Jump to content

الرحمن علٰی العرش استوٰی کی تحقیق از امام احمد رضا علیہ رحمہ


Najam Mirani

تجویز کردہ جواب

قال اﷲ تعالٰی (اﷲ تعالٰی نے فرمایا):ھو الذی انزل علیک الکتٰب منہ اٰیت محکمٰت ھن ام الکتٰب و اٰخرمتشٰبھٰت فاما الذین فی قلوبھم زیغ فیتبعون ماتشابہ منہ ابتغاء الفتنۃ وابتغاء تاویلہ oومایعلم تاویلہ الا اﷲ م و الراسخون فی العلم یقولون اٰمنّا بہ کل من عند ربنا وما یذکرالا اولوالالباب  ۔۱؂ (موضح القرآن میں اس کا ترجمہ یوں ہے۔ وہی ہے جس نے اتاری تجھ پر کتاب اس میں بعض آیتیں پکی ہیں سو جڑ ہیں کتاب کی، اور دوسری ہیں کئی طرف ملتی، سوجن کے دل ہیں پھرے ہوئے وہ لگتے ہیں ان کے ڈھب والیوں سے ، تلاش کرتے ہیں گمراہی اور تلاش کرتے ہیں اُن کی کل بیٹھانی ، اور ان کی کل کوئی نہیں جانتا سوائے اﷲ کے، اور جو مضبوط علم والے ہیں سوکہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے سب کچھ ہمارے رب کی طرف سے ہے، اور سمجھائے وہی سمجھے ہیں جن کو عقل ہے۔۲؂

( ۱ ؎  القرآن الکریم            ۳/ ۷)
( ۲ ؎   موضح القرآن     ترجمہ و تفسیر شاہ عبدالقادر     ۱۲۱ تاج کمپنی لاہور          ص ۶۲)

اور اس کے فائدے میں لکھا :  اللہ صاحب فرماتا ہے کہ ہر کلام میں اﷲ نے بعضی باتیں رکھی ہیں جن کے معنی صاف نہیں کھلتے تو جو گمراہ ہو اُن کے معنی عقل سے لگے پکڑنے اور جو مضبوط علم رکھے وہ ان کے معنی اور آیتوں سے ملا کر سمجھے جو جڑ کتاب کی ہے اس کے موافق سمجھ پائے تو سمجھے اور اگر نہ پائے تو اﷲ پر چھوڑ دے کہ وہی بہترجانے ہم کو ایمان سے کام ہے ۳؂انتہی۔

( ۳؎   موضح القرآن     ترجمہ و تفسیر شاہ عبدالقادر     ۱۲۱ تاج کمپنی لاہور          ص ۶۲)

اقول:  ( میں کہتا ہوں ، ت) بات یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے قرآن مجید اتارا ہے ہدایت فرمانے اور بندوں کو جانچنے آزمانے کو،یضل بہ کثیرا ویھدی بہ کثیر اً ۔۴؂اسی قرآن سے بہتوں کو گمراہ فرمائے  اور بہتیروں کو راہ دکھائے۔

( ۴ ؎  القرآن الکریم               ۲/ ۲۶)

اس ہدایت وضلالت کا بڑا منشا قرآن عظیم کی آیتوں کا دو قسم ہونا ہے: محکمات جن کے معنی صاف بے دقت ہیں جیسے ا ﷲ تعالٰی کی پاکی و بے نیازی و بے مثلی کی آیتیں جن کا ذکر اوپر گزرا، اور دوسری متشا بہات جن کے معنٰی میں اشکال ہے یا تو ظاہر لفظ سے کچھ سمجھ ہی نہیں آتا جیسے حروفِ مقطعات الم وغیرہ یا جو سمجھ میں آتا ہے وہ اﷲ عزوجل پر محال ہے، جیسےالرحمن علٰی العرش استوی ۔۵؂ (وہ بڑا مہروالا اس نے عرش پر استواء فرمایا۔ت)یا ثم استوٰی علی العرش ۔۶؂ (پھر اس نے عرش پر استواء فرمایا۔ت)

( ۵ ؎ القرآن الکریم              ۲۰/ ۵)( ۶ ؎   القرآن الکریم                 ۷/ ۵۴ و ۱۰/ ۳ وغیرہ )

پھر جن کے دلوں میں کجی و گمراہی تھی وہ تو ان کو اپنے ڈھب کا پاکر ان کے ذریعہ سے بے علموں کو بہکانے اور دین میں فتنے پھیلانے لگے کہ دیکھو قرآن میں آیا ہے اﷲ عرش پر بیٹھا ہے، عرش پر چڑھا ہوا ہے، عرش پر ٹھہر گیا ہے۔ اور آیاتِ محکمات جو کتاب کی جڑ تھیں اُن کے ارشاد دل سے بھلادیئے حالانکہ قرآن عظیم میں تو استواء آیا ہے اور اس کے معنی چڑھنا، بیٹھنا، ٹھہرنا، ہونا کچھ ضرور نہیں یہ تو تمہاری اپنی سمجھ ہے جس کا حکم خدا پر لگا رہے۔ما انزل اﷲ بھا من سلطٰن ۔۱؂ (اللہ تعالٰی نے اس پر کوئی دلیل نازل نہ فرمائی۔ت)

( ۱ ؎ القرآن الکریم ۱۲/ ۴۰)

اگر بالفرض قرآن مجید میں یہی الفاظ چڑھنا، بیٹھنا، ٹھہرنا آتے تو قرآن ہی کے حکم سے فرض قطعی تھا کہ انہیں ان ظاہری معنی پر نہ سمجھو جو ان لفظوں سے ہمارے ذہن میں آتے ہیں کہ یہ کام تو اجسام کے ہیں اور اﷲ تعالٰی جسم نہیں مگر یہ لوگ اپنی گمراہی سے اسی معنی پر جم گئے انہیں کو قرآن مجید نے فرمایا۔الذین فی قلوبھم زیغ  ۔۲؂ان کے دل پھرے ہوئے ہیں۔

( ۲ ؎ القرآن الکریم ۳ /۷)

اور جو لوگ علم میں پکے اور اپنے رب کے پاس سے ہدایت رکھتے تھے وہ سمجھے کہ آیات محکمات سے قطعاً ثابت ہے کہ اللہ تعالٰی مکان وجہت و جسم و اعراض سے پاک ہے بیٹھنے، چڑھنے، بیٹھنے سے منزہ ہے کہ یہ سب باتیں اس بے عیب کے حق میں عیب ہیں جن کا بیان ان شاء اللہ المستعان عنقریب آتا ہے اور وہ ہر عیب سے پاک ہے ان میں اللہ عزوجل کے لیے اپنی مخلوق عرش کی طرف حاجت نکلے گی اور وہ ہر احتیاج سے پاک ہے ان میں مخلوقات سے مشابہت ثابت ہوگی کہ اٹھنا، بیٹھنا، چڑھنا، اترنا، سرکنا ٹھہرنا اجسام کے کام ہیں اور وہ ہر مشابہت خلق سے پاک ہے تو قطعاً یقیناً ان لفظوں کے ظاہری معنی جو ہماری سمجھ میں آتے ہیں ہر گز مراد نہیں، پھر آخر معنی کیا لیں۔ اس میں یہ ہدایت والے دوروش ہوگئے۔

اکثر نے فرمایا جب یہ ظاہری معنی قطعاً مقصود نہیں اور تاویلی مطلب متعین و محدود نہیں تو ہم اپنی طرف سے کیا کہیں، یہی بہتر کہ اس کا علم اﷲ پر چھوڑیں ہمیں ہمارے رب نے آیاتِ متشابہات کے پیچھے پڑنے سے منع فرمایا اور ان کی تعیین مراد میں خوض کرنے کو گمراہی بتایا تو ہم حد سے باہر کیوں قدم دھریں، اسی قرآن کے بتائے حصے پر قناعت کریں کہامنا بہ کل من عند ربنا ۔۳؂جو کچھ ہمارے مولٰی کی مراد ہے ہم اس پر ایمان لائے محکم متشابہ سب ہمارے رب کے پاس سے ہے،

(۳ ؎ القرآن الکریم ۳/ ۷)

یہ مذہب جمہورائمہ سلف کا ہے اور یہی اسلم واولٰی ہے اسے مسلک  تفویض و تسلیم کہتے ہیں، ان ائمہ نے فرمایا استواء معلوم ہے کہ ضرور اللہ تعالٰی کی ایک صفت ہے اور کیف مجہول ہے کہ اس کے معنی ہماری سمجھ سے وراء ہیں، اور ایمان اس پر واجب ہے کہ نص قطعی قرآن سے ثابت ہے اور سوال اس سے بدعت ہے کہ سوال نہ ہوگا مگر تعیین مراد کے لیے اور تعین مراد کی طرف راہ نہیں اور بعض نے خیال کیا کہ جب اﷲ عزوجل نے محکم متشابہ دو قسمیں فرما کر محکمات کوھنّ ام الکتب۱؂فرمایا کہ وہ کتاب کی جڑ ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ ہر فرع اپنی اصل کی طرف پلٹتی ہے تو آیہ کریمہ نے تاویل متشا بہات کی راہ خود بتادی اور ان کی ٹھیک معیار ہمیں سجھادی کہ ان میں وہ درست وپاکیز ہ احتمالات پیدا کرو جن سے یہ اپنی اصل یعنی محکمات کے مطابق آجائیں اور فتنہ و ضلال و باطل و محال راہ نہ پائیں۔ یہ ضرور ہے کہ اپنے نکالے ہوئے معنی پر یقین نہیں کرسکتے کہ اللہ عزوجل کی یہی مراد ہے مگر جب معنی صاف و پاکیزہ ہیں اور مخالفت محکمات سے بری و منزہ ہیں اور محاورات عرب کے لحاظ سے بن بھی سکتے ہیں تو احتمالی طور پر بیان کرنے میں کیا حرج ہے اور اس میں نفع یہ ہے کہ بعض عوام کی طبائع صرف اتنی بات پر مشکل سے قناعت کریں کہ انکے معنی ہم کچھ نہیں کہہ سکتے اور جب انہیں روکا جائے گا تو خواہ مخواہ ان میں فکر کی اور حرص بڑھے گی۔

ان ابن ادم(عہ) لحریص علٰی مامنع ۲؂انسان کو جس چیز سے منع کیا جائے وہ اس پر حریص ہوتا ہے۔(ت)

عہ: رواہ الطبرانی ۳؂ ومن طریقہ الدیلمی عن ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما عن النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔اس کو طبرانی نے روایت کیا اور دیلمی نے طبرانی کے طریق پر ابن عمر رضی اللہ عنہما سے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔(ت)

( ۱ ؎   القرآن الکریم     ۳/ ۷)
( ۲ ؎  الفردوس بماثورالخطاب حدیث ۸۸۵    دارالکتب العلمیۃ بیروت        ۱/ ۲۳۱)
( ۳ ؎  کشف الخفاء     بحوالہ الطبرانی حدیث ۶۷۴ ۱/ ۱۹۹)

اور جب فکر کریں گے فتنے میں پڑیں گے گمراہی میں گریں گے، تو یہی انسب ہے کہ ان کی افکار ایک مناسب و ملائم معنی کی طرف کہ محکمات سے مطابق محاورات سے موافق ہوں پھیردی جائیں کہ فتنہ و ضلال سے نجات پائیں یہ مسلک بہت علمائے متاخرین کا ہے کہ نظر بحال عوام اسے اختیار کیا ہے اسے مسلک تاویل کہتے یہ علماء بوجوہ کثیر تاویل آیت فرماتے ہیں ان میں چار وجہیں نفیس و واضح ہیں۔

اول: ا ستواء بمعنی قہرو غلبہ ہے، یہ زبان عرب سے ثابت و پیدا ہے عرش سب مخلوقات سے اوپر اور اونچا ہے اس لیے اس کے ذکر پر اکتفا فرمایا اور مطلب یہ ہوا کہ اﷲ تمام مخلوقات پر قاہر و غالب ہے۔

دوم : استواء بمعنی علو ہے، اور علو اﷲ عزوجل کی صفت ہے نہ علو مکان بلکہ علو مالکیت و سلطان، یہ دونوں معنی امام بیہقی نے کتاب الاسماء والصفات میں ذکر فرمائے جس کی عبارات عنقریب آتی ہیں۔ان شاء اﷲ تعالٰی

سوم : استواء بمعنی قصد وارادہ ہے ،ثم استوٰی علی العرشیعنی پھر عرش کی طرف متوجہ ہوا یعنی اس کی آفرینش کا ارادہ فرمایا یعنی اس کی تخلیق شروع کی، یہ تاویل امام اہلسنت امام ابوالحسن اشعری نے افادہ فرمائی۔ امام اسمعیل ضریر نے فرمایا :انہ الصواب ۱ ؎یہی ٹھیک ہے ،نقلہ الامام جلال الدین سیوطی فی الاتقان (عہ) ( اس کو امام جلال الدین سیوطی نے اتقان میں نقل کیا ہے۔ت)

عہ:  قالہ الفراء والا شعری وجماعۃ اھل المعانی ثم قال یبعدہ تعدیتہ بعلٰی ولوکان کما ذکروہ لتعدی بالٰی کما فی قولہ تعالٰی ثم استوی علی السماء ۔۲؂وفیہ ان حروف المعانی تنوب بعضہا عن بعض کما نص علیہ فی الصحاح وغیرھا و قدروی الامام البیہقی فی کتاب الاسماء والصفات عن الفراء ان تقول کان مقبلا علٰی فلان ثم استوی علیّ یشاتمنی والیّ سواء علٰی معنی اقبل الیّ وعلیّ ۔۳؂ ۱۲ منہ۔فراء ،اشعری اور اہل معانی کی ایک جماعت کا یہ قول ہے، پھر امام سیوطی نے کہا کہ یہ قول اس کے علٰی کے ساتھ متعدی ہونے سے بعید ہے اگر مطلب وہی ہوتا جو انہوں نے ذکر کیا ہے تو یہ الٰی کے ساتھ متعدی ہوتا جیسا کہ اﷲ تعالٰی کے ارشاد  ثم استوٰی الٰی اسماء  میں ہے، مگر اس پر یہ اعتراض ہے کہ حروف ایک دوسرے کی جگہ استعمال ہوتے رہتے ہیں، جیسا کہ صحاح وغیرہ میں اس پر نص کی گئی ہے، اور امام بیہقی نے کتاب الاسماء والصفات میں فراء سے روایت کیا ہے مثلاً تو کہے کہ وہ فلاں کی طرف متوجہ تھا پھر وہ مجھے برا بھلا کہتے ہوئے میری طرف متوجہ ہوا یعنی چاہے استوی الیّ کہے یا استوی علی دونوں برابر ہیں۔۱۲ منہ (ت)

(۱؂ الاتقان فی علوم القرآن النوع الثالث والا ربعون فی المحکم والمتشابہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۶۰۵)
(۲؂ الاتقان فی علوم القرآن النوع الثالث والا ربعون فی المحکم والمتشابہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱/ ۶۰۵)
(۳؂کتاب الاسماء والصفات باب ماجاء فی قول اﷲ تعالٰی الرحمن علی العرش استوٰی المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ۲/ ۱۵۴)

چہارم : استواء بمعنی فراغ وتمامی کار ہے یعنی سلسلہ خلق وآفرینش کو عرش پر تمام فرمایا اس سے باہر کوئی چیز نہ پائی،دنیا وآخرت میں جو کچھ بنایا اور بنائے گا دائرہ عرش سے باہر نہیں کہ وہ تمام مخلوق کو حاوی ہے۔ قرآن کی بہترتفسیر وہ ہے وہ قرآن سے ہو۔ استواء بمعنی تمامی خود قرآن عظیم میں ہے،

قال اﷲ تعالٰی: فلمابلغ اشدّہ واستوٰی ۔۱؂جب اپنی قوت کے زمانے کو پہنچا اور اس کا شباب پورا ہوا۔

( ۱ ؎ القرآن الکریم       ۲۸/ ۱۴)

اسی طرحقولہ تعالٰی:  کزرع اخرج شطأہ فاٰزرہ فاستغلظ فاستوٰی علٰی سوقہ  ۔۲؂جیسے پودا کہ اس کا خوشہ نکلا تو اس کو بوجھل کیا تو وہ موٹا ہوا تو وہ اپنے تنے پر درست ہوا۔(ت) میں استواء حالتِ کمال سے عبارت ہے، یہ تاویل امام حافظ الحدیث ابن الحجر عسقلانی نے امام ابوالحسن علی بن خلف ابن بطال سے نقل کی اور یہ کلام امام ابوطاہرقزوینی کا ہے کہ سراج العقول میں افادہ فرمایا، اور امام عبدالوہاب شعرانی کی کتاب الیواقیت میں منقول ۔۳؂

( ۲ ؎ القرآن الکریم     ۴۸/ ۲۹)
( ۳ ؎ الیوقیت والجواہر بحوالہ سراج العقول المبحث السابع مصطفی البابی مصر        ۱/ ۱۰۲)

اقول: ( میں کہتاہوں، ت) اور اس کے سوا یہ ہے کہ قرآن عظیم میں یہ استواء سات جگہ مذکور ہوا، ساتوں جگہ ذکر آفرینش آسمان و زمین کے ساتھ اور بلافصل اُس کے بعد ہے، سورہ اعراف وسورہ یونس علیہ الصلوۃ والسلام میں فرمایا۔ان ربکم اﷲ الذی خلق السمٰوٰت والارض فی ستّۃ ایام ثم استوی علی العرش  ۔۴؂تمہارا رب وہ ہے جس نے آسمانوں ا ور زمین کو پیدا کیا چھ دنوں میں پھر عرش پر استوا فرمایا(ت)

( ۴ ؎ القرآن الکریم    ۱۰/ ۳)

سورہ رعد میں فرمایا:اﷲ الذی رفع السمٰوٰت بغیر عمد ترونہا ثم استٰوی علی العرش  ۔۱؂اﷲ تعالٰی وہ ذات ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستون کے بلند کیا تم دیکھ رہے ہو پھر عرش پر استواء فرمایا (ت)

( ۱ ؎ القرآن الکریم ۱۳/ ۲)

سورہ طٰہٰ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں فرمایا:تنزیلا ممن خلق الارض والسمٰوٰت العلی oالرحمن علی العرش استوٰی  ۲؂قرآن نازل کردہ ہے اس ذات کی طرف سے جس نے پیدا کیا زمین کو اور بلند آسمانوں کو، وہ رحمن ہے جس نے عرش پر استوا فرمایا۔(ت)

(۲ ؎ القرآن الکریم ۲۰/ ۴ و ۵)

سورہ فرقان میں فرمایا :الذی خلق السمٰوٰت والارض وما بینھما فی ستۃ ایام ثم استوٰی علی العرش  ۔ ۳؎وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو اور ان دونوں کے درمیان کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر استواء فرمایا (ت)

( ۳ ؎ القرآن الکریم ۲۵/ ۵۹)

سورہ رعد میں فرمایا :ھو الذی خلق السمٰوٰت والارض فی ستّۃ ایام ثم استوی علی العرش  ۔۴؂و ہ جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر عرش پر استواء فرمایا(ت)

(۴ ؎ القرآن الکریم ۵۷/ ۴)

یہ مطالب کہ اول سے یہاں تک اجمالاً مذکور ہوئے صدہا ائمہ دین کے کلمات عالیہ میں ان کی تصریحات جلیہ ہیں انہیں نقل کیجئے تو دفتر عظیم ہو، اور فقیر کو اس رسالہ میں التزام ہے کہ جن کتابوں کے نام مخالف گمنام نے اغوائے عوام کے لیے لکھ دیئے ہیں اس کے رَد میں انہی کی عبارتیں نقل کرے کہ مسلمان دیکھیں کہ وہابی صاحب کس قدر بے حیا، بیباک ، مکار، چالاک ، بددین، ناپاک ہوتے ہیں کہ جن کتابوں میں اُن کی گمراہیوں کے صریح رَد لکھے ہیں انہی کے نام اپنی سند میں لکھ دیتے ہیں۔ع

چہ دلاورست دزدے کہ بکف چراغ دارد

(چور کیسا دلیر ہے کہ ہاتھ میں چراغ لیے ہوئے ہے۔ت)

مباحث آئندہ میں جو عبارات ان کتابوں کی منقول ہوں گی انہیں سے ان شاء اللہ العظیم یہ سب بیان واضح ہوجائیں گے یہاں صرف آیات متشابہات کے متعلق بعض عبارات نقل کروں جن سے مطلب سابق بھی ظاہر ہو اور یہ بھی کھل جائے کہ آیہ کریمہالرحمن علی العرش استوٰیآیات متشابہات سے ہے، اور یہ بھی کہ جس طرح مخالف کا مذہب نامہذب یقیناً صریح ضلالت اور مخالف جملہ اہل سنت ہے۔ یونہی اجمالاً اس آیت کے معنی جاننے پر مخالف سلف صالح وجمہور ائمہ اہلسنت وجماعت ہے۔

(۱) موضح القرآن کی عبارت اوپر گزری۔
(۲) معالم و مدارک و کتاب الاسماء و الصفات وجامع البیان کے بیان یہاں سُنئے کہ یہ پانچوں کتابیں بھی اُنہیں کتب سے ہیں جن کا نام مخالف نے گن دیا۔

معالم التنزیل میں ہے:اما اھل السنۃ یقولون الاستواء علی العرش صفۃ ﷲ تعالٰی بلا کیف یجب علی الرجل الایمان بہ ویکل العلم فیہ الی اﷲ عزوجل  ۔۱؂یعنی رہے اہلسنت ، وہ یہ فرماتےہیں کہ عرش پر استواء اﷲ عزوجل کی ایک صفت بے چونی و چگونگی ہے، مسلمان پر فرض ہے کہ  اُس پر ایمان لائے اور اس کے معنی کا علم خدا کو سونپے ۔

(۱؂ معالم التنزیل تحت الآیۃ ۷/ ۵۴    دارالکتب العلمیہ بیروت    ۲/ ۱۳۷)

مخالف کو سُوجھے کہ اُسی کی مستند کتاب نے خاص مسئلہ استواء میں اہلسنت کا مذہب کیا لکھا ہے شرم رکھتا ہے تو اپنی خرافات سے باز آئے اور عقیدہ اپنا مطابق اعتقاد اہلسنت کرے۔

(۳) اُسی میں ہے:ذھب الاکثرون الی ان الواو فی قولہ ، والراسحون واو الاستئناف وتم الکلام عند قولہ و مایعلم تاویلہ الاّ اﷲ وھو قول ابی بن کعب وعائشۃ وعروۃ بن الزبیر رضی اللہ تعالٰی عنہم، وروایۃ طاؤس عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنھما وبہ قال الحسن واکثر التابعین واختارہ الکسائی والفراء والاخفش (الٰی ان قال) ومما یصدق ذلک قراء ۃ عبداللہ ان تاویلہ الا عند اﷲ والراسخون فی العلم یقولون اٰمنّاو فی حرف ابی ویقول الراسخون فی العلم اٰمنّا بہ، وقال عمر بن عبدالعزیز فی ھٰذہ الایۃ انتھی علم الراسخین فی العلم تاویل القرآن الٰی ان قالواٰمنّا بہ کل من عند ربنا وھٰذا القول اقیس فی العربیۃ واشبہ بظاہر الاٰیۃ ۔۱؂

یعنی جمہور ائمہ دین صحابہ و تابعین رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین کا مذہب یہ ہے کہ والراسخون فی العلم سے جدا بات شروع ہوئی پہلا کلام وہیں پوُرا ہوگیا کہ متشابہات کے معنی اﷲ عزوجل کے سوا کوئی نہیں جانتا ،
یہی قول حضرت سیدّ قاریان صحابہ ابی بن کعب اور حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ اور عروہ بن زبیررضی اللہ تعالٰی عنہم کا ہے، اور یہی امام طاؤس نے حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا، اور یہی مذہب امام حسن بصری و اکثر تابعین کاہے، اور اسی کو امام کسائی وفراء واخفش نے اختیار کیا اور اس مطلب کی تصدیق حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کی اس قراء ت سے بھی ہوتی ہے کہ آیات متشابہات کی تفسیر اﷲ عزوجل کے سوا کسی کے پاس نہیں، اور پکے علم والے کہتے ہیں ہم ایمان لائے اور ابی بن کعب رضی اللہ تعالٰی عنہ کی قراء ت بھی اسی معنی کی تصدیق کرتی ہے۔ امیر المومنین عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا ان کی تفسیر میں محکم علم والوں کا منتہائے علم بس اس قدر ہے کہ کہیں ہم ان پر ایمان لائے سب ہمارے رب کے پاس سے ہے اور یہ قول عربیت کی رُو سے زیادہ دلنشین اور ظاہر آیت سے بہت موافق ہے۔

( ۱ ؎ معالم التنزیل     تحت الآیۃ ۳/ ۷    دارالکتب العلمیہ بیروت     ۱/ ۲۱۴ و ۲۱۵)

(۴) مدارک التنزیل میں ہے۔منہ اٰیت محکمٰت احکمت عبارتھا بان حفظت من الاحتمال و الاشتباہ ھن ام الکتب، اصل الکتاب تحمل المتشابہات علیہا وتردالیہا واخرمتشابہات مشتبہات محتملات مثال ذٰلک الرحمن علی العرش استوی فالا ستواء یکون بمعنی الجلوس وبمعنی القدرۃ والاستیلاء و لایجوز الاوّل علی اﷲ تعالٰی بدلیل المحکم وھو قولہ تعالٰی لیس کمثلہ شیئ ، فاما الذین فی قلوبھم زیغ میل عن الحق وھم اھل البدع فیتبعون ماتشابہ ، فیتعلقون بالمتشابہ الذی یحتمل مایذھب الیہ المبتدع ممالا یطابق المحکم ویحتمل مایطابقہ من قول اھل الحق منہ ابتغاء الفتنۃ  طلب ان یفتنوا الناس دینھم ویضلوھم وابتغاء تاویلہ  وطلب ان یؤولوہ التاویل الذی یشتہونہ وما یعلم تاویلہ الا اﷲ ای لایھتدی الٰی تاویلہ الحق الذی یجب ان یحمل علیہ الّا اﷲ اھ مختصراً ۔

یعنی قرآن عظیم کی بعض آیتیں محکمات ہیں جن کے معنی صاف ہیں احتمال و اشتباہ کو ان میں گزر نہیں یہ آیات تو کتاب کی اصلی ہیں کہ متشابہات انہیں پر حمل کی جائیں گی اور اُن کے معنی انہیں کی طرف پھیرے جائیں گے اور بعض دوسری متشابہات ہیں جن کے معنی میں اشکال و احتمال ہے جیسے کریمہ الرحمن علی العرش استوی بیٹھنے کے معنی پر بھی آتا ہے اور قدرت و غلبہ کے معنی پر بھی اور پہلے معنی اللہ عزوجل پر محال ہیں کہ آیات محکمات اﷲ تعالٰی کو بیٹھنے سے پاک و منزہ بتارہی ہیں اُن محکمات سے ایک یہ آیت ہے لیس کمثلہ شیئ اﷲ کے مثل کوئی چیز نہیں، پھر وہ جن کے دل حق سے پھرے ہوئے ہیں اور وہ بدمذہب لوگ ہوئے وہ تو آیات متشابہات کے پیچھے پڑتے ہیں ایسی آیتوں کی آڑ لیتے ہیں جن میں ان کی بدمذہبی کے معنی کا احتمال ہوسکے جو آیات محکمات کے مطابق نہیں اور اس مطلب کا بھی احتمال ہو جو محکمات کے مطابق اور اہلسنت کا مذہب ہے وہ بدمذہب اُن آیات متشابہات کی آڑ اس لیے لیتے ہیں کہ فتنہ اٹھائیں لوگوں کو سچے دین سے بہکائیں ان کے وہ معنی بتائیں جو اپنی خواہش کے موافق ہوں، اور انکے معنی تو کوئی نہیں جانتا مگر اﷲ، اﷲ ہی کو خبر ہے کہ ان کے حق معنی کیا ہیں جن پر ان کا اتارنا واجب ہے انتہی۔

( ۱ ؎ مدارک التنزیل (تفسیر النسفی)  آیت ۳/ ۷    دارالکتاب العربی بیروت    ۱/ ۱۴۶)

گمراہ شخص آنکھیں کھول کر دیکھے کہ یہ پاکیزہ تقریر یہ آیت و تفسیر اس کی گمراہی کا کیسا رَد واضح و منیر ہے۔والحمدﷲ رب العلمین۔

(۵) امام بیہقی کتاب الاسماء والصفات میں فرماتے ہیں:الاستواء فالمتقدمون من اصحابنا رضی اللہ تعالٰی عنہم کانو الا یفسرونہ ولا یتکلمون فیہ کنحومذھبہم فی امثال ذٰلک  ۔۱؂ہمارے اصحاب متقدمین رضی اللہ تعالٰی عنہم استواء کے کچھ معنی نہ کہتے تھے نہ اس میں اصلاً زبان کھولتے جس طرح تمام صفات متشابہات میں اُن کا یہی مذہب ہے۔

( ۱ ؎ کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب ماجاء فی قول اﷲ تعالٰی الرحمن علی العرش استوٰی ، المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ     ۲/ ۱۵۰)

(۶) اُسی میں ہے:  حکینا عن المتقدمین من اصحابنا ترک الکلام فی امثال ذلک، ھذا مع اعتقاد ھم نفی الحدوالتشبیہ والتمثیل عن اﷲ سبحٰنہ وتعالٰی  ۔۲؂ہم اپنے اصحاب متقدمین کا مذہب لکھ چکے کہ ایسے نصوص میں اصلاً لب نہ کھولتے اور اس کے ساتھ یہ اعتقاد رکھتے کہ اللہ تعالٰی محدود ہونے یا مخلوق سے کسی بات میں متشابہ و مانند ہونے سے پاک ہے۔

( ۲ ؎کتاب الاسماء والصفات باب قول اﷲ تعالٰی یعیسی علیہ السلام انی متوفیک ورافعک الٰی المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ۲/ ۱۶۹)

(۷) اُسی میں یحٰیی بن یحیٰی سے روایت کی:کنا عند مالک بن انس فجاء رجل فقال یا ابا عبدا ﷲ الرحمن علی العرش استوی فکیف استوٰی ؟ قال فاطرق مالک راسہ حتی علاہ الرحضاء ثم قال الاستواء غیر مجہول والکیف غیر معقول والایمان بہ واجب، والمسؤل عنہ بد عۃ ، وما اراک الامبتدعا فامربہ ان یخرج  ۔۳؂

ہم امام مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خدمت میں حاضر تھے ایک شخص نے حاضر ہو کر عرض کی اے ابوعبداللہ! رحمن نے عرش پر استواء فرمایا یہ استواء کس طرح ہے؟ اس کے سنتے ہی امام نے سر مبارک جھکالیا یہاں تک کہ بدن مقدس پسینہ پسینہ ہوگیا، پھر فرمایا : استواء مجہول نہیں اور کیفیت معقول نہیں اور اس پر ایمان فرض اور اس سے استفسار بدعت اور میرے خیال میں تو ضرور بدمذہب ہے، پھر حکم دیا کہ اسے نکال دو۔

(۳ ؎  کتاب الاسماء والصفات باب ماجاء فی قول اﷲ تعالٰی الرحمن علی العرش الخ المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ          ۲/ ۱۵۰ و ا۱۵)

(۸) اُسی میں عبداللہ بن صالح بن مسلم سے روایت کی:سئل ربیعۃ الرأی عن قول اﷲ تبارک وتعالٰی الرحمن علی العرش استوٰی  کیف استوٰی ؟قال الکیف غیر معقول والا ستواء غیر مجہول ویجب علیّ وعلیک الایمان بذلک کلہ  ۔۱؂

یعنی امام ربیعہ بن ابی عبدالرحمن استاذ امام مالک سے جنہیں بوجہ قوت عقل و کثرت قیاس ربیعۃ الرائے لکھا جاتا یہی سوال ہوا، فرمایا کیفیت غیر معقول ہے اور اﷲ تعالٰی کا استواء مجہول نہیں اور مجھ پر اور تجھ پر ان سب باتوں پر ایمان لانا واجب ہے۔

( ۱ ؎کتاب الاسماء والصفات للبیہقی         باب ماجاء فی قول اﷲ عزوجل الرحمن علی العرش استوٰی            المکتبۃ الاثر یہ سانگلہ ہل شیخوپورہ         ۲/ ۱۵۱)

(۹) اُسی میں بطریق امام احمد بن ابی الحواری امام سفٰین بن عیینہ سے روایت کی کہ فرماتے:ماوصف اﷲ تعالٰی من نفسہ فی کتابہ فتفسیرہ تلاوتہ والسکوت علیہ  ۔۲؂یعنی اس قسم کی جتنی صفات اﷲ عزوجل نے قرآن عظیم میں اپنے لیے بیان فرمائی ہیں ان کی تفسیر یہی ہے کہ تلاوت کیجئے اور خاموش رہیے۔

( ۲ ؎  کتاب الاسماء والصفات للبیہقی         باب ماجاء فی قول اﷲ عزوجل الرحمن علی العرش                 ۲/ ۱۵۱  وباب ماذکر فی یمین والکف         ۲/ ۱۵۱)

بطریق اسحق بن موسٰی انصاری زائد کیا:لیس لاحدان یفسرہ بالعربیۃ و لابالفارسیۃ  ۔۳؂کسی کو جائز نہیں کہ عربی میں خواہ فارسی کسی زبان میں اس کے معنی کہے۔

( ۳ ؎ کتاب الاسماء والصفات للبیہقی     باب ماجاء فی اثبات العین المکتبۃ الاثر یہ سانگلہ ہل شیخوپورہ         ۲/ ۴۲)

(۱۰) اُسی میں حاکم سے روایت کی انہوں نے امام ابوبکر احمد بن اسحق بن ایوب کا عقائد نامہ دکھایا جس میں مذہب اہلسنت مندرجہ تھا اس میں لکھا ہے:الرحمن علی العرش استوی بلاکیف  ۴ ؎رحمن کا استواء بیچون و بیچگون ہے۔

(۴ ؎ کتاب الاسماء والصفات للبیہقی         باب ماجاء فی قول اﷲ عزوجل الرحمن علی العرش استوٰی            المکتبۃ الاثر یہ سانگلہ ہل شیخوپورہ        ۲/ ۱۵۲)

(۱۱) اسی میں ہے :والاثار عن السلف فی مثل ھذاکثیرۃ وعلٰی ھذہ الطریقۃ یدل مذہب الشافعی رضی اللہ تعالی عنہ والیہاذھب احمد بن حنبل والحسین بن الفضل البلخی ومن المتاخرین ابوسلیمن الخطابی  ۔۱؂یعنی اس باب میں سلف صالح سے روایات بکثرت ہیں اور اس طریقہ سکوت پر ایمان شافعی کا مذہب دلالت کرتا ہے اور یہی مسلک امام احمد بن حنبل و امام حسین بن فضل بلخی اور متاخرین سے امام ابوسلیمن خطابی کا ہے۔

( ۱ ؎  کتاب الاسماء والصفات للبیہقی         باب ماجاء فی قول اﷲ عزوجل الرحمن علی العرش                 المکتبۃ الاثر یہ سانگلہ ہل شیخوپورہ         ۲/ ۱۵۲)

الحمدﷲ امام اعظم سے روایت عنقریب آتی ہے ، ائمہ ثلٰثہ سے یہ موجود ہیں، ثابت ہوا کہ چاروں اماموں کا اجماع ہے کہ استواء کے معنی کچھ نہ کہے جائیں اس پر ایمان واجب ہے اور معنی کی تفتیش حرام یہی طریقہ جملہ سلف صالحین کا ہے۔

(۱۲) اُسی میں امام خطابی سے ہے"  ونحن احری بان لانتقدم فیما تأخر عنہ من ھو اکثر علما و اقدم زمانا وسنا، ولکن الزمان الذی نحن فیہ قد صاراھلہ حزبین منکرلما یروی من نوع ھٰذہ الاحادیث راسا ومکذب بہ اصلا، وفی ذلک تکذیب العلماء الذین ردوا ھٰذہ الاحادیث وھم ائمۃ الدین ونقلۃ السنن و الواسطۃ بیننا و بین رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم، والطائفۃ الاخرٰی مسلمۃ للروایۃ فیہا ذاھبۃ فی تحقیق منہا مذھبا یکاد یفضی بھم الی القول بالتشبیہ و نحن نرغب عن الامرین معاً ، ولا نرضی بواحد منھما مذہبا، فیحق علینا ان نطلب لما یرد من ھٰذہ الاحادیث اذا صحت من طریق فالنقل والسند ، تاویلا یخرج علی معانی اصول الدین ومذاہب العلماء و لاتبطل الروایۃ فیہا اصلا، اذا کانت طرقہا مرضیۃ ونقلتہا عدولا۔۱؂یعنی جب اُن ائمہ کرام نے جو ہم میں سے علم میں زائد اور زمانے میں مقدم اور عمر میں بڑے تھے متشا بہات میں سکوت فرمایا تو ہمیں ساکت رہنا اور ان کے معنی کچھ نہ کہنا اور زیادہ لائق تھا مگر ہمارے زمانے میں دو گروہ پیدا ہوئے ایک تو اس قسم کی حدیثوں کو سرے سے رَد کرتا اور جھوٹ بتاتا ہے، اس میں علمائے رواۃ احادیث کی تکذیب لازم آتی ہے، حالانکہ وہ دین کے امام ہیں اور سنتوں کے ناقل اور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم تک ہمارے وسائط و رسائل۔ اور دوسرا گر وہ ان روایتوں کو مان کر ان کے ظاہری معنی کی طرف ایسا جاتا ہے کہ اس کا کلام اﷲ عزوجل کو خلق سے مشابہ کردینے تک پہنچنا چاہتا ہے اور ہمیں یہ دونوں باتیں ناپسند ہیں ہم ان میں سے کسی کو مذہب بنانے پر راضی نہیں، تو ہمیں ضرور ہوا کہ اس بات میں جو صحیح حدیثیں آئیں اُن کی وہ تاویل کردیں جس سے ان کے معنی اصول عقائد وآیات محکمات کے مطابق ہوجائیں اور صحیح روایتیں کہ علماء ثقات کی سند سے آئیں باطل نہ ہونے پائیں۔

( ۱ ؎ کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب ماذکر فی القدم الرجل المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ۲/ ۸۶)

(۱۳) امام ابوالقاسم لالکائی کتاب السنہ میں سیدنا امام محمد سردار مذہب حنفی تلمیذ سیدنا امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی کہ فرماتے:اتفق الفقہاء کلھم من المشرق الی المغرب علی الایمان بالقرآن و بالاحادیث التی جاء بہا الثقات عن رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فی صفۃ الرب من غیر تشبیہ ولا تفسیر فمن فسر شیئا من ذلک فقد خرج عما کان علیہ النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم و فارق الجماعۃ فانہم لم یصفوا ولم یفسرواولکن اٰمنوا بما فی الکتاب والسنۃ ثم سکتوا ۔۲؂شرق سے غرب تک تمام ائمہ مجتہدین کا اجماع ہے کہ آیات قرآن عظیم و احادیث صحیحہ میں جو صفاتِ الہیہ آئیں ان پر ایمان لائیں بلاتشبیہ و بلا تفسیر تو جو ان میں سے کسی کے معنی بیان کرے وہ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے طریقے سے خارج اور جماعتِ علماء سے جدا ہوا اس لیے کہ ائمہ نے نہ ان صفات کا کچھ حال بیان فرمایا نہ اُن کے معنی کہے بلکہ قرآن و حدیث پر ایمان لا کر چپ رہے۔

( ۲ ؎ کتاب السنۃ امام ابوالقاسم لالکائی)

طرفہ یہ کہ امام محمد کے اس ارشاد و ذکر اجماع ائمہ امجاد کو خود ذہبی نے بھی کتاب العلو میں نقل کیا اور کہا محمد سے یہ اجماع لالکائی اور ابو محمد بن قدامہ نے اپنی کتابوں میں روایت کیا بلکہ خود ابن تیمیہ مخذول بھی اُسے نقل کرگیا۔وﷲ الحمد ولہ الحجۃ السامیۃ ( حمد ﷲ تعالٰی کے لیے ہے اور غالب حجت اسی کی ہے۔ت)

(۱۴) نیز مدارک میں زیر سورہ طٰہٰ ہے:والمذھب قول علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ الاستواء غیر مجہول والتکیف غیر معقول والایمان بہ واجب والسوال عنہ بدعۃ لانہ تعالٰی کان ولا مکان فھو علی ما کان قبل خلق المکان لم یتغیر عما کان  ۔۱؂مذہب وہ ہے جو مولٰی علی کرم اﷲ وجہہ الکریم نے فرمایا کہ استواء مجہول نہیں اور اس کی چگونگی عقل میں نہیں آسکتی اُس پر ایمان واجب ہے اور اس کے معنی سے بحث بدعت ہے اس لیے کہ مکان پیدا ہونے سے پہلے اﷲ تعالٰی موجود تھا اور مکان نہ تھا پھر وہ اپنی اُس شان سے بدلا نہیں یعنی جیسا جب مکان سے پاک تھا اب بھی پاک ہے۔

( ۱ ؎ مدارک التنزیل (تفسیر النسفی) آیت ۳/ ۵ دارالکتاب العربی بیروت ۳ /۴۸)

گمراہ اپنی ہی مستند کی اس عبارت کو سوجھے اور اپنا ایمان ٹھیک کرے۔

(۱۵) اسی میں زیر سورہ اعراف یہی قول امام جعفر صادق و امام حسن بصری و امام اعظم ابوحنیفہ و امام مالک رضی اللہ تعالٰی عنہم سے نقل فرمایا ۔۲؂

( ۲ ؎ مدارک التنزیل (تفسیر النسفی) آیت ۷ /۵۴ دارالکتاب العربی بیروت ۲ /۵۶)

(۱۶) یہی مضمون جامع البیان سورہ یونس میں ہے۔  الاستواء معلوم والکیفیۃ مجہولۃ والسؤال عنہ بدعۃ  ۔۳؂استواء معلوم ہے اور اس کی کیفیت مجہول ہے اور اس سے بحث و سوال بدعت ہے۔(ت)

( ۳؎ جامع البیان محمد بن عبدالرحمن الشافعی         آیۃ ۱۰/۳    دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ ۱/ ۲۹۲)

(۱۷) یہی مضمون سورہ رعد میں سلف صالح سے نقل کیا کہ:قال السلف الاستواء معلوم و الکیفیۃ مجھولۃ  ۔۴ ؎سلف نے فرمایا : استواء معلوم ہے اور کیفیت مجہول ہے۔(ت)

( ۴ ؎ جامع البیان محمد بن عبدالرحمن الشافعی         آیۃ  ۱۳/  ۲    دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ  ۱/ ۳۴۵)

(۱۸) سورہ طٰہٰ میں لکھا ہے:سئل الشافعی عن الاستواء فاجاب اٰمنت بلاتشبیہ واتھمت نفسی فی الادراک وامسکت عن الخوض فیہ کل الامساک ۔۱؂یعنی امام شافعی سے استواء کے معنی پوچھے گئے، فرمایا : میں استواء پر ایمان لایا اور وہ معنی نہیں ہوسکتے جن میں اﷲ تعالٰی کی مشابہت مخلوق سے نکلے اور میں اپنے آپ کو اُس کے معنی سمجھنے میں متہم رکھتا ہوں مجھے اپنے نفس پر اطمینان نہیں کہ اس کے صحیح معنی سمجھ سکوں لہذا میں نے اس میں فکر کرنے سے یک قلم قطعی دست کشی کی۔

( ۱ ؎  جامع البیان محمد بن عبدالرحمن الشافعی         آیۃ ۲۰/ ۵        دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ۲/ ۱۶و ۱۵)

(۱۹) سورہ اعراف میں لکھا:  اجمع السلف علٰی ان استواء ہ علی العرش صفۃ لہ بلا کیف نؤمن بہ ونکل العلم الی اﷲ تعالٰی  ۔۲؂سلف صالح کا اجماع ہے کہ عرش پر استواء اﷲ تعالٰی کی ایک صفت بیچون و بے چگون ہے ہم اس پر ایمان لاتے ہیں اور ان کا علم خدا کو سونپتے ہیں۔

( ۲ ؎ جامع البیان محمد بن عبدالرحمن الشافعی         آیۃ ۷/ ۵۴    دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ  ۱ /۲۲۳)

(۲۰) طرفہ یہ کہ سورہ اعراف میں تو صرف اتنا لکھا کہ اس کے معنی ہم کچھ نہیں جانتے اور سورہ فرقان میں لکھا۔قدمرفی سورۃ الاعراف تفصیل معناہ  ۔۳؂اس کے معنی کی تفصیل سورہ اعراف میں گزری۔

( ۳؎ جامع البیان محمد بن عبدالرحمن الشافعی         آیۃ ۲۵/ ۵۹    دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ ۲/ ۸۹)

یونہی سورہ سجدہ میں لکھاقدمر فی سورۃ الاعراف ۔۴؂(سورہ اعراف میں گزرا۔ ت)

( ۴ ؎ جامع البیان محمد بن عبدالرحمن الشافعی         آیۃ ۳۲/ ۴    دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ ۲/ ۱۵۷)

یونہی سورہ حدید میںقد مرتفصیلہ فی سورۃ الاعراف وغیرھا ۔۵؂ (اس کی تفصیل سورہ اعراف وغیرہ میں گزر چکی ہے۔ت)

( ۵ ؎ جامع البیان محمد بن عبدالرحمن الشافعی         آیۃ ۵۷ /۴    دارنشر الکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ  ۲/ ۳۳۶)

دیکھو کیسا صاف بتایا کہ اس کے معنی کی تفصیل یہی ہے کہ ہم کچھ نہیں جانتے ، اب تو کھلا کہ وہابیہ مجسمہ کا اپنی سند میں کتاب الاسماء و معالم ومدارک وجامع البیان کے نام لے دینا کیسی سخت بے حیائی تھا ۔ولاحول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم۔

 

نقل تحریر ضلالت تخمیر از نجدی بقیر

مسئلہ : اﷲ تعالٰی کا عرش پر ہی ہونا

الجواب  : الرحمن علی العرش استوٰیاﷲ تعالٰی عرش پر بیٹھایا چڑھا یا ٹھہرا۔ ان تین معنی کے سوا اس آیت میں جو کوئی اور معنی کہے گا وہ بدعتی ہے، اﷲ تعالٰی نے اپنے کلام شریف میں سات جگہ اس مضمون کو ذکر فرمایا ہے۔ دیکھو فتح الرحمن تفسیر قاری شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی وتفسیر موضح القرآن مؤلفہ شاہ عبدالقادر صاحب دہلوی و ترجمہ لفظی شاہ رفیع الدین صاحبِ دہلوی و کتاب الاسماء و الصفات بیہقی و کتاب العلوامام ذہبی و تفسیر ابن کثیر و معالم التنزیل و جامع البیان و مدارک وغیرہا اور محیط ہونا باری تعالٰی کا ہر چیز پر فقط ازروئے علم ہے۔

قال تعالٰی:احاط بکل شیئ علما ۔۱؂ ( اﷲ تعالٰی نے اپنے علم سے ہر چیز کا احاطہ کیا)

( ۱ ؎  القرآن الکریم ۶۵/ ۱۲)

احادیثِ صریحہ صحیحہ سے عرش کا مکانِ الہٰی ہونا ثابت ہے، چنانچہ بخاری کی معراج کی حدیث میں فرمایا :وھو فی مکانہ،  ۲؎ (اور وہ اپنے مکان میں ہے۔ت)

( ۲ ؎  صحیح بخاری      کتاب التوحید     باب قول اﷲ تعالٰی وکلم اﷲ موسٰی تکلیماً قدیمی کتب خانہ کراچی     ۲/ ۱۱۲۰)

اورمشکوۃ کے باب الاستغفار و التوبہ میں مسند احمد کی حدیث میں وارد ہے کہ:  وعزتی و جلالی وارتفاع مکانی الخ  ۔۳؂میری عزت ، میرے جلال اور میرے بلند مکان کی قسم الخ (ت)

( ۳ ؎ مشکوۃ المصابیح باب الاستغفار والتوبۃ     الفصل الثانی    قدیمی کتب خانہ کراچی         ص ۲۰۴)

ہاں جن صفات سے کلامِ شارع ساکت ہے اُن میں سکوت لازم ہے بعض اشخاص بریلی نے جو علمِ منقول وعقائد اہلِ حق سے بے بہرہ ہیں اس عقیدہ صحیحہ کے معتقد کو بزورگمراہی گمراہ بنایاو ما لھم بہ من علم ۔۴؂ (ان کو اس کا علم نہیں۔ت) ایسے شخص سے اہلِ اسلام کو بچنا چاہیے۔

( ۴ ؎  القرآن الکریم ۵۳/ ۲۸)

 

ضرب قہاری

مسلمانو! دیکھو اس گمراہ نے ان چند سطور میں کیسی کیسی جہالتیں ضلالتیں تناقض سفاہتیں اﷲ و رسول پر افتراء علما وکتب پر تہمتیں بھردی ہیں۔
اولاً  ادعا کیا کہ استواء علی العرش میں بیٹھنے، چڑھنے، ٹھہرنے کے سوا جو کوئی اور معنی کہے بدعتی ہے اور اسی کی سند میں بکمال جرات و بے حیائی ان نو کتابوں کے نام گن دیئے۔
ثانیاً زعم کیا کہ احاطہ الہٰی صرف ازرُوئے علم ہے حالانکہ اس مسئلہ کا یہاں کچھ ذکر نہ تھا مگر اس نے اس بیان سے اپنی وہ گمراہی پالنی چاہی ہے۔ کہ اﷲ تعالٰی عرش پر ہے اور عرش کے سوا کہیں نہیں۔
ثالثاً مُنہ بھر کر اُس سبّوح قدوس کو گالی دی کہ اس کے لیے مکان ثابت ہے، عرش اس کا مکان ہے، اور اس کے ثبوت میں بزورِ زبان دو حدیثیں نقل کردیں۔
رابعاً  یہ تین دعوے تو منطوق عبارت تھے مفہوم استثناء سے بتایا کہ استواء علی العرش کے معنی اﷲ تعالٰی کا عرش پر بیٹھنا ، چڑھنا، ٹھہرنا مطابق سنت ہیں۔
خامساً  اپنے معبود کو بٹھانے، چڑھانے، ٹھہرانے ہی پر قناعت نہ کی بلکہ ان لفظوں کے مفہوم سے کہ جن صفات سے کلامِ شارع ساکت ہے ان میں سکوت لازم ہے تمام متشابہات استواء کی طرح انہیں معانی پر محمول کرلیں جو اُن کے ظاہر سے مفہوم ہوتے ہیں۔
سادساً باوصف ان کے اصل دعوٰی یہ ہے کہ خدا عرش کے سوا کہیں نہیں۔
ہم بھی ان چھ باتوں کو بعونہ تعالٰی ا سی ترتیب پر چھ تپانچوں سے خبر لیں اور ساتویں تپانچے میں دو مسئلہ باقیہ کے متعلق اجمالی گوشمالی کریں وباﷲ التوفیق۔

پہلا تپانچہ

گمراہ نے ادعا کیا کہ اللہ تعالٰی کے بیٹھنے ، چڑھنے ، ٹھہرنے کے سوا جو کوئی اور معنی استواء کے کہے بدعتی ہے، اور اس پر اُن نوکتابوں کا حوالہ دیا۔
ضرب اوّل : فقیر نے اگر یہ التزام نہ کیا ہوتا کہ اُس کی گنائی ہوئی کتابوں سے سند لاؤں گا تو آپ سیر دیکھتے کہ یہ تپانچہ اس گمراہ کو کیونکر خاک و خون میں لٹاتا مگر اجمالاً اقوال مذکورہ بالا ہی ملاحظہ ہوجائیں کہ اس گمراہ نے کس کس امامِ دین و سنت کو بدعتی بنادیا ، امام ابوالحسن علی ابن بطالی، امام ابن حجر عسقلانی ، امام ابوطاہر قزوینی ، امام عارف شعرانی، امام جلال الدین سیوطی، امام اسمعیل ضریر حتی کہ خود امام اہلسنت سیدنا امام ابوالحسن اشعری رضی اﷲ تعالٰی عنہم اجمعین، تو کم از کم اس ضرب کو سات ضرب سمجھئے بلکہ تیرہ کہ امام نسفی وامام بیہقی وامام بغوی و امام علی بن محمد ابوالحسن طبری و امام ابوبکر بن فورک وامام ابومنصور بن ابی ایوب کے اقوال عنقریب آتے ہیں۔ یہ حضرات بھی اس بدعتی کے طور پر معاذ اﷲ بدعتی ہوئے، اور بیس ضرب اوپر گزریں جملہ تینتس ۳۳ ہوئیں، آگے چلیے اور اب صرف اس کے مستندوں سے اس کی خبر لیجئے۔

ضرب ۳۴ : مدارک شریف سورہ سجدہ میںاستواء علی العرشکا حاصل اس کا احداث اور پیدا کرنا لیا یہ انہیں معنی سوم کے قریب ہے جو اُوپر گزرے۔

ضرب ۳۵ : اس سورۃ اور سورہ فرقان کے سوا کہ وہاں استواء کی تفسیر سے سکوت مطلق ہے باقی پانچوں جگہ اُس کے معنی استیلاء و غلبہ و قابو بتائے۔
حدید میں ہے:ثم استوی استولی علی العرش ۱؂۔ (پھر عرش پر استواء فرمایا۔ت)

( ۱ ؎ مدارک التنزیل (تفسیر النسفی)    آیۃ ۵۷/ ۴    دارالکتاب العربی بیروت         ۴/ ۲۲۳)

رعد میں ہے:استولی بالاقتدار ونفوذ السلطان   ۲ ؎اقتدار اور حکومت کا مالک ہوا ۔(ت)

(۲ ؎  مدارک التنزیل (تفسیر النسفی)    آیۃ ۱۳/ ۲        دارالکتاب العربی بیروت         ۲/ ۲۴۱)

اعراف میں ہے:اضاف الاستیلاء الی العرش وان کان سبٰحنہ وتعالٰی مستولیا علی جمیع المخلوقات لان العرش اعظمھا واعلاھا۳؂۔یعنی اﷲ تعالٰی کا قابو اس کی تمام مخلوقات پر ہے، خاص عرش پر قابو ہونے کا ذکر اس لیے فرمایا کہ عرش سب مخلوقات سے جسامت میں بڑا اور سب سے اوپر ہے۔

( ۳ ؎ مدارک التنزیل (تفسیر النسفی)    آیۃ ۷/ ۵۴    دارالکتاب العربی بیروت         ۲/ ۵۶)

ضرب ۳۶ : سورہ طٰہٰ میں بعد ذکر معنیٰ استیلاء ایک وجہ یہ نقل فرمائی۔لما کان الاستواء علی العرش وھو سریر الملک مما یردف الملک جعلوہ کنایۃ عن الملک فقال استوٰی فلان علی العرش ای ملک وان لم یقعد علی السریر البتۃ وھذا کقولک یدفلان مبسوطۃ ای جواد وان لم یکن لہ ید رأسا ۔ ۴؎یعنی جب کہ تخت نشینی آثار شاہی سے ہے تو عرف میں تخت نشینی بولتے اور اس سے سلطنت مراد لیتے ہیں، کہتے ہیں فلاں شخص تخت نشین ہوا، یعنی بادشاہ ہوا اگرچہ اصلاً تخت پر نہ بیٹھا ہو، جس طرح تیرے اس کہنے سے کہ فلاں کا ہاتھ کشادہ ہے اُس کا سخی ہونا مراد ہوتا ہے اگرچہ وہ سرے سے ہاتھ ہی نہ رکھتا ہو۔

( ۴ ؎  مدارک التنزیل (تفسیر النسفی)    آیۃ ۲۰ /۵        دارالکتاب العربی بیروت         ۳/ ۴۸)

حاصل یہ کہ استواء علی العرش بمعنی بادشاہی ہے حقیقۃً بیٹھنا ہر گز لازم نہیں، جب خلق کے باب میں یہ محاورہ ہے جن کا اٹھنا بیٹھنا سب ممکن، تو خالق عزوجل کے بارے میں اُس سے معاذ اﷲ حقیقۃً بیٹھنا سمجھ لینا کیسا ظلمِ صریح ہے۔

ضرب ۳۷ : معالم سورہ اعراف کا بیان تو وہ تھا کہ اہلسنت کا طریقہ سکوت ہے اتنا جانتے ہیں کہ استواء اﷲ تعالٰی کی ایک صفت ہے اور اس کے معنیٰ کا علم اﷲ کے سپرد ہے، یہ طریقہ سلف صالحین تھا، سورہ رعد میں استواء کو علوسے تاویل کیا۔یہ معنی دوم ہیں کہ  اوپر گزرے۔
ضرب ۳۸ : امام بیہقی نے کتاب الاسماء میں دربارہ استواء ائمہ متقدمین کا وہ مسلک ارشاد فرمایا جس کا بیان اوپر گزرا۔ پھر فرمایا:وذھب ابوالحسن علی بن اسمعیل الاشعری الٰی ان اﷲ تعالٰی جل ثناؤہ فعل فی العرش فعلا سمّاہ استواء کما فعل فی غیرہ فعلا سماہ رزقا اونعمۃ اوغیرھما من افعالہ ثم لم یکیف الاستواء الا انہ جعلہ من صفات الفعل لقولہ تعالٰی ثم استوی علی العرش وثم للتراخی والتراخی انما یکون فی الافعال وافعال اﷲ تعالٰی توجد بلامباشرۃ منہ ایاھا ولا حرکۃ  ۔۱؂یعنی امام اہلسنت امام ابوالحسن اشعری نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے عرش کے ساتھ کوئی فعل فرمایا ہے جس کا نام استواء رکھا ہے جیسے من و تو زید و عمرو کے ساتھ افعال فرمائے اور اُن کا نام رزق و نعمت وغیرہ رکھا اس فعل استواء کی کیفیت ہم نہیں جانتے اتنا ضرور ہے کہ اس کے افعال میں مخلوق کے ساتھ ملنا، چھونا، ان سے لگاہوا ہونا یا حرکت کرنا نہیں جیسے بیٹھنے چڑھنے وغیرہ میں ہے اور استواء کے فعل ہونے پر دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے فرمایا پھر عرش پر استواء کیا تو معلوم ہوا کہ استواء حادث ہے پہلے نہ تھا اور حدوث افعال میں ہوسکتا ہے اﷲ تعالٰی کی صفات ذات حدوث سے پاک ہیں، تو ثابت ہوا کہ استواء اﷲ تعالٰی کی کوئی صفت ذاتی نہیں بلکہ اس کے کاموں میں سے ایک کام ہے جس کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں۔

( ۱ ؎کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب ماجاء فی قول اﷲ تعالٰی الرحمن علی العرش استوٰی المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ۲/ ۱۵۲)

ضرب ۳۹ : ابوالحسن علی بن محمد طبری وغیرہ ائمہ متکلمین سے نقل فرمایا:القدیم سبٰحنہ عال علی عرشہ لا قاعد ولاقائم ولا مماس و لامبائن عن العرش ، یریدبہ مباینۃ الذات التی ھی بمعنی الاعتزال اوالتباعد لان المماسۃ والمباینۃ التی ھی ضد ھا والقیام والقعود من اوصاف الاجسام ، واﷲ عزوجل احد صمد لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفوااحد ، فلایجوز علیہ مایجوز علی الاجسام تبارک وتعالٰی  ۔۱؂مولٰی تعالیٰ عرش پر علو رکھتا ہے مگر نہ اُس پر بیٹھا ہے نہ کھڑا، نہ اس سے لگا ہوا نہ اس معنٰی پر جُدا کہ اس سے ایک کنارے پر ہو یا دور ہو کہ لگایا الگ ہونا اور اٹھنا بیٹھنا تو جسم کی صفتیں ہیں اور اﷲ تعالٰی احد صمد ہے، نہ جنا نہ جنا گیا، نہ اس کے جوڑ کا کوئی ، تو جو باتیں اجسام پر روا ہیں اﷲ عزوجل پر روا نہیں ہوسکتیں۔

( ۱ ؎کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب ماجاء فی قول اﷲ تعالٰی الرحمن علی العرش استوٰی المکتبۃ الاثریۃ سانگلہ ہل شیخوپورہ ۲/ ۱۵۲)

ضرب ۴۰ : امام استاذ ابوبکر بن فورک سے نقل فرمایا کہ انہوں نے بعض ائمہ اہلنست سے حکایت کی:استوٰی بمعنی علا ولا یرید بذلک علوا بالمسافۃ والتحیز والکون فی مکان متمکنافیہ ولکن یرید معنی قول اﷲ عزوجل ء امنتم من فی السماء ای من فوقہا علٰی معنی نفی الحد عنہ وانہ لیس ممایحویہ طبق اویحیط بہ قطر  ۔۲؂یعنی استواء بمعنی علو ہے اور اس سے مسافت کی بلندی یا مکان میں ہونا مراد نہیں بلکہ یہ کہ وہ حدو نہایت سے پاک ہے، عرش و فرش کا کوئی طبقہ اُسے محیط نہیں ہوسکتا نہ کوئی مکان اسے گھیرے، اسی معنی پر قرآن عظیم میں اُسے آسمان کے اوپر فرمایا، یعنی اس سے بلند و بالا ہے کہ آسمان میں سماسکے۔

( ۲ ؎ کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب ماجاء فی قول اﷲ تعالٰی الرحمن علی العرش استوٰی المکتبۃ الاثریۃ سانگلہ ہل شیخوپورہ ۲/ ۱۵۲۔۱۵۳)

امام بیہقی فرماتے ہیں:  قلت وھو علی ھذہ الطریقۃ من صفات الذات و کلمۃ ثم تعلقت بالمستوی علیہ، لابالاستواء وھو کقولہ عزوجل ثم اﷲ شھید علٰی مایفعلون یعنی ثم یکون عملھم فیشھدہ وقداشار ابوالحسن علی بن اسمعیل الٰی ھٰذہ الطریقۃ حکایۃ، فقال وقال بعض اصحابنا انہ صفۃ ذات ولا یقال لم یزل مستویا علٰی عرشہ کما ان العلم بان الاشیاء قد حدثت من صفات الذات ، ولایقال لم یزل عالما بان قد حدثت ولما حدثت بعد ۔۱؂حاصل یہ کہ اس طریقہ پر استواء صفات ذات سے ہوگا کہ اللہ سبٰحنہ بذاتہ اپنی تمام مخلوق سے بلندوبالا ہے، نہ بلندی مکان بلکہ بلندیِ مالکیت وسلطان، اور اب پھر کا لفظ نظر بحدوث عرش ہوگا کہ وہ بلندی ذاتی ہر حادث سے اس کے حدوث کے بعد متعلق ہوتی ہے جیسے قرآن عظیم میں فرمایا کہ پھر اﷲ شاہد ہے اُن کے افعال پر یعنی جب ان کے افعال پیدا ہوئے تو شہود الہٰی ان سے متعلق ہوا جس طرح علمِ الہٰی قدیم ہے مگر یہ علم کہ چیز حادث ہوگئی اس کے حدوث کے بعد ہی متعلق ہوگا یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ ازل میں جانتا تھا کہ اشیاء پیدا ہوچکیں حالانکہ ہنوز ناپیدا تھیں۔

( ۱ ؎ کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب ماجاء فی قول اﷲ تعالٰی الرحمن علٰی العرش استوٰی المکتبۃ الاثریۃ سانگلہ ہل شیخوپورہ ۲/ ۱۵۳)

ضرب ۴۱ : پھر امام اہلسنت قدس سرہ سے نقل فرمایا:وجو ابی ھوالاول وھو انّ اﷲ مستوی علی عرشہ وانہ فوق الاشیاء بائن منہا بمعنی انہا لا تحلہ ولا یحلھا ولا یمسہا ولا یشبہہا ولیست البینونۃ بالعزلۃ ، تعالٰی اﷲ ربنا عن الحلول والمماسۃ علواً کبیرا ۔۲؂میرا قول وہی پہلا ہے کہ اللہ عزوجل نے عرش کے ساتھ فعلِ استواء کیا اور ایک عرش ہی کیا وہ تمام اشیاء سے بالا اور سب سے جدا ہے بایں معنٰی کہ نہ اشیاء اس میں حلول کریں نہ وہ اُن میں، نہ وہ ان سے مَس کرے نہ اُن سے کوئی مشابہت رکھے، اور یہ جدائی نہیں کہ اﷲ تعالٰی اشیاء سے ایک کنارے پر ہو، ہمارا رب حلول و مس وفاصلہ وعزلت سے بہت بلند ہے، جل وعلا۔

( ۲ ؎ کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب ماجاء فی قول اﷲ تعالٰی الرحمن علٰی العرش استوٰی المکتبۃ الاثریۃ سانگلہ ہل شیخوپورہ ۲/ ۱۵۳)

دیکھو ائمہ اہلسنت بیٹھنے، چڑھنے، ٹھہرنے کی کیسی جڑ کاٹ رہے ہیں۔
ضرب ۴۲ : پھر امام اہلسنت سے نقل فرمایا:وقد قال بعض اصحابنا ان الاستواء صفۃ اﷲ تعالٰی ینفی الاعوجاج عنہ  ۔۱؂یعنی بعض ائمہ اہلسنت نے فرمایا کہ صفت استواء کے معنی ہیں کہ اﷲ عزوجل کجی سے پاک ہے۔

( ۱ ؎  کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب ماجاء فی قول اﷲ تعالٰی الرحمن علی العرش استوٰی المکتبۃ الاثریۃ سانگلہ ہل شیخوپورہ ۲/ ۱۵۳)

اقول : (میں کہتا ہوں، ت) اس تقدیر پر استواء صفات  سلبیہ سے ہوگا جیسے غنی یعنی کسی کامحتاج نہیں، یونہی مستوی یعنی اس میں کجی اور اعوجاج نہیں، اور اب علٰی ظرفِ مستقر ہوگا اور اسی علوملک وسلطان کا مفید، اور ثم تراخی فی الذکر کے لیے ، (ت)کقولہ تعالٰی :ثم کان من الذین امنوا۲؂ (پھر ایمان والوں میں ہوا۔ت)وقولہ تعالٰی خلقہ  من تراب ثم قال لہ کن فیکون ۳ ؎ (اس کو مٹی سے پیدا کیا پھر اس کو فرمایا ہوجا، تو وہ ہوگیا۔ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔

( ۲ ؎ القرآن الکریم     ۶۰/ ۱۷) ( ۳؎ القرآن الکریم     ۳/ ۵۹)

ضرب ۴۳ : پھر امام استاذ ابومنصور ابن ابی ایوب سے نقل فرمایا کہ انہوں نے مجھے لکھ بھیجا:ان کثیرا من متاخری اصحابنا ذھبوا الٰی ان الاستواء ھوالقھروالغلبۃ ، و معناہ ان الرحمٰن غلب العرش و قھرہ، وفائدتہ الاخبار عن قھرہ مملوکاتہ ، وانہا لم تقھرہ وانما خص العرش بالذکر لا نہ اعظم المملوکات فنبہ بالاعلی علی الادنی، قال والاستواء بعمنی القھر و الغلبۃ شائع فی اللغۃ کما یقال استوٰی فلان علی الناحیۃ اذا غلب اھلہا وقال الشاعر فی بشربن مروان ؂
قد استوی بشر علی العراق
من غیر سیف ودم مھراق
یریدانہ غلب اھلہ من غیر محاربۃ  ۔۱؂

یعنی بہت متاخرین علمائے اہل سنت اس طرف گئے کہ استواء بمعنی قہر و غلبہ ہے، آیت کے معنی یہ ہیں کہ رحمن عزجلالہ عرش پر غالب اور اس کا قاہر ہے، اور اس ارشاد کا فائدہ یہ خبر دینا ہے کہ مولٰی تعالٰی اپنی تمام مملوکات پر قابو رکھتا ہے مملوکات کا اس پر قابو نہیں اور عرش کا خاص ذکر اس لیے فرمایا کہ وہ جسامت میں سب مملوکات سے بڑا ہے، تو اس کے ذکر سے باقی سب پر تنبیہ فرمادی اور استواء بمعنی قہر و غلبہ زبانِ عرب میں شائع ہے۔ پھر نژو نظم سے اس کی نظریں پیش کیں کہ جب کوئی شخص کسی بستی والوں پر غالب آجائے تو کہا جاتا ہے استوٰی فلان علی الناحیۃ اور شاعر نے بشر بن مروان کے بارے میں کہا تحقیق بشر عراق پر غالب آگیا تلوار کے ساتھ خون بہائے بغیر، شاعر کی مراد یہ ہے کہ وہ جنگ کیے بغیر بستی والوں پر غالب آگیا۔(ت)

( ۱ ؎  کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب ماجاء فی قول اﷲ تعالٰی الرحمن علی العرش استوٰی المکتبۃ الاثریۃ سانگلہ ہل شیخوپورہ ۲/ ۱۵۳)

گمراہ وہابیو! تم نے دیکھا کہ تمہاری ہی پیش کردہ کتابوں نے تمہیں کیا کیا سزائے کردار کو پہنچایا مگر تمہیں حیا کہاں!

دُوسرا تپانچہ

جاہل بے خرد نے بَک دیا کہ اللہ تعالٰی کا احاطہ فقط ازرُوئے علم ہے اس میں اللہ تعالٰی کی قدرت کا بھی منکر ہوا، اﷲ عزوجل کی صفت بصر سے بھی بے بصر ہوا، اپنی مستندہ کتابوں کابھی خلاف کیا، خود اپنی بے ہودہ تحریر سے بھی تناقض و اختلاف کیا۔ وجوہ سنیئے۔ ضرب ۴۴ : قال اﷲ تعالٰی:الا انھم فی مریۃ من لقاء ربھم الا ان بکل شیئ محیط   ۲ ؎سنتا ہے وہ شک میں ہیں اپنے رب سے ملنے سے ، سُنتا ہے خدا ہر چیز کو محیط ہے۔

(۲ ؎ القرآن الکریم     ۴۱/ ۵۴)

ضرب ۴۵: قال اﷲ تعالٰی:وکان اﷲ بکل شیئ محیطا ۳ ؎اﷲ ہر شے کو محیط ہے۔

( ۳ ؎ القرآن الکریم     ۴/ ۱۲۶)

ضرب ۴۶ : قال اﷲ تعالٰی عنہ :واﷲ من ورائھم محیط   ۴ ؎  اﷲ ان کے آس پاس سے محیط ہے۔

( ۴ ؎ القرآن الکریم     ۸۵ /۲۰)

ان تینوں آیتوں میں اﷲ عزوجل کو محیط بتایا ہے، احاطہ علم کی آیت جُدا ہے۔وان اﷲ قداحاط بکل شیئ علما  ۔۱؂بے شک اﷲ تعالٰی کاعلم ہر شے کو محیط ہے۔(ت)

( ۱ ؎ القرآن الکریم        ۶۵/ ۱۲)

ضرب ۴۷ : ترجمہ رفیعیہ میں ہے:  خبردار ہو تحقیق وہ بیچ شک کے ہیں ملاقات پروردگار اپنے کی سے، خبردار ہو تحقیق وہ ہر چیز کو گھیررہا ہے ۔۲؂

( ۲ ؎ترجمہ شاہ رفیع الدین         آیۃ ۴۱ / ۵۴         ممتاز کمپنی لاہور    ص ۵۲۹ و۵۳۰)

ضرب ۴۸ : اسی میں ہے۔ اور ہے اﷲ ساتھ ہر چیز کے گھیرنے والا ،  ۳ ؎

( ۳ ؎ترجمہ شاہ رفیع الدین     آیۃ ۴/ ۱۲۶         ممتاز کمپنی لاہور    ص ۱۰۹)

ضرب ۴۹ : اُسی میں ہے:  اور اﷲ اُن کے پیچھے سے گھیررہا ہے۔  ۴ ؎

(۴ ؎ترجمہ شاہ رفیع الدین     آیۃ ۸۵/ ۱۲         ممتاز کمپنی لاہور    ص ۶۵)

ضرب ۵۰ : موضح القرآن میں ہے : سنتا ہے وہ دھوکے میں ہیں اپنے رب کی ملاقات سے، سُنتا ہے وہ گھیررہا ہے ہر چیز کو۔  ۵؎

( ۵ ؎  موضح القرآن ترجمہ وتفسیر شاہ عبدالقادر  ۱۲۱        تاج کمپنی لاہور     ص ۵۱۱)

ضرب ۵۱ : اُسی میں زیر آیتِ ثالثہ ہے: اور اﷲ نے اُن کے گرد سے گھیرا ہے ۔۶؂ ان دونوں تیرے مستند مترجموں نے بھی یہ احاطہ خود اﷲ عزوجل ہی کی طرف نسبت کیا۔

(۶ ؎ موضح القرآن ترجمہ وتفسیر شاہ عبدالقادر ۱۲۱        تاج کمپنی لاہور     ص ۷۱۶)

ضرب ۵۲ : اُسی میں زیر آیت ثانیہ ہے:  اللہ کے ڈھب میں ہے، سب چیز ۔۷؂ یہ احاطہ ازروئے قدرت لیا۔

( ۷ ؎  موضح القرآن ترجمہ وتفسیر شاہ عبدالقادر ۱۲۱        تاج کمپنی لاہور     ص ۱۲۰)

ضرب ۵۳: جامع البیان میں زیر آیت اُولٰی ہے:الکل تحت علمہ وقدرتہ   ۱ ؎یعنی سب اُس کے علم و قدرت کے نیچے ہیں۔

( ۱ ؎ جامع البیان لمحمد بن عبدالرحمن آیہ ۴۱/ ۵۴   دارنشرالکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ         ۲/ ۲۵۲)

ضرب ۵۴: زیر آیت ثانیہ ہے:بعلمہ وقدرتہ۔اﷲ علم و قدرت دونوں کی رُو سے محیط ہے ۔۲؂

(۲ ؎ جامع البیان لمحمد بن عبدالرحمن آیہ ۴۱/ ۵۴   دارنشرالکتب الاسلامیہ گوجرانوالہ         ۱ /۱۴۶)

ضرب ۵۵: مدارک شریف میں زیر آیت ثالثہ ہے:  عالم باحوالھم وقادر علیھم وھم لایعجزونہ  ۔۳؂یعنی ا ﷲ اُن کے احوال کا عالم اور ان پر قادر ہے وہ اسے عاجز نہیں کرسکتے۔

( ۳ ؎ مدارک التنزیل (تفسیر النسفی ) آیۃ ۸۵/ ۲۰      دارالکتاب العربی بیروت         ۴/ ۳۴۷)

ضرب ۵۶ :کتاب الاسماء میں ہے :  المحیط راجع الی کمال العلم و القدرۃ   ۴؎اسم الہٰی محیط کے معنی کمال علم و قدرت کی طرف راجع ہیں۔ان تیرے مستندوں نے احاطہ فقط ازروئے علم ہونا کیسا باطل کیا۔

(۴ ؎  کتاب الاسماء والصفات للبیہقی  ابواب ذکر الاسماء التی متبع فی التشبیہ الخ،المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ۱/ ۸۱)

ضرب ۵۷: اﷲ عزوجل کی بصر بھی محیط ہے ،قال تعالٰی:  انہ بکل شیئ بصیر  ۔۵؂اﷲ تعالٰی ہر چیز کو دیکھ رہا ہے۔

( ۵ ؎ القرآن الکریم ۶۷ / ۱۹)

ضرب ۵۸: اس کا سمع بھی محیط اشیاء ہے۔کما حققہ عالم اھل السنۃ مدظلہ فی منھیات سبحن السبوحجیسا کہ عالم اہلسنت نے سبحٰن السبوح کے منہیات میں اس کی تحقیق فرمائی ہے(ت)

ضرب ۵۹: قدرت بھی محیط ہے،قال تعالٰی:  ان اﷲ علٰی کل شیئ قدیر   ۶ ؎بے شک اللہ تعالٰی ہر شے پر قادر ہے۔(ت)

(۶ ؎  القرآن الکریم ۲/ ۲۰ و ۲/ ۱۰۶ و ۲/ ۱۰۹ و ۲/ ۱۴۸ وغیرہ)

ضرب ۶۰: خالقیت بھی محیط ہے،قال تعالٰی :  خالق کل شیئ فاعبدوہ   ۷ ؎  اللہ تعالٰی ہر شے کا خالق ہے پس اسی کی عبادت کرو۔(ت)

( ۷ ؎ القرآن الکریم ۶/ ۱۰۲)

ضرب ۶۱: مالکیت بھی محیط ہےقال تعالٰی۔  بیدہ ملکوت کل شیئ  ۱ ؎اسی کے ہاتھ میں ہر چیز کا قبضہ ہے۔(ت)

( ۱ ؎ القران الکریم     ۳۶/ ۸۳)

اس بے خرد وہابی نے فقط ازروئے علم کہہ کر ان تمام صفات الہٰیہ کے احاطہ سے انکار کردیا، آنکھیں رکھتا ہو تو سوجھے کہ اپنی گہری جہالت کی گھٹا ٹوپ اندھیری میں کتنی آیتوں کا رد کرگیا۔
بالجملہ اگر مذہب متقد مین لیجئے تو ہم ایمان لائے کہ ہمارے مولٰی تعالٰی کا علم محیط ہے جیسا کہ سورہ طلاق میں فرمایا، اور احاطہ علم کے معنی ہمیں معلوم ہیں کہ۔لایعزب عنہ مثقال ذرّۃ فی السموٰت ولا فی الارض   ۲ ؎اس سے غائب نہیں ذرہ بھر کوئی چیز آسمانوں میں اور نہ زمین میں۔(ت)

( ۲؎  القرآن الکریم     ۳۴/ ۳)

اور ہمارا مولٰی عزوجل محیط ہے جیسا کہ سورہ نساء سورہ فصلت و سورہ بروج میں ارشاد فرمایا اور اس کا احاطہ ہماری عقل سے وراء ہے۔اٰمنّا بہ کل من عند ربّنا   ۳ ؎ہم اس پر ایمان لائے سب ہمارے رب کے پاس سے ہے۔(ت)

( ۳؎القرآن الکریم   ۳/ ۷)

اور اگر مسلک متاخرین چلیے تو اﷲ تعالٰی جس طرح ازروئے علم محیط ہے یونہی ازروئے قدرت و ازروئےسمع و ازراہ بصروازجہت ملک و از وجہ خلق وغیر ذلک،تو فقط علم میں احاطہ منحصر کردینا ان سب صفات و آیات سے منکر ہوجانا ہے۔

ضرب ۶۲: بے وقوف چند سطر بعد مانے گا کہ جتنی صفتیں کلامِ شارع میں وارد ہیں اُن سے سکوت نہ ہوگا، یہاں احاطہ ذات سے سکوت کیسا، انکار کرگیا مگر وہابی را حافظہ نباشد، یہ کیسا صریح تناقض ہے۔

 

تیسرا تپانچہ

اصل تپانچہ قیامت کا تپانچہ جس سے مجسمی گمراہی کا سرمہ ہوجائے

 

بدمذہب گمراہ نے صاف بک دیا کہ اس کا معبود مکان رکھتا ہے عرش پر بستا ہے ۔تعالٰی اﷲ عما یقول الظلمون علواکبیراoتعالٰی اﷲ عما یقول الظلمون علواکبیراoاﷲ تعالٰی اس سے بہت بلند ہے جو ظالم کہتے ہیں ت)   وباﷲ التوفیق ووصول التحقیق۔

ضرب ۶۸: مدارک شریف سورہ اعراف میں ہے:انہ تعالٰی کان قبل العرش ولا مکان و ھو الاٰن کما کان ، لان التغیرمن صفات الاکوان  ۔۱؂بے شک اﷲ تعالٰی عرش سے پہلے موجود تھا جب مکان کا نام و نشان نہ تھا اور وہ اب بھی ویسا ہی ہے جیسا جب تھا اس لیے کہ بدل جانا تو مخلوق کی شان ہے۔

( ۱ ؎  مدارک التنزیل(تفسیر النسفی) آیت ۷/ ۵۴دارالکتاب العربی بیروت ۲ /۵۶)

ضرب ۶۹ : یونہی سورہ طٰہٰ میں تصریح فرمائی کہ عرش مکانِ الہی نہیں ، اللہ عزوجل مکان سے پاک ہے، عبارت سابقاً منقول ہوئی۔

ضرب ۷۰:  سورہ یونس میں فرمایا :ای استولی فقد یقدس الدیان جل و عزعن المکان والمعبود عن الحدود ۔۲؂استواء بمعنی استیلاء وغلبہ ہے نہ بمعنی مکانیت اس لیے کہ اﷲ عزوجل مکان سے پاک اور معبود جل و علا حدو نہایت سے منزہ ہے۔

( ۲ ؎ مدارک النتزیل (تفسیرالنسفی) آیت ۱۰/ ۳     دارالکتاب العربی بیروت         ۲/ ۱۵۳)

ہزار نفرین اُس بیحیا آنکھ کو جو ایسے ناپاک بول بول کر ایسی کتابوں کا نام لیتے ہوئے ذرا نہ جھپکے۔

ضرب ۷۱ : امام بیہقی کتاب الاسماء والصفات میں امام اجل ابوعبداﷲ حلیمی سے زیر اسم پاک متعالی نقل فرماتے ہیں:معناہ المرتفع عن ان یجوز علیہ مایجوز علی المحدثین من الازواج والاولادو الجوارح والاعضاء واتخاذ السریرللجلوس علیہ، والا حتجاب بالستورعن ان تنفذ الابصار الیہ، و الانتفال من مکان الٰی مکان ، ونحو ذلک فان اثبات بعض ھذہ الاشیاء یوجب النہایۃ وبعضہا یوجب الحاجۃ، وبعضہا یوجب التغیر والاستحالۃ، و شیئ من ذٰلک غیر لا ئق بالقدیم ولا جائز علیہ  ۔۱؂

یعنی نام الہٰی متعالی کے یہ معنی ہیں کہ اللہ عزوجل اس سے پاک و منزہ ہے کہ جو باتیں مخلوقات پر روا ہیں جیسے جورو، بیٹا ، آلات، اعضاء ، تخت پر بیٹھنا، پردوں میں چھپنا ، ایک مکان سے دوسرے کی طرف انتقال کرنا( جس طرح چڑھنے، اُترنے ، چلنے، ٹھہرنے میں ہوتا ہے) اس پر روا ہوسکیں اس لیے کہ ان میں بعض باتوں سے نہایت لازم آئے گی بعض سے احتیاج بعض سے بدلنا متغیر ہونا اور ان میں سے کوئی امر اﷲ عزوجل کے لائق نہیں، نہ اس کے لیے امکان رکھے ۔

(۱ ؎ کتاب الاسماء والصفات للبیہقی جماع ابواب ذکر الاسماء التی تتبع نفی التشبیہ المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل  ۲ /۷۱ و۷۲)

کیوں پچتا ئے تو نہ ہوگے کتاب الاسماء کا حوالہ دے کر، تف ہزار تُف وہابیہ مجسمہ کی بے حیائی پر۔
ضرب ۷۲: باب ماجاء فی العرش میں امام سلیمٰن خطابی علیہ الرحمۃ سے نقل فرماتے ہیں:لیس معنی قول المسلمین ان اﷲ تعالٰی استوٰی علی العرش ھوانہ مماس لہ او متمکن فیہ ، اومتحیز فی جہۃ من جہاتہ، لکنہ بائن من جمیع خلقہ، وانما ھو خبرجاء بہ التوقیف فقلنا بہ، ونفینا عنہ التکیف اذ لیس کمثلہ شیئ وھو السمیع العلیم  ۔۱؂

مسلمانوں کے اس قول کے کہ  اللہ تعالٰی عرش پر ہے، یہ معنی نہیں کہ وہ عرش سے لگایا ہوا ہے یا وہ ا س کا مکان ہے یا وہ اس کی کسی جانب میں ٹھہرا ہوا ہے بلکہ وہ تو اپنی تمام مخلوق سے نرالا ہے یہ تو ایک خبر ہے کہ شرع میں وارد ہوئی تو ہم نے مانی اور چگونگی اس سے دور و مسلوب جانی اس لیے کہ اللہ کے مشابہ کوئی چیز نہیں اور وہی ہے سننے دیکھنے والا۔

( ۱ ؎   کتاب الاسماء والصفات         باب ماجاء فی العرش والکرسی     المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ        ۲/ ۱۳۹)

ضرب ۷۳: اس سے گزرا کہ اﷲ عزوجل کے علو سے اس کا امکان بالا میں ہونا مراد نہیں، مکان اسے نہیں گھیرتا۔
ضرب ۷۴: نیز یہ کلیہ بھی گزرا کہ جو اجسام پر روا ہے اﷲ عزوجل پر روا نہیں۔
ضرب ۷۵ : اُسی میں یہ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے طبقات آسمان پھر ان کے اوپر عرش پھر طبقاتِ زمین کا بیان کرکے فرمایا:

والذی نفس محمد بیدہ لو انکم دلیتم احدکم بحبل الی الارض السابعۃ لھبط علی اﷲ تبارک وتعالٰی ثم قرأرسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم و ھو الاول والاخرو والظاہر والباطن  ۔۲؂

قسم اس کی جس کے دستِ قدرت میں محمدصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم  کی جان ہے اگر تم کسی کو رسی کے ذریعہ سے ساتویں زمین تک لٹکاؤ تو وہاں بھی وہ اﷲ عزوجل ہی تک پہنچے گا۔ پھر رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی کہ اﷲ ہی ہے اول و آخرو ظاہر و باطن۔

( ۲ ؎ کتاب الاسماء والصفات للبیہقی جماع ابواب ذکر الاسماء التی تتبع نفی التشبیہ المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل         ۲/ ۱۴۴)

اس حدیث کے بعد امام فرماتے ہیں:الذی روی فی اٰخر ھٰذا الحدیث اشارۃ الٰی نفی المکان عن اﷲ تعالٰی وان العبداینما کان فہو فی القرب والبعد من اﷲ تعالٰی سواء وانہ الظاھر، فیصح ادراکہ بالدلا لۃ، الباطن فلا یصح ادراکہ بالکون فی مکان  ۔۳ ؎

اس حدیث کا پچھلا فقرہ اﷲ عزوجل سے نفی مکان پر دلالت کرتا ہے اور یہ کہ بندہ کہیں ہو اﷲ عزوجل سے قُرب و بعد میں یکساں ہے، اور یہ کہ اللہ ہی ظاہر ہے تو دلائل سے اُسے پہچان سکتے ہیں اور وہی باطن ہے کسی مکان میں نہیں کہ یوں اسے جان سکیں۔

(۳ ؎ کتاب الاسماء والصفات    للبیہقی جماع ابواب ذکر الاسماء التی تتبع نفی التشبیہ المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل  ۲/ ۱۴۴)

اقول : یعنی اگر عرش اُس کا مکان ہوتا تو جو ساتویں زمین تک پہنچا وہ اس سے کمال دوری و بعد پر ہوجاتا نہ کہ وہاں بھی اﷲ ہی تک پہنچتا، اور مکانی چیز کا ایک آن میں دو مختلف مکان میں موجود ہونا محال اور یہ اس سے بھی شنیع تر ہے کہ عرش تا فرش تمام مکانات بالا و زیریں دفعۃً اس سے بھرے ہوئے مانوکہ تجزیہ وغیرہ صدہا استحالے لازم آنے کے علاوہ معاذ اﷲ اﷲ تعالٰی کو اسفل وادنی کہنا بھی صحیح ہوگا لاجرم قطعاً یقیناً ایمان لانا پڑے گا کہ عرش وفرش کچھ اس کا مکان نہیں، نہ وہ عرش میں ہے نہ ماتحت الثرٰی میں، نہ کسی جگہ میں ہاں اس کا علم و قدرت و سمع و بصرو ملک ہر جگہ ہے ۔

جس طرح امام ترمذی نے جامع میں ذکر فرمایا:واستدل بعض اصحابنا فی نفی المکان عنہ تعالٰی بقو ل النبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم انت الظاہر فلیس فوقک شیئ وانت الباطن فلیس دونک شیئ واذا لم یکن فوقہ شیئ ولادونہ شیئ لم یکن فی مکان ۔۱؂

یعنی اور بعض ائمہ اہلسنت نے اللہ عزوجل سے نفی مکان پر نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے اس قول سے استدلال کیا کہ اپنے رب عزوجل سے عرض کرتے ہیں تو ہی ظاہر ہے توکوئی تجھ سے اوپر نہیں ، اور تو ہی باطن ہے تو کوئی تیرے نیچے نہیں ، جب اللہ عزوجل سے نہ کوئی اوپر ہوا نہ کوئی نیچے تو اللہ تعالٰی کسی مکان میں نہ ہوا۔

( ۱ ؎   کتاب الاسماء والصفات         باب ماجاء فی العرش والکرسی     المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ        ۲/ ۱۴۴)

یہ حدیث صحیح مسلم شریف و سنن ابی داؤد میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سےورواہ البیھقی فی الاسم الاول و الاخر (اسے بیہقی نے اسم اول و آخر میں ذکر کیا ہے۔ت)

اقول : حاصل دلیل یہ کہ اﷲ عزوجل کا تمام امکنہ زیر و بالا کو بھرے ہونا تو بداہۃً محال ہے ورنہ وہی استحالے لازم آئیں ، اب اگر مکان بالا میں ہوگا تو اشیاء اس کے نیچے ہوں گی اور مکان زیریں میں ہوا تو اشیاء اُس سے اوپر ہوں گی اور وسط میں ہوا تو اوپر نیچے دونوں ہوں گی حالانکہ رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی وسلم فرماتے ہیں، نہ اس سے اوپر کچھ ہے نہ نیچے کچھ ، تو واجب ہوا کہ مولٰی تعالٰی مکان سے پاک ہو۔
ضرب ۷۷ : عرش فرش جگہ کو معاذ اﷲ مکانِ الہٰی  کہو اﷲ تعالٰی ازل سے اس میں متمکن تھا یا اب متمکن ہوا، پہلی تقدیر پر وہ مکان بھی ازلی ٹھہرا اور کسی مخلوق کو ازلی ماننا باجماع مسلمین کفر ہے دوسری تقدیر پر اﷲ تعالٰی عزوجل میں تغیر آیا اور یہ خلافِ شان الوہیت ہے۔

ضرب ۷۸ : اقول: مکان خواہ بعد موہوم ہو یا مجرد یا سطح حاوی مکین کو اُس کا محیط ہونا لازم،محیط یامماس بعض شے مکان یا بعض مکان ہے نہ مکان شے ، مثلاً ٹوپی کو نہیں کہہ سکتے کہ پہننے والے کا مکان ، تم جوتا پہنے ہو تو یہ نہ کہیں گے کہ تمہارا مکان جوتے میں ہے، تو عرش اگر معاذ اﷲ مکان الہٰی ہو لازم کہ اﷲ عزوجل کو محیط ہو، یہ محال ہے۔

قال اﷲ تعالٰی : وکان اﷲ بکل شیئ محیطا ۱؂اﷲ تعالٰی عرش و فرش سب کو محیط ہے۔ وہ احاطہ جو عقل سے وراء ہے اور اس کی شان  قدوسی کے لائق ہے اس کا غیر اسے محیط نہیں ہوسکتا۔

(۱؂القرآن الکریم    ۴/ ۱۲۶)

ضرب ۷۹: نیز لازم کہ اﷲ عزوجل عرش سے چھوٹا ہو۔
ضرب ۸۰: نیز محدود محصور ہو۔
ضرب ۸۱: ان سب شناعتوں کے بعد جس آیت سے عرش کی مکانیت نکالی تھی وہی باطل ہوگئی ، آیت میں عرش پر فرمایا ہے اور عرش مکانِ خدا ہو تو خدا عرش کے اندر ہوگا نہ کہ عرش پر۔

ضرب ۸۲: اقول : جب تیرے نزدیک تیرا معبود مکانی ہوا تو دو حال سے خالی نہیں جزء، لایتجزی کے برابر ہوگا یا اس سے بڑا ، اول باطل ہے کہ اس تقدیر پر تیرا معبود ہر چھوٹی چیز سے چھوٹا ہوا ، ایک دانہ ریگ کے ہزارویں لاکھوں حصے سے بھی کمتر ہوا، نیز اس صورت میں صد ہا آیات و احادیث عین و ید ووجہ و ساق وغیرہا کا انکار ہوگا کہ جب متشابہات ظاہر پر محمول ٹھہریں تو یہاں بھی معانی مفہومہ ظاہرہ مراد لینے واجب ہوں گے اور جزء لایتجزی کے لیے آنکھ، ہاتھ، چہرہ، پاؤں ممکن نہیں۔ اگر کہیے وہ ایک ہی جز ء اِن سب اعضاء کے کام دیتا ہے، لہذا ان ناموں سے مسمّٰی ہوا تو یہ بھی باطل ہے کہ اوّلاً تو اس کے لیے یہ اشیاء مانی گئی ہیں نہ یہ کہ وہ خود یہ اشیاء ہے۔

ثانیاً با عیننا اور  بل یداہ کا کیا جواب ہوگا کہ جزء لایتجزی میں دو فرض نہیں کرسکتے۔ اور مبسوطتان تو صراحۃً اس کا ابطال ہے جو ہر فرد میں بسط کہاں، اور ثانی بھی باطل ہے کہ اس تقدیر پر تیرے معبود کے ٹکڑے ہوسکیں گے اس میں حصے فرض کرسکیں گے اور معبود حق عزجلالہ اس سے پاک ہے۔
ضرب ۸۳ : اقول: جو کسی چیز پر بیٹھا ہو اس کی تین ہی صورتیں ممکن، یا تو وہ بیٹھک اس کے برابر ہے یا اس سے بڑی ہے کہ وہ بیٹھا ہے اور جگہ خالی باقی ہے یا چھوٹی ہے کہ وہ پورا اس بیٹھک پر نہ آیا کچھ حصہ باہر ہے، اللہ عزوجل میں یہ تینوں صورتیں محال ہیں، وہ عرش کے برابر ہوتو جتنے حصے عرش میں ہوسکتے ہیں اس میں بھی ہوسکیں گے، اور چھوٹا ہو تو اسے خدا کہنے سے عرش کو خدا کہنا اولی ہے کہ وہ خدا سے بھی بڑا ہے اور بڑا ہو تو بالفعل حصے متعین ہوگئے کہ خدا کا ایک حصہ عرش سے ملا ہے ا ور ایک حصہ باہر ہے۔

ضرب ۸۴: اقول: خدا اس عرش سے بھی بڑا بنا سکتا ہے یا نہیں، اگر نہیں تو عاجز ہوا حالانکہان اﷲ علٰی کل شیئ قدیر ۔۱؂بے شک اﷲ تعالٰی ہر چیز پر قادر ہے۔ ت) اور اگر ہاں تو اب اگر خدا عرش سے چھوٹا نہیں برابر بھی ہو تو جب عرش سے بڑا بناسکتا ہے اپنے سے بڑا بھی بناسکتا ہے کہ جب دونوں برابر ہیں تو جو عرش سے بڑا ہے خدا سے بھی بڑا ہے اور اگر خدا عرش سے بڑا ہی تو غیر متناہی بڑا نہیں ہوسکتا کہ لاتناہی ابعاد دلائل قاطعہ سے باطل ہے لاجرم بقدر متناہی بڑا ہوگا۔ مثلاً عرش سے دونا فرض کیجئے ، اب عرش سے سوائی ڈیوڑھی ، پون دگنی ،تگنی مقداروں کو پوچھتے جائیے کہ خدا ان کے بنانے پر قادر ہے یا نہیں، جہاں انکار کرو گے خدا کو عاجز کہو گے اور اقرار کرتے جاؤ گے تو وہی مصیبت آڑے آئے گی کہ خدا اپنے سے بڑا بناسکتا ہے۔

(۱؂ القرآن الکریم    ۲/ ۲۰ و ۱۰۶ و ۱۰۹ و ۱۴۸ وغیرہ)

ضرب ۸۵: اقول: یہ تو ضرو رہے کہ خدا جب عرش پر بیٹھے تو عرش سے بڑا ہو ورنہ خدا اور مخلوق برابر ہوجائیں گے یا مخلوق اس سے بڑی ٹھہرے گی، اور جب وہ بیٹھنے والا اپنی بیٹھک سے بڑا ہے تو قطعاً اس پر پورا نہیں آسکتا جتنا بڑا ہے اتنا حصہ باہر رہے گا تو اس میں دو حصے ہوئے ایک عرش سے لگا اور ایک الگ۔ اب سوال ہوگا کہ یہ دونوں حصے خدا ہیں یا جتنا عرش سے لگا ہے وہی خدا ہے باہر والا خدائی سے جدا ہے یا اس کا عکس ہے یا اُن میں کوئی خدا نہیں بلکہ دونوں کا مجموعہ خدا ہے پہلی تقدیر پر دو خدا لازم آئیں گے، دوسری پر خدا و عرش برابر ہوگئے کہ خدا تو اتنے ہی کا نام رہا جو عرش سے ملا ہوا ہے۔ تیسری تقدیر پر خدا عرش پر نہ بیٹھا کہ جو خدا ہے وہ الگ ہے اور جو لگا ہے وہ خدا نہیں، چوتھی پر عرش خدا کا مکان نہ ہوا کہ وہ اگر مکان ہے تو اُتنے ٹکڑے کا جو اس سے ملا ہے اور وہ خدا نہیں۔

ضرب ۸۶: اقول : جو مکانی ہے اور جزء لایتجزے کے برابر نہیں اسے مقدار سے مفر نہیں اور مقدار غیر متناہی بالفعل باطل ہے اور مقدار متناہی کے افراد نامتناہی ہیں اور شخص معین کو اُن میں سے کوئی قدر معین ہی عارض ہوگی، تو لاجرم تیرا معبود ایک مقدار مخصوص محدود پر ہوا اس تخصیص کو علت سے چارہ نہیں مثلاً کروڑ گز کا ہے تو دو کروڑ کا کیوں نہ ہوا، دو کروڑ کا ہے تو کروڑ کا کیوں نہ ہوا، اس تخصیص کی علت تیرا معبود آپ ہی ہے یا اس کا غیر اگر غیر ہے جب تو سچا خداوہی ہے جس نے تیرے معبود کو اتنے یا اتنے گز کا بنایا، اور اگر خود ہی ہو تا ہم بہرحال اس کا حادث ہونا لازم کہ امورِ متساویۃ النسبۃ میں ایک کی ترجیح ارادے پر موقوف، اور ہر مخلوق بالا رادہ حادث ہے تو وہ مقدار مخصوص حادث ہوئی اور مقداری کا وجود بے مقدار کے محال، تو تیرا معبود حادث ہوا اور تقدم الشیئ علی نفسہ کا لزوم علاوہ۔

ضرب ۸۷: اقول:  ہر مقدار متناہی قابل زیادت ہے تو تیرے معبود سے بڑا اور اس کے بڑے سے بڑا ممکن۔
ضرب ۸۸: اقول: جہات فوق و تحت دو مفہوم اضافی ہیں ایک کا وجود بے د وسرے کے محال ہر بچہ جانتا ہے کہ کسی چیز کو اوپر نہیں کہہ سکتے جب تک دوسری چیز نیچی نہ ہو، اور ازل میں اﷲ عزوجل کے سوا کچھ نہ تھا۔ صحیح بخاری شریف میں عمران بن حصین رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:کان اﷲ تعالٰی ولم یکن شیئ غیرہ ۱؂ ۔اﷲ تعالٰی تھا اور اس کے سوا کچھ نہ تھا۔

( ۱ ؎ صحیح البخاری کتاب بدءِ الخلق باب ماجاء فی قول اﷲ تعالٰی وھو الذی یبدؤ الخلق الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۴۵۳)

تو ازل میں اﷲ عزوجل کا فوق یا تحت ہونا محال اور جب ازل میں محال تھا تو ہمیشہ محال رہے گا ورنہ اﷲ عزوجل کے ساتھ حوادث کا قیام لازم آئے گا اور یہ محال ہے،
کتاب الاسماء والصفات میں امام ابوعبداﷲ حلیمی سے ہے:

اذاقیل ﷲ العزیز فانما یراد بہ الاعتراف لہ بالقدم الذی لا یتھیأ معہ تغیرہ عمالم یزل علیہ من القدرۃ والقوۃ و ذٰلک عائد الٰی تنزیہہ تعالٰی عما یحوز علی المصنوعین لاعراضھم بالحدوث فی انفسہم للحوادث ان تصیبہم وتغیرھم ۔۱؂

جب اﷲ تعالٰی کو عزیز کہا جائے تو اس سے اس کے قدم کا اعتراف ہے کہ جس کی بناء پر ازل سے اس کی قدرت و طاقت پر کوئی تغیر نہیں ہوا، اور اﷲ تعالٰی کی پاکیزگی کی طرف راجع ہے ان چیزوں سے جو مخلوق کے لیے ہوسکتی ہیں کیونکہ وہ خود اور ان کے حوادث تغیر پاتے ہیں۔(ت)

( ۱ ؎کتاب الاسماء والصفات للبیہقی جماع ابواب ذکر الاسماء التی تتبع نفی التشبیہ الخ ، المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ۱/ ۷۱)

ضرب ۸۹: اقول: ہر ذی جہت قابل اشارہ حسیہ ہے کہ اُوپر ہوا تو اُنگلی اوپر کو اٹھا کر بتاسکتے ہیں، کہ وہ ہے اور نیچے ہوا تو نیچے کو، اور ہر قابل اشارہ حسیہ متحیز ہے اور متحیز جسم یا جسمانی ہے اور ہر جسم و جسمانی محتاج ہے اور اﷲ عزوجل احتیاج سے پاک ہے تو واجب ہوا کہ جہت سے پاک ہو، نہ اوپر ہو نہ نیچے، نہ آگے نہ پیچھے ، نہ دہنے نہ بائیں تو قطعاً لازم کہ کسی مکان میں نہ ہو۔
ضرب ۹۰: اقول:  عرش زمین سے غایت بعد پر ہے اور اﷲ بندے سے نہایت قرب میںقال اﷲ تعالٰی :  نحن اقرب الیہ من حبل الورید   ۲ ؎ ہم تمہاری شہ رگ سے زیادہ قریب ہیں۔(ت)

( ۲ ؎ القرآن الکریم     ۵۰/ ۱۶)

قال اﷲ تعالٰی :  اذا سألک عبادی عنی فانی قریب   ۳ ؎جب تجھ سے میرے متعلق میرے بندے سوال کریں تو میں قریب ہوں۔(ت)

( ۳ ؎القرآن الکریم     ۲/ ۱۸۶)

تو اگر عرش پر اﷲ عزوجل کا مکان ہوتا اﷲ تعالٰی ہردور ترسے زیادہ ہم سے دور ہوتا ، اور وہ بنصِ قرآن باطل ہے۔
ضرب ۹۱: مولٰی تعالٰی اگر عرش پر چڑھا بیٹھا ہے تو اس سے اُتر بھی سکتا ہے یا نہیں، اگر نہیں تو عاجز ہوا اور عاجز خدا نہیں، اور اگر ہاں تو جب اُترے گا عرش سے نیچے ہوگا تو اس کا اسفل ہونا بھی ممکن ہوا اور اسفل خدا نہیں۔
ضرب ۹۲: اقول : اگر تیرے معبود کے لیے مکان ہے اور مکان و مکانی کو جہت سے چارہ نہیں کہ جہات نفس امکنہ ہیں یا حدود امکنہ ، تو اب دو حال سے خالی نہیں، یا تو آفتاب کی طرح صرف ایک ہی طرف ہوگا یا آسمان کی مانند ہر جہت سے محیط، اولٰی باطل ہے بوجوہ۔اولاً  آیہ کریمہوکان اﷲ بکل شیئ محیطا ۔۱؂ (اللہ تعالٰی کی قدرت ہر چیز کو محیط ہے۔ت) کے مخالف ہے۔

( ۱ ؎      القرآن الکریم     ۴/ ۱۲۶)

ثانیاً کریمہاینما تولو ا فثمّ وجہ اﷲ ۔۲؂ ( تم جدھر پھرو تو وہاں اللہ تعالٰی کی ذات ہے۔ت) کے خلاف ہے۔

( ۲ ؎   القرآن الکریم     ۲/ ۱۱۵)

ثالثاً  زمین کروی یعنی گول ہے اور اس کی ہر طرف آبادی ثابت ہوئی ہے اور بحمداﷲ ہر جگہ اسلام پہنچا ہوا ہے نئی پرانی دنیائیں سب محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے کلمے سے گونج رہی ہیں شریعتِ مطہرہ تمام بقاع کو عام ہے۔

تبرٰک الذی نزل الفرقان علٰی عبدہ لیکون للعٰلمین نذیراً  ۔۳؂وہ پاک ذات ہے جس نے اپنے خاص بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ سب جہانوں کے لیے ڈر سنانے والا ہو۔ (ت)

( ۳ ؎  القرآن الکریم     ۲۵/ ۱)

اور صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:ان احدکم اذا کان فی الصّلوٰۃ فان اﷲ تعالٰی قبل وجہہ فلا یتنخّمن احد قبل وجہہ فی الصّلوۃ  ۔۴؂جب تم میں کوئی شخص نماز میں ہوتا ہے تو اللہ تعالٰی اس کے منہ کے سامنے ہے تو ہر گز کوئی شخص نماز میں سامنے کو کھکار نہ ڈالے۔

( ۴ ؎صحیح البخاری کتاب الاذان  باب ھل یلتفت لامرینزل بہ  قدیمی کتب خانہ کراچی   ۱/ ۱۰۴)

اگر اللہ تعالٰی ایک ہی طرف ہے تو ہر پارہ زمین میں نماز پڑھنے والے کے سامنے کیونکر ہوسکتا ہے۔
رابعاً  ان گمراہوں مکان و جہت ماننے والوں کے پیشواؤں ابن تیمیہ وغیرہ نے اﷲ تعالٰی کے جہت بالا میں ہونے پر خود ہی یہ دلیل پیش کی ہے کہ تمام جہان کے مسلمان دعا و مناجات کے وقت ہاتھ اپنے سروں کی طرف اٹھاتے ہیں۔ پُر ظاہر کہ یہ دلیل ذلیل طبل کلیل کہ ائمہ کرام جس کے پرخچے اُڑا چکے اگر ثابت کرے گی تو اﷲ عزوجل کا سب طرف سے محیط ہونا کہ ایک ہی طرف ہوتا تو وہیں کے مسلمان سر کی طرف ہاتھ اٹھاتے جہاں وہ سروں کے مقابل ہے باقی اطراف کے مسلمان سروں کی طرف کیونکر اٹھاتے بلکہ سمت مقابل کے رہنے والوں پر لازم ہوتا کہ اپنے پاؤں کی طرف ہاتھ بڑھائیں کہ ان مجمسہ کا معبود اُن کے پاؤوں کی طرف ہے۔ بالجملہ پہلی شق باطل ہے، رہی دوسری اس پر یہ احاطہ عرش کے اندر اندر ہر گز نہ ہوگا ورنہ استواء باطل ہوجائے گا، ان کا معبود عرش کے اوپر نہ ہوگا نیچے قرار پائے گا، لاجرم عرش کے باہر سے احاطہ کرے گا اب عرش ان کے معبود کے پیٹ میں ہوگا تو عرش اس کا مکان کیونکر ہوسکتا ہے بلکہ وہ عرش کا مکان ٹھہرا اور اب عرش پر بیٹھنا بھی باطل ہوگیا، کہ جو چیز اپنے اندر ہو اس پر بیٹھنا نہیں کہہ سکتے کیا تمہیں کہیں گے کہ تم اپنے دل یا جگر یا طحال پر بیٹھے ہوئے ہو، گمرا ہو، حجۃ اﷲ یوں قائم ہوتی ہے۔

ضرب ۹۳: اقول : شرع مطہر نے تمام جہان کے مسلمانوں کو نماز میں قبلہ کی طرف منہ کرنے کا حکم فرمایا، یہی حکم دلیل قطعی ہے کہ اﷲ عزوجل جہت و مکان سے پاک و بری ہے، اگر خود حضرت عزت جلالہ کے لیے طرف وجہت ہوتی محض مہمل باطل تھا کہ اصل معبود کی طرف منہ کرکے اس کی خدمت میں کھڑا ہونا اس کی عظمت کے حضور پیٹھ جھکانا اس کے سامنے خاک پر منہ ملنا چھوڑ کر ایک اور مکان کی طرف سجدہ کرنے لگیں حالانکہ معبود دوسرے مکان میں ہے، بادشاہ کا مجرئی اگر بادشاہ کو چھوڑ کر دیوان خانہ کی کسی دیوار کی طرف منہ کرکے آداب مجرا بجالائے اور دیوار ہی کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا رہے تو بے ادب مسخرہ کہلائے گا یا مجنون پاگل۔ ہاں اگر معبود سب طرف سے زمین کو گھیرے ہوتا تو البتہ جہت قبلہ مقرر کرنے کی جہت نکل سکتی کہ جب وہ ہر سمت سے محیط ہے تو اس کی طرف منہ تو ہر حال میں ہوگا ہی، ایک ادب قاعدے کے طور پر ایک سمت خاص بنادی گئی، مگر معبود ایسے گھیرے سے پاک ہے کہ یہ صورت دو ہی طور پر متصور ہے ، ایک یہ کہ عرش تا فرش سب جگہیں اس سے بھری ہوں جیسے ہر خلا میں ہوا بھری ہے۔ دوسرے یہ کہ وہ عرش سے باہر باہر افلاک کی طرح محیط عالم ہو اور بیچ میں خلا جس میں عرش و کرسی، آسمان و زمین و مخلوقات واقع ہیں ، اور دونوں صورتیں محال ہیں، پچھلی اس لیے کہ اب وہ صمد نہ رہے گا صمد وہ جس کے لیے جوف نہ ہو، اور اس کا جوف تو اتنا بڑا ہوا معہذا جب خالق عالم آسمان کی شکل پر ہوا تو تمہیں کیا معلوم ہوا کہ وہ یہی آسمان اعلٰی ہو جسے فلک اطلس و فلک الافلاک کہتے ہیں ، جب تشبیہ ٹھہری تو اس کے استحالے پر کیا دلیل ہوسکتی ہے اور پہلی صورت اس سے بھی شنیع تروبد یہی البطلان ہے کہ جب مجسمہ گمراہوں کا وہمی معبود عرش تا فرش ہر مکان کو بھرے ہوئے ہے تو معاذ اﷲ ہر پاخانے غسل خانے میں ہوگا مردوں کے پیٹ اور عورتوں کے رحم میں بھی ہوگا، راہ چلنے والے اسی پر پاؤں اور جوتا رکھ کر چلیں گے معہذا اس تقدیر پر تمہیں کیا معلوم کہ وہ یہی ہوا ہو جو ہر جگہ بھری ہے، جب احاطہ جسمانیہ ہر طرح باطل ہوا تو بالضرورۃ ایک ہی کنارے کو ہوگا اور شک نہیں کہ کرہ زمین کے ہر سمت رہنے والے جب نمازوں میں کعبے کو منہ کریں گے تو سب کا منہ اس ایک ہی کنارے کی طرف نہ ہوگا جس میں تم نے خدا کو فرض کیا ہے بلکہ ایک کا منہ ہے تو دوسرے کی پیٹھ ہوگی ، تیسرے کا بازو، ایک کا سر ہوگا تو دوسرے کے پاؤں ، یہ شریعت مطہرہ کو سخت عیب لگانا ہوگا۔ لاجرم ایمان لانا فرض ہے کہ وہ غنی بے نیاز مکان و جہت و جملہ اعراض سے پاک ہےوﷲ الحمد۔

ضرب ۹۴: اقول: صحیحین میں ابوہریرہ اور صحیح مسلم میں ابوہریرہ وابو سعید رضی اللہ تعالٰی عنہما سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:ینزل ربنا کل اللیلۃ الٰی سماء الدنیا حین یبقی ثلث اللیل الاٰخر فیقول من یدعونی فاستجیب لہ الحدیث ۔۱؂

ہمارا رب عزوجل ہر رات تہائی رات رہے اس آسمانِ زیریں تک نزول کرتا اور ارشاد فرماتاہے، ہے کوئی دعا کرنے والا کہ میں اس کی دعا قبول کروں۔

( ۱ ؎ صحیح البخاری کتاب التہجد باب الدعاء والصلوۃ من آخر اللیل قدیمی کتب خانہ کراچی     ۱/ ۱۵۳)
(صحیح مسلم کتاب صلوۃ المسافرین باب صلوۃ اللیل وعدد رکعات الخ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۲۵۸)

اور ارصاد صحیحہ متواترہ نے ثابت کیا ہے کہ آسمان وزمین دونوں گول بشکل کُرہ ہیں، آفتاب ہر آن طلوع و غروب میں ہے، جب ایک موضع میں طالع ہوتا ہے تو دوسرے میں غروب ہوتا ہے، آٹھ پہر یہی حالت ہے تو دن اور رات کا ہر حصہ بھی یونہی آٹھ پہر باختلاف مواضع موجود رہے گا اس وقت یہاں تہائی رات رہی تو ایک لحظہ کے بعد دوسری جگہ تہائی رہے گی جو پہلی جگہ سے ایک مقدار خفیف پر مغرب کو ہٹی ہوگی ایک لحظہ بعد تیسری جگہ تہائی رہے گی وعلٰی ہذا القیاس ، تو واجب ہے کہ مجسمہ کا معبود جن کے طور پر یہ نزول وغیرہ سب معنی حقیقی پر حمل کرنا لازم، ہمیشہ ہر وقت آٹھوں پہر بارھوں مہینے اسی نیچے کے آسمان پر رہتا ہو، غایت یہ کہ جو جو رات سرکتی جائے خود بھی ان لوگوں کے محاذات میں سرکنا ہو خواہ آسمان پر ایک ہی جگہ بیٹھا آواز دیتا ہو، بہرحال جب ہر وقت اسی آسمان پر براج رہا ہے تو عرش پر بیٹھنے کا کون سا وقت آئے گا اور آسمان پر اترنے کے کیا معنی ہوں گے۔

بحمداﷲ یہبیس دلائل جلائل،مثبت حق و مبطل باطل ہیں، تین افادہ ائمہ کرام اور سترہ افاضہ مولائے علام کہ بلامراجعت کتاب ارتجالاً لکھ دیں، چودہ ایک جلسہ واحدہ خفیفہ میں اور باقی تین نماز کے بعد جلسہ ثانیہ میں، اگر کتب کلامیہ کی طرف رجوع کی جائے تو ظاہراً بہت دلائل ان میں ان سے جدا ہوں گے بہت ان میں جدید و تازہ ہوں گے، اور عجب نہیں کہ بعض مشترک بھی ملیں، مگر نہ زیادہ کی فرصت نہ حاجت، نہ اس رسالے میں کتبِ دیگرسے استناد کا قرار داد، لہذا اسی پر اقتصار وقناعت ، اور توفیقِ الہٰی ساتھ ہو تو انہیں میں کفایت و ہدایت ،والحمدﷲ رب العلمین۔

 

اب رَدِّ جہالاتِ مخالف

 

لیجئے یعنی وہ جو اس بے علم نے اپنی گمراہی کے زور میں دو حدیثیں پیشِ خویش اپنی مفید جان کرپیش کیں۔
ضرب ۹۵: حدیث صحیح بخاری تو ان علامۃ الدہر صاحب نے بالکل آنکھیں بند کرکے لکھ دی اپنے معبود کا مکانی و جسم ہونا جو ذہن میں جم گیا ہے تو خواہی نخواہی بھی ہرا ہی ہرا سوجھتا ہے حدیث کے لفظ یہ ہیں۔

فقال وھو مکانہ یارب خفف عنّا فان امتی لاتستطیع ھٰذا  ۔۱؂آپ نے اپنی جگہ پر فرمایا۔ اے رب ! ہم پر تخفیف فرما کیونکہ میری امت میں یہ استطاعت نہیں۔(ت)

( ۱ ؎ صحیح البخاری کتاب التوحید باب قول اللہ عزوجل وکلم اللہ موسی تکلیما   قدیمی کتب خانہ کراچی     ۲/ ۱۱۲۰)

یعنی جب نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر پچاس نمازیں فرض ہوئیں اور حضور سدرہ سے واپس آئے آسمان ہفتم پر موسٰی علیہ الصلوۃ والسلام نے تخفیف چاہنے کے لیے گزارش کی حضور بمشورہ جبریل امین علیہ الصلوۃ والتسلیم پھر عازمِ سدرہ ہوئے اور اپنے اسی مکان سابق پر پہنچ کر جہاں تک پہلے پہنچے تھے اپنے رب سے عرض کی: الہٰی ! ہم سے تخفیف فرمادے کہ میری امت سے اتنی نہ ہوسکیں گی۔

یہاں سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے مکان ترقی کا ذکر ہے، باؤلے فاضل نے جھٹ ضمیر حضرت عزت کی طرف پھیر دی یعنی حضور نے عرض کی اس حال میں کہ خدا اپنے اسی مکان میں بیٹھا ہوا تھا کہیں چلا نہ گیا تھا۔ولاحول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم

بصیر صاحب کو اتنی بھی نہ سوجھی کہ وھو مکانہ جملہ حالیہ قال اور اس کے مقولے کے درمیان واقع ہے تو اقرب کو چھوڑ کر بلا دلیل کیونکر گھڑ لیا جائے کہ یہ حال حضور سے نہیں اﷲ عزوجل سے ہے جو اس جملے میں مذکور بھی نہیں مگر یہ ہے کہ۔من لم یجعل اﷲ لہ نوراً فمالہ من نور   ۱ ؎جس کے لیے اﷲ تعالٰی نُور نہ بنائے تو اس کے لیے نور نہیں۔(ت)

( ۱ ؎     القرآن الکریم           ۲۴/ ۴۰)

ضرب ۹۶: اپنی مستند کتاب الاسماء والصفات کو دیکھ کر اس حدیث کے باب میں کیا کیا فرماتے ہیں یہ حدیث شریک بن عبداﷲ بن ابی نمر نے( جنہیں امام یحیی بن معین و امام نسائی نےلیس بالقوٰی ۔۲؂کہا ویسے قوی نہیں،

( ۲ ؎   میزان الاعتدال بحوالہ النسائی     ترجمہ ۳۶۹۶ شریک بن عبداﷲ دارالمعرفۃ بیروت         ۲/ ۲۶۹)

اور تم غیر مقلدوں کے پیشوا ابن حزم نے اسی حدیث کی وجہ سے واہی وضعیف بتایا اور حافظ الشان نے تقریب ۔۳؂ میں صدوق یخطی فرمایا ۔)

( ۳ ؎   تقریب التہذیب    ترجمہ ۲۷۹۶     دارالکتب العلمیہ بیروت         ۱/ ۴۱۸)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی جس میں جا بجا ثقات حفاظ کی مخالفت کی اس پر کتاب موصوف میں فرماتے ہیں:وروی حدیث المعراج ابن شہاب الزھری عن انس بن مالک عن ابی ذر وقتادۃ عن انس بن مالک عن مالک بن صعصعۃ رضی اللہ تعالٰی عنہ لیس فی حدیث واحد منھما شیئ من ذلک ، وقد ذکر شریک بن عبداﷲ بن ابی نمرفی روایتہ ھذا ما یستدل بہ علی انہ لم یحفظ الحدیث کما ینبغی لہ ۔۴؂یعنی یہ حدیث معراج امام ابن شہاب زہری نے حضرت انس بن مالک انہوں نے حضرت ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے اور قتادہ نے حضرت انس بن مالک انہوں نے حضرت مالک بن صعصعہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کی ان روایات میں اصلاً ان الفاظ کا پتہ نہیں اور بیشک شریک نے روایت میں وہ باتیں ذکر کی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ حدیث جیسی چاہیے انہیں یاد نہ تھی۔

( ۴ ؎کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب ماجاء فی قول اﷲ ثم دنافتدلیء الخ    المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ۲/ ۱۸۷)

ضرب ۹۷: وجوہ مخالفت بیان کرکے فرمایا :ثم ان ھذہ القصۃ بطولہا انما ھی حکایۃ حکاھا شریک عن انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ من تلقاء نفسہ، لم یعزھا الٰی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ولارواھا عنہ ولا اضافہا الی قولہ وقد خالفہ فیما تفرد بہ منہا عبداﷲ بن مسعود و عائشۃ و ابوہریرۃ رضی اللہ تعالٰی عنہم وھم احفظ واکبر واکثر  ۔۱؂

یعنی پھر یہ قصہ حدیث مرفوع نہیں شریک نے صرف حضرت انس کا اپنا قول روایت کیا ہے جسے نہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف نسبت کیا نہ حضور کا قول روایت کیا اور ان الفاظ میں ان کی مخالفت فرمائی حضرت عبداللہ بن مسعود وحضرت ام المومنین صدیقہ و حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہم نے، اور وہ حفظ میں زائد ، عمر میں زائد، عدد میں زائد۔

( ۱ ؎کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب ماجاء فی قول اﷲ تعالٰی ثم دنا فتدلٰی الخ المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ۲ /۱۸۷ )

ضرب ۹۸: پھر امام ابوسلیمٰن خطابی سے نقل فرمایا :وفی الحدیث لفظۃ اخری تفرد بہا شریک ایضا لم یذکرھا غیرہ  وھی قولہ فقال وھو مکانہ والمکان لایضاف الی اﷲ تعالٰی سبحٰنہ انما ھو مکان النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم و مقامہ الاول الذی اقیم فیہ ۔۲ ؎یعنی یہ لفظ مکان بھی صرف شریک نے ذکر کیا اوروں کی روایت میں اس کا پتہ نہیں اور مکان اﷲ سبحٰنہ کی طرف منسوب نہیں، اس سے مراد تو نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا مکان اور حضور کا وہ مقام ہے جہاں اس نزول سے پہلے قائم کیے گئے تھے۔

( ۲ ؎ کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب ماجاء فی قول اﷲ تعالٰی ثم دنا فتدلٰی الخ المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ۲ /۱۸۷)

کیوں کچے تو نہ ہوئے ہو گے، مگر توبہ وہابی گمراہ کو حیا کہاں۔
ضرب ۹۹: اقول: مسند امام احمد رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حدیث مسند سیدنا ابی سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ میں ایک بار اس سند سے مروی۔حدثنا ابوسلمۃ انا لیث عن یزید بن الہاد عن عمرو بن ابی سعید الخدری۳۔ ( ۳ ؎  مسند احمد بن حنبل مروی ازابوسعید الخدری         دارالفکر بیروت ۳/ ۲۹)

دوبارہ یوں    :    حدثنا یونس ثنالیث الحدیث سنداً ومتناً ۔۱؂

( ۱ ؎ مسند احمد بن حنبل         مروی از ابوسعید خدری        دارالفکر بیروت            ۳/ ۴۱)

ان میں صرف اس قدر ہے کہ رب عزوجل نے فرمایا ۔  بعزتی وجلالی  ۔۲؂مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم۔

ارتفاع مکانی کا اصلاً ذکر نہیں، سہ بارہ اس سند سے روایت فرمائی۔حدثنا یحٰیی بن اسحٰق انا ابن لھیعۃ عن دراج عن ابی الھیثم عن ابی سعید الخدری ۔یہاں سرے سے قسم کا ذکر ہی نہیں صرف اتنا ہے کہ:قال الرب عزوجل لا ازال اغفرلھم مااستغفرونی ۔۳؂رب عزوجل نے فرمایا میں انہیں ہمیشہ بخشتا رہوں گا جب تک وہ مجھ سے استغفار کریں گے۔

( ۲ ؎  مسند احمد بن حنبل         مروی از ابوسعید خدری        دارالفکر بیروت            ۳/ ۲۹ و ۴۱)
( ۳؎  مسند احمد بن حنبل     مروی از ابوسعید خدری        دارالفکر بیروت            ۳/ ۷۱)

امام اجل حافظ الحدیث عبدالعظیم منذری نے بھی یہ حدیث کتاب الترغیب والترہیب میں بحوالہ مسند امام احمد و مستدرک حاکم ذکر فرمائی انہوں نے بھی صرف اسی قدر نقل کیا کہبعزتی وجلالی ۴ ؎ ( ۴ ؎  الترغیب والترہیب    کتاب الذکروالدعاء            الترغیب فی الاستغفار مصطفی البابی مصر    ۲/ ۴۶۸)

اور امام جلیل جلال الدین سیوطی نے جامع صغیر و جامع کبیر میں بھی بحوالہ مسند احمد و ابی یعلٰی و حاکم ذکر کی ان میں بھی اتنا ہی ہے ارتفاع مکانی کا لفظ کسی میں نہیں، ہاں بیہقی نے کتاب الاسماء میں یہ حدیث اس طریق اخیر ابن لہیعہ سے روایت کی۔حیث قال اخبرنا علی بن احمد بن عبدان انا احمد بن عبید ثنا جعفر بن محمد ثنا قتیبۃ ثنا ابن لھیعۃ عن دراج عن ابی الھیثم عن ابی سعید الخدری رضی اللہ تعالٰی عنہ ۔۵؂

( ۵ ؎ کتاب الاسماء  والصفات     للبیہقی باب ماجاء فی اثبات العزۃ         المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ    ۱/ ۲۲۱)

یہاں وہ لفظ (ارتفاع مکانی)(ف) ہے اس سند میں اول تو ابن لہیعہ موجود اُن میں محدثین کا جو کلام ہے معلوم و معہود جب باب احکام میں اُن کی حدیث پرائمہ کو وہ نزاعیں ہیں تو باب صفات تو اشد الابواب ہے۔

ف : اسی مقام پر تحقیق والے نے بھی مکان سے مراد مکانتہ لیا ہے،

ضرب ۱۰۰: اقول : وہ مدلس ہیںکما فی فتح المغیث ( جیسا کہ فتح المغیث میں ہے، ت) اور مدلس کا عنعنہ محدثین قبول نہیں کرتے۔

ضرب ۱۰۱: اقول : وہ درّاج سے راوی ہیں اور دراج ابوالہیثم سے، میزان الاعتدال میں دراج کی توثیق صرف یحٰیی سے نقل کی، اور امام احمد نے ان کی تضعیف فرمائی اور اُن کی حدیثوں کو منکر کہا۔ امام فضلک رازی نے کہا وہ ثقہ نہیں ، امام نسائی نے فرمایا: منکر الحدیث ہیں، امام ابوحاتم نے کہا ضعیف ہیں ابن عدی نے اُن کی حدیثیں روایت کرکے کہہ دیا۔ اور حفاظ ان کی موافقت نہیں کرتے ۔ امام دارقطنی نے کہا: ضعیف ہیں، اور ایک بار فرمایا : متروک ہیں، یہ سب اقوال میزان  الاعتدال میں ہیں۔۱؂،
بالاخر ان کے باب میں قولِ منقح یہ ٹھہرا جو حافظ الشان نے تقریب میں لکھا کہ:  صدوق فی حدیثہ عن ابی الھیثم ضعیف   ۲ ؎آدمی فی نفسہ سچے ہیں مگر ابوالہیثم سے ان کی روایت ضعیف ہے۔

( ۱ ؎     میزان الاعتدال ترجمہ ۲۶۶۷ دراج ابوالسمح المصری دارالمعرفۃ بیروت    ۲/ ۲۴، ۲۵)
( ۲ ؎   تقریب التہذیب ترجمہ ۱۸۲۹        دارالکتب العلمیہ بیروت        ۱/ ۲۸۴)

اور یہاں یہ روایت ابوالہیثم ہی سے ہے تو حدیث کا ضعف ثابت ہوگیا، بڑے محدث جی، اسی برتے پر احادیث صحیحہ کہا تھا۔

ضرب ۱۰۲: یہ سات ضربیں ان خاص خاص حدیثوں کے متعلق آپ کے دم پر تھیں۔ اب عام لیجئے کہ یہ حدیث اور اس جیسی اور جولاؤ سب میں منہ کی کھاؤ مکان و منزل و مقام بمعنی ( عہ) مکانت ومنزلت و مرتبہ ایسے شائع الاستعمال نہیں کہ کسی ادنٰی ذی علم پر مخفی رہیں مگر جاہل بےخرد کا کیا علاج ۔

عہ:  ولہذا مرقات میں اسی حدیث کے نیچے لکھا۔ وارتفاع مکانی ای مکانتی ۔ ۳ ؎  ۱۲ منہ
المرادھنا ارتفاع المکانۃ لیس المکان لان اﷲ موجود بلامکان ودلیلہ حدیث اھل الیمن ، نذیر احمد سعیدی

(۳ ؎    مرقات المفاتیح باب الاستغفار والتوبہ     فصل ثانی،    مکتبہ حبیبیہ کوئٹہ     ۵/ ۱۷۵)

ضرب ۱۰۳: اقول :ممکن کہ مکان مصدر میمی ہو تو اس کا حاصل کون ووجود و ارتفاع و اعتلائے وجود الہٰی ہوگا۔
ضرب ۱۰۴: اضافت تشریفی بھی کبھی کسی ذی علم سے سُنی ہے ، کعبہ کو فرمایا : بیتی میرا گھر جبریل امین کو فرمایا : روحنا ہماری رُوح، ناقہ صالح کو فرمایا : ناقۃ اﷲ اﷲ کی اونٹنی اب کہہ دینا کہ اﷲ کا بڑا شیش محل تو اوپر ہے اور ایک چھوٹی سی کوٹھری رات کو سونے کی مکے میں بنا رکھی ہے اور تیرا معبود کوئی جاندار بھی ہے اونچی سی اونٹنی پر سوار بھی ہے۔

بیحیا باش وانچہ خواہی گوئے

( بے حیاہوجا اور جو چاہے کہہ ت)

وہی تیری جان کے دشمن امام بیہقی جن کی کتاب الاسماء کا نام تو نے ہمیشہ کے لیے اپنی جان کو آفت لگادینے کے واسطے لے دیا اُسی کتاب الاسماء میں بعد عبارت مذکورہ سابق فرماتے ہیں:قال ابوسلیمٰن وھٰھنا لفظۃ اخری فی قصۃ الشفاعۃ رواھا قتادۃ عن انس رضی اللہ تعالٰی عن النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فیأ تونی یعنی اھل المحشریسأ لونی للشفاعۃ  فاستأذن علی ربی فی دارہ فیؤذن لی علیہ ای فی دارہ التی دوّرھا لاولیائہ وھی الجنۃ کقولہ عزوجل لھم دارالسلام عند ربھم وکقولہ تعالٰی واﷲ یدعوالٰی دارالسلمٰ وکما یقال بیت اﷲ و حرم اﷲ، یریدون البیت الذی جعل اﷲ مثابۃ للناس ، والحرم الذی جعلہ امنا ومثلہ روح اﷲ علی سبیل التفضیل لہ علی سائر الارواح، وانما ذٰلک فی ترتیب الکلام کقولہ جل وعلا (ای حکایۃ عن فرعون ) ان رسولکم الذی ارسل الیکم لمجنون فاضاف الرسول الیہم وانما ھو رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ارسل الیھم اھ باختصار ۔۱؂

ابوسلیمان نے فرمایا کہ یہاں شفاعت کے واقعہ میں ایک دوسرا لفظ ہے جس کو حضرت قتادہ نے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ اور انہوں نے نبی پاک صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کیا : تو میرے پاس اہلِ محشر آئیں گے شفاعت کی درخواست کریں گے، تو میں اللہ تعالٰی سے اجازت طلب کروں گا اس کے گھر میں تو مجھے اجازتِ شفاعت ہوگی، فی دارہ سے مراد وہ دار ہے جس کو اﷲ تعالٰی نے اپنے اولیاء کے لیے دار بنایا اور وہ جنت ہے، جیسے اﷲ تعالٰی کا ارشاد ہے اور اﷲ تعالٰی دارالسلام کی طرف دعوت دیتا ہے۔( جنت کو اﷲ تعالٰی کا دار کہنا) ایسے ہی ہے جیسے بیت اﷲ اور حرم اﷲ کہا جاتا ہے اور یہ مراد لیتے ہیں کہ وہ بیت جس کو اﷲ تعالٰی نے لوگوں کے لیے مرجع بنایا اوروہ حرم جس کو اﷲ تعالٰی نے لوگوں کے لیے جائے امن بنایا، اس طرح روح اﷲ کہا گیا کہ جس کا مطلب ہے کہ اﷲ تعالٰی نے اس کو باقی روحوں پر فضیلت دی اور یہ صرف کلامی ترتیب ہے جیسے اﷲ تعالٰی کا ارشاد فرعون سے حکایت کرتے ہوئے ہے کہ اس نے کہا : بنی اسرائیل ! تمہارا رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا وہ مجنون ہے، تو یہاں رسول کی اضافت بنی اسرائیل کی طرف کی حالانکہ وہ صرف اﷲ کے رسول ہیں، صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم، جس کو اﷲ تعالٰی نے ان کی طرف بھیجا ہے، ا ھ اختصاراً (ت)

( ۱ ؎ کتاب الاسماء والصفات باب ماجاء فی قول اﷲ تعالٰی ثم دنا فتدلّٰی الخ المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ۲/ ۱۸۸و ۱۸۹)

ضرب ۱۰۵: کہ حدیث اول سے بھی جواب آخر ہے یہ دونوں حدیثیں بھی فرض کرلیں اور مکان اُسی تیرے گمان ہی کے معنی پر رکھیں اور اس کی نسبت جانب حضرت عزت بھی تیرے ہی حسب دلخواہ قرار دیں تو غایت یہ کہ دو حدیث آحاد میں لفظ مکان وارد ہوا اس قدر کیا قابل استناد ولائق اعتماد کہ ایسے مسائلِ ذات و صفاتِ الہی میں احادیث اصلاً قابل قبول نہیں وہی تیرے دشمن مستند،
امام بیہقی اُسی کتاب الاسماء والصفات میں فرماتے ہیں:  ترک اھل النظر اصحابنا الاحتجاج باخبار الآحاد فی صفات اﷲ تعالٰی اذا لم یکن لما انفرد منہا اصل فی الکتاب او الاجماع واشتغلوا بتاویلہ  ۔ ۲ ؎

ہمارے ائمہ متکلمین اہلسنت و جماعت نے مسائل صفاتِ الہیہ میں اخبار آحاد سے سند لانی قبول نہ کی جب کہ وہ بات کہ تنہا ان میں آئی اس کی اصل قرآن عظیم یا باجماع امت سے ثابت نہ ہوا اور ایسی حدیثوں کی تاویل میں مشغول ہوئے۔

( ۲ ؎ کتاب الاسماء والصفات باب ماذکرفی القدم والرجل ثم دنا فتدلّٰی الخ المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ  ۲ /۹۲)

اُسی میں امام خطابی سے نقل فرمایا:الاصل فی ھذا وما اشبہہ فی اثبات الصفات ، انہ لایجوز ذلک الاان یکون بکتاب ناطق اوخبر مقطوع بصحتہ فان لم یکونا فیما یثبت من اخبار الاحادیث المستندۃ الٰی اصل فی الکتاب اوفی السنۃ المقطوع بصحتہا او بموافقۃ معانیہا و ماکان بخلاف ذٰلک فالتوقف عن اطلاق الاسم بہ ھوالواجب ویتأول حینئذعلی مایلیق بمعانی الاصول المتفق علیہا من اقاویل اھل الدین والعلم مع نفی التشبیہ فیہ، ھذا ھوالاصل الذی یبنی علیہ الکلام والمعتمدۃ فی ھذاالباب  ۔۱؂

اس میں اور اس قسم کی صفات کے اثبات میں قاعدہ یہ ہے کہ یہ اثبات صرف کتاب اﷲ یا قطعی حدیث سے ہو، اگر ان دونوں سے نہ ہو پھر اس کا ثبوت ان احادیث سے ہو جو کتاب اﷲ اور قطعی صحیح حدیث سے مستند کسی ضابطہ کے مطابق اور ان کے معانی کے موافق ہو، اور جوان کے مخالف ہو تو پھر اس صفت کے اسم کے اطلاق پر ہی اکتفا کیا جانا ضروری ہوگا اور اس کی مراد کے لیے ایسی تاویل کی جائے گی جو اہلِ دین اور اہل علم کے متفقہ اقوال کے معانی کے موافق ہو، اور ضروری ہے کہ اس صفات میں کوئی تشبیہ کا پہلو نہ ہو، یہی وہ قاعدہ ہے جس پر کلام کو مبنی کیا جائے اور اس باب میں یہی قابل اعتماد قاعدہ ہے۔(ت)

(۱ ؎ کتاب الاسماء والصفات  للبیہقی باب ماذکرفی الاصابع  المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ  ۲ /۷۰)

ضرب ۱۰۶: اقول : تیری سب جہالتوں سے قطع نظر کی جائے تو ذرا اپنے دعوے کو سوجھ کہ احادیث صریحہ صحیحہ سے عرش کا مکانِ الہی ہونا ثابت ہے، صریح ہونا بالائے طاق ان احادیث سے اگر بفرض باطل ثابت ہوگا تو یہ تیرے معبود کے لیے تیرے زعم میں مکان ہے اس سے یہ کیونکر نکلا کہ وہ مکان عرش ہی ہے، خود اپنا دعوٰی سمجھنے کی لیاقت نہیں اور چلے صفاتِ الہیہ میں کلام کرنے۔
ضرب ۱۰۷: اقول: بلکہ حدیث اول میں تو سدرۃ المنتہٰی کا ذکر ہے کہ:ثم علابہ فوق ذٰلک بمالایعلمہ الا اﷲ حتی جاء سدرۃ المنتہٰی ودنا الجبار رب العزۃ فتدلی حتی کان منہ قاب قوسین اوادنی فاوحٰی الیہ فیما اوحی خمسین صلوۃ الحدیث ۔۱؂پھر آپ اس سے اوپر گئے جہاں کا صرف اﷲ تعالٰی کو ہی علم ہے حتی کہ آپ سدرۃ المنتہٰی  پر آئے اور رب العزت کا قرب پایا پھر اور قرب پایا حتی کہ دو کمانوں کے فاصلہ پر ہوئے یا اس سے بھی زیادہ قرب پایا، تو اللہ تعالٰی نے ان کی طرف وحی فرمائی جو فرمائی اس وحی میں پچاس نمازیں بھی ہیں۔الحدیث (ت)

(۱ ؎  صحیح البخاری     کتاب التوحید باب کلم اﷲ موسٰی تکلیما             قدیمی کتب خانہ کراچی         ۲/ ۱۱۲۰)

تو اگر تیرے زعمِ باطل کے طور پر اطلاق مکان ثابت ہوگا تو سدرہ پر نہ عرش پر، انہیں کو احادیث صریحہ کہا تھا۔لاحول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم

 

چوتھا تپانچہ

یہ ادعا کہ استواء علی العرش کے معنی بیٹھنا، چڑھنا، ٹھہرنا مطابق سنت ہیں۔

 

ضرب ۱۰۸: اقول: تم وہابیہ کے دھرم میں تشریع کا منصب تین قرن تک جاری رہا تھا، اور اس کے بعد عمومات و اطلاقاتِ شرعیہ کا دروازہ بھی بند ہوگیا، تو نے اسی تحریر میں لکھا ہے۔ جو بات امورِ دین میں بعد قرون ثلثہ کے ایجاد ہوئی بالاتفاق بدعت ہےوکل بدعۃ ضلالۃ ( اور ہر بدعت گمراہی ہے ۔ ت)

اب ذرا تھوڑی دیر کو مردبن کر استواء علی العرش کے ان تینوں معنی کا صحابہ کرام یا تابعین یا تبع تابعین کے ائمہ سنت سے باسانید صحیحہ معتمدہ ثبوت دیجئے ورنہ خود اپنی بدعتی گمراہ بددین فی النار ہونے کا اقرار کیجئے تیرہ صدی کے دو ایک ہندیوں کا لکھ دینا سنت نہ ثابت کرسکے گا۔
ضرب ۱۰۹: اقول : تُو نے اسی تحریر میں نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کے انکار میں لکھا:کسی صحیح حدیث قولی و فعلی و تقریری سے ثابت نہیں، کہے کی شرم اور غیر مقلدی کی لاج ہے تو ان تینوں معنی کا ثبوت بھی کسی حدیث صحیح سے دو ورنہ اپنے لکھے کو سر پر ہاتھ رکھ کر روؤ۔
ضرب ۱۱۰: اقول: یہ تو الزامی ضربیں تھیں اور تحقیقاً بھی قرآن عظیم کے معنی اپنی رائے سے کہنا سخت شنیع و ممنوع ہے تو ایسے معنی کا سلف صالح سے ثابت دینا ضرور اور قول بے ثبوت مردود و مہجور۔

ضرب ۱۱۱: ہر عاقل سمجھتا ہے کہ مولٰی سبحٰنہ و تعالٰی نےاستواء کو اپنی مدح و ثناء میں ذکر فرمایا ہے۔ معاذ اﷲ بیٹھنے، چڑھنے، ٹھہرنے میں اس کی کیا تعریف نکلتی ہے کہ ان سے اپنی مدح فرماتا اور مدح بھی ایسی کہ بار بار بتکرار سات سورتوں میں اس کا بیان لاتا تو ان معانی پر استواء کو لینا مدح و تعریف میں قدح و تحریف میں کر دینا ہے لاجرم بالیقین یہ ناقص و بے معنی معانی ہر گز مراد رب العزۃ نہیں۔

ضرب ۱۱۲: اوپر معلوم ہوچکا کہ آیاتِ متشابہات میں اہل سنت کے صرف دو طریق ہیں۔
اوّل : تفویض کہ کچھ معنی نہ کہے جائیں، اس طریق پر اصلاً (عہ) ترجمے کی اجازت ہی نہیں کہ جب معنی ہم جانتے ہی نہیں ترجمہ کیا کریں، امیر المومنین عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ارشاد گزرا کہ ان کی تفسیر میں منتہائے علم بس اس قدر ہے کہ کہیں ہم ان پر ایمان لائے، کتاب الاسماء سے گزرا کہ ہمارے اصحاب متقدمین رضی اللہ تعالٰی عنہم استواء کے کچھ معنی نہ کہتے نہ اس میں اصلاً زبان کھولتے۔
امام سفین کا ارشاد گزرا کہ ان کی تفسیر یہی ہے کہ تلاوت کیجئے اور خاموش رہئے، کسی کو جائز نہیں کہ عربی یا فارسی کسی زبان میں اس کے معنی کہے۔
سید نا امام محمد رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ارشاد گزرا کہ ان کے معنی نہ کہنا ہی رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے منقول ، اور اسی پر سلف صالح کا اجماع ہے۔

عہ:  فائدہ جلیلہ : امام حجۃ الاسلام محمد محمد محمد غزالی قدس سرہ العالی کتاب الجام العوام میں فرماتے ہیں:یجب علی من سمع اٰیات الصفات  واحادیثہا من العوام والنحوی و المحدث والمفسروالفقیہ ان ینزہ اﷲ سبحنہ من الجسمیۃ وتوابعہا من الصورۃ والمکان والجہۃ فیقطع بان معنا ہ التحقیق اللغوی غیرمر اد لانہ فی حق اﷲ تعالٰی محال وان لہذا معنی یلیق بجلالہ تعالٰی وان لایتصرف فی الالفاظ الواردۃ لابالتفسیر ای تبدیل اللفظ بلفظ آخر عربی اوغیرہ لان جواز التبدیل فرع معرفۃ المعنی المراد ولا بالاشتقاق من الوارد کان یقول مستوٍ اخذا من استوی ولا بالقیاس کان یطلق لفظۃ الساعد والکف قیاسا علی ورودالید وان یکف باطنہ عن التفکر فی ھذہ الامور فان حدثتہ نفسہ بذلک تشاغل بالصلوۃ والذکروقراء ۃ القرآن فان لم یقدر علی الدوام علی ذلک تشاغل بشیئ من العلوم فان لم یمکنہ فبحرفۃ
اوصناعۃ فان لم یقدرفبلعب ولہوفان ذلک خیر من الخوض فی ھذاالبحر بل لواشتغل لملاھی البدنیۃ کان اسلم من الخوض فی ھذا البحرالبعید غورہ بل لو اشتغل بالمعاصی البدنیۃ کان اسلم فان ذلک غایتہ لفسق وھذا عاقبتہ  الشرک اھ مختصراً  ۔۱؂یعنی جو شخص عامی یا نحوی یا محدث یا مفسر یا فقیہ اس قسم کی آیات و احادیث سنے اس پر فرض ہے کہ جسمیت اور اس کے توابع مثل صورت و مکان و جہت سے اللہ تعالٰی کی تنزیہ کرے۔یقین جانے کہ ان کے حقیقی لغوی معنی مراد نہیں کہ وہ اﷲ تعالٰی کے حق میں محال ہیں اور جانے کہ ان کے کچھ معنی ہیں جو اﷲ سبحنہ کے جلال کے لائق ہیں اور جو لفظ وارد ہوئے ان میں اصلاً تصرف نہ کرے، نہ کسی دوسرے لفظ عرب سے بدلے ، نہ کسی اور زبان میں ترجمہ کرے کہ تبدیل و ترجمہ تو جب جائز ہو کہ پہلے معنی مراد ہولیں ، نہ لفظ وارد سے کوئی مشتق نکال کر اطلاع کرے جیسے استوٰی آیا ہے مستوی نہ کہے نہ لفظ وارد پر قیاس کرے ید آیا ہے اس کے قیاس سے ساعد و کف نہ بولے اور فرض ہے کہ اپنے دل کو بھی اس میں فکر سے روکے اگر دل میں اس کا خطرہ آئے تو فوراً نماز و ذکر و تلاوت میں مشغول ہوجائے ، اگر ان عبادات پر دوام نہ ہوسکے تو کسی علم میں مشغول ہو  کر دھیان بٹادے۔ یہ بھی نہ ہوسکے تو کسی حرفت یا صنعت میں یہ بھی نہ جانے تو کھیل کود میں کہ متشابہات میں فکر کرنے سے کھیل کود ہی بھلا ہے بلکہ اگر گناہوں میں مشغول ہو تو اس سے بہتر ہے کہ اُن کی نہایت فسق ہے اور اس کا انجام کفر، والعیاذ باﷲ تعالٰی ۱۲ منہ۔

(۱ ؎ الجام العوام )

طریق دوم : کہ متاخرین نے بضرورت اختیار کیا اس کا یہ منشا تھا کہ وہ معنی نہ رہیں جن سے اللہ عزوجل کا خلق سے مشابہ ہونا متوہم ہو بلکہ اس کے جلال و قدوسیت کے معنی پیدا ہوجائیں۔ بیٹھنا، چڑھنا، ٹھہرنا تو خاص اجسام کے کام اور باری عزوجل کے حق میں صریح عیب ہیں تو تم نے تاویل خاک کی بلکہ اور وہم کی جڑ جمادی۔
بالجملہ یہ تینوں معانی دونوں طریقہ اہلسنت سے دور و مہجور ہیں ان کو مطابق سنت کہنا نام زنگی کافور رکھنا ہے اب آپ ملاحظہ ہی کریں گے کہ ائمہ اہلسنت نے ان معانی کو کیسا کیسا رد فرمایا ہے دو ایک ہندیوں کے قدم نے اگر لغزش کی اور خیال نہ رہا کہ ان لفظوں سے ترجمہ ہر گز صحیح نہیں تو ان کا لکھنا ائمہ سلف و خلف کے اجماع کو رد نہیں کرسکتا، نہ وہ مسلک اہلسنت قرار پاسکتا ہے مگر وہابیوں بلکہ سب گمراہوں کی ہمیشہ یہی حالت رہی ہے کہ ڈوبتا سوار پکڑتا ہے جہاں کسی کا کوئی لفظ شاذ مہجور پکڑ لیا خوش ہوگئے اور اس کے مقابل تصریحات قاہرہ سلف و خلف بلکہ ارشادات صریحہ قرآن و حدیث کو بالائے طاق رکھ دیا مگر اہل حق بحمد اللہ تعالٰی خوب جانتے ہیں کہ شاہراہ ہدایت اتباع جمہور ہے جس سے سہواً خطا ہوئی اگرچہ معذور ہے مگر اس کا وہ قول متروک و مہجور ہے، وہ جانتے ہیں کہ لکل جواد کبوۃ لکل صارم نبوۃ و لکل عالم ھفوۃ ہر تیز گھوڑا کبھی ٹھوکر کھا لیتا ہے اور ہر تیغ براں کبھی کر جاتی ہے اور ہر عالم سے کبھی کوئی لغزش وقوع پاتی ہے۔ وباﷲ العصمۃ۔

ضرب ۱۱۳: اب اپنے مستندات سے ان معانی کا رَد سُنتے جائیے جنہیں آپ نے براہ جہالت مطابق سنت بلکہ سنت کو انہیں میں منحصر بتایا۔ مدارک شریف سے گزرا:الاستواء بمعنی الجلوس لایجوز علی اﷲ تعالٰی  ۱ ؎استواء بیٹھنے کے معنی پر اللہ تعالی عزوجل کے حق میں محال ہے۔

( ۱ ؎ مدارک التنزیل (تفسیر النسفی) آیت ۳/ ۷     دارالکتاب العربی بیروت     ۱/ ۱۴۶)

ضرب ۱۱۴: کتاب الاسماء سے گزرا:متعال عن ان یجوز علیہ اتخاذ السریر للجلوس  ۲ ؎اﷲ تعالٰی عزوجل اس سے پاک و برتر ہے کہ بیٹھنے کے لیے تخت بنائے۔

( ۲ ؎ کتاب الاسماء والصفات للبیہقی جماع ابواب ذکر اسماء التی تتبع المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ  ۱/ ۷۱، ۷۲)

ضرب ۱۱۵: اسی میں امام ابوالحسن طبری وغیرہ ائمہ متکلمین سے گزرا ا ستواء کے یہ معنی نہیں کہ مولٰی تعالٰی عرش پر بیٹھا یا کھڑا ہے ، یہ جسم کی صفات ہیں اور اﷲ عزوجل ان سے پاک۔
ضرب ۱۱۶: اُسی میں فرا نحوی سے یہ حکایت کرکے کہ استواء بمعنی اقبال ہے، اور ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے چڑھنے سے تفسیر کی ، فرمایا:  استوی بمعنی اقبل صحیح لان الا قبال ھو القصد والقصد ھو الارادۃ وذٰلک جائز فی صفات اﷲ تعالٰی ، اما ماحکی عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما فانما اخذہ عن تفسیر الکلبی والکلبی ضعیف والروایۃ عنہ فی موضع اٰخرعن الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما استوٰی یعنی صعدا مرہ اھ ملخصاً ۔۱؂

یعنی استوا بمعنی اقبال صحیح کہ اقبال قصد ہے اور قصد ارادہ ہے، یہ تو اللہ سبحنہ کی صفات میں جائز ہے، مگر وہ جو ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنھما سے حکایت کی کہ استواء چڑھنے (عہ)کے معنی پر ہے فراء نے کلبی کی تفسیر سے اخذ کیا اور کلبی ضعیف ہے اور خود ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے اس کلبی نے دوسری جگہ یوں روایت کی کہ استواء کے معنی حکمِ الہی کا چڑھنا ہے۔

عہ:  امام جلال الدین سیوطی نے اتقان میں فرمایا :رد بانہ تعالٰی منزہ عن الصعود ایضاً ۔۳؂یہ معنی یوں مردود ہوئے کہ اﷲ تعالٰی چڑھنے سے پا ک ہے ۱۲ منہ،

( ۱ ؎ کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب الرحمن علی العرش استوی المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ۲/ ۱۵۴و ۱۵۵)
( ۳ ؎الاتقان فی علوم القرآن النوع الثالث والاربعون     داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۶۰۵)

ضرب ۱۱۷: اُسی میں فرمایا :عن محمد بن مروان عن الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما فی قولہ تعالی ثم استوی علی العرش یقول استقر علی العرش ، ھذہ الروایۃ منکرۃ وقد قال فی موضع اٰخر بھٰذاالاسناد ا استوی علی العرش یقول استقرامرہ علی السریر  ورد الاستقرار الی الامر ، وابوصالح ھذا والکلبی و محمد بن مروان کلھم متروک عنداھل العلم بالحدیث لایحتجون بشیئ من روایا تھم لکثرۃ المناکیر فیہا وظہور الکذب منہم فی روایا تھم، اخبرنا ابوسعید المالینی (فذکر باسنادہ) عن حبیب بن ابی ثابت قال کنا نسمیہ  دروغ زن یعنی ابا صالح مولی ام ھانی، واخبرنا ابوعبداللہ الحافظ ( فاسند) عن سفٰین قال قال الکلبی قال لی ابوصالح کل ما حدثک کذب، واخبرنا المالینی (بسندہ) عن الکلبی قال قال لی ابو صالح انظر کل شیئ رویت عنی عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما فلا تروہ، اخبرنا ابوسہل احمد بن محمد المزکی ثنا ابوالحسین محمد بن حامد العطار اخبرنی ابوعبداﷲ الرواسانی قال سمعت محمد بن اسمعیل البخاری یقول محمد بن مروان الکوفی صاحب الکلبی سکتواعنہ لایکتب حدیثہ البتّۃ اھ مختصراً ۔۱؂

یعنی محمد بن مروان نے کلبی سے اس نے ابوصالح سے اس نے ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے روایت کی کہ  اللہ تعالی کے قول ثم استوی علی العرش میں عرش پر استوا کے معنی ٹھہرنا ہے یہ روایت منکر ہے، اور خود کلبی نے اسی سند سے دوسری جگہ یوں روایت کی کہ عرش پر استوا کے معنی حکم الہی کاٹھہرنا ہے یہاں ٹھہرنے کو حکم کی طرف پھیرا اور یہ ابوصالح اور کلبی اور محمد بن مروان سب کے سب علمائے محدثین کے نزدیک متروک ہیں ان کی کوئی روایت حجت لانے کے قابل نہیں کہ ان کی روایتوں میں منکرات بکثرت ہیں اور ان میں ان کا جھوٹ بولنا آشکارا ہے، حبیب بن ابی ثابت نے فرمایا ہم نے اس ابوصالح کا نام ہی دروغ زن رکھ دیا تھا امام سفیان نے فرمایا خود کلبی نے مجھ سے بیان کیا کہ ابو صالح نے مجھ سے کہا جتنی حدیثیں میں نے تجھ سے بیان کی ہیں سب جھوٹ ہیں نیز کلبی نے کہا مجھ سے ابوصالح نے کہا دیکھو جو کچھ تو نے میرے واسطے سے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کیا ہے اس میں سے کچھ روایت نہ کرنا، امام بخاری فرماتے ہیں کلبی کے شاگرد محمد بن مروان کوفی سے ائمہ حدیث نے سکوت کیا ہے، یعنی اس کی روایات متروک کردیں اس کی حدیث کا ہر گز اعتبار نہ کیا جائے۔

( ۱ ؎ کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب الرحمن علی العرش استوی المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ۲/ ۲۵۵ تا ۲۵۷)

ضرب ۱۱۸: پھر فرمایا :وکیف یجوزان یکون مثل ھٰذہ الاقاویل صحیحۃ عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنھما ثم لایرویھا ولایعرفہا احد من اصحابہ الثقات الاثبات مع شدۃ الحاجۃ الی معرفتہا ، وما تفردبہ الکلبی وامثالہ یوجب الحد والحد یوجب الحدث لحاجۃ الحد الٰی حادخصہ بہ والباری تعالٰی قدیم لم یزل  ۔۲؂

بھلا کیونکر ہوسکتا ہے کہ ایسی باتیں ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے صحیح ہوں پھر ان کے ثقہ شاگرد محکم فہم و حفظ والے نہ اُنہیں روایت کریں نہ ان سے آگاہ ہوں حالانکہ ان کے جاننے کی کیسی ضرورت ہے اور جو کچھ کلبی اور اس کی حالت کے اور لوگ تنہا روایت کررہے ہیں اس سے تو اللہ عزوجل کا محدود ہونا لازم آتا ہے اور محدود ہونا حادث ہونے کو واجب کرتا ہے کہ حد کے لیے کوئی ایسا درکار ہے جو خاص اس حد معین سے اس محدود کو مخصوص کرے اور اللہ عزوجل تو قدیم ہے ہمیشہ سے ہے۔

( ۲ ؎ کتاب الاسماء والصفات للبیہقی باب الرحمن علی العرش استوی المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپورہ ۲/ ۱۵۷)

ضرب ۱۱۹: اُسی میں ہے:ان اﷲ تعالٰی لامکان لہ ولا مرکب و ان الحرکۃ والسکون والانتقال والا ستقرار من صفات الاجسام واﷲ تعالٰی احد صمد لیس کمثلہ شیئ  ۔۱؂ اھ باختصاربے شک اﷲ تعالٰی کے لیے نہ مکان ہے نہ کوئی چیز ایسی جس پر سوار ہو اور بے شک حرکت اور سکون اور ہٹنا اور ٹھہرنا یہ جسم کی صفتیں ہیں اور اﷲ تعالٰی احد صمد ہے کوئی چیز اس سے مشابہت نہیں رکھتی ا ھ باختصار۔

( ۱ ؎ کتاب الاسماء والصفات         باب  ھل ینظرون الا ان یاتیہم اﷲ الخ     المکتبۃ الاثر یہ شیخوپورہ            ۲/ ۱۹۴)

ضرب ۱۲۰: مدارک شریف میں فرمایا :تفسیرالعرش بالسریرو والاستواء بالاستقرار کما تقولہ المشبہۃ باطل  ۔۲؂عرش کے معنی تخت اور استواء کے معنی ٹھہرنا کہنا جس طرح فرقہ مجسمہ کہتا ہے باطل ہے۔
دیکھا تو نے حق کیسا واضح ہوا ، وﷲ الحمد۔

( ۲ ؎  مدارک التنزیل (تفسیر النسفی ) آیۃ ۷/ ۵۴ دارالکتاب العربی بیروت ۲/ ۵۶)

)

Edited by Najam Mirani
Link to comment
Share on other sites

پانچواں تپانچہ

 

اقول : یہ تو اوپر واضح ہو لیا کہ یہ مدعی خود ہی دعوے پر نہ جما اور جن صفات سے کلامِ شارع ساکت نہیں ان سے سکوت درکنار، ان کا صاف انکار کر گیا مگر یہاں یہ کہنا ہے کہ اس مدعی بے باک کے نزدیک تسلیم وعدم سکوت کا وہ مطلب ہر گز نہیں جو اہلسنت کے نزدیک ہے یعنی کچھ معنی نہ کہنا صرف اجمالاً اتنی بات پر ایمان لے آنا کہ جو کچھ مراد الہی ہے حق ہے یا تاویل کرکے صاف وپاک معنی کی طرف ڈھال دنیا جن میں مشابہت مخلوق و جسمیت و مکان وجہت کی بو اصلاً نہ پیدا ہو۔ اس مسلک پر ایمان لاتا تو استواء کے معنی بیٹھنا، چڑھنا، ٹھہرنا نہ بتاتا ان کے علاوہ اور معانی کو کہ ائمہ اہلسنت نے ذکر فرمائے بدعت و ضلالت نہ بتاتا لاجرم اس کا مسلک وہی مسلک مجسمہ ہے کہ جو کچھ وارد ہوا وہ اپنے حقیقی لغوی معنی مفہوم و متبادر پر محمول ٹھہرا کر مانا جائے گا۔ شروع سے اب تک جولکھا گیا وہ اسی ضلالت ملعونہ کے رَد میں تھا اتنا اور اس کے کان میں ڈال دوں  شاید خدا سمجھ دے اور ہدایت کرے کہ اے بے خرد ! یہ ناپاک مسلک جو استوا میں خصوصاً اور باقی متشابہات میں مطلقاً تیرا ہے۔( کھلی گمراہی کا نجس رستہ ہے) اس طریقہ پر تیرا معبود جسے تو اپنے ذہن میں ایک صورت تراش کر معبود سمجھ لیا ہے اگر بت خانہ چین کی ایک مورت ہو کر نہ رہ جائے تو میرا ذمہ۔

ضرب ۱۲۱ تا ۱۸۲: جانتا ہے وہ تیرا وہمی معبود کیسا ہے۔لہ وجہ کوجہ الانسان فیہ عینان تنظران ولکن من سخط علیہ لاینظر الیہ ثم العجب ان وجہہ الی کل جہۃ واعظم عجبا انہ مع ذلک یصرفہ عمن یغضب علیہ فلیت شعری کیف یصرف عن جہۃ ما ھو الٰی کل وجہۃ بل المصلی مادام یصلی یقبل علیہ بوجہہ فاذا انصرف صرف لہ صوت فلتکن حنجرۃ ونفس ایضا بل قد وجد من قبل الیمن لہ اذنان یاذن لمن یرضی علیہ جعد ذو وفرۃ الٰی شحمۃ اذنیہ اما اللحیۃ فلم توجد بل شاب امردلہ یدان کا لانسان فیھما یمین و شمال وساعد وکف واصابع مبسو طتان الٰی بعید وربما قبض و قد یحثولہ جنب وضحکہ یخبر عن فم یغفر واسنان تکشرلہ حقو تعلقت بہ الرحم ورجلان وساق قد جلس علی السریر مدلیا قدمیہ واضعھما علٰی کرسی وربما استلقی
واضعا احدی رجلیہ علی الاخری فلا بد من ظہر وقفا ویستانس للصدر ایضا فمن نور صدرہ خلقت الملئٰکۃ قد ماہ فی کل مسجد علیہما یسجد الساجدون وبقیۃ الاعضاء لم تفصل الاخبراعم واشمل انہ علٰی صورۃ الانسان اذخلق ادم علٰی صورۃ الرحمن یصعدوینزل ویمشی ویہرول وقد یاتی الارض و کانت اٰخر وطاتہ بموضع وج ثم یجیئ یوم القیمۃ فیطوف الارض مکتسٍ ثیابا ازارا و رداء یسترالمؤمن بکتفہ رداؤہ علٰی وجہ فی جنۃ عدن لہ ظل ظلیل یصیب بہ من یشاء ویصرف عنہ من یشاء یاتی یوم القیام فی ظلل من الغمام یتعجب ویستحیی و یمل ویتردد و یستھزئ وقد یتقذر نفسہ شیئا تحملہ وعرشہ اربعۃ املاک اثنان تحت رجلہ الیمنی و اثنان تحت رجلہ الیسری تقبل شدید الوزر ویأط منہ العرش اطیط الرجل الجدید من ثقل الراکب الشدید ربمالبس حلۃ خضراء ونعلین من ذہب وجلس علٰی کرسی ذہب تحتہ فراش من ذہب ودونہ سترمن لؤلؤ رجلاہ فی خضرۃ فی روضۃ خضراء الٰی غیر ذلک مما نطقت ببعضہ الایات ووردت بالباقی الاحادیث ، اتی علٰی اکثرھا فی کتاب الاسماء و الصفات ۔

اس کا انسان جیسا چہرہ، اس میں دوآنکھیں دیکھتی ہیں لیکن جس پر وہ ناراض ہو اس کی طرف نہیں دیکھتا پھر عجب ہے کہ اس کا چہرہ ہر طرف ہے اس سے بڑھ کر عجیب یہ کہ اس کے باوجود جس سے ناراض ہو اس سے چہرہ پھیرلے، کاش سمجھ ہوتی ، جو ہر طرف ہو وہ کس طرح دوسری طرف پھر جائے ، بلکہ جب تک نمازی نماز میں ہے تو وہ اپنے چہرہ کو نمازی کی طرف کرتا ہے اور جب وہ نمازی فارغ ہوجاتا ہے تو وہ بھی پھر جاتا ہے، اس کی آواز ہے تو آہٹ اور سانس بھی ہوگا ، بلکہ یمن کی طرف سے پایا جاتا ہے، اس کے دوکان ہیں جس سے راضی ہو اس پر کان لگاتا ہے قد آور ہے اس کے سر کے بال دونوں کانوں سے نیچے تک بڑھے ہوئے ہیں، لیکن داڑھی نہیں بلکہ نوجوان بے داڑھی ہے، انسان کی طرح اس کے دو ہاتھ ہیں انمیں ایک دایاں دوسرا بایاں ہے، اس کا بازو اور ہتھیلی اور انگلیاں ہیں، دور تک اس کے ہاتھ پھیلے ہوئے ، کبھی ہاتھوں کو بند کرتا ہے اور کبھی کھول کر پھرتا ہے، اس کا پہلو ہے، ہنستا ہے، اپنے منہ سے خبر بتاتا ہے، اس کے دانت ہیں جو چباتے ہیں، اس کا زیر جامہ ہے جس سے رحم لٹکتا ہے ، دو پاؤں ہیں، پنڈلی ہے، تخت پر بیٹھ کر دونوں پاؤں کو لٹکاتا ہے اور ان دونوں کو کرسی پر رکھتا ہے اور کبھی چِت لیٹ کر ایک ٹانگ کو دوسری پر رکھتا ہے لہذا اس کی پیٹھ اور گدی ہوگی، اور چھاتی سے مانوس کرتا ہے، اس کی چھاتی کے نور سے فرشتے پیدا ہوئے، اس کے قدم ہر مسجد میں ہیں تاکہ سجدہ کرنے والا ان قدموں پر سجدہ کرے، اور باقی اعضاء جن کی تفصیل نہیں صرف یہ خبر عام و اشمل ہے کہ وہ انسانی صورت پر ہے کیونکہ اس نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا، چڑھتا ہے، اترتا ہے، چلتا ہے، دوڑتا ہے، کبھی زمین پر آتا ہے اور آخری قدم موضع وج میں ہوتا ہے، پھر قیامت کو آکر زمین پر چکر لگائے گا، لباس والا تہبند اور چادر پہنے ہوئے ، اپنے دامن سے مومن کو ڈھانپتا ہے اس کی چادر چہرہ پر ہے جنت عدن میں اس کا گہرا سایہ ہے جس کو چاہتا ہے اس پر ڈالتا ہے اور جس چیز پر نہیں چاہتا نہیں ڈالتا، قیامت میں بادل کے سایہ میں آئے گا۔ تعجب و حیا کرتا ہے، میلان آگے پیچھے ہوتا ہے مذاق کرتا ہے، کبھی کسی چیز سے گھن کرتا ہے، اس کا عرش چار ملک ہیں، دو اس کے داہنے قدم اور دو اس کے بائیں قدم کے نیچے ہیں، شدید بوجھ ڈالے تو اس سے عرش اس طرح آواز نکالتا ہے جیسے نیا کجاوا بھاری سوار سے آواز پیدا کرتا ہے، کبھی سبز جوڑا پہنتا ہے، اور سونے کے جوتے ہیں اور سونے کی کرسی پر بیٹھا اور اس کے نیچے سونے کا بستر اور پاس موتیوں کے پردے ہوتے ہیں، اس کے پاؤں سبزے کے باغ میں سبزے پر ہوتے ہیں بعض ان میں وہ صفات ہیں جن کو قرآنی آیات نے بیان کیا اور باقی وہ جن کے بارے میں احادیث وارد ہوئی ہیں ان میں سے اکثر کو کتاب الاسماء و الصفات میں پیش کیا ہے۔(ت)

کیوں اے جاہل بے خرد ! اے حدیث احادو ضعیف ارتفاع مکانی سے سند لا کر اپنے معبود کو مکان ماننے والے، کیا ایسے ہی معبود کو پوجتا ہے پھر اس میں اور انسان کے جسم میں چھوٹے بڑے کے سوا فرق کیا ہے، مگر الحمد ﷲ اہلسنت ایسے سچے رب حقیقی معبود کو پوجتے ہیں جو احد، صمد، بے شبہہ و نمون و بیچون وچگون ہے۔

لم یلد ولم یولدoولم یکن لہ کفوا احد o ۱ ؎نہ اس کی کوئی اولاد اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا، اور نہ اس کے جوڑ کا کوئی (ت)

( ۱ ؎ القرآن الکریم ۱۱۲/۳ و۴ )

جسم و جسمانیات و مکان و جہالت و اعضاء و آلات و تمام عیوب و نقصانات سے پاک و منزہ ہے یہ سب اور اس کے مثل جو کچھ وارد ہوا ان میں کچھ روایۃً ضعیف ہے اور زیادہ وہی ہوگا اور صریح تشبیہہ کی صاف تصریحیں کہ تاویلی محاوروں سے بعید پڑیں اُسی میں ملیں گی اُسے تو یہ خدا کے موفق بندے ایک جو کے برابر بھی نہیں سمجھتے اور جو کچھ روایۃً صحیح مگر خبر احاد ہو اسے بھی جب کہ متواترات سے موافق المعنٰے نہ ہو پایہ قبول پر جگہ نہیں دیتے۔

فان الاحاد لاتفید الاعتماد فی باب الاعتقا دو لوفرضت فی اصح الکتب باصح الاسناد۔اعتقاد کے باب میں اخبار احاد اگرچہ صحیح کتاب اور صحیح سند سے ہوں وہ اعتماد کے لیے مفید نہیں ہیں۔(ت)
رہ گئے متواترات اور وہ نہیں مگر معدود ے چند، اور وہ بھی معروف و مشہور محاوراتِ عرب کے موافق تاویل پسندمثل ید و وجہ و  عین  و ساق واستواء واتیان ونزول  وغیرہاان میں تاویل کیجئے تو راہ روشن اور تفویض کیجئے تو سب سے احسن ، نہ یہ کہ منہ بھر کر خدا کو گالی دیجئے اور اس کے لیے صاف صاف مکان مان لیجئے، یا اٹھتا ، بیٹھتا ، چڑھتا ، اترتا، چلتا، ٹھہرتا ، تسلیم کیجئے ، اللہ عزوجل اتباعِ حق کی توفیق دے اور مخالفتِ اہلسنت سے ہر قول و فعل میں محفوظ رکھے ، آمین۔

چھٹا تپانچہ

 

اقول : طرفہ تماشا ہے جب اس گمراہ نے سب مصائب اپنے سر پر اوڑھ لیے اپنے معبود کو مکانی کہہ دیا، جسم مان لیا، عرش پر متمکن ٹھہر اکر جہت میں جان لیا، پھر یہ کیا خبط سوجھا کہ اور کہیں نہیں کہہ کر طرح طرح اپنے ہی لکھے سے تناقض کیا۔

ضرب ۱۸۳: سچا ہے تو قرآن و حدیث سے ثبوت دے کہ اللہ تعالٰی عرش پر تو ہے اور عرش کے سوا کہیں نہیں، یہ اور کہیں نہیں، کون سی آیت حدیث میں ہے ؟ام تقولون علی اﷲ مالا تعلمون ۔۱؂یا یہود کی طرح بے جانے بوجھے دل سے گھڑ کر خدا پر حکم لگادیتے ہو۔

( ۱ ؎ القرآن الکریم ۲/ ۸۰)

ضرب ۱۸۴: جب تُو اس سبوح و قدوس جل جلالہ کو مکان سے پاک نہیں مانتا تو اب کوئی وجہ نہیں کہ اور آیات و احادیث جن کے ظاہر الفاظ سے اور جگہ ہونا مفہوم ہو اپنے ظاہر سے پھیری جائیں۔ تیرے طور پر اُن سب کو معنی لغوی حقیقی ظاہر متبادر پر عمل کرنا واجب ہوگا، اب دیکھ کہ تو نے کتنی آیات و احادیث کا انکار کردیا اور کتنی بار اپنے اس لکھے سے کہ جو شرع میں وارد ہے اس سے سکوت نہ ہوگا، صاف تناقض کیا سب میں پہلے تو یہیحدیثِ صحیح بخاری وھو مکانہ ۔۲؂ہے جس میں تُو نے بزورِ زبان ضمیر حضرت عزت جل شانہ کی طرف ٹھہرادی اور پھر مکانہ سے محض زبردستی عرش مراد لے لیا حالانکہ وہاں سدرۃ المنتہٰی کا ذکر ہے تو عرش ہی پر ہونا غلط ہوا کبھی سدرہ پر بھی ٹھہرا ہے۔

(۲ ؎  صحیح البخاری     کتاب التوحید باب قول اﷲ تعالٰی وکلم اﷲ موسٰی تکلیما             قدیمی کتب خانہ کراچی         ۲/ ۱۱۲۰)

ضرب ۱۸۵: صحیح بخاری حدیثِ شفاعت میں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے:فاستاذن علی ربی فی دارہ فیؤذن لی علیہ  ۔۳ ؎میں اپنے رب پر اذن طلب کروں گا اس کی حویلی میں تو مجھے اس کے پاس حاضر ہونے کا اذن ملے گا۔
ظاہر ہے کہ تخت کو حویلی نہیں کہتے، نہ عرش کسی مکان میں ہے، بلکہ وہ بالائے جملہ اجسام ہے ، لاجرم یہ حویلی جنّت ہی ہوگی۔

( ۳ ؎ صحیح البخاری     کتاب التوحید باب قول اللہ وجوہ یومئذ ناضرۃ الٰی ربہا ناظرۃ         قدیمی کتب خانہ کراچی،         ۲/ ۱۱۰۸)

ضرب ۱۸۶: صحیحین میں ابوموسٰی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے:قال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جنتان من فضۃ اٰنیتہما وما فیھما، وجنتان من ذہب اٰنیتھما وما فیھما وما بین القوم وبین ان ینظروا الٰی ربھم عزوجل الارداء الکبریاء علی وجہہ فی جنۃ عدن ۔۱؂

رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : دو جنتیں ہیں جن کے برتن اور تمام سامان چاندی کا ہے، دو جنتیں ہیں جن کے برتن اور تمام سامان سونے کا ہے اللہ تعالٰی کے دیدار اور قوم میں صرف کبریائی کی چادر ہوگی جو جنتِ عدن میں اس کے چہرے پر ہوگی، حائل ہوگی۔(ت)
یہاں جنت عدن میں ہونے کی تصریح ہے۔

( ۱ ؎ صحیح البخاری         کتاب التفسیر ۲/ ۷۳۴ وکتاب التوحید     ۲/ ۱۱۰۹     قدیمی کتب خانہ کراچی)
(صحیح مسلم             کتاب الایمان                 قدیمی کتب خانہ کراچی        ۱/ ۱۰۰)

ضرب ۱۸۷: بزار و ابن ابی الدنیا اور طبرانی بسند جید قوی اوسط میں انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے حدیثِ دیدار اہل جنت ہر روز جمعہ میں مرفوعاً راوی :فاذا کان یوم الجمۃ نزل تبارک و تعالٰی من علیین علٰی کرسیّہ ثم حف الکرسی بمنابر من نور و جاء  النبیون حتی یجلسوا علیہا  ۔۲؂ الحدیثجب جمعہ کا روز ہوگا تو اللہ تبارک و تعالٰی علیین سے کرسی پر نزول فرمائے گا پھر ا س کے گرد نور کے منبر بچھائے جائیں گے، انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام تشریف لا کر ان منبروں پر جلوہ گر ہوں گے۔ الحدیث (ت)

( ۲ ؎ الترغیب و الترھیب     فصل فی نظر اہل الجنۃ الی ربھم حدیث ۱۲۹         مصطفی البابی مصر             ۴/ ۵۵۴)
(کشف الاستار عن زوائد البزار     باب فی نعیم اہل الجنۃ حدیث  ۳۵۱۹             موسسۃ الرسالہ بیروت             ۴/ ۱۹۵)
(المعجم الاوسط         حدیث ۶۷۱۳                مکتبۃ المعارف الریاض            ۷/ ۳۶۷)

یہاں علیین سے اُتر کر کرسی پر حلقہ انبیاء و صدیقین و شہداء وسائر اہل جنت کے اندر تجلی ہے۔

ضرب ۱۸۸: قال تعالٰی :ء امنتم من فی السماء  ۔۳؂ (کیاتم اس سے نڈر ہوگئے ہو جس کی سلطنت آسمان میں ہے۔ت)

( ۳ ؎ القرآن الکریم           ۶۷/ ۱۶)

ضرب ۱۸۹: قال تعالٰیام امنتم من فی السماء  ۔۱؂ ( کیا تم نڈر ہوگئے ہو اس سے جس کی سلطنت آسمان میں ہے۔(ت)

( ۱ ؎ القرآن الکریم          ۶۷ / ۱۷)

ضرب ۱۹۰: احمد و ابن ماجہ و حاکم بسند صحیح ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے حدیث قبض روح میں مرفوعاً راوی۔فلایزال یقال لہا ذلک حتی تنتہی بہا الی السماء التی فیہا اﷲ تبارک و تعالٰی ۔ ۲ ؎روح کو یہ کہا جاتا رہے گا حتی کہ وہ اس آسمان تک پہنچ جائے جس میں اللہ تعالٰی ہے۔(ت)

(۲ ؎ مسند احمد بن حنبل              مروی ازابوہریرہ             دارالفکر بیروت                ۲/ ۳۶۴)
(سنُن ابن ماجہ            باب ذکر الموت والاستعدادلہ         ایچ ایم سعید کمپنی کراچی            ص ۳۲۵)
(کنزالعمال                 حدیث ۴۲۴۹۶            مؤسسۃ الرسالہ بیروت                ۱۵/ ۲۳۰)

ضرب ۱۹۱: مسلم ابوداؤد و نسائی معویہ بن حکم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے حدیث جاریہ میں راوی:قال لہا این اﷲ قالت فی السماء قال من انا قالت انت رسول اللہ قال اعتقہا فانہا مؤمنۃ۔۳؂

لونڈی کو فرمایا اﷲ کہاں ہے؟ اس نے کہا آسمان میں، پھر پوچھا میں کون ہوں؟ تو اس نے کہا آپ رسول اﷲ ہیں، تو آپ نے مالک کو فرمایا اس کو آزاد کردو کیونکہ مومنہ ہے۔(ت)

( ۳ ؎  صحیح مسلم کتاب المساجد         باب تحریم الکلام فی الصلوۃ        قدیمی کتب خانہ کراچی            ۱/ ۲۰۴)
(سنن ابوداؤد             باب تشمیت العاطس فی الصلوۃ         آفتاب عالم پریس لاہور                 ۱/ ۱۳۴)

ضرب ۱۹۲: ابوداؤد و ترمذی بافادہ تصحیح عبداللہ بن عمر و رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی:  قال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ارحموا من فی الارض یر حمکم من فی السماء  ۔۴؂حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا : زمین والوں پر رحم کرو تم پر رحم کرے گا جو آسمان میں ہے۔(ت)

( ۴ ؎  جامع الترمذی             ابواب البروالصلۃ            امین کمپنی کتب خانہ رشید یہ دہلی            ۲/ ۱۴)
(سنن ابوداؤد             کتاب الادب باب فی الادب         آفتاب عالم پریس لاہور                ۲/ ۳۱۹)

ضرب ۱۹۳: صحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے:قال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم والذی نفسی بیدہ مامن رجل یدعو امراتہ الٰی فراشہا فتابٰی علیہ الاکان الذی فی السماء ساخطا علیہا حتی یرضٰی عنہا  ۔۱؂حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے جب کوئی خاوند اپنی بیوی کو جماع کے لیے طلب کرتا ہے اور وہ انکار کرتی ہے تو وہ ذات جو آسمان میں ہے بیوی پر ناراض ہوتی ہے۔(ت)

( ۱ ؎صحیح مسلم کتاب النکاح      باب تحریم امتناعھامن فراش الخ    قدیمی کتب خانہ کراچی        ۱/ ۴۶۴)

ضرب ۱۹۴: ابویعلٰی وبزار و ابونعیم بسندِ حسن ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی:قال رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم لما القی ابراہیم فی النار قال اللھم انت فی السماء واحدوانا فی الارض واحد أعبدک۔۲؂حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا : جب براہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا تو انہوں نے کہا: اے اللہ تو آسمان میں ایک ہے اور میں زمین میں ایک ہوں، تیری عبادت کرتا ہوں۔(ت)

( ۲ ؎ حلیۃ الاولیاء        مقدمۃ المؤلف                        دارالکتاب العربی بیروت        ۱/ ۱۹)
(کنزالعمال بحوالہ ابی یعلٰی     حدیث ۳۲۲۸۶                        موسسۃ الرسالہ بیروت        ۱۱/ ۴۸۴)

ضرب ۱۹۵: ابویعلٰی و حکیم و حاکم و سعید بن منصور و ابن حبان و ابونعیم اور بیہقی کتاب الاسماء میں ابوسعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مرفوعاً راوی ، اللہ عزوجل نے فرمایا:یاموسٰی لو ان السمٰوٰت السبع و عامر ھن غیری، والارضین  السبع فی کفۃ ولاالہ الا اﷲ فی کفۃ مالت بھن لا الہٰ الا اﷲ۔۳؂اے موسٰی اگر ساتوں آسمان اور ان میں موجود ہر چیز میرے سوا، اور سات زمینیں ایک پلڑے میں ہوں اور دوسرے پلڑے میںلاالٰہ الا اﷲ ہو تو لا الہٰ الا اﷲوالا پلڑا سب پر بھاری ہوگا۔(ت)ان آیات و احادیث سے آسمان میں ہونا ثابت ہوا۔

( ۳؎  مسند ابویعلی         حدیث ۱۳۸۹    مروی ازابوسعید خدری             موسسۃ علوم القرآن بیروت        ۲/ ۱۳۵)
(کتاب الاسماء والصفات     باب ماجاء فی فضل الکلمۃ الباقیہ                 المکتبۃ الاثریہ سانگلہ ہل شیخوپور ہ        ۱/ ۱۷۵)(المستدرک للحاکم         کتاب الدعاء                         دارالفکربیروت            ۱/ ۵۲۸)(مواردالظمآن         حدیث ۲۳۲۴                        المطبعۃ السلفیہ             ص ۵۷۷)

ضرب ۱۹۶: ہر رات آسمانِ دُنیا پر ہونے کی حدیث گزری اور احادیث اس باب میں بکثرت ہیں۔

ضرب ۱۹۷: قال اﷲ تعالٰی:ھواﷲ فی السمٰوٰت وفی الارض ۱ ؎وہ اﷲ آسمانوں اور زمینوں میں ہے۔(ت)

( ۱ ؎     القرآن الکریم         ۶/ ۳  )

ضرب ۱۹۸: قال تعالٰی :ونحن اقرب الیہ من حبل الورید   ۲ ؎ہم اس کی شہ رگ سے زیادہ قریب ہیں۔(ت)

( ۲ ؎    القرآن الکریم         ۵۰/ ۱۶)

ضرب ۱۹۹: قال تعالٰی:واسجدواقترب  ۳ ؎سجدہ کر اور قریب ہو۔(ت)

( ۳ ؎     القرآن الکریم         ۹۶/ ۱۹ )

ضرب ۲۰۰: قال تعالٰی:اذا سألک عبادی عنّی فانّی قریب  ۴ ؎جب آپ سے سوال کریں میرے بندے میرے متعلق تو میں قریب ہوں۔(ت)

( ۴ ؎ القرآن الکریم         ۶/ ۱۸۶)

ضرب ۲۰۱: قال تعالٰی:  انہ سمیع قریب   ۵ ؎وہ سمیع و قریب ہے۔(ت)

( ۵ ؎      القرآن الکریم  ۲۴/ ۵۰ )

ضرب ۲۰۲: قال تعالٰی:ونادینٰہ من جانب الطور الایمن و قربنہ نجیا  ۶ ؎  اور ہم نے ان کو ندادی طور کی دائیں جانب سے اور اس کو ہم نے قریب کیا مناجات کرتے ہوئے۔(ت)

( ۶ ؎   القرآن الکریم         ۱۹/ ۵۲)

ضرب ۲۰۳: قال تعالٰی۔فلما جاء ھا نودی ان بورک من فی النار ومن حولہا وسبٰحن اﷲ رب العٰلمین ۔ ۷ ؎جب وہاں آئے تو ندا دی گئی کہ جو آگ میں ہے اس کو برکت دی گئی اور اس کے اردگرد والوں کو، اﷲ پاک رب العالمین ہے(ت)

( ۷ ؎   القرآن الکریم         ۲۷/ ۸)

معالم میں ہے:  روی عن ابن عباس وسعید بن جبیر والحسن فی قولہ بورک من فی النار قدس من فی النار وھو اﷲ تعالٰی عنی بہ نفسہ علٰی معنی انہ نادٰی موسٰی منہا واسمعہ کلامہ من جھتہا ۔۱؂

ابن عباس ، سعید بن جبیر اور حسن رضی اللہ تعالٰی عنہم سے روایت کیا گیا کہ من بورک فی النار کے بارے میں، یعنی برگزیدہ ہے جو آگ میں ہے اور وہ اﷲ کی ذات ہے جس کو اپنی ذات کے بارے میں فرمایا یعنی یہ ہے کہ موسٰی نے ندا کی تو اس کو اپنا کلام سنایا اس جانب سے ۔(ت)

( ۱ ؎  معالم النتزیل (تفسیر البغوی )     آیۃ ۲۷/۸                    دارالکتب العلمیۃ بیروت        ۳/ ۳۴۸)

ضرب ۲۰۴: قال تعالٰی:وھو معکم اینما کنتم  ۲ ؎وہ تمہارے ساتھ ہے تم جہاں بھی ہو۔(ت)

( ۲ ؎القرآن الکریم          ۵۷/ ۴)

ضرب ۲۰۵: صحیحین میں ابو موسٰی اشعری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے، رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:یایہا الناس اربعواعلٰی انفسکم فانکم لاتدعون اصم ولا غائبا انکم تدعونہ سمیعا قریبا وھو معکم ۔۳؂اے لوگو! اپنے آپ پر نرمی کرو کیونکہ تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکارتے، تم تو پکارتے ہو سمیع قریب کو، وہ تمہارے پاس ہے۔(ت)

( ۳ ؎  صحیح البخاری     کتاب الجہاد باب مایکرہ من رفع الصوت الخ                     قدیمی کتب خانہ کراچی        ۱/ ۴۲۰)
(صحیح مسلم         کتاب الذکروالدعاء     باب استحباب خفض الصوت الخ        قدیمی کتب خانہ کراچی        ۲/ ۳۴۶)

اسی حدیث کی ایک روایت میں ہے:والذی تدعون اقرب الی احد کم من عنق راحلۃ احدکم  ۴ ؎و ہ ذات جسے تم پکارتے ہو وہ تمہاری سواری کی گردن سے بھی قریب تر ہے۔(ت)

( ۴ ؎ صحیح مسلم     کتاب الذکر والدعاء     باب استحباب  خفض الصوت الخ        قدیمی کتب خانہ کراچی         ۲/ ۳۴۶)

ضرب ۲۰۶: مسلم، ابوداؤد، و نسائی ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روای ، رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:اقرب ما یکون العبد من ربہ وھوساجد فاکثرواالدعاء ۱ ؎بندہ اﷲ تعالٰی کے قریب ترین ہوتا ہے جب وہ سجدہ کرتا ہے، تو دُعا زیادہ کرو۔(ت)

( ۱ ؎ صحیح مسلم         کتاب الصلوۃ         باب مایقال فی الرکوع             قدیمی کتب خانہ کراچی         ۱/ ۱۹۱)
(سنن ابی داؤد         کتاب الصلوۃ        باب الدعافی الرکوع والسجود             آفتاب عالم پریس لاہور        ۱/ ۱۲۷)
(سنن النسائی         اقرب مایکون العبدمن اﷲ عزوجل                    نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی    ۱ /۱۷۰)

ضرب ۲۰۷: دیلمی ثوبان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی، رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:قال اﷲ تعالٰی انا خلفک واما مک وعن یمینک وعن شمالک یا موسٰی انا جلیس عبدی حین یذکر نی وانا معہ اذا دعانی  ۔۲؂اﷲ تعالٰی نے فرمایا : اے موسٰی ! میں تیرے پیچھے ، آگے دائیں اور بائیں ہوں، میں بندے کا ہم نشین ہوتا ہوں جب وہ میرا ذکر کرتا ہے، اور میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں جب مجھے یاد کرتا ہے۔ (ت)

( ۲ ؎ الفردوس بما ثور الخطاب                  حدیث ۴۵۳۳                دارالکتب العلمیۃ بیروت        ۳/ ۱۹۲)

ضرب ۲۰۸: صحیحین میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ عزوجل فرماتا ہے:انا عندظن عبدی بی وانا معہ اذا ذکرنی  ۳ ؎میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں جب وہ مجھے یاد کرتا ہے (ت)

( ۳ ؎  صحیح البخاری     کتاب التوحید   باب قول اﷲ تعالٰی ویحذرکم اﷲ نفسہ   قدیمی کتب کتب خانہ کراچی ۳/ ۱۱۰۱)
(صحیح مسلم          کتاب الذکروالدعاء     ۲/ ۳۴۳                    وکتاب التوبۃ             ۲/ ۳۵۴ )

ضرب ۲۰۹: مستدرک میں بروایت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے حدیث قدسی ہے۔عبدی انا عند ظنک بی وانا معک اذا ذکرتنی  ۴ ؎اے بندے میں تیرے گمان کے ساتھ ہوں جو تو میرے متعلق کرتا ہے اور میں تیرے ساتھ ہوتا ہوں جب تُو مجھے یاد کرتا ہے۔(ت)

( ۴ ؎ المستدرک للحاکم     کتاب الدعا        باب قال عزوجل عبدی انا عند ظنک بی   دارالفکر         ۱/ ۴۹۷)

ضرب ۲۱۰: سعید بن منصور ابوعمارہ سے مرفوعاً راوی:الساجد یسجد علی قدمی اللہ تعالی ۱؂سجدہ کرنے والا اللہ تعالٰی کے قدموں پر سجدہ کرتا ہے۔(ت)

(۱؎ حلیۃ الاولیاء   ترجمہ حسان بن عطیہ     دارالکتاب العربی بیروت   ۶/ ۷۱)

ان آیات و احادیث سے زمین پر اور طُور پر اور ہر مسجد میں اور بندے کے آگے پیچھے دہنے بائیں اور ہر ذاکر کے پاس اور ہر شخص کے ساتھ اور ہر جگہ  اور ہر ایک کی شہ رگ گردن سے زیادہ قریب ہونا ثابت ہے۔

ضرب ۲۱۱:  قال اﷲ تعالٰی :ان طہرابیتی   ۲ ؎ (تم دونوں میرے گھر کو صاف کرو،ت) یہاں کعبے کو اپنا گھر بتایا۔

( ۲ ؎ القرآن الکریم      ۲/۱۲۵)

ضرب ۲۱۲: معالم میں ہے مروی ہوا کہ توریت مقدس میں لکھا ہے:جاء اﷲ تعالٰی من سیناء واشرف من ساعین واستعلی من جبال فاران  ۔۳؂اللہ تعالٰی سیناء کے پہاڑ سے آیا اور ساعین کے پہاڑ سے جھانکا اور مکہ معظمہ کے پہاڑوں سے بلند ہوا۔ذکرہ تحت اٰیۃ بورک (اسے آیہ بورک کے تحت ذکر کیا۔ت)

( ۳ ؎ معالم التنزیل (تفسیر البغوی ) تحت الایۃ ۲۷/ ۸  دارالکتب العلمیہ بیروت        ۳ /۳۴۸)

ضرب ۲۱۳: طبرانی کبیر میں سلمہ بن نفیل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی:قال رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم انی اجد نفس الرحمن من ھٰھنا و اشارالی الیمن ۔ ۴؎رسول اﷲ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے یمن کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: بے شک میں رحمان کی خوشبو یہاں سے پاتا ہوں۔

( ۴ ؎ المعجم الکبیر   حدیث ۶۳۵۸   المکتبہ الفیصلیۃ بیروت       ۷ /۵۲)

ضرب ۲۱۴: مسند احمد و جامع ترمذی میں حدیثِ سابق ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ  ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:والذی نفس محمد بیدہ لوانکم دلیتم بحبل الی الارض السفلی لھبط علی اﷲ عزوجل ، ثم قرأھوالاول والاخروالظاھر والباطن وھو بکل شیئ علیم o ۔۱؂اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی جان ہے اگر تم سب سے نچلی زمین تک رسّی لٹکاؤ تو وہ رسیّ اﷲ تعالٰی پر گرے گی، پھر آپ نےھوالاول والاٰخروالظاھر والباطن وھو بکل شیئ علیمکو تلاوت کیا۔(ت)یہاں سے ثابت کہ سب زمینوں کے نیچے ہے۔

( ۱ ؎ جامع الترمذی ابواب التفسیر        سورۃ الحدید         حدیث ۳۳۰۹        دارالفکربیروت        ۵/ ۱۹۵)
(مسند احمد بن حنبل عن ابی ہریرہ           المکتب الاسلامی  بیروت    ۲/ ۳۷۰)

ضرب فیصلہ (عہ) ضرب ۲۱۵:اقول : یہی آیات و احادیث ہر مجسم خبیث کی دہن دوزی اور ہر مسلم سُنّی کی ایمان افروزی کو بس ہیں اس مجسم سے کہا جائے کہ اگر ظاہر پر حمل کرتا ہے تو ان آیات و احادیث پر کیوں ایمان نہیں لاتا۔افتؤمنون ببعض الکتب وتکفرون ببعض ۲ ؎(قرآن پاک کی بعض آیتوں پر ایمان لاتے ہو اور بعض کا انکار کرتے ہو،ت)

عہ:  لفظِ فیصلہ کے بھی ۲۱۵ عدد ہیں منہ ۔

( ۲ ؎  القرآن الکریم         ۲/ ۸۵)

دیکھ تیرے اس کہنے میں کہ  عرش پر ہے اور کہیں نہیں کتنی آیتوں حدیثوں کا صاف انکار ہے، اور اگر ان میں تاویل کی راہ چلتا ہے تو آیاتِ استوا وحدیث مکان میں کیوں حد سے نکلتا ہے، اب یہ تیرا بکنا صریح جھوٹ اور تحکم ٹھہرا کہ تیرا معبود مکان رکھتا اور عرش پر بیٹھتا ہے، اور مومن سُنی کو ان سے بحمداﷲ یوں روشن راستہ ہدایت کا ملتا ہے کہ جب آیات واحادیث عرش و کعبہ و آسمان و زمین و ہر موضع و مقام کے لیے وارد ہیں تو اب تین حال سے خالی نہیں، یا تو ان میں بعض کو ظاہر پر محمول کریں اور بعض میں تفویض و تاویل، یا سب ظاہر پر ہوں یا سب میں تفویض و تاویل، اول تحکم بیجا و ترجیح بلامرجح اور اﷲ عزوجل پر بے دلیل حکم لگادینا ہے، اور شق دوم قطع نظر اُن قاطعہ قاہرہ دلائل زاہرہ تنزیہ الہی کے یوں بھی عقلاً ونقلاً ہر طرح باطل کہ مکینِ واحد وقتِ واحد میں امکنہ متعددہ میں نہیں ہوسکتا تو ہر جگہ ہونا اُسی صورت پر بنے گا کہ ہوا کی طرح ہر جگہ بھرا ہو اور اس سے زائد شنیع و ناپاک اور بداہۃً باطل کیا بات ہوگی کہ ہر نجاست کی جگہ، ہر پاؤں کے تلے ہر شخض کے منہ، ہر مادہ کے رحم میں ہونا لازم آتا ہے۔ اور پھر جتنی جگہ مکانوں پہاڑوں وغیرہ اجسام سے بھری ہوئی ہے بعینہ اس میں بھی ہو تو تداخل ہے اور نہ ہو تو اس میں کروڑوں ٹکڑے پرزے جوف سوراخ لازم آئیں گے، اور جو نیا پیڑ اُگے نئی دیوار اُٹھے تیرے معبود کو سمٹنا پڑے ایک نیا جوف اس میں اور بڑھے اور اب استوا کے لیے عرش اور دار کے لیے جنت بیت کے لیے کعبے کی کیا خصوصیت رہے گی۔ لاجرم شق سوم ہی حق ہے اور آیاتِ استوا سے لے کر یہاں تک کوئی آیت و حدیث ان محال و بے ہودہ معنی پر محمول نہیں جو ناقص افہام میں ظاہر الفاظ سے مفہوم ہوتے ہیں بلکہ تفہیم  عوام کے لیے اُن کے پاکیزہ معانی ہیں، اﷲ عزوجل کے جلال کے لائق جنہیں ائمہ کرام اور خصوصاً امام بیہقی نے کتاب الاسماء میں مشرحاً بیان فرمایا اور ان کی حقیقی مراد کا علم اﷲ عزوجل کو سپرد ہے۔امنّا بہ کل من عند ربنا وما یذکر الااولو الالباب oوالحمد اﷲ رب العلمین والصلوۃ والسلام علی سید المرسلین محمد واٰلہ و صحبہ اجمعین امین !ہم اس پر ایمان لائے سب ہمارے رب کے پاس سے ہے، اور نصیحت نہیں مانتے مگر عقل والے، اور تمام تعریفیں اﷲ رب العالمین کے لیے ہیں۔ اور درود و سلام نازل ہو سید المرسلین محمد مصطفی پر اور آپ کی آل پر اور آپ کے تمام صحابہ پر۔آمین (ت

ساتواں تپانچہ

 

الحمدُ ﷲ مسئلہ عرش ورَدِّ مکان سے فراغ پایا کہ یہی رسالے کا موضوع اصلی تھا اب تحریر وہابیت تخمیر کے دو حرف اخیر دو مسئلہ دیگر کے متعلق باقی ہیں اُن کی نسبت بھی سرسری دو چار ہاتھ لیجئے کہ شکایت نہ رہے۔

قولہ مسئلہ : فرضوں کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا۔
الجواب :کسی صحیح حدیث قولی وفعلی وتقریری سے فرضوں کے بعد دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا ثابت نہیں۔
اقول: ضرب ۲۱۶: کسی صحیح حدیث قولی و فعلی و تقریری سے اﷲ تعالٰی کا عرش کے سوا اور کہیں نہ ہونا ثابت نہیں دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا بے حدیث صحیح بدعت مگر خدا پر حکم لگادینے کو صرف تیرے زبان ادعا کی حاجت ع

نجدی بے شرم شرم ہم بدار

( بے شرم نجدی! کچھ شرم کر)

ضرب ۲۱۷: کسی صحیح حدیث قولی وفعلی و تقریری سے عرش کا امکانِ الہٰی ہونا ثابت نہیں، اپنے رب کے حضور التجا کے لیے ہاتھ پھیلانے کو حدیثِ صحیح کی ضرورت ، مگر اﷲ عزوجل کو گالی دینے اس کی مخلوقات سے مشابہ بنادینے کو فقط تیری بدلگام زبان حجت ع

مکن خود رامکان درقعرِ نار

(اپنا مکان مت بنا آگ کی گہرائی میں۔ت)

ضرب ۲۱۸ : کسی صحیح حدیث قولی و فعلی و تقریری سے فرضوں کے بعد دُعا کے لیے ہاتھ اٹھانے کی ممانعت ثابت نہیں۔ پھر تم لوگ کس منہ سے منع کرتے ہو، کیا منع کی شریعت تمہارے اپنے گھر کی ہے یا جواز کے لیے حاجت دلیل ہے ممانعت دلیل سے مستغنی ہے۔

ضرب ۲۱۹: اگرصحیح سے مقابل حسن مراد تو ہر گز حجت اس میں منحصر نہیں، صحیح لذاتہ و صحیح لغیرہ و حسن لذاتہ وحسن لغیرہ سب حجت اور خود مثبت احکام ہیں، اور اگر حسن کو بھی شامل تو انکار صرف بنظر خصوص محل ہے، یابمعنی عدم ثبوت مطلق ثانی قطعاً باطل، بکثرت صحیح و معتمد احادیث قولی وفعلی و تقریری سے نماز کے بعد دعا مانگنا نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے ثابت ۔ یونہی ہاتھ اٹھا نا دعا کے آداب سے ہونا بکثرت احادیث صحیحہ و معتبرہ قولی و فعلی و تقریری سے ثابت، یہ سب حدیثیں صحاح و مشکوۃ و اذکار و حصن حصین وغیرہا میں مروی و مذکور، اور بعد ثبوت اطلاق بے اثبات تخصیص ممانعت خاص قاعدہ علم سے دور و مہجور ۔

ضرب ۲۲۰: مقام مقامِ فضائل ہے اور اس میں ضعاف بالاجماع مقبول ، دیکھو حضرت عالم اہلسنت مدظلہ العالی کا رسالہالہادالکاف فی حکم الضعاف تو مطالبہ صحت سراسر جہل و اعتساف۔اقول: مصنف ابن ابی شیبہ کی حدیث جو بطریق اسود عامری بعض اہل بریلی کے فتوے میں منقول ہے۔ وہ باتفاق محدثین ضعیف و پایہ اعتبار سے ساقط ہے کیونکہ اسود عامری مجہول العین و الحال ہے۔

اقول: ضرب ۲۲۱ : ادعائے اتفاق محض کذب وا ختلاق، مجہول العین بہت ائمہ محققین کے نزدیک مقبول ہے اور مجہول الحال میں بھی بعض اکابر کا مذہب قبول ہے،
امام نووی مقدمہ منہاج میں فرماتے ہیں:المجہول اقسام مجہول العدالۃ ظاھرا وباطنا ومجہولہا باطنا مع وجود ھا ظاہرا وھوالمستور والمجہول العین فاما الاول فالجمہور علٰی انہ لایحتج بہ و اما الاخران فاحتج بہما کثیرون من المحققین  ۔۱؂

مجہول کی کئی اقسام ہیں، مجہول العدالۃ ظاہراً وباطناً ، مجہول العدالۃ باطناً مع وجود العدالۃ ظاہراً ، یہ مستور ہے اور مجہول العین ، صرف پہلی قسم کو جمہور دلیل نہیں بناتے لیکن آخری دو قسموں کو محققین میں سے کثیر نے دلیل بنایا ہے۔(ت)

( ۱ ؎ مقدمہ منہاج للنووی مع صحیح مسلم، قدیمی کتب خانہ کراچی        ۱/ ۱۷)

( زیادہ تفصیل درکار ہو تو حضرت عالم اہلسنت مدظلہ العالی کی کتاب مستطاب منیر العین فی حکم تقبیل الابہامین افادہ دوم صدر کتاب و فائدہ چہارم آخر کتاب کے مطالعے سے مشرف ہو)

ضرب ۲۲۲: اسود کی نسبت میزان الاعتدال میں صرف اس قدر ہے:ماروی عنہ سوی ولدہ دلھم لہ حدیث واحد  ۔۱؂اس کے بیٹے دلھم کے بغیر اس سے کسی نے روایت نہیں کی اور محدثین کے ہاں اس کی ایک حدیث ہے۔(ت)

( ۱ ؎  میزان الاعتدال             ترجمہ ۹۸۲  اسود بن عبداﷲ         دارالمعرفۃ بیروت،        ۱/ ۲۵۶)

اس سے فقط جہالت  عین ظاہر ہوتی ہے وہ جہالت حالی کو مستلزم نہیں کہ مجہول العین بہت محققین کے نزدیک مقبول اور مجہول الحال مجروح تو جہالت حال کا حکم آپ کی اپنی جہالت ہے یا ائمہ معتمدین سے روایت علی الثانی ثبوت دیجئے علی الاول آپ کیا اور آپ کی جہالت کیا، آپ کا علم تو جہل ہے جہل کیا ہوگا، آپ اﷲ عزوجل ہی کو نہیں جانتے ہیں کہ اس کے لیے مکان مانتے ہیں۔

ضرب ۲۲۳: ذہبی نے بھی یہ قول اپنی طرف سے لکھا اور اُن کی نفی نفی ائمہ کے مثل نہیں ہوسکتی، اب یہیں دیکھئے کہ وہ کہتے ہیں کہ اسود کے لیے ایک حدیث ہے، میں کہتا ہوں ان کی ایک حدیث تو یہی ہے کہ ابوبکر بن ابی شیبہ نے روایت کی، دوسری حدیث ان سے سنن ابی داؤد میں ہے جس میں وفادت لقیط بن عامر کا ذکر فرما کر حدیث کے دو لفظ مختصربطریق عبدالرحمن بن عیاش سمعی عن دلھم بن الاسود عن ابیہ عن عمہ ۲؂ذکر کیے اور تمام و کمال ایک ورق طویل میں متضمن بیانات علم غیب و حشر و نشر و حوض کوثر وغیرہا بطریق مذکور عبداﷲ بن الامام کے زوائد مسند میں ہے۔

( ۲ ؎مسند احمد بن حنبل        حدیث ابی رزین العقیل لقیط بن عامر الخ    المکتب الاسلامی بیروت    ۴/ ۱۳)

ضرب ۲۲۴: محدث صاحب ! آپ نے حافظ الشان کا قولِ منقح بھی دیکھا وہ تصریح فرماتے ہیں کہ اسود عامری مقبول ہیں جاہل مجہول اگر جہل سے معذور تو زبان کھولنی کیا ضرور۔

ضرب ۲۲۵: حافظ الشان سے سو ا وجہ اجل وا عظم لیجئے امام اجل ابوداؤد نے سنن میں حدیث مذکوراسود عامری سے روایت کی اور اُس پر اصلاً جرح نہ فرمائی تو حسبِ تصریحات ائمہ حدیث صحیح یا حسن یا لا اقل صالح تو ہوئی خود امام ممدوح اپنے رسالہ مکیہ میں فرماتے ہیں:مالم اذکرہ فیہ شیئا فہو صالح و بعضہا اصح من بعض ۔۱؂جس میں کوئی علت بیان نہ کروں وہ حدیث درست ہوگی اور ان میں بعض سے بعض اصح ہوں گی۔ت

( ۱ ؎ مقدمہ سنن ابی داؤد الفصل الثانی آفتاب عالم پریس لاہو ر        ۱/ ۴)

اب اپنی جہالت کبرٰی دیکھ کہ ائمہ کرام تو اسود کو مقبول اور ان کی حدیث کو صالح فرمائیں اور تجھ جیسا بے تمیز بے ادراک پایہ اعتبار سے ساقط بتائے۔

ضرب ۲۲۶: بالفرض اگر آپ کی جہالت مان بھی لیں اور بفرضِ غلط یہ بھی تسلیم کرلیں کہ مجہول الحال بالاتفاق نامقبول، پھر بھی بالاتفاق پایہ اعتبار سے ساقط بتانا مردود و مخذول ، محدث مسکین ابھی احتجاج و اعتبار ہی کا فرق نہیں جانتے اور چلے حدیثوں پر جرح کرنے، محدث صاحب ! مجہول اگر ساقط ہے تو پایہ احتجاج سے نہ کہ پایہ اعتبار سے، دیکھو رسالہ الہادِ الکاف ، اور یہاں پایہ اعتبار تک ہونا کافی ووافی ہے بلا خلاف۔

ضرب ۲۲۷: یہ سب کام اس تسلیم پر ہے کہ اسود مذکور فی المیزان ہوں مگر حاشا اس کا تمہارے پاس کیا ثبوت ، بلکہ دلیل اس کے خلاف کی طرف ناظر کہ اُ ن اسود کے باپ صحابی نہیں مجہول ہیںکما نص علیہ الحافظ ( جیسا کہ حافظ نے اس پر نص کی ہے۔ت) اور اس اسود کے باپ صحابیکما ذکر فی نفس الحدیث صلیت مع رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم الفجر (جیسا کہ اسی حدیث میں ذکر ہے کہ میں نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی(ت)

قولہ : اور ابن السنی کےعمل الیوم واللیلہکی حدیث جو بروایت انس فتوی مذکور میں منقول ہے۔ موضوع ہے کیونکہ اس میں عیسٰی راوی کذاب ہے، یہ دونوں حدیثیں میزان الاعتدال کے اخیر میں موجود ہیں۔

اقول ضرب ۲۲۸: عیسٰی تو کذاب نہیں مگر تم ضرور کذاب ہو اس کی سند میں عیسی کوئی راوی ہی نہیں ؎ولے از مفتری نتواں برآمد کہ اواز خود سخن می آفریند (افترا پر داز سے چھٹکارا نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ خود بات بنالیتا ہے)
ضرب ۲۲۹: حکم بالوضع بے دلیل و مردود ہے۔
ضرب ۲۳۰: میزان الاعتدال میں ان احادیث کا ذکر نہیں، کیا بلاوجہ بھی جھوٹ کی عادت ہے اور فاصبر کیا موقع پر ہے۔
قولہ مسئلہ : غیر مقلدوں کے پیچھے نماز نہ پڑھنا ۔

الجواب : جو شخص کسی مسلمان کو بلاثبوت شرعی فاسق یامبتدع یا کافر کہے خود اسی کا مصداق ہے۔
اقول: ضرب ۲۳۱: بھلا کسی مسلمان کو بلاثبوت برا کہنا ، یہ جرم ہوا اور جو ناپاک بے باک اپنی گمراہی کی ترنگ میں مسلمانوں کے رب کے لیے نہ صرف بلا ثبوت بلکہ قطعاً بر خلاف ثبوت شرعی مکان بتائے اسے اس کی مخلوق محتاج کے مانند بنائے وہ مردود کس لفظ کا مصداق ہے اسے کس سزا کا استحقاق ہے۔

ضرب ۲۳۲: اپنے پیر مغان اسمعیل دہلوی علیہ ما علیہ کی خوب خبر لی وہ اور اس کی تمام ذریت اہلِ توہب و نجدیت اسی مرض مہلک میں گرفتار ہیں کہ مسلمانوں کو بلا ثبوت شرعی محض بزور زبان وزور بہتان مشرک بدعتی بنانے کو تیار ہیںقاتلھم اﷲ انی یوفکون ۔۱؂ ( اﷲ انہیں مارے کہاں اوندھے جاتے ہیں۔ت) مردک نے خود ہی شرک کی تعریف کی کہ جو باتیں خدا نے اپنی تعظیم کے لیے خاص کی ہیں وہ دوسروں کے لیے بجالانا اور پھر شرک کی مثالوں میں گنا دیا، کسی کی قبر پر شامیانہ کھڑا کرنا، کسی کی قبر کو مورچھل جھلنا، الحمدﷲ کہ تم جیسے سپوتوں نے اس مردک کے خود مشرک ہونے کا اقرار کردیا۔

( ۱ ؎ القرآن الکریم  ۶۳/۴ )

ضرب ۲۳۳: یونہی تم نئی پود والے جن پرانوں سیانوں کے گر گے ہو یعنی یہی دہلوی اور اس کے اذناب غوی تم سب کا مسلک ناپاک ہے کہ تقلید ائمہ کو بلا ثبوتِ شرعی شرک اور مقلدین کو مشرک ک کہتے ہو ، الحمدﷲ کہ تم خود اپنے منہ آپ مشرک بنے کہ کرد کہ نیافت۔

ضرب ۲۳۴: تمہارے طائفہ غیر مقلدین کا فساق مبتدعین ہونا بے ثبوت شرعی نہیں بلکہ علمائے عرب و عجم بکثرت دلائل قاہرہ سے ثابت فرماچکے سینہ زوری سے نہ ہاروتو اس کا کیا علاج۔

ضرب ۲۳۵: جناب شیخ مجدد الف ثانی رسالہ مبدو معاد میں فرماتے ہیں:مدتے آرزوئے آں داشت کہ  وجہے پیدا شود وجیہ در مذہب حنفی تادر خلف امام قراء تِ فاتحہ نمودہ آید امابواسطہ رعایت مذہب بے اختیار ترک قراء ت میکردوایں ترک رااز قبیل ریاضت مجاہدہ می شمرد، آخر الامرسبحانہ تعالٰی بہ برکت رعایت مذہب کہ نقل از مذہب الحادست ، حقیقتِ مذہب حنفی در ترکِ قراء ت ماموم ظاہر ساخت و قراء ت حکمی ازقراء ت حقیقی در نظر بصیرت زیبا تر نمود ۔۱؂

مدت تک یہ آرزو رہی کہ حنفی مذہب میں قرات خلف الامام کی کوئی صورت بن جائے تاہم غیر اختیاری طور پر مذہب کی رعایت میں امام کی اقتداء میں قراء ت نہ کی، اس ترکِ قراء ت کو تکلف محسوس کرتا رہا ، بالاخر مذہب کی رعایت کی برکت سے مقتدی کے لیے ترکِ قراء ت کی حقیقت ظاہر ہوگئی جب کہ اپنے مذہب سے دوسرے مذہب میں منتقل ہونا الحاد ہے، چنانچہ حقیقی قرء ات سے حکمی قراء ت نظرِ بصیرت میں خوب تر معلوم ہوئی۔(ت)

( ۱ ؎ مبدء ومعاد مجدد الف ثانی  مطبع مجددی امرتسر انڈیا  ص ۳۷)

یہاں حضرت ممدوح غیر مقلدوں کو صاف صاف ملحد فرمارہے ہیں، آپ کے نزدیک یہ فرمانا مطابق ثبوت شرعی ہے جب تو آپ اور آپ کے سارے طائفے کو الحاد و بے دینی کا خلعت مبارک ، پھر آپ فاسق و مبتدع کہنے پر کیوں بگڑیں۔، ہاں شاید یوں بگڑے ہو کہ مرتبہ گھٹا دیا ملحد زندیق سے نرا فاسق مبتدع رکھا، اور اگر یہ فرمانا بے ثبوت شرعی ہے تو آپ کے طور پر حضرت شیخ مجدد معاذ اﷲ ملحد قرار پائیں گے جلد بتاؤ کہ دونوں شقوں سے کون سی شق تمہیں پسند ہے، ہنوز بس نہیں، جب جناب شیخ ایسے ٹھہریں گے تو شاہ ولی اﷲ و شاہ عبدالعزیز صاحب کہاں بچیں گے کہ یہ ان کے مرید ان کے معتقدہیں انہیں اکابر اولیاء سے جانتے ہیں اور جو کسی ملحد کو مسلم کہے خود ملحد ہے نہ کہ امامِ اسلام وولی والا مقام کہنے والا، اور ابھی انتہا کہاں، جب یہ سب حضرات ایسے ہوئے تو وہابیہ مخذولین کا شیخ مقتول اسمعیل مخذول علیہ ماعلیہ کدھر بھاگے گا، یہ تینوں کا مداح تینوں کا غلام تینوں کو ولی کہے تینوں کو امام ، تو یہ خود ملحددر ملحد ملحدوں کا ملحد ہوا، اور اب تم کہاں جاتے ہو تم اس ایک کے ویسے ہی ہو جیسا وہ اُن تین کا تو دیگ الحاد کی پچھلی کھرچن الحادی بوتل کی نیچے کی تلچھٹ تم ہوئے اب کہو کون سی شق پسند رہی ، ہر شق پر الحاد کی آفت تمہارے ہی ماتھے گئی۔
قولہ :ائمہ دین و مسلمانان قرونِ ثلثہ سب غیر مقلد تھے۔

قول: ضرب ۲۳۶: محض جھوٹ ہے، تابعین و تبع تابعین میں تو لکھو کھا مقلدین تھے ہی، صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم میں بھی ہزاروں حضرات خصوصاً اعراب و اکثر طلقاء  مقلد تھے۔ قرونِ ثلثہ کے کروڑوں مسلمانوں میں ہر شخص کو مجتہد جاننا آپ ہی جیسے فاضل اجہل کا کام ہے ایمان سے کہنا قرونِ ثلثہ میں کبھی کسی کا کسی عالم سے مسئلہ پوچھنا اور وہ جو فرمائے اس پر عمل کرنا ہوا یا نہیں، بے شک ہوا اور ہر قرن میں ہوا اور شب و روز ہوتا رہا، اور تقلید کس چیز کا نام ہے، اگر کبھی خواب میں بھی کتبِ حدیث کی ہوا لگی ہوتی تو معلوم ہوتا کہ عوام و علماء کا یہ استفتاء  وافتاء نہ صرف زمانہ صحابہ بلکہ زمانہ رسالت سے ہمیشہ رائج رہا۔

ضرب ۲۳۷: اہل زمانہ غیر مقلد ین کے بارے میں سوال کریں کہ ان کے پیچھے نماز کیسی ہے؟ علمائے سنت جواب فرمائیں کہ ممنوع و مکروہ ہے، اس سوال و جواب کو ائمہ مجتہدین پر حمل کرنا، جہالت نہیں بلکہ دیدہ و دانستہ حرامزدگی ہے، غیر مقلد اس طائفہ تالفہ ضالہ حائفہ کا نام ہے جو بتقلیدِ شیطانِ لعین تقلیدِ ائمہ دین سے انکار رکھتا ہے، مقلدین ائمہ کو مشرک کہتا ہے اپنے ہر خرنا مشخص کو بے اتباع ارشادات ائمہ اپنی عقل  ناقص پر چلنے کا حکم دیتا ہے ناموں کے معانی لغوی لے کر غیر مسمّٰی پر حمل کرنا کیسی حماریت  کبری ہے، یہ وہی مثل ہوئی کہ قارور ے کو قارورہ کیوں کہتے ہیں اس لیے کہ اس میں پانی کا قرار ہے تو تمہارا پیٹ بھی قارورہ ہوا کہ اس میں بھی پانی کا قرار ہوتا ہے۔ جرجیر کو جرجیر کیوں کہتے ہیں اس لیے کہ وہ تجرجر یعنی حرکت کرتا ہے تو تمہاری داڑھی بھی جرجیر ہوئی کہ اسے بھی جنبش ہوتی ہے۔

ضرب ۲۳۸: اگر بفرض باطل لفظ غیر مقلدین ائمہ مجتہدین کو بھی شامل مانیے تو لفظ کے مصداق جب دو قسم ہوں ایک محمود، دوسری مذموم ، اور محمود زمانہ سلف میں تھے اب تنہا مذموم باقی ہیں تو اب حکم مذمت میں قید و تخصیص کی ضرورت نہیں ہر عاقل کے نزدیک حکم انہیں موجودین کے لیے ہوگا اسے عام سمجھنے والا یا مکابر سرکش ہے یا مسکین بارکش، مثلاً ہر مسلمان کہتا ہے کہ یہود و نصارٰی کافر ہیں اس پر شخص جو اعتراض کرے کہ زمانہ موسوی کے یہود، عصرِ عیسوی کے نصارٰی کہ دین حق پر قائم تھے مومنین تھے تم نے سب کو کافر کہہ دیا، تو یہ معترض انہیں دو حال سے خالی نہیں یا حرامزادہ وہ شریر ہے یا خر مسکین۔
قولہ:  تقلید ایک امر مستحدث ہے اور چوتھی صدی میں ایجاد ہوئی۔

اقول: ضرب ۲۳۹: سخت جھوٹے ہو بلکہ تقلید واجب واجب شرعی ہے، قرآن و حدیث نے لازم کی، زمانہ رسالت سے رائج ہوئی،قال اﷲ تعالٰی: فاسئلوااھل الذکران کنتم لاتعلمون  ۱ ؎اہلِ ذکر سے پوچھو اگر تم خود نہیں جانتے۔(ت)

( ۱ ؎ القرآن الکریم  ۱۶/۴۳ و ۲۱/ ۷)

وقال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم: الاسألوااذلم یعلموا فانما شفاء العی السؤال ۔۱؂انہوں نے خود نہ جاننے پر پوچھا کیوں نہیں کیوں کہ عاجز کا علاج پوچھنا ہے۔(ت)

( ۱ ؎ سنن  ابی داؤد کتاب الطہارۃ باب المجذور یتیمم آفتاب عالم پریس لاہو ر        ۱/ ۴۹)

ہاں تمہارے طائفہ گمراہ کی غیر مقلدی بہت نوپیدا حدث ہے کہ ابن عبدالوہاب نجدی نے بارھویں صدی میں نکالی، دیکھو سردار علمائے مکہ معظمہ شیخ العلما حضرت سیدنا احمد زین قدس سرہ کا رسالہالدررالسنیہ فی الردعلی الوھابیہ ۔

ضرب ۲۴۰: ہم اہلسنت کو ان گمراہوں سے نزاع اوّلاً تقلید کو شرک بتانے، ثانیاً اس کے حرام ٹھہرانے ، ثالثاً بے لیاقت اجتہاد اس کا ترک جائز بتانے میں ہے، یہ چالاک عیار تینوں کو چھوڑ کر تقلید شخصی میں الجھنے لگتے ہیں، یہ ان مکاروں کا قدیم طریقہ جان بچانے کا ہے، یہ نئی پرواز کے پٹھے بھی یہی چال چلے پھر بھی چوتھی صدی جھوٹ بنالی، ان کے شیخ مقتول اسمعیل مخذول کے دادا اور دادا استاد اور پردادا پیر شاہ ولی اللہ صاحب رسالہ انصاف میں انصاف کر گئے کہ:بعد المائتین ظہر بینھم التمذہب للمجتہدین باعیانھم وقل من کان لایعتمد علی مذہب مجتہد بعینہ و کان ھذا ھوالو اجب فی ذٰلک الزمان ۔۲؂یعنی دو صدی کے بعد خاص ایک مجتہد کے مذہب کا پابند بننا اہل اسلام میں ظاہر ہوا کہ کم ہی کوئی شخص تھا جو ایک امام معین پر اعتماد نہ کرتا ہو اور یہی واجب تھا اس زمانے میں ۔

( ۲ ؎ رسالہ انصاف شاہ ولی اللہ  باب حکایۃ حال الناس قبل المائۃ الرابعۃ الخ  مکتبہ دارالشفقت استنبول ترکی ص ۱۹ )

قولہ : اور جوبات امورِ دین میں بعد قرونِ ثلثٰہ کے ایجاد ہوئی بالاتفاق بدعت ہےوکل بدعۃ ضلالۃ۔

ضرب ۲۴۱: جیسی تمہاری غیر مقلدی کہ تین چھوڑ بارھویں قرن میں قرن الشیطان کے پیٹ سے نکلی،
ضرب ۲۴۲: شیر کے بن میں ڈکرا نے والا بیل اپنی موت اپنے منہ مانگتا ہے ، اﷲ تعالٰی کے لیے مکان ثابت کرنا بتا تو دے کہ قرون ثلثہ میں کس نے مانا، تو تیرا قول بدتر از بول تیرے ہی منہ سے بدعت و ضلالت و فی النار اور تو بدعتی گمراہ مستحق  نار ہے۔

ضرب ۲۴۳: اﷲ عزوجل کے احاطہ ذاتیہ کا انکار قرون ثٰلثہ میں کس نے کیا، یہ بھی تیری بدعت و ضلالت ہے۔
ضرب ۲۴۴: صفاتِ الہیہ میں صرف علم کو محیط ماننا جس سے اس کی قدرت ، اس کے سمع اس کی بصر، اس کی مالکیت، اس کی خالقیت کے احاطے کا انکار ثابت ہوتا ہے،قرونِ ثلثہ میں کون اس کا قائل تھا، یہ بھی تیری گمراہی و بدمذہبی ہے۔

ضرب ۲۴۵: استواء کے وہ تین معنی کہنا اور ان کے سوا چوتھے کو بدعت بتانا قرون ثلثٰہ میں کس کا قول تھا۔ یہ بھی تیری ضلالت و بددینی ہے۔
ضرب ۲۴۶: فضائلِ اعمال کے ثبوت کو حدیث صحیح میں منحصر کردینا قرون ثلثٰہ میں کس کا مذہب تھا، یہ بھی تیری بدعت جسارت و بدزبانی ہے۔
ضرب ۲۴۷: بدعت کے یہ معنی لینا کہ جو بات امورِ دین میں بعد قرونِ ثلثہ کے حادث ہوئی اور اسے بالاتفاق بدعتِ ضلالت کہنا اُمتِ مرحومہ پر افتراء ہے، اس کی تحقیق علماء اہلسنت اپنی تصانیف کثیرہ میں فرماچکے ، وہ بحث لکھئے تو دفتر طویل ہو، اور پھر مخاطب ناقص العقل کیا قابلِ خطاب ، مگر مدعی اپنے اس دعوٰی اطلاق پر امت کا اتفاق مسند معتمد سے دکھائے ورنہ اپنی جہالت و ضلالت کا آپ سر کھائے۔

قولہ : مفتی بریلی جو تقلید کو امر دینی سمجھتا ہے یقینی مبتدع ہوا اور اس کے فتوے کے مطابق اس کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہوا کما ھو ظاہر افسوس کہ اس نادان دوست نے اپنے ائمہ رحمہم اﷲ تعالٰی کے پیچھے بھی نماز پڑھنے کو ناجائز کردیا۔

شادم کہ ازرقیباں دامن کشاں گز شتی
گو مشتِ خاک ماہم برباد رفتہ باشد
نعوذ باﷲ من ھفواتہمجھے خوشی ہے کہ تم رقیبوں سے دامن بچا کر گزر گئے اگرچہ میری مشتِ خاک بھی برباد ہوگئی، اللہ تعالٰی اس کی بے ہودہ باتوں سے بچائے۔(ت)

ضرب ۲۴۹:
چوں خدا خواہد کہ پردہ کس درد میلش اندر طعنہ پاکاں زند (جب اﷲ تعالٰی کسی کا پردہ چاک کرنا چاہتا ہے تو پاک لوگوں پر طعنہ میں اسے مشغول کردیتا ہے۔ت)
مسلمانوں نے دیکھ لیا کہ لفظ مبتدع کے مستحق معاذ اﷲ علمائے اہلسنت میں یا یہ بددین گمراہ کہ اﷲ کو مکانی مانتا جسمانی جانتا اس کی قدرت و سمع و بصرو خالقیت و مالکیت وغیرہا کو محیط نہیں سمجھتا ائمہ دین سے باقرار خود رقابت رکھتا ہے عیاذاً باﷲ وہ  مبتدع ہیں یا اس وہابیہ کے نئے پٹھے کا پرانا گرو گھنٹال شیخ  مقتول اسمعیل مخذول جس کے کفریات میں رسالہ مبارکہ  الکوکبۃ الشہابیۃ علٰی کفریات ابی الوھابیۃ ،

تصنیف ہوا اور علمائے عرب و عجم نے اس کے ضلال بلکہ علمائے حرمین طیبین نے اس کے کفر پر فتوٰی دیا، یہاں اسے یہ دکھانا ہے کہ جب تقلید کو امر دینی سمجھنے والا معاذ اﷲ مبتدع ہوا تو اب شاہ ولی اﷲ کی خبریں کہیے جو نہ مطلق تقلید بلکہ دو صدی کے بعد خاص تقلید شخصی کو واجب کہتے ہیں جس کی عبارت ابھی گزری۔

ضرب ۲۵۰: اور جناب مجددیت مآب کی نسبت کیا حکم ہوگا جو تقلید نہ مطلق تقلید بلکہ خاص تقلید شخصی کو ایسا سخت ضروری و مہم ترامر عظیم دینی مانتے ہیں کہ اس کے ترک کو الحادو بے دینی جانتے ہیں، عبارت اوپر گزری، اور سنئے کہ وہ صحیح و مستفیض حدیثوں کو فقہی روایت کے مقابل نہیں سنتے اور روایت بھی کیسی کہ خود مختلف آئی اور اختلاف بھی کیسا کہ اپنے ہی ائمہ کا فتوٰی تک مختلف امام محمد کی کتاب میں خود اس کے خلاف ، اور حدیثوں کے مطابق اپنا ا ور حضرت امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کا مذہب مذکور کہ التحیات میں اشارہ کیا جائے اور اس پر بھی ائمہ فتوٰی نے  دیا مگر صرف اس بنا پر کہ یہ روایت ہمارے امام سے مشہور نہیں احادیث پر عمل کرنا جائز نہیں بتاتے، اس سے بڑھ کر تقلید اور وہ بھی خاص شخصی کو دینی ضروری سمجھنا اور کیا ہوسکتا ہے،

مکتوبات جلد اول مکتوب ۳۱۲ میں فرماتے ہیں:مخدوما احادیث نبوی علٰی مصدرہا الصلوۃ والسلام درباب جو از اشارت سبابہ بسیار واردشدہ اندوبعضے ازروایات فقہیہ حنفیہ نیز دریں باب آمدہ وانچہ امام محمد گفتہ کان رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم یشیر ونصنع کما یصنع النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ثم قال ھذا قولی و قول ابی حنیفۃ رضی اللہ تعالٰی عنہما از روایاتِ نوادرست مامقلدان رانمی رسد کہ بمقتضائے احادیث عمل نمودہ جرأت دراشارت نمائیم اگر گویند کہ علمائے حنفیہ برجواز اشارت نیز فتوٰی دادہ اندگویم ترجیح عدمِ جواز راست اھ ملتقطاً ۔۱؂

اے ہمارے مخدوم! تشہد میں شہادت کی انگلی سے اشارہ کی کثیر احادیث وارد ہیں اور بعض حنفی حضرات کی اس بارے میں روایات فقہیہ بھی آئی ہیں، اور امام محمد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے جو فرمایا کہ رسول اللہ  صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اشارہ فرماتے تھے اور ہم وہ کریں گے جو نبی پاک  صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کرتے تھے۔ پھر انہوں نے فرمایا میرا اور امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا یہی قول ہے ، تو یہ نادر روایات میں سے ہے، تو ہم مقلد لوگوں کو براہِ راست حدیث پر عمل نہیں کرنا چاہیے، کہ اشارہ کرنے کی جرات کریں، اگر کہا جائے کہ حنفی علماء نے اشارہ کے جواز پر فتوے دیا ہے تو میں کہوں گا کہ ترجیح عدمِ جواز کو ہے اھ ملتقطاً (ت)

( ۱ ؎ مکتوبات امام ربانی مجدد الف ثانی مکتوب ۳۱۲    مطبوعہ نولکشور لکھنو   ۱ /۴۴۸ تا ۴۵۱)

اب مبتدعی کہ خبریں کہیے اور تقریر سابق بھی یاد رکھیے کہ ان کی شان میں کوئی کلمہ کہا اور ساتھ لگے شاہ ولی اﷲ شاہ عبدالعزیز صاحب بھی گئے اور بلا پس ہو تینوں کو جانے دو وہ سب میں چہیتے اسمعیل جوگئے اور ان کے صدقے گیہوں کے گھن ، اور تمہارے سب طائفے والے جہنمِ بدعت و ضلالت کے قعر میں پہنچے، افسوس کہ اس نامرد ہاتھی نے اپنی ہی فوج کا زیاں کیا اس کچی پیندی نے اپنے سفرہ و دستار خوان کا نقصان کیا، اسمعیل اور سارے طائفہ مردود و ذلیل کو بدعتی گمراہ جہنمی مان لیا ان کے پیچھے نماز پڑھنے کو جائز کردیا۔ ؂

شآدم کہ از رقیباں دامن کشاں گز شتی گو جائے ذکر ماہم آں تنگ دل ندارد

مجھے خوشی ہے کہ تم رقیبوں سے دامن بچا کر گزر گئے، اگرچہ ہمارے ذکرپر بھی وہ تنگ دل نہیں ہوتے۔ت)

نعوذ باﷲ من ھفواتہ وھمزات اسمعیل وہناتہ رب انی اعوذبک من ھمزات الشیطین، واعوذبک ان یحضرون o واخردعونا ان الحمد ﷲ رب العلمین والصلوۃ والسلام علٰی سید المرسلین سیدنا محمد واٰ لہ واصحابہ اجمعین امینہم اﷲ تعالٰی کی پناہ چاہتے ہیں اس کے لغویات اور اسمعیل کی وسوسہ انگیزیوں اور باعثِ شرم باتوں سے۔ اے میرے رب میں تیری پناہ چاہتاہوں شیطان کی وسوسہ انگیزیوں سے، اور تیری پناہ چاہتا ہوں شیطانوں کی حاضری سے ، اور ہماری آخری بات یہ ہے تمام حمدیں اﷲ تعالٰی رب العالمین کے لیے ہیں، اور صلوۃ وسلام ہو، رسولوں کے سردار ہمارے آقا محمد اور انکی آل و اصحاب سب پر، آمین (ت)

الحمد ﷲ کہ یہ مختصر اجمالی جواب پانزدہم شہر النور و السرور ماہِ مبارک ربیع الاول ۱۳۱۸ھ ہجریہ قدسیہ علٰی صاحبہا الصلوۃ والتحیہ کو باوصف کثرتِ کار وہجوم اشغال تعلیم و تدریس و مجالس مبارکہ میلاد سراپا تقدیس وقت فرصت کے قلیل جلسوں میں تمام اور بلحاظ تاریخقوارع القہار علی المجسمۃ الفجارنام ہوا اس التزام کے ساتھ کہ مسئلہ مکان میں صرف اسی شخص کی سنداً گنائی ہوئی کتابوں کی عبارتیں پیش کروں گا، عدد ڈھائی سو ضرب تک پہنچا اور اس کی مستند کتابوں میں بھی تفسیر ابن کثیر موجود نہ تھی ورنہ ممکن تھا کہ عدد اور بڑھتا ، یونہی کتاب العلو مضطرب منہافت اور اس کے علاوہ پاس بھی نہ تھی اور اگر قلم کو اس مخالف کی اس قدر جائے تنگ میں محصور نہ کیا جاتا تو ضربوں کی کثرت لطف دکھاتی، پھر بھی اُن معدود سطور پر ڈھائی سو کیا کم ہیں۔وباﷲ التوفیق، واﷲ سبحنہ وتعالی الہادی الی سواء الطریق وصلی اللہ تعالٰی علی النبی الکریم محمد واٰلہ وبارک وسلم امین۔

(بحوالہ فتاوا رضویہ جلد 29

Link to comment
Share on other sites

Khalak Ko Wo Faiz Baksha Ilm Se Bs Kya Kahu

 

Jab Kalam Tune Uthaya Aye Imam Ahemad Raza

 

Ilm Ka Dariya Hua Hai Mojjan Tehreer Me

 

Ilm Ka Dariya Bahaya Aye Imam Ahmed Raza

 

Thar Taharae Kaap Utthe Bagiyane Mustafa

 

Jab Kalam Tune Uthaya Aye Imam Ahmed Raza

 

Hai Badargah Khuda "Attar" Aashiq Ki Dua

 

Tujhpe Ho Rahemat Ka Saaya Aye Imam Ahmed Raza

 

JAZAKALLAH NAJAM MIRANI BHAI

Link to comment
Share on other sites

  • 7 months later...

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...