Jump to content

اولیاءاللہ کی کرامات ان کی زندگی میں - ثبوت - دلائل


خاکسار

تجویز کردہ جواب

  • 5 months later...


    جو عجیب وغریب حیرت انگیز کام نبی(علیہ السلام) سے صادر ہو تو اگر نبوت کے ظہور سے پہلے صادر ہوا وہ ارہا ص ہے۔ جیسے عیسیٰ علیہ السلام کابچپن شریف میں کلام فرمانا یا ہمارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کوکنکروں،پتھروں کابچپن میں سلام کرنا۔
    اگر ظہو ر نبوت کے بعد ہو تو اسے معجزہ کہتے ہیں۔ جیسے موسی علیہ السلام کا عصا اور ید بیضا ۔یا نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا چاند کو چیرنا، سورج کو واپس لانا ،اور جو ولی(رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) سے صادر ہو اسے کرامت کہتے ہیں اورجو عجیب وغریب کا م کافر سے ہو وہ استدراج کہلاتا ہے ۔ جیسے دجال کا پانی برسانا، مردے زندہ کرنا۔
    ابھی تک اللہ عزوجل کے فضل وکرم سے مسلمانوں میں کوئی فرقہ ایسا پیدا نہیں ہوا جو معجزات کا انکار کرتا ہو ۔ قادیانی صرف حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات کا انکار کرتے ہیں وہ صرف اس لئے کہ ان کے مسیح موعود میں کوئی معجزہ نہیں ۔تو وہ کہتے ہیں کہ چونکہ اصلی مسیح میں کوئی معجزہ نہ تھا اس لئے ان کے مثل مسیح میں کوئی معجزہ نہیں، ورنہ معجزات کے وہ بھی قائل ہیں۔ خود قرآن کریم کو حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کامعجزہ مانتے ہیں۔ ہاں بہت لوگ کرامات اولیاء اللہ کے منکر ہوگئے اور کہنے لگے کہ ساری کرامات گھڑے ہوئے قصے کہانی ہیں، قرآن سے ثبوت نہیں۔ ہم وہ آیات قرآنیہ پیش کرتے ہیں جن میں کرامات کا صریحی ذکر ہے ۔

 

(1) کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیۡہَا زَکَرِیَّا الْمِحْرَابَ ۙ وَجَدَ عِنۡدَہَا رِزْقًا ۚ قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰی لَکِ ہٰذَا ؕ قَالَتْ ہُوَ مِنْ عِنۡدِ اللہِ ؕ

جب مریم کے پاس زکر یاعلیہ السلام آتے تو بے موسم پھل پاتے تو کہا اے مریم تمہارے پاس یہ کہا ں سے آئے تو بولیں یہ رب کے پاس سے آئے ہیں۔(پ3،ال عمرٰن:37)
    حضرت مریم بنی اسرائیل کی ولیہ ہیں ان کی کرامت یہ بیان ہوئی کہ مقفل کوٹھڑی میں بے موسم پھل انہیں غیب سے عطا ہوئے یہ کرامت ولی ہے ۔

 


(2) وَ لَبِثُوۡا فِیۡ کَہۡفِہِمْ ثَلٰثَ مِائَۃٍ سِنِیۡنَ وَازْدَادُوۡا تِسْعًا ﴿۲۵﴾

اصحاب کہف غار میں تین سو بر س ٹھہرے نو اوپر ۔(پ15،الکھف:25)
    اصحاب کہف نبی نہیں بلکہ بنی اسرائیل کے ولی ہیں ان کی کرامت یہ بیان ہوئی کہ غار میں تین سو نو برس سوتے رہے ۔ اتنا عرصہ بے غذا سونا اور فنا نہ ہونا کرامت ہے ۔

 

(1) وَ تَحْسَبُہُمْ اَیۡقَاظًا وَّ ہُمْ رُقُوۡدٌ ٭ۖ وَّ نُقَلِّبُہُمْ ذَاتَ الْیَمِیۡنِ وَ ذَاتَ الشِّمَالِ ٭ۖ وَکَلْبُہُمۡ بَاسِطٌ ذِرَاعَیۡہِ بِالْوَصِیۡدِ ؕ

اورتم انہیں جاگتا سمجھو اور وہ سورہے ہیں اور ہم انہیں دائیں بائیں کروٹیں بدلتے ہیں اور ان کا کتا اپنی کلائیاں پھیلا ئے ہوئے غار کی چو کھٹ پر ہے ۔(پ15،الکھف:18)
    اس آیت میں اصحاب کہف جو اولیاء ہیں ۔ ان کی تین کرامتیں بیان ہوئیں ایک تو جاگنے کی طر ح اب تک سونا ۔ دوسرے رب کی طر ف سے کروٹیں بدلنا اور زمین کا ان کے جسموں کو نہ کھانا اور بغیر غذاباقی رہنا تیسرے ان کے کتے کا اب تک لیٹے رہنا یہ بھی ان کی کرامت ہے نہ کہ کتے کی ۔

 

(2) قَالَ الَّذِیۡ عِنۡدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ اَنَا اٰتِیۡکَ بِہٖ قَبْلَ اَنۡ یَّرْتَدَّ اِلَیۡکَ طَرْفُکَ ؕ

اور بولا وہ جس کے پاس کتا ب کا علم تھا کہ میں تخت بلقیس آپ کے پاس لے آؤں گا آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے ۔(پ19،النمل:40)
    اس آیت میںآصف بن بر خیا کی جو بنی اسرائیل کے نبی نہیں بلکہ ولی ہیں کئی کرامتیں بیان ہو ئیں۔ بغیر کسی کے پوچھے یمن پہنچ جانا ۔ وہاں سے اتنا وزنی تخت لے آنا اور یہ دور دراز سفر شام سے یمن تک جانا آناایک آن میں طے کرلینا ۔

 

(3) فَانۡطَلَقَا ۟ حَتّٰۤی اِذَا رَکِبَا فِی السَّفِیۡنَۃِ خَرَقَہَا ؕ قَالَ اَخَرَقْتَہَا لِتُغْرِقَ اَہۡلَہَا ۚ

دونوں موسیٰ وخضر علیہما السلام چلے یہاں تک کہ جب کشتی میں سوار ہوئے تو خضر نے کشتی کو توڑدیا موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ کیا تم نے اس لئے تو ڑ دیا کہ کشتی والے ڈوب جائیں ۔(پ15،الکھف:71)
     اس آیت کریمہ میں خضر علیہ السلام جوکہ غالباً کسی قوم کے ولی ہیں ۔ ان کی یہ کرامت بیان کی کہ انہوں نے کشتی توڑ ڈالی مگر کشتی نہ ڈوبی ۔ حالانکہ موسی علیہ السلام کو خطرہ پیدا ہوگیا تھا ۔

(1) وَ اَمَّا الْغُلٰمُ فَکَانَ اَبَوٰہُ مُؤْمِنَیۡنِ فَخَشِیۡنَاۤ اَنۡ یُّرْہِقَہُمَا طُغْیَانًا وَّکُفْرًا ﴿ۚ۸۰﴾

حضرت خضر نے فرمایا کہ اس بچے کے ماں باپ مومن ہیں ہم نے خوف کیا کہ وہ انہیں سر کشی اور کفر پر چڑھادے ۔(پ16،الکھف:80)
    اس آیت میں حضرت خضر کی یہ کرامت بیان ہوئی کہ انہوں نے مقتول بچے اور اس کے والدین کے انجام کو جان لیا کہ وہ مومن رہیں گے اور یہ کافر ہوگا حالانکہ یہ علوم خمسہ میں سے ہے ۔

 

(2) وَکَانَ تَحْتَہٗ کَنۡزٌ لَّہُمَا وَکَانَ اَبُوۡہُمَا صَالِحًا ۚ

خضر نے فرمایا کہ اس دیوار کے نیچے دو یتیموں کا خزانہ ہے اور ان کاباپ نیک آدمی تھا ۔(پ16،الکھف:82)
    اس آیت میں خضر علیہ السلام کی یہ کرامت بیان ہوئی کہ انہوں نے زمین کے نیچے کا دفینہ معلوم کرلیا۔ان جیسی بہت سی آیات میں اولیاء اللہ کی کرامات بیان ہو ئیں ، ان کا علم غیب،طی الارض یعنی بہت جلدسفرطے کرنا،بے آب وغذا بہت عرصہ زندہ رہنا، غرضیکہ بہت کرامات کا ذکر ہے

 

 

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
×
×
  • Create New...