Jump to content

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا اور علم کلام


Sag e Madinah

تجویز کردہ جواب

امام احمد رضا اور علمِ کلام

از: مفتی آل مصطفی مصباحی

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

ارباب علم ودانش اور اصحاب فکرونظر نے میدان علم وفن میں امام احمد رضا قدس سرہ کی دقت نظر، وسعت خیال اور بلندیِ تحقیق کو ہر زاویہ نظر سے پرکھا۔ ہر فن کے ماہرین نے ان کے علمی افادات اور فنی تحقیقات وتدقیقات کا تنقیدی جائزہ لیا۔ بالآخر اس حقیقت کا سب کو اعتراف کرنا پڑا۔

ع بسیار خوباں دیدہ ام لیکن تو چیزے دیگری

امام احمد رضا نہ صرف علوم اسلامیہ میں گہری بصیرت رکھتے تھے بلکہ ان علوم وفنون میں بھی انہیں کامل مہارت حاصل تھی جن کا براہ راست اسلامی علوم سے تعلق نہیں۔ جنہیں علم آلی بھی کہ سکتے ہیںاور اسلامی علوم میں تو ان کی معلومات غیر معمولی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جب کسی مسئلے پر بحث وگفتگو فرماتے ہیں تو اس کے تمام نکات ومضمرات کا بھرپور جائزہ پیش فرماتے ہیں۔ ان کی تنقیدات کو پڑھئے تو ایک بہت بڑے نقاد کی حیثیت سے نظر آئیں گے۔ ان کے فقہی کارناموں کا جائزہ لیجئے تو اس زمانے میں فقہ حنفی اور اس کے کلیات وجزئیات کی معلومات اور ان پر دسترس ومہارت کے اعتبار سے ان کی نظیر نہیں ملے گی۔ ان کے مناظرانہ ومتکلمانہ انداز بحث وگفتگو کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک عدیم المثال متکلم ومناظر ہیں۔ علم کلام میں امام احمدرضا قدس سرہ کے افادات و ابحاث کو نظر بصیرت سے مطالعہ کرنے والا یقینا اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ اس خشک اور سنگلاخ میدان میں بھی انہوں نے گل سر سبد اُگائے ہیں جن کی خوشبو سے اس فن کے قارئین کی مشام جان معطر ہوجائے۔

راقم الحروف علم کلام میں امام احمد رضا قدس سرہ کے بعض ابحاث وافادات کو ارباب علم وفن اور اصحاب فضل وکمال کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے۔ ہمیں اس بات کا احساس ہے کہ اس مشکل کام کے لئے جس دقت نظری اور وقت کی ضرورت ہے وہ مجھے حاصل نہیں۔ تاہم جو کچھ ضبط تحریر کیا جارہا ہے وہ ان شاء اللہ تعالیٰ اہل علم کے لئے باعث سرور ہوگا۔

اللہ تعالیٰ کی صفت کلام:

اللہ عزوجل کی صفت کلام کے ذیل میں قرآن کریم کے غیر مخلوق یا مخلوق ہونے کا مسئلہ کلیدی مانا جاتا ہے، مجتہد مطلق حضرت امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ کے زمانے میں خلقِ قرآن کا فتنہ کھڑا ہوا ۔ آپ نے اس فتنہ کو دبانے کی ہر ممکن کوشش فرمائی اور قرآن کریم کے غیر مخلوق ہونے کا فتویٰ صادر فرمایا۔ جب کہ خلیفہء وقت اور اس کی ہاں میں ہاں بھرنے والے قرآن کو مخلوق گردانتے تھے۔ جس کا لازمی نتیجہ مخلوق سے متعلق صفات سے قرآن حکیم کو متصف قراردینا تھا۔ خلیفہ مامون الرشید نے حضرت امام احمد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صادر کئے ہوئے فتوے کی مخالفت اتنی شدومد سے کی کہ انہیں فتویٰ واپس لینے پر مجبور کیا گیا۔ اور فتویٰ واپس نہ لینے کی پاداش میں حضرت امام پر کوڑے برسائے گئے ار دیگر اہل علم کو بھی قرآن کے غیر مخلوق کہنے پر سختیاں جھیلنی پڑیں۔ بلکہ جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ علامہ جلال الدین سیوطی نے شرح الصدور میں امام ذہبی کے حوالے سے بیان فرمایا کہ احمد بن نصر خزاعی جو فن حدیث کے امام گزرے ہیں ان کو خلیفہ واثق باللہ نے خلق قرآن کا قول کرنے پر مجبور کیا۔ اور جب آپ نے انکار کیا تو بڑی بے دردی سے آپ سولی پر لٹکادئیے گئے لیکن ان تمام ناگفتہ بہ حالات کے باوجود حق اپنے آب وتاب اور کرّوفر کے ساتھ غالب رہا۔

معتزلہ جیسے گمراہ فرقہ کے غلط عقائد وافکار کی وجہ سے متکلمین نے اس مسئلہ کو کلیدی مسئلہ قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علم کلام کی تمام کتابوں میں یہ مسئلہ قدرے بسط وتفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور بطور نتیجہ جلی حرفوں میں واضح کردیا گیا ہے کہ القرآن کلام اللہ غیر مخلوق قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام اور غیر مخلوق ہے، قرآن کریم کے کلام الٰہی اور غیر مخلوق کے ثبوت کے لیے چند امور کی تنقیح ہوجانا ضروری ہے تاکہ مسئلہ کی وضاحت میں کافی مدد مل سکے مثلاً

1. اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے جو کلام فرمایا اس کی نوعیت کیا ہے؟

2. حضرت جبرئیل جو کلام الٰہی لے کر آئے اس کلام کی حقیقت کیا ہے؟

3. مصاحف میں لکھا ہوا اور پڑھا جانے والا قرآن کیا اللہ عزوجل کی صفت اور قدیم ہے؟

اس طرح کے نکات پر روشنی ڈالنے اور مسئلہ کی تشفی بخش تفہیم کے لئے متکلمین ومتقدمین نے کلام کی دو قسمیں نکالیں ہیں:

1. کلام نفسی

2. کلام لفظی۔ مسئلہ دائرہ میں پڑنے والے بعض اعتراضات کے دفاع اور مسئلہ کی وضاحت کے لئے متکلمین متاخرین نے نفسی اور لفظی میں قدیم وحادث کی اصطلاح وضع کی۔ اس طرح یہ مسئلہ پھیلتا گیا اور عقول متوسطہ والوں کے لئے الجھن کا باعث بن گیا۔ امام احمد رضا قدس سرہ نے اپنی خداداد صلاحیت سے جہاں گوناگوں علوم وفنون کے لاینحل مسائل کا حل پیش فرمادیا وہیں علم کلام کے پیچیدہ مسائل کی بھی ایسی عقدہ کشائی فرمائی کہ آدمی خوشی سے جھومنے لگتا ہے، آنکھیں سرور کے نیر بہاتی ہیں اور دل اُن کی خداداد عظمت وصلاحیت کا بار بار اعتراف کرنے لگتا ہے اور یہ شعر زبان پر لائے بغیر نہیں رہا جاتا

لیس علی اللّٰہ بمستنکر

ان یجمع العالم فی واحد

اس وقت راقم کے پیش نظر مجدد اعظم کا رسالہ انوار المنان فی توحید القرآن ہے جو ١٣٣٠ھ میں تصنیف کیا گیا ہے، یہ رسالہ عربی زبان میں ہے ہم یہاں بقدرِ ضرورت بعض مباحث کی تلخیص پیش کررہے ہیں: علمائے کرام نے وجود شئی کے چار مراتب قرار دئیے ہیں۔

1. وجود فی الاعیان (خارج میں پایا جانے والا وجود(

2. وجود فی الاذھان (ذہن میں پایا جانے والا وجود) جیسے زید کی اس صورت کا حاصل ہونا جو ذہن میں ذات زید کے ملاحظہ کا ذریعہ ہو

3. وجود فی العبارۃ (عبارت میں وجود)جیسے اپنی زبان سے کہے زید

4. وجودفی الکتابت (کتابت میں وجود) جیسے لفظ زید جب لکھا جائے۔

ہمارے ائمہ اسلاف کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ چاروں قسمیں قرآن عظیم کے وجود پر حقیقتاً صادق آتی ہیں۔ تو وہ قرآن جو اللہ عزوجل کی صفت قدیم ہے اور ذات باری کے ساتھ ازلاً وابداً قائم ہے اور جو نہ عین ذات ہے نہ غیر ذات، نہ خالق نہ مخلوق، وہ بعینہٖ وہی ہے جو ہماری زبانوں سے پڑھا جاتا اور ہمارے کانوں سے سنا جاتا، ہماری سطروں میں لکھا جاتا، اور ہمارے سینوں میں محفوظ رکھا جاتا ہے ایسا نہیں کہ وہ قرآن کے علاوہ کوئی دوسری چیز ہے، جو قرآن پر دال ہے بلکہ یہ سب قرآن کریم کے تجلیات ہیں اور قرآن حقیقتاً ان میں متجلیٰ ہے۔ نہ وہ ذات باری سے منفصل نہ محدثات میں سے کسی حادث سے متصل تو اس کی ذات میں قرآن کو حلول ماننا باطل کسی بھی طرح کے حدوث کا اس کے دامنِ قِدم تک پہنچنا نا ممکن ۔

1. مجدد اعظم امام احمد رضا نے چند روایات کو سامنے رکھ کر اس مسئلہ کی بڑی عمدہ وضاحت فرمائی ہے۔ چنانچہ ابن اسحاق، ابو نعیم اور بیہقی کے حوالے سے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کی یہ روایت بیان فرمائی: حضرت جبرئیل علیہ السلام کو ابو جہل نے سانڈ کی صورت میں دیکھا کہ وہ اس پر حملہ آور ہے اور ان کے بڑے بڑے چنگل ہیں، ابوجہل نے ایسی ڈراؤنی شکل کبھی نہ دیکھی تھی۔ دشمن خدا (ابوجہل) یہ دیکھ کر اپنی ایڑیوں کے بل گرپڑا۔ مجدد گرامی فرماتے ہیں: توکیا کسی کیلئے یہ کہنے کی گنجائش ہے کہ وہ جبرئیل نہ تھے بلکہ جبرئیل پر دلالت کرنے والی کوئی دوسری شئی تھی۔ خدا کی پناہ! وہ تو یقینی طور پر جبرئیل ہی تھے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور اقدس ؐ نے ارشاد فرمایا: ذاک جبرئیل لو دنانی لاخذتہ۔ یہ جبرئیل تھے اگر وہ مجھ سے قریب ہوتے تو میں ضرور ان کو اپنے ہاتھوں میں لے لیتا۔۔۔۔۔۔حالانکہ یقینی طور پر ہمیں معلوم ہے کہ حضرت جبرئیل کی حسین وجمیل صورت سانڈ اونٹ جیسی نہیں بلکہ ان کے تو چھ سو خوبصورت پَر ہیں جو افق کو گھیرے ہوئے ہیں۔ (انوار المنان، مترجماً وملخصاً(

2. صحابہ کرام نے اپنے سفر بنی قریظہ میں دحیہ بن خلیفہ کو سفید خچر پر سوار ہوکر اپنی جانب متوجہ پایا تواس کی اطلاع نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کو دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذاک جبرئیل بعث الٰی بنی قریظۃ یزلزل بھم حصونھم ویقذف الرعب فی قلوبھم۔ یہ جبرئیل ہیں جنہیں بنی قریظہ کی طرف اس لئے بھیجا گیا ہے کہ ان کی عمارتوں میں زلزلے پیدا کردیں اور ان کے دلوں میں رعب ڈال دیں۔

3. حدیث جبرئیل میں ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر ایمان، اسلام، احسان، قیامت اور اس کی نشانیوں کے بارے میں سوال کیا، صحابہ میں کوئی اس آنے والے شخص کو پہچانتا نہ تھا نہ اس پر آثار سفر ظاہر تھے۔ سخت سفید کپڑوں میں ملبوس، بال خوب کالے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں ارشاد فرمایا: انہ جبرئیل اتاکم یعلمکم دینکم یہ جبرئیل تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے کے لئے آئے تھے۔

4. نسائی وطبرانی کی روایت میں یہ صراحت ہے کہ حضرت جبرئیل متعدد بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دحیہ کلبی کی صورت میں حاضر ہوئے۔ نسائی شریف میں حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت سے ہے: کان جبرئیل یاتی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی صورۃ دحی الکلبی اور طبرانی کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کان جبرئیل یاتینی علی صورۃ دحی الکلبی

ان سب روایتوں کا حاصل یہی ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام مختلف شکلوں میں متشکل ہوتے ہیں لیکن کیا کوئی مسلمان یہ کہ سکتا ہے کہ ان کے دحیہ کلبی کی صورت میں ہونے یا اونٹ کی صورت میں ہونے یا آدمی کی صورت میں ہونے سے ان کی حقیقت بدل گئی؟ وہ شئی آخر ہوگئے؟ہرگز نہیں۔ بلکہ ان تمام صورتوں اور شکلوں میں بھی حقیقت نفس الامر میں وہ جبرئیل امین ہی ہیں۔ اور یہ بھی یقین سے معلوم ہے کہ جبرئیل نہ اعرابی ہیں نہ کلبی، تو لامحالہ یہ مختلف صورتیں جبرئیل امین کی تجلیات ہیں جن کے تعدد سے جبرئیل امین متعدد نہیں ہوگئے یوں ہی یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ یہ جبرئیل پر دلالت کرنے والی دوسری اشیا ہیں۔

اللہ عزوجل نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:

وَاِذَا قُرِیءَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْالَہ، وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ o (سورہء اعراف:٢٠٤(

اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم ہو۔

فَاقْرَء ُ وْامَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ ط (سورہ مزمّل:٢٠(

اب قرآن میں سے جتنا تم پر آسان ہو اُتنا۔

بَلْ ھُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌ فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍoع (سورہ بروج:٢١ تا ٢٠(

بلکہ وہ کمال شرف والا قرآن ہے لوح محفوظ میں ہے

ان آیات کریمہ میں قرآن ہی کو مقرو (پڑھا جانے والا) کہا گیا، قرآن ہی کو مسموع (سنا جانے والا) کہا گیا، اسی کو محفوظ (حفاظت میں رکھا ہوا) بتایا گیا، اسی کو مکتوب (لکھا ہوا) قرار دیا گیا۔ اور اسی کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ یہی قرآن ہے، یہی کلامِ رحمن ہے۔ امام الائمہ حضرت سیدنا امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فقہ اکبر میں فرمایا: القراٰن فی المصاحف مکتوب وفی القلوب محفوظ وعلی الالسن مقروّ وعلی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم منزل، ولفظنا بالقراٰن مخلوق وکتابتنا لہ وقراء تنالہ مخلوق والقراٰن غیر مخلوق۔ قرآن مصاحف میں لکھا ہواہے، دلوں میںمحفوظ ہے۔ زبانوں سے پڑھاجاتا ہے اور قرآن نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پرنازل کیا گیا اور قرآن کی تعبیر میں ہمارے الفاظ مخلوق ہیں، ہمارا لکھنا اور پڑھنا مخلوق ہے اور قرآن تو غیر مخلوق ہے۔ اسی طرح عارف باللہ سیدی عبد الغنی نابلسی حنفی، امام اجل عارف باللہ سیدی عبد الوہاب شعرانی شافعی، امام السنہ ابو منصور ماتریدی اور امام ابو الحسن اشعری نے تصریح کی ہے۔ پھر امام احمد رضا قدس سرہ نے اس بحث کا جو حاصل وخلاصہ پیش فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ: یہاں تین چیزیں ہیں

1. اللہ عزوجل کا کلام قدیم ہے جو اس کی ذات کے ساتھ قائم ہے نہ اس کا عین ہے نہ اس کا غیر۔ اور اسی کلام قدیم سے وہ ازلاً وابداً متکلم ہے اگر کوئی ہم سے اس صفت کلام کی کیفیت پوچھے تو ہم جواب میں یہی کہیں گے کہ ہمیں اس کی کیفیت کا علم نہیں اور اس سے زیادہ ہم کچھ نہ کہیں گے اور اس کے علاوہ ہم کوئی مراد نہیں لیتے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کی مخالفت معتزلہ، کرامیہ اوررافضیہ جیسے گمراہ فرقے ہی کرسکتے ہیں۔

2. ہماری ذات، ہماری صفات، ہمارے افعال، ہماری آواز، ہمارے حروف اور ہمارے کلمات سب حادث ہیں۔ ان میں قدامت کا شائبہ تک نہیں۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کی کوئی مخالفت نہیں کرتا سوائے چند ناواقف متاخرین حنابلہ کے۔

3. وہ کلام جسے ہم نے اپنی زبان سے پڑھا، اپنے کانوں سے سنا، اپنے سینوں میں محفوظ کیا، اپنی سطروں میں لکھا، وہ وہی قرآن قدیم ہے جو ہمارے رب کے ساتھ قائم ہے، ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔

یہ وہ حقیقت ہے جس میں مجاز کا کوئی دخل نہیں، نہ اس میں تعدد ہے، نہ تنوع، نہ ہی اشتراک۔ یہی ہمارے ائمہ سلف صالحین کا مذہب ہے، اس کی مخالفت متاخرین متکلمین کے سوا کسی نے نہ کی۔ ان لوگوں نے معتزلہ کے کلامِ باری کے حدوث پر پیش کئے گئے دلائل کے رد کے لیے کلام کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ ایک قدیم دوسرا حادث۔ حالانکہ اللہ عزوجل کے لیے مخلوق کی طرح کلام حادث نہیں مانا جاسکتا۔۔ یہ حضرات تجلی اور متجلیٰ میں فرق نہ کرسکے۔ نہ یہ حضرات اس نکتہ پر غور فرماسکے کہ خلق قرآن کے قائل کی تکفیر عہدِ صحابہ و تابعین سے تواتر کے ساتھ چلی آرہی ہے۔ امام احمد رضا قدس سرہ، نے اپنے ملفوظات میں بیان فرمایا:

ہم تو کلام باری میں لفظی و نفسی کا تفرقہ مانتے ہی نہیں، ہمارے نزدیک دونوں ایک ہی ہیں۔ یہ متاخرین متکلمین کی غلطی ہے۔ (الملفوظ ٤/ ٢٠(

قرآن کریم کے کلامِ الٰہی اور قدیم ہونے کا عقیدہ و نظریہ ہی حق و صحیح ہے جیسا کہ اوپر اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا۔ یہ امام احمد رضا قدس سرہ، کے ابحاث سے ماخوذ ہے۔ اس طرح اگر اس موضوع پر ان کے ارشادات کو جمع کیا جائے تو ایک طویل مقالہ تیار ہوسکتا ہے۔ سرِ دست اتنے ہی پر اکتفا کیا جاتا ہے۔

)بشکریہ سالنامہ یادگارِ رضا ١٤٢٨ھ/٢٠٠٧ء(

 

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...