Jump to content

ماثر الكرام تاريخ بلگرام


Abu.Huzaifa

تجویز کردہ جواب

طبقات نگاري اور سيرت نگاري كي بنياد عهد تابعين هي سے پڑ چكي تھي ، ليكن پانچويں صدي هجري ميں يه مستقل فن كي حيثيت اختيار كر گئي ۔ اسلاف كے كارناموں كو تاريخ كے صفحات ميں قيد كر ليا گيا ، تاكه آفاقي شخصيتوں كے حامل افراد كے روشن كارناموں سے آئنده نسلوں كو روشناس كرايا جا سكے۔ هندستان ميں صوفيه و مشائخ كے سوانحي خاكے تو ملتے تھے ليكن بارهويں صدي هجري تك علماے كرام اور شعراے عظام كي سوانح حيات مرتب نهيں كي گئي تھيں۔ سوانح نگاري كي اهميت كے پيشِ نظر بارهويں صدي هجري ميں بلگرام كي مردم خيز زمين كي ايك عظيم شخصيت حضرت علامه مير سيد غلام علي آزاد بلگرامي نے اس عظيم كام كي طرف توجه كي اور تاريخ و سوانح پر مشتمل كئي كتابيں تصنيف فرمائيں، جيسے ٫٫سبحۃ المرجان في آثار هندوستان، روضۃ الاوليا، خزانه عامره، سرو آزاد، مآثر الكرام تاريخ بلگرام وغيره ۔ علامه موصوف نے عربي و فارسي شاعري اور ديگر فنون ميں تيس سے زائد كتابيں تصنيف فرما كر عظيم كارنامه انجام ديا ۔ ليكن وقت كي ستم ظريفي كهيے كه ان كے روشن كارنامے گم نامي كے پردوں ميں چھپے رهے ۔ بهت سے لوگ ابھي بھي ان كي همه جهت شخصيت سے واقف نهيں هيں۔ آخر الذكر كتاب مآثر الكرام آپ نے به زبان فارسي تحرير فرمائي جو علما و مشائخ كي سوانح پر سند كي حيثيت ركھتي هے ۔ اس وقت چوں كه فارسي كا چلن ختم هو رها هے اس ليے عام لوگوں كا اس كتاب سے استفاده كرنا مشكل تھا۔

 


مفتي محمد يونس رضا مونس اويسي نے اس ضرورت كو محسوس كيا اور اس كتاب كو اردو كے قالب ميں ڈھالنے كي ٹھاني ۔ موصوف جيسے باذوق صاحبِ قلم اور جواں فكر عالم دين سے يه كوئي بعيد نهيں تھا۔ آپ في الحال مركز الدراسات الاسلاميه جامعۃ الرضا بريلي شريف كے نائب صدر المدرسين اور شهرت يافته مجله ماه نامه سني دنيا كے مدير بھي هيں ۔ اس كتاب كا ترجمه اگرچه 1983ئ ميں مولانا خالد مياں قادري كي كاوشوں سے دائرۃ المصنفين كراچي پاكستان سے شائع هو چكا تھا ، جس پر حضرت شمس بريلوي كي وقيع تقديم اور پروفيسر ايوب قادري كا زور دار تعارف بھي هے ،مگر وه نسخه ناياب نهيں تو كم ياب ضرور هے۔

 


ترجمه نگاري بهت مشكل كام هے كيوں كه ترجمه صرف ايك زبان سے دوسري زبان ميں نقل كرنے كا نام نهيں بلكه ايك زبان كے محاورات ، تشبيهات، ضرب الامثال اور ان كے صحيح مواقع استعمال متعين كرنا اورمتكلم كي مراد پر پوري واقفيت ضروري هے۔ اس كے ليے متكلم كے لهجه اور اسلوب پر بھي گهري نظر هوني چاهيے ، تاكه ايك زبان كے مطالب و مفاهيم كي روح دوسري زبان ميں اتر جائے۔ يهي وجه هے كه كما حقه ترجمه كا كام وهي انجام دے سكتا هے جو دونوں زبانوں پر يكساں مهارت ركھتا هو، جس نے اس دشت خاردار كي جاده پيمائي كي هے وهي اس كي صعوبتوں سے واقف هوگا۔

 


مترجم نے نهايت شيريں اور شگفته زبان ميں اس كا ترجمه فرمايا۔ بقول مترجم اس ترجمه كا آغاز رئيس الاتقيا سيد اويس مصطفي صاحب قبله كے هاتھوں هوا۔ بعده مولانا شاهد نظامي صاحب نے كچھ كام كيا ، پھر مكمل ترجمه كرنے كا شرف موصوف كو حاصل هوا، جسے مترجم نے خو دبيان كيا هے ۔

 


٫٫اس بے بضاعت سے حضرت پير و مرشد نے مآثر الكرام كي بابت تذكره فرمايا ، جس سے معلوم هوا كه حضور به ذات خود اس كا ترجمه املا كروا رهے هيں۔ چند ماه بعد جب دوسري مرتبه حاضري كا شرف حاصل كيا اور استفسار كيا تو حضور نے ارشاد فرمايا كه تبليغي دورے ، مهمانوں كي آمد اور ديگر امور خانقاهي سے اوقات ميسر نهيں آتے ، اس ليے يه كام مولانا شاهد نظامي كے سپرد كر ديا هے ۔ انھوں نے كام شروع كيا مگر ان كي طبيعت خراب هو گئي ، پھر مجھ ناچيز كو اس ترجمے كي تكميل كي اهم ذمه داري سونپي۔٬٬﴿ ص:36﴾

 


اس ميں تاج الشريعه مفتي علامه اختر رضا ازهري صاحب ، رئيس الاتقيا حضرت علامه سيد اويس مصطفي واسطي قادري ، خواجه علم و فن خواجه مظفر حسين رضوي ، قاضي عبد الرحيم بستوي، جيسي اهم شخصيات كي تقاريظ اور حضرت مولانا مفتي ناظم علي رضوي استاذ جامعه اشرفيه كي زور دار تقديم بھي شامل هے۔

 


مولانا آزاد بلگرامي نے مختلف علما و مشائخ كے حالات مرتب كرنے ميں جو انتھك كوششيں كي هيں ، اربابِ علم و فضل پر مخفي نهيں۔ اس كتاب كي ترتيب سے پهلے صمصام الدوله شاه نواز خاں نے امراے شاهي كے حالات و كردار پر مشتمل مواد جمع كيا تھا ، جو بعد ميں علامه موصوف كي كاوش سے مآثر الكرام كے نام سے وجود ميں آيا۔ اس ميں صرف امراے شاهي كے حالات تھے ، مشائخ و علما كے حالات نهيں تھے ۔ يه بهت بڑا خلا تھا جس كو علامه نے محسوس كيا اور بر صغير كے نام ور علما كے سوانح پر بڑي كد و كاوش سے مواد جمع كيا ۔ مصنف نے اس سلسلے ميں مختلف مقامات كي خاك چھاني اور بڑي صعوبتوں كا سامنا كيا ۔ خود آپ بيان كرتے هيں:

 


٫٫زمانه اسلاف تلاش كرنے كي عجيب تدبير دل ميں آئي اور اے صائب كي ره نمائي ميں جاده مستقيم طے هو گيا ۔ پس اس سلسلے ميں ساكنين شهر سے ملاقاتيں كيں ، اسلاف كي باقي مانده تحريري دستاويزات حاصل كيں اور پھر ان حالات كي هم عصر علما اور مشائخ سے تائيديں ليں اور يوں اس مقدس گروه كے عهد كي تاريخ كے پردے سے نقاب كشائي عمل ميں آئي۔ چناں چه كتاب كي تدوين ميں جا به جا ان مشائخ كے اشعار قلم بند كيے هيں اور هر ايك كے عهد نامه پر اذعان كي مهر لگائي هے ۔ مجھ سے پهلے كسي نے بھي اپني كوشش اس درجه صرف نهيں كي ، نه هي بزرگان سلف و خلف كي خدمت ميں كسي نے اتني مضبوط كمر باندھي۔٬٬﴿ ص:65﴾

 


كتاب دو حصوں پر مشتمل هے جسے علامه نے فصل كا نام ديا هے ۔ فصل اول 80 مشائخ عظام كے حالات و كردار پر مشتمل هے ، جن ميں ايك خاتون بي بي خورد قدس سرها بھي هيں ۔ ديباچه كتاب ميں هندستان ميں اسلامي فتح كي مختصر تاريخ اسلامي كي تصنيف كے آغاز كا بيان هے۔ محمد بن قاسم، محمود غزنوي، محمد غوري، خواجه معين الدين چشتي اجميري عليهم الرحمه كي مجاهدانه كوششوں كا بھي ذكر هے۔ كتاب كي دوسري فصل كو علما و فضلا كے ليے مختص كيا هے ، جن ميں به شمول مصنف73علماے كرام كا ذكر هے ۔ اگرچه كتاب كے نام سے ظاهر هوتا هے كه يه صرف بلگرامي علما و مشائخ كے ليے خاص هے مگر ايسا كچھ نهيں بلكه اس ميں هند و پاك كي اهم شخصيات شامل هيں ۔ مشائخ كرام ميں سيد شاه بركت الله مارهروي، علماے كرام ميں مير سيد عبد الواحد بلگرامي، حافظ امان الله بنارسي، ملا محب الله بهاري، شيخ احمد ملا جيون رضي الله عنهم كے اسما قابلِ ذكر هيں ۔ ليكن شيخ احمد سرهندي ، شاه ولي الله محدث دهلوي جيسي اهم هستيوں كو معلوم نهيں كيوں نظر انداز كر ديا گيا۔ كتاب كے اختتاميه ميں مترجم نے حضرت علامه مير مرتضي زبيدي بلگرامي كے حالات كو بھي قلم بند كيا هے اور بلگرام كے آثار و تبركات كابھي ذكر كيا هے ۔ كتاب جامع مانع حالات پر مشتمل هے اور سند كي حيثيت ركھتي هے ۔، اردو ترجمه هونے كي وجه سے استفاده بھي آسان هو گيا هے ۔ ترجمه كي زبان سليس اور دل چسپ هے ۔ كهيں كهيں مترجم نے حاشيه آرائي بھي كي هے ۔ ٹائٹل خوش رنگ اور ديده زيب هے اور كاغذ نهايت عمده ۔ مترجم نے نهايت اهم كارنامه انجام ديا هے اس پر وه قابلِ مبارك باد هيں۔

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...