Jump to content

Deobandimazhab.com K Liye Scan Pages


Shan E Raza

تجویز کردہ جواب

Salaaam
may ney apni web par ashraf ali thanvi qasim nanotoi khalil ambethawi or rashid gangohi k rad k liye mazameen upload karny hain .....................

 

un mazameen ki tiyari k liye mujy scan pages b chahiyen............

 

sab sey pehley qasim nanotoi k rad k liye scan pages darkaar hain

 

may ibaraaat likh raha hoon ap bhaiyon sey guzarish hai k in ibarat k scan pages yeha laga dey takey k mazameen web par lagaye ja sakeyn shukriyah.......................

hawala 1

امام قاضی عیاض شفامیں فرماتے ہیں ۔
۱۔ لا نہ اخبر صلی اللہ علیہ وسلم انہ خاتم النبین لا نبی بعدہ واخبر عن اللہ تعالیٰ انہ خاتم النبیین وانہ ارسل کافۃ للناس اجمعت الامۃ علیٰ حمل ھذا الکلام علیٰ ظاھرہ وان مفہومہ المرادبہ دون تاویل ولا تخصیص فلا شک فی کفر ھؤلاء الطوائف کلھا قطعا ۔(جلد دوم صفحہ
۲۵۰)

hawala 2

حجۃ الاسلام امام غزالی کتاب الاقتصار میں فرماتے ہیں۔
ان الامۃ فھمت من ھذا اللفظ انہ افھم عدم نبی بعدہ ابدا وعدم رسول بعدہ ابدا وانہ لیس فیہ تاویل ولا تخصیص ومن اول بتخصیص فکلامہ من انواع الھذیان لا یمنع بتکفیرہ لانہ مکذب بھذا النص الذی اجمعت الامۃ علی انہ غیر موول ولا مخصوص

۔hawala 3

علامہ عبدالغنی نابلسی ’’ شرح الفوائد‘‘ میں لکھتے ہیں۔
فساد مذھبھم غنی عن البیان بمشاھدۃ العیان کیف وھو یودی الی تجویز نبی مع نبینا صلی اللہ علیہ وسلم ا و بعدہ و زالک یستلزم تکذیب القرآن اذ قد نص علیٰ انہ خاتم النبیین و آخر المرسلین وفی السنۃ انا العاقب ولا نبی بعدی واجتمعت الا مۃ علی ابقاء ھذا الکلام علی ظاہرہ وھذہ احدی المسائل المشہورۃ کفرنا بھا الفلاسفۃ لعنھم اللہ تعالیٰ۔
 

 


 

 

 

Link to comment
Share on other sites

 جزاک اللہ خیرا سید محمد علی بھائی۔

 

شفا کی اس عبارت کو محمد شفیع صاحب مفتی دیوبند نے بھی اپنی کتاب ختم النبوۃ فی الاثار میں قادیانیوں کے خلاف بطور سند ذکر کیا ہے

اس کا سکین بھی مل جائے تو بہت بہتر ہوگا۔۔۔۔۔۔؂

شرح الفوائد کا حوالہ اگر کسی اور بھائی کے پاس ہو تو وہ بھی اپلوڈ فرما دیں۔۔۔۔شکریہ۔

 

Link to comment
Share on other sites

hawala 5

ان سب سے ہٹ کر خود نانوتوی صاحب کا ایک اعتراف سن لیجئے وہ اپنے مکتوب میں ایک معتمد علیہ خصوصی کو لکھتے ہیں۔
معنی خاتم النبیین در نظر ظاہر پرستاںہمی باشد کہ زمانہ نبوی آخر است از زمانہ گزشتہ بعض نبی دیگر نخواہد آید مگر می دانی ایں سخن ایست کہ نہ مدحے ایست درآں نہ ذمے۔
خاتم النبین کا معنی ظاہر پرستوں کی نظر میں یہ یہی ہے کہ زمانہ نبوی گزشتہ انبیاء کے زمانہ سے آخر ہے اور اب کوئی نبی نہ آگئے گا مگر تم جانتے ہو کہ یہ ایسی بات ہے کہ اس میں نہ تو کوئی تعریف ہے اور نہ کوئی برائی ۔(قاسم العلوم ص ۵۵، مکتوب اول بنام مولوی محمد فاضل

)

 

hawala 6

 

۔ تحذیر الناس سے پوری امت بیزار تھی اس کو اشرفعلی تھانوی نے اپنے الفاظ میں بیان کیا۔
جس وقت مولانا نانوتوی صاحب نے تحذیر الناس لکھی ہے کسی نے ہندوستان بھر میں مولانا کے ساتھ موافقت نہیں کی بجز مولانا عبدالحی کے۔( الافاضات الیومیہ جلد چہارم ، ص ۵۸۰، ملفوظہ ۹۲۷)

 

hawala 7

 

نانوتوی صاحب ایک بار ریاست رام پور گئے، اس کا قصہ ارواح ثلاثہ میں یوں لکھا ہے۔
اپنے کو ایک ملازم کی حیثیت سے ظاہر کیا اس لیے کہ خفیہ پہنچیں جب رامپور پہنچے تو جناب نے اپنا نام خورشید حسن بتلایا اور لکھوادیا۔ اور ایک نہایت ہی غیر معروف سرائے میں مقیم ہوئے، اس میں بھی ایک کمرہ چھت پر لیا یہ وہ زمانہ تھا کہ تحذیر الناس کے خلاف اہل بدعات میں ایک شور برپا تھا۔ مولانا کی تکفیر تک ہورہی تھی، حضرت کی غرض اس اخفاء سے یہی تھی کہ میرے علانیہ پہنچنے سے اس بارہ میں جھگڑے اور بحثیں نہ کھڑی ہوجائیں۔( ارواح ثلاثہ صفحہ ۲۶۱)

 

 

hawala 8

 

 انور شاہ کشمیری بلکہ ’’ کرمہابلی‘‘ یہ تحذیر الناس کی تردید کرتے ہوئے اپنے رسالہ خاتم النبین کے صفحہ ۳۸ پر لکھتے ہیں۔
واردائہ ما بالذات وما بالعرض عرف فلسفہ است نہ عرف قرآن مجید و حوار عرب و نہ نظم قرآن راہم چوں گونہ ایمان و دلالت برآں پس اضافہ استفاضہ نبوت زیادت است بر قرآن بمحض اتباع ہوا۔
یعنی ما بالذات و ما بالعرض کا ارادہ ( جیسا کہ تحذیر الناس میں ہے) فلسفہ کا عرف ہے، قرآن مجید کا عرف یا عرب کا محاورہ نہیں ، اور نہ نظم قرآن کا اس طرح کوئی اشارہ ہے
پس اضافہ استفاضہ نبوت محض اتباع ہوا کی وجہ سے قرآن پر زیادتی ہے۔
یہی بزرگ قریب قریب یہی مضمون اپنے دوسرے رسالہ ’’ عقیدۃ الاسلام‘‘ کے صفحہ ۳۵۶ پر لکھ چکے ہیں۔

 

 

 

 

 

Link to comment
Share on other sites

جزاک اللہ خیرا سید بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرا سکینر صحیح کام نہیں کر رہا اس لئے اگر ہو سکے تو تحذیر الناس کے سکین بھی لگا دیں۔۔۔۔۔۔۔۔

 

پہلی عبارت

 

مولوی قاسم نانوتوی بانی مدرسہ دیوبند اپنی کتاب تحذیر الناس کے صفحہ ۳/۴ پر لکھتے ہیں :
اول معنی خاتم النبیین معلوم کرنا چاہیے کہ فہم جواب میں کچھ دقت نہ ہو، سو عوام کے خیال میں رسول اللہ ﷺ کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں، مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تاخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں ، پھر مقام مدح میں۔ْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ فرمانا اس صورت میں کیوں کر صحیح ہوسکتا ہے، ہاں اگر اس وصف کو اوصاف مدح میں سے نہ کہیے اور اس مقام کو مقامِ مدح نہ قرار دیجئے، تو البتہ خاتمیت باعتبار تاخر زمانی صحیح ہوسکتی ہے، مگر میں جانتا ہوں کہ اہل اسلام میں سے کسی کو یہ بات گوارہ نہ ہوگی کہ اس میں ایک تو خدا کی جانب زیادہ گوئی کاوہم ہے۔
آخر اس وصف میں اور قدو قامت ، شکل و رنگ، حسب و نسب، سکونت وغیرہ اوصاف میں جن کو نبوت یا اور فضائل میں کچھ دخل نہیں کیا فرق ہے، جو اس کو ذکر کیا اوروں کو ذکر نہ کیا۔
دوسرے رسول اللہ ﷺ کی جانب نقصان قدر کا احتمال ہے کیونکہ اہل کمال کے کمالات ذکر کیا کرتے ہیں ، اور ایسے ویسے لوگوں کے اس قسم کے احوال بیان کیا کرتے ہیں، اعتبار نہ ہو تو تاریخوںکو دیکھ لیجئے۔
باقی یہ احتمال کہ یہ دین آخری دین تھا اس لیے سد باب اتباع مدعیان نبوت کیا ہے جو کل کو جھوٹے دعویٰ کرکے خلائق کو گمراہ کریں گے، البتہ فی حد ذاتہ قابلِ لحاظ ہے،
پر جملہ ’’ مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبا اَحَدٍ مِّنْ رِجَالِکُم ‘‘اور جملہ ’’ وَلکن رَّسُول اللہ وخاتم النبیین ‘‘ میں کیا تناسب تھا؟ جو ایک کو دوسرے پر عطف کیا ، اور ایک کو مستدرک منہ اور دوسرے کو استدراک قرار دیا۔
اور ظاہر ہے کہ اس قسم کی بے ربطی بے ارتباطی خدا کے کلام معجز نظام میں متصور نہیں اگر سد باب مذکور منظو رہی نہیں تھا تو اس کے لیے اور بیسیوں مواقع تھے۔ بلکہ بربنائے خاتمیت اور بابت پر ہے، جس سے تاخر زمانی اور سد باب مذکور خود بخود لازم آجاتا ہے۔(ص ۴)

 

 

عبارت نمبر ۲

س لیے صفحہ ۱۴ پر یہ نتیجہ نکالا، غرض اختتام اگر بایں معنی تجویز کیا جاوے جو میں نے عرض کیا تو آپ کا خاتم ہونا انبیائے گزشتہ ہی کی نسبت خاص نہ ہوگا، بلکہ اگر بالفرض آپ کے زمانہ میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے۔

 

عبارت نمبر ۳

 

 نیز صفحہ ۲۸ پر مزید نتیجہ یہ نکالا اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی ﷺ کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا، چہ جائے کہ آپ کے معاصر کسی اور زمین میں یا فرض کیجئے اسی زمین میں کوئی اورنبی تجویز کیا جائے۔

 

عبارت نمبر ۴

ہاں اگر بطورِ اطلاق یا عموم مجاز اس خاتمیت کو زمنی اور رتبی سے عام لیجئے تو پھر دونوں طرح کا ختم مراد ہوگا۔ پر ایک مراد ہو تو شایانِ شان محمدی خاتمیت، رتبی ہے نہ زمانی ۔(تحذیر الناس ۸)

 

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...