Jump to content

عید میلاد النبی پر اعتراضات


Khak e Paa e Saif

تجویز کردہ جواب

اسلام علیکم

 

میں نے ایک جگہ پر عید میلاد نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر اعتراضآ مندرجہ ذیل باتیں پڑھیں، براہ مہربانی مجھے یہ بتا دیں کہ کیا یہ اعتراضات درست ہیں؟ نہیں تو کیوں نہیں؟

 

جذاک اللہ۔

 

اس مہینے میں اللہ کے پاک پیغمبر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اس جہاں میں رحمۃ للعالمین بن کر تشریف لائے۔ اور دنیا کو توحید کے نور سے پر کردیا ۔ شرک کے اندھیروں کو دور کیا اور انسانوں کو جہنم سے بچنے اور جنت کی جانب سفر کرنے کی راہ دکھلائی۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ذکر کرنا ایک ایمان افروز عمل ہے اور اس سے یقینا مسلمان کا ایمان تازہ ہوجاتا ہے خصوصا آج کے ایسے دور میں جب کہ ہم اپنے پاک پیغمبر کی سیرت کو فراموش کرچکے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہمارے درمیان کچھ ایسے لوگ پیدا ہوگئے ہیں کہ جنہوں نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر تقاریر کو محض اسی مہینے کے لئے خاص کررکھا ہے حالانکہ مسلمان کی زندگی میں ہر وقت، ہر لمحہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم جھلکنی چاہیئے۔

چونکہ آج کل ہم میں یہ چیز رائج ہے کہ ہم نے ہر عبادت کو اپنی طرف سے مخصوص کررکھا ہے حالانکہ شریعت میں ا سکی کوئی تخصیص نہیں پھر محض تخصیص پر ہی سپر نہیں جو اس تخصیص کرنے کا قائل نہیں اس پر وھابی اور گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کا فتوی لگایا جاتا ہے۔ حالانکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی عبادت کے لئے اپنی طرف سے وقت مخصوص کرنے کو منع فرمایا گیا ہے لیکن حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے والے کو تو گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کہا جایے لیکن جو اس فرمان کی مخالفت پر سپر ہو تو اسے سب سے بڑا عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سمجھا جاتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا

’’ جمعے کی رات کو دوسری راتوں کے مقابلے میں نماز کے لئے مخصوص مت کرو نہ ہی جمعے کے دن کو عام دن کے مقابلے میں روزے رکھنے کے لئے خاص کرو۔ مگر ہاں جو کوئی روزے رکھتا ہے اور اس میں جمعہ آجائے تو الگ بات ہے‘‘

[مسلم جلد 1 صفحہ 361]

اب اس حدیث سے قاعدہ معلوم ہوا کہ کسی عبادت کے لئے خود اپنی طرف سے دن خاص کرنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی ہے۔

دن خاص اور عبادت کی ہیئت خاص کرنے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے فیصلے

 

(۱) مسند دارمی میں بسند صحیح روایت ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود کا گذر اللہ کا ذکر کرنے والی ایک جماعت سے ہوا جس میں ایک شخص کہتا تھا سو مرتبہ {اﷲ اکبر}پڑھو تو حلقہ کے لوگ اس کی بات پر عمل کرتے ہوئے کنکریوں پر سو مرتبہ وہ پڑھتے پھر وہ منادی دیتا کہ سو مرتبہ{ لا الہ الا اﷲ} پڑھو لوگ اس کے کہنے پر عمل کرتے پھر وہ منادی دیتا کہ سو مرتبہ{ سبحان اﷲ} پڑھو لوگ سو مرتبہ یہ تسبیح کنکریوں پر پڑھتے ۔ حضرت عبداللہ صنے دریافت کیا تم اس پر کیا پڑھتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا ہم تکبیر، تہلیل اور تسبیح پڑھتے ہیں۔اس ہر حضرت عبداللہ نے ان کو فرمایا

’’ تم ان کنکریوں پر اپنے گناہ شمار کیا کرو (اگر تم ایسا کرو ) تو میں ضامن ہو کہ تمہارے نامہ اعمال میں نیکیوں سے کچھ ضائع نہ جائے گا۔ تعجب ہے اے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم تم بہت جلد ہلاکت میں پڑھ گئے حالانکہ تم میں صحابہ بکثرت موجود ہیں ابھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے بھی پرانے نہیں ہوئے نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے استعمال میں رہنے والے برتن ٹوٹے ہیں۔ (آخر میں فرمایا) تم ابھی سے بدعت اور گمراہی کا دروازہ کھول رہے ہو۔‘‘

[مسند دارمی صفحہ 38]

اب وہ لوگ جو ہم کو کہتے ہیں کہ میلاد میں اللہ کے نبی کا ذکر ہی تو ہوتا ہے اور اس میں کیا برائی ہے؟ تو وہ حضرت عبداللہ بن مسعود کی روح سے دریافت کریں کہ جو آدمی منادی دے دے کر تکبیر، تہلیل اور رتسبیح کروارہا تھا اس میں کیا برائی تھی، لیکن چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اس طرح منادی دے کر یا دلوا کر اس طرح ذکر نہیں کروایا اس لیے حضرت عبداللبن مسعود اس قدر غصے ہوئے کہ ان کو کہا ’’ تم پر تعجب ہے‘‘ اور فرمایا ’’او مفتتحو باب ضلالۃ‘‘

ّ(۲) حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ ایک دن میں اور عروہ بن زبیر رحہم اللہ علہیم مسجد نبوی میں گئے تو حضرت عبداللہ بن عمرص حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کے پاس بیٹھے تھے کچھ لوگ مسجد میں چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے ہم نے ان سے لوگوں کی (اس مسجد میں اس طرح اجتماعی ہیئت سے )نماز( پڑھنے کے متعلق) دریافت کیا تو حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا {بدعۃ} یعنی کہ یہ بدعت ہے۔

[بخاری جلد1 صفحہ 238مسلم جلد 1صفحہ 409]

ّ(۳) حضرت مجاہدـؒ اور حضر ت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما ایک مرتبہ ایک مسجد میں نماز کے لئے داخل ہوئے اذا ن ہوچکی تھی ، اس کے بعد ایک شخص نے تثویب (یعنی نماز کے لئے آواز دینا) شروع کردی اس پر حضرت عبداللہ بن عمر نے مجاہد ؒ سے فرمایا {اخرج بنا من عند ھذا المبتدع ولم یصل فیہ } یعنی { مجھے اس بدعتی کے پاس سے لے چل اور وہاں نماز نہیں پڑھی}

[ترمذی جلد1 صفحہ 28، اسی روایت کو ابوداؤد نے اختلاف لفظی کے ساتھ جلد1 صفحہ 79پر نقل کیا]

اب اہل بدعت یہ بتلایے کہ نماز کے لیے تثویب بظاہر اچھا کام ہے یا برا؟ دیکھنے میں یہ کام بڑا اچھا لگتا ہے لیکن حضرت عبداللہ بن عمرث نے جب یہ دیکھا کہ اس مسجد میں کوئی آدمی بدعت کررہا ہے تو اس مسجد میں نماز پڑھنا بھی گوارا نہ کیا۔ پس معلوم ہوا کہ کوئی ایسا کام کرنا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نہ تھا بدعت ہے اور صحابہؓ نے بھی اس بدعت کو کبھی برداشت نہ کیا لہذا صحابہؓ کی زندگی بھی سنت اور بدعت کا معیار ہے۔

(۴) چونکہ مضمون طویل ہوتاجارہا ہے اس لئے میں حضرت عبداللہ بن عباس ثسے آخری اثر نقل کرکے مضمون کو آگے بڑھاتا ہوں کہ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس ؓ نے طاؤسؒ تابعی کو عصر کے بعد نماز پڑھتے دیکھا اس پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے انکو منع فرمایا اس پر حضرت طاؤسؒ نے عصر کے بعد نوافل کی نہی والی روایت میں تاویل پیش کی تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سخت لہجے میں ان سے فرمایا ’’میں نہیں جانتا کہ اس نماز پر تجھے سزا ملی گی یا اجر۔ کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ {وماکان لمؤمن ولا مومنۃ اذا قضی اللہ ورسولہ امرا ان یکون لھم الخیرۃ} یعنی {مومن اور مومنہ کو یہ حق حاصل نہیںکہ جب اللہ اور اس کا رسول کوئی فیصلہ کرے تو اپنے خیال کو اس میں جگہ دیں }

[مستدرک حاکم جلد1 صفحہ110 ]

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...