Jump to content

طاہرپادری ایک بار پھر عدالت میں ذلیل


Sybarite

تجویز کردہ جواب

اسلام آباد… سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی تشکیل نو متعلق ڈاکٹر طاہر القادری کی درخواست خارج کردی ۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 3 دن تک درخواست کی سماعت کی۔عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ طاہرالقادری اپنا حق دعویٰ ثابت کرنے میں ناکام رہے ،حقائق کی روشنی میں ان کے بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ طاہر القادری نے جوزبان استعمال کی اس پر توہین عدالت کی کارروائی ہو سکتی ہے، عدالت توہین عدالت کی کارروائی کے بجائے تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ حکم میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار بنیادی حقوق اور نیک نیتی ثابت کرنے میں ناکام رہے ، دہری شہریت کے باعث طاہر القادری رکن پارلیمنٹ بننے کے لیے نااہل ہیں،آئین کا آرٹیکل 63 ون طاہر القادری پر پابندی عائد کرتا ہے۔ عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ طاہر القادری بطور ووٹر اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکتے ہیں۔اس سے قبل سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جوشخص یہاں آتا ہے اس سے سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ عدالت میں سماعت کے دوران طاہرالقادری کی جانب سے جارحانہ رویہ بھی دیکھنے میں آیا۔ طاہرالقادری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ طاہرالقادری نے سماعت کے دوران کہا کہ 3 دن سے میرا ہی ٹرائل کیا جا رہا ہے، آپ نے وہ سوالات پوچھے جس کی آئین اجازت نہیں دیتا، کیا آپ بیرون ملک شہریوں کو دوسرے اور تیسرے درجے کا شہری سمجھتے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جو شخص یہاں آتا ہے اس سے سوالات تو پوچھنے پڑتے ہیں۔ چیف جسٹس نے طاہرالقادری کو ہدایت کی کہ عدالت کااحترام ملحوظ خاطر رکھیں، آپ نے یہ سب کچھ کرنا ہے تو پریس میں کریں، آپ نے یہ حرکت کر کے عدالت کونیچادکھانے کی کوشش کی، آپ عدالتوں کا مذاق اڑا رہے ہیں، آپ عدلیہ کی تضحیک کر رہے ہیں۔ طاہرالقادری نے کہا کہ آپ خود اپنا مذاق بنوا رہے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے طاہرالقادری کو واپس نشست پر بٹھا دیا، جس کے بعد اٹارنی جنرل عرفان قادر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ طاہر القادری کا حق دعویٰ بنتا ہے، عدالت نے 184 تھری کے تحت درخواستیں سننے کا دائرہ خود وسیع کر دیا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے طاہر القادری سے بنیادی حقوق، نیک نیت اور قانونی جواز پوچھے، چیف جسٹس اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ آپ بطور اٹارنی جنرل ان سوالات کے بارے میں کیا کہتے ہیں، درخواست گزار2005 سے دہری شہریت کی وجہ سے رکن پارلیمنٹ نہیں بن سکتا۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میری رائے کے مطابق 31 جولائی2009 کا فیصلہ آئین کے خلاف ہے، اس کیس میں نیک نیت کا تعین کرنے کے لیے بدنیتی ثابت کرنا ہوگی، جب تک بدنیتی کے شواہد نہ ہوں کسی کی نیک نیتی پر شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایک جمہوری حکومت مدت پوری کررہی ہے، انتخابات ہونے والے ہیں، ایسی صورت حال میں ایک شخص آکر کہتا ہے کہ سب کچھ ختم کر دیں، کیا اسے نیک نیتی سمجھا جائے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس میں بد نیتی بھی نہیں ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سسٹم کو چلنے نہ دینا نیک نیتی ہے یا بد نیتی۔

Link to comment
Share on other sites

نوائے وقت

 

سپریم کورٹ نے طاہرالقادری کی الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کی درخواست خارج کردی، طاہرالقادری اپنا حق دعویٰ اورنیک نیتی ثابت کرنے میں ناکام رہے. عدالتی حکم

 

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے تین دن سماعت کے بعد طاہرالقادری کی پٹیشن خارج کردی،،، عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ طاہرالقادری اپنا حق دعویٰ ثابت کرنے میں ناکام رہے ،حقائق کی روشنی میں ان کے بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ دہری شہریت کے باعث طاہر القادری رکن پارلیمنٹ بننے کے لیے نااہل ہیں،آئین کا آرٹیکل تریسٹھ ون طاہر القادری پر پابندی عائد کرتا ہے۔ تاہم وہ بطور ووٹر اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکتے ہیں۔عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ طاہر القادری نے جوزبان استعمال کی اس پر توہین عدالت کی کارروائی ہو سکتی ہے لیکن عدالت توہین عدالت کی کارروائی کے بجائے تحمل کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ سماعت کے دوران جارحانہ انداز اختیار کرتے ہوئے طاہرالقادری نے کہا کہ تین دن سے ان کا ٹرائل کیا جا رہا ہے، آپ نے وہ سوالات پوچھے جس کی آئین اجازت نہیں دیتا، کیا آپ بیرون ملک شہریوں کو دوسرے اور تیسرے درجے کا شہری سمجھتے ہیں۔ اس پرچیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو شخص یہاں آتا ہے اس سے سوالات تو پوچھنے پڑتے ہیں۔ چیف جسٹس نے طاہرالقادری کو ہدایت کی کہ عدالت کااحترام ملحوظ خاطررکھیں، آپ نے یہ سب کچھ کرنا ہے تو پریس میں کریں، آپ نے یہ حرکت کرکے عدالت کونیچادکھانے کی کوشش کی۔ طاہرالقادری نے کہا کہ ملکہ برطانیہ سے حلف لیناایسے ہی ہے جیسے پرویز مشرف سے حلف لینا۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ عدالتوں کا مذاق اڑا رہے ہیں، آپ عدلیہ کی تضحیک کررہے ہیں،، آپ کیخلاف کارروائی کی جاسکتی ہے،،، طاہرالقادری پھربھی بازنہ آئے،،،کہنے لگے کہ آپ خود اپنا مذاق بنوا رہے ہیں۔ اس پرچیف جسٹس نے طاہرالقادری کوواپس نشست پربٹھا دیا، جس کے بعد اٹارنی جنرل عرفان قادرنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ طاہر القادری کا حق دعویٰ بنتا ہے، عدالت نے ایک سو چوراسی تھری کے تحت درخواستیں سننے کا دائرہ خود وسیع کر دیا۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے طاہر القادری سے بنیادی حقوق، نیک نیت اور قانونی جواز پوچھے، چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ آپ بطوراٹارنی جنرل ان سوالات کے بارے میں کیا کہتے ہیں، درخواست گزاردوہزار پانچ سے دہری شہریت کی وجہ سے رکن پارلیمنٹ نہیں بن سکتا۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ان کی رائے کے مطابق اکتیس جولائی دوہزار نو کا فیصلہ آئین کے خلاف ہے، اس کیس میں نیک نیت کا تعین کرنے کے لیے بدنیتی ثابت کرنا ہوگی،چیف جسٹس نےریمارکس دیے کہ ایک جمہوری حکومت مدت پوری کررہی ہے، انتخابات ہونے والے ہیں، ایسی صورت حال میں ایک شخص آکر کہتا ہے کہ سب کچھ ختم کر دیں، کیا اسے نیک نیتی سمجھا جائے۔ درخواست گزار کی وفاداری کہیں اور ہے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل منیر پراچہ نے کہا کہ طاہرالقادری نے دو سال کے لیے الیکشن ملتوی کرانے کی بات کی۔۔۔ طاہرالقادری پھر کھڑے ہوگئے اور کہا کہ انہوں نے ایسا کبھی نہیں کہا،،،سپریم کورٹ کے طلب کرنے پر طاہرالقادری کی تئیس دسمبر کی تقریر کی ویڈیو بھی پیش کی گئی۔

Link to comment
Share on other sites

نوائے وقت

 

آپ نے ملکہ الزبتھ سے وفاداری کا حلف لیا‘ طاہر القادری صاحب آپکی درخواست سننی بھی چاہیئے یا نہیں : چیف جسٹس

 

 

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + دی نیش رپورٹ + ایجنسیاں) الیکش کمشن کی تشکیل کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے ڈاکٹر طاہر القادری کو کینیڈین شہریت کی دستاویزات پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے ڈاکٹر طاہر القادری کو حق دعویٰ سے متعلق نکتہ پر مفصل جواب داخل کرنے کی ہدایت بھی کی۔ چیف جسٹس نے دوران سماعت کہا کہ ملکہ الزبتھ کا حلف اٹھاتے ہیں تو پھر اپنے ملک کی شہریت رکھنے کی اجازت بھی ہے یا نہیں۔ اس حوالے سے آپ کی درخواست سننی بھی چاہئے یا نہیں، آپ مزید کاغذات داخل کریں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت شروع کی تو ڈاکٹر طاہر القادری نے خود دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت میں یہ میری پہلی حاضری ہے، اجازت چاہتا ہوں کہ کیس سے پہلے اپنے تاثرات سے آگاہ کروں، میں نے عدلیہ کی بحالی میں حصہ لیا ہے۔ اس پر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے انہیں جذباتی تقریر سے روکتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے کیس کی بات کریں پہلے عدالت کو مطمئن کریں کہ پٹیشن دائر کرنے کے لئے آپ کے پاس کیا قانونی جواز ہے؟ آپ کے حق دعویٰ کی کیا بنیاد ہے، کس بنیاد پر کینیڈین شہریت لی، کیا جان کو خطرہ تھا؟ کیا کینیڈا کا شہری پاکستان کی شہریت بھی رکھ سکتا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ میں پاکستان اور کینیڈا کا شہری ہوں، امیگریشن کی اصل دستاویزات جمع کرا دوں گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایک چیز واضح ہے کہ آپ ایک عرصے سے کینیڈا کے شہری ہیں، آرٹیکل 63(1)© کے تحت آپ کے پارلیمنٹ جانے پر بھی پابندی ہے۔ چیف جسٹس نے ڈاکٹر طاہر القادری سے سوال کیا کہ کیا آپ کینیڈا کی شہریت کے لئے اٹھایا گیا وفاداری کا حلف پڑھ کر سنا سکتے ہیں۔ اس پر طاہر القادری نے جواب دیا کہ میرے پاس حلف کی کاپی نہیں یہ سوال ہی نہیں بنتا۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ سوال وہ ہے جو ہم پوچھیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ وفاداری کا حلف اٹھائے بغیر دوسرے ملک کے شہری نہیں بن سکتے اگر میں بطور چیف جسٹس کسی اور ملک کا حلف اٹھا لوں تو چیف جسٹس نہ رہوں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل بتائیں دوہری شہریت والے کو درخواست دینے کا قانونی جواز بنتا ہے۔ اس پر اٹارنی جنرل عرفان قادر نے کہا کہ آرٹیکل (3)184 کے مطابق دوہری شہریت رکھنے والے کو درخواست دینے پر پابندی نہیں، عدالت کو قوانین کا نوٹس لینا چاہئے، آپ نے عوامی مقدمات کا دائرہ وسیع کر دیا ہے، طاہر القادری کی درخواست پر اعتراض مشکل ہے۔ چیف جسٹس نے عدالت میں کینیڈا کی شہریت کا حلف نامہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ آج اس کیس کو سب سے پہلے سنیں گے۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ ہمارا شہری جو دوسرے ملک کی وفاداری کا حلف اٹھائے کیسے پٹیشن دائر کر سکتا ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے چیف جسٹس سے مکالمہ کیلئے وقت مانگتے ہوئے کہا مجھے دو منٹ دیدیں۔ چیف جسٹس نے جواب دیا آپ پہلے اپنا جامع جواب داخل کریں۔ طاہر القادری نے پھر کہا صرف دو منٹ، چیف جسٹس نے جواب دیا ”مسٹر قادری، بہت شکریہ، کل سنیں گے“۔ ثناءنیوز کے مطابق سپریم کورٹ نے طاہر القادری سے غیر ملکی شہریت کے بارے میں جواب طلب کیا ہے اور تحریری جواب ملنے پر ہی آج مقدمے کی سماعت آگے بڑھے گی، کیس کی سماعت آج پھر ہو گی۔ بی بی سی کے مطابق ڈاکٹر طاہر القادری نے ججوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ”مائی لارڈ میرا سوال ہے“ جس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ سوال آپ نہیں عدالت آپ سے کرے گی اور عدالت کو مطمئن کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ طاہر القادری نے عدالت سے دو منٹ میں اپنی بات مکمل کرنے کی استدعا کی جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ تحریری شکل میں اپنا جواب دیں۔ دی نیشن کے مطابق چیف جسٹس نے طاہر القادری سے کہا کہ دولت مشترکہ کے کسی ملک کی شہریت لینے کے بعد آپ نے ملکہ برطانیہ سے وفاداری اور وابستگی ظاہر کی، کسی دوسرے ملک سے وفاداری اور وابستگی رکھنے والا پاکستان سے وفادار کیسے ہو سکتا ہے۔ کینیڈین حلف کے مطابق ”آج کے روز میں کینیڈا اور اس کی دوسری ملکہ الزبتھ وفاداری اور وابستگی کا حلف اٹھاتا ہوں۔ میں وعدہ کرتا ہوں اپنے ملک کے حقوق اور اس کی آزادی اس کے جمہوری اقدار کی پاسداری کروں گا اور بطور کینیڈین شہری اپنی ذمہ داریاں پوری کروں گا“۔ نجی ٹی وی کے مطابق چیف جسٹس نے طاہر القادری سے استفسار کیا کہ کیا دوہری شہریت والے کی پاکستان سے وفاداری بنتی ہے؟ دوہری شہریت کے حوالے سے جواب دیں۔ آن لائن کے مطابق سپریم کورٹ نے طاہر قادری سے تحریری جواب طلب کیا ہے کہ دوسرے ملک کی شہریت رکھتے ہوئے کیا آپ کو پاکستانی عدالتوں میں درخواست دینے کا اختیار حاصل ہے یا نہیں؟ پا کستانی قانون کینیڈین شہریت رکھنے کی اگر اجازت دیتا ہے تو اس حوالے سے نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا پیش ہونے کا ”لوکس سٹینڈ آئی“ کیا ہے ایک ایسے شخص کے طور پر آپ جانے جاتے ہیں جس کا مذہبی جماعت سے تعلق ہے اور آپ پاکستان یا باہر رہائش پذیر ہیں آپ الیکشن کمیشن کی تحلیل کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے بتایا کہ میں پاکستان کا شہری ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کسی اور ملک کے شہری نہیں، طاہر القادری نے کہا کہ میں کینیڈا کا شہری بھی ہوں 2005ءمیں شہریت حاصل کی تھی اور پارلیمنٹ کی رکنیت سے استعفیٰ دیا تھا، میں ایک پاکستانی شہری اور ووٹر کے ناطے ریلیف مانگ رہا ہوں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ نے کس حیثیت سے کینیڈین شہریت حاصل کی تھی یہ عام حالت میں لی گئی تھی یا کسی دھمکی کی وجہ سے حاصل کی تھی، طاہر القادری نے بتایا کہ آئین کے مطابق انہوں نے 1999ءمیں شہریت مانگی تھی اور مذہبی سکالر اور منہاج القرآن کے سربراہ کی حیثیت سے حاصل کی تھی۔عدالت نے 1999ءمیں شہریت کے حوالے سے سماعت کے دوران بھیجے گئے اصل کاغذات بھی طلب کرلئے ہیں۔ ایک موقع پر جسٹس گلزاراحمد نے کہا کہ سیکشن 14(3) کے تحت آپ کی قومیت کی کیا اہمیت ہے؟ طاہر القادری نے کہا کہ سیکشن 14 عام ہے جبکہ 3 میں کچھ ا ور بتایا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ملکہ ابلزتھ کے ساتھ کا حلف اٹھاتے ہیں تو پھر اپنے ملک کی شہریت رکھنے کی اجازت ہے یا نہیں اس حوالے سے آپ کی درخواست سننی بھی چاہیے یا نہیں آپ مزید کاغذات داخل کریں جو ہمیں واضح کر سکیں کہ اس درخواست پر ان کے اثرات نہیں ہو سکتے۔ طاہر القادری نے کہا کہ قانون اجازت دیتا ہے کہ نوٹیفکیشن بھی گزٹ کا حصہ ہے۔ان ملکوں کی شہریت رکھنے پر پاکستان میں اس کے اثرات نہیں رکھتے اس وقت میرے پاس کینیڈا کے حوالے سے کاغذات نہیں ہیں جب بھی کسی بھی ملک کی شہریت حاصل کرتے ہیں تو اس کا حلف لینا پڑتا ہے کینیڈا بھی ان ملکوں میں شامل ہے جس میں حلف لینے سے پاکستانی قانون مخالفت نہیں کرتا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے لوکس سٹینڈائی ضرور دیکھنا ہے ڈاکٹر صاحب خود بھی اعتراف کررہے ہیں کہ انہوں نے کینیڈا کا حلف لیا ہوا ہے اور شہریت بھی رکھتے ہیں اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ ”کوارنٹو“ کا معاملہ ہے اس میں ”لوکس سٹینڈ آئی“ نہیں دیکھا جاتا۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ایک شخص نے دوسرے ملک کے تحفظ میں خود کودیا ہوا ہے اور وہ پاکستانی شہری بھی ہے کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ کیا ایسا شخص عدالت میں عوامی معاملات کو لا سکتا ہے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایسی کوئی پابندی نہیں، آئین و قانون واضح ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سیکشن 24 شہریت ایکٹ کہتا ہے کہ حلف لینا ضروری ہے جس میں کمی کی گئی ہے کہ میں قسم کھاتا ہوں کہ میں فلاں کا وفادار ہوں گا۔ کینیڈین قوانین کی پابندی کروں گا اس حلف کے بعد کیا کسی نوٹیفکیشن کے تحت عدالت سے رجوع کرسکتے ہیں اور معاملے کا تعلق مفاد عامہ سے ہے۔ الیکشن کمشن کی تشکیل نو کی بات کر رہے ہیں اگر میں نے کسی اور ملک کی وفاداری کا حلف لیا ہوا ہو تو کیا میں موجودہ پارلیمنٹ جسے کروڑوں لوگوں نے منتخب کیا ہے اس کے خلاف کوئی بات کرسکتا ہوں، آپ ہماری تسلی کرادیں۔طاہر القادری نے کہا کہ آئین ووٹرز اور الیکشن لڑنے والے افراد کے درمیان فرق واضح کرتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تحریری طور پر لکھ کر دیں،سٹیٹمنٹ دیں کہ آپ نے دونوں کا حلف اٹھایا ہوا ہے،نوٹیفکیشن بھی دیں۔چھ سال پہلے شہریت حاصل کی تھی کیا پاکستان کا شہری ہونے پر آپ دوسری شہریت رکھ سکتے ہیں، سیکشن (3)14 کے تحت آپ کے پاس اس کے حوالہ سے کوئی قانونی ثبوت ہے۔طاہر القادری نے کہا کہ آئین مجھے اس چیز کی اجازت دیتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اگر کینیڈا کی شہری ہوں گے تو پھر ان کے قوانین کے تحت آپ بات کریں گے، یہاں ایسا نہیں ہو سکتا۔ کیا آپ نے ملک کے نام کا حلف نہیں لیا ہوا اسی آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دوہری شہریت کا حامل شخص پاکستان پارلیمنٹ کا ممبر نہیں بن سکتا ایک شخص جو ممبر نہیں بن سکتا جو ممبر نہیں بن سکتا کیاوہ ملک کی شہریت اور اس کی عدالتوں میں درخواست دے سکتا ہے۔ اس پر طاہر القادری نے کہا کہ پارلیمنٹ کا ممبر بننا الگ موضوع ہے جبکہ دوہری شہریت ایک الگ موضوع ہے۔ مجھے الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں لیکن ایک ووٹر ہونے کی حیثیت سے درخواست دائر کر سکتا ہوں ویسے بھی پاکستان کے آئین میں درج ہے کہ برطانیہ اور کینیڈا کا جو شہری وہ پاکستانی شہریت بھی رکھ سکتا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے کینیڈا کی شہریت حاصل کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ ملک اور ان کے جانشینوں کا وفادار رہوں گا اور اگر کوئی دوسرا ملک ان کے ملک پر حملہ کرے تو اس کے لئے وہ ہتھیار بھی اٹھا سکتے ہیں تو پھر ایسے شخص کو پاکستان کے الیکشن کمشن پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔

چیف جسٹس / طاہر القادری کیس

Link to comment
Share on other sites

نوائے وقت

 

طاہرالقادری کے الفاظ سنگین توہین عدالت کے زمرے میں آتے ہیں: آئینی ماہرین

 

لاہور+ اسلام آباد (وقائع نگار+ نمائندہ نوائے وقت) آئینی ماہرین نے الیکشن کمشن کی تشکیل نو کے لئے دائر ڈاکٹر طاہرالقادری کی درخواست خارج کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو آئین و قانون کے مطابق قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک ہی کیس کا سامنا کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہرالقادری کی چیخیں نکل گئیں اور انہوں نے عدالت میں ایسے الفاظ ادا کئے جو سنگین توہین عدالت کے زمرے میں آتے ہیں۔ جسٹس (ریٹائرڈ) وجیہ الدین احمد نے کہا کہ عدالت کے پاس ہر طرح کا سوال پوچھنے کا اختیار ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے عدالت کے سوالوں کے جواب دینے کی بجائے عدالت کے بارے میں نامناسب الفاظ ادا کرنے شروع کر دیے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے 2005ءمیں جو حلف اٹھایا وہ پی سی او کے تحت نہیں تھا۔ اس وقت آئین بحال ہو چکا تھا۔ انہوں نے دستور پاکستان کے مطابق ہی حلف اٹھایا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے خلاف توہین عدالت کا کیس بن سکتا ہے۔ سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اے کے ڈوگر نے کہا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی رٹ پر سپریم کورٹ نے تاریخی فیصلہ دیا جس کے اثرات آئندہ بھی مرتب ہوں گے۔ فاضل عدالت نے درخواست خارج کرتے ہوئے ایک تو اس بات کا تعین کر دیا کہ منقسم وفاداری کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ دوسرا اس نکتے کا تعین کر دیا کہ عدالتوں میں ٹھیک نیت سے نہ آنے والا حق دعویٰ ثابت نہیں کر سکتا۔ عدالتی فیصلہ ہمیشہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے راستے میں حائل رہے گا۔ سپریم کورٹ بار کی سابق صدر عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ قانون کی حکمرانی کے لئے وکلاءکو سامنے آنا چاہئے تھا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کو درخواست دائر کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ کسی بھی کیس میں موکل، وکیل اور ججز کو پرسنل نہیں ہونا چاہئے۔ نہ ہی عدالت میں کسی قسم کی بدتمیزی ہونی چاہئے۔ طاہرالقادری کی ایک ہی کیس میں چیخیں نکل گئیں۔ عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ دوہری شہریت کے حامل شہریوں کی نیت پر شک نہیں لیکن درخواست کا خارج ہونا درست ہے۔ لوگ آئین کے آرٹیکل 184/3کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ عدالت میں طاہرالقادری کا رویہ جذباتی اور لڑائی والا تھا۔ ان کا انداز درست نہ تھا۔ انہوں نے بہت زیادہ توہین کی تاہم عدالت کو اہم سرکاری عہدیداروں کو بار بار طلب کر کے ان کی سبکی نہیں کرنی چاہئے۔ حلف لینے کے حوالے سے مشرف کی نسبت ملکہ الزبتھ بہتر ہے۔ عام آدمی کو طاہرالقادری سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ایڈووکیٹ فیصل چودھری نے کہا کہ دوہری شہریت رکھنے والے کی جانب سے یہ درخواست بنتی ہی نہیں تھی۔ ایڈووکیٹ اکرام چودھری نے کہا کہ پلان کے تحت عدلیہ کا تمسخر اڑانے کے لئے چیف جسٹس کی حلف برداری کی تصاویر عدالت میں دکھائی گئیں۔ بیرسٹر ظفراللہ نے کہا کہ عدالت عظمیٰ نے احترام کے ساتھ انہیں سنا۔ طاہرالقادری کو بھی عدالت کا احترام رکھنا چاہئے تھا۔ وہ مخصوص ایجنڈا لے کر آئے جو پورا نہ ہو سکا۔ اکرام چودھری نے کہا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی پریس کانفرنس ملک ریاض کی پریس کانفرنس سے مختلف نہیں تھی۔ دونوں نے سپریم کورٹ پر حملہ کیا۔ طاہرالقادری کے خلاف دو ایف آئی آرز بھی رجسٹرڈ ہیں۔ 1996ءمیں تشکیل کر دہ کمیشن نے انہیں ذہنی مریض قرار دیا تھا۔ سابق چیف جسٹس سعیدالزمان صدیقی نے کہا کہ آرٹیکل 184-3کے تحت کوئی کیس سننے یا نہ سننے کا اختیار سپریم کورٹ کو حاصل ہے۔ اگر کسی کا کوئی حق مجروح ہوا ہو تو وہ ہائی کورٹ سے رجوع کر سکتا ہے۔ پرویز مشرف سے ججز کے حلف کو 17ویں ترمیم میں ریگولرائز کر دیا تھا۔ پارلیمنٹ کو اختیار حاصل ہے کہ وہ سابقہ اقدامات کی توثیق کر دے۔

آئینی ماہرین

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...