Jump to content

Murday Nahi Sountay. Is Hadith Ka Jawab Chahiya


Smart Ali

تجویز کردہ جواب

najam bhai app say 100% agree kerta hooon. mager jin aahadith may kafiroon kay mutaliq baat ho rahi ho. wo ahadith musalmano kay liya hum use ker saktay hien? ia ka kiya jawab hoga?

 

Ali bhai, hadees me Hazrat umer farooq e azam ne sarkar  (saw) se sawaal kia ke

یا رسول اللہ آپ ایسے جسموں سےکلام فرما رھے جن میں روح موجود نہیں!

 

to kya sirf kafir ke jism se rooh nikalti hai ya momin ke jism se bhi?? aap khud soch sakte hai...

aur rahi baat Hazrat umar farooqe azam  (raa) ki, to tafseer ibne kaseer, surah aeraaf ayat 201-202 ki tafseer me hazrat umer farooq e azam ka ek qabar wale se guftogo ki hadees likhi hai, wo isi forum per ek islami bhai ne post ki thi, mujhe mili nahi

Edited by Zulfi.Boy
Link to comment
Share on other sites

toheedi bhai ki ye post parhe, iman taaza ho jaye ga, balke pura thread hi parhle

 

http://www.islamimehfil.com/topic/17655-kia-murday-suntay-hain/page-7#entry80568

 

mujhe thread nahi mila lekin mere paas pages save the, ye unhi islami bhai ki mehnat hai meri nahi...

 

post-9933-0-38855700-1368298922_thumb.jpg

post-9933-0-72169500-1368298941_thumb.jpg

Edited by Zulfi.Boy
Link to comment
Share on other sites

Ahle Khabees Reply:

 

apna aqeedah bataooo. jin ahadith may kafir kay liya baat ki ja rahi ho. wo musalmano per chaspa kiya ja sakta hay ya nahi????

 

Yah chispan karnay wala kam hamara nahi hay, yah kharjion ka hay

 

(Smart Ali Agar ap nay aupar dia gaya mara jawab parha ho tu ap ko maloom ho jana chahiya tha is ka jawab [post#17] isi topic main.)

 

Jo Ayah Mubarka our Ahadees Mubarka jin kay baray main hoti hay wo un kay lia hi hoti hay.

Link to comment
Share on other sites

    امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مرتبہ ایک نوجوان صالح کی قبر پر تشریف لے گئے اورفرمایا کہ اے فلاں !اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ

وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ ﴿ۚ۴۶

یعنی جو شخص اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرگیااس کے لیے دو جنتیں ہیں
     اے نوجوان!بتا تیرا قبر میں کیا حال ہے؟اس نوجوان صالح نے قبر کے اندر سے آپ کا نام لے کر پکارااوربآواز بلند دو مرتبہ جواب دیا کہ میرے رب نے یہ دونوں جنتیں مجھے عطافرماد ی ہیں ۔(2)

(حجۃ اللہ علی العالمین ج۲،ص۸۶۰بحوالہ حاکم)

 

 

قبروالوں سے سوال وجواب                                                         

    حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ امیرالمؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں گئے تو آپ نے قبروں کے سامنے کھڑے ہوکر باآواز بلند فرمایا کہ اے قبروالو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ ! کیا تم لوگ اپنی خبریں ہمیں سناؤ گے یا ہم تم لوگوں کو تمہاری خبریں سنائیں؟ اس کے جواب میں قبروں کے اندر سے آواز آئی: ''وعلیک السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ'' اے امیر المؤمنین! رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ ہی ہمیں یہ سنائيے کہ ہماری موت کے بعد ہمارے گھروں میں کیا کیا معاملات ہوئے ؟حضرت امیرالمؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے قبر والو! تمہارے بعد تمہارے گھروں کی خبر یہ ہے کہ تمہاری بیویوں نے دوسرے لوگوں سے نکاح کرلیا اور تمہارے مال ودولت کو تمہارے وارثوں نے آپس میں تقسیم کرلیا اور تمہارے چھوٹے چھوٹے بچے یتیم ہوکر دربدر پھر رہے ہیں اورتمہارے مضبوط اور اونچے اونچے محلوں میں تمہارے دشمن آرام اورچین کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں ۔ اس کے جواب میں قبروں میں سے ایک مردہ کی یہ دردناک آواز آئی کہ اے امیرالمؤمنین! رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہماری خبریہ ہے کہ ہمارے کفن پرانے ہوکر پھٹ چکے ہیں اورجو کچھ ہم نے دنیا میں خرچ کیا تھا اس کو ہم نے یہاں پالیا ہے اورجو کچھ ہم دنیا میں چھوڑآئے تھے اس میں ہمیں گھاٹا ہی گھاٹااٹھانا پڑا ہے ۔ (حجۃ اللہ علی العالمین ج۲،ص۸۶۳

تبصرہ                                                                                

    اس روایت سے معلوم ہوا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو یہ طاقت وقدرت عطافرماتاہے کہ قبر والے ان کے سوالوں کا باآواز بلنداس طرح جواب دیتے ہیں کہ دوسرے حاضرین بھی سن لیتے ہیں ۔ یہ قدرت وطاقت عام انسانوں کو حاصل نہیں ہے۔ لوگ اپنی آوازیں تو مردوں کو سنا سکتے ہیں اورمردے ان کی آوازوں کو سن بھی لیتے ہیں مگر قبر کے اندر سے مردوں کی آوازوں کو سن لینا یہ عام انسانوں کے بس کی بات نہیں ہے ،بلکہ یہ خاصا ن خدا کا خاص حصہ اور خاصہ ہے جس کوان کی کرامت کے سواکچھ بھی نہیں کہاجاسکتااوراس روایت سے یہ بھی پتاچلا کہ قبروالوں کا یہ اقبالی بیان ہے کہ مرنے والے دنیا میں جو مال ودولت چھوڑ کر مرجاتے ہیں اس میں مرنے والوں کے لیے سر اسر گھاٹا ہی گھاٹا ہے اورجس مال ودولت کو وہ مرنے سے پہلے خدا عزوجل کی راہ میں خرچ کرتے ہیں وہی ان کے کام آنے والاہے ۔
 

 

ایک قبر سے دوسری قبر میں                                                                

    شہادت کے بعد حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بصرہ کے قریب دفن کردیا گیا مگر جس مقام پرآپ کی قبر شریف بنی وہ نشیب میں تھا اس لئے قبر مبارک کبھی کبھی پانی میں ڈوب جاتی تھی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص کو بار بار متواتر خواب میں آکراپنی قبر بدلنے کا حکم دیا۔ چنانچہ اس شخص نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے اپنا خواب بیان کیا تو آپ نے دس ہزار درہم میں ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مکان خرید کر اس میں قبر کھودی اورحضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مقدس لاش کو پرانی قبرمیں سے نکال کراس قبر میں دفن کردیا۔ کافی مدت گزر جانے کے باوجودآ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقدس جسم سلامت اوربالکل ہی تروتازہ تھا۔ (کتاب عشرہ مبشرہ،ص۲۴۵)

تبصرہ                                                                                  

    غورفرمائيے کہ کچی قبر جو پانی میں ڈوبی رہتی تھی ایک مدت گزرجانے کے باوجود ایک ولی اورشہید کی لاش خراب نہیں ہوئی تو حضرات انبیاء علیہم الصلوۃوالسلام خصوصاً حضورسید الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے مقدس جسم کو قبر کی مٹی بھلا کس طرح خراب کرسکتی ہے ؟یہی و جہ ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشادفرمایا: اِنَّ اللہَ حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَنْ تَاکُلَ اَجْسَادَ الْاَنْبِیَاء(مشکوۃ ،ص۱۲۱) (یعنی اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہم الصلوۃ ولسلام کے جسموں کو زمین پر حرام فرمادیا ہے کہ زمین ان کو کبھی کھانہیں سکتی ۔)
    اسی طرح اس روایت سے اس مسئلہ پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ شہداء کرام اپنے لوازم حیات کے ساتھ اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں ،کیونکہ اگر وہ زندہ نہ ہوتے تو قبر میں پانی بھر جانے سے ان کو کیا تکلیف ہوتی؟اسی طرح اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شہداء کرام خواب میں آکر زندوں کو اپنے احوال و کیفیات سے مطلع کرتے رہتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان کو یہ قدرت عطافرمائی ہے کہ وہ خواب یا بیداری میں اپنی قبروں سے نکل کر زندوں سے ملاقات اورگفتگوکرسکتے ہیں۔ اب غور فرمائیے کہ جب شہیدوں کا یہ حال ہے اوران کی جسمانی حیات کی یہ شان ہے تو پھر حضرات انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام خاص کر حضورسیدالانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی جسمانی حیات اور ان کے تصرفات اوران کے اختیارواقتدارکا کیا عالم ہوگا۔
    غورفرمائیے کہ وہابیوں کے پیشوامولوی اسماعیل دہلوی نے اپنی کتاب تقویۃ الایمان میں یہ مضمون لکھ کر کہ ''حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم مر کر مٹی میں مل گئے۔ '' (نعوذباللہ)کتنا بڑا جرم اورظلم عظیم کیا ہے ۔ اللہ اکبر!ان بے ادبوں اورگستاخوں نے اپنے نوک قلم سے محبین رسول کے قلوب کو کس طرح مجروح وزخمی کیا ہے ، اس کو بیان کرنے کے لئے ہمارے پاس الفاظ نہیں ہیں ۔

فَاِلَی اللہِ الْمُشْتَکٰی وَھُوَ عَزِیْزٌ ذُوانْتِقَام

 

Edited by Najam Mirani
Link to comment
Share on other sites

قبر کے اندرسے سلام                                                                                           

    حضرت فاطمہ خزاعیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ میں ایک دن حضرت سید الشہداء جناب حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مزار اقدس کی زیارت کے لئے گئی اورمیں نے قبر منور کے سامنے کھڑے ہوکر اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا عَمَّ رَسُوْلِ اللہ کہا تو  آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بآواز بلند قبر کے اندر سے میرے سلام کا جواب دیا جس کو میں نے اپنے کانوں سے سنا۔ (حجۃ اللہ ،ج۲،ص۸۶۳بحوالہ بیہقی)
    اسی طرح شیخ محمود کردی شیخانی نزیل مدینہ منورہ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر انور پر حاضر ہوکرسلام عرض کیا تو  آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قبر منور کے اندر سے بآواز بلند ان کے سلام کا جواب دیا اورارشاد فرمایاکہ اے شیخ محمود! تم اپنے لڑکے کا نام میرے نام پر ''حمزہ''رکھنا۔چنانچہ جب خداوند کریم نے ان کو فرزند عطافرمایا تو انہوں نے اس کا نام ''حمزہ ''رکھا۔(حجۃ اللہ علی العالمین،ج۲،ص۸۶۳بحوالہ کتاب الباقیات الصالحات)

 

تبصرہ                                                                                            

    اس روایت سے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی چند کرامتیں معلوم ہوئیں:

   (1) یہ کہ آپ نے قبر کے اندرسے شیخ محمود کے سلام کوسن لیااور دیکھ بھی لیا کہ سلام کرنے والے شیخ محمود ہیں ۔ پھر آپ نے سلام کا جواب شیخ محمود کو سنا بھی دیا حالانکہ دوسرے قبر والے سلام کرنے والوں کے سلام کو سن تو لیتے ہیں اورپہچان بھی لیتے ہیں مگر سلام کا جواب سلام کرنے والوں کو سنا نہیں سکتے ۔

(۲)سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی قبر شریف کے اندر رہتے ہوئے یہ معلوم تھا کہ ابھی شیخ محمود کے کوئی بیٹا نہیں ہے مگر آئندہ ان کو خداوند کریم فرزند عطا فرمائے گا۔ جبھی تو  آپ نے حکم دیا کہ اے شیخ محمود ! تم اپنے لڑکے کا نام میرے نام پر حمزہ رکھنا۔
(۳)آپ نے جواب سلام اوربیٹے کا نام رکھنے کے بارے میں جو کچھ ارشاد فرمایا وہ اس قدر بلند آواز سے فرمایا کہ شیخ محمود اور دوسرے حاضرین نے سب کچھ اپنے کانوں سے سن لیا۔
    مذکورہ بالا کرامتوں سے اس مسئلہ پر روشنی پڑتی ہے کہ شہداء کرام اپنی اپنی قبروں میں پورے لوازم حیات کے ساتھ زندہ ہیں اوران کے علم کی وسعت کا یہ حال ہے کہ وہ یہاں تک جان او رپہچان لیتے ہیں کہ آدمی کی پشت میں جو نطفہ ہے اس سے پیدا ہونے والا بچہ لڑکا ہے یا لڑکی ۔ یہی توو جہ ہے کہ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اے شیخ محمود ! تم اپنے لڑکے کا نام میرے نام پر رکھنا اگر ان کو بالیقین یہ معلوم نہ ہوتا کہ لڑکا ہی پیدا ہوگا تو  آپ کس طرح لڑکے کا نام اپنے نام پر رکھنے کا حکم دیتے ؟ واللہ تعالیٰ اعلم ۔

 

قبر میں سے خون نکلا                                                                                       

    جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی حکومت کے دوران مدینہ منورہ کے اندر نہریں کھودنے کا حکم دیا تو ایک نہر حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مزار اقدس کے پہلو میں نکل رہی تھی۔لاعلمی میں اچانک نہر کھودنے والوں کا پھاوڑاآپ کے قدم مبارک پر پڑگیا اورآپ کا پاؤں کٹ گیا تو اس میں سے تازہ خون بہہ نکلا حالانکہ آپ کو دفن ہوئے چھیالیس سال گزرچکے تھے ۔ (حجۃ اللہ ،ج۲،ص۸۶۴بحوالہ ابن سعد)

تبصرہ                                                                                        

    وفات کے بعد تازہ خون کابہہ نکلنا یہ دلیل ہے کہ شہداء کرام اپنی قبروں میں پورے لوازم حیات کے ساتھ زندہ ہیں

 

کفن سلامت ،بدن تروتازہ                                                                                    

    حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ جنگ احد کے دن میں نے اپنے والد حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک دوسرے شہید(حضرت عمروبن جموح رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے ساتھ ایک ہی قبرمیں دفن کردیا تھا ۔ پھر مجھے یہ اچھا نہیں لگا کہ میرے باپ ایک دوسرے شہید کی قبر میں دفن ہیں اس لئے میں نے اس خیال سے کہ ان کو ایک الگ قبر میں دفن کروں ۔ چھ ماہ کے بعد میں نے ان کی قبر کو کھود کر لاش مبارک کو نکالاتو وہ بالکل اسی حالت میں تھے جس حالت میں ان کو میں نے دفن کیا تھا بجز اس کے کہ انکے کان پر کچھ تغیر ہوا تھا۔ (بخاری ،ج۱،ص۱۸۰ وحاشیہ بخاری)
      اورابن سعد کی روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرے پر زخم لگا تھاا ور ان کا ہاتھ ان کے زخم پر تھا جب ان کا ہاتھ ان کے زخم سے ہٹایا گیا تو زخم سے خون بہنے لگا ۔ پھر جب ان کا ہاتھ ان کے زخم پر رکھ دیا گیا تو خون بند ہوگیااوران کا کفن جو ایک چادر تھی جس سے چہرہ چھپا دیا گیا تھا اوران کے پیروں پر گھاس ڈال دی گئی تھی ، چادر اورگھاس دونوں کو ہم نے اسی طرح پر پڑا ہوا پایا۔)
(ابن سعد،ج۳،ص۵۶۲)
    پھر اس کے بعد مدینہ منورہ میں نہروں کی کھدائی کے وقت جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ اعلان کرایا کہ سب لوگ میدان احد سے اپنے اپنے مردوں کو ان کی قبروں سے نکال کر لے جائیں توحضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دوبارہ چھیالیس برس کے بعداپنے والد ماجدحضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر کھود کر ان کی مقدس لاش کو نکالا تومیں نے ان کو اس حال میں پایا کہ اپنے زخم پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے ۔ جب ان کا ہاتھ اٹھایا گیا تو زخم سے خون بہنے لگا پھر جب ہاتھ زخم پر رکھ دیا گیا تو خون بند ہوگیا اور ان کا کفن جو ایک چادر کا تھا بدستو رصحیح و سالم تھا۔ )
             (حجۃ اللہ علی العالمین، ج۲،ص۸۶۴بحوالہ بیہقی)


قبر میں تلاوت                                                                                          

    حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اپنی زمین کی دیکھ بھال کے لیے ''غابہ ''جا رہا تھا تو راستہ میں رات ہوگئی ۔ اس لئے میں حضرت عبداللہ بن عمروبن حرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر کے پاس ٹھہر گیا ۔ جب کچھ رات گزرگئی تو میں نے ان کی قبر میں سے تلاوت کی اتنی بہترین آواز سنی کہ اس سے پہلے اتنی اچھی قرأت میں نے کبھی بھی نہیں سنی تھی ۔
    جب میں مدینہ منورہ کو لوٹ کرآیا اورمیں نے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ کیا اے طلحہ! تم کو یہ معلوم نہیں کہ خدا نے ان شہیدوں کی ارواح کو قبض کر کے زبرجد او ریاقوت کی قندیلوں میں رکھا ہے اور ان قندیلوں کو جنت کے باغوں میں آویزاں فرمادیاہے جب رات ہوتی ہے تو یہ روحیں قندیلوں سے نکال کر ان کے جسموں میں ڈال دی جاتی ہیں پھرصبح کو وہ اپنی جگہوں پر واپس لائی جاتی ہیں ۔(حجۃ اللہ علی العالمین، ج۲،ص۸۷۱بحوالہ ابن مندہ)


تبصرہ                                                                                            

یہ مستند روایات اس بات کا ثبوت ہیں کہ حضرا ت شہداء کرام اپنی اپنی قبروں میں پورے لوازم حیات کے ساتھ زندہ ہیں اوروہ اپنے جسموں کے ساتھ جہاں چاہیں جاسکتے ہیں تلاوت کر سکتے ہیں اور دوسرے قسم قسم کے تصرفات بھی کرسکتے اور کرتے ہیں۔
 

حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا بیان ہے کہ ہم لوگ رسول خداعزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے ساتھ ساتھ قبرستان میں گزرے تو میں نے ایک قبر میں دھماکہ سنا گھبرا کر میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ!عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم میں نے ایک قبر میں دھماکہ کی آواز سنی ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ تو نے بھی اس دھماکہ کی آواز سن لی ؟میں نے عرض کیا کہ جی ہاں !ارشادفرمایاکہ ٹھیک ہے ایک قبر والے کو اس کی قبر میں عذاب دیا جارہا ہے یہ اسی عذاب کی آواز کا دھماکہ تھا جو تو نے سنا۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ!عز وجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ و سلم اس قبر والے کو کس گناہ کے سبب عذاب دیا جا رہا ہے ؟آپ نے فرمایا کہ یہ شخص چغل خوری کیا کرتا تھا اوراپنے بدن اورکپڑوں کو پیشاب سے نہیں بچاتا تھا۔
                 (حجۃ اللہ ،ج۲،ص۸۷۴بحوالہ بیہقی)

 

موت کے بعد وصیت                                                                                 

                                                                                     

حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کی یہ ایک کرامت ایسی بے مثل کرامت ہے کہ اس کی دوسری کوئی مثال نہیں مل سکتی ۔ شہید ہوجانے کے بعد آپ نے ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خواب میں یہ فرمایا کہ اے شخص!تم امیر لشکر حضرت خالد بن الولیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے میرا یہ پیغام کہہ دو کہ میں جس وقت شہید ہوا میرے جسم پر لوہے کی ایک زرہ تھی جس کو ایک مسلمان سپاہی نے میرے بدن سے اتار لیا اور اپنے گھوڑاباندھنے کی جگہ پر اس کو رکھ کر اس پر ایک ہانڈی اوندھی کر کے اس کو چھپا رکھا ہے لہٰذا امیرلشکر میری اس زرہ کو برآمد کر کے اپنے قبضے میں لے لیں اور تم مدینہ منورہ پہنچ کر امیر المؤمنین حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے میرا یہ پیغام کہہ دینا کہ جو مجھ پر قرض ہے وہ اس کو ادا کردیں اورمیرا فلاں غلام آزاد ہے ۔ خواب دیکھنے والے صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا خواب حضرت خالد بن الولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کیا تو انہوں نے فوراً ہی تلاشی لی اورواقعی ٹھیک اسی جگہ سے زرہ برآمد ہوئی جس جگہ کا خواب میں آپ نے نشان بتایا تھا اورجب امیر المؤمنین حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ خواب سنایا گیا تو  آپ نے حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وصیت کو نافذ کرتے ہوئے انکا قرض ادا فرمادیااور انکے غلام کو آزاد قراردے دیا۔
    مشہورصحابی حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ یہ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وہ خصوصیت ہے جو کسی کو بھی نصیب نہیں ہوئی کیونکہ ایساکوئی شخص بھی میرے علم میں نہیں ہے کہ اس کے مرجانے کے بعد خواب میں کی ہوئی اس کی وصیت کو نافذ کیا گیا ہو۔(تفسیر صاوی ، ج۲،ص۱۰۸)

 

Link to comment
Share on other sites

نیزہ پر سراقدس کی تلاوت                                                                          

    حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ جب یزیدیوں نے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سر مبارک کو نیزہ پرچڑھا کر کوفہ کی گلیوں میں گشت کیا تو میں اپنے مکان کے بالا خانہ پر تھا جب سرمبارک میرے سامنے سے گزراتو میں نے سنا کہ سر مبارک نے یہ آیت تلاوت فرمائی :

اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْکَہۡفِ وَ الرَّقِیۡمِ ۙ کَانُوۡا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا  (کھف، پ15) (ترجمۂ کنزالایمان:کیا تمہیں معلوم ہوا کہ پہاڑ کی کھوہ اور جنگل کے کنارے والے ہماری ایک عجیب نشانی تھے۔ (پ۱۵،الکہف:۹)


اسی طرح ایک دوسرے بزرگ نے فرمایا کہ جب یزیدیوں نے سر مبارک کو نیزہ سے اتارکر ابن زیادکے محل میں داخل کیا تو  آپ کے مقدس ہونٹ ہل رہے تھے اورزبان اقدس پر اس آیت کی تلاوت جاری تھی وَلَا تَحْسَبَنَّ اللہَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوۡنَ ۬ؕ  (ترجمۂ کنزالایمان:اور ہرگز اللہ کو بے خبر نہ جاننا ظالموں کے کام سے۔ (پ۱۳، ابرٰہیم :۴۲)

 

(روضۃ الشہداء ،ص230)

تبصرہ                                                                                             

ان ایمان افروز کرامتوں سے یہ ایمانی روشنی ملتی ہے کہ شہدائے کرام اپنی اپنی قبروں میں تمام لوازم حیات کے ساتھ زندہ ہیں ۔ خدا کی عبادت بھی کرتے ہیں اور قسم قسم کے تصرفات بھی فرماتے رہتے ہیں اوران کی دعائیں بھی بہت جلد مقبول ہوتی ہیں۔

 

موت کے بعد گفتگو                                                                                      

    حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت زید بن خارجہ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ منورہ کے بعض راستوں میں ظہر وعصر کے درمیان چلے جارہے تھے کہ ناگہاں گرپڑے اور اچانک ان کی وفات ہوگئی ۔ لوگ انہیں اٹھا کر مدینہ منورہ لائے اور ان کو لٹا کر کمبل اوڑھادیا۔
    جب مغرب وعشاء کے درمیان کچھ عورتوں نے رونا شروع کیا تو کمبل کے اند رسے آواز آئی :''اے رونے والیو!خاموش رہو۔''
    یہ آواز سن کر لوگوں نے ان کے چہرے سے کمبل ہٹایا تو وہ بے حد دردمندی سے نہایت ہی بلند آواز سے کہنے لگے: ''حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نبی امی خاتم النبیین ہیں اوریہ بات اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ہے ۔''اتنا کہہ کر کچھ دیر تک بالکل ہی خاموش رہے پھر بلند آواز سے یہ فرمایا: ''سچ کہا، سچ کہا ابوبکرصدیق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے جو نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے خلیفہ ہیں ، قوی ہیں ، امین ہیں، گو بدن میں کمزور تھے لیکن اللہ تعالیٰ کے کام میں قوی تھے ۔ یہ با ت اللہ تعالیٰ کی پہلی کتابوں میں ہے۔'' اتنا فرمانے کے بعد پھر ان کی زبان بند ہوگئی اورتھوڑ ی دیر تک بالکل خاموش رہے پھر ان کی زبان پر یہ کلمات جاری ہوگئے اوروہ زور زور سے بولنے لگے:''سچ کہا، سچ کہا درمیان کے خلیفہ اللہ تعالیٰ کے بندے امیر المؤمنین حضرت عمربن خطا ب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کو خاطر میں نہیں لاتے تھے نہ اس کی کوئی پروا کرتے تھے اور وہ لوگوں کو اس بات سے روکتے تھے کہ کوئی قوی کسی کمزور کوکھاجائے اوریہ بات اللہ تعالیٰ کی پہلی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے۔''
    اس کے بعد پھر وہ تھوڑی دیر تک خاموش رہے پھر ان کی زبان پر یہ کلمات جاری ہوگئے اورزور زور سے بولنے لگے :''سچ کہا، سچ کہا حضرت عثمان غنی ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے جو امیر المؤمنین ہیں اورمؤمنوں پر رحم فرمانے والے ہیں ۔ دوباتیں گزرگئیں اور چار باقی ہیں جو یہ ہیں1)لوگوں میں اختلاف ہوجائے گااور ان کے لیے کوئی نظام نہ رہ جائے گا۔(۲)سب عورتیں رونے لگیں گی اور ان کی پردہ دری ہوجائے گی۔ (۳)قیامت قریب ہوجائے گی ۔(۴)بعض آدمی بعض کو کھاجائے گا ۔''اس کے بعد ان کی زبان بالکل بند ہوگئی ۔
         (طبرانی والبدایہ والنہایہ،ج۶،ص۱۵۶ واسدالغابہ،ج۲،ص۲۲۷)

 

Edited by Najam Mirani
Link to comment
Share on other sites

قلیب بدر کا واقعہ خاص واقعہ ہے ، جس سے یہ لازم نہیں آتا کہ مُردے ہر وقت سنتے ہیں اور ہر بات سنتے ہیں۔ اسی طرح یہ واقعہ اس پر بھی دلالت نہیں کرتا کہ دوسرے مُردے بھی سنتے ہیں۔
جن صحابہ نے صراحتاً اس عقیدہ کا اظہار کیا تھا کہ :
مُردے کیسے سن سکتے ہیں؟
اُس کی وضاحت حضرت انس کی روایت میں پائی جاتی ہے جسے امام احمد نے بیان کیا ہے :


 

 

...... فسمع عمر صوته فقال يا رسول الله أتناديهم بعد ثلاث وهل يسمعون يقول الله عز وجل إنك لا تسمع الموتى فقال والذي نفسي بيده ما أنتم بأسمع منهم ولكنهم لا يستطيعون أن يجيبوا‏.‏‏

جب حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مُردوں سے ہمکلام ہوتے ہوئے دیکھا تو کہا :
اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)! آپ تین دنوں کے بعد ان کو آواز دے رہے ہیں، کیا یہ سنتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے:
إنك لا تسمع الموتى
(آپ مُردوں کو سنا نہیں سکتے)
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، ان سے زیادہ تم میری بات کو نہیں سن رہے ہو لیکن یہ لوگ جواب نہیں دے سکتے۔
[ شیخ البانی اور شیخ ارناوؤط سے اس حدیث کو صحیح کہا ہے]

دیکھ لیجئے کہ اس حدیث میں حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے صراحت کے ساتھ یہ ذکر کیا کہ
ان کے اس سوال کی بنیاد مذکورہ آیت ہے
اور اس آیت سے تمام صحابہ نے ایک عام مفہوم مراد لیا ہے جس میں قلیبِ بدر کے مُردے بھی داخل ہیں ، اس لیے انہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) سے دو ٹوک باتیں کیں تاکہ کوئی اشکال باقی نہ رہ جائے!

اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ :
صحابہ نے آیت کا جو مفہوم مراد لیا تھا ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس کو صحیح قرار دیا۔
وہ اس طرح کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس مفہوم کا انکار کیا اور نہ ہی ان سے یہ کہا کہ :
تم نے آیت کا مفہوم غلط لیا ہے ، یہ آیت تمام مُردوں کو شامل نہیں۔
ہاں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اتنی وضاحت ضرور کر دی کہ ان مُردوں کا معاملہ جداگانہ ہے ، یہ آیت اس سے مستثنیٰ ہے۔

ایک بات کا ذکر کر دینا بہتر ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) نے آیت سے جو استدلال کیا تھا بعینہ وہی استدلال حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کا بھی تھا۔
لہذا حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) کو آج خطاوار ٹھہرانا صحیح نہیں ہے، خاص طور سے اس وقت جبکہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کی تائید کی۔
یہ اور بات ہے کہ حضرت ابن عمر (رضی اللہ عنہ) نے جب اس قصہ کو بیان کیا تو حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) نے اُن کی تردید کی۔

حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) اور دوسرے صحابہ کرام کی روایات کو جمع کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) ہی سے وہم ہوا ہے۔
لیکن ۔۔۔ ان تمام روایتوں میں تطبیق اس طرح دی جا سکتی ہے کہ آیت سے استدلال کرنے میں حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے کوئی غلطی نہیں ہوئی ہے بلکہ اس قصہ کی حقیقت ان سے پوشیدہ تھی۔ اگر ایسی بات نہ ہوتی تو ان کا موقف بھی وہی ہوتا جو تمام صحابہ کا موقف تھا۔
لہذا صحیح موقف یہی ہے کہ یہ قصہ آیت سے مستثنٰی ہے۔

ایک بات قابلِ توجہ یہ ہے کہ :
مسائل کو صحیح طور سے سمجھنے کے لیے ان امور کی رعایت بھی ضروری ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے بطورِ اقرار ثابت ہوں۔ ورنہ احادیث کے سمجھنے میں بسا اوقات غلطی ہو سکتی ہے۔

جیسا کہ اسی ضمن میں دو مثالیں پیش خدمت ہیں:

مثال نمبر:1


حضرت جابر (رضی اللہ عنہ) کی حدیث ام مبشر (رضی اللہ عنہا) روایت کرتی ہیں کہ ۔۔۔
انہوں نے حضرت حفصہ (رضی اللہ عنہا) کے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ
لا يدخل النار ان شاء الله من اصحاب الشجرة احد ‏.‏
ان شاءاللہ جو لوگ بیعتِ رضوان میں شریک تھے ان میں سے کوئی جہنم میں داخل نہیں ہوگا۔
حفصہ (رضی اللہ عنہا) نے کہا : کیوں نہیں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)؟
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اُن کو ڈانٹا ، پھر حضرت حفصہ (رضی اللہ عنہا) نے کہا :
اللہ نے فرمایا ہے :
{‏ وان منكم الا واردها‏}
تم میں سے کوئی ایسا نہیں جو جہنم پر وارد نہ ہو۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کہا ، اللہ یہ بھی کہتا ہے :
‏{‏ ثم ننجي الذين اتقوا ونذر الظالمين فيها جثيا‏}‏
ہم ان لوگوں کو بچا لیں گے جو دنیا میں متقی تھے اور ظالموں کو اسی میں گرا ہوا چھوڑ دیں گے۔

حضرت حفصہ (رضی اللہ عنہا) نے آیت سے یہ استدلال کیا تھا کہ : جہنم میں ہر شخص داخل ہوگا خواہ وہ نیک ہو یا بد ، اسی لیے جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ کہا : بیعتِ رضوان میں شریک ہونے والوں میں سے کوئی دوزخ میں داخل نہیں ہوگا ، تو اُن کو اشکال ہوا اور یہ آیت پیش کی۔ لہذا نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ان کا یہ اشکال اس طرح دور کیا کہ ان کو پوری آیت پڑھ کر سنائی۔
لہذا اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ حضرت حفصہ (رضی اللہ عنہا) نے آیت کا جو مفہوم سمجھا تھا ، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس کا انکار نہیں کیا بلکہ ۔۔۔۔ آیت کے اندر اس سے کون لوگ مراد ہیں اور حدیث کے اندر کون ہیں ، اس کی وضاحت کر دی ۔۔۔۔ جس کا خلاصہ یوں ہے کہ :
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ بیعتِ رضوان میں شریک ہونے والوں کو عذاب نہیں ہوگا ، ہاں جہنم سے گزرتے ہوئے جنت میں داخل ہوں گے۔ اور آیت کا مفہوم یہ ہے کہ تمام لوگ جہنم سے گزریں گے ، کچھ لوگ تو اس کے عذاب میں گرفتار ہو جائیں گے اور کچھ لوگ اس سے محفوظ رہ کر جنت میں چلے جائیں گے۔


مثال نمبر:2


ام المومنین حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) میرے پاس آئے ، اس وقت انصار کی دو لڑکیاں منیٰ کے دنوں میں دف بجا کر انصار کے کے اُن کارناموں کو بیان کر رہی تھیں جو انہوں نے جنگِ بعاث میں انجام دئے تھے، یہ لڑکیاں گانے والی نہیں تھیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنا رُخِ انور دوسری طرف کر کے لیٹ گئے۔ اسی دوران حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) داخل ہوئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے اوپر کپڑا ڈھانکے ہوئے تھے۔
حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے مجھے ڈانٹا اور کہا کہ شیطانوں کی بانسری محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے گھر میں؟
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنا چہرۂ مبارک کھولا اور ان کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا : ابوبکر ! رہنے دو ، ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے ، آج ہماری عید کا دن ہے۔
حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) فرماتی ہیں جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) ذرا ان لڑکیوں کی طرف سے غافل ہوئے تو میں نے اُن کو اشارہ کیا اور وہ واپس چلی گئیں۔

اس حدیث کے اندر آپ دیکھئے گا کہ ۔۔۔۔۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کی اس بات کا انکار نہیں کیا کہ ۔۔۔
مزمارة الشيطان (گانا بجانا شیطان کا فعل ہے)
اور نہ ہی جب ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے ڈانٹا تو اس کو برا سمجھا ، بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کی دونوں باتوں کو برقرار رکھا ، لہذا معلوم ہوا کہ یہ چیز درست ہے، اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔
لیکن دیکھنے کی مزید بات یہ ہے کہ ۔۔۔۔
حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) نے یہ بات کیسے کہی کہ : یہ شیطان کا فعل ہے؟؟
ظاہر سی بات ہے کہ انہوں نے اس چیز کو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہی سے حاصل کیا تھا ، جیسا کہ گانے بجانے کے متعلق بےشمار احادیث موجود ہیں۔
اگر حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کو پہلے سے اس کا علم نہ ہوتا اور اس موقف میں وہ حق پر نہ ہوتے تو کبھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے سامنے اس قسم کی جراءت نہ کرتے۔
ہاں حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کو یہ نہیں معلوم تھا کہ :
عید اور خوشی کے موقع پر اس نوعیت کا گانا بجانا درست ہے جس کی طرف نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اشارہ کیا۔

لہذا ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کا انکار اپنی جگہ مسلم تھا ، کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اسے برقرار رکھا لیکن اس سے یہ مستثنیٰ کر دیا کہ عید کے موقع پر اس نوعیت کا گانا بجانا جائز ہے۔

خلاصہ :
چنانچہ معلوم ہوا کہ جس طرح حضرت ابوبکر (رضی اللہ عنہ) کے انکار کو برقرار رکھتے ہوئے یہ بیان کیا کہ جس نوعیت کا گانا بجانا یہ لڑکیاں کر رہی تھیں ، عید کے موقع پر اتنا جائز ہے ۔۔۔۔
بالکل اسی طرح ۔۔۔۔

قلیب بدر کی حدیث میں حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کے انکار کو برقرار رکھا اور ایک خاص حکم بیان کیا کہ تمہاری بات صحیح ہے کہ مُردے سنا نہیں کرتے لیکن یہ مُردے اِس وقت سن رہے ہیں !!

Link to comment
Share on other sites

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر میں ھلاک ھونے والوں کو خطاب فرمایا کہ:



حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے روز بدر قریش کے چوبیس سربرآوردہ اشخاص کو بدر کے کنوؤں میں ایک گندے پلید کنویں میں پھنکوادیا، حضور کاطریقہ یہ تھا کہ جب کسی قوم پر فتحیاب ہوتے تو میدان میں تین دن قیام فرماتے، جب بدرکا تیسرا دن تھا تو سواری مبارک پر کجاوہ کسوایا، پھر چلے، صحابہ نے ہمر کابی کی، اور کہا ہمارا یہی خیال ہے کہ اپنے کسی کام سے تشریف لے جارہے ہیں، یہاں تک کہ کنویں کے سرے پر ٹھہر کران کا اور ان کے آباء کانام لے لے کر اے فلاں بن فلاں اور اے فلاں بن فلاں کہہ کر پکارنے لگے، فرمایا ''کیا اس سے تمھیں خوشی ہوتی کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم تم نے مانا ہوتا، ہم نے تو حق پایا وہ جس کا ہمارے رب نے ہم سے وعدہ فرمایا تھا، کیا تم نے اس کو ثابت پایا جو تمھارے رب نے تم سے وعدہ کیا تھا ''۔۔۔۔



 

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا سوال


۔۔ ( ذرا غور سے پڑھئیے گا انشاء اللہ سب سمجھ آجائے گا)



یا رسول اللہ کیف تکلم اجساد الا ارواح فیھا؟

(یا رسول اللہ آپ ایسے جسموں سے کلام فرما رھے جن میں روح موجود نہیں!)
بخاری جلد ۲ صفحہ ۵۶۶ ، مسند احمد جلد صفحہ ۳۵۷

صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1176



اسی طرح دوسری روایت میں موجود ھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :



یارسول اللہ کیف اتنا دیھم بعد ثلاث و ھل یسمعون یقول اللہ عزوجل "اِنَّکَ لَا تُسۡمِعُ الۡمَوۡتٰی"



یارسول اللہ آپ ان سے گفتگو فرما رھے ھیں جن کو ھلاک ہوئے تین دن گزر چکے ہیں حالانکہ اللہ رب العزت فرماتے ھیں آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔

مسند احمد جلد ۲ صفحہ ۲۸۷

یہ چیزیں معلوم ہوئیں:
1- حضرت عمر رضی اللہ عنہ اعادہ روح،اور جسم میں روح کے حلول و دخول کے قائل نہیں تھے۔

2-حضرت عمر رضی اللہ عنہ سماع موتٰی کے قائل نھیں تھے۔اگر قائل ہوتے تو کبھی یہ سوال نہ کرتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں سے کلام کر رہے ہیں ؟؟

3- "اِنَّکَ لَا تُسۡمِعُ الۡمَوۡتٰی سے سماع موتیٰ کی نفی ھوتی ھے تب ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بطور دلیل یہ آیت پیش کی۔ اور اس آیت سے استدلال کیا کہ مردے نہیں سنتے۔






ظاہر ہے اب جس کا عقیدہ یہ ہو کہ مردے سنتے ہیں تو وہ ایسے سوال کیوں پوچھے گا ازراہِ تعجب سے ۔۔ اور کیوں دلیل پیش کرے گا! جبکہ آپ نے دیکھا حضرت عمر نے سوال کے ساتھ دلیل بھی پیش کی "انک لا تسمع الموتٰی "۔۔۔

یہ آیت قرآن میں ہے ۔۔۔

-Surah Roum 52

فَاِنَّکَ لَا تُسۡمِعُ الۡمَوۡتٰی وَ لَا تُسۡمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوۡا مُدۡبِرِیۡنَ

بیشک آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے (١) اور نہ بہروں کو (اپنی) آواز سنا سکتے ہیں (٢) جب کہ وہ پیٹھ پھیر کر مڑ گئے ہوں۔

تو میرے خیال میں ہم،تم سے ذیادہ قرآن سمجھنے والے حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے انہوں نے یہ آیت پیش کر کے بتا دیا کہ اس آیت سے سماعِ موتٰی کی نفی ہوتی ہے۔اور اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثِ تقرری بھی بنتی ہے کہ آپﷺ نے اس پر خاموشی اختیار فرمائی اور منع نہیں کیا کہ نہیں عمر اس آیت کا مطلب وہ نہیں جو تم لے رہے ہو ۔۔ آگے آپ جواب ملاحظہ کریں بات واضح ہو جائے گی۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب:




’’انھم الان یسمعون ما اقول لھم‘‘ بخاری شریف جلد ۲ صفحہ ۵۷۶

جو بات میں ان سے کہ رھا ھوں وہ اس وقت اسکو سن رھے ھیں

ایک اور جگہ ہے کہ:

رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد کی جان ہے میری بات تم ان سے زیادہ نہیں سنتے،

اب جواب پر غور فرمائیں یہ جواب آگے خود واضح ھو جائے گا

صرف یہ مردے (ھر مردہ نھیں ) صرف اس وقت (ھر وقت نہیں) ، صرف میری (ھر ایک کی بھی نہیں) بات سن رھے ھیں

حضرت قتادہ تابعی رحمہ اللہ علیہ کا قول نقل کر رھا ھوں۔

قال قتادہ احیا ھم اللہ حتی اسمعھم قولہ تو بیحا و تصغیرا و نقمۃ و حسرۃ و ند ما (بخاری شریف جلد ۲، صفحہ ۲۶۶)

حضرت قتادہ تابعی رحمہ اللہ علیہ نے اس حدیث کی تفسیر میں کہا ھے کہ اللہ نے کچھ دیر کے لیئے ان مردوں کو زندہ کر دیا تھا کہ نبی کریم صلی علیہ و وسلم کی بات سنا دے، افسوس دلانے اور ندامت کے لئیے ،

(گویا یہ نبی کریم صلی علیہ و وسلم کا معجزہ تھا)

ما کلامہ علیہ السلام اھل القلیب فقد کانت معجزۃ لہ علیہ السلام

بدر کے کنویں میں پڑے ھوئے کفار مردوں سے کلام کرنا امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا۔

شرح ھدایہ جلد ۲ صفحہ ۴۸۴

فتح القدیر جلد ۲ صفحہ ۴۴۷

روح المعانی صفحہ ۵۰

مشکوٰۃ ، باب المعجزات صفحہ ۵۴۳





اب جواب دوبارہ پڑھئیے ، غور کیجئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کہا:



صرف یہ مردے (ھر مردہ نھیں ) صرف اس وقت (ھر وقت نہیں) ، صرف میری (ھر ایک کی بھی نہیں)



بخاری شریف جلد ۲ صفحہ ۵۶۷


"پس ثابت ہوا کہ بدر کے مردوں سے کلام کرنا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا اور عموم میں ایسا نہیں ہوتا ۔ یہ معجزہ تھا (خرقِ عادت) اور اس پر ہم عقیدہ قائم نہیں کر سکتے کہ تمام مردے ہر وقت سنتے ہیں ۔ "

Link to comment
Share on other sites

یہ استثنائی صورت کو مطلق پر قیاس کر کے بیٹھے ھیں

ویسے کیسی مزے کی بات ھے کہ ان کی پکار تو مردے سنتے ھیں۔ مگر عذاب قبر کے دوران جو مردے کو گرز اور ہتھوڑے مارے جاتے ھیں اور وہ چیختا ھے اس کی آواز یہ نہیں سنتے ۔ اس بات پر بندہ ہنس ہی سکتا ھے

Link to comment
Share on other sites

 

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر میں ھلاک ھونے والوں کو خطاب فرمایا کہ:

 

 

 

حضرت ابو طلحہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے روز بدر قریش کے چوبیس سربرآوردہ اشخاص کو بدر کے کنوؤں میں ایک گندے پلید کنویں میں پھنکوادیا، حضور کاطریقہ یہ تھا کہ جب کسی قوم پر فتحیاب ہوتے تو میدان میں تین دن قیام فرماتے، جب بدرکا تیسرا دن تھا تو سواری مبارک پر کجاوہ کسوایا، پھر چلے، صحابہ نے ہمر کابی کی، اور کہا ہمارا یہی خیال ہے کہ اپنے کسی کام سے تشریف لے جارہے ہیں، یہاں تک کہ کنویں کے سرے پر ٹھہر کران کا اور ان کے آباء کانام لے لے کر اے فلاں بن فلاں اور اے فلاں بن فلاں کہہ کر پکارنے لگے، فرمایا ''کیا اس سے تمھیں خوشی ہوتی کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم تم نے مانا ہوتا، ہم نے تو حق پایا وہ جس کا ہمارے رب نے ہم سے وعدہ فرمایا تھا، کیا تم نے اس کو ثابت پایا جو تمھارے رب نے تم سے وعدہ کیا تھا ''۔۔۔۔

 

 

.........

 

tafseer ibne kaseer

post-9933-0-22114800-1368397982_thumb.jpg

post-9933-0-31321700-1368397995_thumb.jpg

 

hazrat umer ke bare me 2nd post hadees parhlo,

Edited by Zulfi.Boy
Link to comment
Share on other sites

  • 1 year later...

صالحین بعد از وصال مدد بھی کرتے ہیں اور مردے سنتے ہیں آیات ملاحظہ ہوں
(1)وَ اِذْ اَخَذَ اللہُ مِیثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَا  اٰتَیتُکُم مِّن کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآءَکُمْ رَسُولٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنصُرُنَّہٗ ؕ    (پ3:،اٰل عمرٰن:( 81
اور وہ وقت یا د کرو جب اللہ نے نبیوں کا عہد لیا کہ جب میں تم کو کتاب اور حکمت دوں پھر تمہارے پاس رسول تشریف لاویں جوتمہاری کتابوں کی تصدیق کریں تو تم ان پر ایمان لانا اور ان کی مدد کرنا ۔
اس آیت سے معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ نے تمام پیغمبروں سے عہد لیا کہ تم محمد مصطفٰی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانا اور ان کی مدد کرنا حالانکہ وہ پیغمبر آپ کے زمانہ میں وفات پاچکے تو پتا لگا کہ وہ حضرات بعد وفات حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان بھی لا ئے اور روحانی مدد بھی کی چنانچہ سب نبیوں نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے معراج کی رات نماز پڑھی یہ اس ایمان کا ثبوت ہوا ،حج وداع میں بہت سے پیغمبر آپ کے ساتھ حج میں شریک ہوئے او رموسی علیہ السلام نے اسلام والوں کی مدد کی کہ پچاس نماز وں کی پانچ کرادیں ، آخرمیں عیسٰی علیہ السلام بھی ظاہر ی مدد کے لئے آئیں گے اموات کی مدد ثابت ہوئی۔
(2)وَلَوْ اَنَّہُمْ اِذ ظَّلَمُوا اَنفُسَہُمْ جَآءُوکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللہَ وَاسْتَغْفَرَ لَہُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیمًا ﴿۶۴
اور اگر یہ لوگ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو تمہارے پاس آجاویں پھر خدا سے مغفرت مانگیں اور رسول بھی ان کیلئے دعاء مغفرت کریں تو اللہ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ۔(پ5،النساء:64)
ا س آیت سے معلوم ہو اکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی مدد سے تو بہ قبول ہوتی ہے اوریہ مدد زندگی سے خاص نہیں بلکہ قیامت تک یہ حکم ہے یعنی بعد وفات بھی ہماری توبہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہی کی مدد سے قبول ہوگی بعد وفات مدد ثابت ہو ئی ۔ اسی لئے آج بھی حاجیوں کو حکم ہے کہ مدینہ منورہ میں سلام پڑھتے وقت یہ آیت پڑھ لیا کریں اگر یہ آیت فقط زندگی کے لئے تھی تو اب وہاں حاضری کا اور اس آیت کے پڑھنے کا حکم کیوں ہے ۔
(3)وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِینَ ﴿۱۰۷
اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر جہانوں کے لئے رحمت ۔(پ17،الانبیاء:107)
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تمام جہانوں کی رحمت ہیں اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم
کی وفات کے بعد بھی جہان تو رہے گا اگر آپ کی مدد اب بھی باقی نہ ہو تو عالم رحمت سے خالی ہوگیا ۔
(4)  وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ  بَشِیر"ا وَّ نَذِی را"                         
اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو مگر تمام لوگوں کے لئے بشیر اور نذیر بناکر ۔(پ22،سبا:28)
اس   لِلنَّاسِ   میں وہ لوگ بھی داخل ہیں جو حضور صلی اللہ تعالیٰ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد آئے او رآپ کی یہ  مدد  تا قیامت جاری ہے ۔
(5)وَکَانُوا مِن قَبْلُ یَسْتَفْتِحُونَ عَلَی الَّذِینَ کَفَرُوا ۚ فَلَمَّا جَآءَہُم مَّا عَرَفُوا کَفَرُوا بِہ
ٖ ۫اور یہ بنی اسرائیل کافروں کے مقابلہ میں اسی رسول کے ذریعہ سے فتح کی دعا کرتے تھے پھر جب وہ جانا ہوا رسول ان کے پاس آیا تو یہ ان کاانکار کر بیٹھے ۔(پ1،البقرۃ:89)
معلوم ہواکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے بھی لوگ آپ کے نام کی مدد سے دعائیں کرتے اور فتح حاصل کرتے تھے ۔ جب حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی مدد دنیا میں آنے سے پہلے شامل حال تھی تو بعد بھی رہے گی، اسی لئے آج بھی حضور کے نام کا کلمہ مسلمان بناتا ہے۔
درود شریف سے آفات دور ہوتی ہیں۔ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے تبرکات سے فائدہ ہوتاہے۔ موسیٰ علیہ السلام کے تبرکات سے بنی اسرئیل جنگوں میں فتح حاصل کرتے تھے ۔ یہ سب بعد وفات کی مدد ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ وآلہ وسلم ! اب بھی بحیات حقیقی زندہ ہیں ایک آن کے لیئے موت طاری ہوئی اور پھر دائمی زندگی عطا فرما دی گئی قرآن کریم تو شہیدوں کی زندگی کا بھی اعلان فرما رہا ہے۔
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کاثبوت یہ ہے کہ زندوں کے لئے کہا جاتا ہے کہ فلاں عالم ہے ، حافظ ہے ، قاضی ہے اور ُمردوں کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ عالم تھا ، زندوں کے لئے ہے او ر ُمردوں کے لئے 'تھا استعمال ہوتا ہے۔ نبی کا کلمہ جو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم آپ کی زندگی میں پڑھتے تھے وہی کلمہ قیامت تک پڑھا جائے گا کہ حضور اللہ کے رسول ہیں۔ صحابہ کرام بھی کہتے تھے کہ حضور اللہ کے رسول ہیں۔ شفیع المذنبین ، رحمۃ للعالمین ہیں اور ہم بھی یہ ہی کہتے ہیں اگر آپ زندہ نہ ہوتے توہمارا کلمہ بدل جانا چاہئے تھا ہم کلمہ یوں پڑھتے کہ حضور اللہ تعالیٰ کے رسول تھے ،جب آپ کا کلمہ نہ بدلا تو معلوم ہو اکہ آپ کا حال بھی نہ بدلا لہٰذا آپ اپنی زندگی شریف کی طر ح ہی سب کی مدد فرماتے ہیں ہاں اس زندگی کا ہم کو احساس نہیں ۔
مُردو ں کا سننا
مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ مردے سنتے ہیں اور زندوں کے حالات دیکھتے ہیں کچھ اجمالی طور سے یہاں عرض کیا جاتا ہے ۔
    جب قرآن شریف میں مُردے ، اندھے، بہرے، گو نگے ، قبر والے کے ساتھ نہ لوٹنے ، نہ ہدایت پانے، نہ سنا نے وغیرہ کا ذکر ہوگا تو ان لفظوں سے مراد کافر ہونگے یعنی دل کے مردے ، دل کے اندھے وغیر ہ عام مردے وغیر ہ مراد نہ ہوں گے اور ان کے نہ سنانے سے مراد ان کا ہدایت نہ پانا ہوگا نہ کہ واقع میں نہ سننا ۔ اور ان آیات کامطلب یہ ہوگا کہ آپ ان دل کے مردے ، اندھے ، بہر ے کافروں کو نہیں سنا سکتے جس سے وہ ہدایت پرآجاویں یہ مطلب نہ ہوگا کہ آپ مردو ں کو نہیں سنا سکتے مثال یہ ہے ۔
(1) صُمٌّ بُکْمٌ عُمْیٌ فَہُمْ لَا یَرْجِعُونَ ﴿۱۸﴾   (پ1،البقرۃ:18)
یہ کافر بہرے ، گونگے، اندھے ہیں پس وہ نہ لوٹیں گے ۔
(2) وَمَن کَانَ فِی ہٰذِہٖ اَعْمٰی فَہُوَ فِی الاٰخِرَۃِ اَعْمٰی وَ اَضَلُّ سَبِیلًا ﴿۷۲﴾  (پ15،بنی اسرآء یل:72)
جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ آخرت میں بھی اندھا ہے اورراستے سے بہکا ہوا ہے ۔  
یہ آیا ت قرآن شریف میں بہت جگہ آئی ہیں اور ان سب میں مردو ں، اندھوں ،بہروں سے مراد کفار ہی ہیں نہ کہ ظاہری آنکھو ں کے اندھے او ربے جان مردے ۔ ان آیات کی تفسیر ان آیتو ں سے ہو رہی ہے
(3)  اِنَّکَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰی وَلَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِین  وَمَا اَنتَ بِہٰدِی الْعُمْیِ عَن ضَلٰلَتِہِمْ    ؕ اِنتُسْمِعُ اِلَّا مَن یُّؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا فَہُم مُّسْلِمُونَ ﴿۸۱﴾    (پ20،النمل:80،81)
بے شک تم نہیں سنا سکتے مردوں کو اور نہ سناسکتے ہو بہروں کو جب پھر یں پیٹھ دے کر اورنہ تم اندھوں کو ہدایت کرنے والے ہو ۔ نہیں سنا سکتے تم مگر ان کو جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں اور وہ مسلمان ہیں۔
    اس آیت میں مردے اور اندھے ،بہر ے کا مقابلہ مومن سے کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ مردو ں سے مراد کا فرہیں۔
(4)فَتَوَلّٰی عَنْہُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّی وَنَصَحْتُ لَکُمْ ۚ فَکَیفَ اٰسٰی عَلٰی قَوْمٍ کٰفِرِینَ ﴿۹۳
توشعیب نے ان مرے ہوؤں سے منہ پھیر ا اور کہا اے میری قوم میں تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچا چکا اور تمہیں نصیحت کی تو کیوں کرغم کرو ں کافروں پر ۔(پ9،الاعراف:93 )
ان آیتو ں سے معلوم ہوا کہ صالح علیہ السلام اور شعیب علیہ السلام نے ہلاک شدہ قوم پر کھڑے ہوکر ان سے یہ باتیں کیں۔
(5)وَسْـَٔلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِن قَبْلِکَ مِن رُّسُلِنَا ٭ اَجَعَلْنَا مِن دُونِ الرَّحْمٰنِ اٰلِـہَۃً یُّعْبَدُونَ ٪۴۵
ان رسولوں سے پوچھو جو ہم نے آپ سے پہلے بھیجے کیا ہم نے رحمٰن کے سوا اور خدا ٹھہرائے ہیں جو پوجے جائیں ۔(پ25،الزخرف:45)
گزشتہ نبی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں وفات پاچکے تھے فرمایا جارہاہے کہ وفات یافتہ رسولوں سے پوچھو کہ ہم نے شرک کی اجازت نہ دی تو ان کی امتیں ان پر تہمت لگاکر کہتی ہیں کہ ہمیں شرک کا حکم ہمارے پیغمبروں نے دیا ہے۔ اگر مردے نہیں سنتے توان سے پوچھنے کے کیا معنی ؟
بلکہ اس تیسری آیت سے تو یہ معلوم ہوا کہ خاص بزرگو ں کو  ُمردے جواب بھی دیتے ہیں اور وہ جواب بھی سن لیتے ہیں ۔ اب بھی کشف قبور کرنے والے مردوں سے سوال کرلیتے ہیں ۔ اس لئے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے بدر کے مقتول کافروں سے پکارکرفرمایا کہ "بولو میرے تمام فرمان سچے تھے یا نہیں"۔ فاروق اعظم نے عرض کیا کہ بے جان مردو ں سے آپ کلام کیوں فرماتے ہیں تو فرمایا "وہ تم سے زیادہ سنتے ہیں" ۔
(صحیح البخاری،کتاب الجنائز، باب فی عذاب القبر، الحدیث1370،ج1،ص462،دار الکتب العلمیۃبیروت)
دوسری روایت میں ہے کہ دفن کے بعد جب زندے واپس ہوتے ہیں تو مردہ ان کے پاؤں کی آہٹ سنتا ہے۔ (مکاشفۃ القلوب،الباب الخامس والاربعون فی بیان القبر وسؤالہ،ص۱۷۱،دار الکتب العلمیۃبیروت)
​(6)فَاَخَذَتْہُمُ الرَّجْفَۃُ فَاَصْبَحُوا فِی دَارِہِمْ جٰثِمِینَ ﴿۷۸﴾فَتَوَلّٰی عَنْہُمْ وَقَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُکُمْ رِسَالَۃَ رَبِّی وَنَصَحْتُ لَکُمْ وَلٰکِن لَّاتُحِبُّونَ النّٰصِحِینَ ﴿۷۹       (پ8،الاعراف:78۔79)
پس پکڑلیاقوم صالح کو زلزلے نے تو وہ صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے پھر صالح نے ان سے منہ پھیرا اورکہا کہ اے میری قوم میں نے تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچادی اور تمہاری خیر خواہی کی لیکن تم خیرخواہوں کوپسند نہیں کرتے ۔
   (7) وَ الَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ فِی اٰذَانِہِمْ وَقْرٌ وَّ ہُوَ عَلَیہِمْ عَمًی ؕ اُولٰٓئِکَ یُنَادَوْنَ مِن مَّکَانٍ بَعِیدٍ ٪۴۴﴾
اورجو ایمان نہیں لائے ان کے کانوں میں ٹینٹ ہیں اوروہ ان پر اندھا پن ہے گویا وہ دور جگہ سے پکارے جارہے ہیں۔(پ24،حٰم السجدۃ:44)
اس آیت نے بتایا کہ کافر گویا اندھا، بہرا ہے ۔
(8) اُولٰٓئِکَ الَّذِینَ لَعَنَہُمُ اللہُ فَاَصَمَّہُمْ وَ اَعْمٰی اَبْصَارَہُمْ ﴿۲۳﴾  ۔(پ26،محمد:23)
یہ کفار وہ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کردی پس انہیں بہرا کردیا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کردیا ۔
    اس آیت سے معلوم ہوا کہ لعنت سے آدمی اندھا، بہر ا ہوجاتا ہے یعنی دل کا اندھا ،بہرا
   ہماری ان مذکورہ آیتوں نے بتادیا کہ جہاں مردو ں کے سننے سنانے کی نفی کی گئی ہے وہاں مردو ں سے مراد کافر ہیں ۔ ان آیتو ں سے یہ ثابت کرنا کہ مردے سنتے نہیں بالکل جہالت ہے۔
اسی لئے ہم نمازوں میں حضو ر صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کرتے ہیں اور کھانا کھانے والے ، استنجا کرنے والے، سوتے ہوئے کو سلام کرنا منع ہے کیونکہ وہ جواب نہیں دے سکتے تو جو جواب نہ دے سکے اسے سلام کرنا منع ہے اگر قبر والے نہ سنتے ہوتے تو قبر ستا ن جاتے وقت ا نہیں سلام نہ کیا جاتا اور نماز میں حضور کو سلام نہ ہوتا۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ قبر والے کسی کی بھی نہیں سنتے ،حتٰی کہ نبی کی بھی نہیں  اور وہ لوگ دلیل کے طور پریہ آیت پیش کرتے ہیں  :
وَمَا یَسْتَوِی الْاَحْیَآءُ وَ لَا الْاَمْوٰتُ اِنَّ اللہَ یُسْمِعُ مَن یَّشَآءُ ۚ وَ مَا اَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِی الْقُبُورِ
(پارہ 22،  سورہ فاطر  ،آیت  22)
اور برابر نہیں زندے اور مردے  بیشک اللّٰہ سناتا ہے جسے چاہے اور تم نہیں سنانے والے انہیں جو قبروں میں پڑے ہیں۔
اس آیت میں کُفّارکو مُردوں سے تشبیہ دی گئی کہ جس طرح مردے سنی ہوئی بات سے نفع نہیں اٹھا سکتے اور پند پذیر نہیں ہوتے ، بدانجام کُفّار کا بھی یہی حال ہے کہ وہ ہدایت و نصیحت سے منتفع نہیں ہوتے ۔ اس آیت سے مُردوں کے نہ سننے پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ آیت میں قبر والوں سے مراد کُفّار ہیں نہ کہ مردے اور سننے سے مراد وہ سنتا ہے جس پر راہ یابی کا نفع مرتب ہو ، رہا مُردوں کا سننا وہ احادیثِ کثیرہ سے ثابت ہے ۔
ضروری ہدایت:    زندگی میں لوگوں کی سننے کی طاقت مختلف ہوتی ہے بعض قریب سے سنتے ہیں جیسے عام لوگ او ر بعض دور سے بھی سن لیتے ہیں جیسے پیغمبر اور اولیاءاللہ۔ مرنے کے بعد یہ طاقت بڑھتی ہے گھٹتی نہیں لہٰذا عام مردو ں کو ان کے قبرستان میں جاکرپکار سکتے ہیں دور سے نہیں لیکن انبیاء واولیاءاللہ علیہم الصلوۃ والسلام کو دور سے بھی پکارسکتے ہیں کیونکہ وہ جب زندگی میں دور سے سنتے تھے تو بعدوفات بھی سنیں گے۔ لہٰذا حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو ہرجگہ سے سلام عرض کرو مگر دوسرے مردو ں کو صرف قبر پر جاکر دور سے نہیں۔
دوسری ہدایت:   اگرچہ مرنے کے بعد رو ح اپنے مقام پر رہتی ہے لیکن اس کا تعلق قبر سے ضرورر ہتا ہے کہ عام مردو ں کو قبر پرجا کر پکارا جاوے تو سنیں گے مگر اور جگہ سے نہیں ۔جیسے سونے والا آدمی کہ اس کی ایک روح نکل کر عالم میں سیر کرتی ہے لیکن اگر اس کے جسم کے پاس کھڑے ہوکر آواز دو تو سنے گی ۔ دوسری جگہ سے نہیں سنتی۔
خطیب نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی، کہ رسول اﷲصلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا: جب کوئی شخص ایسے کی قبر پر گزرے جسے دنیا میں پہچانتا تھا اور اس پر سلام کرے تو وہ مُردہ اسے پہچانتا ہے اور اس کے سلام کا جواب دیتا ہے۔( 'تاریخ بغداد، رقم: ۳۱۷۵،ج۷،ص98-(99
صحیح مسلم میں بریدہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی، کہ رسول اﷲصلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم لوگوں کو تعلیم دیتے تھے کہ جب قبروں کے پاس جائیں یہ کہیں۔
    اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَاِنَّا اِنْ شَآءَ اللہُ بِکُمْ لَاحِقُوْنَ نَسْأَلُ اللہَ لَنَا وَلَکُمُ الْعَافِیَۃَ ترجمہ:    اے قبرستان والے مومنو اورمسلمانو! تم پر سلامتی ہو اور انشاء اﷲ عزوجل ہم تم سے آملیں گے ،ہم اﷲ عزوجل سے اپنے لئے اور تمہارے لیے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔
(صحیح مسلم،کتاب الجنائز،باب ما یقال عند دخول القبور...إلخ،الحدیث:۱۰۴۔(۹۷۵)،ص۴۸۵
وسنن ابن ماجہ،کتاب ماجاء في الجنائز،باب ماجاء فیما یقال إذا دخل المقابر،الحدیث:۱۵۴۷،ج۲،ص۲۴۰)
ترمذی نے ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہماسے روایت کی، کہ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم مدینہ میں قبور کے پاس گزرے تو اودھر کو مونھ کرلیا اور یہ فرمایا:
    اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ یَا اَھْلَ الْقُبُوْرِ یَغْفِرُ اللہُ لَنَا وَلَکُمْ اَنْتُمْ سَلَـفُنَا وَنَحْنُ بِالْاَثَرِ
ترجمہ:اے قبرستان والو! تم پر سلامتی ہو،اﷲ عزوجل ہماری اورتمہاری مغفرت فرمائے ،تم ہم سے پہلے چلے گئے اورہم تمہارے پیچھے آنے والے ہیں۔
( 'سنن الترمذي،کتاب الجنائز،باب ما یقول الرجل إذا دخل المقابر،الحدیث:۱۰۵۵،ج۲،ص۳۲۹)
    امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مرتبہ ایک نوجوان صالح کی قبر پر تشریف لے گئے اورفرمایا کہ اے فلاں !اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ
وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰنِ ﴿۴۶
یعنی جو شخص اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرگیااس کے لیے دو جنتیں ہیں۔
     اے نوجوان!بتا تیرا قبر میں کیا حال ہے؟اس نوجوان صالح نے قبر کے اندر سے آپ کا نام لے کر پکارااوربآواز بلند دو مرتبہ جواب دیا کہ میرے رب نے یہ دونوں جنتیں مجھے عطافرماد ی ہیں ۔
(حجۃ اللہ علی العالمین ج۲،ص۸۶۰بحوالہ حاکم)

                                          موت کے بعد گفتگو                                    
    حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت زید بن خارجہ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ منورہ کے بعض راستوں میں ظہر وعصر کے درمیان چلے جارہے تھے کہ ناگہاں گرپڑے اور اچانک ان کی وفات ہوگئی ۔ لوگ انہیں اٹھا کر مدینہ منورہ لائے اور ان کو لٹا کر کمبل اوڑھادیا۔
    جب مغرب وعشاء کے درمیان کچھ عورتوں نے رونا شروع کیا تو کمبل کے اند رسے آواز آئی :
اے رونے والیو!خاموش رہو۔
    یہ آواز سن کر لوگوں نے ان کے چہرے سے کمبل ہٹایا تو وہ بے حد دردمندی سے نہایت ہی بلند آواز سے کہنے لگے: 'حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نبی امی خاتم النبیین ہیں اوریہ بات اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ہے ۔اتنا کہہ کر کچھ دیر تک بالکل ہی خاموش رہے پھر بلند آواز سے یہ فرمایا: 'سچ کہا، سچ کہا ابوبکرصدیق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے جو نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے خلیفہ ہیں ، قوی ہیں ، امین ہیں، گو بدن میں کمزور تھے لیکن اللہ تعالیٰ کے کام میں قوی تھے ۔ یہ با ت اللہ تعالیٰ کی پہلی کتابوں میں ہے۔ اتنا فرمانے کے بعد پھر ان کی زبان بند ہوگئی اورتھوڑ ی دیر تک بالکل خاموش رہے پھر ان کی زبان پر یہ کلمات جاری ہوگئے اوروہ زور زور سے بولنے لگے:سچ کہا، سچ کہا درمیان کے خلیفہ اللہ تعالیٰ کے بندے امیر المؤمنین حضرت عمربن خطا ب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے جو اللہ تعالیٰ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کو خاطر میں نہیں لاتے تھے نہ اس کی کوئی پروا کرتے تھے اور وہ لوگوں کو اس بات سے روکتے تھے کہ کوئی قوی کسی کمزور کوکھاجائے اوریہ بات اللہ تعالیٰ کی پہلی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے۔
    اس کے بعد پھر وہ تھوڑی دیر تک خاموش رہے پھر ان کی زبان پر یہ کلمات جاری ہوگئے اورزور زور سے بولنے لگے :سچ کہا، سچ کہا حضرت عثمان غنی ( رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) نے جو امیر المؤمنین ہیں اورمؤمنوں پر رحم فرمانے والے ہیں ۔ دوباتیں گزرگئیں اور چار باقی ہیں جو یہ ہیں:
(1)لوگوں میں اختلاف ہوجائے گااور ان کے لیے کوئی نظام نہ رہ جائے گا۔
(۲)سب عورتیں رونے لگیں گی اور ان کی پردہ دری ہوجائے گی۔
(۳)قیامت قریب ہوجائے گی ۔
(۴)بعض آدمی بعض کو کھاجائے گا ۔اس کے بعد ان کی زبان بالکل بند ہوگئی ۔
         (طبرانی والبدایہ والنہایہ،ج۶،ص۱۵۶ واسدالغابہ،ج۲،ص۲۲۷)

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...