Jump to content

نعت خوانی کی مجالس اور رسول سے محبت کا معیار ؟


HozaifaMalik

تجویز کردہ جواب

نعت خوانی کی مجالس اور رسول سے محبت کا معیار ؟

 

السلام علیکم۔

 

صحیح بخاری کی مشہور روایت ہے کہ ایک لڑکی نے کہا کہ ہم میں ایک ایسا نبی موجود ہے جو کل کی بات جانتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ایسا کہنے سے روک دیا۔ اس سے معلوم ہوا مبالغہ آمیز نعتوں سے روکنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔

 

صحیح بخاری ہی کی دوسری حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک یوں ہے ‫:

مجھے حد سے مت بڑھانا جیسے عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو حد سے بڑھا دیا ۔ میں تو محض اس کا بندہ ہی ہوں ، تم مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو ۔

 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام و درود اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحسین و توصیف عین مطلوب ہے لیکن غلو آمیز تعریف سے بچنا بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہے اور اس قسم کی غلو آمیز نعتوں کو بڑھاوا دینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے انکار ہے۔

 

سلف صالحیں نے غلو پر مبنی ایسے ہی ترانوں اور نظموں سے بچنے کی تلقین کی ہے۔

 

امام احمد سے سوال ہوا کہ : ان قصائد اور نعتوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

آپ نے فرمایا یہ ایک بدعت ہے ، ان قصیدے پڑھنے والوں کے ساتھ نہیں بیٹھنا چاہیے ۔

 

امام شافعی فرماتے ہیں : میں نے اپنے پیچھے بغداد میں ایک ایسی چیز چھوڑی جسے لوگ تغبیر کا نام دیتے ہیں اور اس کے ذریعے لوگوں کو قرآن سے روکتے ہیں۔

 

امام احمد کے قول پر امام ابن تیمیہ تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ‫:

یہ قول امام احمد کی کمال معرفت اور دین کے علم میں ان کے عمق کی دلیل ہے ، کیونکہ دل جب قصیدے اور مزیدار شعر سننے کا عادی ہو جاتا ہے تو اس کا دل قرآن سے اچاٹ ہونے لگتا ہے اور وہ سماع رحمانی (یعنی: تلاوت اور سماعِ قرآن) کے بدلے شیطانی قصیدوں اور ترانوں سے اپنا دل بہلاتا ہے۔

 

بےشک !

نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تحسین و توصیف ، چاہے نظم میں ہو یا نثر میں ۔۔۔۔ یہ ہر مسلمان کو مطلوب و مقصود ہے۔ شریعت کی قائم کردہ حدود میں رہتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی جتنی بھی تعریف و تحسین (نظم و نثر میں) کی جائے وہ کم ہے۔

ساری بحث صرف "غلو آمیز تعریف" سے بچنے پر کی جاتی ہے اور کی جاتی رہے گی۔

 

امام احمد رحمہ اللہ نے اپنے قول میں بالکل برحق اشارہ فرمایا ہے۔

امام صاحب کا اشارہ دراصل ان مجالس کی جانب ہے جو غلو آمیز نعتوں اور قصیدوں کے لئے خاص طور پر قائم کی جاتی تھیں (اور آج بھی قائم کی جاتی ہیں)۔

مجھے یقین ہے کہ ہم ساری تاریخ اسلام چھان جائیں تو بھی ایک ایسی صحیح روایت نہیں ملے گی جس میں کوئی "خاص مجلس یا شاعرانہ نشست" صحابہ یا تابعین نے برپا کی ہو اور جس شعری بیٹھک کی تائید و توصیف رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کبھی کی ہو۔

 

کبھی کبھار شعر یا اشعار سنا دینا یا حالت جنگ میں جوش و جذبہ دلانے کے لئے حضرت حسان بن ثابت (رضی اللہ عنہ) کا اشعار پڑھنا ۔۔۔۔ یہ الگ چیز ہے

اور

خصوصی نعتیہ اور قصیدوں پر مبنی ، دن اور وقت مقرر کر کے مجلس یا مجلسیں جمانا یہ ایک دوسری چیز ہے۔

اور اسی دوسری چیز کو امام احمد نے "بدعت" سے تعبیر کیا ہے۔

 

نعت خوانی کی مجلسوں کے قیام کو یا ان میں شرکت کو "شرعی عبادت" سمجھنے پر جب اعتراض کیا جاتا ہے تو عموماً یہ پوچھا جاتا ہے کہ :

پھر رسول (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) سے کس طرح محبت کی جائے؟

 

مجھے اس بات پر وہ واقعہ یاد آ رہا ہے کہ ایک صحابی ، رسول اللہ کی محبت میں اس قدر بیقرار رہتے تھے کہ روز آپ کا دیدار کر کے سکون حاصل کیا کرتے تھے لیکن پھر جب انہیں موت کی یاد آئی تو انہوں نے آزردہ ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے کہا کہ میں جنت میں گیا بھی تو آپ تک نہیں پہنچ سکوں گا کیونکہ جنت میں آپ انبیاء کے ساتھ اعلیٰ درجات میں ہوں گے ۔۔۔۔ اور جب آپ کے دیدار سے محروم رہوں گا تو یہ سوچ کر بےچین ہو ہو جاتا ہوں۔

اس پر اللہ تعالیٰ نے سورۃ النساء کی یہ آیت نازل فرمائی

 

وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَـئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاء وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًا

جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کریں گے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیاء ، صدیقین ، شہداء اور صالحین ، کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں۔

سورہ النساء ، آیت:69

 

لہذا آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ زندگی کے تمام معاملات میں قدم قدم پر آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اتباع اور اطاعت کی جائے۔

 

جو محبت ، سنتِ رسول پر عمل کرنا نہ سکھائے ، وہ محض دھوکہ اور فریب ہے

جو محبت ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت اور پیروی نہ سکھائے ، وہ محض جھوٹ اور نفاق ہے

جو محبت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی غلامی کے آداب نہ سکھائے ، محض ریا اور دکھاوا ہے

جو محبت ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سنت کے قریب تر نہ لے جائے ، محض جھوٹا شور و نعرہ اور فالتو پروپگنڈہ ہے۔

 

واللہ اعلم۔

Edited by hozaifamalik
Link to comment
Share on other sites


وَرَفَعناَ لَکَ ذِکرِک میں اللہ عزّوجل نے کونسی حد لگائی ہے کہ کتنا بُلند، علماء فرماتے ہیں کہ زمین و آسمان میں کوئی بلندی اس قابل ہی نہیں کہ جس سے تشبیہ دی جاتی، لہٰزا ذکرِ مبارک آقا صلّی اللہ علیہ وسلّم کی بلندی کی کوئی حد نہیں رکھی گئی۔ جتنا چاہیں کریں، ہاں صرف شرک نہ کریں، جب کہہ دیا گیا بعد از خُدا بزرگ تُوئی قصّہ مختصر تو پھر جھگڑا کس بات کا؟
جزاک اللہ
Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...