Jump to content

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو رب تعالیٰ نے بغیر باپ کے پیدا فرمایا


Najam Mirani

تجویز کردہ جواب

 سارے مسلمانوں کا عقیدہ تھا اور ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو رب تعالیٰ نے بغیر باپ کے پیدا فرمایا اور اپنی قدرت کا نمونہ دکھایا مگر اب موجودہ زمانہ میں قادیانیوں نے اس کا انکار کیا ،ان کی دیکھا دیکھی بعض بھولے جاہل مسلمان بھی اس ظاہری مسئلہ کے منکر ہوگئے اور کہنے لگے کہ قرآن سے یہ ثابت نہیں حالانکہ قرآن شریف اس کا بہت زور شورسے اعلان فرمارہاہے ،رب تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

(1) اِنَّ مَثَلَ عِیۡسٰی عِنۡدَ اللہِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ؕ خَلَقَہٗ مِنۡ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ ﴿۵۹﴾اَلْحَقُّ مِنۡ رَّبِّکَ فَلَا تَکُنۡ مِّنَ الْمُمْتَرِیۡنَ ﴿۶۰﴾

بے شک عیسیٰ کی کہاوت اللہ کے نزدیک آدم کی طر ح ہے کہ اسے مٹی سے بنایا پھر اس سے فرمایا کہ ہوجا وہ فوراً ہوجاتا ہے یہ حق ہے تمہارے رب کی طرف سے تو تم شک والوں میں سے نہ ہو۔(پ۳،اٰل عمرٰن:۵۹۔۶۰)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کی پیدا ئش کو آدم علیہ السلام کی پیدائش سے تشبیہ دی کہ جیسے آدم علیہ السلام بغیر نطفے کے پیدا ہوئے ایسے ہی آپ بھی۔ جب آدم علیہ السلام خدا کے بیٹے نہ ہوئے تو اے عیسائیو! عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے کب ہو سکتے ہیں ؟ اگر عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش عام انسانوں کی طر ح ہوتی تو انہیں آدم علیہ السلام سے تشبیہ نہ دی جاتی ۔

 

(2) قَالَتْ اَنّٰی یَکُوۡنُ لِیۡ غُلٰمٌ وَّ لَمْ یَمْسَسْنِیۡ بَشَرٌ
قَالَ کَذٰلِکِ ۚ قَالَ رَبُّکِ ہُوَ عَلَیَّ ہَیِّنٌ ۚ وَ لِنَجْعَلَہٗۤ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَ رَحْمَۃً مِّنَّا ۚ

مریم نے جبریل سے کہا کہ میرے بیٹا کیسے ہوسکتا ہے مجھے تو کسی مردنے چھوا بھی نہیں
فرمایا ایسے ہی ہوگا تمہارے رب نے فرمایا کہ یہ کام مجھ پر آسان ہے اور تا کہ بنائیں ہم اس بچہ کو لوگوں کے لئے نشان اور اپنی طرف سے رحمت۔(پ16، مریم :20)(پ16،مریم:21)
    اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ حضرت مریم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بیٹا ملنے کی خبر پر حیرت کی کہ بغیر مرد کے بیٹا کیسے پیدا ہوگا اور انہیں رب کی طرف سے جواب ملا کہ اس بچہ سے رب تعالیٰ کی قدرت کا اظہار مقصود ہے لہذا ایسے ہی بغیر باپ کے ہوگا، اگر آپ کی پیدائش معمول کے مطابق تھی تو تعجب کے کیا معنی اور رب تعالیٰ کی نشانی کیسی؟

(3) فَاَتَتْ بِہٖ قَوْمَہَا تَحْمِلُہٗ ؕ قَالُوۡا یٰمَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْـًٔا فَرِیًّا ﴿۲۷﴾

تو انہیں گود میں اپنی قوم کے پاس لائیں بولے اے مریم تو نے بہت بری بات کی۔(پ16،مریم:27)
    معلوم ہواکہ عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش پر لوگوں نے حضرت مریم کو بہتان لگایا اگر آپ خاوند والی ہوتیں تو اس بہتان کی کیا وجہ ہوتی ۔

(4) فَاَشَارَتْ اِلَیۡہِ ؕ قَالُوۡا کَیۡفَ نُکَلِّمُ مَنۡ کَانَ فِی الْمَہۡدِ صَبِیًّا ﴿۲۹﴾قَالَ اِنِّیۡ عَبْدُ اللہِ ؕ۟

پھر مریم نے بچہ کی طرف اشارہ کر دیا وہ بولے ہم کیسے بات کریں اس سے جو پالنے میں بچہ ہے بچہ نے فرمایا میں اللہ کا بندہ ہوں ۔(پ16،مریم:29۔30)

 

    اس آیت سے معلوم ہوا کہ رب تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو بچپن میں ہی گویائی دی اور آپ علیہ السلام نے خود اپنی ماں کی پاکدامنی اور رب تعالیٰ کی قدرت بیان فرمائی اگر آپ کی پیدائش باپ سے ہے تو اس معجزے اور گواہی کی ضرورت نہ تھی۔

(5) اِنَّمَا الْمَسِیۡحُ عِیۡسٰی ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوۡلُ اللہِ وَکَلِمَتُہٗ ۚ اَلْقٰىہَاۤ اِلٰی مَرْیَمَ وَرُوۡحٌ مِّنْہُ

عیسیٰ مریم کا بیٹا اللہ کا رسول ہی ہے اور اس کا ایک کلمہ کہ مریم کی طرف بھیجا اور رب کی طر ف سے ایک روح۔(پ6،النسآء:171)
    اس آیت میں عیسیٰ علیہ السلام کو مریم کا بیٹا فرمایا حالانکہ اولاد کی نسبت باپ کی طر ف ہوتی ہے نہ کہ ماں کی طرف آپ کا اگر والد ہوتا تو آپ کی نسبت اسی کی طرف ہونی چاہیے تھی نیز قرآن کریم نے کسی عورت کانام نہ لیا اور نہ کسی کی پیدائش کا واقعہ اس قدر تفصیل سے بیان فرمایا چونکہ آپ کی پیدائش عجیب طر ح صرف ماں سے ہے لہذا ان بی بی کا نام بھی لیا اور واقعہ پیدائش پورے ایک رکوع میں بیان فرمایا ،نیز انہیں کلمۃ اللہ اور اللہ کی روح فرمایا، معلوم ہوا کہ آپ کی پیدائش ایک کلمہ سے ہے اور آپ کی روح مافوق الاسباب آئی ہے ۔

(6) وَیُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَہۡدِ وَکَہۡلًا وَّمِنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۴۶﴾

عیسیٰ کلام کریں گے لوگوں سے پالنے سے اور پکی عمرمیں اور خاص نیکوں میں ہوں گے ۔(پ3،اٰل عمرٰن:46)
    اس آیت سے معلوم ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام کی خصوصیت بچپن اوربڑھاپے میں کلام کرنا ہے بچپن میں کلام کرنا تو اس لئے معجزہ ہے کہ بچے اتنی عمر میں بولا نہیں کرتے اور بڑھاپے میں کلام کرنا اس لئے معجزہ ہے کہ آپ بڑھاپے سے پہلے آسمان پرگئے اور وہاں سے آکربوڑھے ہو کر کلام کریں گے ۔
ان آیات مذکورہ بالا سے روز روشن کی طرح آپکا بغیر باپ کے پیدا ہونا ظاہر ہوا ۔
     اعتراض: اللہ تعالیٰ کا قانون ہے کہ انسا ن بلکہ سارے حیوانات کو نطفے سے پیدا فرمادے او رقانون کی مخالفت ناممکن ہے لہذا عیسیٰ علیہ السلام کا خلاف قانون پیدا ہونا غیر ممکن ہے ۔رب تعالیٰ صاف فرما رہاہے :

(1) اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنۡسَانَ مِنۡ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ ٭ۖ نَّبْتَلِیۡہِ فَجَعَلْنٰہُ سَمِیۡعًۢا بَصِیۡرًا ﴿ۚ ۲﴾

بے شک ہم نے پیدا کیا انسان کو ماں باپ کے مخلوط نطفے سے کہ ہم اسے آزمائیں پس ہم نے اسے سننے دیکھنے والا بنادیا ۔(پ29،الدہر:2)

(2) وَ ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَ مِنَ الْمَآءِ بَشَرًا فَجَعَلَہٗ نَسَبًا وَّ صِہۡرًا ؕ

اور وہی ہے جس نے پانی سے بنایا آدمی پھر اس کے رشتے اور سسرال مقرر کردی۔(پ19،الفرقان:54)

(3) وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ کُلَّ شَیۡءٍ حَیٍّ ؕ اَفَلَا یُؤْمِنُوۡنَ ﴿۳۰﴾

اورہم نے ہر جاندار چیز پانی سے بنائی تو کیا وہ ایمان نہ لائیں گے ۔(پ17،الانبیآء:30)

(4) فَلَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللہِ تَبْدِیۡلًا ۬ۚ

 


اور تم ہر گز اللہ کے قانون کو بدلتا ہوا نہ پاؤگے ۔(پ22،فاطر:43)

(5) وَ لَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِیۡلًا ﴿٪۷۷﴾

اور تم ہمارا قانون بدلتا ہوا نہ پاؤگے ۔(پ15،بنیۤ اسرآء یل:77)

 

    ان آیتو ں سے دو باتیں معلوم ہوئیں ایک یہ کہ تمام انسان اور حیوانات کی پیدائش کا قانون یہ ہے کہ اس کی پیدائش نطفے سے ہو ۔ دوسرے یہ کہ خدا کے قانون میں تبدیلی ناممکن ہے اگر عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش بغیر باپ مانی جائے توان آیات کے خلاف ہوگا ۔
    جواب: اس اعتراض کے دو جواب ہیں ایک الزامی ، دوسرا تحقیقی ۔
    الزامی جواب تو یہ ہے کہ آدم علیہ السلام بغیر نطفے کے پیدا ہوئے ہمارے سروں میں جوئیں ، چارپائی میں کھٹمل ، پیٹ اور زخم میں کیڑے بغیر نطفے کے دن رات پیدا ہوتے ہیں ، برسات میں کیڑے، پھل میں جانور بغیر نطفے کے پیدا ہوتے ہیں بتا ؤ یہ قانون کے خلاف کیوں ہوا ۔
     تحقیقی جواب یہ ہے کہ معجزات اور کرامات اولیاء خود قانون الٰہی ہیں یعنی رب تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ نبی اور ولی پر حیرت انگیز باتیں ظاہر ہو ں تو آپ کا بغیر باپ کے پیدا ہونا اس معجزے کے قانون کے ماتحت ہے تمہاری پیش کردہ آیات کا مطلب یہ ہے کہ مخلوق خدا کے قانون میں تبدیلی نہیں کرسکتی اگر خالق خود کرے تو وہ قادر ہے ۔ انسان کی پیدائش نطفے سے ہونا قانون ہے اور عیسیٰ علیہ السلام کا بغیر نطفے کے ہونا قدرت ہے ہم قانون کو بھی مانتے ہیں او رقدرت کو بھی،رب تعالیٰ قانون کا پابند نہیں ہم پابند ہیں ۔
     دیکھو قانون یہ ہے کہ آگ جلادے مگر ابراہیم علیہ السلام کو نہ جلایا یہ قدرت ہے۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے :

 

قُلْنَا یٰنَارُ کُوۡنِیۡ بَرْدًا وَّ سَلٰمًا عَلٰۤی اِبْرٰہِیۡمَ ﴿ۙ۶۹﴾

ہم نے کہاکہ اے آگ ابراہیم پر ٹھنڈی او رسلامتی والی ہوجا ۔(پ17،الانبیآء:69)
     اسی طر ح او ربہت سارے معجزات کا حال ہے اللہ تعالیٰ قادر وقیوم ہے جو چاہے کرے اس کی قدرتوں کا انکار کرنا اپنے ایما ن سے ہاتھ دھونا ہے۔ رب تعالیٰ ہم سب کو اس راستہ پر چلائے جو اس کے نیک بندوں کا ہے او راس زمانہ کی ہواؤں سے ہمارا ایمان محفو ظ رکھے۔آمین آمین یا رب العالمین!

وصلی اللہ تعالٰی علی خیر خلقہ سیدنا محمد واٰلہ واصحابہ اجمعین آمین برحمتہ وھو ارحم الرحمین.

 

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...