Jump to content

رَوْضُ الْجِنَانِ فِي مَنَاقِبِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رضی الله عنه


NAJAMMIRANI

تجویز کردہ جواب

(1) بَابٌ فِيْ إِخْتِصَاصِهِ بِأَنَّهُ رضي الله عنه أَشَدُّ الْأُمَّةِ حَيَاءً.

 

(امت میں سب سے زیادہ حیا دار)1. عَنْ أَبِيْ مُوْسَي قَالَ : إِنَّ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم کَانَ قَاعِداً فِيمَکَانٍ فِيْهِ مَاءٌ، قَدِ انْکَشَفَ عَنْ رُکْبَتَيْهِ، أَوْ رُکْبَتِهِ، فَلَمَّا دَخَلَ عُثْمَانُ غَطَّاهَا. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

 

’’حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ جہاں پانی تھا اور (ٹانگیں پانی میں ہونے کے باعث) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں گھٹنوں سے یا ایک گھٹنے سے کپڑا ہٹا ہو ا تھا، پس جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے ڈھانپ لیا۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 1 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عثمان بن عفان، 3 / 1351، الحديث رقم : 3492، و البيهقي في السنن الکبريٰ، 2 / 232، الحديث رقم : 3063، و البيهقي في الإعتقاد، 1 / 367، و الشوکاني في نيل الأوطار، 2 / 52.

 

2. عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مُضْطَجِعًا فِي بَيْتِيْ، کَاشِفًا عَنْ فَخِذَيْهِ. أَوْ سَاقَيْهِ. فَاسْتَأْذَنَ أَبُوْبَکْرٍ فَأَذِنَ لَهُ. وَ هُوَ عَلَي تِلْکَ الْحَالِ. فَتَحَدَّثَ ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُمَرُ فَأَذِنَ لَهُ. وَ هُوَ کَذَلِکَ. فَتَحَدَّثَ ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُثْمَانُ. فَجَلَسَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : وَسَوَّي ثِيَابَهُ. قَالَ مُحَمَّدٌ : وَ لَا أَقُوْلُ ذَلِکَ فِيْ يَوْمٍ وَاحِدٍ. فَدَخَلَ فَتَحَدَّثَ. فَلَمَّا خَرَجَ قَالَتْ عَائِشَةُ : دَخَلَ أَبُوْبَکْرٍ فَلَم تَهْتَشَّ لَهُ وَ لَمْ تُبَالِهِ. ثُمَّ دَخَلَ عُمَرُ فَلَمْ تَهْتَشَّ لَهُ وَ لَمْ تُبَالِهِ. ثُمَّ دَخَلَ عُثْمَانُ فَجَلَسْتَ وَ سَوَّيْتَ ثِيَابَکَ فَقَالَ : أَلاَ أَسْتَحْيِيْ مِنْ رَجُلٍ تَسْتَحْيِيْ مِنْهُ الْمَلَائِکَةُ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

 

’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے گھر میں (بستر پر) لیٹے ہوئے تھے، اس عالم میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دونوں مبارک پنڈلیاں کچھ ظاہر ہو رہی تھیں، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دے دی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طرح لیٹے رہے اور گفتگو فرماتے رہے، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دے دی۔ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طرح لیٹے رہے اور گفتگو فرماتے کرتے رہے، پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کر لئے۔ محمد راوی کہتے ہیں کہ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ ایک دن کا واقعہ ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آ کر باتیں کرتے رہے، جب وہ چلے گئے تو حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا۔ یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اﷲ علیک وسلم نے ان کا فکر و اہتمام نہیں کیا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے تب بھی آپ صلی اﷲ علیک وسلم نے کوئی فکر و اہتمام نہیں کیا اور جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اﷲ علیک وسلم اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کر لئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں اس شخص سے کیسے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں۔‘‘ اِس حدیث کو اما م مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

الحديث رقم 2 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عثمان بن عفان، 4 / 1866، الحديث رقم : 2401، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 336، الحديث رقم : 6907، و أبو يعلي في المسند، 8 / 240، الحديث رقم : 6907، و البيهقي في السنن الکبريٰ، 2 / 230، الحديث رقم : 3059.

 

3. عَنْ يَحْيَي بْنِ سَعِيْدِ بْنِ الْعَاصِ، أَنَّ سَعِيْدَ بْنَ الْعَاصِ أَخْبَرَهُ؛ أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم وَ عُثْمَانَ حَدَّثَاهُ؛ أَنَّ أَبَابَکْرٍ إِسْتَأْذَنَ عَلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَ هُوَ مُضْطَجِعٌ عَلَي فِرَاشِه لَابِسٌ مِرْطَ عَائِشَةَ فَأَذِنَ لِأَبِي بَکْرٍ وَ هُوَ کَذٰلِکَ. فَقَضٰي إِلَيْهِ حَاجَتَهُ ثُمَّ انْصَرَفَ. ثُمَّ اسْتَأْذَنَ عُمَرُ فَأَذِنَ لَهُ وَ هُو عَلٰي تِلْکَ الْحَالِ فَقَضٰي إِلَيْهِ حَاجَتَهُ ثُمَّ انْصَرَفَ قَالَ عُثْمَانُ : ثُمَّ اسْتَأْذَنْتُ عَلَيْهِ فَجَلَسَ وَ قَالَ لِعَائِشَةَ : إِجْمَعِيْ عَلَيْکِ ثِيَابَکِ فَقَضَيْتُ إِلَيْهِ حَاجَتِيْ ثُمَّ انْصَرَفْتُ فَقَالَتْ عَائِشَةُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ! مَنْ لَمْ أَرَکَ فَزِعْتَ لِأَبِي بَکْرٍ وَ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما کَمَا فَزِعْتَ لِعُثْمَانَ؟ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ عُثْمَانَ رَجُلٌ حَيِيٌّ وَ إِنِّي خَشِيْتُ إِنْ أَذِنْتُ لَهُ عَلَي تِلْکَ الْحَالِ، أَنْ لَا يَبْلُغَ إِلَيَّ فِيْ حَاجَتِهِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ.

 

’’حضرت عائشہ اور حضرت عثمان رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت طلب کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بستر پر حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی چادر اوڑھے لیٹے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اسی حالت میں اجازت دے دی اور ان کی حاجت پوری فرما دی۔ وہ چلے گئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو بھی اسی حالت میں آنے کی اجازت دے دی۔ وہ بھی اپنی حاجت پوری کرکے چلے گئے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھ گئے اور حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے فرمایا اپنے کپڑے درست کر لو، پھر میں اپنی حاجت پوری کرکے چلا گیا، حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا وجہ ہے کہ آپ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لئے اس قدر اہتمام نہ فرمایا۔ جس قدر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لئے فرمایا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عثمان ایک کثیرالحیاء مرد ہے اور مجھے خدشہ تھا کہ اگر میں نے ان کو اسی حال میں آنے کی اجازت دے دی تو وہ مجھ سے اپنی حاجت نہیں بیان کرسکے گا۔‘‘ اِس حدیث کو اما م مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

الحديث رقم 3 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عثمان بن عفان، 4 / 1866. 1867، الحديث رقم : 2402، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 71، الحديث رقم 514، و أبو يعلي في المسند، 8 / 242، الحديث رقم : 4818، و الطبراني في المعجم الکبير، 6 / 61، الحديث رقم : 5515، و البيهقي في السنن الکبريٰ، 2 / 231، الحديث رقم : 3060، و البزار في المسند، 2 / 17، الحديث رقم : 355، و البخاري في الأدب المفرد، 1 / 210، الحديث رقم : 600.

 

4. عَنْ حَفْصَةَ قَالَتْ : دَخَلَ عَلَيَّ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ذَاتَ يَوْمٍ فَوَضَعَ ثَوْبَهُ بَيْنَ فَخِذَيْهِ فَجَاءَ أَبُوْبَکْرٍ يَسْتَأْذِنُ فَأَذِنَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عَلَي هَيْئَتِهِ، ثُمَّ جَاءَ عُمَرُ يَسْتَأْذِنُ فَأَذِنَ لَهُ عَلَي هَيْئَتِهِ ثُمَّ جَاءَ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ فَأَذِنَ لَهُمْ ثُمَّ جَاءَ عَلِيٌّ يَسْتَأْذِنُ فَأَذِنَ لَهُ وَ رَسُوْلُ اﷲِ عَلَي هَيْئَتِهِ ثُمَّ جَاءَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَتَجَلَّلَ ثَوْبَهُ ثُمَّ أَذِنَ لَهُ، فَتَحَدَّثُوْا سَاعَةً ثُمَّ خَرَجُوْا، وَ قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ دَخَلَ عَلَيْکَ أَبُوْبَکْرٍ وَ عُمَرُ وَ عَلِيٌّ وَ أُنَاسٌ مِنْ أَصْحَابِکَ وَ أَنْتَ عَلَي هَيْئَتِکَ لَمْ تَتَحَرَّکْ فَلَمَّا دَخَلَ عُثْمَانُ تَجَلَّلْتَ ثَوْبَکَ؟ فَقَالَ : أَلاَ أَسْتَحْيِ مِمَّنْ تَسْتَحِيْ مِنْهُ الْمَلَائِکَةُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.

 

’’حضرت حفصہ رضی اﷲ عنھا بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا (اوپر لپیٹنے کا) کپڑا اپنی مبارک رانوں پر رکھ لیا، اتنے میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے اور اندر آنے کے لئے اجازت طلب کی پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اندر آنے کی اجازت عنایت فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اسی حالت میں رہے پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے اور اجازت طلب کی پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی اجازت عنایت فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی حالت میں رہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ صحابہ آئے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی اجازت عنایت فرمائی پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے اور اجازت طلب کی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی اجازت عنایت فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی اسی حالت میں تشریف فرما رہے۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے اپنے جسم اقدس کو کپڑے سے ڈھانپ لیا پھر انہیں اجازت عنایت فرمائی۔ پھر وہ صحابہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس کچھ دیر باتیں کرتے رہے پھر باہر چلے گئے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم آپ صلی اﷲ علیک وسلم کی خدمت اقدس میں ابو بکر، عمر، علی اور دوسرے صحابہ کرام حاضر ہوئے لیکن آپ صلی اﷲ علیک وسلم اپنی پہلی ہیئت میں تشریف فرما رہے جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اﷲ علیک وسلم نے اپنے جسم اقدس کو اپنے کپڑے سے ڈھانپ لیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا میں اس شخص سے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے بھی حیاء کرتے ہیں؟ اس کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 4 : أخرجه احمد بن حنبل في المسند، 6!288، الحديث رقم : 26510، و الطبراني في المعجم الکبير، 23!205، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9!81، و عبد بن حميد في المسند، 1!446.

 

5. عَنْ بَدْرِ بْنِ خَالِدٍ قَالَ : وَقَفَ عَلَيْنَا زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ يَوْمَ الْدَّارِ فَقَالَ : أَلاَ تَسْتَحْيُوْنَ مِمَّْنْ تَسْتَحْيِ مِنْهُ الْمَلاَئِکَةُ قُلْنَا : وَ مَاذَاکَ؟ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَرَِّبيْ عُثْمَانُ وَ عِنْدِي مَلَکٌ مِنَ الْمَلاَئِکَةِ فَقَالَ شَهِيْدٌ يَقْتُلُهُ قُوْمُهُ إِنَّا لَنَسْتَحْيِ مِنْهُ قَالَ بَدْرٌ : فَانْصَرَفْنَا عَنْهُ عَصَابَةً مِنَ النَّاسِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.

 

’’حضرت بدر بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یوم الدار کو حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ہمارے پاس کھڑے ہوئے اور کہا کیا تم اس شخص سے حیاء نہیں کرتے جس سے ملائکہ بھی حیاء کرتے ہیں ہم نے کہا وہ کون ہے؟ راوی نے کہا میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ فرشتوں میں سے ایک فرشتہ میرے پاس تھا جب عثمان میرے پاس سے گزرا تو اس نے کہا یہ شخص شہید ہے اس کی قوم اس کو قتل کرے گی اور ہم ملائکہ اس سے حیاء کرتے ہیں بدر (راوی) کہتے ہیں کہ پھر ہم نے آپ رضی اللہ عنہ سے لوگوں کے ایک گروہ کو دور کیا اس کو امام طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ میں بیان کیاہے۔‘‘

 

الحديث رقم 5 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 5 / 159، الحديث رقم : 4939، و الطبراني في مسند الشاميين، 2 / 258، الحديث رقم : 1297، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 82.

 

6. عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : أَشَدُّ أُمَّتِي حَيَاءً عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ. رَوَاهُ أَبُوْنُعَيْمٍ.

 

’’حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں سے سب سے زیادہ حیا دار عثمان بن عفان ہے۔ اس حدیث کو ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 6 : أخرجه أبونعيم في حلية الأولياء، 1 / 56، و ابن أبی عاصم في السنة، 2 / 587، الحديث رقم : 1281.

 

7. عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَرْحَمُ أُمَّتِيْ أَبُوْبَکْرٍ وَ أَشَدُّهُمْ فِي اﷲِ عُمَرُ وَ أَکْرَمُ حَيَاءً عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ وَ أَقْضَاهُمْ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ فِي تَارِيْخِهِ.

 

’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میری امت میں سب سے زیادہ رحم دل ابوبکر ہیں اور اللہ کے دین کے معاملے میں سب سے زیادہ سخت عمر ہیں اور سب سے حیادار عثمان بن عفان ہیں اور سب سے بہتر فیصلہ کرنے والے علی ہیں۔ اس حدیث کو ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 7 : أخرجه ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 41 / 64.

 

 

(2). بَابٌ فِيْ تَبْشِيْرِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم لَهُ رضی الله عنه بِمُرَافَقَتِه فِي الْجَنَّةِ

 

(عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے لئے جنت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رفاقت کی بشارت)8. عَنْ أَبِيْ مُوْسٰی الأَشْعَرِيِّ قَالَ : بَيْنَمَا رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِيْ حَائِطٍ مِنْ حَائِطِ الْمَدِيْنَةِ، هُوَ مُتَّکِئٌ يَرْکُزُ بِعُوْدٍ مَعَهُ بَيْنَ الْمَاءِ وَ الطِّيْنِ، إِذَا اسْتَفْتَحَ رَجُلٌ. فَقَالَ : افْتَحْ وَ بَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ قَالَ : فَإِذَا أَبُوْبَکْرٍ فَفَتَحْتُ لَهُ وَ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ. قَالَ : ثُمَّ اسْتَفْتَحَ رَجُلٌ آخَرُ. فَقَالَ : افْتَحْ وَ بَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ، قَالَ : فَذَهَبْتُ فَإِذَا هُوَ عُمَرُ فَفَتَحْتُ لَهُ وَ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ ثُمَّ اسْتَفْتَحَ رَجُلٌ آخَرُ قَالَ : فَجَلَسَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : افْتَحْ وَ بَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ عَلَي بَلْوٰی تَکُوْنُ قَالَ : فَذَهَبْتُ فَإِذَا هُوَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ قَالَ : فَفَتَحْتُ وَ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ قَالَ : وَ قُلْتُ الَّذِيْ قَالَ : فَقَالَ : اَللَّهُمَّ! صَبْرًا أَوِ اﷲُ الْمُسْتَعَانُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ. وَ هَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.

 

’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ کے ایک باغ میں تکیہ لگا کر بیٹھے ہوئے تھے، اور ایک لکڑی جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھی اس کو پانی اور مٹی میں پھیر رہے تھے کہ اچانک ایک شخص نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دروازہ کھول کر اس کو جنت کی بشارت دے دو، حضرت ابو موسیٰ اشعری نے کہا آنے والے حضرت ابوبکر تھے، میں نے دروازہ کھول کر ان کو جنت کی بشارت دے دی۔ پھر ایک شحص نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دروازہ کھول کر اس کو بھی جنت کی بشارت دے دو، حضرت ابو موسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ میں گیا تو وہ حضرت عمر تھے میں نے دروازہ کھول کر ان کو جنت کی بشارت دے دی، پھر ایک اور شخص نے دروازہ کھولنے کے لئے کہا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیٹھ گئے اور فرمایا دروازہ کھول دو اور اس کو مصائب و آلام کے ساتھ جنت کی بشارت دے دو، تو وہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے، میں نے دروازہ کھولا اور ان کو جنت کی بشارت دے دی اور جو کچھ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا وہ کہہ دیا، حضرت عثمان نے کہا : اے اللہ! صبر عطا فرما، یا فرمایا اللہ ہی مستعان ہے۔ اس حدیث کو اما م بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔

 

الحديث رقم 8 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1350، الحديث رقم : 3490، و في کتاب الأدب، باب من نکت العود في الماء و الطين، 5 / 2295، الحديث رقم : 5862، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة باب من فضائل عثمان بن عفان، 4 / 1867، الحديث رقم : 2403، و البخاري في الأدب المفرد، 1 / 335، الحديث رقم : 965، و ابن جوزي في صفوة الصفوة، 1 / 299.

 

9. عَنْ أَبِيْ مُوْسَي رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم دَخَلَ حَائِطًا وَ أَمَرَنِي بِحِفْظِ بَابِ الحَائِطِ، فَجَاءَ رَجُلٌ يَسْتَأْذِنُ فَقَالَ : ائْذَنْ لَهُ وَ بَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ. فَإِذَا أَبُوْبَکْرٍ، ثُمَّ جَاءَ آخَرُ يَسْتَأْذِنُ، فَقَالَ : ائْذَنْ لَهُ وَ بَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ. فًإِذَا عُمَرُ، ثُمَّ جَاءَ آخَرُ يَسْتَأْذِنُ، فَسَکَتَ هُنَيْهَةً ثُمَّ قَالَ : ائْذَنْ لَهُ وَ بَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ، عَلَي بَلْوَي سَتُصِيْبُهُ. فَإِذَا عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ. رًوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

 

’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک باغ میں داخل ہوئے اور مجھے باغ کے دروازے کی حفاظت پر مامور فرمایا پس ایک آدمی نے آ کر اندر آنے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسے اجازت دے دو اور جنت کی بشارت بھی دے دو۔ دیکھا تو وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے پھر دوسرے شخص نے آ کر اجازت طلب کی تو فرمایا : اسے بھی اجازت دے دو اور جنت کی بشارت دے دو۔ دروازہ کھولا تو وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے پھر ایک اورشخص آیا اور اس نے بھی اجازت طلب کی تو آپ تھوڑی دیر خاموش رہے پھر فرمایا : انہیں بھی اجازت دے دو اور جنت کی بشارت دے دو ان مصائب و مشکلات کے ساتھ جو اسے پہنچیں گی، دیکھا تو وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تھے۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 9 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عثمان بن عفان، 3 / 1351، الحديث رقم : 3492، و البيهقي في الإعتقاد، 1 / 367، و المبارکفوري في تحفة الأحوذي، 10 / 142.

 

10. عَنْ سَعِيْدِ بْنِ الْمُسَيَبِ. أَخْبَرَنِيْ أَبُوْمُوْسَی الَْأَشْعَرِيُّ؛. . . فِي رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ وَ فِيْهَا عَنْهُ. فَإِذَا هُوَ قَدْ جَلَسَ عَلٰی بِئْرِ أَرِيْسٍ. وَ تَوَسَّطَ قُفَّهَا، وَکَشَفَ عَنْ سَاقَيْهِ، وَ دَلَّاهُمَا فِيْ الْبِئْرِ قَالَ : فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ. ثُمَّ انْصَرَفْتُ فَجَلَسْتُ عِنْدَ الْبَابِ. فَقُلْتُ : لَأَکُوْنَنَّ بَوَّابَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم الْيَوْمَ. . . . . . . وَ فِيْهَا عَنْهُ، فَجَاءَ إِنْسَانٌ فَحَرَّکَ الْبَابَ فَقُلْتُ : مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ : عُثْمَانُ بْنُ عَفّانَ فَقُلْتُ : عَلَي رِسْلِکَ قَالَ : وَجِئْتُ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم فَأَخْبَرْتُهُ فَقَالَ : ائْذَنْ لَهُ وَ بَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ مَعَ بَلْوَي تُصِيْبُهُ قَالَ : فَجِئْتُ فَقُلْتُ : أُدْخُلْ وَ يُبَشِّرُکَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بِالْجَنَّةِ مَعَ بَلْوٰي تُصِيْبُکَ قَالَ : فَدَخَلَ فَوَجَدَ الْقُفَّ قَدْ مُلِيئَ فَجَلَسَ وَجَاهَهُمْ مِنَ الشِّقِّ الْآخَرِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.

 

’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اریس کنویں کے وسط میں مبارک ٹانگیں دراز فرما کر بیٹھے تھے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کیا اور پھر جا کر دروازے کے پاس بیٹھ گیا۔ میں نے دل میں کہا آج میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دربان بنوں گا، . . . . . . پھر ایک شخص نے آ کر دروازہ کھٹکھٹایا میں نے کہا کون ہے؟ اس نے کہا عثمان بن عفان، میں نے کہا ٹھہرئیے میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جا کر خبر دی توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس کو اجازت دو اور جو مصائب اور بلیات اس کو لاحق ہوں گے ان کے ساتھ اس کو جنت کی بشارت دو۔ میں نے کہا آجائیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کو ان مصائب کے ساتھ جنت کی بشارت دے رہے ہیں جو آپ کو لاحق ہوں گے وہ آئے انہوں نے دیکھا کہ کنویں کی منڈیر بھر چکی ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کی جانب بیٹھ گئے، یہ حدیث متفق علیہ ہے۔

 

الحديث رقم 10 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل أصحاب النبي صلي الله عليه وآله وسلم، باب لو کنت متخذا خليلا، 3 / 1343، الحديث رقم : 3471، والبخاري في الصحيح، کتاب الفتن، باب الفتنة التي تموج کموج البحر، 6 / 2599، الحديث رقم : 6684، ومسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عثمان بن عفان، 4 / 1868، الحديث رقم : 2403، و شمس الحق في عون المعبود، 14 / 62.

 

11. عَنْ أَبِيْ مُوْسَي الْأَشْعَرِيِّ قَالَ : انْطَلَقْتُ مَعَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فَدَخَلَ حَائِطًا لِلْأَنْصَارِ فَقَضٰي حَاجَتَهُ فَقَالَ لِي : يَا أَبَا مُوْسَي أَمْلِکْ عَلَيَّ الْبَابَ فَلاَ يَدْخُلَنَّ عَلَيَّ أَحَدٌ إِلَّا بِإِذْنٍ فَجَاءَ رَجُلٌ يَضْرِبُ الْبَابَ فَقُلْتُ : مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ : أَبُوْبَکْرٍ فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ هَذَا أَبُوْبَکْرٍ يَسْتَأذِنُ قَالَ : ائْذَنْ لَهُ وَ بَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ فَدَخَلَ وَ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ وَ جَاءَ رَجُلٌ آخَرُ فَضَرَبَ البَابَ فَقُلْتُ : مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ : عُمَرُ فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ هَذَا عُمَرُ يَسْتَأذِنُ قَالَ : افْتَحْ لَهُ وَ بَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ فَفَتَحْتُ الْبَابَ وَ دَخَلَ وَ بَشَّرْتُهُ بِالْجَنَّةِ فَجَاءَ رَجُلٌ آخَرُ فَضَرَبَ الْبَابَ فَقُلْتُ : مَنْ هَذَا؟ قَالَ : عُثْمَانُ فَقُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ هَذَا عُثْمَانُ يَسْتَأذِنُ قَالَ : افْتَحْ لَهُ وَ بَشِّرْهُ بِالْجَنَّةِ عَلَي بَلْوَي تُصِيْبُهُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

 

وَ قَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

 

’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نکلا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انصار کے ایک گھنے باغ میں داخل ہوئے۔ وہاں اپنی حاجت مبارکہ پوری کی پھر مجھ سے فرمایا : ابو موسیٰ دروازے پر کھڑے رہو۔ کوئی میرے پاس میری اجازت کے بغیر نہ آئے۔ پس ایک آدمی آیا اور اس نے دروازہ کھٹکھٹایا میں نے پوچھا کون ہے؟ جواب ملا میں ابو بکر ہوں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم : ابوبکر باریابی کی اجازت چاہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انہیں اجازت دے دو اور جنت کی بشارت بھی دے دو۔ وہ داخل ہوئے اور میں نے ان کو جنت کی بشارت دے دی۔ اس کے بعد ایک اور آدمی آیا اور اس نے دروازہ کھٹکھٹایا میں نے پوچھا کون ہے؟ جواب ملا میں عمر ہوں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! حضرت عمر باریابی کی اجازت چاہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انہیں اجازت دے دو اور جنت کی بشارت بھی دے دو۔ پس وہ داخل ہوئے اور میں نے ان کو جنت کی بشارت دے دی۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد ایک اور شخص آیا اور دروازہ کھٹکھٹایا میں نے پوچھا کون ہے کہا میں عثمان ہوں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! حضرت عثمان باریابی کی اجازت چاہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ان کے لئے بھی دروازہ کھول دو اور جنت کی بشارت دے دو ایک بڑی آزمائش پر جس کا یہ شکار ہوں گے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 11 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان، 5 / 631، الحديث رقم : 3710، و أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 406، و الروياني في المسند، 1 / 343، الحديث رقم : 524، و البيهقي في الإعتقاد، 1 / 367.

 

12. عَنْ طَلْحَةَ ابْنِ عُبَيْدِاﷲِ، قَالَ : قَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم : لِکُلِّ نَبِيٍّ رَفِيْقٌ وَرَفِيْقِيْ يَعْنِيْ فِي الْجَنَّةِ عُثْمَانُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَ ابْنُ مَاجَةَ.

 

’’حضرت طلحہ بن عبید اﷲ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ہر نبی کا ایک رفیق ہوتا ہے اور جنت میں میرا رفیق عثمان رضی اللہ عنہ ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔

 

الحديث رقم 12 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان بن عفان، 5 / 624، الحديث رقم : 3698، و ابن ماجه في السنن، مقدمه، باب في فضائل أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، 1 / 40، الحديث رقم : 109، و أبويعلي في المسند، 2 / 28، الحديث رقم : 665، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 589، الحديث رقم : 1289، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 401، الحديث رقم : 616.

 

13. عَنْ جَابِرٍ قَالَ : بَيْنَنَا نَحْنُ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِي بَيْتٍ فِي نَفَرٍ مِنَ الْمُهَاجِرِيْنَ فِيْهِمْ أَبُوْبَکْرٍ وَ عُمَرُ وَ عُثْمَانُ وَ عَلِيٌّ وَ طَلْحَةُ وَ الزُّبَيْرُ وَ عَبْدُالرَّحْمٰنِ بْنُ عَوْفٍ وَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : لِيَنْهَضْ کُلُّ رَجُلٍ إِلَي کَفْئِهِ وَ نَهَضَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم إِلَي عُثْمَانَ فَاعْتَنَقَهُ قَالَ : أَنْتَ وَلِيِي فِي الدُّنْيَا وَ أَنْتَ وَلِيِي فِي الأَخِرَةِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ فِي الْمُسْتَدْرَکِ وَ أَبُوْ يَعْلَي فِي الْمُسْنَدِ.

 

وَ قَالَ الْحَاکِمُ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ.

 

’’حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ ایک دفعہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مہاجرین کے ایک گروہ میں ایک گھر میں تھے اور اس گروہ میں حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنھم بھی تھے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کہ ہر آدمی اپنے کفو کی طرف کھڑا ہوجائے اور خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عثمان کی طرف کھڑے ہوگئے اور انہیں اپنے گلے لگایا اور فرمایا : اے عثمان تو دنیا و آخرت میں میرا دوست ہے۔ اس حدیث کو امام حاکم نے مستدرک میں امام ابو يعلي نے مسند میں روایت کیا اور امام حاکم نے کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 13 : أخرجه الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 104، الحديث رقم : 4536، و أبو يعلي في المسند، 4 / 44، الحديث رقم : 2051، و أحمد بن حنبل، فضائل الصحابة، 1 : 524، رقم : 868، و مناوي في فيض القدير، 4 / 302.

 

14. عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ : سَأَلَ رَجُلٌ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم أَ فِي الْجَنَّةِ بَرْقٌ قَالَ : نَعَمْ وَالَّذِيْ نَفْسِي بِيَدِهِ إِنَّ عُثْمَانَ لَيَتَحَوَّلُ فَتَبْرَقُ لَهُ الْجَنَّةُ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ فِي الْمُسْتَدْرَکِ.

 

وَ قَالَ صَحِيْحٌ عَلَي شَرْطِ الْشَّيْخِيْنِ.

 

’’حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا : کیا جنت میں بجلی ہوگی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے بے شک عثمان جب جنت میں منتقل ہو گا تو پوری جنت اس کی وجہ سے چمک اٹھے گی۔ اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور فرمایا یہ شیخین کی شرط پر صحیح ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 14 : أخرجه الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 105، الحديث رقم : 4540، و الديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب، 4 / 377، الحديث رقم : 7097، و المناوي في فيض القدير، 4 / 302.

 

15. عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : کُنْتُ مَعَ رَسُوْلِ اﷲِ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ إِلَي النَّبِيِّ فَصَافَحَهُ فَلَمْ يَنْزَعِ النَّبِيُّ يَدَهُ مِنْ يَدِ الرَّجُلِ حَتَّي انْتَزَعَ الرَّجُلُ يَدَهُ ثُمَّ قَالَ لَهُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ جَاءَ عُثْمَانُ قَالَ : امْرَؤٌ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ وَ الْأَوْسَطِ.

 

’’حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھا۔ اس دوران ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مصافحہ کیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس شخص کے ہاتھ سے اس وقت تک نہ چھڑایا جب تک خود اس آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ نہ چھوڑا پھر اس آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اﷲ ! حضرت عثمان تشریف لائے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ اہل جنت میں سے ہے۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الکبير اور المعجم الاوسط‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 15 : أخرجه الطبراني في المعجم الاوسط، 1 / 98، الحديث رقم : 300، و الطبراني في المعجم الکبير، 12 / 405، الحديث رقم : 13495، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 87.

 

16. عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ السَّهْرِ أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَي سَعِيْدِ بْنِ زَيْدٍ فَقَالَ لَهُ : إِنِّيْ أَبْغَضْتُ عُثْمَانَ بُغْضًا لَمْ أُبْغِضْهُ شَيْئًا قَطُّ، قَالَ بِئْسَ مَا قُلْتَ أَبْغَضْتَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، رَوَاهُ أحْمَدُ في فَضَائِل الصَّحَابَةِ.

 

’’حضرت عبد اﷲ بن سہر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بے شک ایک آدمی حضرت سعید بن زید کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ میں عثمان سے بہت زیادہ بغض رکھتا ہوں اتنا بغض میں نے کسی سے کبھی بھی نہیں رکھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تو نے نہایت ہی بری بات کہی ہے، تو نے ایک ایسے آدمی سے بغض رکھا جو کہ اہل جنت میں سے ہے۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے فضائل صحابہ میں روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 16 : أخرجه احمد بن حنبل في فضائل الصحابه، 2 / 570، و المقدسي في الأحاديث المختاره، 3 / 280.

 

 

(3) بَابٌ فِيْ إِخْتِصَاصِ کَوْنِهِ رضي الله عنه ذَا النُّوْرَيْنِ

 

(لقب ذوالنورین کی خصوصیت کا بیان)17. عَنْ عُثْمَانَ، هُوَ ابْنُ مَوْهَبٍ، قَالَ : جَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ مِصْرَ حَجَّ الْبَيْتَ، فَرَأَي قَوْمًا جُلُوْسًا، فَقَالَ : مَنْ هَؤُلَاءِ القَوْمُ؟ قَالَ : هَؤُلَاءِ قُرَيْشٌ، قَالَ : فَمَنِ الشَّيْخُ فِيْهِمْ؟ قَالُوْا : عَبْدُ اﷲِ بْنُ عُمَرَ، قَالَ : يَا ابْنَ عُمَرَ، إِنِّيْ سَائِلُکَ عَنْ شَيْئٍ فَحَدِّثْنِيْ، هَلْ تَعْلَمُ أَنَّ عُثْمَانَ فَرَّ يَوْمَ أُحُدٍ؟ قَالَ : نَعَمْ فَقَالَ : تَعْلَمُ أَنَّهُ تَغَيَبَ عَنْ بَدْرٍ وَ لَمْ يَشْهَدْ؟ قَالَ : نَعَمْ قَالَ : تَعْلَمُ أَنَّهُ تَغَيَبَ عَنْ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ فَلَمْ يَشْهَدْهَا؟ قَالَ : نَعَمْ قَالَ : اﷲُ أَکْبَرُ. قَالَ ابْنُ عُمَرَ : تَعَالْ أُبَيِنْ لَکَ، أَمَّا فِرَارُهُ يَوْمَ أُحُدٍ، فَأَشْهَدُ أَنَّ اﷲَ ؟ عَفَا عَنْهُ وَ غَفَرَلَهُ، وَ أَمَّا تَغَيُبُهُ عَنْ بَدْرٍ فَإِنَّهُ کَانَتْ تَحْتَهُ بِنْتُ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَکَانَتْ مَرِيْضَةً، فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : إِنَّ لَکَ أَجْرَ رَجُلٍ مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا وَ سَهْمَهُ. وَ أَمَّا تَغَيُبُهُ عَنْ بَيْعَةِ الرِّضْوَانِ، فَلَوْ کَانَ أَحَدٌ أَعَزَّ بِبَطْنِ مَکَّةَ مِنْ عُثْمَانَ لَبَعَثَهُ مَکَانَهُ، فَبَعَثَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم عُثْمَانَ، وَ کَانَتْ بَيْعَةُ الرِّضْوَانِ بَعْدَ مَا ذَهَبَ عُثْمَانُ إِلَي مَکَّةَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بِيَدِهِ الْيُمْنَي : هَذِهِ يَدُ عُثْمَانَ. فَضَرَبَ بِهَا عَلَي يَدِهِ، فَقَالَ : هَذِهِ لِعُثْمَانَ. فَقَالَ لَهُ ابْنُ عُمَرَ : اذْهَبْ بِهَا الآنَ مَعَکَ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

 

’’حضرت عثمان بن موہب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی مصر سے آیا اس نے حج کیا اور چند آدمیوں کو ایک جگہ بیٹھے ہوئے دیکھا تو پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ کسی نے کہا، یہ قریش ہیں۔ پوچھا ان کا سردار کون ہے؟ لوگوں نے کہا : عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما ہیں وہ کہنے لگا اے ابن عمر! میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں اس کا جواب مرحمت فرمائیے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ غزوہ احد سے فرار ہو گئے تھے؟ جواب دیا ہاں پھر دریافت کیا کیا آپ کو معلوم ہے کہ عثمان رضی اللہ عنہ غزوہ بدر میں شامل نہیں ہوئے تھے؟ جواب دیا ہاں پھر پوچھا کیا آپ کو معلوم ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیعت رضوان کے وقت موجود نہ تھے بلکہ غائب رہے؟ جواب دیا ہاں اس نے اللہ اکبر کہا۔ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اﷲ عنہما نے فرمایا : ٹھہرئیے میں ان واقعات کی کیفیت بیان کرتا ہوں جو انہوں نے جنگ احد سے راہِ فرار اختیار کی تو میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما دیا اور انہیں بخش دیاگیا۔ رہا وہ غزوہ بدر سے غائب رہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک صاحبزادی ان کے نکاح میں تھیں اور اس وقت وہ بیمار تھیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے خود فرمایا تھا کہ تمہارے لئے بھی بدر میں شریک صحابہ کے برابر اجر اور حصہ ہے۔ (تم اس کی تیمار داری کے لئے رکو) رہی بیعت رضوان سے غائب ہونے والی بات تو مکہ مکرمہ کی سر زمین میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کوئی معزز ہوتا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی جگہ اسے اہل مکہ کے پاس سفیر بنا کر بھیجتے سو بیعت رضوان کا واقعہ تو ان کے مکہ مکرمہ میں (بطورِ سفیر مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے جانے کے بعد پیش آیا پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کے لئے فرمایا یہ عثمان کا ہاتھ ہے اور اسے اپنے دوسرے دست مبارک پر رکھ کر فرمایا کہ یہ عثمان کی بیعت ہے۔ پھر حضرت ابن عمر نے اس شخص سے فرمایا : اب جا اور ان بیانات کو اپنے ساتھ لیتا جا۔ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 17 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عثمان بن عفان رضی اﷲ عنه، 3 / 1353، الحديث رقم : 3495، و ايضا في کتاب المغازي، باب قول اﷲ تعالي إن الذين تولوا منکم، 4 / 1491، الحديث رقم : 3839، و الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب مناقب عثمان، 5 / 629، الحديث رقم : 3706، و أحمد بن حنبل فيالمسند، 2 / 101، الحديث رقم : 5772.

 

18. عَنْ عُبَيْدِ اﷲِ بْنِ عَدِيِّ بْنِ الْخَيَارِ، فِيْ رِوَايَةٍ طَوِيْلَةٍ مِنْهَا. . . . . عَنْهُ أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ قَالَ أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ اﷲَ عزوجل بَعَثَ مُحَمَّداً بِالْحَقِّ، فَکُنْتُ مِمَّنْ اسْتَجَابَِﷲِ وَلِرَسُوْلِهِ وَ آمَنَ بِمَا بُعِثَ بِهِ مُحَمَّدٌ، ثُمَّ هَاجَرْتُ الْهِجْرَتَيْنِ کَمَا قُلْتُ وَ نِلْتُ صِهْرَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَ بَايَعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ فَوَاﷲِ مَا عَصَيْتُهُ وَلَا غَشَشْتُهُ حَتَّي تَوَفَّاهُ اﷲُ عزوجل. رَوَاهُ أَحْمَدُ.

 

’’حضرت عبید اﷲ بن عدی بن خیارسے ایک طویل روایت میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بے شک اﷲ تبارک و تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا اور میں ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت پر لبیک کہا اور اس پر ایمان لائے جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکر بھیجا گیا۔ پھر جیسا کہ میں نے کہا میں نے دو ہجرتیں کیں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رشتۂِ دامادی پایا اور میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست حق پرست پر بیعت بھی کی اور خدا کی قسم میں نے کبھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی نہیں کی اور نہ ہی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دھوکہ کیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وصال فرما گئے۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 18 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 66، الحديث رقم : 480، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 88.

 

19. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنِ النَّبِيِّ قَالَ : إِنَّ اﷲَ عَزَّ وَجَلَّ أَوْحٰي إِلَيَّ أَنْ أُزَوِّجَ کَرِيْمَتِيْ مِنْ عُثْمَانَ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الصَّغِيْرِ وَ الأَوْسَطِ.

 

’’حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک اﷲ تبارک وتعالیٰ نے میری طرف وحی فرمائی ہے کہ میں اپنی صاحبزادی کی شادی عثمان سے کروں. اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الصغیر‘‘ اور المعجم الاوسط‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 19 : أخرجه الطبراني في المعجم الصغير، 1 / 253، الحديث رقم : 414، و الطبراني في المعجم الاوسط، 4 / 18، الحديث رقم : 3501، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 83، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 512، الحديث رقم : 837.

 

20. عَنْ أُمِّ عَيَاشٍ قَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَا زَوَّجْتُ عُثْمَانَ أُمَّ کَلْثُوْمٍ إِلَّا بِوَحْيٍ مِّنَ السَّمَاءِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ وَ الأَوْسَطِ.

 

’’حضرت ام عیاش رضی اﷲ عنھا سے روایت ہے وہ فرماتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے عثمان کی شادی اپنی صاحبزادی ام کلثوم سے نہیں کی مگر فقط وحی الٰہی کی بنا پر۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ اور ’’المعجم الاوسط‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 20 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 25 / 92، الحديث رقم : 236، و الطبراني في المعجم الاوسط، 5 / 264، الحديث رقم : 5269، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 83، و خطيب بغدادي في تاريخ بغداد، 12 / 364.

 

21. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ : وَقَفَ رَسُوْلُ اﷲِ عَلَي قَبْرِ ابْنَتِهِ الثَّانِيَةِ الَّتِيْ کَانَتْ عِنْدَ عُثْمَانَ فَقَالَ : ألَا أَبَا أَيِمٍ، أَلاَ أَخَا أَيِمٍ تَزَوَّجَهَا عُثْمَانُ، فَلَوْکُنَّ عَشْرًا لَزَوَّجْتُهُنَّ عُثْمَانَ وَمَازَوَّجْتُهُ إِلَّا بِوَحْيٍ مِنَ السَّمَاءِ وَ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لَقِيَ عُثْمَانَ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ فَقَالَ يَا عُثْمَانُ هَذَا جِبْرَائِيْلُ يُخْبِرُنِي أَنَّ اﷲَ ل قَدْ زَوَّجَکَ أُمَّ کُلْثُوْمٍ عَلَي مِثْلِ صِدَاقِ رُقَيَةَ وَ عَليٰ مِثْلِ صُحْبَتِهَا. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.

 

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی دوسری صاحبزادی کی قبر پر کھڑے ہوئے جو حضرت عثمان کے نکاح میں تھیں اور فرمایا : خبردار اے کنواری لڑکی کے باپ! اور خبر دار اے کنواری لڑکی کے بھائی! اس (میری بیٹی) کے ساتھ عثمان نے شادی کی اور اگر میری دس بیٹیاں ہوتیں تو میں ان کی بھی شادی یکے بعد دیگرے عثمان کے ساتھ کردیتا اور (ان کے ساتھ ) عثمان کی شادی وحی الٰہی کے مطابق کی اور بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے مسجد کے دروازے کے نزدیک ملے اور فرمایا : اے عثمان یہ جبرئیل امین علیہ السلام ہیں۔ جو مجھے یہ بتانے آئے ہیں کہ اﷲتعالیٰ نے تمہاری شادی ام کلثوم کے ساتھ اس کی بہن رقیہ (حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پہلی صاحبزادی) کے مہر کے بدلہ میں کردی ہے۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 21 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 22 / 436، الحديث رقم : 1063، و الشيباني في الأحاد والمثاني، 5 / 378، الحديث رقم : 2982، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 590، الحديث رقم : 1291.

 

22. عَنْ عِصْمَةَ، قَالَ : لَمَّا مَاتَتْ بِنْتُ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم الَّتِيْ تَحْتَ عُثْمَانَ، قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : زَوِّجُوْا عُثْمَانَ، لَوْکَانَ لِي ثَالِثَةٌ لَزَوَّجْتُهُ وَ مَا زَوَّجْتُهُ اِلَّابِالْوَحْيِ مِنَ اﷲِ عزوجل. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.

 

’’حضرت عصمہ رضی اﷲ عنھا سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دوسری صاحبزادی جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں فوت ہو گئیں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عثمان کی شادی کراؤ اگر میرے پاس تیسری بیٹی ہوتی تو اس کی شادی بھی میں عثمان کے ساتھ کردیتا اور میں نے اس کی شادی وحی الٰہی کے مطابق ہی کی تھی۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 22 : أخرجه الطبرانيفي المعجم الکبير، 17 / 184، الحديث رقم : 490، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 83.

 

23. عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : ذُکِرَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ عِنْدَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : ذَاکَ النُّوْرُ فَقِيْلَ لَهُ مَا النُّوْرُ؟ قَالَ : النُّوْرُ شَمْسٌ فِي السَّمَاءِ وَ الجِنَانِ وَ النُّوْرُ يَفْضُلُ عَلَي الْحُوْرِ الْعِيْنِ وَ إِنِّي زَوَّجْتُهُ ابْنَتِي فَلِذَلِکَ سَمَّاهُ اﷲُ عِنْدَ الْمَلَائِکَةِ ذَاالنُّوْرِ وَ سَمَّاهُ فِي الجِنَانِ ذَاالنُّوْرَيْنِ، فَمَنْ شَتَمَ عُثْمَانَ فَقَدْ شَتَمَنِي. رَوَاهُ ابْنُ عَسَاکِرَ.

 

’’حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا گیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا وہ تو نور والے ہیں۔ عرض کیا گیا نور سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نور سے مراد آسمانوں اور جنتوں کا آفتاب ہے اور یہ نور جنتی حوروں کو بھی شرماتا ہے اور میں نے اس نور یعنی عثمان بن عفان سے اپنی صاحبزادی کا نکاح کیا ہے پس اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے عالم ملائکہ میں ان کا نام ذاالنور (نور والا) رکھا ہے اور جنتوں میں ذا النوریں (دو نور والا) رکھا ہے تو جس نے عثمان کو گالی دی اس نے مجھے گالی دی۔ اس حدیث کو ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔

 

الحديث رقم 23 : أخرجه ابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 41 / 33

 

 

(4). بَابٌ فِي رِضْوَانِ اﷲِ وَ رَسُوْلِهِ عَنْهُ وَ مَحَبَّتِهِمَا لَهُ.

 

(آپ رضی اللہ عنہ کے لئے اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رضا اور محبت کا مژدہ جانفزا)24. عَنْ جَابِرٍ، قَالَ أُتِيَ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بِجَنَازَةِ رَجُلٍ لِيُصَلِيَّ عَلَيْهِ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ، فَقِيْلَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ صلي اﷲ عليک و سلم مَا رَأَيْنَاکَ تَرَکْتَ الصَّلَاةَ عَلٰي أَحَدٍ قَبْلَ هَذَا؟ قَالَ : إِنَّهُ کَانَ يُبْغِضُ عُثْمَانَ فَأَبْغَضَهُ اﷲُ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

 

’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک جنازہ لایا گیا کہ آپ اس پر نماز پڑھیں مگر آپ نے اس پر نماز نہیں پڑھی عرض کیا گیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم ہم نے آپ کو کسی کی نمازِ جنازہ چھوڑتے نہیں دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ عثمان سے بغض رکھتا تھا تو اﷲ نے بھی اس سے بغض رکھا ہے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 24 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان، 5 / 630، الحديث رقم : 3709، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 596، الحديث رقم : 1312.

 

25. عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَامَ. يعْنِي يَوْمَ بَدْرٍ فَقَالَ : إِنَّ عُثْمَانَ انْطَلَقَ فِي حَاجَةِ اﷲِ وَحَاجَةِ رَسُولِ اﷲِ، وَإِنِّي أُبَايِعُ لَهُ، فَضَرَبَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم بِسَهْمٍ، وَلَمْ يَضْرِبْ لِأَحَدٍ غَابَ غَيْرُهُ. رَوَاهُ أَبُوْدَاؤْدَ.

 

’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہین کہ بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدر والے دن کھڑے ہوئے اور فرمایا : بے شک عثمان اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کام میں مصروف ہے اور بے شک میں اس کی بیعت کرتا ہوں اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مال غنیمت میں سے بھی آپ رضی اللہ عنہ کا حصہ مقرر کیا اور آپ کے علاوہ جو کوئی اس دن غائب تھا اس کے لئے حصہ مقرر نہیں کیا۔ اس حدیث کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 25 : أخرجه أبوداؤد، ک

6) بَابٌ فِي جُوْدِهِ رضي الله عنه وَ سَخَائِهِ رضي الله عنه

 

(آپ رضی اللہ عنہ کی جود و سخا کا بیان)32. عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ خَبَّابِ قَالَ : شَهِدْتُ النَبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم وَهُوَ يَحُثُّ عَلٰي جَيْشِ الْعُسْرَةِ، فَقَامَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ عَليَّ مِئْةُ بَعِيْرٍ بِأَحْلَاسِهَا وَأَقْتَابِهَا فِي سَبِيْلِ اﷲِ، ثُمَّ حَضَّ عَلَي الْجَيشِ فَقَامَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ عَليَّ مِئَتَا بَعِيْرٍ بِأَحْلَاسِهَا وَأَقْتَابِهَا فِي سَبِيلِ اﷲِ، ثُمَّ حَضَّ عَلَي الْجَيْشِ فَقامَ عُثْمَانُ ابْنُ عَفَّانَ فَقَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم !ِﷲِ عَلَيَّ ثَلاَثُ مِئَةِ بَعِيْرِ بِأَحْلَاسِهَا وَأَقْتَابِهَا فِي سَبِيْلِ اﷲِ، فَأَنَا رَأَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَنْزِلُ عَنِ الْمِنْبَرِ وَهُوَ يَقُوْلُ : مَا عَلٰي عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ هَذِهِ، مَا عَلٰي عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ هَذِهِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

 

’’حضرت عبدالرحمن بن خباب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیش عسرہ کے متعلق لوگوں کو ترغیب دے رہے تھے۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا۔ یا رسول اﷲ! میں سو اونٹ مع ساز و سامان اﷲ کے راستے میں اپنے ذمہ لیتا ہوں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر ترغیب دلائی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پھر اٹھے اور عرض کیا یا رسول اﷲ ! میرے ذمہ اﷲ کی راہ میں دوسو اونٹ مع سازوسامان اور غلہ کے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر ترغیب دلائی، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پھر کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اﷲ! میرے ذمہ تین سو اونٹ مع ساز و سامان کے اﷲ کی راہ میں ہیں۔ راوی بیان کرتے ہیں : میں نے دیکھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر سے اترے اور فرمایا : اس عمل کے بعد عثمان جو کچھ بھی آئندہ کرے گا اس پر کوئی جواب طلبی نہیں ہوگی۔ اِس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 32 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان، 5 / 625، الحديث رقم : 3700، و أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 75، و الطيالسي في المسند، 1 / 164، الحديث رقم : 1189، و عبدبن حميد في المسند، 1 / 128، الحديث رقم : 311.

 

33. عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ : جَاءَ عُثْمَانُ إِلٰي النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم بِأَلْفِ دِيْنَارٍ، قاَلَ الْحَسَنُ بْنُ وَاقِعٍ : وَکَانَ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ مِنْ کِتَابِيْ، فِيْ کُمِّه حِيْنَ جَهَزَ جَيْشَ الْعُسْرَةِ فَيَنْثُرُهَا فِي حِجْرِهِ قَالَ عَبْدُالرَّحْمٰنِ : فَرَأَيْتُ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم يُقَلِّبُهَا فِيْ حِجْرِهِ وَيَقُوْلُ : مَا ضَرَّ عُثْمَانَ مَا عَمِلَ بَعْدَ الْيَوْمِ. مَرَّتَيْنِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

 

وَ قَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

 

’’حضرت عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایک ہزار دینار لے کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب جیش عسرہ کی روانگی کا سامان ہو رہا تھا۔ آپ نے اس رقم کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود میں ڈال دیا۔ حضرت عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ میں نے اس وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ ان دیناروں کو اپنی گود میں دست مبارک سے الٹ پلٹ رہے تھے اور فرما رہے تھے عثمان آج کے بعد جو کچھ بھی کرے گا اسے کوئی بھی عمل نقصان نہیں پہنچائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ جملہ دوبار ارشاد فرمایا۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا : یہ حدیث حسن ہے۔

 

الحديث رقم 33 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان، 5 / 626، الحديث رقم : 3701، و الحاکم في المستدرک علي الصححين، 3 / 110، الحديث رقم ، 4553، و ابن ابي عاصم في السنة، 2 / 587، الحديث رقم : 1279، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 515، الحديث رقم : 846، و الشيباني في الأحاد و المثاني، 1 / 477، الحديث رقم : 666.

 

34. عَنْ أَبِيْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ السُّلْمِيِّ، قَالَ : لَمَّا حُصِرَ عُثْمَانُ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ فَوْقَ دَارِهِ ثُمَّ قَالَ : أُذَکِّرُکُمْ بِاﷲِ هَلْ تَعْلَمُوْنَ أَنَّ حِرَائَ حِيْنَ انْتَفَضَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : اثْبُتْ حِرَاءُ فَلَيْسَ عَلَيْکَ إلاّ نَبِيُّ أوْصِدِّيقٌ أوْ شَهِيْدٌ؟ قَالُوْا نَعَمْ. قَالَ : أُذَکِّرُکُمَ بِاﷲِ هَلْ تَعْلَمُوْنَ أنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ فِي جَيْشِ الْعُسْرَةِ : مَنْ يُنْفِقُ نَفَقَةً مُتَقَبَّلَةً. وَالنَّاسُ مُجْهَدُوْنَ مُعْسَرُوْنَ فَجَهَزْتُ ذَلِکَ الْجَيْشَ؟ قَالُوْا : نَعَمْ. ثُمَّ قَالَ أُذَکِّرُکُمْ بِاﷲِ هَلْ تَعْلَمُوْنَ أنَّ رُوْمَةَ لَمْ يَکُنْ يَشْرَبُ مِنْهَا أَحَدٌ إِلَّا بِثَمَنٍ فَابْتَعْتُهَا فَجَعَلْتُهَا لِلْغَنِيِّ وَالْفَقِيْرِ وَابْنِ السَّبِيلِ؟ قَالُوْا : اللَّهُمَّ نَعَمْ، وَأشْيَائُ عَدَّدَهَا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

 

وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

 

’’حضرت عبدالرحمن سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کرلیا گیا تو انہوں نے اپنے گھر کے اوپر سے جھانکا اور فرمایا : میں تمہیں اﷲ کی قسم دے کر یاد دلاتا ہوں کہ کیا تم جانتے ہو جب جبل حراء لرز اٹھا تھا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا : اے حراء! ٹھہر جا کیونکہ تیرے اوپر نبی، صدیق اور شہید کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا ہاں ہم جانتے ہیں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں اﷲ کی قسم دلا کر یاد دلاتا ہوں کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جیش عسرہ کے موقع پر فرمایا تھا : کون ہے جو مقبول نفقہ خرچ کرتا ہے، اور لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ تنگدستی و مصیبت میں مبتلا ہیں تو میں نے اس لشکرکی روانگی کا سامان کیا تھا یہ سن کر محاصرین نے کہا : ہاں پھر حضرت عثمان نے فرمایا : میں تمہیں اﷲ کی قسم دے کر یاد دلاتا ہوں کہ بیئر رومہ (رومہ کے کنویں) سے کوئی شخص بلا قیمت پانی نہ پیتا تھا میں نے اسے کوشش کرکے خریدا اور اس کو غنی فقیر اور مسافر سب کے لئے وقف عام کر دیا انہوں نے کہا ہاں یہ بھی ٹھیک ہے اسی طرح اور بہت سی باتیں یاد دلائیں۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور وہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 34 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، 5 / 625، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان، الحديث رقم : 3699، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 348، الحديث رقم : 6916، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 59، الحديث رقم : 420، و الدار قطني في السنن، 4 / 198، الحديث رقم : 8، و المقدسي في الأحاديث المختارة، 1 / 483، الحديث رقم : 358.

 

35. عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ حِزْنِ الْقُشَيْرِيِّ، قَالَ : شَهِدْتُ الدَّارَ حِيْنَ أَشْرَفَ عَلَيْهِمْ عُثْمَانُ، فَقَالَ : ائْتُوْنِي بِصَاحِبَيْکُمُ اللَّذَيْنِ أَلَبَّاکُمْ عَلَيَّ قَالَ : فَجِيْئَ بِهِمَا فَکَأَنَّهُمَا جَمَلاَنِ أَوْ کَأَنَّهُمَا حِمَارَانِ، قَالَ : فَأَشْرَفَ عَلَيْهِمْ عُثْمَانُ، فَقَالَ : أَنْشُدُکُمْ بِاﷲِ وَالإِسْلَامِ هَلْ تَعْلَمُوْنَ أنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَدِمَ المَدِيْنَةَ وَلَيْسَ بِهَا مَاءٌ يُسْتَعْذَبُ غَيْرَ بِئْرِرُوْمَةَ فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : مَنْ يَشْتَرِيْ بِئْرَرُوْمَةَ فَيُجْعَلُ دَلْوَهُ مَعَ دِلاَءِ الْمُسْلِمِيْنَ بِخَيْرٍ لَهُ مِنْهَا فِي الْجَنَّةِ؟ فَاشْتَرَيْتُهَا مِنْ صُلْبِ مَالِيْ فَأَنْتُمُ الْيَوْمَ تَمْنَعُوْنِيْ أَنْ أَشْرَبَ مِنْهَا حَتَّي أَشْرَبَ مِنْ مَاءِ الْبَحْرِ قَالُوْا : أَللَّهُمَّ نَعَمْ. قَالَ أَنْشُدُکُمْ بِاﷲِ وَالإِسْلَامِ هَلْ تَعْلَمُوْنَ أَنَّ الْمَسْجِدَ ضَاقَ بِأَهْلِه، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : مَنْ يَشْترِي بُقْعَةَ آلِ فُلاَنٍ فَيَزِيْدَهَا فِي الْمَسْجِدِ بِخَيْرٍ لَهُ مِنْهَا فِي الْجَنَّةِ؟ فَاشْتَرَيْتُهَا مِن صُلْبِ مَالِيْ فَأَنْتُمُ الْيَوْمَ تَمْنَعُوْنِي أَنْ أُصَلِّيَ فِيْهَا رَکْعَتَيْنِ؟ قَالُوْا : اللَّهُمَّ نَعَمْ قَالَ : أَنْشُدُکُمْ بِاﷲِ وَ بِالْإِسْلَامِ هَلْ تَعْلَمُوْنَ أَنِّيْ جَهَزْتُ جَيْشَ الْعُسْرَةِ مِنْ مَالِيْ؟ قَالُوْا أَللَّهُمَّ نَعَمْ ثُمَّ قَالَ : أَنْشُدُکُمْ بِاﷲِ وَ الِْإسْلاَمِ هَلْ تَعْلَمُوْنَ أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم کَانَ عَلَي ثَبِيْرِ مَکَّةَ وَ مَعَهُ أبُوْ بَکْرٍ وَ عُمَرُ وَ أَنَا فَتَحَرَّکَ الْجَبَلُ حَتَّي تَسَاقَطَتْ حِجَارَتُهُ بِالْحَضِيْضِ قَالَ : فَرَکَضَهُ بِرِجْلِهِ وَ قَالَ : اسْکُنْ ثَبِيْرُ فَإِنَّمَا عَلَيْکَ نَبِيٌّ وَ صِدِّيْقٌ وَ شَهِيْدَانِ؟ قَالُوْا : أَللَّهُمَّ نَعَمْ قَالَ اﷲُ أَکْبَرُ شَهِدُوْا لِيْ وَ رَبِّ الْکَعْبةِ أَنِّي شَهِيْدٌ ثَلاَ ثًا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَ النِّسَائِيُّ.

 

وَ قَالَ التِّرْمِذِيُّ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

 

’’حضرت ثمامہ بن حزن قشیری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں (محاصرہ کے وقت) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے گھر کے پاس آیا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اوپر سے جھانکا اور فرمایا : لاؤ اپنے ان دو افراد کو جنہوں نے میرے خلاف تمہیں جمع کیا ہے، راوی کہتے ہیں کہ ان دونوں کو اسطرح لایا گیا جیسے دو اونٹ ہوں یا دو گدھے ہوں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ان کو اوپر سے جھانکا اور فرمایا : میں تمہیں اﷲ اور اسلام کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو وہاں پر بئرِ رومہ کے سوا میٹھا پانی اور کہیں نہیں تھا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کون ہے جو بیئر رومہ کو خرید کر اسے مسلمانوں کے لئے وقف کردے۔ اس کے بدلہ میں اسے اس سے اچھی چیز بہشت میں ملے گی؟ یہ سن کر میں نے اسے خاص اپنے مال سے خریدا۔ آج تم مجھے اس کنویں کا پانی پینے سے روکتے ہو یہاں تک کہ میں سمندر (کے پانی جیسا کھارا) پانی پیتا ہوں۔ انہوں نے کہاں ہاں۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں تمہیں اﷲ اور اسلام کی قسم دیتا ہوں کیا تم جانتے ہو کہ نمازیوں کے لئے مسجد کی جگہ تنگ تھی، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کون ہے جو فلاں شخص کی اولاد سے زمین خرید کر اسے مسجد میں شامل کردے اس کے بدلہ میں اسے بہشت میں ایسی جگہ ملے گی جو اس کے لئے اس زمین سے بہتر ہوگی۔ یہ سن کر میں نے وہ زمین خاص اپنے مال سے خریدی اور آج تم مجھے اس میں دو رکعت نماز پڑھنے سے بھی روکتے ہو انہوں نے کہا ہاں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں تمہیں اﷲ اور اس رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں کہ کیا تم جانتے ہو کہ جیش عسرہ کا سامان میں نے ہی مہیا کیا تھا؟ ان لوگوں نے جواب دیا ہاں، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : تمہیں اﷲ اور اسلام کی قسم کیا تم جانتے ہو کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ کے ایک پہاڑ پر تھے اور آپ کے ساتھ ابوبکر اور حضرت عمر تھے اور ساتھ میں بھی تھا پہاڑ لرزنے لگا یہاں تک کہ اس کے پتھر نیچے گرپڑے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہاڑ کو اپنے قدم مبارک کی ٹھوکر مار کر فرمایا ثبیر! ٹھہر جا کیونکہ تیرے اوپر نبی، صدیق اور دو شہید ہیں لوگوں نے کہا! ہاں اﷲ کی قسم ہاں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اﷲ اکبر ان لوگوں نے میرے موافق گواہی دی۔ رب کعبہ کی قسم میں ہی وہ شہید ہوں یہ تین بار فرمایا۔‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی اور امام نسائی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 35 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان، 5 / 627، الحديث رقم : 3703، و النسائي في السنن، کتاب الأحباس، باب وقف المساجد، 6 / 235، الحديث رقم : 3608، و النسائي في السنن الکبريٰ، 4 / 97، الحديث رقم : 6435، و الدار قطني في السنن، 4 / 196، الحديث رقم : 2، و المقدسي في الأحاديث المختاره، 1 / 448، الحديث رقم : 322.

 

36. عَنْ بَشِيْرٍ الْأَسْلَمِّيِ قَالَ : لَمَّا قَدِمَ الْمُهَاجِرُوْنَ الْمَدِينَةَ اسْتَنْکَرُوْا الْمَائَ، وَکَانَتْ لِرَجُلٍ مِنْ بَنِي غَفَّارٍ عَيْنٌ يُقَالُ لَهَا رُوْمَةُ وَکَانَ يَبِيْعُ مِنْهَا الْقِرْبَةَ بِمُدٍّ. فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : بِعْنِيْهَا بِعَيْنٍ فِي الْجَنْةِ فَقَالَ : يَارَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم لَيْسَ لِي وَ لاَ لِعِيَالِي غَيْرُهَا، لاَ أَسْتَطِيْعُ ذَلِکَ فَبَلَغَ ذَالِکَ عُثْمَانَ رضي الله عنه فَاشْتَرَاهَا بِخَمْسَةٍ وَثَلاَثِيْنَ أَلْفَ دِرْهَمٍ، ثُمَّ أَتَي النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : يَارَسُوْلَ اﷲِ أَتَجْعَلُ لِي مِثْلَ الَّذِيْ جَعَلْتَهُ عَيْنًا فِي الْجَنَّةِ إِنِ اشْتَرَيْتُهَا؟ قَالَ : نَعَمْ، قَالَ : قَدِ اشْتَرَيْتُهَا وَجَعَلْتُهَا لِلْمُسْلِمِيْنَ. رَوَاهُ الْطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.

 

’’حضرت بشیر اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب مہاجرین مکہ سے مدینہ تشریف لائے تو انہیں پانی کی قلت محسوس ہوئی اور قبیلہ بنی غفار کے ایک آدمی کے پاس ایک چشمہ تھا جسے رومہ کہا جاتا تھا اور وہ اس چشمہ کے پانی کا ایک قربہ ایک مد کے بدلے میں بیچتا تھا پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے یہ چشمہ جنت کے چشمہ کے بدلے میں بیچ دو تو وہ آدمی کہنے لگا یا رسول اﷲ! میرے اور میرے عیال کے لیے اس کے علاوہ اور کوئی چشمہ نہیں ہے اس لئے میں ایسا نہیں کرسکتا پس یہ خبر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو آپ رضی اللہ عنہ نے اس آدمی سے وہ چشمہ پینتیس ہزار دینار کا خرید لیا پھر آپ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اﷲ ! اگر میں اس چشمہ کو خرید لوں تو کیا آپ صلی اﷲ علیک وسلم مجھے بھی اس کے بدلہ میں جنت میں چشمہ عطا فرمائیں گے جس طرح اس آدمی کو آپ صلی اﷲ علیک وسلم نے فرمایا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں (عطا کروں گا) تو اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اﷲ ! وہ چشمہ میں نے خرید کر مسلمانوں کے نام کردیا ہے۔ اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ میں روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 36 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 2 / 41، الحديث رقم : 126، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 3 / 129، و العسقلاني في الأصابة، 2 / 543

 

 

(7) بَابٌ فِي شَهَادِةِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم لَهُ بِکَوْنِهِ خَلِيْفَةَ الْمُسْلِمِيْنَ

 

(آپ رضی اللہ عنہ کی خلافت پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت)37. عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ أَنَّ خُطَبَاءَ قَامَتْ بِالشَّامِ وَ فِيْهِمْ رِجَالٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَقَامَ آخِرُهُمْ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ : مُرَّةُ بْنُ کَعْبٍ فَقَالَ : لَولَا حَدِيْثٌ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مَا قُمْتُ وَ ذَکَرَ الْفِتَنَ فَقَرَّبَهَا فَمَرَّ رَجُلٌ مُقَنَّعٌ فِي ثَوْبٍ فَقَال : هَذَا يَوْمَئِذٍ عَلٰي الْهُدَي فَقُمْتُ إِلَيْهِ فإِذَا هُوَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ قَالَ : فَأَقْبَلْتُ عَلَيْهِ بِوَجْهِهِ فَقُلْتُ : هَذَا قَالَ : نَعَمْ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

 

وَ قَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

 

’’ حضرت ابو اشعث صنعانی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ چند خطباء شام میں کھڑے ہوئے تھے ان میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کئی صحابی تھے ان میں سے سب سے آخری آدمی کھڑے ہوئے جن کا نام حضرت مرّہ بن کعب تھا انہوں نے فرمایا! اگر میں نے ایک حدیث حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نہ سنی ہوتی تو میں کھڑا نہ ہوتا (انہوں نے بتایا کہ) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتنوں کا ذکر فرمایا اور ان کا نزدیک ہونا بیان کیا اتنے میں ایک شخص کپڑے سے سر کو لپیٹے ہوئے گزرا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (فتنہ و فساد) کے دن یہ شخص حق اور ہدایت پر ہوگا۔ میں اس کی طرف اٹھا تو دیکھا کہ وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہیں پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ کی طرف متوجہ ہوا اور عرض کیا (یا رسول اﷲ!) کیا یہی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں ’’یہی ہیں‘‘ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 37 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان، 5 / 628، الحديث رقم : 3704، و أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 236، و ابن أبي شيبه في المصنف، 6 / 360، الحديث رقم : 32026، و الحاکم في المستدرک، 3 / 109، الحديث رقم : 4552.

 

38. عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : يَا عُثْمَانُ إِنَّهُ لَعَلَّ اﷲَ يُقَمِّصُکَ قَمِيْصًا فإِنْ أرَادُوْکَ عَلٰي خَلْعِهِ فَلاَ تَخْلَعْهُ لَهُمْ وَِفي الْحَدِيْثِ قِصَّةٌ طَوِيْلَةٌ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

 

وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

 

’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اے عثمان! اﷲ تعالیٰ یقینًا تمہیں ایک قمیص (قمیصِ خلافت) پہنائے گا پس اگر لوگ اس کو اتارنا چاہیں تو تم ان کی خاطر اسے مت اتارنا۔ اس حدیث میں طویل قصہ ہے اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا : یہ حدیث حسن ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 38 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان، 5 / 628، الحديث رقم : 3705، و أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 149، الحديث رقم : 25203، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 346، الحديث رقم : 6915، و ابن أبي شيبه في المصنف، 7 / 515، الحديث رقم : 37655، و هيثمي في موارد الظمآن، 1 / 539، الحديث رقم : 2196.

 

39. عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ، قَالَ : إِنَّ ابْنَ عُمَرَ قَالَ : کُنَّا نَقُوْلُ وَرَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم حَيٌّ : أَفْضَلُ أُمَّةِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم بَعْدَهُ أَبُوْ بَکْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ، ثُمَّ عُثْمَانُ رضی اﷲ عنهم. رَوَاهُ أَبُوْدَاؤْدَ.

 

’’حضرت سالم بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ ظاہری کے ایام میں کہا کرتے تھے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں سے افضل ترین ابوبکر پھر عمر اور پھر عثمان رضی اللہ عنھم ہیں۔ اس حدیث کو ابوداؤد نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 39 : أخرجه أبوداود في السنن، کتاب السنة، باب في التفضيل، 4 / 206، الحديث رقم : 4628، و ابن ابي عاصم في السنة، 2 / 1540 و مبارکفوري في تحفة الاحوذي، 10 / 138، و الخلال في السنة، 2 / 386، الحديث رقم : 549.

 

40. عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَالَ : يَا عُثْمَانُ إِنْ وَلَّاکَ اﷲُ تَعَالَي هَذَا الْأَمْرَ يَوْمًا فَأَرَادَکَ الْمُنَافِقُوْنَ عَلَي أَنْ تَخْلَعَ قَمِيْصَکَ الَّذِيْ قَمَّصَکَ اﷲُ فَلاَ تَخْلَعْهُ، يَقُوْلُ ذَلِکَ ثَلاَ ثَ مَرَّاتٍ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ.

 

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عثمان اگر اﷲ تعالیٰ تمہیں کسی دن امرِ خلافت پر فائز کرے اور منافقین یہ ارادہ کریں کہ وہ تمہاری قمیصِ خلافت جو تمہیں اﷲ تعالیٰ نے پہنائی ہے اس کو تم اتار دو تو اسے ہرگز نہ اتارنا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا تین مرتبہ فرمایا۔ اس حدیث کو امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 40 : أخرجه ابن ماجه في السنن، المقدمه، باب فضل عثمان، 1 / 41، الحديث رقم : 112، و الديلمي في الفردوس بمائثور الخطاب، 5 / 3112، و المبارکفوري في تحفة الأحوذي، 10 / 137.

 

41. عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : کُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : يَا عَائِشَةُ لَوْ کَانَ عِنْدَنَا مَنْ يُحَدِّثُنَا قَالَتْ : قُلْتُ يَا رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَلَا أَبْعَثُ إِلَي أَبِيْ بَکْرٍ فَسَکَتَ ثُمَّ قَالَ : لَوْ کَانَ عِنْدَنَا مَنْ يُحَدِّثُنَا فَقُلْتُ : أَلَا أَبَعَثُ إِلَي عُمَرَ فَسَکَتَ قَالَتْ : ثُمَّ دَعَا وَصِيْفًا بَيْنَ يَدَيْهِ فَسَارَّهُ فَذَهَبَ قَالَتْ : فَإِذَا عُثْمَانُ يَسْتَأذِنُ فَأَذِنَ لَهُ فَدَخَلَ فَنَاجَاهُ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم طَوِيْلًا ثُمَّ قَالَ : يَا عُثْمَانُ إِنَّ اﷲَ ل مُقْمِصُکَ قَمِيْصًا فَإِنْ أَرَادَکَ الْمُنَافِقُوْنَ عَلَي أَنْ تَخْلَعَهُ فَلاَ تَخْلَعْهُ لَهُمْ وَلَا کَرَامَةَ يَقُوْلُهَا لَهُ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاَ ثًا. رَوَاهُ أَحْمَدُ فِي الْمُسْنَدِ وَ الْحَاکِمُ فِي الْمُسْتَدْرَکِ مُخْتَصَرًا.

 

وَ قَالَ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَالِيُ الْإِسْنَادِ.

 

’’حضرت عائشہ رضی اﷲ عنھا سے روایت ہے کہ ایک دفعہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عائشہ! کا ش ہمارے پاس کوئی ہوتا جو ہم سے باتیں کرتا وہ فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم کیا میں ابو بکر کو بلا بھیجوں تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے پھر فرمایا : کاش ہمارے پاس کوئی ہوتا جو ہم سے باتیں کرتا؟ فرماتی ہیں پھر میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم میں عمر کو بلا بھیجوں اس پر بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے سامنے ایک خدمتگار کو بلایا اور اسے کوئی خوشخبری سنائی پھر وہ چلا گیا حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں اتنے میں اچانک حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کے لئے اجازت طلب کی پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو آنے کی اجازت دے دی پس وہ اندر داخل ہوئے اور کافی دیر تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے گفتگو فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے عثمان ! بے شک اﷲ تعالیٰ تمہیں ایک قمیص پہنانے والا ہے پس اگر منافقین نے یہ چاہا کہ تم اس قمیض کو اتار دو تو ہرگز اسے نہ اتارنا۔ راوی بیان کرتے ہیں کوئی فضیلت ایسی نہ ہوگی جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لئے دو مرتبہ یا تین مرتبہ نہ کہی ہو۔ اس حدیث کو امام احمد نے مسند میں اور حاکم نے مستدرک میں مختصراً بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح اور عالی الاسناد ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 41 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 75، الحديث رقم : 24510، و الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 106، الحديث رقم : 4544، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 562.

 

42. عَنْ أَبِيْ أَمْنَا أَبِيْ حَسَنَةَ قَالَ : شَهِدْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ وَعُثْمَانُ مَحْصُوْرٌ فِي الدَّارِ وَ أَسْتَأذَنْتُهُ فِي الْکَلاَمِ فَقَالَ أَبُوْ هُرَيْرَةَ : سَمِِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : إِنَّهَا سَتَکُوْنُ فِتْنَةٌ وَ اخْتِلَافٌ أَوِ اخْتِلَافٌ وَ فِتْنَةٌ قَالَ : فَقُلْنَا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَمَا تَأمُرُنَا؟ قَالَ : عَلَيْکُمْ بِالْأَمِيْرِ وَ أَصْحَابِهِ وَ أَشَارَ إِلَي عُثْمَانَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.

 

وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ.

 

’’حضرت ابو امنا ابو حسنہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کے پاس حاضر ہوا جب کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایک گھر میں محصور تھے میں نے ان سے کلام کی اجازت مانگی تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بے شک عنقریب فتنہ اور اختلاف یا فرمایا اختلاف اور فتنہ بپا ہو گا۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا یا رسو ل اﷲ! آپ ہمارے لئے (ایسے وقت میں) کیا حکم فرماتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم پر امیر اور اس کے ساتھیوں کی اطاعت لازم ہوگی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ فرمایا۔ اس کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور کہا : یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 42 : أخرجه الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 105، الحديث رقم : 4541.

 

43. عَنِ النَّزَالِ بْنِ سَبْرَةَ قَالَ : لَمَّا اسْتَخْلَفَ عُثْمَانُ قَالَ عَبْدُ اﷲِ بْنُ مَسْعُوْدٍ : أَمَرَنَا خَيْرٌ مَنْ بَقِيَ وَلَمْ نَأْلُ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.

 

’’حضرت نزال بن سبرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے خلافت کا منصب سنبھالا تو حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما نے فرمایا : کہ ہمیں باقی بچ جانے والوں میں سے سب سے بہترین شخص نے حکم دیا ہے۔ لیکن ہم نے (اس کیلئے) کوشش نہ کی۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 43 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 9 / 170، الحديث رقم : 8843، و أبو نعيم في حلية الأولياء، 7 / 244، و ابن سعد في الطبقات الکبريٰ، 3 / 63، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 461، الحديث رقم : 747.

 

 

(8) بَابٌ فِي إِعْلَامِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وآله وسلم إِيَاهُ رضي الله عنه بِإِسْتِشْهَادِهِ

 

(حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو ان کی شہادت کی خبر دینا)44. عَنْ قَتَادَةَ : أَنَّ أَنَسًا رضي الله عنه حَدَّثَهُمْ قَالَ : صَعِدَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم أُحُدًا، وَ مَعَهُ أَبُوْبَکْرٍ وَ عُمَرُ وَ عُثْمَانُ، فَرَجَفَ، وَ قَالَ اسْکُنْ أُحُدُ، أَظُنُّهُ ضَرَبَهُ بِرِجْلِهِ. فَلَيْسَ عَلَيْکَ أَحَدٌ إِلَّا نَبِيٌّ وَ صِدِّيْقٌ وَ شَهِيْدَانِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.

 

’’حضرت انسص فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوہِ اُحد پر تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنھم تھے، تو اسے وجد آگیا (وہ خوشی سے جھومنے لگا) پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے اُحد! ٹھہر جا۔ راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے قدم مبارک سے ٹھوکر بھی لگائی اور فرمایا کہ تجھ پر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 44 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عثمان بن عفان، 3 / 1353، الحديث رقم : 3496، والترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان بن عفانص، 5 / 624، الحديث رقم : 3697، و أبوداؤد في السنن، کتاب السنة، باب في الخلفاء، 4 / 212، الحديث رقم : 4651، و النسائي في السنن الکبري، 5 / 43، الحديث رقم : 8135.

 

45. عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ أنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم کَانَ عَلٰي حِرَاءَ هُوَ وَ أَبُوْبَکْرِ وَ عُمَرُ وَ عُثْمَانُ وَ عَلِيٌّ وَ طَلْحَةُ وَ الزُّبَيْرُ فَتَحَرَّکَتِ الصَّخْرَةُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وآله وسلم إِهْدَأْ، فَمَا عَلَيْکَ إلاَّ نَبِيٌّ أَوْصِدِّيْقٌ أَوْشَهِيْدٌ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَ التِّرْمِذِيُّ.

 

وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.

 

وَ فِي الْبَابِ عَنْ عُثْمَانَ، وَسَعِيْدِ بْنِ زَيْدٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، وَأَنَسِ بْنِ مَالکٍ، وَبُرَيْدَةَ.

 

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حرا پہاڑ پر تشریف فرما تھے اور آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر رضی اللہ عنھم تھے اتنے میں پہاڑ لرزاں ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ٹھہر جا، کیونکہ تیرے اوپر نبی، صدیق اور شہید کے سوا کوئی اور نہیں ہے۔ اِس حدیث کو امام مسلم اور امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے اور اس باب میں اسی مضمون کی احادیث عثمان، سعید بن زید، ابن عباس، سہل بن سعد، انس بن مالک اور بریدہ اسلمیٰ سے مذکور ہیں۔‘‘

 

الحديث رقم 45 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل طلحة والزبير رضي الله عنه، 4 / 1880، الحديث رقم : 2417، والترمذي فيالجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان بن عفان، 5 / 624، الحديث رقم : 3696، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 441، الحديث رقم : 6983، و النسائي في السنن الکبريٰ، 5 / 59، الحديث رقم : 8207.

 

46. عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ : ذَکَرَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِتْنَةً فَقَالَ : يُقْتَلُ هَذَا فِيْهَا مَظْلُومًا لِعُثْمَانَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ.

 

وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

 

’’حضرت عبداﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتنہ کا ذکر کیا اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا کہ اس میں یہ مظلوماً شہید ہو گا۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے اور کہا : یہ حدیث حسن ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 46 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان، 5 / 630، الحديث رقم : 3708.

 

47. عَنْ أَبِيْ سَهْلَةَ قَالَ : قَالَ عُثْمَانُ يَوْمَ الدَّارِ : إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم قَدْ عَهِدَ إِلَيَّ عَهْدًا فَأَنَا صَابِرٌ عَلَيْهِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَ ابْنُ مَاجَةَ.

 

وَ قاَلَ التِّرْمِذِيُّ هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.

 

’’حضرت ابو سہلہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مجھ سے محاصرہ کے دن فرمایا: کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے ایک وصیت فرمائی تھی اور میں اسی پر صابر ہوں۔ اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اورامام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 47 : أخرجه الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان، 5 / 631، الحديث رقم : 3711، و ابن ماجه في السنن، 1 / 42، الحديث رقم : 113، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 356، الحديث رقم : 6918، و ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 515، الحديث رقم : 37657.

 

48. عَنْ مُسْلِمٍ أَبِيْ سَعِيْدٍ مَوْلٰي عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ : أَنَّ عُثْمَانَ أَعْتَقَ عِشْرِيْنَ مَمْلُوْکاً، وَدَعَا بِسَرَاوِيْلَ فَشَدَّهَا عَلَيْهِ، وَلَمْ يَلْبَسْهَا فِي جَاهِلِيَةٍ وَلاَ إِسْلاَمٍ، وَقَالَ : إِنِّي رَأَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم الْبَارِحَةَ فِي الْمَنَامِ وَرَأَيْتُ أَبَا بَکْرٍ وَ عُمَرَ، وَأَنَّهُمْ قَالَوْا لِي : اصْبِرْ، فَإِنَّکَ تُفْطِرُ عِنْدَنَا الْقَابِلَةَ فَدَعَا بِمُصْحَفٍ فَنَشَرَهُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقُتِلَ وَهُوَ بَيْنَ يَدِيْهِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.

 

’’حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے خادم حضرت مسلم (ابو سعید) سے روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بیس غلاموں کو آزاد کیا اور ایک پاجامہ منگوایا اور اسے زیب تن کر لیا، اسے آپ نے نہ تو زمانہ جاہلیت میں کبھی پہنا تھا اور نہ ہی زمانۂ اسلام میں، پھر انہوں نے بیان کیا کہ میں نے گذشتہ رات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ابو بکر و عمر رضی اﷲ عنہما بھی ہیں، ان سب نے مجھے کہا ہے (اے عثمان) صبر کرو پس بے شک تم کل افطاری ہمارے پاس کرو گے پھرآپ رضی اللہ عنہ نے مصحف منگوایا اور اس کو اپنے سامنے کھول کر تلاوت فرمانے لگے اوراسی اثنا میں آپ رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا گیا اور وہ مصحف آپ کے سامنے ہی تھا۔ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 48؛ أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 72، الحديث رقم : 526، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 96، و المناوي في فيض القدير، 1 / 110.

 

49. عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ : أَرْسَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إلَي عُثْمَانَ فَأَقْبَلَ عَلَيْهِ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَکَانَ آخِرُ کَلَامٍ کَلَّمَهُ أَنْ ضَرَبَ مَنْکِبَهُ وَ قَالَ : يَا عُثْمَانُ إِنَّ اﷲَ عَسَي أَنْ يُلْبِسَکَ قَمِيْصًا فَإِنَ أَرَادَکَ الْمُنَافِقُوْنَ عَلَي خَلْعِهِ فَ. لَا تَخْلَعْهُ حَتَّي تَلْقَانِيْ فَذَکَرَهُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.

 

’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اپنی طرف بلا بھیجا جب وہ آئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی طرف بڑھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے ساتھ جو آخری کلام فرمایا : وہ یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے کندھے پر (ہاتھ) مارا اور فرمایا : اے عثمان بے شک اﷲ تعالیٰ تمہیں (خلافت کی) قمیص پہنائے گا اگر منافقین اس کو اتارنے کا ارادہ کریں تو اس کو ہرگز نہ اتارنا یہاں تک کہ تم مجھ سے آ ملو پس آپ نے تین مرتبہ ایسا فرمایا اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 49 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 86، الحديث رقم : 24610، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 90، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 500، الحديث رقم : 816.

 

50. عَنِ بْنِ حَوَالَةَ قَالَ : أَتَيْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم وَ هُوَ جَالِسٌ فِي ظِلّ دَوْمَةَ وَ عِنْدَهُ کَاتِبٌ لَهُ يُمْلِيْ عَلَيْهِ فَقَالَ : أَلَا أَکْتُبُکَ يَا بْنَ حَوَالَةَ قُلْتُ : لَا أَدْرِي مَا خَارَ اﷲُ لِي وَ رَسُوْلُهُ فًأَعْرَضَ عَنِّي وَ قَالَ إِسْمَاعِيْلُ مَرَّةً فِي الأُوْلٰي نَکْتُبُکَ يَا بْنَ حَوَالَةَ قُلْتُ : لَا أَدْرِيْ فِيْمَ يَارَسُوْلَ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَأَعْرَضَ عَنِّيْ فَأَکَبَّ عَلَي کَاتِبِهِ يُمْلِيْ عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ : أَنَکْتُبُکَ يَا بْنَ حَوَالَةَ قُلْتُ : لَا أَدْرِي مَا خَارَ اﷲُ وَ رَسُوْلُهُ فَأَعْرَضَ عَنِّيْ فَأَکَبَّ عَلَي کَاتِبِهِ يُمْلِيْ عَلَيْهِ قَالَ فَنَظَرْتُ فَإِذَا فِي الْکِتَابِ عُمَرُ فَقُلْتُ : إِنَّ عُمَرَ لَا يُکْتَبُ إِلَّا فِي خَيْرٍ ثُمَّ قَالَ : أَنَکْتُبُکَ يَا بْنَ حَوَالَةَ قُلْتُ : نَعَمْ فَقَالَ : يَا بْنَ حَوَالَةَ کَيْفَ تَفْعَلُ فِي فِتْنَةٍ تَخْرُجُ فِي أَطْرَافِ الأَرْضِ کَأَنَّهَا صَيَاصِي بَقَرٍ قُلْتُ لَا أَدْرِي مَا خَارَ اﷲُ لِي وََرسُوْلُهُ قَالَ : وَ کَيْفَ تَفْعَلُ فِي أُخْرٰي تَخْرُجُ بَعْدَهَا کَأَنَّ الأُوْلٰي فِيْهَا انْتَفَاحَةُ أَرْنَبٍ قُلْتُ : لَا أَدْرِي مَا خَارَ اﷲُ لِيْ وَ رَسُوْلُهُ قَالَ : اتَّبِعُوْا هَذَا قَالَ : وَ رَجُلٌ مُقَفٍّ حِيْنَئِذٍ قَالَ : فَانَطَلَقْتُ فَسَعَيْتُ وَ أَخَذْتُ بِمَنْکِبَيْهِ فَأَقْبَلْتُ بِوَجْهِهِ إِلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فَقُلْتُ : هَذَا قَالَ نَعَمْ وَ إِذَا هُوَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ ص. رَوَاهُ أَحْمَدُ.

 

’’حضرت ابن حوالہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دومہ درخت کے سائے تلے بیٹھے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کاتب بھی بیٹھا ہوا تھا جس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم املاء کروا رہے تھے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابن حوالہ کیا میں تمہیں لکھ نہ دوں؟ میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ ! معلوم نہیں کہ اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے لئے کیا اختیار کر رکھا ہے؟ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری طرف سے چہرہ اقدس پھیر لیا اور اسماعیل کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلی مرتبہ فرمایا اے ابن حوالہ کیا ہم تمہیں لکھ نہ دیں؟ راوی بیان کرتے ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ ! مجھے نہیں معلوم کس معاملے میں؟ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے چہرہ اقدس پھیر لیا اور اپنے کاتب کو املاء کروانے میں مشغول ہوگئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابن حوالہ ہم تمہیں لکھ نہ دیں تو میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ! میں نہیں جانتا کہ اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے لئے کیا اختیار کر رکھا ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے چہرہ اقدس پھیر لیا اور اپنے کاتب کو املا لکھوانے میں مشغول ہوگئے پھر میں نے اچانک دیکھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نام لکھا ہوا ہے اس پر میں نے کہا عمر کا نام ہمیشہ بھلائی میں لکھا ہوگا پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابن حوالہ ہم تمہیں لکھ نہ دیں تو میں نے عرض کیا ہاں یا رسول اﷲ! تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابن حوالہ تو اس فتنہ میں کیا کرے گا جو زمین کے چاروں اطراف سے نکلے گا گویا وہ گائے کے سینگ ہیں۔ میں نے عرض کیا میں نہیں جانتا کہ اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے لئے کیا اختیار کر رکھا ہے۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم اس دوسرے فتنے میں کیا کرو گے جو پہلے فتنے کے بعد ہوگا گویا پہلا فتنہ خرگوش کے نتھنے کے برابر ہوگا میں نے عرض کیا کہ میں نہیں جانتا کہ میرے لئے اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا اختیار کر رکھا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (اشارہ کر کے)فرمایا : اس شخص کی پیروی کرنا اور وہ شخص اس وقت پیٹھ پھیر کر جا چکا تھا۔ راوی بیان کرتے ہیں میں چلا اور تیزی سے دوڑا اور اس شخص کو کندھے سے پکڑ لیا اور اس کا چہرہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف موڑا اور میں نے عرض کیا یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! کیا یہی وہ شخص ہے (جس کی پیروی کرنے کا آپ نے حکم فرمایا ہے)؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں، جب میں نے دیکھا تو وہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ تھے۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 50 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 109، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 7 / 225، و المقدسي في الأحاديث المختارة، 9 / 284.

 

51. عَنْ کَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ قَالَ : ذَکَرَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم فِتْنَةً فَقَرَّبَهَا وَ عَظَّمَهَا قَالَ : ثُمَّ مَرَّ رَجُلٌ مُتَقَنِّعٌ فِيْ مِلْحَفَةٍ فَقَالَ : هَذَا يَوْمَئِذٍ عَلَي الْحَقِّ فَانْطَلَقْتُ مُسْرِعًا اَوْ قَالَ مُحْضِرًا فَأَخَذْتُ بِضَبْعَيْهِ فَقُلْتُ : هَذَا يَا رَسُوْلَ اﷲِ، قَالَ : هَذَا فَإِذَا هُوَ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.

 

’’حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتنہ کا ذکر فرمایا اور اس کے قریب اور شدید ہونے کا بیان کیا۔ راوی کہتے ہیں پھر وہاں سے ایک آدمی گزرا جس نے چادر میں اپنے سر اور چہرے کو ڈھانپا ہوا تھا (اس کو دیکھ کر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس دن یہ شخص حق پر ہوگا پس میں تیزی سے (اس کی طرف) گیا اور میں نے اس کو اس کی کلائی کے درمیان سے پکڑ لیا پس میں نے عرض کیا یہ ہے وہ شخص یا رسول اﷲ! (جس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ زمانۂ فتنہ میں یہ حق پر ہو گا) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں. پس وہ عثمان بن عفان تھے۔ اس حدیث کو احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 51 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 242، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابه، 1 / 450، الحديث رقم : 721.

 

52. عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ قَالَ : کُنَّا نَحْنُ مُعَسْکِرِيْنَ مَعَ مُعَاوِيَةَ، بَعْدَ قَتْلِ عُثْمَانَ، فَقَامَ کَعْبُ بْنُ مُرَّةَ الْبَهْزِيُّ فَقَالَ : لَوْلَا شَيْئٌ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم مَا قُمْتُ هَذَا الْمَقَامَ. فَلَمَّا سَمِعَ بِذِکْرِ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم أَجْلَسَ النَّاسَ. فَقَالَ : بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُوْلِ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم إِذْ مَرَّ عُثْمَانُ بْنُ عَفَّانَ مُرَجِّلًا. قَالَ : فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلي الله عليه وآله وسلم : ’’لَتخْرُجَنَّ فِتْنَةٌ مِنْ تَحْتِ قَدَمَيَّ، أَوْ مِنْ بَيْنَ رِجْلَيَّ هَذَا، هَذَا يَوْمَئِذٍ وَمَنِ اتَّبَعَهُ عَلَي الْهُدٰي. فَقَامَ بْنُ حَوَالَةَ الْأَزْدِيُّ مِنْ عِنْدِ الْمِنْبَرِ فَقَالَ : إِنَّکَ لَصَاحِبُ هَذَا؟ فَقَالَ نَعَمْ!، قَالَ : وَاﷲِ إِنِّي لَحَاضِرٌ ذَلِکَ الْمَجْلِسَ، وَلَوْ عَلِمْتُ أَنَّ لِي فِي الْجَيْشِ مُصَدِّقًا لَکُنْتُ أَوَّلَ مَنْ تَکَلَّمَ بِهِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَ الْطَّبَرَانِيُّ فِي الْمُعْجَمِ الْکَبِيْرِ.

 

’’حضرت جبیر بن نفیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد امیر معاویہ کے لشکر میں تھے پس کعب بن مرہ بہزی کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ اگر میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فلاں چیز نہ سنی ہوتی تو آج میں اس مقام پر کھڑا نہ ہوتا پس جب انہوں (حضرت معاویہ) نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر سنا تو لوگوں کو بٹھا دیا اور کہا : ایک دن ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس تھے کہ وہاں سے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ پیدل گزرے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ضرور بالضرور اس جگہ سے جہاں میں کھڑا ہوں ایک فتنہ نکلے گا، یہ شخص اس دن (مسند خلافت پر) ہو گا جو اس کی اتباع کرے گا وہ ہدایت پر ہوگا پس عبداﷲ بن حوالہ ازدی منبر کے پاس سے کھڑے ہوئے اور کہنے لگے تو اس آدمی کا دوست ہے؟ انہوں نے کہا ہاں! ابن حوالہ فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم جس مجلس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا میں اس مجلس میں موجود تھا اور اگر میں جانتا ہوتا کہ اس لشکر میں میری تصدیق کرنے والا کوئی موجود ہے تو سب سے پہلے یہ بات میں ہی کر دیتا۔ اس حدیث کو امام احمد نے مسند میں اور امام طبرانی نے ’’المعجم الکبير‘‘ میں بیان کیا ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 52 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 236، و الطبراني في المعجم الکبير، 20 / 316، الحديث رقم : 753، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 89، و الشيباني في الأحاد و المثاني، 3 / 66، الحديث رقم : 1381.

 

53. عَنِ بْنِ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما أَنَّ عُثْمَانَ أَصْبَحَ فَحَدَّثَ فَقَالَ : إِنِّيْ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلي الله عليه وآله وسلم فِي الْمَنَامِ اللَّيْلَةَ فَقَالَ : يَا عُثْمَانُ! أَفْطِرْ عِنْدَنَا فَأَصْبَحَ عُثْمَانُ صَائِمًا فَقُتِلَ مِنْ يَوْمَهِ ص. رَوَاهُ الْحَاکِمُ

 

وَ قَالَ هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ.

 

’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضي اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ صبح کے وقت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے (ہمیں) فرمایا : بے شک میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گذشتہ رات خواب میں دیکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے : اے عثمان! آج ہمارے پاس روزہ افطار کرو۔ پس حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے روزہ کی حالت میں صبح کی اور اسی روز آپ رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا۔ اس حدیث کو حاکم نے روایت کیا ہے اور انہوں نے کہا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔‘‘

 

الحديث رقم 53 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 3 / 110، الحديث رقم : 4554.

Link to comment
Share on other sites

Najam bhai sharing ka bahut bhut shukria

 

(azw)(ja)

 

Shaan-e-Hazrat Abu Bakr Siddique رضی اللہ تعالی عنہ

 

http://www.islamimeh...__0entry62716

 

 

Shaan-e-Hazrat Umar Farooq رضی اللہ تعالی عنہ

 

http://www.islamimeh...__0entry62717

Shaan-e-Hazrat Usman Ghani رضی اللہ تعالی عنہ

 

http://www.islamimeh...__0entry62720

 

 

Shaan-e-Hazrat Ali رضی اللہ تعالی عنہ

 

http://www.islamimeh...age__pid__62721

untitled.jpg

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...