ عَلَی عُمَرَ قَمِيْصًا أَبْيَضَ فَقَالَ ثَوْبُکَ هَذَا غَسِيْلٌ أَمْ جَدِيْدٌ؟ قَالَ : لَا. بَلْ غَسِيْلٌ : قَالَ : إِلْبَسْ جَدِيْدًا، وَ عِشْ حَمِيْدًا، وَ مُتْ شَهِيْدًا. رَوَاهُ ابْنَُماجة.

 

’’ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو سفید قمیض زیب تن کئے ہوئے دیکھا تو دریافت فرمایا : (اے عمر) تمہارا یہ قمیص نیا ہے یا پرانا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : یہ پرانا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (اﷲ کرے) تم ہمیشہ نیا لباس پہنو اور پر سکون زندگی بسر کرو اور تمہیں شہادت کی موت نصیب ہو۔ اس حدیث کو امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 21 : أخرجه أبن ماجه فی السنن، کتاب اللباس، باب ما يقول الرجل إذا لبس ثوبًا جديداً، 2 / 1178، الحديث رقم : 3558، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 88، الحديث رقم : 5620، والطبرانی فی المعجم الکبير، 12 / 283، الحديث رقم : 13127، وأبويعلیٰ في المسند، 9 / 402، الحديث رقم : 5545.

 

22. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ هِشَّامٍ قَالَ : کُنَّا مَعَ النَّبِيِ صلی الله عليه وآله وسلم، وَ هُوَ اٰخِذُ بِيَدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضی الله عنه فَقَالَ وَاﷲِ يَا رَسُوْلَ اﷲِ لَأنْتَ أحَبُّ إِلَيَّ مِنْ کُلِّ شَيْئٍ إِلَّا نَفْسِيْ، فَقَالَ النَّبِیُّ صلی الله عليه وآله وسلم وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهِ لَا يُؤْمِنُ أحَدُکُمْ حَتَّی أکُوْنَ أحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ نَفْسِهِ، قَالَ فَأنْتَ الآنَ أحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِيْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم اَلآنَ يَا عُمَُرُ. رَوَاهُ أحْمَدُ وَ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الأوْسَطِ وَ الْحَاکِمُ.

 

’’حضرت عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ مجھے ہر چیز سے بڑھ کر محبوب ہیں سوائے میری جان کے۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کی جان سے بڑھ کر محبوب نہیں ہو جاتا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! اب آپ مجھے میری جان سے بھی بڑھ کر محبوب ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عمر! اب تمہارا ایمان کامل ہو گیا ہے۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل نے مسند میں حاکم نے المستدرک میں اور طبرانی نے المعجم الاوسط میں روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 22 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 336، و الحاکم في المستدرک، 3 / 516، الحديث رقم : 5922، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 / 102، الحديث رقم : 317، و البزار في المسند، 8 / 384، الحديث رقم : 3459.

 

23. عَنِ الأسْوَدِ بْنِ سَرِيعٍ قَالَ : أَتَيْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنِّي قَدْ حَمِدْتُ رَبِّي تَبَارَکَ وَتَعَالَی بِمَحَامِدَ وَ مِدَحٍ، وَإِيَاکَ، قَالَ : هَاتِ مَاحَمِدْتَ بِهِ رَبَّکَ عَزَّوَجَلَّ، قَالَ : فَجَعَلْتُ أُنْشِدُهُ، فَجَاءَ رَجُلٌ أَدْلَمُ فَاسْتَأْذَنَ، قَالَ : فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بَيِّنْ بَيِّنْ، قَالَ : فَتَکَلَّمَ سَاعَةً ثُمَّ خَرَجَ، قَالَ : فَجَعَلْتُ أُنْشِدُهُ، قَالَ : ثُمَّ جَاءَ فَاسْتَأْذَنَ، قَالَ : فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : بَيِّنْ بَيِّنْ، فَفَعَلَ ذَاکَ مَرَّتَيْنِ أَوْثَلَاثًا، قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَنْ هَذَا الَّذِی اسْتَنْصَتَّنِي لَهُ؟ قَالَ : عُمَرُبْنُ الخَطَّابِ، هَذَا رَجُلٌ لاَ يُحِبُّ الْبَاطِلَ. رَوَاهُ أحْمَدُ.

 

’’ حضرت اسود بن سریع سے روایت ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا : یا رسول اﷲ! میں نے اﷲ تبارک و تعالیٰ کی حمد و ثنا اور آپ کی مدحت و نعت بیان کی ہے۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے جو اپنے رب کی حمد و ثنا کی ہے مجھے بھی سناؤ۔ راوی کہتے ہیں میں نے (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے) پڑھنا شروع کیا پھر ایک دراز قامت آدمی آیا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت طلب کی۔ راوی کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیان کرو، بیان کرو۔ راوی کہتے ہیں اس آدمی نے تھوڑی دیر کلام کیا پھر باہر چلا گیا۔ میں نے دوبارہ کلام پڑھنا شروع کیا تو وہ آدمی دوبارہ آگیا اور اجازت طلب کی۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیان کرو، بیان کرو! اس آدمی نے اس طرح دو دفعہ یاتین دفعہ کیا : میں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! یہ آدمی کون ہے جس کے لئے آپ نے مجھے چپ کرایا؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ عمر بن الخطاب ہے اور یہ وہ آدمی ہے جو باطل کو پسند نہیں کرتا۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 23 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 435، و البخاري في الأدب المفرد، 1 / 125، الحديث رقم : 342، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 118.

 

24. عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيْرِيْنَ قَالَ : مَا أَظُنُّ رَجُلاً يَنْتَقِصُ أَبَابَکْرٍ وَ عُمَرَ يُحِبُّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ

 

وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

 

’’حضرت محمد بن سیرین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں یہ خیال نہیں کرتا کہ جو شخص حضرت ابو بکر و عمر رضی اﷲ عنہما کی تنقیص کرتا ہے وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھتا ہو۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اورکہا یہ حدیث حسن ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 24 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 618، الحديث رقم : 3685

 

 

 

 

(3) بَابٌ فِي قَوْلِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : لَوْکَانَ نَبِيٌّ بَعْدِيْ لَکَانَ عُمَرُ

 

فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا 25. عَنْ أبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَقَدْ کَان فِيْمَا قَبْلکُمْ مِنَ الأمَمِ مُحَدَّثُوْنَ فَإِنْ يَکُ فِي أمَّتِي أحَدٌ فَإِنَّهُ عُمَرُ. و زَادَ زَکَرِ يَاءُ بْنُ أبِي زَائِدَةَ عَنْ سَعْدٍ عَنْ أبِي سَلَمَةَ عَنْ أبِيْ هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : لَقَدْ کَانَ فِيمَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ مِنْ بَنِيْ إِسْرَائِيْلَ رِجَالٌ يُکَلَّمُوْنَ مِنْ غَيْرِ أنْ يَّکُوْنُوْا أنْبِيَاءَ فَإِنْ يَکُنْ مِنْ أمَّتِي مِنْهُمْ أحَدٌ فَعُمَرُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

 

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلی امتوں میں محدَّث ہوا کرتے تھے اگر میری امت میں کوئی محدَّث ہے تو وہ عمر رضی اللہ عنہ ہے۔ زکریا بن ابی زائدہ نے سعد سے اور انہوں نے ابی سلمہ سے انہوں نے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے یہ الفاظ زیادہ روایت کئے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلے لوگوں یعنی بنی اسرائیل میں ایسے لوگ بھی ہوا کرتے تھے جن کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کلام فرماتا تھا حالانکہ وہ نبی نہ تھے۔ اگر ان جیسا میری امت کے اندر کوئی ہوتا تو وہ عمر ہوتا۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 25 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة باب مناقب عمر بن الخطابص، 3 / 1349، الحديث رقم : 3486، و في کتاب الأنبياء، باب أم حسبت أن أصحاب الکهف و الرقيم، 3 / 1279، الحديث رقم : 2382، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 583، الحديث رقم : 1261.

 

26. عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صلی الله عليه وآله وسلم، أَنَّهُ کَانَ يَقُوْلُ : قَدْ کَانَ يَکُوْنُ فِی الْأُمَمِ قَبْلَکُمْ مُحَدَّثُوْنَ فَإِنْ يَکُنْ فِي أُمَّتِی مِنْهُمْ أَحَدٌ، فَإِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ مِنْهُمْ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَ التِّرْمَذِيُّ.

 

وقَالَ ابْنُ وَهْبٍ : تَفْسِيْرُ مُحَدَّثُوْنَ مُلْهَمُوْنَ.

 

’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ تم سے پہلی امتوں میں محدَّثون ہوتے تھے۔ اگر میری امت میں کوئی محدَّث ان میں سے ہے تو وہ عمر بن الخطاب ہے، ابن وہب نے کہا محدَّث اس شخص کو کہتے ہیں جس پر الہام کیا جاتا ہو۔ اس حدیث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 26 : أخرجه مسلم فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة باب من فضائل عمر، 4 / 1864، الحديث رقم : 2398، و الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر بن الخطاب، 5 / 622، الحديث رقم : 3693، و ابن حبان فی الصحيح، 15 / 317، الحديث رقم : 6894، و الحاکم فی المستدرک علی الصحيحين، 3 / 92، الحديث رقم : 4499، و النسائي في السنن الکبریٰ، 5 / 39، الحديث رقم : 8119.

 

27. عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَوْکَانَ نَبِيٌّ بَعْدِيْ لَکَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ

 

وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

 

’’حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن الخطاب ہوتا۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اورکہا : یہ حدیث حسن ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 27 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 619، الحديث رقم : 3686، و أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 154، و الحاکم في المستدرک، 3 / 92، الحديث رقم : 4495، و الطبرانی فی المعجم الکبير، 17 / 298، الحديث رقم : 822، و الرویاني في المسند، 1 / 174، الحديث رقم : 223، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 356، الحديث رقم : 519.

 

28. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنَّهُ کَانَ فِيْمَنْ مَضَی رِجَالٌ يَتَحَدَّثُوْنَ نَبُوَّةً فَإِنْ يَّکُنْ فِي أمَّتِيْ أَحَدٌ مِّنْهُمْ فَعُمَرُ. رَوَاهُ ابْنُ أبِيْ شَيْبَةَ.

 

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سابقہ امتوں میں بعض لوگ ایسے بھی ہوتے تھے جو نبوت کی سی باتیں کرتے تھے اور اگر میری امت میں ایسا کوئی ہے تو وہ عمر ہے۔ اس حدیث کو ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 28 : أخرجه ابن أبيشبية في المصنف، 6 / 354، الحديث رقم : 31972.

 

29. عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : کَانَتْ فِي الْأمَمِ مُحَدَّثُوْنَ لَيْسُوْا بِأنْبِيَاءٍ فَإِنْ کَانَ فِي أمَّتِيْ فَعُمَرُ، رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُ.

 

’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلی امتوں میں محدَّثون ہوا کرتے تھے جو کہ انبیاء نہیں تھے اور اگر میری امت میں سے کوئی محدَّث ہے تو وہ عمر ہے۔ اس حدیث کو دیلمی نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 29 : أخرجه الديلمي في المسند الفردوس، 3 / 278، الحديث رقم : 4839

 

4) بَابٌ فِي تَبْشِيْرِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم لَهُ رضی الله عنه بِالْجَنَّةِ

 

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آپ رضی اللہ عنہ کو جنت کی بشارت دینا30. عَنْ أَبِيْ مُوْسٰی الأَشْعَرِيِّ قَالَ : بَيْنَمَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِيْ حَائِطٍ مِنْ حَائِطِ الْمَدِيْنَةِ، هُوَ مُتَّکِئٌ يَرْکُزُ بِعُوْدٍ مَعَهُ بَيْنَ الْمَاءِ وَ الطِّيْنِ، إِذَا اسْتَفْتَحَ رَجُلٌ. فَقَالَ : افْتَحْ وَ بَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ قَالَ : فَإِذَا أَبُوْبَکْرٍ فَفَتَحْتُ لَهُ وَ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ. قَالَ : ثُمَّ اسْتَفْتَحَ رَجُلٌ آخَرُ. فَقَالَ : افْتَحْ وَ بَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ، قَالَ : فَذَهَبْتُ فَإِذَا هُوَ عُمَرُ فَفَتَحْتُ لَهُ وَ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ. ثُمَّ اسْتَفْتَحَ رَجُلٌ آخَرُ. قَالَ : فَجَلَسَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : افْتَحْ وَ بَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ عَلَی بَلْوٰی تَکُوْنُ قَالَ : فَذَهَبْتُ فَإِذَا هُوَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ. قَالَ : فَفَتَحْتُ وَ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ. قَالَ : وَ قُلْتُ الَّذِيْ قَالَ : فَقَالَ : أللَّهُمَّ! صَبْرًا. أَوِ اﷲُ الْمُسْتَعَانُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَ هَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.

 

’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ کے ایک باغ میں تکیہ لگا کر بیٹھے ہوئے تھے، اور ایک لکڑی سے زمین کھرچ رہے تھے، ایک شخص نے دروازہ کھلوانا چاہا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دروازہ کھول کر آنے والے کو جنت کی بشارت دے دو، حضرت ابو موسیٰ اشعری نے کہا آنے والے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے، میں نے دروازہ کھول کر ان کو جنت کی بشارت دے دی۔ پھر ایک شخص نے دروازہ کھلوانا چاہا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دروازہ کھول کر آنے والے کوجنت کی بشارت دے دو، حضرت ابو موسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ میں گیا تو وہ حضرت عمر تھے۔ میں نے دروازہ کھول کر ان کو جنت کی بشارت دے دی، پھر ایک اور شخص نے دروازہ کھلوانا چاہا تو حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھ گئے اور فرمایا : دروازہ کھول دو اور آنے والے کو مصیبتوں کی بناء پرجنت کی بشارت دے دو، میں نے جا کر دیکھا تو وہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے، میں نے دروازہ کھولا اور ان کو جنت کی بشارت دی اور جو کچھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا وہ کہہ دیا، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے دعا کی : اے اللہ! صبر عطا فرما، یا کہا : اے اللہ توہی مستعان ہے۔ اس حدیث کو اما م بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

الحديث رقم 30 : أخرجه البخاری في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1350، الحديث رقم : 3490، و في کتاب الأدب، باب من نکت العود في الماء و الطين، 5 / 2295، الحديث رقم : 5862، و مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة باب من فضائل عثمان بن عفان، 4 / 1867، الحديث رقم : 2403، والبخاري في الأدب المفرد، 1 / 335، الحديث رقم : 965، و ابن جوزي في صفوة الصفوة، 1 / 299.

 

31. عَنْ عَبْدِاﷲِ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : يَطَّلِعُ عَلَيْکُمْ رَجُلٌ مِّنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَاطَّلَعَ أَبُوْبَکْرٍ، ثُمَّ قَالَ : يَطَّلِعُ عَلَيْکُمْ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ. فَاطَّلَعَ عُمَرُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ

 

وَفِي الْبَابِ عَن أَبِي مُوْسٰی وَ جَابِرٍ.

 

’’حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم پر ایک شخص داخل ہو گا وہ جنتی ہے چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا : تمہارے پاس ایک اور جنتی شخص آنے والا ہے پس اس مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ اس باب میں حضرت ابوموسیٰ اور حضرت جابر رضی اﷲ عنہما سے بھی روایات مذکور ہیں۔‘‘

 

الحديث رقم 31 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 622، الحديث رقم : 3694، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 104، الحديث رقم : 76 و الطبرانی فی المعجم الاوسط، 7 / 110، الحديث رقم : 7002، و الطبرانی فی المعجم الکبير، 10 / 167، الحديث رقم : 10343، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 57.

 

32. عَنْ عَبْدِالرَّحْمَنِ بْنِ حُمَيْدٍ عَنْ أَبِيْهِ أَنَّ سَعِيْدَ بْنَ زَيْدٍ حَدَّثَهُ فِيْ نَفَرٍ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : عَشْرَةٌ فِيْ الْجَنَّةِ أَبُوْبَکْرٍ فِي الْجَنَّةِ وَعُمَرُ فِي الْجَنَّةِ وَ عُثْمَانُ وَ عَلِيٌّ وَالزُّبَيْرُ وَطَلْحَةُ وَعَبْدُالْرَّحْمَنِ وَأبُوْعُبَيْدَةَ وَسَعْدُ ْبنُ أَبِيْ وَقَّاصٍ قَالَ : فَعَدَّ هَؤُلَاءِ التِّسْعَةَ وَسَکَتَ عَنِ الْعَاشِرِ فَقَالَ الْقَوْمُ نَنْشُدُکَ اﷲَ يَا أَبَاالْأَعْوَر!ِ مَنِ الْعَاشِرُ؟ قَالَ : نَشَدْتُمُوْنِيْ بِاﷲِ أَبُوْالْأَعْوَرِ فِي الْجَنَّةِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

 

’’حضرت عبد الرحمٰن بن حمید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے ایک مجلس میں اسے یہ حدیث بیان کی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دس آدمی جنتی ہیں، ابوبکر جنتی ہیں، عمر جنتی ہیں، عثمان، علی، زبیر، طلحہ، عبد الرحمٰن، ابو عبیدہ اور سعد بن ابی وقاص (جنتی ہیں)۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت سعید بن زید نو آدمیوں کا نام گن کر دسویں پر خاموش ہو گئے۔ لوگوں نے کہا اے ابو اعور! ہم آپ کو اﷲ تعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتے ہیں بتائیے کہ دسواں کون ہے؟ انہوں نے فرمایا : تم نے مجھے خدا کی قسم دی ہے۔ ابو اعور (سعید بن زید) جنتی ہے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 32 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب : مناقب عبدالرحمان بن عوف، 5 / 648، الحديث رقم : 3748، و الحاکم في المستدرک، 3 / 498، الحديث رقم : 5858، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 350، الحديث رقم : 31946، و النسائي في السنن الکبریٰ، 5 / 56، الحديث رقم : 8195 وأیضاً فيفضائل الصحابة، 1 / 28، الحديث رقم : 92.

 

33. عَنْ سَعِيْدِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ أَنَّهُ قَالَ : أَشْهَدُ عَلَی التِّسْعَةِ أَنَّهُمْ فِي الْجَنَّةِ وَ لَوْ شَهِدْتُ عَلَی الْعَاشِرِ لَمْ آثَمْ قِيْلَ وَکَيْفَ ذَلِکَ؟ قَالَ : کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بِحِرَاءَ فَقَالَ : اثْبُتْ حِرَاءُ فَإِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْکَ إِلَّا نَبِيٌّ أَوْ صِدِّيْقٌ أَوْ شَهِيْدٌ قِيْلَ وَمَنْ هُمْ؟ قَالَ : رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَأَبُوْبَکْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ، وَعَلِيٌّ، وَطَلْحَةُ، وَالزُّبَيْرُ وَسَعْدٌ، وَعَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ قِيْلَ فَمَنِ الْعَاشِرُ؟ قَالَ : أَنَا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

 

وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

 

’’ حضرت سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نو آدمیوں کے بارے میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ جنتی ہیں اور اگر میں دسویں آدمی کے بارے میں بھی گواہی دوں تو گناہ گار نہ ہوں گا۔ پوچھا گیا وہ کیسے؟ فرمایا : ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ کوہ حراء پر تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے حراء ٹھہر جا۔ کیونکہ تجھ پر نبی، صدیق اور شہید ہی تو ہیں۔ پوچھا گیا وہ کون تھے؟ فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت سعد اور حضرت عبدالرحمن بن عوف ث پوچھا گیا دسواں کون تھا؟ فرمایا : میں تھا۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 33 : أخرجه الترمذی في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب مناقب سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل رضی الله عنه : 5 / 651، الحديث رقم : 3757، والحاکم فی المستدرک، 3 / 509، الحديث رقم : 5898، و النسائی في السنن الکبری، 5 / 55، الحديث رقم : 8190.

 

34. عَنْ أبَيِّ بْنِ کَعْبٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَوَّلُ مَنْ يُصَافِحُهُ الْحَقُّ عُمَرُ، وَأَوَّلُ مَنْ يُسَلِّمُ عَلَيْهِ، وَأَوَّلُ مَنْ يَأْخُذُ بِيَدِهِ فَيُدْخِلُهُ الْجَنَّةَ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ.

 

’’حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حق تعالیٰ سب سے پہلے جس شخص سے مصافحہ فرمائے گا وہ عمر ہے اور سب سے پہلے جس شخص پر سلام بھیجے گا اور سب سے پہلے جس کا ہاتھ پکڑ کر جنت میں داخل فرمائے گا وہ عمر ہے۔ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 34 : أخرجه ابن ماجة في السنن، المقدمه، باب فضل عمر، 1 / 39، الحديث رقم : 104، و الحاکم في المستدرک، 3 / 90، الحديث رقم : 4489، و الطبراني في المعجم الاوسط، 5 / 369، الحديث رقم : 5584، و الديلمي في الفردوس بماثور الخطاب، 1 / 25، الحديث رقم : 36.

 

35. عَنُْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم لِأَصْحَابِهِ ذَاتَ يَوْمٍ : مَنْ شَهِدَ مِنْکُمُ الْيَوْمَ جَنَازَةً؟ قَالَ عُمَرُ : أَنَا. قَالَ : مَنْ عَادَ مِنْکُمْ مَرِيْضًا؟ قَالَ عُمَرُ : أَنَا. قَالَ : مَنْ تَصَدَّقَ؟ قَالَ عُمَرُ : أَنَا. قَالَ : مَنْ أَصْبَحَ صَائِماً؟ قَالَ عُمَرُ : أَنَا. قَالَ : وَجَبَتْ، وَجَبَتْ. رَوَاهُ أحْمَدُ.

 

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ سے پوچھا : آج کس نے جنازہ پڑھا ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آج کس نے کسی مریض کی تیمارداری کی ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا : آج کس نے صدقہ کیا ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عرض گزار ہوئے : میں نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آج کون روزے سے رہا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (عمر کے لئے جنت) واجب ہوگئی، واجب ہوگئی۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 35 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 118، الحديث رقم : 12202و ابن أبي شيبة في المصنف، 2 / 444، الحديث رقم : 10844، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 163.

 

36. عَنْ أَبِیْ هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ سِرَاجُ أهْلِ الْجَنَّةِ. رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُّ وَ أبُوْ نُعَيْمٍ.

 

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ عمر بن الخطاب اہل جنت کا چراغ ہے۔‘‘ اس حدیث کو دیلمی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔

 

الحديث رقم 36 : أخرجه الديلمی فی مسند الفردوس، 3 / 55، الحديث رقم : 4146، و الهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 74، و ابو نعيم فی حلية الاولياء، 6 / 333.

 

 

(5) بَابٌ فِي ذِکْرِ قَصْرِهِ رضی الله عنه فِي الْجَنَّةِ

 

جنت میں آپ رضی اللہ عنہ کے محل کا بیان37. عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ : بَيْنَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إِذْ قَالَ : بَيْنَا أَنَا نائِمٌ رَأَيْتُنِيْ فِي الْجَنَّةِ، فَإِذَا امْرَأَةٌ تَتَوَضَّأُ إِلَی جَانِبِ قَصْرٍ، فَقُلْتُ : لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ؟ قَالُوْا : لِعُمَرَ، فَذَکَرْتُ غَيْرَتَهُ، فَوَلَّيْتُ مُدْبِراً، فَبَکَی عُمَرُ وَ قَالَ : أَ عَلَيْکَ أَغَارُ يَارَسُوْلَ اﷲِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

 

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں سویا ہوا تھا کہ میں نے خود کو جنت میں پایا وہاں میں نے ایک محل کے کونے میں ایک عورت کو وضوکرتے ہوئے دیکھا۔ میں نے پوچھا یہ محل کس کا ہے؟ جواب ملا عمر کا۔ پس مجھے ان کی غیرت یاد آگئی۔ اس لئے میں الٹے پاؤں لوٹ آیا۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور عرض گزار ہوئے، یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا میں آپ پر بھی غیرت کرسکتا ہوں؟۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 37 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1346، الحديث رقم : 3477، و في کتاب بدء الخلق، باب ما جاء في صفة الجنة، 3 / 1185، الحديث رقم : 3070، و في کتاب النکاح، باب الغيرة، 5 / 2004، الحديث رقم : 4929، و مسلم فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عمر، 4 / 1863، الحديث رقم : 2395، و ابن حبان فی الصحيح، 15 / 311، الحديث رقم : 6888، و النسائي في السنن الکبریٰ، 5 / 41، الحديث رقم : 8129. .

 

38. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : رَأَيْتُنِي دَخَلْتُ الْجَنَّةَ، فَإِذَا أَنَا بِالرُّمَيْصَاءِ، امْرَأَةِ أَبِي طَلْحَةَ، وَ سَمِعْتُ خَشَفَةً، فَقُلتُ : مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ : هَذَا بِلاَلٌ، وَ رَأَيْتُ قَصْراً بِفِنَائِهِ جَارِيَةٌ، فَقُلْتُ : لِمَنْ هَذَا؟ فَقَالَ : لِعُمَرَ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَدْخُلَهُ فَأَنْظُرَ إِلَيهِ، فَذَکَرْتُ غَيْرَتَکَ. فَقَالَ عُمَرُ : بِأبِيْ وَ أُمِّي يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَ عَلَيْکَ أَغَارُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

 

’’حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے (شبِ معراج) خود کو جنت میں پایا تو وہاں ابوطلحہ کی بیوی رمیصاء کو دیکھا اور میں نے قدموں کی چاپ سنی پس میں نے پوچھا یہ کس کے قدموں کی آواز ہے؟ جواب ملا یہ بلال ہے اور میں نے ایک محل دیکھا جس کے صحن میں ایک نو عمر عورت تھی میں نے پوچھا یہ کس کا مکان ہے؟ جواب ملا کہ عمر رضی اللہ عنہ کا میں نے ارادہ کیا کہ اس کے اندر داخل ہوکر اسے دیکھوں لیکن تمہاری غیرت یاد آگئی۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ عرض گزار ہوئے، یارسول اﷲ! میرے ماں باپ آپ پر قربان، کیا میں آپ پر بھی غیرت کر سکتا ہوں؟ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 38 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1346، الحديث رقم : 3476، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 389، الحديث رقم : 15226.

 

39. عَنْ جَابِرٍ عَنِ النَّبِیِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ دَخَلْتُ الْجَنَّةَ فَرَأَيْتُ فِيْهَا دَارًا أو قَصْرًا فَقُلْتُ : لِمَنْ هٰذَا؟ فَقَالُوا : لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَأرَدْتُ أنْ أدْخُلَ فَذَکَرْتُ غَيْرَتَکَ فَبَکَی عُمَرُ وَ قَالَ : أيْ رَسُولَ اﷲِ أوَ عَلَيْکَ يُغَارُ؟ رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

 

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں جنت میں داخل ہوا میں نے وہاں ایک گھر یا محل دیکھا۔ میں نے پوچھا یہ کس کا محل ہے؟ حاضرین نے کہا یہ عمر بن الخطاب کا محل ہے میں نے اس میں داخل ہونے کا ارادہ کیا پھر مجھے تمہاری غیرت یاد آگئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رونے لگے اور عرض کیا : یا رسول اﷲ! کیا آپ پر بھی غیرت کی جا سکتی ہے۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 39 : أخرجه مسلم فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عمر، 4 / 1862، الحديث رقم : 2394.

 

40. عَنْ أَبِيْ بُرَيْدَةَ قَالَ : أَصْبَحَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَدَعَا بِلَالًا فَقَالَ : يَا بِلَالُ بِمَ سَبَقَتْنِيْ إِلَی الْجَنَّةِ؟ مَا دَخَلْتُ الْجَنَّةَ قَطُّ إِلاَّ سَمِعْتُ حَشْخَشَتَکَ أَمَامِي، دَخلْتُ الْبَارِحَةَ الْجَنَّةَ فَسَمِعْتُ خَشْخَشَتَکَ أَمَامِيْ، فَأَتَيْتُ عَلَی قَصْرٍ مُرَبَّعٍ مُشَرَّفٍ مِنْ ذَهَبٍ، فَقُلْتُ : لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ؟ قَالُوْا : لِرَجُلٍ مِنَ الْعَرَبِ، فَقُلْتُ : أَنَا عَرَبِيٌّ، لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ؟ قَالُوْا لِرَجُلٍ مِنْ قُرِيْشٍ، فَقُلْتُ : أَنَا قُرَشِيٌّ، لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ؟ قَالُوْا : لِرَجُلٍ مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ فَقُلْتُ : أَنَا مُحَمَّدٌ لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ؟ قَالُوْا : لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ. فَقَالَ بِلاَلٌ : يَارَسُوْلَ اﷲِ مَا أَذَّنْتُ قَطُّ إِلاَّ صَلَّيْتُ رَکْعَتَيْنِ وَ مَا أصَابَنِيْ حَدَثٌ قَطُّ إِلَّا تَوَضَّأتُ عِنْدَهَا وَ رَأيْتُ أنَّ لِلّٰهِ عَلَيَّ رَکْعَتَيْنِ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : بِهِمَا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ

 

وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

 

وَ فِي الْبَابِ عَنْ جَابِرٍ، وَمُعَاذٍ، وَ أَنَسٍ، وَأَبِيْ هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : رَأَيْتُ فِي الْجَنَّةِ قَصْرًا مِنْ ذَهَبٍ فَقُلْتُ : لِمَنْ هَذَا؟ فَقِيْلَ : لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ.

 

وَ مَعْنَی هَذَا الحديث : إِنِّيْ دَخَلْتُ الْبَارِحَةَ الْجَنَّةَ، يَعْنِيْ : رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ کَأَنِّي دَخَلْتُ الْجَنَّةَ، هَکَذَا رُوِيَ فِيْ بَعْضِ الحديث.

 

وَيُرْوٰی عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ : رُؤْيَا الأ نْبِيَاءِ وَحْيٌ.

 

’’حضرت بریدۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دن صبح کے وقت حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بلا کر فرمایا : بلال تم کس وجہ سے بہشت میں مجھ سے پہلے پہنچ گئے، جب بھی میں جنت میں داخل ہوا تو اپنے آگے تمہاری آہٹ سنی۔ رات کو بھی میں جنت میں داخل ہوا تو میں نے تمہارے قدموں کی آہٹ اپنے آگے سنی۔ پھر میں ایک مربع شکل کے محل کے پاس آیا جو سونے کا تھا۔ میں نے پوچھا یہ محل کس کا ہے؟ انہوں نے کہا ایک عربی نوجوان کا ہے۔ میں نے کہا عربی تو میں بھی ہوں، یہ محل کس عربی کا ہے انہوں نے کہا قریش کے ایک نوجوان کا ہے میں نے کہا قریشی تو میں بھی ہوں۔ یہ محل کس قریشی کا ہے؟ انہوں نے کہا محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک امتی کا ہے۔ میں نے کہا محمد تو میں ہوں پھر یہ محل (میرے) کس امتی کا ہے انہوں نے کہا عمر بن الخطاب کا ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! جب بھی میں نے اذان کہی تو دو رکعت نماز پڑھی اور جب بھی میں بے وضو ہوا تو فوراً دوسرا وضو کیا اور میں نے سمجھ لیا کہ میرے ذمہ اﷲ کی دو رکعتیں ضروری ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ان ہی دو رکعتوں سے تمہیں یہ درجہ ملا ہے۔ اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘

 

اس باب میں حضرت جابر، حضرت معاذ، حضرت انس اور حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنھم سے روایات مذکور ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے جنت میں سونے کا ایک محل دیکھا تو میں نے کہا یہ کس کا ہے تو کہا گیا یہ عمر بن خطاب کا ہے۔

 

اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ میں جنت میں داخل ہوا یعنی میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا میں جنت میں داخل ہوا بعض راویات میں اس طرح بیان کیا گیا ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انبیاء کا خواب وحی ہوتا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 40 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 620، الحديث رقم : 3689، و أحمد بن حنبل فی المسند، 5 / 354، الحديث رقم : 23047 و ابن حبان فی الصحيح، 15 / 561، الحديث رقم : 7086، و الحاکم فی المستدرک، 3 / 322، الحديث رقم : 5245، ، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 907، الحديث رقم : 1731.

 

41. عَنْ قَتَادَةَ قَالَ : حَدَّثَنَا أَنَسٌ، أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالً : بَيْنَمَا أنَا أسِيْحُ فِي الْجَنَّةِ، فَإِذَا أَنَا بِقَصْرٍ، فَقُلْتُ : لِمَنْ هٰذَا يَاجِبْرِيْلُ؟ وَ رَجَوْتُ أَنْ يَکُوْنَ لِي، قَالَ : قَالَ : لِعُمَرَ، قَالَ : ثُمَّ سِرْتُ سَاعَةً، فَإِذَا أَنَا بِقَصْرٍ خَيْرٍ مِنَ الْقَصْرِ الأوَّلِ، قَالَ : فَقُلْتُ : لِمَنْ هذَا يَا جِبْرِيلُ؟ وَ رَجَوْتُ أَنْ يَّکُوْنَ لِي. قَالَ : قَالَ : لِعُمَرَ، وَ إِنَّ فِيهِ لَمِنَ الْحُوْرِ الْعِيْنِ يَا أَبَا حَفْصٍ، وَ مَا مَنَعَنِيْ أَنْ أَدْخُلَهُ إِلاَّ غَيْرَتُکَ. قَالَ : فَاغْرَوْرَقَتْ عَيْنَا عُمَرَ، ثُمَّ قَالَ : أَمَّا عَلَيْکَ فَلَمْ أَکُنْ لِأغَارَ. رَوَاهُ أحْمَدُ.

 

’’حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس دوران جب میں جنت میں چل رہا تھا اچانک میرا گزر ایک محل کے پاس سے ہوا میں نے پوچھا : اے جبرائیل! یہ محل کس کا ہے؟ اور میں نے امید کی کہ یہ میرا ہی ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : جبرائیل نے کہا یہ عمر کا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تھوڑا اور چلا تو ایک ایسے محل کے پاس پہنچا جو پہلے والے سے بھی زیادہ خوبصورت تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں : میں نے پوچھا : اے جبرائیل! یہ محل کس کا ہے؟ اور میں نے یہ امید کی کہ یہ میرا ہی ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جبرائیل نے کہا یہ بھی عمر کا ہے اور اے ابو حفص اس میں خوبصورت آنکھوں والی حوریں بسیرا کرتی ہیں اور (اے عمر!) مجھے اس میں داخل ہونے سے سوائے تیری غیرت کے کسی چیز نے نہیں روکا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھیں اشک بار ہو گئیں اور پھر انہوں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! بھلا میں بھی آپ پر غیرت کروں گا میں نے کبھی آپ پر غیرت نہیں کی۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 41 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 269، الحديث رقم : 13874، و الهيثمی في مجمع الزوائد، 9 / 74، و المقدسي في الأحاديث المختارة، 7 / 109، الحديث رقم : 2529.

 

 

(6) بَابٌ فِيْ رُؤْيَا النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم الَّتِي تُحَدِّثُ عَنْ فَضَائِلِ عُمَرَ رضی الله عنه

 

(آپ رضی اللہ عنہ کے فضائل سے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک خوابوں کا بیان)42. عَنْ أَبِيْ سَعِيدٍ اِلْخُدْرِيِّ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُ النَّاسَ يُعْرَضُوْنَ عَلَيَّ وَعَلَيْهِمْ قُمُصٌ مِنْها مَا يَبْلُغُ الثُّدِيَّ وَ مِنْها مَا يَبْلُغُ دُونَ ذٰلِکَ. وَ عُرِضَ عَلَيَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَعَلَيْهِ قَمِيْصٌ يَجُرُّهُ قَالُوْا : مَاذَا أَوَّلْتَ ذَالِکَ؟ يَارَسُولَ اﷲِ! قَالَ الدِّيْنَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَ الْبُخَارِيُّ وَ التِّرْمِذِيُّ وَ النَّسَائِيُّ.

 

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں سویا ہوا تھا کہ دوران خواب میں نے دیکھا کہ مجھ پر لوگ پیش کئے جا رہے ہیں اس حال میں کہ انہوں نے قمیصیں پہنی ہوئی ہیں بعض کی قمیصیں سینے تک تھیں اور بعض لوگوں کی اس سے بھی کم، اور مجھ پر عمر بن الخطاب کو پیش کیا گیا۔ ان پر ایک ایسی قمیص تھی جس کو وہ گھسیٹ رہے تھے، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے دریافت کیا : یا رسول اﷲ! آپ نے اس کی کیا تعبیر فرمائی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس کی تعبیر دین ہے۔ اس حدیث کو امام مسلم، بخاری، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم42 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب الايمان، باب تفاضيل أهل الإيمان في الأعمال، 1 / 17، الحديث رقم : 23، و في کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمر، 3 / 1349، الحديث رقم : 3488، و مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عمر، 4 / 1859، الحديث رقم : 2390، و الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب الروياء عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، باب في رؤيا النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 4 / 539، الحديث رقم : 2285، و النسائي في السنن، کتاب الإيمان و شرائعة، باب زيارة الإيمان، 8 / 113، الحديث رقم : 504، و الدارمي في السنن، کتاب الروياء، باب في القمص و البئر، 2 / 170، الحديث رقم : 2151.

 

43. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ أنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ أرِيْتُ فِي الْمَنَامِ أنِّي أنْزِعُ بَدَلْوِ بَکَرَةٍ عَلَی قَلِيْبٍ فَجَاءَ أبُوْ بَکْرٍ فَنَزَعَ ذَنُوبًا أوْ ذَنُوبَيْنِ نَزْعًا ضَعِيْفًا وَاﷲُ يَغْفِرُ لَهُ ثُمَّ جَاءَ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ فَاسْتَحَالَتْ غَرْبًا فَلَمْ أرَ عَبْقَرِيًّا يَفْرِيْ فَرِيَّهُ حَتَّی رَوِيَ النَّاسُ وَضَرَبُوا بِعَطَنٍ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

 

’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : خواب میں مجھے دکھایا گیا کہ میں ایک کنویں سے ڈول کے ذریعے پانی نکال رہا ہوں جس پر چرخی لگی ہوئی ہے، پھر ابو بکر آئے اور انہوں نے ایک یا دو ڈول نکالے لیکن انہیں کچھ مشکل پیش آ رہی تھی۔ اﷲ تعالی انہیں معاف فرمائے۔ (مراد، ان کے دور خلافت کی مشکلات ہیں جو آپ رضی اللہ عنہ نے مرتدین، منکرین زکوٰۃ اور جھوٹے مدعیان نبوت کے فتنوں کو کچلنے میں اٹھائیں۔ آپکا پورا اڑھائی سالہ دور انہی مشکلات سے نبرد آزمائی میں گزرا) ان کے بعد عمر بن خطاب آئے تو وہ ڈول ایک بڑے ڈول میں تبدیل ہو گیا اور میں نے کسی بھی جوان مرد کو اس طرح کام کرتے ہوئے نہیں دیکھا یہاں تک کہ تمام لوگ خود بھی سیراب ہوئے اورجانوروں کو بھی سیراب کرکے ان کے ٹھکانوں پر لے گئے۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔‘‘

 

الحديث رقم43 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1347، الحديث رقم : 3479، و مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عمر، 4 / 1862، الحديث رقم : 2393، و أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 39، الحديث رقم : 4972، و ابن أبي شيبه في المصنف، 6 / 177، الحديث رقم : 30485، وأيضا في 6 / 353، الحديث رقم : 31969، و أبويعلي في المسند، 9 / 387، الحديث رقم : 5514.

 

44. عَنْ أبِيْ هُرَيْرَةَ يَقُوْلُ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ بَيْنَا أنَا نَائِمٌ رَأيتُنِيْ عَلَی قَلِيْبٍ عَلَيْهَا دَلْوٌ فَنَزَعْتُ مِنْهَا مَا شَاءَ اﷲُ ثُمَّ أخَذَهَا ابْنُ أبِيْ قُحَافَةَ فَنَزَعَ بِهَا ذَنُوْبًا أوْ ذَنُوْبَيْنِ وَ فِيْ نَزْعِهِ وَاﷲُ يَغْفِرُ لَهُ ضَعْفٌ ثُمَّ اسْتَحَالَتْ غَرْبًا فَأخَذَهَا ابْنُ الْخَطَّابِ فَلَمْ أرَ عَبْقَرِيًّا مِنَ النَّاسِ يَنْزِعُ نَزْعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ حَتَّی ضَرَبَ النَّاسُ بِعَطَنٍ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

 

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں سویا ہوا تھا کہ میں نے اپنے آپ کو ایک کنویں کے پاس دیکھا جس پر ڈول رکھا ہوا تھا میں نے جتنا چاہا اس سے پانی نکالا پھر ابن ابی قحافہ نے اس سے ایک یا دو ڈول نکالے۔ اﷲ ان کی مغفرت فرمائے ان کو پانی نکالنے میں کچھ مشکل پیش آرہی تھی (اس کا اشارہ دور خلافت صدیقی کی مشکلات کی طرف ہے)۔ پھر وہ ڈول بڑا ہو گیا اور عمر بن الخطاب نے اس سے پانی نکالا اور میں نے لوگوں میں عمر جیسا عبقری (غیر معمولی صلاحیت والا) کوئی نہیں دیکھا جو عمر بن الخطاب کی طرح پانی کھینچتا ہو حتی کہ لوگ خود بھی سیراب ہوئے اور اپنے اپنے اونٹوں کو بھی سیراب کرکے بٹھا دیا۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 44 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عمر، 4 / 1861، 1860، الحديث رقم : 2392، و البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب قول النبي صلي الله عليه وآله وسلم لو کنت متخذا خليلًا، 3 / 1340، الحديث رقم : 3464، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 322، الحديث رقم : 6898، و النسائي في السنن الکبریٰ 5 / 39، الحديث رقم : 8116، و البيهقي في السنن الکبریٰ، 8 / 153.

 

45. عَنْ أبِيْ هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ بَيْنَا أنَا نَائِمٌ أرِيْتُ أنِّيْ أنْزِعُ عَلَی حَوْضِئ أسْقِيَ النَّاسَ فَجَاءَ نِيْ أبُوبَکْرٍ فَأخَذَ الدَّلْوَ مِن يَدِيْ لِيُرَوِّحَنِيْ فَنَزَعَ دَلْوَيْنِ وَ فِيْ نَزْعِهِ ضَعْفٌ وَاﷲُ يَغْفِرُ لَهُ فَجَاءَ ابْنُ الْخَطَّابِ فَأخَذَ مِنْهُ فَلَمْ أرَ نَزْعَ رَجُلٍ قَطُّ أقْوَی مِنْهُ حَتَّی تَوَلَّی النَّاسُ وَ الْحَوْضُ مَلْآنُ يَتَفَجَّرُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

 

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں سویا ہوا تھا کہ دوران خواب مجھے دکھایا گیا : میں اپنے حوض سے پانی نکال کر لوگوں کو پلا رہا ہوں پھر ابو بکر آئے اور انہوں نے مجھے آرام پہنچانے کے لئے میرے ہاتھ سے ڈول لے لیا انہوں نے دو ڈول پانی نکالا اﷲ ان کی مغفرت کرے انہیں پانی نکالنے میں کچھ مشکل پیش آ رہی تھی، پھر ابن الخطاب آئے انہوں نے ان سے ڈول لے لیا میں نے کسی شخص کو ان سے زیادہ قوت کے ساتھ ڈول کھینچتے ہوئے نہیں دیکھا حتی کہ لوگ چلے گئے اور حوض بھرپور بہ رہا تھا۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 45 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة باب من فضائل عمر، 4 / 1861، الحديث رقم : 2392.

 

46. عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ أَنَّ رَجُلاً قَالَ : يَارَسُوْلَ اﷲِ! إِنِّيْ رَأَيْتُ کَأَنَّ دَلْوًا دُلِّيَ مِنَ السَّمَاءِ فَجَاءَ أَبُوْبَکْرٍ فَأَخَذَ بِعَرَاقِيْهَا فَشَرِبَ شُرْبًا ضَعِيْفًاَ ثُمَّ جَآءَ عُمَرُ فَأخَذَ بِعَرَاقِيْهَا فَشَرِبَ حَتَّی تَضَلَّعَ ثُمَّ جَآءَ عُثْمَانُ فَأخَذَ بِعَرَاقِيْهَا فَشَرِبَ حَتَّی تَضَلَّعَ ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ فَأَخَذَ بِعَرَاقِيْهَا فَانْتَشَطَتْ وَانْتَضَحَ عَلَيْهِ مِنْهَا شَيِئٌ. رَوَاهُ أبُوْدَاؤْدَ.

 

’’حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض گزار ہوا : یا رسول اﷲ! میں نے (خواب میں) دیکھا کہ گویا ایک ڈول آسمان سے لٹکایا گیا ہے۔ پس حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور اس کو کناروں سے پکڑ کر بمشکل پیا۔ (مراد ان کے دور خلافت کی مشکلات ہیں)۔ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے اور اسے کناروں سے پکڑ کر پیا یہاں تک کہ خوب شکم سیر ہو گئے۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آئے اور اس کو کناروں سے پکڑ کر پیا۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے تو انہوں نے اسے کناروں سے پکڑا تو وہ ہل گیا اور اس میں سے کچھ پانی ان کے اوپر گر گیا۔ اس حدیث کو امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 46 : أخرجه أبوداود في السنن، کتاب السنة، باب في الخلفاء، 4 / 208، الحديث رقم : 4637، و أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 21، الحديث رقم : 23873، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 356، الحديث رقم : 32001، و الطبراني في المعجم الکبير، 7 / 231، الحديث رقم : 6965، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 7 / 180، و ابن ابي عاصم في السنة، 2 / 540، الحديث رقم : 1141.

 

47. عَنْ أبِي الطُّفَيْلِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم رَأَيْتُ فِيْمَا يَرَی النَّائِمُ کَأَنِيْ أَنْزِعُ أَرْضًا وَرَدَتْ عَلَيَّ غَنَمٌ سُوْدٌ وَ غَنَمٌ عُفْرٌ فَجَاءَ أَبُوْبَکْرٍ فَنَزَعَ ذَنُوْبًا أَوْ ذَنُوْبَيْنِ وَفِيْهِمَا ضَعْفٌ وَاﷲُ يَغْفِرُلَهُ ثُمَّ جَاءَ عُمَرُ فَنَزَعَ فَاسَتَحَالَتْ غَرْبًا فَمَلأ الْحَوْضَ وَ أرْوَی الْوَارِدَةَ فَلَمْ أَرَ عَبْقَرِيًا أَحْسَنَ نَزْعًا مِنْ عُمَرَ فَأَوَّلْتُ أَنَّ السُّوْدَ الْعَرَبُ وَأَنَّ الْعُفْرَ الْعَجَمُ. رَوَاهُ أحْمَدُ.

 

’’حضرت ابو طفیل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں نے خواب دیکھا گویا میں ایک زمین سے جس میں مجھ پر کالی اور سرخی مائل سفید بکریاں وارد ہوئیں پانی کے ڈول نکال رہا ہوں پھر ابوبکر آئے اور انہوں نے ایک یا دو ڈول نکالے اور ان کو ڈول نکالنے میں مشکل پیش آ رہی تھی۔ اﷲ تعالیٰ ان کو معاف کرے پھر عمر آئے۔ پس انہوں نے بھی ڈول نکالے تو وہ ڈول ان کے ہاتھ میں بڑے ڈول میں تبدیل ہو گیا۔ پھر آپ نے حوض بھر دیا اور وادر ہونے والی بکریوں کو سیراب کر دیا اور میں نے کسی کو عمر سے بڑھ کر ڈول نکالنے والا نہیں دیکھا اور میں نے اس خواب کی تعبیر یہ کی کہ سیاہ بکریوں سے مراد عرب اور سرخی مائل سفید بکریوں سے مراد عجم ہیں۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 47 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 455، الحديث رقم : 23852، والهيثمي في مجمع الزوائد، 5 / 180.

 

48. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ أنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : بَيْنَا أنَا نَائِمٌ، شَرِبْتُ يَعْنِي اللَّبَنَ حَتَّی أنْظُرَ إِلَی الرِّيِّ يَجْرِيْ فِي ظُفُرِيْ أوْ فِي أظْفَارِي ثُمَّ نَاوَلْتُ عُمَرَ فَقَالُوا : فَمَا أوَّلْتَهُ يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ قَالَ : ’’الْعِلْمُ‘‘. رَوَاهُ الْبُخَارِيُ.

 

’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں سویا ہوا تھا کہ دورانِ خواب میں نے اتنا دودھ پیا کہ جس کی تازگی میرے ناخنوں سے بھی ظاہر ہونے لگی، پھر بچا ہوا میں نے عمر کو دے دیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ نے اس کی کیا تعبیر فرمائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس سے مراد ’’علم (نبوت کا حصہ ) ہے‘‘۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 48 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1346، الحديث رقم : 3478، و الدارمي في السنن، کتاب الرؤيا، باب في القمص و البئر و اللبن، 2 / 171، الحديث رقم : 2154، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 179، الحديث رقم : 30492.

 

49. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ عَنْ أبِيْهِ عَنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : بَيْنَا أنَا نَائِمٌ إِذْ رَأيْتُ قَدَحًا أتِيْتُ بِهِ فِيهِ لَبَنٌ فَشَرِبْتُ مِنْهُ حَتَّی إِنِّي لَأرَی الرِّیَّ يَجْرِی فِي أظْفَارِيْ ثُمَّ أعْطَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالُوْا : فَمَا أوَّلْتَ ذَالِکَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ! قَالَ ’’الْعِلْمُ‘‘. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

 

’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں سویا ہوا تھا کہ دوران خواب میں نے دیکھا میرے پاس دودھ کا پیالہ لایا گیا میں نے اس سے پی لیا حتی کہ میں نے دیکھا کہ اس کا اثر میرے ناخنوں سے جاری ہونے لگا پھر میں نے اپنا بچا ہوا دودھ عمر بن الخطاب کو دیا۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی کیا تعبیر فرمائی ہے آپ نے فرمایا علم (نبوت کا حصہ ہے)۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ ‘‘

 

الحديث رقم 49 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عمر، 4 / 1860، 1859، الحديث رقم : 2391، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 301، الحديث رقم : 6878، و النسائي في السنن الکبریٰ، 4 / 387، الحديث رقم : 7642، و البيهقي في السنن الکبریٰ، 7 / 49، الحديث رقم : 13102.

 

50. عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : رَأَيْتُ کَأَنِّيْ أُتِيْتُ بِقَدَحِ لَبَنٍ فَشَرِبْتُ مِنْهُ فَأَعْطَيْتُ فَضْلِيْ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالُوْا : فَمَا أَوَّلْتَهُ يَارَسُوْلَ اﷲِ؟ قَالَ : ’’الْعِلْمُ‘‘. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ

 

وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌٌ.

 

’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں نے خواب میں دیکھا کہ گویا میرے پاس ایک دودھ کا پیالہ لایا گیا۔ میں نے اس میں سے پی کر اپنا بچا ہوا عمر بن الخطاب کو دے دیا۔ لوگوں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ نے اس کی کیا تعبیر مراد لی؟ فرمایا : علم (نبوت کا حصہ ہے)۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا : یہ حدیث حسن ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 50 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في مناقب عمر، 5 / 619، الحديث رقم : 3687، و في کتاب الرؤيا، باب في رؤيا النبي، 4 / 539، الحديث رقم : 2284، و النسائي في السنن الکبریٰ، 5 / 40، الحديث رقم : 8122، و النسائي في فضائل الصحابة، 1 / 9، الحديث رقم : 21.

 

51. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاﷲِ، أَنَّهُ کَانَ يُحَدِّثُ، أَنَّ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : أُرِيَ اللَّيْلَةَ رَجُلٌ صَالِحٌ، أنَّ أبَابَکْرٍ نِيْطَ بِرَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، وَنِيْطَ عُمَرُ بِأَبِي بَکْرٍ، وَ نِيْطَ عُثْمَانُ بِعُمَرَ. قَالَ : جَابِرٌ : فَلَمَّا قُمْنَا مِنْ عِنْدِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قُلْنَا : أَمَّا الرَّجُلُ الصَّالِحُ فَرَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، وَأَمَّا تَنَوُّطُ بَعْضِهُمْ بِبَعْضٍ، فَهُمْ وُلَا ةُ هٰذَا الْأمْرِ الَّذِي بَعَثَ اﷲُ بِهِ نَبِيَّهُ صلی الله عليه وآله وسلم. رَوَاهُ أبُوْدَاؤْدَ.

 

’’حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : گزشتہ رات ایک نیک آدمی کو خواب دکھایاگیا کہ ابوبکر کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ منسلک کر دیا گیا اور عمر کو ابوبکر کے ساتھ اور عثمان کو عمر کے ساتھ۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس سے اٹھے تو ہم نے کہا : اس نیک آدمی سے مراد تو خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہیں۔ رہا بعض کا بعض سے منسلک ہونا تو وہ ان کا اس ذمہ داری کو سنبھالنا ہے جس کے لئے اﷲ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث فرمایا تھا۔ اس حدیث کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 51 : أخرجه أبوداؤد في السنن، کتاب السنة، باب في الخلفاء، 4 / 208، الحديث رقم : 4636، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 355، الحديث رقم : 14863، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 343، الحديث رقم : 6913، و الحاکم في المستدرک، 3 / 109، الحديث رقم : 4551، و في 3 / 75، الحديث رقم : 4438، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 537، الحديث رقم : 1134.

 

52. عَنِ بْنِ عُمَرَ قَالَ : خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ذاتَ غَدَاةٍ بَعْدَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ فَقَالَ : رَأَيْتُ قُبَيْلَ الْفَجْرِ کَأَنِّيْ أُعْطِيْتُ الْمَقَالِيْدَ وَالْمَوَازِيْنَ، فَأمَّا الْمَقَالِيْدُ فَهَذِهِ الْمَفَاتِيْحُ، وَأَمَّا الْمَوَازِيْنُ، فَهِيَ الَّتِيْ تَزِنُوْنَ بِهَا، فَوُضِعْتُ فِي کِفَّةٍ وَوُضِعَتْ أُمَّتِي فِي کِفَّةٍ فَوُزِنْتُ بِهِمْ، فَرَجَحْتُ ثُمَّ جِيءَ بِأَبِيْ بَکْرٍ، فَوُزِنَ بِهِمْ، فَوَزَنَ ثُمَّ جِيءَ بِعُمَرَ، فَوُزِنَ بِهِمْ، فَوَزَنَ، ثُمَّ جِيْءَ بِعُثْمَانَ فَوُزِنَ بِهِمْ، ثُمَّ رُفِعَتْ. رَوَاهُ أحْمَدُ و ابْنُ أبِيْ شَيْبَةَ.

 

’’حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک دن سورج طلوع ہونے کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری طرف تشریف لائے اور فرمایا : میں نے فجر سے تھوڑا پہلے خواب میں دیکھا گویا مجھے چابیاں اور ترازو عطاء کیے گئے۔ مقالید تو یہ چابیاں ہیں اور ترازو وہ ہیں جن کے ساتھ تم وزن کرتے ہو۔ پس مجھے ایک پلڑے میں رکھا گیا اور میری امت کو دوسرے پلڑے میں پھر وزن کیا گیا تو میرا پلڑا بھاری تھا۔ پھر ابو بکر صدیق کو لایا گیا پس ان کا وزن میری امت کے ساتھ کیا گیا تو ان کا پلڑا بھاری تھا۔ پھر عمر کو لایا گیا اور ان کا وزن میری امت کے ساتھ کیا گیا تو ان کا پلڑا بھاری تھا۔ پھر عثمان کو لایا گیا اور ان کا وزن میری امت کے ساتھ کیا گیا پھر وہ پلڑا اٹھا لیا گیا۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 52 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2 / 76، الحديث رقم : 5469، و ابن أبی شيبة في المصنف، 6 / 352، الحديث رقم : 31960، و في، 6 / 176، الحديث رقم : 30484، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 58.

 

7) بَابٌ فِيْمَا وَرَدَ لَهُ مِنَ الْفَضْلِ مِنْ مُوَافَقَتِهِ رضی الله عنه لِلْوَحْيِ

 

(آپ رضی اللہ عنہ کی رائے کی وحی سے موافقت)53. عَنْ أنَسٍ قَالَ : قَالَ عُمَرُ : وَافَقْتُ رَبِّي فِي ثَلاَثٍ : فَقُلْتُ يَا رَسُوْلَ اﷲِ! لَوِ اتَّخَذْنَا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيْمَ مُصَلًّی فَنَزَلَتْ ( وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيْمَ مُصَلَّی) وَ آيَةُ الْحِجَابِ، قُلْتُ يَارَسُوْلَ اﷲِ! لَوْ أمَرْتَ نِسَاءَ کَ أنْ يَحْتَجِبْنَ فَإِنَّهُ يُکَلِّمُهُنَّ الْبَرُّ وَ الْفَاجِرُ، فَنَزَلَتْ آيَةُ الْحِجَابِ وَ اجْتَمَعَ نِسَاءُ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي الْغَيْرَةِ عَلَيْهِ، فَقُلْتُ لَهُنَّ (عَسَی رَبُّهُ إِنْ طَلَّقَکُنَّ أنْ يُبَدِّلَهُ أزْوَاجًا خَيْرًا مِنْکُنَّ) فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

 

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میرے رب نے تین باتوں میں میری موافقت فرمائی۔ میں عرض گزار ہوا کہ یا رسول اﷲ! کاش! ہم مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنائیں تو حکم نازل ہوا۔ (اور مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بناؤ) اور پردے کی آیت، میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : یا رسول اﷲ! کاش آپ ازواج مطہرات کو پردے کا حکم فرمائیں کیونکہ ان سے نیک اور بد ہر قسم کے لوگ کلام کرتے ہیں تو پردے کی آیت نازل ہوئی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات نے رشک کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دباؤ ڈالا تو میں نے ان سے کہا۔ ’’اگر وہ آپ کو طلاق دے دیں تو قریب ہے کہ ان کا رب انہیں اور بیویاں عطا فرما دے جو اسلام میں آپ سے بہتر ہوں۔‘‘ تو یہی آیت نازل ہوئی۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے‘‘

 

الحديث رقم 53 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الصلاة، باب ما جاء في القبلة 1 / 157، الحديث رقم : 393، و في کتاب التفسير، باب و قوله و اتخذوا من مقام إبراهيم مصلی، 4 / 1629، الحديث رقم : 4213، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 319، الحديث رقم : 6896، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 23، الحديث رقم : 157، و سعيد بن منصور في السنن، 2 / 607، الحديث رقم : 215.

 

54. عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ عُمَرُ : وَافَقْتُ رَبِّيْ فِيْ ثَلاَثٍ : فِي مَقَامِ إِبْرَاهِيْمَ، وَ فِي الْحِجَابِ، وَ فِي أَسَارٰی بَدْرٍ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

 

’’حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میرے رب نے تین امور میں میری موافقت فرمائی، مقام ابراہیم میں، حجاب میں اور بدر کے قیدیوں میں (تین کا ذکر شہرت کے اعتبار سے ہے ورنہ ان آیات کی تعداد زیادہ ہے)۔ اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 54 : أخرجه مسلم فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عمر، 4 / 1865، الحديث رقم : 2399، و الطبرانی فی المعجم الاوسط، 6 / 92،93، الحديث رقم : 5896، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 586، الحديث رقم : 1276.

 

55. عَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِنَّ اﷲَ جَعَلَ الْحَقَّ عَلی لِسَانِ عُمَرَ وَ قَلْبِهِ وَ قَالَ ابْنُ عُمَرَ : مَا نَزَلَ بِالنَّاسِ أمْرٌ قَطُّ فَقَالُوْا فِيْهِ وَ قَالَ فِيْهِ عُمَرُ أوْقَالَ ابْنُ الْخَطَّابِ فِيْهِ شَکَّ خَارِجَةُ إِلَّا نَزَلَ فِيهِ الْقُرْآنُ عَلٰی نَحْوِ مَا قَالَ عُمَرُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

 

وً قَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. وَ فِي الْبَابِ عَنِ الْفَضْلِ بْنِ الْعَبَّاسِ وَ أَبِيْ ذَرٍّ وَ أَبِيْ هُرَيْرَةَ.

 

’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اﷲ نے عمر کی زبان اور دل پر حق جاری کر دیا ہے۔ حضرت ابن عمر کہتے ہیں جب کبھی لوگوں میں کوئی معاملہ درپیش ہوا اور اس کے متعلق لوگوں نے کچھ کہا اور حضرت عمر ابن خطاب نے بھی کچھ کہا (خارجہ بن عبد اﷲ راوی کو شک ہے کہ کس طرح آپ کا نام لیا گیا)۔ اس بارے میں رائے بیان کی تو ضرور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق قرآن نازل ہوا۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘ اس باب میں فضل بن عباس، ابو ذر اور ابو ہریرۃ رضی اللہ عنھم سے بھی روایات مذکور ہیں۔

 

الحديث رقم 55 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 617، الحديث رقم : 3682، و ابن حبان فی الصحيح، 15 / 318، الحديث رقم : 6895، و في 15 / 312، الحديث رقم : 6889، و أحمد بن حنبل فی المسند، 2 / 53، الحديث رقم : 5145، و الحاکم في المستدرک، 3 / 93، الحديث رقم : 4501، و الهيثمي في موراد الظمان، 1 / 536، الحديث رقم : 2184.

 

56. عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ : کَانَ عُمَرُ إِذَا رَأَی الرَّاْيَ نَزَلَ بِهِ الْقُرْانُ. رَوَاهُ ابْنُ أبِي شَيْبَةَ.

 

’’حضرت مجاہد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب کوئی رائے دیتے تو اس کے مطابق قرآن نازل ہوتا۔ اس حدیث کو ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 56 : أخرجه ابن أبيشبية في المصنف، 6 / 354، الحديث رقم : 31980

 

 

(8) بَابٌ فِي قَوْلِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ الشَّيْطَانَ يَفِرُّ مِنْ ظِلِّ عُمَرَ

 

(فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : بے شک شیطان عمر کے سائے سے بھی بھاگتا ہے )57. عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أبِيْ وَقَّاصٍ عَنْ أبِيْهِ قَالَ : اسْتَأذَنَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ عَلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَ عِنْدَهُ نِسْوَةٌ مِنْ قُرَيشٍ يُکَلِّمْنَهُ وَ يَسْتَکْثِرْنَهُ عَالِيَةً أصْوَاتُهُنَّ عَلَی صَوْتِهِ فَلَمَّا اسْتَأذَنَ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ قُمْنَ فَبَادَرْنَ الحِجَابَ فَأذِنَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَدَخَلَ عُمَرُ وَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَضْحَکُ فَقَالَ عُمَرُ : أضْحَکَ اﷲُ سِنَّکَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : عَجِبْتُ مِنْ هَؤُلاَءِ اللَّاتِي کُنَّ عِنْدِيْ فَلَمَّا سَمِعْنَ صَوْتَکَ ابْتَدَرْنَ الْحِجَابَ فَقَالَ عُمَرُ : فَأنْتَ أحَقُّ أنْ يَهَبْنَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ! ثُمَّ قَالَ عُمَرُ : يَا عَدُوَّاتِ أنْفُسِهِنَّ! أتَهَبْنَنِي وَ لَا تَهَبْنَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقُلنَ نَعَمْ أنْتَ أغْلَظُ مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِيْهًا یَا ابْنَ الخَطَّابِ! وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهِ مَا لَقِيَکَ الشَّيْطَانُ سَالِکًا فَجًّا قَطُّ إِلاَّ سَلَکَ فَجَّاً غَيْرَ فَجِّکَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.

 

’’حضرت سعد بن ابن وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت طلب کی اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس قریش کی کچھ عورتیں خوب اونچی آواز سے گفتگو کر رہی تھیں۔ جب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی تو وہ اٹھ کھڑی ہوئیں اور پردے میں چلی گئیں۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرانے لگے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عرض گزار ہوئے : یا رسول اﷲ! اﷲ تعالیٰ آپ کے دندانِ مبارک کو تبسم ریز رکھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں ان عورتوں پر حیران ہوں جو میرے پاس تھیں کہ جب انہوں نے تمہاری آواز سنی تو پردے میں چھپ گئیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عرض گزار ہوئے : یا رسول اﷲ! آپ زیادہ حق دار ہیں کہ یہ آپ سے ڈریں پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے اپنی جان کی دشمنو! تم مجھ سے ڈرتی ہو اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نہیں ڈرتیں؟ عورتوں نے جواب دیا ہاں! آپ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلہ میں سخت گیر اور سخت دل ہیں۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابن خطاب! اس بات کو چھوڑو۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! جب شیطان تمہیں کسی راستے پر چلتے ہوئے دیکھتا ہے تو تمہارے راستے کو چھوڑ کر دوسرا راستہ اختیار کر لیتا ہے۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 57 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1347، الحديث رقم : 3480، و في کتاب بدء الخلق، باب صفة أبليس و جنوده، 3 / 1199، الحديث رقم : 3120، و مسلم فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عمر، 4 / 1863، الحديث رقم : 2396، و النسائی فی السنن الکبری، 5 / 41، الحديث رقم : 8130، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 171، الحديث رقم : 1472، و الطبراني في المعجم الأوسط، 8 / 332، الحديث رقم : 8783، و أبویعلی في المسند، 2 / 132، الحديث رقم : 810.

 

58. عَنْ بُرِيْدَةَ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِيْ بَعْضِ مَغَازِيْهِ، فَلَمَّا انْصَرَفَ جَآءَ تْ جَارِيَةٌ سَوْدَآءُ، فَقَالَتْ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ إِنِّيْ کُنْتُ نَذَرْتُ إِنْ رَدَّکَ اﷲُ سَالِماً أَنْ أَضْرِبَ بَيْنَ يَدَيْکَ بِالدُّفِّ وَ أَتَغَنّٰی، فَقَالَ لَهَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنْ کُنْتِ نَذَرْتِ فَاضْرِبِيْ وَ إلاَّ فَلاَ. فَجَعَلَتْ تَضْرِبُ، فَدَخَلَ أَبُوْبَکْرٍ وَهِيَ تَضْرِبُ، ثُمَّ دَخَلَ عَلِيٌّ وَهِيَّ تَضْرِبُ، ثُمَّ دَخَلَ عُثْمَانُ وَ هِيَ تَضْرِبُ، ثُمَّ دَخَلَ عُمَرُ فَأَلْقَتِ الدُّفَّ تَحْتَ إِسْتِهَا ثُمَّ قَعَدَتْ عَلَيْهِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إِنَّ الشَّيْطَانَ لَيَخَافُ مِنْکَ يَا عُمَرُ، إِنِّيْ کُنْتُ جَالِساً وَهِيَ تَضْرِبُ فَدَخَلَ أَبُوْبَکْرٍ وَهِيَ تَضْرِبُ ثُمَّ دَخَلَ عَلِيٌّ وَ هِیَ تَضْرِبُ ثُمَّ دَخَلَ عُثْمَانُ وَ هِيَ تَضْرِبُ، فَلَمَّا دَخَلْتَ أَنْتَ يَا عُمَرُ! أَلْقَتِ الدُّفَّ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ

 

وَ قَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. وَ فِي الْبَابِ عَنْ عُمَرَ، وَعَائِشَةَ

 

’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مرتبہ کسی جہاد سے واپس تشریف لائے تو ایک سیاہ فام باندی حاضر ہوئی اور عرض کیا : یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اﷲ تعالیٰ آپ صلی اﷲ علیک وسلم کو صحیح سلامت واپس لائے تو میں آپ صلی اﷲ علیک وسلم کے سامنے دف بجاؤں گی اور گانا گاؤں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا : اگر تم نے نذر مانی تھی تو بجا لو ورنہ نہیں۔ اس نے دف بجانا شروع کیا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آ گئے وہ بجاتی رہی پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے آنے پر بھی وہ دف بجاتی رہی۔ لیکن اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ داخل ہوئے تو وہ دف کو نیچے رکھ کر اس پر بیٹھ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عمر! تم سے شیطان بھی ڈرتا ہے کیونکہ میں موجود تھا اور یہ دف بجا رہی تھی پھر ابوبکر، علی اور عثمان (یکے بعد دیگرے) آئے۔ تب بھی یہ بجاتی رہی لیکن جب تم آئے تو اس نے دف بجانا بند کر دیا۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 58 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 620، الحديث رقم : 3690، و حکيم ترمذي في نوادر الأصول في أحاديث الرسول، 1 / 230، و العسقلاني في فتح الباري، 11 / 588.

 

59. عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : کَانَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم جَالِسًا فَسَمِعْنَا لَغَطًا وَ صَوْتَ صِبْيَانٍ فَقَامَ رَسُوْلُ اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فَإِذَا حَبْشِيَّةٌ تَزْفِنُ وَ الصِّبْيَانُ حَوْلَهَا، فَقَالَ : يَا عَائِشَةُ تَعَالِيْ فَانْظُرِيْ فَجِئْتُ فَوَضَعْتُ لَحْيَيَّ عَلٰی مَنْکِبِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَيْهَا مَا بَيْنَ الْمَنْکِبِ إِلٰی رَأسِهِ، فَقَالَ لِيْ : أَمَا شَبِعْتِ، أَمَا شَبِعْتِ. قَالَتْ : فَجَعَلْتُ أَقُوْلُ لَا لِأنْظُرَ مَنْزِلَتِيْ عِنْدَهُ إِذْ طَلَعَ عُمَرُ، قَالَتْ : فَارْفَضَّ النَّاسُ عَنْهَا، قَالَتْ : فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنِّي لَأَنْظُرُ إِلیَ شَيَاطِيْنِ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ قَدْ فَرُّوْا مِنْ عُمَرَ. قَالَتْ : فَرَجَعْتُ رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

 

وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

 

’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما تھے اتنے میں ہم نے شور و غل اور بچوں کی آواز سنی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے تو دیکھا کہ ایک حبشی عورت ناچ رہی ہے اور بچے اس کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عائشہ آؤ دیکھو! میں گئی اور ٹھوڑی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک کندھے پر رکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھے اور سر کے درمیان سے دیکھنے لگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تمہارا جی نہیں بھرا؟ میں دیکھنا چاہتی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک میری کیا قدر و منزلت ہے؟ لہٰذا میں نے عرض کیا : ’’نہیں‘‘ اتنے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ آ گئے اور انہیں دیکھتے ہی سب لوگ بھاگ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں دیکھ رہا ہوں کہ شیاطین جن و انس عمر کو دیکھ کر بھاگ کھڑے ہوئے، پھر میں لوٹ آئی۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 59 : أخرجه الترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 621، الحديث رقم : 3691، و النسائی فی السنن الکبریٰ، 5 / 309، الحديث رقم : 8957، و العسقلاني في فتح الباري، 2 / 444، و إبراهيم حسيني في البيان و التعريف، 1 / 282، و المناوي في فيض القدير، 3 / 12.

 

60. عَنْ سُدَيْسَةَ مَوْلَاةِ حَفْصَةَ قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ الشَّيْطَانَ لَمْ يَلْقَ عُمَرَ مُنْذُ أَسْلَمَ إِلَّا خَرَّ لِوَجْهِهِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِيْ الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ وِ أسَنَادَهُ حَسَنٌ.

 

’’حضرت سدیسہ رضی اﷲ عنہا جو کہ حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا کی خادمہ ہیں وہ بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک جب سے عمر نے اسلام قبول کیا ہے شیطان جب بھی ان کے سامنے سے گزرتا ہے تو اپنا سر جھکا لیتا ہے۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کی اسناد حسن ہیں۔‘‘

 

الحديث رقم 60 : أخرجه الطبرانی فی المعجم الکبير، 24 / 305، الحديث رقم : 774، و الديلمی فی المسند الفردوس، 2 / 380، الحديث رقم : 3693، و الهيثمی فی مجمع الزوائد، 9 / 70، و المناوی فی فيض القدير، 2 / 352.

 

 

(9) بَابٌ فِي مَکَانَتِهِ رضي الله عنه الْعِلْمِيَّةِ

 

(آپ رضی اللہ عنہ کا علمی مقام و مرتبہ)61. عَنِ الْأزْرَقِ بْنِ قَيْسٍ قَالَ : صَلَّی بِنَا إِمَامٌ لَنَا يُکْنَی أبَا رَمْثَةَ فَقَالَ : صَلَّيْتُ هَذِهِ الصَّلَاةَ أوْ مِثْلَ هَذِهِ الصَّلاَةِ مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، قَالَ : وَ کَانَ أبُوْبَکْرٍ وَ عُمَرُ يَقُوْمَانِ فِي الصَّفِّ الْمُقَدَّمِ عَنْ يَمِيْنِهِ وَکَانَ رَجُلٌ قَدْ شَهِدَ التَّکْبِيْرَةَ الْأوْلٰی مِنَ الصَّلَاةِ، فَصَلَّی نَبِيُّ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ثُمَّ سَلَّمَ عَنْ يَمِيْنِهِ وَ عَنْ يَسَارِهِ حَتّٰی رَأيْنَا بَيَاضَ خَدَّيْهِ ثُمَّ انْفَتَلَ کَانْفِتَالِ أبِيْ رِمْثَةَ يَعْنِيْ نَفْسَهُ فَقَامَ الرَّجُلُ الَّذِيْ أدْرَکَ مَعَهُ التَّکْبِيْرَةَ الْأوْلٰی مِنَ الصَّلَاةِ يَشْفَعُ، فَوَثَبَ إِلَيْهِ عُمَرُ فَأخَذَ بِمَنْکَبَيْهِ فَهَزَّهُ ثُمَّ قَالَ : إِجْلِسْ فَإِنَّهُ لَمْ يَهْلِکْ أهْلُ الْکِتَابِ إِلاَّ أنَّهُ لَمْ يَکُنْ بَيْنَ صَلَوَاتِهِمْ فَصْلٌ، فَرَفَعَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بَصَرَهُ فَقَالَ : أصَابَ اﷲُ بِکَ يَا بْنَ الْخَطَّابِ. رَوَاهُ أبُوْدَاؤْدَ.

 

’’حضرت ارزق بن قیس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہمارے امام نے ہمیں نماز پڑھائی جن کا نام ابورمثہ تھا۔ انہوں نے فرمایا : ایک مرتبہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ یہی نماز یا اس جیسی نماز پڑھی۔ وہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ صف اول میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دائیں جانب کھڑے تھے۔ ایک شخص اور تھا جس نے تکبیر اولیٰ پائی تھی۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کو پورا کر چکے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرا یہاں تک کہ ہم لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک رخساروں کی سفیدی دیکھی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طرح کھڑے ہوئے جس طرح ابورمثہ کھڑے ہوئے۔ پھر وہ شخض جس نے تکبیر اولیٰ میں شرکت کی تھی وہ دو نفل پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جلدی سے اس کو کندھوں سے پکڑ لیا اور اس کو جھٹک کر بٹھا دیا اور فرمایا : اہل کتاب اس لئے ہلاک ہوئے کہ انہوں نے ایک نماز کو دوسری نماز سے علیحدہ نہ کیا۔ اسی وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آنکھ اٹھا کر دیکھا اور فرمایا : اے عمر بن الخطاب! اﷲ تعالیٰ نے تمہیں صحیح بات کہنے کی توفیق عطا فرمائی۔‘‘ اس حدیث کو امام ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔

 

الحديث رقم 61 : أخرجه أبوداؤد فی السنن، کتاب الصلوٰة، باب فی الرجل يتطوع في مکانه الذي صلي فيه المکتوبة، 1 / 264، الحديث رقم : 1007، والحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 1 / 403، الحديث رقم : 996، والبيهقي في السنن الکبریٰ، 2 / 190، الحديث رقم : 2867، والبيهقي في السنن الصغریٰ، 1 / 395، الحديث رقم : 676.

 

62. عَنْ قَبِيْصَةَ بْنِ جَابِرٍ قَالَ : مَا رَأيْتُ رَجُلًا أَعْلَمَ بِاﷲِ وَ لَا أَقْرَأ لِکِتَابِ اﷲِ، وَ أَفْقَهَ فِيْ دِيْنِ اﷲِ مِنْ عُمَرَ. رَوَاهُ ابْنُ أبِيْ شيبة.

 

’’ حضرت قبیصہ بن جابر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کوئی عالم باﷲ نہیں دیکھا اور نہ ہی ان سے بڑھ کر کوئی کتاب اﷲ کا قاری دیکھا ہے اور نہ ہی ان سے بڑھ کر کوئی اﷲ کے دین کا فقیہ دیکھا ہے۔ اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 62 : أخرجه ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 355، الحديث رقم : 31987، و في 6 / 139، الحديث رقم : 30130.

 

63. عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ : لَوْ أَنَّ عِلْمَ عُمَرَ وُضِعَ فِي کِفَّةِ الْمِيْزَانِ، وَوُضِعَ عِلْمُ أهْلِ الْأرْضِ فِي کِفَّةٍ لَرَجَحَ عِلْمُهُ بِعِلْمِهِمْ. قَالَ وَکِيْعٌ، قَالَ الْأعْمَشُ : فَأنْکَرْتُ ذَلِکَ فَأتَيْتُ إِبْرَاهِيْمَ فَذَکَرْتُهُ لَهُ فَقَالَ وَمَا أَنْکَرْتُ مِنْ ذَلِکَ؟ فَوَاﷲِ لَقَدْ قَالَ عَبْدُاللّٰهِ أَفْضَلُ مِنْ ذَلِکَ قَالَ : إِنِّيْ لَأحْسِبُ تِسْعَةَ أَعْشَارِ الْعِلْمِ ذَهَبَ يَوْمَ ذَهْبَ عُمَرَ. رَوَاهُ الطَّبْرَانِيُّ فِي الْمُعَجَمِ الْکَبِيْرِ.

 

’’حضرت عبد اﷲ ابن مسعود رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا علم ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور تمام اہل زمین کا علم دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو یقیناً حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا علم ان کے علم پر بھاری ہو گا۔ حضرت وکیع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اعمش نے کہا : میں نے اس چیز کا انکار کیا پس میں ابراہیم سے ملا اور ان کے سامنے یہ چیز بیان کی تو انہوں نے کہا میں اس کا انکار نہیں کرتا۔ پس خدا کی قسم! ابن مسعود نے اس سے بھی بڑھ کر کہا ہے وہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ علم کے دس حصوں میں سے 9 حصے اس دن چلے گئے جس دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس دنیا سے وصال فرما گئے۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے المعجم الکبیر میں بیان کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 63 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 9 / 163، الحديث رقم : 8809، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 69، وابن عبدالبر في التمهيد، 3 / 198، و ابن سعد في الطبقات الکبریٰ، 2 / 336. .

 

64. عَنْ عَبْدِ اﷲِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ : لَقِيَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم رَجُلًا مِنَ الْجِنِّ فَصَارَعَهُ، فَصَرَعَهُ الْإِنْسِيُّ فَقَالَ لَهُ الْإِنْسِيُّ : إِنِّيْ لَأرَاکَ ضَئِيْلًا شَخِيْتًا کَأَنَّ ذُرَيْعَتَکَ ذُرَيْعَتَي کَلْبٍ فَکَذٰلِکَ أَنْتُمْ مَعْشَرُ الْجِنِّ أَمْ أَنْتَ مِنْ بَيْنِهِمْ کَذٰلِکَ فَقَالَ : لَا وَاﷲِ إِنِّيْ مِنْهُمْ لَضَلِيْعٌ، وَلَکِنْ عَاوِدْنِي الثَّانِيَّةَ، فَإِنْ صَرَعْتَنِيْ عَلَّمْتُکَ شَيْئًا يَنْفَعُکَ قَالَ : نَعَمْ قَالَ : تَقَرَأُ ’’اﷲُ لَا إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّوْمُ‘‘؟ قَالَ : نَعَمْ قَالَ : فَإِنَّکَ لَا تَقْرَؤُهَا فِيْ بَيْتٍ إِلاَّ خَرَجَ مِنْهُ الشَّيْطَانُ لَهُ خَبَجٌ کَخَبَجِ الْحِمَارِ لَا يَدْخُلُهُ حَتَّی تُصْبِحَ.

 

وَ زَادَ الطَّبَرَانِيُّ قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ : يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ! مَنْ ذَاکَ الرَّجُلُ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ؟ فَعَبَسَ عَبْدُاللّٰهِ، وَ أَقْبَلَ عَلَيْهِ وَ قَالَ : مَنْ يَکُوْنُ هُوَ إِلَّا عُمَرُ رضی اﷲ عنه. . رَوَاهُ الدَّارَمِيُّ وَالطَّبْرَانِيُّ فِی الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ

 

’’حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم میں سے ایک صحابی ایک جن کو ملا اور اس کے ساتھ کشتی کی۔ پس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی نے اس جن کو پچھاڑ دیا پھر اسے کہا کہ تم نہایت کمزور اور دبلے پتلے ہو اور تمہارے ہاتھ کتے کے ہاتھ کی طرح کمزور ہیں۔ کیا تم جنات کا گروہ اسی طرح کا ہوتا ہے؟ یا تم ان میں سے اس طرح ہو تو وہ جن کہنے لگا : نہیں خدا کی قسم! میں ان سب میں سے ایک موٹا تازہ جن ہوں لیکن تم میرے ساتھ دوبارہ کشتی کرو۔ پس اگر تم نے مجھے دوبارہ پچھاڑ دیا تو میں تمہیں ایسی چیز سکھاؤں گا جو تمہیں نفع دے گی انہوں نے کہا ٹھیک ہے۔ (انہوں نے اسے دوبارہ پچھاڑ دیا) تو جن نے کہا کیا تم ’’اللّهُ لاَ إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ‘‘ پڑھتے ہو؟ انہوں نے کہا ہاں۔ جن نے کہا۔ یہ جس گھر میں بھی پڑھی جاتی ہے اس سے شیطان گدھے کی طرح ڈر کر بھاگتا ہے اور وہ اس گھر میں اس وقت تک داخل نہیں ہوتا جب تک تم صبح نہ کر لو۔ امام طبرانی کی روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے کہ لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا۔ اے ابو عبد الرحمٰن! اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے وہ آدمی کون سا تھا؟ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما نے پہلے تھوڑا تردد کیا۔ لیکن پھر فرمایا : وہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے؟ اس حدیث کو امام دارمی نے اپنی مسند میں اور امام طبرانی نے ’’ المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 64 : أخرجه الدارمی فی السنن، کتاب فضائل القرآن، باب فضل أول سورة البقرة و أية الکرسي، 2 / 540، الحديث رقم : 3381، و الطبراني في المعجم الکبير، 9 / 166، الحديث رقم : 8826، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 71

 

 

(10) بَابٌ فِي کَوْنِهِ رضي الله عنه غَلْقَ الْفِتْنَةِ

 

(آپ رضی اللہ عنہ امت میں فتنوں کی بندش کا باعث ہیں)65. عَنْ قُدَامَةَ ابْنِ مَظْعُوْنٍ أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رضي الله عنه أَدْرَکَ عُثْمَانَ بْنَ مَظْعُوْنَ وَ هُوَ عَلَی رَاحِلَتِهِ وَ عُثْمَانُ عَلَی رَاحِلَتِهِ عَلَی ثَنِيَّةِ الْأثَايَةِ مِنَ الْعَرْجِ فَضَغَطَتْ رَاحِلَتُهُ رَاحِلَةَ عُثْمَانَ وَ قَدْ مَضَتْ رَاحِلَةُ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَمَامَ الرَّکْبِ فَقَالَ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُوْنٍ : أَوْجَعْتَنِيْ يَا غَلْقَ الْفِتْنَةِ! فَلَمَّا اسْتَهَلَّتِ الرَّوَاحِلُ دَنَا مِنْهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رضي الله عنه فَقَالَ : يَغْفِرُ اﷲُ أَبَا السَّائِبِ مَا هَذَا الْإِسْمُ الَّذِيْ سَمَّيْتَنِيْهِ فَقَالَ : لَا وَاﷲِ مَا أَناَ الَّذِيْ سَمَّيْتُکَهُ سَمَّاکَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم هَذَا هُوَأَمَامَ الرَّکْبِ َيقْدِمُ الْقَوْمَ مَرَرْتَ بِنَا يَوْماً وَ نَحْنُ جَلُوْسٌ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ هَذَا غَلْقُ الْفِتْنَةِ وَ أَشَارَ بِيَدِهِ لَا يَزَالُ بَيْنَکُمْ وَ بَيْنَ الْفِتْنَةِ بَابٌ شَدِيَدُ الْغَلْقِ مَا عَاشَ هَذَا بَيْنَ ظَهْرَانِيْکُمْ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.

 

’’حضرت قدامہ بن مظعون رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو اس حال میں دیکھا کہ وہ اپنی سواری پرسوار تھے اور عرج کے علاقہ میں مقام اثایہ کی وادی میں چل رہے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سواری نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی سواری کو دھکا دیا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سواری قافلہ کے آگے چل رہی تھی۔ پس حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا : اے فتنوں کو روکنے والے تو نے مجھے تکلیف دی ہے۔ جب سواریاں رکیں تو حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قریب گئے اور کہا اے ابو سائب! اﷲ تعالیٰ تمہاری مغفرت فرمائے یہ کون سا نام ہے جو تو نے مجھے دیا ہے؟ انہوں نے کہا نہیں خدا کی قسم! میں وہ نہیں ہوں جس نے تمہیں یہ نام دیا ہے بلکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہیں یہ نام دیا ہے جو کہ آج اس لشکر کی قیادت فرما رہے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ ایک دن آپ رضی اللہ عنہ ہمارے پاس سے گزرے۔ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں بیٹھے ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ شخص یعنی عمر (دین اور امت کے خلاف اٹھنے والے) فتنوں کو روکنے والا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اشارہ بھی فرمایا اور فرمایا : یہ تمہارے اور فتنوں کے درمیان ایک سختی سے بند کیا ہوا دروازہ ہے جب تک یہ تمہارے درمیان زندہ ہے (فتنہ تمہارے اندر داخل نہیں ہو سکے گا)۔ اس کو امام طبرانی نے ’’ المعجم الکبیر‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 65 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 9 / 38، الحديث رقم : 8321، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 72، و العسقلاني في فتح الباري، 6 / 606.

 

66. عَنْ أَبِيْ ذَرٍّ، أنَّهُ لَقِيَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَأَخَذَ بِيَدِهِ فَغَمَزَهَا، وَ کَانَ عُمَرُ رَجُلًا شَدِيْدًا فَقَالَ : أَرْسِلْ يَدِيْ يَا قُفْلَ الْفِتْنَةِ فَقَالَ عُمَرُ : وَمَا قُفْلُ الْفِتْنَةِ؟ قَالَ : جِئْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ذَاتَ يَوْمٍ، وَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم جَالِسٌ، وَ قَدِ اجْتَمَعَ عَلَيْهِ النَّاسُ، فَجَلَسْتُ فِي آخِرِهِمْ. فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا تُصِيْبُکُمْ فِتْنَةٌ مَا دَامَ هَذَا فِيْکُمْ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِی الْمُعْجَمِ الأوْسَطِ.

 

’’ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو ملے پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کا ہاتھ پکڑ کر ہلایا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بہت مضبوط آدمی تھے تو حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا : اے ’’قفل الفتنۃ‘‘ (فتنوں کو روکنے والے دروازے کا تالا) میرا ہاتھ چھوڑئیے۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا یہ قفل الفتنۃ کیا ہے؟ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا : ایک دن میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما تھے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اردگرد جمع تھے۔ پس میں ان کے پیچھے بیٹھ گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تمہیں اس وقت تک فتنہ نہیں پہنچ سکتا جب تک یہ (عمر) تم میں موجود ہے۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الاوسط‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 66 : أخرجه الطبراني في المعجم الاوسط، 2 / 268، الحديث رقم : 1945، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 73، و العسقلاني في فتح الباري، 6 / 606.

 

67. عَنْ عَصْمَةَ قَالَ : قَدِمَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ بِإِبِلٍ لَهُ فَلقِيَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَأَشْتَرَاهَا مِنْهُ، فَلَقِيَهُ عَلِيٌّ فَقَالَ : مَا أَقْدَمَکَ قَالَ : قَدِمْتُ بِإِبِلٍ فَاشْتَرَاهَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ فَنَقْدُکَ قَالَ : لَا وَ لَکِنْ بِعْتُهَا مِنْهُ بِتَأَخِيْرٍ فَقَالَ عَلِيٌّ : إِرْجِعْ فَقُلْ لَهُ يَارَسُوْلَ اﷲِ إِنْ حَدَثَ بِکَ حَدْثٌ مَنْ يَقْضِيْنِيْ مَالِيْ؟ وَ انْظُرْ مَا يَقُوْلُ لَکَ، فَارْجِعْ إِلَيَّ حَتَّی تُعَلِّمَنِي، فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ إِنْ حَدَثَ بِکَ حَدْثٌ فَمَنْ يَقْضِيْنِي قَالَ : أَبُوْبَکْرٍ فَأعْلَمَ عَلِيًّا، فَقَالَ لَهُ : إِرْجَعْ إِسْألْهُ إِنْ حَدَثَ بِأَبِيْ بَکْرٍ حَدْثٌ فَمَنْ يَقْضِيْنِيْ فَسَألَهُ فَقَالَ : عُمَرُ فَجَاءَ فَأعْلَمَ عَلِيًّا فَقَالَ لَهُ : إِرْجَعْ فَسَلْهُ إِذَ ا مَاتَ عُمَرُ فَمَنْ يَقْضِيْنِيْ فَجَاءَ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : وَيْحَکَ إِذَا مَاتَ عُمَرُ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَمُوْتَ فَمُتْ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.

 

’’حضرت عصمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینہ کے اعرابیوں میں سے ایک اعرابی اونٹ لے کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے وہ اونٹ خرید لیا، پس اس کے بعد وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ملا تو انہوں نے اس سے دریافت کیا کہ تو کس لئے آیا تھا؟ اس نے جواب دیا کہ میں ایک اونٹ لے کر آیا تھا جو کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے خرید لیا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا : کیا تو نے نقد رقم کے بدلے میں اس کو فروخت کیا ہے۔؟ اس نے کہا نہیں بلکہ میں نے اسے ادھار رقم پر فروخت کیا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا : واپس جاؤ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کرو کہ یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم اگر آپ کو کچھ ہو جائے تو میرا مال مجھے کون دے گا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو جواب ارشاد فرمائیں وہ واپس آ کرمجھے بتانا۔ وہ شخص واپس گیا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کچھ ہو جائے تو میری رقم مجھے کون دے گا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ابو بکر، وہ شخص واپس حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جواب بتایا، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا کہ واپس جاؤ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کرو کہ اگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو کچھ ہو جائے تو پھر کون مجھ کو میرا مال دے گا پس اس شخص نے واپس جا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ عمر، وہ شخص واپس آیا اور حضر ت علی رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جواب بتایا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا کہ واپس جاؤ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پھر پوچھو کہ اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ فوت ہو جائیں تو پھر کون مجھ کو میرا مال دے گا، اس نے جا کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تجھے کیا ہو گیا ہے جب عمر فوت ہو جائے تو پھر تم بھی مرنے کی استطاعت رکھتے ہو تو مر جانا۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’ المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 67 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 17 / 180، الحديث رقم : 478، والهيثمي في مجمع الزوائد، 5 / 179، و الحسيني في البيان و التعريف، 2 / 264، و المناوي في فيض القدير، 6 / 366.

 

68. عَنْ عُمَيْرِ بْنِ رَبِيْعَةَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَرْسَلَ إِلَی کَعْبِ الْأحْبَارِ، فَقَالَ : يَا کَعْبُ! کَيْفَ تَجِدُ نَعْتِيْ؟ قَالَ : أَجِدُ نَعْتَکَ قَرْنًا مِنْ حَدِيْدٍ، قَالَ : وَمَا قَرْنٌ مِنْ حَدِيْدٍ؟ قَالَ : أَمِيْرٌ سَدِيْدٌ، لاَ يَأَخُذُهُ فِيْ اﷲِ لَؤْمَةُ لاَئِمٍ، قَالَ : ثُمَّ مَه؟ قَالَ : ثُمَّ يَکُوْنُ مِنْ بَعْدِکَ خَلِيْفَةٌ تَقْتُلُهُ فِئَةٌ ظَالِمَةٌ، قَالَ : ثُمَّ مَهْ؟، قَالَ : ثُمَّ يَکُوْنُ الْبَلَاءُ! رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِی الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.

 

’’ حضرت عمیر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت کعب الاحبار کو بلا بھیجا اور ان سے دریافت فرمایا : اے کعب! تم ہماری تعریف کو کیسے پاتے ہو انہوں نے کہا میں آپ رضی اللہ عنہ کی تعریف کو لوہے کے ایک سینگ کی طرح پاتا ہوں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اور وہ لوہے کا سینگ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا صائب الرائے امیر، جو اﷲ کی راہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈرے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : پھر اس کے بعد کیا ہو گا؟ انہوں نے کہا پھر اس کے بعد ایک ایسا خلیفہ ہو گا جس کو ایک ظالم گروہ قتل کرے گا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اس کے بعد کیا ہو گا؟ انہوں نے کہا : پھر اس کے بعد آزمائش ہوگی۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’ المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 68 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 1 / 84، الحديث رقم : 120، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 65 والشيباني في الآحاد والمثاني، 1 / 126، الحديث رقم : 133، وأبونعيم في حلية الأولياء، 6 / 25.

 

69. عَنْ أُبَيِ بْنِ کَعْبٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : قَالَ لِيْ جِبْرِيْلُ عليه السلام لَيَبْکِ الإِسْلَامُ عًلَی مَوْتِ عُمَرَ رضی الله عنه. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.

 

’’حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے جبرائیل علیہ السلام نے بتایا ہے کہ اسلام عمر کی موت پر روئے گا۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 69 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 1 / 67، الحديث رقم : 61، و أبو نعيم في حلية الاولياء، 2 / 175، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 74، و الديلمي في مسند الفردوس، 3 / 189، الحديث رقم : 4523.

 

 

(11) بَابٌ فِيْ جَامِعِ صِفَاتِهِ

 

(آپ رضی اللہ عنہ کی جامع صفات کا بیان)70. عَنْ أنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ : صَعِدَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم أحُدًا وَ مَعَهُ أبُوْبَکْرٍ وَ عُمَرُ وَ عُثْمَانُ فَرَجَفَ بِهِمْ فَضَرَبَهُ بِرِجْلِهِ وَ قَالَ : اُثْبُتْ أحُدٌ، فَمَا عَلَيْکَ إِلَّا نَبِيٌّ أوْ صِدِّيقٌ، أوْ شَهِيْدَانِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُ وَ التِّرْمِذِيُّ وَ أبُوْدَاؤْدَ.

 

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوہِ اُحد پر تشریف لے گئے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنھم تھے۔ ان کی موجودگی کی وجہ سے پہاڑ وجدمیں آگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر اپنا قدم مبارک مارا اور فرمایا : اے اُحد ٹھہر جا! تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا اور کوئی نہیں۔ اس حدیث کو امام بخاری، ترمذی اور ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 70 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1348، الحديث رقم : 3483، و في کتاب فضائل الصحابة، باب لو کنت متخذا خليلا، 3 / 1344، الحديث رقم : 3472، و الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان، 5 / 624، الحديث رقم : 3697، و أبوداؤد في السنن، کتاب السنة، باب في الخلفاء، 4 / 212، الحديث رقم : 4651، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 280، الحديث رقم : 6865، و النسائي في السنن الکبریٰ، 5 / 43، الحديث رقم : 8135.

 

71. عَنِ بْنِ عُمَرَ رضی اﷲ عنهما قَالَ : کُنَّا نَقُوْلُ فِي زمَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم لَا نَعْدِلُ بِأَبِيْ بَکْرِ أَحَدًا، ثُمَّ عُمَرَ، ثُمَّ عُثْمَانَ، ثُمَّ نَتْرَکُ أَصْحَابَ النَّبيِّ صلی الله عليه وآله وسلم لَا نُفَاضِلُ بَيْنَهُمْ. رَوَاهُ الْبُخَارِیُّ.

 

’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں کہا کرتے تھے کہ ہم حضرت ابوبکر کے برابر کسی کو نہیں ٹھہراتے، ان کے بعد حضرت عمر اور پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کو شمار کیا کرتے تھے اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو چھوڑ دیتے تھے اور ان میں کسی کو کسی پر فضلیت نہیں دیتے تھے۔ اس حدیث کو امام بخاری اور ابوداؤد نے راویت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 71 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب في مناقب عثمان، 3 / 1352، الحديث رقم : 3494، أبوداؤد في السنن، کتاب السنة، باب في التفضيل، 4 / 206، الحديث رقم : 4627، و أبويعلي في المسند، 9 / 454، الحديث رقم : 5602، و ابن أبي عاصم، 2 / 567، الحديث رقم : 1192، و البيهقي في الإعتقاد، 1 / 366.

 

72. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اﷲ عنهما قَالَ : قَدِمَ عُيَيْنَةُ بْنُ حِصْنِ بْنِ حُذَيْفَةَ، فَنَزَلَ عَلَی ابْنِ أَخيِهِ الحُرِّ بْنِ قَيْسٍ، وکَانَ مِنَ النَّفَرِ الَّذِينَ يُدْنِيهِمْ عُمَرُ، وَکَانَ الْقُرَّاءُ أَصْحَابَ مَجَالِسِ عُمَرَ وَ مَشَاوَرَتِهِ، کُهُولًا کَانُوا أَوْ شُبَّاناً. فَقَالَ عُيَيْنَةُ لِإِبْنِ أَخِيهِ : يَا ابْنَ أَخِي، لَکَ وَجْهٌ عِنْدَ هَذَا الأمِيرِ، فَاسْتَأذِنْ لِي عَلَيْهِ. قَالَ : سَأَسْتَأْذِنُ لَکَ علَيْهِ. قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : فاسْتَأْذَنَ الْحُرُّ لِعُيَيْنَةَ، فَأَذِنَ لَهُ عُمَرُ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ. قَالَ هِي يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، فَوَاﷲِ مَا تُعْطِينَا الْجَزْلَ، وَلاَ تَحْکُمُ بَيْنَنَا بِالْعَدْلِ. فَغَضِبَ عُمَرُ حَتَّی هَمَّ بِهِ. فَقَالَ لَهُ الْحُرُّ : يَا أَمِيرَ الْمُؤمِنِينَ، إِنَّ اﷲَ تَعَالَی قَالَ لِنَبِيِّهِ صلی الله عليه وآله وسلم (خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بالْعُرْفِ وَأَعْرضْ عَنِ الجَاهِلِينَ). وَإِنَّ هٰذَا مِنَ الْجَاهِلِيْنَ وَاﷲِ مَا جَاوَزَهَا عُمَرُ حِينَ تَلاَهَا عَلَيْهِ، وَکَانَ وَقَّافاً عِنْدَ کِتَابِ اﷲِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

 

’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ جب عیینہ بن حصن بن حذیفہ آئے تو اپنے بھتیجے حر بن قیس کے پاس ٹھہرے اور یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مقربین میں سے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مجالس اور مشاورت میں قراء حضرات شریک ہوتے تھے خواہ وہ بوڑھے ہوں یا جوان۔ حضرت عیینہ نے اپنے بھتیجے سے کہا : اے بھتیجے : تمہاری تو امیر المومنین تک رسائی ہے، لہٰذا میرئے لئے انکی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کرو۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں عنقریب آپ کے لئے اجازت حاصل کر لوں گا۔ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما کا بیان ہے کہ جب حضرت حر بن قیس نے حضرت عیینہ کے لئے اجازت طلب کی تو آپ رضی اللہ عنہ نے اجازت دے دی، جب یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوے تو کہنے لگے، اے ابن خطاب! خدا کی قسم! نہ تو آپ ہم پر مال لٹاتے ہیں اور نہ ہمارے درمیان عدل و انصاف ہی فرماتے ہیں۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ ناراض ہوئے اور انہیں سزا دینے کا ارادہ کیا لیکن حضرت حر نے عرض کیا : اے امیر المومنین! اﷲ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا : ’’اے محبوب! معاف کرنا اختیار کیجئے اور بھلائی کا حکم دیجئے اور جاہلوں سے منہ پھیر لیجئے‘‘ اور یہ شخص ایسے ہی جاہلوں میں سے ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ خدا کی قسم! حضرت عمر رضی اللہ عنہ (وہیں رک گئے اور) اس حکم الٰہی سے ذرا برابر تجاوز نہ کیا۔ وہ اﷲ کی کتاب کے آگے سر جھکانے والے تھے۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 72 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب التفسير، باب خذ العفو و أمر بالعرف و أعرض عن الجاهلين، 4 / 1702، الحديث رقم : 4366، و في کتاب الإعتصام بالکتاب و السنة، باب الإقتداء بسنن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، 6 / 2657، الحديث رقم؛ 6856، و البيهقي في شعب الإيمان، 6 / 316.

 

73. عَنْ زَيْدِ بْنَ أسْلَمَ حَدَّثَهُ عَنْ أبِيْهِ قَالَ سَألَنِي ابْنُ عُمَرَ عَنْ بَعْضِ شَأنِهِ يَعنِي عُمَرَ فَأخْبَرْتُهُ فَقَالَ : مَا رَأيْتُ أحَدًا قَطُّ بَعْدَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم مِنْ حِيْنَ قُبِضَ کَانَ أجَدَّ وَ أجْوَدَ حَتَّی انْتَهَی مِنْ عُمَرَ بْنِ الخَطَّابِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

 

’’حضرت زید بن اسلم رضی اﷲ عنہما اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما نے مجھ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعض حالات پوچھے تومیں نے انہیں بتایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جیسا نیک اور سخی نہیں دیکھا گویا یہ خوبیاں تو آپ کی ذات پر ختم ہوگئی تھیں۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 73 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1348، الحديث رقم : 3484، و ابن سعد في الطبقات الکبریٰ، 3 / 292.

 

74. عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنَا أَوَّلُ مَنْ تَنْشَقُّ عَنْهُ الْأرْضُ ثُمَّ أَبُوْبَکْرٍ ثُمَّ عُمَرُ، ثُمَّ آتِيَ أَهْلَ الْبَقِيْعِ فَيُحْشَرُوْنَ مَعِي، ثُمَّ أَنْتَظِرُ أَهْلَ مَکَّةَ حَتَّی أُحْشَرَ بَيْنَ الْحَرَمَيْنِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ

 

وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

 

’’حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سب سے پہلے جس کے لئے زمین کو کھولا جائے گا وہ میں ہوں پھر ابوبکر کے لئے اور پھر عمر کے لئے پھر اہل بقیع کی باری آئے گی اور ان کو میرے ساتھ اکٹھا کیا جائے گا پھر میں اہل مکہ کا انتظار کروں گا یہاں تک کہ حرمین شریفین کے درمیان لوگوں کے ساتھ جمع کیا جاؤں گا۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا : یہ حدیث حسن ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 74 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في مناقب عمر، 5 / 622، الحديث رقم : 3692، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 324، الحديث رقم : 6899، و الحاکم في المستدرک علي الصححين، 2 / 505، الحديث رقم : 4732، و في 3 / 72، الحديث رقم : 4429، و الهيثمي في موارد الظمان، 1 / 539، الحديث رقم : 2194.

 

75. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاﷲِ رضی اﷲ عنهما قَالَ : إِنَّ عَلِيًّا دَخَلَ عَلَی عُمَرَ وَ هُوَ مُسَجًّی فَقَالَ : صَلَّی اﷲُ عَلَيْکَ! ثُمَّ قَالَ : مَا مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ أَحَبُّ إِلَيَّ أنْ أَلْقَی اﷲُ بِمَا فِي صَحِيْفَتِهِ مِنْ هَذَا الْمُسَجّٰی. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَ ابْنُ أبِيْ شيبة.

 

’’حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے اور وہ ایک چادر میں لپٹے ہوئے تھے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ تجھ پر رحمت فرمائے پھر فرمایا : لوگوں میں سے کوئی بھی میرے نزدیک اس چادر میں لپٹے ہوئے سے زیادہ محبوب نہیں ہے جو کچھ اﷲ تعالیٰ کے صحیفہ (یعنی قرآن) میں ہے وہ اسے اس کے منشاء کے مطابق نازل فرماتا ہے۔ اس حدیث کو امام حاکم اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 75 : أخرجه الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 100، الحديث رقم : 4523، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 359، الحديث رقم : 32018.

 

76. عَنْ مَالِکِ بْنِ دِيْنَارٍ قَالَ : سُمِعَ صَوْتٌ بِجَبَلٍ تَبَالَةَ حِيْنَ قُتِلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رضي الله عنه شِعْرٌ :

 

لِيَبْکِ عَلَی الإِسْلَامِ مَنْ کَانَ بَاکِيًا

فَقَدْ أوْشَکُوْا هُلْکِی وَ مَا قَدِمَ الْعَهْدُ

وَ أَدْبَرَتِ الدُّنْيَا وَ أَدْبَرَ خَيْرُهَا

وَ قَدْ مَلْهَا مَنْ کَانَ يُؤْقِنُ بِالْوَعْدِ

فَنَظَرُوْا فَلَمْ يَرَوْا شَيْأ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

 

28. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنَّهُ کَانَ فِيْمَنْ مَضَی رِجَالٌ يَتَحَدَّثُوْنَ نَبُوَّةً فَإِنْ يَّکُنْ فِي أمَّتِيْ أَحَدٌ مِّنْهُمْ فَعُمَرُ. رَوَاهُ ابْنُ أبِيْ شَيْبَةَ.

 

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سابقہ امتوں میں بعض لوگ ایسے بھی ہوتے تھے جو نبوت کی سی باتیں کرتے تھے اور اگر میری امت میں ایسا کوئی ہے تو وہ عمر ہے۔ اس حدیث کو ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 28 : أخرجه ابن أبيشبية في المصنف، 6 / 354، الحديث رقم : 31972.

 

29. عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : کَانَتْ فِي الْأمَمِ مُحَدَّثُوْنَ لَيْسُوْا بِأنْبِيَاءٍ فَإِنْ کَانَ فِي أمَّتِيْ فَعُمَرُ، رَوَاهُ الدَّيْلَمِيُ.

 

’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم سے پہلی امتوں میں محدَّثون ہوا کرتے تھے جو کہ انبیاء نہیں تھے اور اگر میری امت میں سے کوئی محدَّث ہے تو وہ عمر ہے۔ اس حدیث کو دیلمی نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 29 : أخرجه الديلمي في المسند الفردوس، 3 / 278، الحديث رقم : 4839

Link to comment
Share on other sites

Shaan-e-Hazrat Abu Bakr Siddique رضی اللہ تعالی عنہ

 

http://www.islamimeh...__0entry62716

 

 

Shaan-e-Hazrat Umar Farooq رضی اللہ تعالی عنہ

 

http://www.islamimeh...__0entry62717

 

 

Shaan-e-Hazrat Usman Ghani رضی اللہ تعالی عنہ

 

http://www.islamimeh...__0entry62720

 

 

Shaan-e-Hazrat Ali رضی اللہ تعالی عنہ

 

http://www.islamimeh...age__pid__62721

 

 

untitled.jpg

 

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...