Engr. MA Saeedi Posted October 25, 2011 Report Share Posted October 25, 2011 (edited) استنِ حنانہ کا نالہءِغم - عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ایمان افروز واقعہ اسلام کے ابتدائی دور میں آقا دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجدِ نبوی میں کھجور کے ایک خشک تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر وعظ فرمایا کرتے تھے اور اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کافی دیر کھڑے رہنا پڑتا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ مشقت شاق گزری۔ ایک صحابی جس کا بیٹا بڑھئی تھا، نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے منبر بنانے کی درخواست کی تاکہ اُس پر بیٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ دیا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس درخواست کو پذیرائی بخشی، چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور کے تنے کو چھوڑ کر اس منبر پر خطبہ دینا شروع کیا۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گذری تھی کہ اس تنے سے شدید گریہ و زاری کی آوازیں آنے لگیں۔ اُس مجلسِ وعظ میں موجود تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے اُس کے رونے کی آواز سنی۔ آقا ئے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب یہ کیفیت دیکھی تو منبر سے اُتر کر اس ستون کے پاس تشریف لے گئے اور اُسے اپنے دستِ شفقت سے تھپکی دی تو وہ بچوں کی طرح سسکیاں بھرتا ہوا چپ ہو گیا۔ ابن ماجہ، 1 : 2455 دارمی، السنن، 1 : 29، رقم : 332 طبرانی، المعجم الاوسط، 2 : 367، رقم : 2250 :اُس ستون کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کی روایت اس طرح ہے کان النبی صلی الله عليه وآله وسلم يخطب إلی جذع، فلما اتخذ المنبر تحوّل إليه فحن الجذع، فأتاه فمسح يده عليه. بخاری، الصحيح، 3 : 1314، کتاب المناقب، رقم : 23390 ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 594، ابواب المناقب، رقم : 33627 ابن حبان، الصحيح، 14 : 435، رقم : 46506 بيهقي، السنن الکبري، 3 : 195، رقم : 5489 ’’رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک کھجور کے تنے کے ساتھ خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔ جب منبر تیار ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُسے چھوڑ کر منبر پر جلوہ افروز ہوئے۔ اُس تنے نے رونا شروع کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کے پاس تشریف لے گئے اور اُس پر دستِ شفقت رکھا۔‘‘ :حضرت جابر بن عبداللہ رضی اﷲ عنہما تنے کی کیفیت بیان کرتے ہیں .فصاحت النخله صياح الصبي، ثم نزل النبي صلي الله عليه وآله وسلم فضمها إليه، تئن أنين الصبي الذي يسکن بخاري، الصحيح، 3 : 1314، رقم : 23391 بيهقي، السنن الکبري، 3 : 195، رقم : 5489 ’’کھجور کے تنے نے بچوں کی طرح گریہ و زاری شروع کر دی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبرسے اُتر کر اُس کے قریب کھڑے ہو گئے اور اُسے اپنی آغوش میں لے لیا، اس پر وہ تنا بچوں کی طرح سسکیاں لیتا خاموش ہو گیا۔‘‘ :حضرت انس بن مالک اور حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اللہ عنھم اُس تنے کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں .فسمعنا لذالک الجذع صوتا کصوتِ العشار، حتی جاء النبی صلی الله عليه وآله وسلم فوضع يده عليها فسکنت بخاري، الصحيح، 3 : 1314، کتاب المناقب، رقم : 23392 دارمي، السنن، 1 : 30، رقم : 334 بيهقي، السنن الکبري، 3 : 195، رقم : 45487 ابن سعد، طبقات الکبري، 1 : 5253 ابن جوزي، صفوۃ الصفوه، 1 : 98 ’’ہم نے اُس تنے کے رونے کی آواز سنی، وہ اُس طرح رویا جس طرح کوئی اُونٹنی اپنے بچے کے فراق میں روتی ہے حتٰی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تشریف لا کر اُس پر اپنا دستِ شفقت رکھا اور وہ خاموش ہو گیا۔‘‘ :صحابہ کرام رضی اللہ عنھم فرماتے ہیں .لولم أحتضنه لحن إلی يوم القيامة ابن ماجه، السنن، 1 : 454، کتاب اقامة الصلوٰة والسنة فيها، رقم : 21415 احمد بن حنبل، المسند، 1 : 3363 ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 319، رقم : 431746 ابويعلي، المسند، 6 : 114، رقم : 53384 عبد بن حميد، المسند، 1 : 396، رقم : 1336 ’’اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس ستون کو بانہوں میں لے کر چپ نہ کراتے تو قیامت تک روتا رہتا۔‘‘ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشتِ اقدس کے لمس کا اثر تھا کہ ایک بے جان اور بے زبان لکڑی میں آثارِ حیات نمودار ہوئے جس کا حاضرینِ مجلس نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ :حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی حدیثِ مبارکہ میں اس طرح ہیں کان جذع نخلة فی المسجد يسند رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ظهره إليه إذا کان يوم الجمعة أوحدث أمر يريد أن يکلم الناس، فقالوا : ألانجعل لک يارسول اﷲ شيئاً کقدر قيامک، قال : لا، عليکم أن تفعلوا. فصنعوا له منبراً ثلاث مراق. قال : فجلس عليه، قال : فخار الجذع کما تخور البقرة جزعا علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فالتزمه و مسحه حتي سکن. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 109 ’’مسجد نبوی میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ پڑھنے کے لئے جمعہ کے دن یا کسی ایسے وقت میں جب لوگوں کو کوئی حکمِ الٰہی پہنچانا ہوتا، کھجور کے ایک ستون سے پشت مبارک لگا کر کھڑے ہوا کرتے تھے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا کہ اگر آپ حکم فرمائیں تو آپ کے لئے کوئی ایسی شے تیار کی جائے جس پر آپ کھڑے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر ایسا کر سکتے ہو تو اجازت ہے۔ چنانچہ تین درجوں والا ایک منبر تیار کرایا گیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کہتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس پر کھڑے ہو کر خطبہ پڑھنے لگے تو ستون سے رونے کی آواز سنی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوراً منبر سے اُترے، اُسے سینہ سے لگایا اور (جیسا کہ بچوں کے چپ کرانے کے لئے کیا جاتا ہے) اُس پر محبت اور شفقت سے ہاتھ پھیرتے رہے، یہاں تک کہ وہ پرسکون ہو گیا۔‘‘ مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے اِسی ایمان افروز واقعہ کو اپنے پیار بھرے اشعار میں بیان کیا ہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے مع ترجمہ حاضر ہیں استنِ حنانہ در ہجرِ رسول نالہ میزد ہمچو اربابِ عقول (رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فراق میں کھجور کا ستون انسانوں کی طرح رو دیا۔) درمیانِ مجلسِ وعظ آنچناں کزوے آگاہ گشت ہم پیر و جواں (وہ اس مجلسِ وعظ میں اس طرح رویا کہ تمام اہلِ مجلس اس پر مطلع ہوگئے۔) در تحیر ماند اصحابِ رسول کز چہ مے نالد ستوں با عرض و طول (تمام صحابہ حیران ہوئے کہ یہ ستون کس سبب سے سرتاپا محوِ گریہ ہے۔) گفت پیغمبر چہ خواہی اے ستوں گفت جانم از فراقت گشت خوں (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ستون تو کیا چاہتا ہے؟ اس نے عرض کیا : میری جان آپ کے فراق میں خون ہوگئی ہے۔) مسندت من بودم از من تاختی بر سرِ منبر تو مسند ساختی (پہلے تو میں آپ کی مسند تھا، آپ نے مجھ سے کنارہ کش ہوکر منبر کو مسند بنالیا۔) پس رسولش گفت کای نیکو درخت اے شدہ باسر تو ہمراز بخت گرہمے خواہی ترا نخلے کنند شرقی و غربی ز تو میوہ چنند (آپ نے فرمایا : اے وہ درخت جس کے باطن میں خوش بختی ہے، اگر تو چاہے تو تجھ کو پھر ہری بھری کھجور بنا دیں حتی کہ مشرق و مغرب کے لوگ تیرا پھل کھائیں۔) یا دراں عالم حقت سروے کند تا ترو تازہ بمانی تا ابد (یا اللہ تعالیٰ تجھے اگلے جہاں بہشت کا سرو بنا دے تاکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تروتازہ رہے۔) گفت آن خواہم کہ دائم شد بقاش بشنو اے غافل کم از چوبے مباش (اس نے عرض کیا : میں وہ بننا چاہتا ہوں جو ہمیشہ رہے۔ اے غافل! تو بھی بیدار ہو اور ایک خشک لکڑی سے پیچھے نہ رہ جا (یعنی جب ایک لکڑی دار البقاء کی طلب گار ہے تو انسان کو تو بطریقِ اولیٰ اس کی خواہش اور آرزو کرنی چاہئیے۔) آں ستون را دفن کرد اندر زمین تاچو مردم حشر گردد یومِ دیں (اس ستون کو زمین میں دفن کردیا گیا، تاکہ قیامت کے دن اسے انسانوں کی طرح اٹھایا جائے۔) ساتھیو! جس جگہ پر کھجور کا یہ خشک تنا دفن کیا گیا تھا ، بعد میں اس جگہ پر ایک ستون بنا دیا گیا۔ یہ ستون ریاض الجنۃ میں محراب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بالکل متصل آج بھی موجود ہے اور دنیا بھر سے آنے والے عشاقانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو زبانِ حال سے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا درس دیتا محسوس ہوتا ہے۔ حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ جب وہ کھجور کے تنے کے گریہ والی حدیث کو بیان کرتے تو خود بھی بے اختیار رونے لگتے اور فرماتے : لوگو ! کجھور کی ایک خشک لکڑی آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے شوق ومحبت میں روتی تھی ، تمہیں تو اس سے بھی زیادہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور شوقِ ملاقات میں بے قرار ہونا چاہئے ۔ جن دوستوں نے مسجد نبوی شریف کی زیارت کا شرف حاصل کیا ہے ، انہوں نے تو اس مبارک ستون کی زیارت کی ہی ہوگی مگر جو احباب ابھی تک شوقِ زیارت میں تڑپتے ہیں ، ان کےلئے اس مبارک ستون کی تصویر اور محل وقوع کا نقشہ یہاں شیئر کرتا ہوں، اس دعا کے ساتھ کہ اللہ کریم جلد از جلد انہیں بھی یہ سعادت عطا فرمائے تصویر میں محراب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے تکون شکل والے حصے کے ساتھ ہی جس ستون پر گول دائرے میں "ھذہ اسطوانۃ الحنانہ" لکھا ہوا ہے، عین اسی ستون کے نیچے کجھور کا وہ مبارک تنا دفن ہے ہے جو ہجرِرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں رویا اور حیات ابدی پاگیا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں فنا کردے اور درِحبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی بار بار حاضری عطا فرمائے۔ آمین !اللہ حافظ ! والسلامُ علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ Edited October 25, 2011 by Engr. MA Saeedi Quote Link to comment Share on other sites More sharing options...
Recommended Posts
Join the conversation
You can post now and register later. If you have an account, sign in now to post with your account.
Note: Your post will require moderator approval before it will be visible.