Jump to content

Meqas E Hanfiyat-Hazir O Nazir Per Aiteraz


T.T

تجویز کردہ جواب

 

میری جو پوسٹ آپ نے ان اپروڈ کی ہے اُس میں وہ تمام باتیں موجود ہیں جو آپ نے پوچھیں ہیں۔ یہ جو نورانیت کا چکر چھیڑا ہے وہ بھی بتایا گیا ہے اور کئی سوال بھی کئے۔ اور جو انبیاء کرام کے واقعات سے آپ نے استدلال کیا اُس کا بھی جواب دیا لیکن شاید اس عبارت کا دفاع کرتے ہوئے آپ کے دماغ پر شیخ الشیطان سوار ہوگیا ہے جس سے اثر سے آپ ایسی عجیب عجیب باتیں کر رہیے ہیں۔ اور مجھے بول رہے ہیں شیخ نجدی اُتر نہیں رہا۔ میری گزارش ہے کہ آپ میری پوسٹ دوبارہ لگائیں اور نشاندہی کریں کہ کہاں کہاں کیا خامی ہے تاکہ اس کا جواب دیا جا سکے۔

Edited by Abdur Rehman
All members must follow forum guidelines and maintain decency
Link to comment
Share on other sites

(bis)

آپ نے جو عبارت امام شعرانیؒ کی پیش کی ہے اُس میں حضور ﷺ کا کہاں ذکر ہے۔ اگر آپ کے طریقہ استدلال کو لیں تو اس سے تو تمام مردِ کامل نبی ہونے چاہئے۔

اور جو عبارت آپ نے پیش کی ہے وہ شطیحات میں سے ہے لیحاظہ اس معاملے میں وہ معزور تصور ہوںگے۔ لیکن آپ لوگوں کا تو عقیدہ ہی عمر اچھروی کی عبارت ہے تبھی تو اتنی محنت کی جارہی ہے

اور اس عبارت کا عمر اچھروی کی عبارت سے کوئی موازنہ ہی نہیں۔

اگر آپ بھی یہ سمجھتے ہین کہ انبیاء علیہ السلام بدفعلی کے وقت حاضر و ناظر ہوتے ہیں تو صاف صاف اقرار کر لیں کہ آپ لوگوں کہ یہی عقیدہ ہے۔

اور ایسا کہنا کہ حضور ﷺ بدفعلی کے وقت بھی حاظر ناظر ہوتے ہیں اور بدفعلی کا مشاہدہ فرماتے ہیں توہیں نہیں عین ایمان کی علامت ہے۔

اگر ایسا نہیں ہے اور آپ کے دل مین رائی کے دانے جتنا بھی ایمان باقی ہے توصاف صاف انکار کردیں اور دائمی جہنم سے نجات حاصل کرلیں۔

 

 

ہمیں بغلیں بجانے کی کیا ضرورت جبکہ ... مولوی عمر اچروی نے ..... پورا بینڈ بجا دیا ہے۔ عقیدہ حاظر ناظر آپ کا جو بھی ہے وہ تو عمر صاحب نے پول کھول دیا ہے اب آپ کو کیوں اتنی مرچیں لگ رہی ہیں۔ آپ نے سو امیج لگایا ہے پتہ نہیں کس قرآنی آیت میں ایسا عجیب و غیرب حاضر ناظر کا مفہوم موجود ہے۔ یقین کریں سارے قرآن کا چھان لیں آپ کو بدفعلی کے وقت حضور ﷺ حاظر ناظر ہوتے ہیں یہ کہیں نہیں ملے گا۔ اور آپ نے جو لنک دیا ہے تو اس سے تو صرف اتنا پتہ چلتا ہے کہ حضرت یوسف

(as) کو دکھائی دیا یہ نہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام مشاہدہ فرماتے ہیں ایسی چیزوں کا ۔ اور کس اہل سنت ولجماعت نے استدلال کی ہے اس روایت سے کہ حضرت یوسف علیہ السلام زنا یا بدفعلی کا مشاہدہ فرماتے ہیں۔ معاذاللہ ایسا گندا خیال آپ کے اچھروی کو ہی اتا ہے۔

ویسے رضاخانی چیلوں نے حضور ﷺ کی جسد مبارکہ کو ناقص مانا ہے کہ وہ حاظر ناظر نہیں ہوتا۔ اور حضور ﷺ کی نورانیت و روحانیت کی آڑ لی ہے یہ وہ مقام ہے جس پر رضاخنیت بہت مشکل سے پہنچی ہے۔ لیکن تم لوگ تو شیطان کا بھی حاضر مانتے ہو تو کیا شیطان میں بھی تم لوگوں کو روحانیت اور نورانیت نظر آتی ہے؟

آپ قرآنی آیت کہ حدیث متواتر پیش کریں کہ حضور حاظر ناظر نہیں بلکہ حضور ﷺ کی روحانیت اور نورانیت حاضر ناظر ہے۔؟

یہ تھریڈ کیا حاظر ناظر عقیدہ کے لئے بنایا گیا ہے کہ حضور ﷺ کو زنا اور بدفعلی کا مشاہدہ کرنے والا ثابت کرنے کے لئے بنایا گیا ہے؟ جس مقصد کے لئے یہ تھریڈ ہے وہ باقی رہنے دیں یہ یہودیوں کی طرح تاویلیں نا کریں۔ عمر اچھروی کی اس عبارت میں یہ قید نہیں ہے کہ روحانیت سے دیکھا تو نورانیت سے دیکھا صاف صاف بدفعلی کا مشاہدہ کرنے والا کہا ہے۔

اب اگر ہم تمھاری کہ روحانیت اور نورانیت کی رام کہانی مان لیں تو پھر عمر اچھروی کی عبارت کہ یہ مطلب بنے گا کہ حضور ﷺ اپنی نورانیت اور روحانیت سے زنا اور بدفعلی کا مشاہدہ فرماتے ہیں۔

معاذ اللہ

مسلمانوں کیا یہی رتبہ ہےحضور ﷺ کے تقوے کاکہ انکھوں سے تو نا دیکھیں بلکہ اپنی روحانیت سے بدفعلی کا مشاہدہ فرماتے رہیں۔ کیا یہی اسلام ہے۔؟ اگر بلفرض محال انبیاء کو یہ قدرت سے بھی دی جائے کہ وہ جس چیز کا مشاہدہ بھی کرنا چاہیں اپنی روحانیت اور نورانیت سے کر لیں تب بھی انبیاء ایسے قبیح فعل کا مشاہدہ نہ فرمائیں۔ اور یہاں تو بات امام الانبیاء، کی ہے جو سب انبیاء کے سردار ہیں جس کے وسیلے سے دوسرے انبیاء کو حیا، تقویٰ، برہیزگاری ملی اُن کی نصبت ایسے قبیح فعل کے مشاہدے کا عقیدہ رکھنا گستاخی نہیں تو اور کیا ہے۔؟ اور اس پر گروہی تعصب ایسا کہ

ایک من گھڑت عقیدے کے لیے حضور ﷺ کو عیاش و اوباش لوگوں سے بھی نیچہ دیکھانے کی ٹھان لی۔ اور اُس پر یہ طوفانِ بےتمیزی کہ قرآن و حدیث کو توڑ مڑوڑ کر صرف یہ ثابت کیا جا رہا ہے کہ حضور ﷺ بدفعلی، کا مشاہدہ فرماتے ہیں؟

ایسے فعل کی نسبت تو فاسق فاجر بھی اپنی طرف برداشت نہیں کرتا تو حضور ﷺ کی طرف ایسے امور کی نسبت کرنا گستاخی نہیں تو اور کیا ہے؟

معاذ اللہ

اللہ ہم سب کو ایسے غلیظ عقائید سے محفوظ فرمائیں

ایڈمن سے گزارش ہے کہ وہ حاضر ناظر کا عقیدہ اگر کسی کو سمجھانا چاہتے ہین تو الگ تھڑید بنا لیں

اور اس تھریڈ کو جلداذجلد بند کر دیں بلکہ مکمل طور سے ختم کردیں کہیں مزید لوگ اپنے مسلکی عداوت کی آگ میں ایسے غلیض امور کی نسبت حضور ﷺ کی طرف کریں ۔

Edited by Abdur Rehman
Aap ki post visible/recent kar di gaee hai aap say guzarish hai kay zuban ka khayal rakkhain plz
Link to comment
Share on other sites

اپ نے امام شعرانی رح کی جو عبارت پیش کی ہے وہ یقینا ان کی شطیحات میں سے ہے پتہ نہیں کس رنگ اور ذوق میں یہ بات انھوں نے ارشاد فرمائی۔

وسیے بھی عقائد ان جیسی عبارتوں سے تو ثابت نہیں ہوتے۔

Link to comment
Share on other sites

جناب تلوار صاحب حاظر ناظر پر ہمارہ عقیدہ وہی ہے جو شروع سے چلا آرہا ہے یہ تمہارئے مولوی ہیں جو اپنی عوام کو گمراہ کرنے کے لئے غلط بتاتے ہیں. اس تھریڈ میں حاظر ناظر پر اس لئے بات ہوئی کہ دیوبندیوں کے اعتراض کا جواب اس میں پوشیدہ ہے ۔اور یہ جو تم نے بدفعلی اور زنا کی رٹ لگا رکھی یہ بھی تمہاری ہٹ دھرمی ہے ۔ہم نبی کریم ﷺ کو نورانیت اور روحانیت کے اعتبار سے حاظر ناظر مانتے ہیں

 

ہاں مگراللہ کے اِزن سے آپ ﷺ اپنی مرضی سے کہیں بھی ایک جگہ پر بھی اور زیادہ پر بھی تصرف فرما کر جاسکتے ہیں

 

تم کو کتنی مرتبہ کہا ہے کہ ایک نبی کے دیکھنے میں اور ایک عام شخص کے دیکھنے میں بہت فرق ہے

 

Link to comment
Share on other sites

(bis)

توحیدی صاحب

عبدالوہابؒ کی عبارت میں عمل مجامعیت کا ذکر ہی کہاں ہے۔ اور پھر ہے بھی شطیحات میں سے کیوں کہ نص کے مخالف ہے۔ تاویل ہو تو ٹھیک ورنہ اتنا ہی کافی ہے کہ ان کو کسی تعن کا نشانہ نا بنایا جائے۔

اور اُن کی عبارت میں عمل مجامعت کا ذکر ہی کہاں ہے کہ کوئی پیر پورے عمل مجامعت کو دیکھتا ہے۔

جناب آپ تو سوال ایسے پوچھ رہے ہیں جیسے کامل مومن کی روحانیت عمل مجامعت کی کاروائی دیکھنے کے لئے ہی دی جاتی ہے۔ کامل مومن کیا ایسے ہوتے ہیں کہ عمل مجامعت کا مشاہدہ کرتے پھریں۔؟ جناب وہ تو شرم و حیا کا پیکر ہوتے ہیں

اور عمر صاحب نے تو حد ہی کر دی وہ تو لوگوں کو ڈرا رہے ہیں کہ جب بھی عمل مجامعت کروں تو یہ بات ذہن میں رکھو کے حضور ﷺ عمل مجامعت کا مشاہدہ فرما رہے ہیں معاذ اللہ

یہ کون سا اسلام ہے۔ اسلام کی تقریباؐؐ 14 سو سالہ تاریخ میں ایسی مثال کہاں مل سکتی ہے جیسی مثالیں آج بریلویت کے مناظروں نے دینا شروع کردی ہے۔

اور آپ یہ تو بتا دیں کیا آپ کا بھی عقیدہ یہی ہے کہ حضور ﷺ عمل مجامعت کا مشاہدہ فرماتے ہیں؟

Link to comment
Share on other sites

post-4540-0-70072900-1346076355.jpg

 

post-4540-0-62672100-1346076359.jpg

 

post-4540-0-16124700-1346076351.jpg

عمر اچھروی کی دفاع میں عرض اعمال کو دیوار بنانا مردود ہے کیوںنکہ عرض اعمال اجمالن ہے تفصیلی نہیں اور ہے بھی صرف مسلمانوں کی نا کہ مشرکین و کفار کی۔ پھر عرض اعمال میں یہ کہاں ہے کہ پورا کا پورا عمل مجامعت دیکھایا بھی جائے؟

آپ حضور ﷺ کے جسد مبارک کو تو حاضر ناظر مان نہیں رہے، اور آپ کی ظاہری چشم مبارکہ کوبھی محدود مان رہے ہیں لیکن روحانیت، نورانیت اور رحمت کو حاظر ناظر مان رہے ہیںں ۔

اس سے تو یہ نتیجہ نکلا کہ حضور ﷺ حاظر ناظر نہیں ہے لیکن روحانیت حاظر ناظر ہے۔

آپ نے جو بھی حدیث پیش کی ہیں اُن میں کہاں حضور ﷺ کے حاظر ناظر ہونے کا ذکر ہے وہ بھی ہر وقت اور ہر جگہ یہاں تک کے عمل مجامعت کے وقت بھی؟

Link to comment
Share on other sites

(bis)

توحیدی صاحب پہلے تو یہ بتا دیں کہ آپ لوگ حضور ﷺ کو مردِ کامل کب مانتے ہیں؟ یعنی حضور ﷺ کے علم غیب اور حاظر ناظر کب ہوئے؟

تاکہ آپ کے سوالوں کا جواب تھوڑی تفصیل سے دیا جا سکے

Link to comment
Share on other sites

غلط مبحث کا کیا سوال؟۔۔۔۔ آپ کا استدلال فرد کامل سے ہے اس لئے پوچھا آپ حضور ﷺ کا کامل ہونا کب مانتے ہیں اگر پیدا ہی کامل ہوئے تھے تو آپ لوگ نزول قرآن کے اختتام پر کیوں علم غیب کو کامل مانتے ہیں جب علم غیب کو کامل نہ مانا تو حاضر ناظر کا عقیدہ خود ہی ختم ہوگیا۔

آپ یہ تو بتاہی سکتے ہونگے کہ حضور ﷺ کب سے حاظر ناطر ہیں۔۔۔؟

یہ بھی بتا دیں کیا حضور ﷺ کو قبیح افعال کا مشاہدہ کرنے کی قدرت عطا فرمادی ہے کہ جب چاہیں جہاں چاہیں ہرطرح کا نیک و قبیح فعل کا مشاہدہ فرمالیں؟

 

یہ لیں آپ کے سوالوں کے جواب

1

حضور ﷺ کامل ہیں اس میں کیا شک کی بات ہے۔

2

کیا ضرور کہ ہر مرد کامل ایک جیسا فعل کا مشاہدہ فرمائے۔۔۔۔ جو چیز حضور ﷺ مشاہدہ فرمائیں ضروری نہیں کہ دوسرے بزرگانِ دین بھی وہی مشاہدہ فرمائیں

3

حاظر ناظر نہیں ہوتے

4 اور 5 کا جواب

بعض اوقات بزرگانِ دین کی مراد کو نا سمجھتے ہوئے ناقل اُن کی طرف ایک بات منسوب کردیتا ہے لیحاظہ اُن کی بات کا طعن نہیں کیا جاسکتا۔

ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ راوی تو معتبر ہو لیکن بات کو نقل کرنے میں سہو ہوگیا ہو۔

اگر دیکھنا ہی مراد ہے تو رویت علمی بھی ہو سکتی ہے۔ کیا ضرور کے فعل مجامعت کا مشاہدہ خود فرمائیں۔ معاذاللہ

جو بات اصول اسلام کے عین مطابق ہو وہ مان لیں اور جو اصول اسلام کے خلاف ہو اُس پر عمل نا کریں اتنا ہی کافی ہے۔ کیوںنکہ بزرگانِ دین تو معصوم نہیں ہوتے۔

6

مقیاس حنفیت کی بات میں اور عبدالوہابؒ کی بات میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کیا آپ بزرگانِ دین اور نبی ﷺ میں فرق کرنے سے قاصر ہیں یہ سب کو حضور ﷺ کی مثل مانتے ہیں؟

Edited by Talvar
Link to comment
Share on other sites

Question No-1 main Momin e Kamil maan lene k baad Takrar ki koi gunjaish Baqi nahi rehti,

Lekin Hat Dhrmi dikhanay k liyee Q-4 /5 main Apni trf se Qiyaas Arariaan ki ja rahi hain.

 

Kisi ne sach hi kaha ha,

k

"Deobandi Baatain to krte hain Lekin Samjtay Nahi"

 

AOR

Is per ghar ki gwahi b Mojood ha

Wo ye

K

Ashraf Ali Thanvi sb Frmate Hain

K

" Saaray Bad Fehm Aor Bad Aqal Mere Hi Hisa AA Gaye"

 

Agr Koi Deobndi Bura Maaney to baray Shoooq Se

Kiun k

" Kehne Wala Koon Kehlaane Wala Koon"....

Link to comment
Share on other sites

آپ نے اس پوسٹ میں فضول بھرتی کے سوا کچھ نہیں کیا۔

توحیدی صاحب بڑے افسوس کی بات ہے آپ کو اسلام کی 1450 سو سالہ تاریخ میں ایک بھی حدیث، قول ایسا نہیں ملا جس میں حضور ﷺ کو ایسے غلیظ فعل کا مشاہدہ ثابت ہو۔

آپ نے جو جواب دیئے ہیں اُن کا مختصر جواب یہ ہے

1

مرد کامل مانے سے ہر عمل مجامعیت اور بدفعلی کا مشاہدہ کہاں ثابت ہوتا ہے۔ یہی تو غلط عقیدہ ہے جس کے لئے آپ کو اسلام کی تقریبا 1450 سو سالہ تاریخ میں ایک بھی دلیل نہیں مل رہی۔

2

ہمارے بزرگان دین نے جو کہا اُس کے متعلق ہم پہلے ہو وضاحت کرچُکے ہیں۔ آپ دوبارہ پڑھ لیں۔ ایک بات کا اور اضافہ کر لیں کہ بعض اوقات الفاظ میں عموم پایا جاتا ہے

3

بریلوی کے عمل مجامعت کے وقت شیخ عبدلقادر جیلانیؒ اس عمل مجامعت کی جگہ پر حاضر ہوتے ہیں اور اس عمل کا مشاہدہ فرماتے ہیں؟

معاذاللہ

4،5

کمالات نبوت میں تو شامل نہیں ہے، لیکن عرض اعمال کے سلسلے میں قبیح فعل کا حضور ﷺ کے دربار میں پیش ہونے کے منکر بھی نہیں ہیں۔ اور ظاہر بات ہے کہ عمل قبیح کا پتہ ہونا عیب تو نہیں ہاں ہر قبیح فعل کو دیکھنا گناہ ہے اس پر تو آپ بھی متفق ہوں گے۔

6

عبدالوہابؒ کی عبارت میں نہ تو ظاہری آنکھ کا ذکر ہے اور نا ہی حضور ﷺ کا۔ آپ کو تو شرم آنی چاہئے کہ آپ عمر صاحب کی گشتاخی چھپانے کے لئے بزرگانِ دین کی عبارت کے من مانے معنی نکال رہے ہیں جس سے وہ کلی طور پر بری ہیں۔ یہی وہ فرق ہے جس سے آپ جان چھوڑا رہے ہیں۔

اگر امام عبدلوہابؒ ظاہری آنکھ سے مشاہدہ کا ذکر فرما رہے ہیں جیسا کہ آپ نے کہا تو کیا یہ بھی آپ کے نذدیک گستاخی نہیں کہ حضور ﷺ کو ظاہری آنکھ سے عمل مجامعت کا مشاہدہ کرنے والا کہا جائے؟

آپ لوگوں کہ یہ عقیدہ ہے کہ بزرگان دِین ظاہری آنکھ سے عمل مجامعت کا مشاہدہ فرماتے ہیں ؟

Link to comment
Share on other sites

پیارے محمد جگ کے سجن

 

تم پر واروں تن من دھن

 

تمری صورتیا من موہن

 

کھبیو کراہو تو درشن

 

تمری دوریا کیسے چھوڑوں

تم سے توڑوں تو کس سے جوڑوں

تمری گلی کی دھول بٹوروں تمری نگر میں دم بھی توڑوں

جی کا اب ارمان یہی ہے

اٹھویں پہر اب دھیان یہی ہے

 

JANAB AP KO HAZOOR SALALAHO ALHE WASALAM KE HAZIR WA NAZIR HONE PER ETRAZ HE UPER DYE ASHAAR AP KE MOLVI AHSAN MANAZIR KE HEN کھبیو کراہو تو درشن IN KALIMAT SE KIA YE SABIT NAHI HOTA KE APKE MOLVI HAZRAT BHI YEHI AQEEDA RAKHTE HEN ?

 

 

NOTE:ADMINISTRATORS SE GUZARESH KE JAB APNE MERI POST KA ANWAN APNI MERZI SE BADAL DYA HE OR OSE BLOCK BHI KER DYA HE TO JANAB OS POST KO APNE NAM SE JOR LEN KIO KE ME JHOT KO KHUD SE MUNSOOB NAHI KAR SAKTA .SHUKRIA OR KHUDARA YE THOMAT BHI HATAEN HAM AHLE SUNAT WA JAMAAT SE HEN OR HANFI MAZHAB HE ,HAME GHER MUQALAD LIKHNA CHOREN .

Edited by Raza11
Link to comment
Share on other sites

فقہا احناف نے ایسے شخص پر کفر کا فتوی لگایا ہے جو اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنا کر نکاح کرے اور وجہ کفر یہ بیان کی ہے کہ اس شخص نے یہ اعتقاد کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں۔

 

امام الفقیا حسن بن منصور المعروف بہ قاضی خان متوفی 592 ہجری اپنے فتاوی قاضی خان میں لکھتے ہیں۔

ایک شخص نے ایک عورت سے نکاح کیا اور بوقت نکاح عورت کو یوں کہا کہ ہم اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بناتے ہیں تو حضرات فقہا کرام کہتے ہیں کہ اس شخص کا یہ کہنا کفر ہے کیونکہ اس نے یہ اعتقاد کر لیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں حالانکہ اپ زندگی میں غیب نہیں جانتے تھے تو وفات کے بعد کیسے غیب جانتے ہیں؟

 

علامہ عبدالرشید الولوالجی متوفی540 لکھتے ہیں

ایک شخص نے ایک عورت سے نکاح کیا مگر گواہ موجود نہ تھے،اس شخص نے عورت کو خطاب کرتے ہوئے کہا میں تیرے ساتھ اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنا کر نکاح کرتا ہوں تو وہ شخص کافر ہو جائے گا اسلئے کہ اس نے اعتقاد کر لیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم ہے کیونکہ جس کو علم نہ ہو وہ گواہ کیسے بن سکتا ہے؟اور جس کا یہ عقیدہ ہو کہ اپکو علم غیب تھا تویہ کفر ہے۔

 

ابو حنیفہ ثانی زین العابدین بن نجیم متوفی 970 بحر الرائق ج5 ص16 میں لکھتے ہیں۔

اگر کسی شخص نے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنا کر نکاح کیا تو سرے سے نکاح ہی منعقد نہ ہو گا اور وہ شخص کافر ہو جائے گا کیونکہ اس نے یہ اعتقاد کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں۔

 

یہی فتوی فتاوی عالمگیری میں اور فتاوی تاتارخانیہ میں بھی ہے۔

اور قاضی ثنا،اللہ صاحب نے بھی اپنی کتاب مالابدمنہ میں یہی بات لکھی ہے۔

 

اب جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بوقت مجامعت بھی ہر میاں بیوی کے پاس حاضر ناظر سمجھتے ہیں ان فتاوی کو دیکھ لیں۔

Link to comment
Share on other sites

قاضی خان فقہاء احناف کی عادت یہ ہے کہ وہ قالو اس جگہ بولتے ہیں جہاں ان کو یہ قول پسند نہ ہو۔شامی جلد پنجم ص ۴۴۵ ہے۔

 

لفظة قالو تذکر فیما فیہ خلاف۔

لفظ قالو وہاں بولا جاتا ہے جہاں اختلاف ہو۔

غنیة المستملی شرح منیة المصلی بحث قنوت میں ہے۔

 

کلام قاضی خان یبشر الی عدم اختیارہ لہ حیث قال قالوا لا یصلی علیہ فی القعدة الا خیرة ففی قولہ قالوا اشارة الی عدم استحسانہ لہ والی انہ غیر مروی عن الائمة کما قلناہ فان ذلک متعارف فی عباراتھم لمن استقراھا۔

قا ضی خان کا کلام ان کی ناپسندیدگی کی طرف اشارہ کرتا ہے کیوں کہ انہوں نے کہا قالو الخ ان کے قالو کہنے میں اشارہ ادھر ہے کہ یہ قول پسندیدہ نہیں اور یہ اماموں سے مروی نہیں جیسا کہ ہم نے بیان کیا کیوں کہ فقہاء کی عبارت میں موجود ہے اور اس کو معلوم ہے جو ان کو تلاش کرے۔

غنیة المستملی شرح منیة المصلی باب صلوة الوتر ذکر الجہر القنوت ص ۳٦۳،مکتبی اسلامیہ کوئٹہ

 

معدن الحقائق شرح کنز الدقائق اور خزانة الروایات میں ہے۔

وفی المضمرات والصحیح انہ لا یکفر لان الانبیا ء یعلمون الغیب ویعرض علیھم الاشیاء فلا یکون کفراً

مضمرات میں ہے اور صحیح ہے کہ وہ شخص کافر نہ ہو گا کیوںکہ انبیاء کرام غیب جانتے ہیں اور ان پر چیزیں پیش کی جاتی ہیں پس یہ کفر نہ ہو گا۔

 

مصطفوی صاحب پہلے پوری بات پڑھ لیا کریں پھر جواب دیا کریں۔

Link to comment
Share on other sites

بحرالرائق اور عالمگیری میں جو فتوے دیے گئے ہیں وہ اس صورت پر محمول ہوں گے جب کوئی ذاتی علم غیب کا اعتقاد کرے۔جامع الفصولین میں ہے۔

 

فقیر یہاں ترجمہ پیش کر دیتا ہے۔

 

﴾یعنی فقہاء نے دعویٰ علم غیب پر حکم کفر کیا اور حدیثوں اور ائمہ ثقات کی کتابوں میں بہت غیب کی خبریں موجود ہیں جن کا نکار نہیں ہو سکتا﴿

 

اس کا جواب یہ ہے کہ ان میں تطبیق ہو سکتی ہے کہ فقیاء نے اس کی نفی کی ہے کہ کسی کے لئے بذات خود علم غیب مانا جائے خدا کے بتائے سے علم غیب کی نفی نہ کی یا نفی قطعی کی ہے نہ ظنی کی اور اس کی تائید یہ آیت کریمہ کرتی ہے فرشتوں نے عرض کی کیا تو زمیں میں ایسوں کو خلیفہ کرے گا جو اس میں فساد و خونریزی کریں گے ملائکہ غیب کی خبر بولے مگر ظناً یا خدا کے بتائے سے تو تکفیر اس پر چاہیے کہ کوئی بے خدا کے بتائے علم غیب کا دعویٰ کرے نہ یوں کہ براہ کشف جاگتے یا سوتے میں خدا کے بتائے سے ایسا علم غیب آیت کے کچھ منافی نہیں۔

جامع الفصولین الفصل الثامن والثلاثون ،ج ۲ ص ۳۰۲ مطبوعہ اسلامی کتب خانہ کراچی

 

ردالمختار میں ہے۔

تاتارخانیہ میں ہے کہ فتاوی حجہ میں ہے ملتقط میں فرمایا کہ جس نے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو گواہ کر کے نکاح کیا کافرنہ ہو گا اس لئے کہ اشیا نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی روح مبارک پر پیش کی جاتی ہیں اور بے شک رسولوں کو بعض علم غیب ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے غیب کا جاننے والا تو اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتا مگر اپنے پسندیدہ رسولوں کے۔علامہ شامی نے فرمایا کہ بلکہ ائمہ اہلسنت نے کتب عقائد میں فرمایا کہ بعض غیبوں کا علم ہونا اولیاء کی کرامت میں سے ہے اور معتزلہ نے اس آیت کو اولیاء کرام سے اس کی نفی پر دلیل قرار دیا ہے ہمارے ائمہ نے اسکا رد کیا ہے یعنی ثابت فرمایا کہ آیہ کریمہ اولیاء سے بھی مطلقاً علم غیب کی نفی نہیں فرماتی۔

ردالمختار کتاب النکاح قبیل فصل فی المحرمات ج ۲ ص ۲۷۲ مطبوعہ دار احیا التراث العربی بیروت

 

بحرالرائق کی اس عبارت میں مطلق علم غیب کا عتقاد رکھنے پر کفر کا فتویٰ ہے جزی علم غیب مانے یا کلہ ہر صورت میں اس کی تکفیر کی گئی ہے۔اور مجلس نکاح میں تو جزی واقعہ ہے تو جو اس میں گواہ مان رہا ہے وہ بعض علم غیب ہی مان رہا ہے۔علامہ شامی رحمة اللہ علیہ درمختار کے کفر والے قول کو رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں

ان الرسل یعرفون بعض الغیب

تو اس سے صاف ظاہر ہوا کہ فقہاء کرام کا فتویٰ کفر مطلق تھا بعض علم غیب کا مدعی بھی اسکی زد میں تھا اور کلی کا بھی۔

لہٰذا مصطفوی صاحب آپ عوام کو دھوکہ دینا بند کریں اور بے جا تاویلات سے اپنے آپ کو بچائیں۔

Link to comment
Share on other sites

سادہ اور صاف سی بات کو بھی تکنیکی اصتلاحات میں الجھا دیا جاتا ہے۔

اگر قاضی خان صاحب نے قیل یا روی وغیرہ تمریض کے صیغہ سے بات کی ہوتی تو پھر بھی کوئی بات بن جاتی ۔

قال یا قالو درحقیقت بیان حال واقعی کے لئے اتا ہے۔ اگر قاضی صاحب اس بات سے متفق نہیں تھے تو کھل کر اہنا موقف بیان کرنے میں انہیں کیا رکاوٹ تھی۔

 

دوسرا یہ کہ قاضی صاحب کے علاوہ دیگر فقہا نے تو قالو کا لفظ استعمال نہیں کیا وہ تو بہرحال اسی کے قائل ہیں۔

 

فقہا کرام نے نے ان عبارات میں ایسے شخص کی تکفیر کی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر جگہ حاضر و ناظر ہونے کا مدعی اور علم غیب کلی کا معتقد ہو اور اس قائل کے قول سے کہ رسول را گواہ کردم سے بہ ظاہر یہی سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ شخص ہر مجلس نکاح میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر سمجھتا ہے کیونکہ فقہا کی عبارات میں یعلم الغیب کے الفاظ موجود ہیں یعنی قائل یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کلی علم غیب رکھتے ہیں۔

کیونکہ مطلق الغیب سے کلی علم غیب ہی مراد ہوتی ہے۔

 

اگر کوئی قائل یہ کہے یا اس کا عقیدہ یہ ہو کہ میری مراد یہ ہے ہر جگہ اور ہر مجلس میں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم حاضر و ناظر نہیں ہیں لیکن میرے اس جزوی واقعہ میں اپ صلی اللہ علیہ وسلم روحانی طور پر حاضر تھے یا اپ کو اس کا علم عطا ہوا ہے تو اس صورت میں اس کی تکفیر میں تامل ہو سکتا ہے اور بعض نے کیا بھی ہے لیکن جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر مجلس نکاح میں حاضر و ناظر ہیں تو اس کی تکفیر میں فقہا کرام کا کوئی اختلاف نہیں۔

اور اس جزوی طور پر حاضر ہونے اور کلی طور پر حاضر ہونے میں زمین اسمان کا فرق ہے۔

اور عرض اعمال بھی اجمالی ثابت ہے نہ کہ کلی اور عمومی۔

 

اور میاں بیوی کے جفت ہوتے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حاضر و ناظر ہونے کے قائل کسی ایک دو کیسز میں اس کے قائل نہیں بلکہ ہر میاں بیوی کے جفت ہوتے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حاضر و ناظر کے قائل ہیں۔

Link to comment
Share on other sites

جناب من شاید آپ نے میرے جواب کو صحیح طریقے سے پڑھا ہی نہیں۔فقیر کی پوسٹ میں یہ جواب موجود ہے کہ فقہاء صرف اسکیتکفیرکر رہے ہیں جس کا یہ دعویٰ ہو کہ علم غیب ذاتی موجود ہے۔لیکن آپ کو بات کو گھما پھرا کے پھر وہیں لے آئے۔لفظ قالو کے متعلق فقیر نے ائمہ کے حوالے سے جواب دے دیا ہے آپ اس کو غور سے پڑھیں۔

Link to comment
Share on other sites

جناب من شاید آپ نے میرے جواب کو صحیح طریقے سے پڑھا ہی نہیں۔فقیر کی پوسٹ میں یہ جواب موجود ہے کہ فقہاء صرف اسکی تکفیق کر رہے ہیں جس کا یہ دعویٰ ہو کہ علم غیب ذاتی موجود ہے۔لیکن آپ کو بات کو گھما پھرا کے پھر وہیں لے آئے۔لفظ قالو کے متعلق فقیر نے ائمہ کے حوالے سے جواب دے دیا ہے آپ اس کو غور سے پڑھیں۔

جن فقہا نے کفر کا فتوی دیا ہے ان میں سے کسی نے بھی ذاتی یا عطائی کی شرط عائد نہیں کی۔

اگر واقعی فقیا علم غیب ذاتی کی بنیاد پر تکفیر کرتے تو وہ لازما اس طرف اشارہ کرتے کیونکہ وہ ہر مسئلہ میں اس کی جملہ شرائط و قیود حدود کو ملحوظ رکھ کر اور ان کو بیان کر کے فتوی صادر فرماتے ہیں اور اس مقام پر انھوں نے ایسی کوئی شرط بیان نہیں کی اور نہ ہی اس کی طرف ہلکا اشارہ ہی کیا ہے۔

 

لفظ قالو کے حوالے سے اپ نے شامی کا حوالی دیا ہے تو عرض ہے کہ یہ ان کا اپنا خیال ہے یہ کوئی متفقہ بات نہیں ہے کہ قالو ہمیشہ وہاں ہی اتا ہے جہاں اختلاف ہو ۔

اگر قاضی خان صاحب کو اس مسئلے پر اختلاف ہوتا تو وہ اسے بیان کر سکتے تھے علاوہ ازیں دیگر فقہا نے تو لفظ قالو استعمال ہی نہیں کیا۔

 

ویسے اگر اپ غور فرمائیں تو یہ فتاوے اپنے مفہوم میں بالکل صاف اور واضح ہیں کہ فقہا نے اس شخص کی تکفیر کی ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مجلس نکاح میں حاضر و ناظر سمجھ کر گواہ بناتا ہے

فقہا کہتے ہیں کہ وہ شخص اس لئے کافر ہے کہ اس شخص نے یہ عقیدہ قائم کر لیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں کیونکہ جس کو علم نہ ہو وہ گواہ بھی نہیں بن سکتا اور

ملا جیون کہتے ہیں شہادت کے لئے علم شرط ہے

اور قائل یہی کہہ رہا ہے کہ تزوجتک بشہادہ اللہ و رسولہ اور یہاں اس مسئلے میں ذاتی یا عطائی کی تو کوئی بحث ہی نہیں اور نہ بعض علم غیب کی بات ہے

بلکہ فقہا مطلق اس مجلس نکاح کے حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عدم علم کو بیان کر رہے ہیں۔

 

اس کو ایک اور زاویہ سے دیکھیں کہ جن فقہا نے تکفیر کی ہے اور جن فقہا نے عدم تکفیر کی ہے اس بنا پر کے شاید قائل کا عقیدہ یہ ہو کہ عرض اعمال کے تحت یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کی گئی ہو اور اپ کو اس کا علم ہو گیا ہو

تو دونوں صورتوں میں یہ بات بالکل صاف اور واضح ہے یہ سب فقہا اس بات پر متفق ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ اور ہر وقت حاضر و ناظر نہیں ہیں

کیونکہ جنہوں تکفیر کی وہ اسی بنیاد پر کی وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر نہیں سمجھتے اور جنہوں نے عدم تکفیر کی تو اسی بنیاد پر کی شاید قائل کا عقیدہ ہو یہ بات اپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کردی جائے گی۔

 

تو اب جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بوقت مجامعت بھی ہر میاں بیوی کے پاس حاضر ناظر سمجھتے ہیں وہ غور فرما لیں

Edited by Abdur Rehman
urdu font opar say 18 kar lia karain shukria
Link to comment
Share on other sites

فقہا احناف نے ایسے شخص پر کفر کا فتوی لگایا ہے جو اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنا کر نکاح کرے اور وجہ کفر یہ بیان کی ہے کہ اس شخص نے یہ اعتقاد کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں۔

 

امام الفقیا حسن بن منصور المعروف بہ قاضی خان متوفی 592 ہجری اپنے فتاوی قاضی خان میں لکھتے ہیں۔

ایک شخص نے ایک عورت سے نکاح کیا اور بوقت نکاح عورت کو یوں کہا کہ ہم اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بناتے ہیں تو حضرات فقہا کرام کہتے ہیں کہ اس شخص کا یہ کہنا کفر ہے کیونکہ اس نے یہ اعتقاد کر لیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں حالانکہ اپ زندگی میں غیب نہیں جانتے تھے تو وفات کے بعد کیسے غیب جانتے ہیں؟

 

علامہ عبدالرشید الولوالجی متوفی540 لکھتے ہیں

ایک شخص نے ایک عورت سے نکاح کیا مگر گواہ موجود نہ تھے،اس شخص نے عورت کو خطاب کرتے ہوئے کہا میں تیرے ساتھ اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنا کر نکاح کرتا ہوں تو وہ شخص کافر ہو جائے گا اسلئے کہ اس نے اعتقاد کر لیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم ہے کیونکہ جس کو علم نہ ہو وہ گواہ کیسے بن سکتا ہے؟اور جس کا یہ عقیدہ ہو کہ اپکو علم غیب تھا تویہ کفر ہے۔

 

ابو حنیفہ ثانی زین العابدین بن نجیم متوفی 970 بحر الرائق ج5 ص16 میں لکھتے ہیں۔

اگر کسی شخص نے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنا کر نکاح کیا تو سرے سے نکاح ہی منعقد نہ ہو گا اور وہ شخص کافر ہو جائے گا کیونکہ اس نے یہ اعتقاد کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں۔

 

یہی فتوی فتاوی عالمگیری میں اور فتاوی تاتارخانیہ میں بھی ہے۔

اور قاضی ثنا،اللہ صاحب نے بھی اپنی کتاب مالابدمنہ میں یہی بات لکھی ہے۔

 

اب جو لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بوقت مجامعت بھی ہر میاں بیوی کے پاس حاضر ناظر سمجھتے ہیں ان فتاوی کو دیکھ لیں۔

 

Janab nay fataway ki ibarat main khali nabi ka zikr kia halankay us ibarat main Allah ka bh zikr hai or Allah to Hazir Nazir hai. Ab ap zara is par hb roshni dalain k fuqaha nay Allah ko gawah bana kar nikah krnay say q mana farmaya?

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...