Jump to content

ڈینگی بخار شہد اور پپیتے کے پتے بہترین علاج ہیں


SunniDefender

تجویز کردہ جواب

شہد اور پپیتے کے پتے ڈینگی بخار کا بہترین علاج ہیں :حکیم خالد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

احتیاطی تدابیراختیارکر کے ڈینگی وائرس سے بچا جا سکتا ہے:کونسل آف ہربل فزیشنزپاکستان

ڈینگی مچھروں سے محفوظ رہنے کیلئے کا فوراور لیمن گراس گھروں میں مختلف جگہوں پر رکھیں

aedes_aegypti.jpg

عوام الناس ڈینگی فیور سے مت گھبرائیں ‘جدید طبی تحقیقات کے مطابق عام ڈینگی فیور خطرناک نہیں اور کم و بیش ایک سے دو ہفتے میں مناسب دیکھ بھال وعلاج سے ٹھیک ہو جاتا ہے۔ڈینگی فیور کے پچیدہ کیسزیعنی ڈینگی ہیمرجک فیور اور ڈینگی شاک فیور کی شرح’ ڈینگی پازیٹو مریضوں میںتین سے پانچ فیصد تک ہے تاہم خوف و ہراس کے خاتمہ کے ساتھ ساتھ احتیاطی تدابیربھی انتہائی ضروری ہیںیہ باتیںمرکزی سیکرٹری جنرل کونسل آف ہربل فزیشنزپاکستان اور یونانی میڈیکل آفیسرحکیم قاضی ایم اے خالدنے ہیلتھ پاک کے زیراہتمام ڈینگی وائرس کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کیں۔ انہوں نے کہا کہ طب یونانی و اسلامی اور ہربل سسٹم آف میڈیسن کے مطابق شہدڈینگی فیور کے لیے ایک بہترین علاج ہے۔ایک چمچ شہد ایک کپ نیم گرم پانی میں ملا کر صبح نہار منہ جبکہ دوپہر و رات کھانے سے ایک گھنٹہ قبل استعمال کرنا چاہئے’حفظ ماتقدم کے طور پر بھی مفید ہے۔پروپولس(رائل جیلی) جو کہ شہد کی مکھی کے چھتے سے نکلتا ہے ایک طاقتوراینٹی انفیکشن ‘اینٹی بیکٹیریل اور اینٹی وائرل ہے ۔یورپ میں یہ عام دستیاب ہے لیکن وطن عزیز میں ہم اسے شہدنکالے چھتے سے حاصل کر سکتے ہیں ۔اس چھتے کے تین تین گرام کے پیس کاٹ لیں اور ایک ٹکڑا صبح دوپہر شام اور رات’دن میں چار مرتبہ چبا کر رس چوس لیں ۔پروپولس کی مطلوبہ مقدار حاصل ہو جائے گی ۔اس سے قوت مدافعت میں زبردست اضافہ ہو جاتا ہے جس سے ڈینگی وائرس زیادہ نقصان نہیں پہنچا سکتا۔پپیتے کے پتے بھی اس مرض کا شافی علاج ہیںپپیتے کے دو تازہ پتے یا ان کا رس صبح شام پینے سے Plateletsحیران کن طور پرچند گھنٹوں میں بہتر ہو جاتا ہے۔اس کے علاوہ کالی مرچ’کلونجی ‘چرائتہ’افسنتین ہر ایک دس گرام باریک پیس لیںاور ایک گرام دن میں تین مرتبہ صبح دوپہر شام اجوائن و پودینے کے قہوے سے ڈینگی بخار کے مریض استعمال کریں۔بخار کم کرنے کیلئے تین گرام چھوٹی الائچی کا پاؤڈر’بارہ گرام برگ تلسی کے قہوے سے دینا بھی فوری اثر کرتا ہے۔ڈینگی فیور سے متاثرہ افراد وٹامن کے’وٹامن بی اور وٹامن سی پر مشتمل خوراک کا استعمال کریں۔چاول ‘مونگ کی دال ‘کھچڑی’شلجم ‘چقندر’گاجر بند گوبھی’انگور’انار’سنترہ’مسمی اورمیٹھااس مرض میں مفید غذا ہے۔احتیاط علاج سے بہتر ہے لہذا احتیاطی تدابیر کے طور پر سرکہ اور پیاز کا استعمال کر کے ڈینگی وائرس سے بچا جا سکتا ہے۔ کا فور گھر میں مختلف جگہوں پر رکھیں نیز کسی تیل یا کریم وغیرہ میں شامل کر کے جسم پر لگائیں مچھر قریب نہیں آئیں گے۔ اس کے علاوہ ڈینگی مچھروںسے بچاؤ کیلئے لیمن گراس کو گھروں میں رکھا جائے ۔یہ پودا سنگاپورسمیت دیگر ممالک میں ڈینگی وائرس سے بچاؤ کے طور پرموثر ثابت ہوچکا ہے۔#

 

http://hakimkhalid.b...010/10/17/p364/

 

٭…٭…٭

ڈینگی بخار خطرناک ہے ، احتیاط کریں اس سے پہلے کہ دیر ہو جاۓ

 

229126171174228452817017679265690231101196.jpg

 

ڈینگی بخار ایک وائرل بیماری ہے جو ایک مخصوص مادہ مچھر

 

( aedis aegypti )

 

کے کاٹنے کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ یہ مچھر گھریلو مچھر کہلاتا ہے اور ہمارے گھروں کے اندر اور آس پاس موجود صاف پانی میں پرورش پاتا ہے ۔ یہ مـچھر دن کے وقت کاٹتا ہے خصوصا سورج طلوع ہونے اور ڈوبنے کے وقت زیادہ کاٹتا ہے ۔ اس بیماری کا حملہ اچانک شروع ہوتا ہے اور کچھ دنوں کے لیۓ اس کے اثرات جسم کے اندر موجود رہتے ہیں ۔ ڈینگی بخار ان لوگوں میں زیادہ دیکھنے میں آیا ہے جن کی قوّت مدافعت کمزور ہوتی ہے ۔ یہ serotype کی چار قسموں میں سے ایک کی وجہ سے ہوتا ہے اس لیۓ اس بات کا بھی امکان ہوتا ہے کہ ایک ہی شخص چند بار اس بیماری کا شکار بنتا رہے ۔ البتہ جب کوئی شخص اس بیماری کا شکار ہوتا ہے تو اس کے جسم میں اس مخصوص serotype کے خلاف قوّت مدافعت پیدا ہو جاتی ہے ۔ اس بخار کے کچھ اور نام بھی مشہور ہیں مثلا ہڈی توڑ بخار ، ہڈی توڑ اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ اس بیماری میں جسم کے جوڑوں اور پٹھوں میں شدید درد ہوتا ہے ۔ ایک اور نام دینڈی بخار اس لیۓ ہے کیونکہ جب ویسٹ انڈیز میں غلاموں کو یہ بخار ہو جاتا تھا تو ان کی چال اور ظاہری ساخت کو دیکھ کر یہ نام دے دیا گیا ۔ یہ بیماری گرم صحرائی علاقوں میں زیادہ ہے اور چونکہ یہ مچھر کے کاٹنے سے ایک سے دوسرے فرد میں منتقل ہوتی ہے اس لیۓ مثاثرہ علاقوں سے کسی نۓ علاقے میں آنے والے سیاح اگر اپنے خون میں یہ وائرس لے آئیں تو مچھر کے ذریعے بیماری کے پھیلنے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔

 

تشخیص اور علاج

 

ڈینگی بخار سخت فلو کی طرح کی ایک بیماری ہے جس سے نوزاد، بچے اور جوان متاثر ہو سکتے ہیں اور اس بیماری سے بہت کم اموات واقع ہوتی ہیں ۔ بیماری کی علامتیں مریض کی عمر کے لحاظ سے مختلف ہو سکتی ہیں ۔ نوزاد اور بچوں میں بخار اور جسم پر سرخ دھبے پڑ جاتے ہیں جبکہ نوجوانوں اور بڑوں میں بخار کے ساتھ جسم میں شدید درد ، آنکھوں میں درد ، جوڑوں اور پٹھوں میں درد اور جسم پر سرخ دھبے وغیرہ جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں ۔

 

Dengue haemorrhage fever بخار کی ایک قسم ہے جو زیادہ پیچیدہ ہوتی ہے جس میں تیز بخار ، جگر کا بڑھ جانا اور بیماری کی شدت میں circulatory failure کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے ۔ اس طرح کا بخار اچانک شروع ہوتا ہے اور فلو جیسی علامتیں ظاہر کرتا ہے ۔ یہ بخار 2 سے 7 دن تک عموما رہتا ہے اور درجہ حرارت 41 سینٹی گریڈ تک چلا جاتا ہے ۔

 

٭ اس بیماری کا کوئی خاص علاج نہیں ہوتا ہے ۔ بیماری کی حالت میں مریض کو پانی کا استعمال زیادہ کروایا جاتا ہے ۔

 

٭ ڈینگی بخار ہو جاۓ تو مریض کو فوری طور پر کسی قریبی طبی مرکز پہنچائیں ۔

 

٭ اس بیماری کی تشخیص اور علاج کسی مستند ڈاکٹر سے ہی کرائیں ۔

 

٭ ڈینگی میں مبتلا مریض کو روز مرّہ غذا کے ساتھ ساتھ زیادہ مقدار میں جوس ، پانی ، سوپ اور دودھ پلائیں ۔

 

٭ مریض کا درجہ حرارت 102 ڈگری F سے کم رکھیں ۔

 

٭ بخار کی صورت میں صبح ، دوپہر اور شام پیراسٹامول کی ایک ایک گولی استعمال کریں ۔

 

٭ ڈینگی بخار کے مریض کو مرض کے دوران اسپرین اور بروفین کسی صورت استعمال نہ کرائیں ۔

 

ڈینگی بخار کی علامتیں :

 

٭ تیز بخار

 

٭ جسم پر سرخ دھبے

 

٭ سر اور آنکھوں میں درد

 

٭ جسم میں جوڑوں کا درد

 

٭ سخت بیماری کی صورت میں منہ سے خون آنا

 

221561492002101741601872824418019121021957252.jpg

 

 

مچھروں کی افزائش کی روک تھام

 

٭ اپنے گھر اور آس پاس موجود ڈینگی پھیلانے والے مچھروں کا خاتمہ کریں ۔ یہ مچھر عام طور پر پانی میں پرورش پاتے ہیں ۔

 

٭ اپنے گھر کے صحن میں موجود کوڑا کرکٹ اور غیر ضروری سامان جس میں بارش کا پانی جمع ہو سکتا ہو وہ ختم کردیں ۔

 

٭ استعمال شدہ بوتلیں ، پرانے برتن ، ٹین کے ڈبے اور پلاسٹک بیگ مناسب طریقے سے ٹھکانے لگا دیں تاکہ ان میں بارش کا پانی جمع نہ ہو سکے ۔ ایسے پانی میں مچھر پیدا ہوتے ہیں جو ڈینگی پھیلاتے ہیں ۔

 

٭ صاف پانی جمع کرنے والے برتن مثلا گھڑے ، ڈرم ، بالٹی ، ٹب وغیرہ ڈھانپ کر رکھیں ۔

 

٭ چھت پر پانی والی ٹینکی کو مکمل ڈھانپ کر رکھیں اور پانی کے داخل اور خارج ہونے والے مقام پر جالی کا استعمال کریں ۔

 

٭ گملوں اور پودوں کی کیاریوں میں پانی جمع نہ ہونے دیں ۔ گملوں کے نیچے برتنوں کو بھی خشک رکھیں ۔ کیونکہ مادہ مچھر وہاں بھی انڈے دے کر اپنی نسل بڑھا سکتی ہیں ۔

 

٭ گھر کے آس پاس پانی جس کی نکاسی ممکن نہ ہو اس میں مٹی کا تیل ڈالیں ۔

 

٭ پانی کے ٹوٹے ہوۓ پائپوں کی فورا مرمت کروا لیں تاکہ ان میں سے پانی کا ٹپکنا اور رسنا بند ہو جاۓ ۔

 

٭ روم ایئر کولر وغیرہ جو استعمال میں نہ ہوں سے پانی خارج کر دیں ۔

 

218661062232121261204173172132201110245219102.jpg

 

 

احتیاط

 

٭ سورج نکلنے اور غروب ہونے کے وقت لمبی آستین والی قمیض یا شرٹ کا استعمال کریں تاکہ مچھر سے محفوظ رہیں ۔

 

٭ جسم کے کھلے حصوں بازو اور منہ پر مچھر بھگاؤ کریم ( لوشن) لگائیں ۔

 

٭ گھروں اور دفتروں میں مچھر مار اسپرے اور کوائل میٹ استعمال کریں ۔

 

٭ دروازوں ، کھڑکیوں اور روشن دانوں میں جالی کا استعمال کریں ۔

 

٭ گھروں کے پردوں پر بھی مچھر مار ادویات اسپرے کریں ۔

 

٭ اپنے بچوں کو ڈینگی مچھر سے بچاؤ کے طریقوں سے آگاہ کریں ۔

 

چند حقائق :

 

 

 

٭ ڈینگی کی بیماری اس وقت 100 سے زائد گرم اور نیم گرم علاقوں میں پائی جاتی ہے ۔

 

٭ ڈینگی مچھروں کے ذریعے پھیلنے والی دنیا میں سب سے اہم وائرل بیماری ہے ۔

 

٭ ڈینگی وائرس ایک مخصوص مادہ مچھر کے کاٹنے سے متاثرہ شخص سے دوسروں میں منتقل ہوتا ہے ۔

 

٭ یہ مچھر گھروں کے اندر پرورش پاتا ہے ۔

 

٭ ڈینگی کا مچھر صبح 6 سے 9 اور شام 4 سے رات 10 بجے تک کاٹتا ہے ۔

 

٭ سالانہ 50 کروڑ افراد اس سے متاثر ہوتے ہیں جن میں 25 ہزار سے 30 ہزار افراد لقمہ اجل بن جاتے ہیں ۔ تاہم بروقت علاج سے اس سے مکمل نجات مل جاتی ہے ۔

 

٭ 99 ٪ افراد اس بیماری سے مکمل طور پر صحت یاب ہو جاتے ہیں اور انہیں صرف پیراسٹامول کی ضرورت پڑتی ہے ۔

 

٭ متاثرہ مریض کو مچھر دانی کے اندر آرام کرنا چاہیۓ ۔

 

٭ چونکہ ڈینگی چھوت کی بیماری نہیں ہے اس لیۓ مریض کو علیحدگی میں رکھنے کی ضروت نہیں ہوتی ہے ۔

 

٭ ڈینگی کی بیماری 1994 میں پہلی دفعہ کراچی میں ظاہر ہوئی ۔

 

٭ 1995 میں یہ بلوچستان ( حب ) میں ریکارڈ ہوئی ۔

 

٭ 2003 ء میں یہ بیماری ہری پور میں ریکارڈ ہوئی ۔

 

٭ 2005 اور 2006 میں اس بیماری میں مزید شدت آئی ۔

 

٭ اس عرصے میں تقریبا 5 ہزار کیس رپورٹ ہوۓ جن میں سے تقریبا 2 ہزار کی تصدیق ہوئی اور 56 افراد ہلاک ہوۓ ۔

 

تحریر : سید اسداللہ ارسلان

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...