Jump to content

Meqas E Hanfiyat-Hazir O Nazir Per Aiteraz


T.T

تجویز کردہ جواب

(bis)

 

توحیدی صاحب کبوتر کی طرح انکھیں بند کر لینے سے حقیقت بدل نہیں جاتی۔۔

توحیدی صاحب تو اپنی کم علمی کے باعث ہمارے جواب سمجھ نہیں آرہے۔

لیکن یقین جانئے جسے آپ بے بسی کہ رہے ہیں وہ تو آپ ہی کے گھر کی بات ہے۔

post-13541-0-34163800-1347877580.jpg

گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

Link to comment
Share on other sites

ALLAH

post-1772-0-09930200-1347787085.gif

post-1772-0-58524600-1347787103.gif

ALLAH

post-1772-0-09930200-1347787085.gif

post-1772-0-58524600-1347787103.gif

اپ کی پوسٹ نمبر 95

اپ نے لکھا کہ جی وہ جسمانیت کے لحاظ سے حاضر ناظر کہنے کی نفی کر رہے ہیں

 

تو اس پر میں یہی عرض کروں گا

کہ جو چاہے اپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

 

باقی اپ نے جو عربی عبارات لکھی ہیں ان میں نہایت واضح طور پر لکھا ہے کہ یہ اس لئے کفر نہیں کہ بعض اشیا، اپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کی جاتی ہیں

یعنی ان فقہا کا بھی یہی عقیدہ ہے ہر ان اور ہر لمحے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر شے کا مشاہدہ نہیں کر رہے ہوتے ۔

جبکہ اچھروی صاحب اس کے برعکس کہتے ہیں۔

اس کو ایک اور زاویہ سے دیکھیں کہ جن فقہا نے تکفیر کی ہے اور جن فقہا نے عدم تکفیر کی ہے اس بنا پر کے شاید قائل کا عقیدہ یہ ہو کہ عرض اعمال کے تحت یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کی گئی ہو اور اپ کو اس کا علم ہو گیا ہو

تو دونوں صورتوں میں یہ بات بالکل صاف اور واضح ہے یہ سب فقہا اس بات پر متفق ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ اور ہر وقت حاضر و ناظر نہیں ہیں

کیونکہ جنہوں تکفیر کی وہ اسی بنیاد پر کی وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر نہیں سمجھتے اور جنہوں نے عدم تکفیر کی تو اسی بنیاد پر کی شاید قائل کا عقیدہ ہو یہ بات اپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کردی جائے گی۔

Link to comment
Share on other sites

(bis)

اپ کی پوسٹ 101

اپ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی روایت پیش کی تو کیا اس یہ سے ثابت ہو رہا ہے اپ کو روئے زمین کی ہر حاملہ کے بارے میں علم تھا کہ اس کے بیٹ میں کیا ہے؟

 

شاہ ولی اللہ نے محلی بر موطا میں اور امام ابو الفتح ناصر نے مغرب ج1 میں حضرت ابو بکر کی اسی روایت کے حوالے سے لکھا ہے کہ اراھا کا مطلب ظن اور گمان ہے یعنی حضرت ابو بکر کا مطلب تھا کہ میرا ظن اور گمان ہے کہ لڑکی ہو گی۔

 

امام سیوطی نے تاریخ الخلفا میں ابن سعد کے حوالے سے اسی روایت میں حضرت ابو بکر کے یہ الفاظ بھی ذکر کئے ہیں کہ میرے دل میں ڈالا گیا ہے کہ وہ لڑکی ہو گی۔

 

دوسرا واقعہ بھی اسی قبیل سے ہے اور فراست سے متعلق ہے۔

 

اپ نے حضرت زکریا علیہ السلام کے حوالے سے جو تاویل کرنے کی کوشش کی ہے وہ نہایت ہی افسوسناک ہے

اور اس کے مصداق ہے کہ

خود بدلتے نہیں قران کو بدل دیتے ہیں

 

کنز الایمان کے حاشیہ میں نعیم الدین مراد ابادی لکھتے ہیں

حضرت زکریا نے کلام نہ کر سکنے سے جان لیا کہ بیوی حاملہ ہو گئی ہے۔

Link to comment
Share on other sites

سعیدی صاحب ۔ بحوالہ پوسٹ نمبر106

پوائنٹ نمبر1

قران نے جس انداز سے یہ واقعہ بیان کیا ہے اس کے سیاق و سباق میں اپ کی یہ تاویل باطل ہے۔

پھر اپ کی عدم توجہ والی بات بھی عجیب ہے حالانکہ اپ کا عقیدہ ہے کہ

کسی مادہ میں نطفہ قرار نہیں پاتا مگراس مرد کی نظر میں ہوتا ہے اور وہ اسے جانتا ہے۔

 

اور قران تو ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ حضرت زکریا علیہ السلام کو تو یہ بھی علم نہیں تھا کہ حضرت مریم کے پاس رزق کہاں سے اور کب ایا۔ سورہ عمران ائت 37

 

پ 2

میں نےتوصرف سہو یا تحریف کا امکان ظاہر کیا تھا۔ اگر اپ کو اس کی صحت پر اصرار ہے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔

بہرحال امام شعرانی کی یہ بات غلط اور ناقبل قبول ہے کیونکہ

ما فی الارحام کا تفصیلی علم صرف اللہ پاک کو ہے۔ سورہ 35 ایت 11 میں ارشاد ہے کہ کوئی عورت حاملہ نہیں ہوتی مگر اللہ کو اس کا علم ہوتا ہے، اگر اللہ کے علاوہ کسی اور کو بھی ہر عورت کے حاملہ ہونے کا علم ہوجائے تو پھر اللہ کے اس ارشاد کی کیا خصوصیت رہ جاتی ہے۔

 

پ3

عالمگیری کی عبارت کا مفاد بھی یہی ہے جب وہ حاضر ہی نہیں تو ان کو علم بھی نہیں اور جب علم نہیں تو گواہ کیسے بن سکتے ہیں۔

 

 

 

علامہ عبدالرشید الولوالجی متوفی540 لکھتے ہیں

 

ایک شخص نے ایک عورت سے نکاح کیا مگر گواہ موجود نہ تھے،اس شخص نے عورت کو خطاب کرتے ہوئے کہا میں تیرے ساتھ اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنا کر نکاح کرتا ہوں تو وہ شخص کافر ہو جائے گا اسلئے کہ اس نے اعتقاد کر لیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم ہے

کیونکہ جس کو علم نہ ہو وہ گواہ کیسے بن سکتا ہے؟

 

 

 

باقی اپ نے جو عربی عبارات لکھی ہیں پوسٹ 95 میں ان میں نہایت واضح طور پر لکھا ہے کہ یہ اس لئے کفر نہیں کہ بعض اشیا، اپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کی جاتی ہیں

یعنی ان فقہا کا بھی یہی عقیدہ ہے ہر ان اور ہر لمحے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر شے کا مشاہدہ نہیں کر رہے ہوتے ۔

جبکہ اچھروی صاحب اس کے برعکس کہتے ہیں۔

اس کو ایک اور زاویہ سے دیکھیں کہ جن فقہا نے تکفیر کی ہے اور جن فقہا نے عدم تکفیر کی ہے اس بنا پر کے شاید قائل کا عقیدہ یہ ہو کہ عرض اعمال کے تحت یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کی گئی ہو اور اپ کو اس کا علم ہو گیا ہو

 

تو دونوں صورتوں میں یہ بات بالکل صاف اور واضح ہے یہ سب فقہا اس بات پر متفق ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ اور ہر وقت حاضر و ناظر نہیں ہیں

 

کیونکہ جنہوں تکفیر کی وہ اسی بنیاد پر کی وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر نہیں سمجھتے اور جنہوں نے عدم تکفیر کی تو اسی بنیاد پر کی شاید قائل کا عقیدہ ہو یہ بات اپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کردی جائے گی۔

 

پ4

میں نے فتاوی مظہری نہیں بلکہ فتاوی مسعودی کا حوالہ دیا تھا۔

 

پ5

یہ بات قابل غور ہے کہ صاحب انوار شریعت حاضر و ناظر کو کفر بھی کہہ رہے ہیں اور پھر اس کا اثبات بھی کرتے ہیں۔

تو عرض ہے کہ جس بات کو انھوں نے کفر کہا ہے وہ اس عقیدے کے ساتھ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر ان اور ہر لمحہ حاضر ناظر یا صاحب مشاہدہ ماننا جو کہ اچھروی صاحب کو عقیدہ ہے۔

اور جس بات کا وہ اثبات کرتے ہیں وہ عرض اعمال ہے یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کسی مقام کا مشاہدہ کر لینا۔

 

اور پوسٹ نمبر 107

اپ نے کہا کہ اپ نے وہ نتیجہ نکالا ہی نہیں جو میں بیان کیا تھا تو عرض ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ

اپ حضرت ابو بکر رضی کو مرد کامل تسلیم نہیں کرتے۔

Link to comment
Share on other sites

علم غیب و حاظر ناظر مانا تو کفر ہے جس پر فتوے پیش کر دئے گئے ہیں لیکن اس پر غور کریں سعیدی صاحب کیا دلیل لے آئے۔

 

post-13541-0-73346200-1348329578.jpg

اگر حضور ﷺ ظاہری آنکھ سے نہیں دیکھتے تو گواہی کیسے دیں گے امام تو ظاہری آنکھ سے دیکھنے پر گواہی تسلیم کرتے ہیں

لیحاظہ جو بدعتی علماء روز قیامت گواہی دینے کو مشاہدہ کے ساتھ خاص کرتے ہیں اُن کے نزدیک تو حضور ﷺ ظاہری آنکھ سے مشاہدہ فرمارہے ہیں اور وہ بھی جان بوجھ کر۔۔۔۔۔۔

اگر جان بوجھ کر اپنی ظاہری آنکھ سے مشاہدہ نہیں فرما رہے تو بھی گواہی کیسے قبول ہوگی۔؟؟؟؟؟

معاذاللہ

Link to comment
Share on other sites

ALLAH

post-1772-0-28577300-1348317973.jpg

post-1772-0-02588500-1348318007.jpg

post-1772-0-75877300-1348318042.jpg

post-1772-0-58926200-1348318085.jpg

post-1772-0-48045300-1348318142.jpg

post-1772-0-99137400-1348318179.jpg

post-1772-0-88664400-1348318225.jpg

 

 

 

اسلام علیکم!

سب سے پہلے تو جواب تاخیر سے دینے پر معذرت قبول فرمایئں۔

دوسری اپ سے گزارش ہے کہ اپ اسی باکس میں جواب دیا کریں تاکہ اپ کی عبارت کوٹ کر کے جواب دیا جا سکے۔

اپ کی پوسٹ کا کثیر حصہ میری کسی پوسٹ سے بھی تعلق نہیں رکھتا اس لئے صرف ان باتوں کا جواب دیا جائے گا جو متعلقہ ہیں۔

پوائنٹ 1

اپ نے امام علی خواص کی ایک عبارت کا حوالہ دے کر کہا کہ پہلے حضرت یحیی کو حضرت زکریا کا مرید ثابت کرنا پڑے گا۔

تو عرض ہے کہ ہماری زیر بحث یہ والی عبارت نہیں ہے بلکہ وہ عبارت ہے جو لطاف المنن میں ائی ہے کہ کوئی کسی مادہ میں نطفہ استقرار نہیں ۔۔۔۔۔ الخ

اور اس عبارت میں کسی مرید کا زکر نہیں۔

اور اگر اپ کی یہی عبارت بھی لے لی جائے جو اپ نے کبریت احمر سے نقل کی ہے تو بھی کوئی حرج نہیں اگر ایک مرد کامل اپنے مرید کے بارے میں اتنی تفصیلات جان سکتا ہے تو کیا ایک نبی اپنے بیٹے کا استقرار حمل نہیں جان سکتا؟

حالانکہ اللہ کے نبی نے یہ بات جاننے کے لئے اللہ سے نشانی طلب کی۔

 

اپ نے حضرت مریم کے پاس پھل انے کے حوالے سے لکھا کہ حضرت زکریا علیہ اسلام کا پوچھنا بطور تعجب کے تھا ورنہ دو موسم گزر گئے ان کی لا علمی دور نہ ہوئی۔

 

تو جناب جوابی طور پر میں بھی اپ سے پوچھ سکتا ہوں کہ

دو موسم گزر گئے اور حضرت زکریا علیہ السلام کا تعجب ہی دور نہ ہو سکا۔

اور جناب تعجب تو ہوتا ہی وہاں ہے جہان کوئی بات غیر متوقع طور وقوع پزیر ہوتی ہے اور اپ کو اس کے وقوع ہونے کا علم نہیں ہوتا۔

 

ما فی الارحام کا تفصیلی علم صرف اللہ کو ہے جیسا کے سورہ 41 ایت 47 سے واضح ہے۔ ہاں اللہ پاک الا بماشا، کے تحت جتنا چاہے کسی کو علم دے دے۔

اپ اچھروی صاحب کے حوالے سے قرب و بعد کی بات کی اور میاں بیوی کے جفت ہوتے وقت کے زکر میں بریکٹ میں بعد کا لفظ لکھ دیا حالانکہ اگر ایسی بات ہوتی تو اچھروی صاحب خود بھی بعد کا لفظ لکھ سکتے تھے۔

ویسے بھی قرب و بعد کے الفاظ سے نفس مسئلہ پر فرق بھی کیا پڑتا ہے؟

اچھروی صاحب نے فرضی مکالمہ کی صورت میں یہ کتاب لکھی ہے اور قرب و بعد کی بات کسی اور سوال کے ضمن میں تھی۔

بہرحال اچھروی صاحب میاں بیوی کے جفت ہوتے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حاضر ناظر ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔

 

رہی بات فتاوی عالمگیری کی تو انکی عبارت واضح ہے کہ اللہ اور کراما کاتبین کو گواہ بنا کر نکاح کیا تو کفر نہیں اور اگر اللہ کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یا دیگر فرشتوں کو گواہ بنایا تو کفر ہو گا۔

علامہ شامی کی عبارت سے اپ نے الاشیا، سے کل اشیا مراد لی ہیں چلیں اس بحث میں نہیں پڑتے کے کہ کیا الاشیا، سے ہمیشہ مراد کل اشیا، ہی ہوتی ہیں یا اس سے بعض اشیا بھی مراد ہو سکتی ہیں۔

اس کو ایک اور زاویہ سے دیکھیں کہ جن فقہا نے تکفیر کی ہے اور جن فقہا نے عدم تکفیر کی ہے اس بنا پر کے شاید قائل کا عقیدہ یہ ہو کہ عرض اعمال کے تحت یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کی گئی ہو اور اپ کو اس کا علم ہو گیا ہو

 

 

تو دونوں صورتوں میں یہ بات بالکل صاف اور واضح ہے یہ سب فقہا اس بات پر متفق ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ اور ہر وقت حاضر و ناظر نہیں ہیں

کیونکہ جنہوں تکفیر کی وہ اسی بنیاد پر کی وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر نہیں سمجھتے اور جنہوں نے عدم تکفیر کی تو اسی بنیاد پر کی شاید قائل کا عقیدہ ہو یہ بات اپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کردی جائے گی۔

 

 

اپ نے بالکل 100 فیصد درست فرمایا کہ حدیث کے مقابل فقہ کا قول مسترد کر دینا چاہیے۔ امید ہے اپ اپنی اس بات پر قائم رہیں گے کیوں کہ کئی ابحاث میں اس کی ضرورت پڑھے گی۔

اپ نے جس حدیث کا حوالہ دیا ہے کہ صبح شام تمام مخلوق اور فرشتوں وغیرہ کو گواہ بنایا جاتا ہے۔

تو جناب سے گزارش ہے کہ زرا اس حدیث کی وضاحت فرما دیں کہ ان سب کو گواہ بنانے سے کیا مراد ہے؟

میرے ناقص علم کے مطابق تو جس کو گواہ بنایا جائے اسے علم ہونا چاہئے۔

مگر میں نے صبح یہ دعا پڑھی تو تمام مخلوق تو رہی ایک طرف میرے تو اہل خانہ کو ہی علم نہیں ہو سکا کہ میں نے ان کو گواہ بنایا ہے۔

 

تو ذرا اس اشکال کی وضاحت فرما دیں ۔

فتاوی مسعودی کی عبارت بھی بالکل صاف اور واضح ہے کہ وہ کن معنوں میں اسے موجب شرک کہہ رہے ہیں۔

صاحب انوار شریعت کی عبارت بھی واضح ہے کہ ہر ان اور ہر لمحہ حاضر ناظر صرف خاصہ خدا وندی ہے۔

 

اپ نے لکھا کہ امام شعرانی نے روئے زمین کی نہیں صرف مریدوں کی بات کی تھی۔

اپ کی یہ بات درست نہیں لطاف المنن میں کسی مرید کی نہیں بلکہ مطلق ہر مادہ کی بات ہو رہی ہے۔

 

اپ نے شمام امدادیہ کے حوالے سے لکھا کہ اہل حق جدھر توجہ کرتے ہیں ان کو غیب کا ادراک ہو جاتا ہے۔

تو عرض ہے کہ ایسا کبھی کبھار باذن اللہ ہو جاتا ہو تو ہو سکتا ہے مگر یہ کوئی ہارڈ اینڈ فاسٹ رول بھی نہیں ہے۔ صرف اشارتہ عرض کئے دیتا ہوں کہ جب حضرت عائشہ رضی کا ہار گم ہوا تو حضرت ابوبکر سمیت دیگر کئی صحابہ نے بھی ہار تلاش کرنے کی بہت کوشش کی مگر تلاش نہیں کر سکے۔

 

post-13243-0-40157900-1349165662.jpg

post-13243-0-10688700-1349165645.jpg

 

Edited by Usman Razawi
Anwar-e-Shariat Walay Scan page main Email link tha jis waja say page remove kia hay. Baghair link k Scan upload kar saktay hain.
Link to comment
Share on other sites

پوسٹ نمبر106 اور 111میں ہی ان سب باتوں کاجواب موجود ہے۔

 

غیرمتعلقہ کچھ نہیں تھا۔آپ جان چھڑارہے ہیں۔

 

دوبارہ پڑھیں۔

اپ کی پوسٹ نمبر 111 میں پہلی لائن سے لیکر اس جملے تک کہ

امین صفدر کی اس گستاخانہ عبارت کا جواب اپ کے ذمہ ہے۔

تک کا تعلق تلوار صاحب کی پوسٹس سے ہے۔

 

باقی جواب نہ دے کر تو جان اپ نے چھڑائی ہے حالانکہ میری پوسٹ نمبر 116 میں کچھ نئی باتوں کے علاوہ اپکی باتوں کا جواب بھی تھا۔

اپ سے گزارش ہے برائے مہربانی میری اس پوسٹ کا جواب ضرور عنایت فرمائیں۔

Link to comment
Share on other sites

میری پوسٹ نمبر 116 میں کچھ نئی باتوں کے علاوہ اپکی باتوں کا جواب بھی تھا۔

اپ سے گزارش ہے برائے مہربانی میری اس پوسٹ کا جواب ضرور عنایت فرمائیں۔

 

#118 Mustafvi

اپ کی پوسٹ نمبر 111 میں پہلی لائن سے لیکر اس جملے تک کہ

امین صفدر کی اس گستاخانہ عبارت کا جواب اپ کے ذمہ ہے۔

تک کا تعلق تلوار صاحب کی پوسٹس سے ہے۔

 

اگرآپ دیوبندی ہیں تودفاع وجواب آپ کے ذمہ بھی ہے اور اگرآپ دیوبندی نہیں تو اُن پرکلام کریں

کیاآپ کے فتوے صرف ہم اہل سنت پرہی لگتے ہیں؟

 

#116 Mustafvi

ہماری زیر بحث لطاف المنن : کوئی کسی مادہ میں نطفہ استقرار نہیں ۔۔۔۔۔ الخ

اور اس عبارت میں کسی مرید کا زکر نہیں۔۔۔ لطاف المنن میں کسی مرید کی نہیں بلکہ مطلق ہر مادہ کی بات ہو رہی ہے۔

۔اور اگر اپ کی یہی عبارت بھی لے لی جائے جو اپ نے کبریت احمر سے نقل کی ہے تو بھی کوئی حرج نہیں

اگر ایک مرد کامل اپنے مرید کے بارے میں اتنی تفصیلات جان سکتا ہے تو کیا ایک نبی اپنے بیٹے کا استقرار حمل نہیں جان سکتا؟

حالانکہ اللہ کے نبی نے یہ بات جاننے کے لئے اللہ سے نشانی طلب کی۔

 

 

اس کا جواب میں دے چکاہوں کہ عدم توجہ ہوسکنے کی وجہ سے خوشی معلوم ہونے میں تاخیرہوسکتی تھی،اس لئے آیۃ چاہی۔

نیزاپنے جاننے اوررب کے بتانے میں بہت فرق ہے جیسے ایمان ہونےاورایمان کے لئےاطمینان (ولکن لیطمئن قلبی)چاہنے میں ہے۔

پھرجب صاحب لطائف وکبریت امام شعرانی ہردوفریق کے مشترکہ بزرگ ہیں توایک ہی فریق موردالزام کیوں؟

 

آپ نے حضرت مریم کے پاس پھل انے کے حوالے سے لکھا کہ حضرت زکریا علیہ اسلام کا پوچھنا بطور تعجب کے تھا ورنہ دو موسم گزر گئے ان کی لا علمی دور نہ ہوئی۔

تو جناب جوابی طور پر میں بھی اپ سے پوچھ سکتا ہوں کہ دو موسم گزر گئے اور حضرت زکریا علیہ السلام کا تعجب ہی دور نہ ہو سکا۔

اور جناب تعجب تو ہوتا ہی وہاں ہے جہان کوئی بات غیر متوقع طور وقوع پزیر ہوتی ہے اور اپ کو اس کے وقوع ہونے کا علم نہیں ہوتا۔

 

 

تعجب لاعلمی کے وقت ہوتاہے تو تعجب کا اظہارخوشی کے موقعوں پربھی کیاجاتاہے۔

جناب اپنے ذہن سے لاعلمی کا خول ہٹائیں گے تو یہ خوشی کے اظہار والا اظہارتعجب سمجھ جائیں گے۔

 

ما فی الارحام کا تفصیلی علم صرف اللہ کو ہے جیسا کے سورہ 41 ایت 47 سے واضح ہے۔ ہاں اللہ پاک الا بماشا، کے تحت جتنا چاہے کسی کو علم دے دے۔

تفصیلی علم کی نفی کرکے جناب نے مافی الارحام کے اجمالی علم کا دروازہ محبوبان حق کے لئے(مشیت الٰہی سے)کھلامانا ہے۔

 

آپ اچھروی صاحب کے حوالے سے قرب و بعد کی بات کی اور میاں بیوی کے جفت ہوتے وقت کے زکر میں بریکٹ میں بعد کا لفظ لکھ دیا

حالانکہ اگر ایسی بات ہوتی تو اچھروی صاحب خود بھی بعد کا لفظ لکھ سکتے تھے۔

ویسے بھی قرب و بعد کے الفاظ سے نفس مسئلہ پر فرق بھی کیا پڑتا ہے؟

اچھروی صاحب نے فرضی مکالمہ کی صورت میں یہ کتاب لکھی ہے اور قرب و بعد کی بات کسی اور سوال کے ضمن میں تھی۔

بہرحال اچھروی صاحب میاں بیوی کے جفت ہوتے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حاضر ناظر ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔

 

 

قرب وبعد کے الفاظ اسی حاضروناظر کے مسئلے کی وضاحت میں ایک جگہ لکھے ہیں تو باقی متعلقہ جگہوں پروہ محذوف شمار

ہوں گے۔ سائل کے گستاخانہ سوال کےجواب میں اچھروی صاحب نے مجبورا جو کلام کیا اُس میں بھی انہوں نے سرکارﷺکے نظر مبارک علیحدہ کرنے کی بات کی ہے مگرآپ اُس کوچھپاجاتے ہیں۔

 

رہی بات فتاوی عالمگیری کی تو انکی عبارت واضح ہے کہ اللہ اور کراما کاتبین کو گواہ بنا کر نکاح کیا تو کفر نہیں اور اگر اللہ کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یا دیگر فرشتوں کو گواہ بنایا تو کفر ہو گا۔علامہ شامی کی عبارت سے اپ نے الاشیا، سے کل اشیا مراد لی ہیں چلیں اس بحث میں نہیں پڑتے کے کہ کیا الاشیا، سے ہمیشہ مراد کل اشیا، ہی ہوتی ہیں یا اس سے بعض اشیا بھی مراد ہو سکتی ہیں۔اس کو ایک اور زاویہ سے دیکھیں کہ جن فقہا نے تکفیر کی ہے اور جن فقہا نے عدم تکفیر کی ہے اس بنا پر کے شاید قائل کا عقیدہ یہ ہو کہ عرض اعمال کے تحت یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کی گئی ہو اور اپ کو اس کا علم ہو گیا ہو۔

تو دونوں صورتوں میں یہ بات بالکل صاف اور واضح ہے یہ سب فقہا اس بات پر متفق ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ اور ہر وقت حاضر و ناظر نہیں ہیں۔

کیونکہ جنہوں تکفیر کی وہ اسی بنیاد پر کی وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر و ناظر نہیں سمجھتے اور جنہوں نے عدم تکفیر کی تو اسی بنیاد پر کی شاید قائل کا عقیدہ ہو یہ بات اپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کردی جائے گی۔

 

عالمگیری اورشامی کی عبارتوں پرمیرے جواب ہضم کرکے جونیارُخ اختیار کیا ہے وہ میرے خلاف نہیں ہے وہ جسمانی موجودگی کے ساتھ ہرزمان وہرمکان میں حاضرناظر ہونے کی بات کررہے ہیں جس کے قائل ہونے کی صورت میں متعدد نصوص کاانکارلازم آتاہے جوکفرہے۔جوسرکارﷺ کے شاہداعمال امت ہونے کامنکرہے اُس کے لئے یہ فتوے پناہ گاہ نہیں بن سکتے۔

 

آپ نے بالکل 100 فیصد درست فرمایا کہ حدیث کے مقابل فقہ کا قول مسترد کر دینا چاہیے۔ امید ہے اپ اپنی اس بات پر قائم رہیں گے کیوں کہ کئی ابحاث میں اس کی ضرورت پڑھے گی۔اپ نے جس حدیث کا حوالہ دیا ہے کہ صبح شام تمام مخلوق اور فرشتوں وغیرہ کو گواہ بنایا جاتا ہے۔تو جناب سے گزارش ہے کہ زرا اس حدیث کی وضاحت فرما دیں کہ ان سب کو گواہ بنانے سے کیا مراد ہے؟میرے ناقص علم کے مطابق تو جس کو گواہ بنایا جائے اسے علم ہونا چاہئے۔مگر میں نے صبح یہ دعا پڑھی تو تمام مخلوق تو رہی ایک طرف میرے تو اہل خانہ کو ہی علم نہیں ہو سکا کہ میں نے ان کو گواہ بنایا ہے۔

 

 

وہابیت کاالمیہ یہی ہے کہ نص کے مقابل قیاس کرتے ہیں۔تم اپنے اہل خانہ کی بات کرتے ہو کائنات کے ذرے ذرے میں ایک خاص فریکوئنسی پرتمہاری یہ آواز محفوظ ہے جب کسی جگہ کوئی خدائی آلہ رکھنے والا(کنتُ سمعہ وبصرہ ویدہ ورجلہ)اُس فریکوئنسی کوملائے گااُسے تمہاری بات سنائی دے گی۔کیا تم نے نص کے مقابل قیاس چھوڑ دیا ہے۔

 

فتاوی مسعودی کی عبارت بھی بالکل صاف اور واضح ہے کہ وہ کن معنوں میں اسے موجب شرک کہہ رہے ہیں۔

صاحب انوار شریعت کی عبارت بھی واضح ہے کہ ہر ان اور ہر لمحہ حاضر ناظر صرف خاصہ خدا وندی ہے۔

 

 

میں نے فتاوی مسعودی سے روحانی قرب وبعد برابرہونے کا ثبوت دیا جوہمارے روحانی حاضرناظرماننے کے مطابق دلیل ہے۔جناب نے جواب نہ دیا۔

انوارشریعت کے حصہ نمبر۱،۲،۳،۱۶مولانا نظام الدین ملتانی کے لکھے ہوئے نہیں ہیں۔ اور ہم نے مولاناملتانی کے فتووں کے حوالے دیے۔ پھر جناب کے محولہ صفحہ کے اگلے صفحہ پر حضورﷺ کو ایک اعتبارسے حاضرناظرمانا گیاہے۔اس کودیکھو پھراعتراض کرنا۔

 

اپ نے شمام امدادیہ کے حوالے سے لکھا کہ اہل حق جدھر توجہ کرتے ہیں ان کو غیب کا ادراک ہو جاتا ہے۔

تو عرض ہے کہ ایسا کبھی کبھار باذن اللہ ہو جاتا ہو تو ہو سکتا ہے مگر یہ کوئی ہارڈ اینڈ فاسٹ رول بھی نہیں ہے۔ صرف اشارتہ عرض کئے دیتا ہوں کہ جب حضرت عائشہ رضی کا ہار گم ہوا تو حضرت ابوبکر سمیت دیگر کئی صحابہ نے بھی ہار تلاش کرنے کی بہت کوشش کی مگر تلاش نہیں کر سکے۔

 

 

جناب اسی ہار کے متعلق شمائم امدادیہ میں یہ ہارڈاینڈفاسٹ رول دیاہؤاہے کہ اہل حق جس طرف نظرکرتے ہیں دریافت اورادراک غیبات کااُن کوہوتاہے۔

رول تو یہی ہے جوہارڈبھی ہے اورفاسٹ بھی ۔تاہم اگرکسی طرف توجہ نہ جائے (حکمت الٰہی سے)تو اوربات ہے۔

Edited by Mughal...
بحکم سعیدی بھائی
Link to comment
Share on other sites

 

 

اگرآپ دیوبندی ہیں تودفاع وجواب آپ کے ذمہ بھی ہے اور اگرآپ دیوبندی نہیں تو اُن پرکلام کریں

 

کیاآپ کے فتوے صرف ہم اہل سنت پرہی لگتے ہیں؟

جی میں دیوبندی نہیں ہوں اس لئے دفاع میرے ذمہ نہیں ہے۔ اور فتوی میںنےکسی پر بھی نہیں لگایا۔

 

 

 

 

اس کا جواب میں دے چکاہوں کہ عدم توجہ ہوسکنے کی وجہ سے خوشی معلوم ہونے میں تاخیرہوسکتی تھی،اس لئے آیۃ چاہی۔

 

نیزاپنے جاننے اوررب کے بتانے میں بہت فرق ہے جیسے ایمان ہونےاورایمان کے لئےاطمینان (ولکن لیطمئن قلبی)چاہنے میں ہے۔

اس حوالے سے میں پہلے ہی عرض کر چکا ہوں کہ قران نے جس انداز سے یہ واقعہ بیان کیا ہے اس کے سیاق و سباق میں اپ کی ہیش کردہ تاویل غلط ہے۔ اور اگر اپ کو اپنی ہی تاویل پر اصرار ہے تو اپ کی مرضی۔

 

 

پھرجب صاحب لطائف وکبریت امام شعرانی ہردوفریق کے مشترکہ بزرگ ہیں توایک ہی فریق موردالزام کیوں؟[/b]

]

میں نے کسی کو مورد الزام ٹھرانے والی بات نہیں کی بلکہ میں نے کہا تھا

اپ نے لکھا کہ امام شعرانی نے روئے زمین کی نہیں صرف مریدوں کی بات کی تھی۔

اپ کی یہ بات درست نہیں لطاف المنن میں کسی مرید کی نہیں بلکہ مطلق ہر مادہ کی بات ہو رہی ہے۔

 

 

تعجب لاعلمی کے وقت ہوتاہے تو تعجب کا اظہارخوشی کے موقعوں پربھی کیاجاتاہے۔

جناب اپنے ذہن سے لاعلمی کا خول ہٹائیں گے تو یہ خوشی کے اظہار والا اظہارتعجب سمجھ جائیں گے۔

 

جناب تعجب تو تعجب ہی ہے چاہے وہ خوشی کے موقع پر ہو یا غمی کے موقع پر اور تعجب اور حیرانگی کی تہہ میں لاعلمی ہی ہوتی ہے۔

 

تفصیلی علم کی نفی کرکے جناب نے مافی الارحام کے اجمالی علم کا دروازہ محبوبان حق کے لئے(مشیت الٰہی سے)کھلامانا ہے۔

جناب اجمالی علم کا تعلق بھی اکا دکا کیس میں ہے یہ نہیں کہ ہرہر مادہ کے حوالے سے اجمالی علم دیا جاتا ہے۔

 

عالمگیری اورشامی کی عبارتوں پرمیرے جواب ہضم کرکے جونیارُخ اختیار کیا ہے وہ میرے خلاف نہیں ہے وہ جسمانی موجودگی کے ساتھ ہرزمان وہرمکان میں حاضرناظر ہونے کی بات کررہے ہیں جس کے قائل ہونے کی صورت میں متعدد نصوص کاانکارلازم آتاہے جوکفرہے۔جوسرکارﷺ کے شاہداعمال امت ہونے کامنکرہے اُس کے لئے یہ فتوے پناہ گاہ نہیں بن سکتے۔

شامی اور دیگر فقہا، کی عبارتوں سے کم ازکم اتنا تو ثابت ہو چکا ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حاضر ناظر نہیں سمجھتے اور عدم تکفیر والے بھی صرف عرض اعمال کی بنیاد پر عدم تکفیر کر رہے ہیں ۔ یعنی کسی کا بھی یہ عقیدہ نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر ان ولمحہ ہر چیز کا مشاہدہ کر رہے ہیں

پہلے اپ نے یہ تاثر دیا کہ فقہا، صرف مجلس نکاح میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جسمانی موجودگی کو ماننے کی وجہ سے تکفیر کر رہے ہیں اور اب اپ نے ان کی طرف ہر مکان و ہر زمان کی بات منسوب کر دی۔

اگر یہی بات ہوتی تو فقہا، ضرور اس بات کی نشاندہی کر دیتے۔

اور ویسے بھی اپ کے عقیدے کے مطابق تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم جسمانی طور پر بھی کسی جگہ حاضر ہو سکتے ہیں تو پھر مجلس

نکاح میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جسمانی موجودگی کے قائل پر فتوی کفر کیوں؟

اپنا عقیدہ ملاحظہ فرمائیں۔

 

سید عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی قوت قدسیہ اور نور نبوت سے یہ امر بعید نہیں کہ آن واحد میں مشرق و مغرب، جنوب و شمال، تحت و فوق، تمام جہات وامکنہ، بعیدہ متعددہ میں سرکار اپنے وجود مقدس بعینہ یا جسم اقدس مثالی کے ساتھ تشریف فرما ہو کر اپنے مقربین کو اپنے جمال کی زیارت اور نگاہ کرم کی رحمت و برکت سرفراز فرمائیں۔

حضور علیہ السلام کی نگاہ پاک ہر وقت عالم کے ذرہ ذرہ پر ہے اور نماز، تلاوت قرآن، محفل میلاد شریف اور نعت خوانی کی مجالس میں، اسی طرح صالحین کی نماز جنازہ میں خاص طور پر اپنے جسم پاک سے تشریف فرما ہوتے ہیں۔

 

یہ حوالے تسکین الخواطر اور جا،الحق کے ہیں۔

 

 

 

وہابیت کاالمیہ یہی ہے کہ نص کے مقابل قیاس کرتے ہیں۔تم اپنے اہل خانہ کی بات کرتے ہو کائنات کے ذرے ذرے میں ایک خاص فریکوئنسی پرتمہاری یہ آواز محفوظ ہے جب کسی جگہ کوئی خدائی آلہ رکھنے والا(کنتُ سمعہ وبصرہ ویدہ ورجلہ)اُس فریکوئنسی کوملائے گااُسے تمہاری بات سنائی دے گی۔کیا تم نے نص کے مقابل قیاس چھوڑ دیا ہے۔

 

 

 

میں نے کوئی قیاس نہیں کیا صرف ایک اشکال کی اپ سے وضاحت چاہی تھی۔

اور اپ نے زرا مبالغہ امیزی سے کام لیا ہے کہ کائنات کے ذرے ذرے میں اواز محفوظ رہتی ہے۔ اواز کائنات کے ذرے ذرے میں نہیں صرف فضا میں موجود رہتی ہے اور اس بات کا میری بات سے دور دور کا بھی کوئی تعلق نہیں بنتا۔

رول تو یہی ہے جوہارڈبھی ہے اورفاسٹ بھی ۔تاہم اگرکسی طرف توجہ نہ جائے (حکمت الٰہی سے)تو اوربات ہے۔

اگر اپ اسی طرح ہر بات کی تاویل کرتے رہے گے تو پھر کوئی اور دلیل دینے کا کوئی فائدہ نہیں۔

ویسے اپ کی اپنی بات سے یہ ثابت ہو گیا کہ ہر لمحہ اور ہر ان ہر طرف توجہ نہیں ہوتی اور بہت سی چیزیں توجہ کے باوجود بھی معلوم نہیں ہوتیں۔

 

Edited by Mustafvi
Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...