Jump to content

شیعی دھرم اپنے کتب کی تاریکیوں میں ۔ سکین ورژن


abdulwahab

تجویز کردہ جواب

میں یہاں اپنے ایک دوست کلام بھائی کی تحقیق پوسٹ کرتا رہوں گا

 

 

 

 

 

 



محمد بن علي بن الحسين قال: دخل أبو جعفر الباقر ( عليه السلام ) الخلاء فوجد لقمة خبز في القذر، فأخذها، وغسلها، ودفعها إلى مملوك معه، فقال: تكون معك لآكلها إذا خرجت، فلما خرج ( عليه السلام ) قال للمملوك: أين اللقمة؟ فقال: أكلتها يا بن رسول الله، فقال ( عليه السلام ): إنها ما استقرت في جوف أحد إلا وجبت له الجنة، فاذهب، فأنت حر، فإني أكره أن أستخدم رجلا من أهل الجنة





امام باقر (ع) بیت الخلاء میں داخل ہوئے ، گندگی پر ایک لقمہ روٹی کا پڑا ہوا دیکھا ، اٹھایا ، اس کو دھویا اور اپنے غلام کو دیا جو ان کے ساتھ تھا، اور فرمایا ، اس کو اپنے پاس رکھو ، میں بیت الخلاء سے آوں گا تو مجھے دینا میں کھا لوں گا۔ مگر غلام نے کھا لیا ، آپ جب بیت الخلاء سے نکلے ، لقمہ مانگا تو غلام نے کہا کہ وہ میں نے کھا لیا تو اس پر فرمایا کہ جس پیٹ میں وہ لقمہ گیا اس پر جنت واجب ہوگئی ۔ جا تو آزاد ہے میں جنت والے سے خدمت لینا نہیں چاہتا۔

وسائل الشیعہ ، باب أن من دخل الخلاء فوجد لقمة خبز في القذر
من لا یحضرہ الفقیہ ، ج ۱ ،ص ۱۸




محمد بن يعقوب ، عن محمد بن يحيى ، عن أحمد بن محمد ، عن اسماعيل بن همام ، عن علي بن جعفر قال : سألت أبا الحسن موسى ( عليه السلام ) عن الرجل يقبل قبل امرأته  ؟ قال : لا بأس


علی بن جعفر نے امام موسٰی کاظم سے سوال کیا کہ مرد اپنی بیوی کی شرمگاہ کو چوم سکتا ہے؟ فرمایا کوئ حرج نہیں

تھذیب الاحکام ج ۷ ص ۴۱۳
وسائل الشیعہ  باب جواز تقبيل الرجل قبل زوجته ومباشرته



عن عبيد الله الدابقي قال: دخلت حماما بالمدينة فإذا شيخ كبيرو هو قيم الحمام فقلت: يا شيخ لمن هذا الحمام؟ فقال: لابي جعفر محمد بن علي بن الحسين عليهم السلام فقلت: كان يدخله؟ قال: نعم، فقلت: كيف كان يصنع؟ قال: كان يدخل فيبدء فيطلي عانته وما يليها ثم يلف على طرف إحليله ويدعوني فاطلي سائر بدنه، فقلت له يوما من الايام: الذي تكره أن أراه قد رأيته، فقال: كلا إن النورة سترة



عبیداللہ الدابقی سے مروی ہے کہ میں مدینہ کے ایک حمام میں گیا۔ میری نظر ایک بوڑھے پر پڑی جو حمام کا نگران تھا۔ میں نے اس سے پوچھا یہ حمام کس کا ہے  تو اس نے کہا یہ امام باقر کا ہے۔ میں نے کہا وہ خود بھی آتے ہیں یہاں پر؟ اس نے کہا جی ہاں آتے ہیں۔ میں نے کہا وہ یہاں آ کر کیا کرتے ہیں۔ تو اس نے کہا وہ حمام میں داخل ہوتے ہی اپنی شرم گاہ پر طلا لگا لیتے ہیں۔ بعد ازاں آلہ تناسل پر پٹی باندھ لیتے ہیں۔ اور پھر مجھے بلا لیتے ہیں تو میں ان کے باقی جسم پر طلا لگا لیتا ہوں۔ میں نے ایک دن ان سے کہا ، حضرت جس کو آپ دیکھنا پسند نہیں فرماتے میں تو اس کو دیکھ لیتا ہوں ، فرمایا ! ہرگز نہیں جب چونا لگا ہوا ہو تو پردہ ہو جاتا ہے۔ لہٰذا اے عبداللہ تجھے چونا نظر آتا ہے مگر آلہ تناسل تو مستور ہوتا ہے۔



الکافی ، باب الحمام




عن ابان بن تغلب قال: سمعت ابا عبد الله عليه السلام يقول: كان ابي عليه السلام يفتي في زمن بني امية أن ما قتل البازي والصقر فهو حلال وكان يتقيهم وان لا أتقيهم وهو حرام ما قتل


ابان بن تغلب سے مروی ہے کہ امام جعفر صادق نے فرمایا : میرے والد امام باقر بنو امیہ کے دور میں تقیہ کرتے ہوئے یہ فتوٰی دیتے تھے کہ جس جانور کو باز یا شکرہ مار ڈالے وہ حلال ہے۔ میں چونکہ تقیہ نہیں کرتا اس لئے میرا فتوٰی یہی ہے کہ ان دونوں کا مارا ہوا جانور حرام ہے۔


تهذيب الأحكام ج ۹ ص ۳۲
فروع کافی ج ۶ ص ۲۰۸




علي بن إبراهيم، عن محمد بن عيسى، عن بعض أصحابنا، عن أبي الحسن موسى (عليه السلام) قال: إن الله عزوجل غضب على الشيعة


امام موسٰی کاظم سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : بے شک شیعہ پر اللہ تعالٰی کی پھٹکار ہوئی۔


اصول کافی ج ۱ ، ص ۲۸۶


عن أبي بصير قال: قال أبوعبدالله عليه السلام: اصول الكفر ثلاثة: الحرص، والاستكبار، والحسد، فأما الحرص فان آدم عليه السلام حين نهي عن الشجرة، حمله الحرص على أن أكل منها



ابوبصیر سے روایت ہے کہ امام جعفر صادق نے فرمایا : اصولِ کفر تین ہیں ۔ حرص ، تکبر اور حسد۔ حرص (یعنی پہلا اصول کفر) تو حضرت آدم (علیہ السلام) میں تھا۔ جب انہیں درخت کے کھانے سے منع کیا گیا تو حرص نے انہیں درخت کے کھانے پر ابھارا۔


اصول کافی ج ۲ ص ۲۸۹


حدَّثني أبي ؛ وعليُّ بن الحسين؛ وجماعة مشايخي ـ رحمهم الله ـ عن سعد بن عبدالله ، عن أحمدَ بن محمّد ؛ ومحمّد بن الحسين ، عن محمّد بن إسماعيلَ بن بزيع ، عن صالِح بن عُقْبة ، عن زَيد الشَّحّام «قال : قلت لأبي عبدالله عليه السلام : ما لِمَن زار قبر الحسين(2) عليه السلام؟ قال : كان كمن زارَ الله في عَرشه

(بحذفِ سند) امام جعفر صادق سے پوچھا گیا ’’کیا فرماتے ہیں اس شخص کے بارے میں جو امام حسین (ع) کی قبر کی زیارت کرتا ہے۔ فرمایا : وہ تو اس کی مانند ہے جو اللہ کی زیارت اس کے عرش پر کریں۔ 


کامل الزیارات ص ۱۵۹ ، الباب التّاسع والخمسون ، إنّ مَن زار الحسين عليه السلام كان كمن زار الله في عَرشه





فقال له : إني قد حججت تسعة عشر حجة فادع الله أن يرزقني تمام العشرين حجة ، قال : هل زرت قبر الحسين ؟ قال : لا ، قال : لزيارته خير من عشرين 

امام جعفر صادق سے ایک شخص نے کہا : میں نے ۱۹ حج کئے ہیں، اللہ تعالٰی سے دعا کیجئے کہ میں ۲۰ حج پورے کر سکوں۔ امام صاحب نے فرمایا : کیا امام حسین  (رض) کے قبر کی زیارت کی ہے؟ کہا : نہیں۔ امام صاحب نے فرمایا : اس کی زیارت ۲۰ حج سے بہتر ہے۔

وسائل الشیعہ باب استحباب اختيار زيارة الحسين ( عليه السلام ) على الحج والعمرة المندوبين

عن أحمد بن محمد، عن أبي يحيى الواسطي، عن بعض أصحابه، عن أبي الحسن الماضي (عليه السلام) قال: العورة عورتان: القبل والدبر، والدبر مستور بالاليتين (1) فإذا سترت القضيب والبيضتين فقد سترت العورة.

امام ابو الحسن فرماتے ہیں ۛ ڈھانپنے کے لائق جسم میں صرف دو حصے ہیں۔ قبل اور دبر۔ پھر دبر تو سرین کے درمیان خود ڈھکی ہوءی ہے۔ اس لئے جب تم نے قبل ﴿آلہ تناسل اور خصیتین﴾ کو ڈھانپ لیا تو ستر عورت کر لیا۔ 

وسائل الشیعہ ج ۲ ص ۳۴


محمد بن يحيى، عن محمد بن أحمد، عن عمر بن علي بن عمر بن يزيد، عن عمه محمد بن عمر، عن بعض من حدثه أن أبا جعفر عليه السلام كان يقول: من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يدخل الحمام إلا بمئزر، قال: فدخل ذات يوم الحمام فتنور فلما أن أطبقت النورة على بدنه ألقى المئزر فقال له مولى له: بأبي أنت وامي إنك لتوصينا بالمئزر ولزومه وقد ألقيته عن نفسك؟ فقال: أماعلمت أن النورة قد أطبقت العورة

امام باقر نے فرمایا جو شخص اللہ اور آخرت پر یقین رکھتا ہے وہ حمام میں کپڑا باندھے بغیر داخل نہ ہو۔ راوی کہتا ہے کہ ایک روز آپ حمام میں داخل ہوئے اپنے بدن پر چونا لگایا جب سارے بدن پر مل لیا تو چادر کمر سے اتار پھینک دی۔ غلام نے کہا قربان جاوں آپ ہمیں تاکید فرماتے تھے حمام میں کپڑا باندھے بغیر داخل نہ ہو۔ آپ نے اپنی چادر ہی اتار پھینک دی۔ فرمایا کہ تم نہیں جانتے کہ شرم گاہ کو چونا نے چھپا لیا ہے۔ ستر عورت تو ہو گیا۔ اب چادر کے تکلف کی کیا ضرورت رہ گئ۔

الکافی ،  باب الحمام

علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن ابن أبي عمير، عن غير واحد، عن أبي عبدالله (عليه السلام) قال: النظر إلى عورة من ليس بمسلم مثل نظرك إلى عورة الحمار

امام جعفر فرماتے ہیں کہ غیر مسلم کی شرم گاہ کو دیکھنا ایسا ہے جیسا گدہے کی شرمگاہ کو دیکھنا۔

فروع کافی ج ٦ ص ۵۰١


محمد بن يحيى، عن محمد بن أحمد، عن عمر بن علي بن عمر بن يزيد، عن عمه محمد بن عمر، عن بعض من حدثه أن أبا جعفر عليه السلام كان يقول: من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يدخل الحمام إلا بمئزر، قال: فدخل ذات يوم الحمام فتنور فلما أن أطبقت النورة على بدنه ألقى المئزر فقال له مولى له: بأبي أنت وامي إنك لتوصينا بالمئزر ولزومه وقد ألقيته عن نفسك؟ فقال: أماعلمت أن النورة قد أطبقت العورة


امام باقر ﴿ع﴾ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ حمام میں بغیر پائجامہ کے نہ داخل ہو پھر امام ممدوح ایک دن حمام میں گئے اور چونہ لگایا۔ جب چونہ لگ گیا تو پائجامہ اتار پھینک دیا۔ ان کے ایک غلام نے ان سے کہا کہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ، آپ ہم کو پائجامہ پہننے کی تاکید کرتے ہیں مگر خود آپ نے اتارا ڈالا۔ تو امام نے فرمایا کہ کیا تم نہیں جانتے کہ چونہ نے ستر کو چھپا لیا۔

الکافی،  باب الحمام

 

 

Link to comment
Share on other sites



ثم كان محمد بن علي أبا جعفر وكانت الشيعة قبل أن يكون أبوجعفر وهو لايعرفون مناسك حجهم وحلالهم وحرامهم حتى كان أبوجعفر ففتح لهم وبين لهم مناسك حجهم وحلالهم وحرامهم 

پھر امام باقر آئے۔ ان سے پہلے تو شیعہ مناسک حج اور حلال و حرام سے بھی واقف نہ تھے۔ یہاں تک کہ امام باقر آئے اور ان کے لئے حج کے مناسک اور حلال و حرام میں تمیز کا دروازہ کھولا

الکافی باب دعائم الاسلام


فنزل جبرئيل عليه السلام (3) وقال: أقرأ يا محمد، قال: وما أقرأ ؟ قال أقرأ: " ألم نشرح لك صدرك * ووضعنا عنك وزرك * الذي أنقض ظهرك * ورفعنا لك ذكرك (4)، بعلي صهرك ؟ فقال: فقرأها صلى الله عليه وآله وأثبتها ابن مسعود في مصحفه فأسقطها عثمان


مقداد بن اسود سے مروی ہے کہ جبرئیل (ع) نے فرمایا : پڑھ اے محمدﷺ  ، انہوں نے کہا : کیا پڑھوں؟ فرمایا : پڑھ : کیا ہم نے آپ کی خاطر آپ کا سینہ  کشادہ نہیں فرما دیا اور ہم نے آپ کا  بار آپ سے اتار دیا جو آپ کی پشت پر گراں ہو رہا تھا اور ہم نے آپ ﷺ کا ذکر بلند کیا علی کی وجہ سے ، جو کہ آپ کا داماد ہے۔ پھر (مقداد بن اسود نے) فرمایا ، آنحضرت ﷺ اسے یوں ہی پڑھتے تھے، اور ابن مسعود کے مصحف میں ایسا ہی تھا، پھر حضرت عثمان نے اسے ہٹا دیا۔

بحار الانوار ج ۳۶ ص ۱۱۶
 

 

post-15058-0-43502700-1381686276_thumb.png

 

Link to comment
Share on other sites

 
ہم اس خدا کی پرستش کرتے ہیں جس کے کام پختہ عقل پرمبنی هوں اور عقل کے خلاف فیصلے نہ کرے ہم ایسے خدا کو نہیں مانتے جو خداپرستی انصاف اور دین داری کی ایک مضبوط وبلند عمارت بنائے اور خود ہی اپنے ہاتهہ سے اس کو برباد کردے اور یزید ، معاویہ ، اور عثمان اور ان جیسے بدمعاش لوگوں کو امیر بنادے
 

 

post-15058-0-66987100-1381687159_thumb.jpg

 

 

 


ملا باقر مجلسی المجوسی اپنی کتاب ’’روضۃ المتقین‘‘ میں بکتا ہے
معاویہ (رض)  اور عائشہ (رض) دین سے خارج ہیں، اور وہ ہرگز مسلمانوں میں سے نہیں ہیں، اور یہ انکار انکے کفر کے اسباب میں سے ہے۔
روضۃ المتقین ج ۲ ص ۲۱۸

 

 

 

post-15058-0-43342900-1381687170_thumb.jpg

Link to comment
Share on other sites

جزاک اللہ

اِ ن کے لیئے کم سے کم لفظ میں یہی استعمال کر سکتا ہوں کہ  " یہ خبیث یہودیوں کی ہی دوسری قسم یا نسل ہیں" اللہ تعالیٰ اِ ن مردُودوں کے شرّ سے سب مسلمانوں کو محفوظ رکھے - آمین

 

 

 

Link to comment
Share on other sites

 
سید حسن ابطحی ، اہلِ تشیع کا آیت اللہ، اپنی کتاب ’’انوار الزہرا‘‘ میں لکھتا ہے کہ ’’حضرت فاطمہ رضي الله عنها کو سجدے کرنا واجب ہے اور سجدوں میں سو مرتبہ ( يا مولاتي يا فاطمة أغيثيني ) پڑهنا واجب ہے‘‘
انوار الزہرا ، ص ۴۵
 
 
post-15058-0-96961900-1381766285_thumb.jpg
 
 
 


ملا مجلسی اپنی کتاب بحار الانوار میں لکھتا ہے کہ 
امام علی بن حسین سے حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) کے متعلق پوچھا گیا ، تو فرمایا کہ وہ دو کافر ہیں، اور جو ان سے محبت رکھے ، وہ بھی کافر ہے۔
بحار الانوار ج ۲۸ ص ۱۹۹

 

post-15058-0-41182300-1381766323_thumb.jpg

 

 

 

محمد طاہر بن محمد حسین القُمی ملعون اپنی کتاب  ’’الأربعين في إمامة الأئمة الطاهرين‘‘  میں لکهتا ہے کہ 
عائشہ (رضی اللہ عنہا)  كافرة ہے اور جہنم کی آگ کے مستحق ہے۔


الأربعين في إمامة الأئمة الطاهرين ص615 

 

 

post-15058-0-40116700-1381766365_thumb.jpg

Link to comment
Share on other sites

post-15058-0-79586200-1381778112_thumb.jpg

 

 
ائمہ میں سے جو کسی ایک کا انکار کر دے، تو اس کی غیبت کرنا جائز ہے۔ اس کی  کئ وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ ؛ مخالفین ﴿یعنی سنیوں﴾ پر لعن طعن کرنا، ان سے برات کا اظہار کرنا، ان پر کثرت سے سب و شتم کرنا، ان پر تہمتیں باندھنا، اور ان کی غیبت کرنا روایات سے ثابت ہے کیونکہ وہ اہل البدع والریب میں سے ہیں۔  بلکہ ان کے کفر میں کوئ شک و شبہ نہیں۔

 

 

post-15058-0-33318200-1381778142_thumb.png

 

 


سید حسین شہرودی فرماتے ہیں

وقد دلّت الرواية الصحيحة على التخصيص فان الافتراء على المبتدع ليس حراماً لمصلحة أهم، فان الشارع يريد ان يبتعد الناس عنه وعن أفكاره المنحرفة بأي صورة ممكنة.


صحیح روایت اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ بدعتیوں پر افتراء باندھنا حرام نہیں ہے کیونکہ اس میں ایک بہت اہم مصلحت ہے۔ کیونکہ شارع یہ چاہتا ہے کہ لوگ اس ﴿بدعتی﴾ سے اور اس کے منحرف افکار سے دور رہیں ، چاہے کسی صورت میں ہو۔
 

 

Link to comment
Share on other sites

post-15058-0-75111700-1381778471_thumb.png

 

 


در كتاب علل الشرايع و بشاره المصطفى و مناقب به سندهاى معتبر از ابو ذر و ابن عباس روايت كرده‏اند كه: چون جعفر طيار در حبشه بود، براى او كنيزى به هديه فرستادند و قيمت او چهار هزار درهم بود، چون جعفر به مدينه آمد آن كنيزك را براى برادر خود امير المومنين عليه السلام به هديه فرستاد، و آن كنيزك خدمت آن حضرت را مى‏كرد، روزى حضرت فاطمه عليها السلام به خانه در آمد ديد سر على عليه السلام در دامن آن كنيزك است، چون آن حالت را ملاحظه نمود متغير گرديد پرسيد: آيا كارى كردى با او؟ حضرت امير فرمودند: نه به خدا سوگند اى دختر محمد كارى نكردم، الحال آنچه مى‏خواهى بگو تا بجا آورم. گفت: مى‏خواهم مرا رخصت دهى كه به خانه پدرم روم، حضرت امير فرمود : رخصت دادم، پس فاطمه چادر بر سر كرد و برقع افكند و متوجه خانه پدر بزرگوار خود گرديد. پيش از آنكه فاطمه به خدمت حضرت برسد، جبرييل از جانب خداوند جليل بر او نازل شد و گفت: حق تعالى تو را سلام مى‏رساند و مى‏فرمايد: اينك فاطمه به نزد تو مى‏آيد براى شكايت على، از او در باب على چيزى قبول مكن. چون فاطمه عليها السلام داخل شد، حضرت رسول صلى الله عليه و آله و سلم فرمود كه: به شكايت على آمده‏اى؟ گفت: بلى به رب كعبه، پس فرمود: برگرد بسوى على و بگو: به رغم انف خود راضيم به آنچه كنى، پس برگشت به خدمت على عليه السلام و سه مرتبه گفت: به رغم انف خود راضيم به آنچه رضاى تو در آن است

علل الشرائع اوربشارہ  مصطفٰی  اور مناقب میں حضرت ابو ذر اور حضرت ابن عباس سے بسند معتبر مروی ہے کہ جب جعفر  طیار حبشہ میں تھے، وہاں  ان  کو ایک کنیز  ھدیہ میں دی گئ جس کی قیمت چار ہزار درہم تھی۔ جب جعفر مدینہ واپس آئے تو انہوں نے وہ کنیز علی بن ابی طالب کو ہدیہ کر  دیاکہ خدمت کرے گی۔  ایک دن حضرت فاطمہ آئیں تو دیکھا کہ اس کی گود میں حضرت علی کا سر ہے۔  جب آپ نے یہ دیکھا تو رنجیدہ ہوئیں اور  کہا اے ابو الحسن آپ نے اس سے کچھ کیا؟ انہوں نے کہا کہ اے بنت محمد۔ خدا کی قسم کچھ بھی نہیں کیا تم کیا چاہتی ہو؟ انہوں نے کہا کہ مجھے اجازت دیں کہ میں اپنے باپ کے گھر جاؤں۔ آپ نے کہا جاؤ۔ میری طرف سے اجازت ہے۔ حضرت فاطمہ نے اپنی چادر سر پر ڈالی اور برقعہ پہنا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چلیں۔ ادھر حضرت  جبرئیل نازل ہوئے اور کہا کہ اللہ تعالٰی آپ کو سلام کہتا ہے اور آپ سے یہ کہتا ہے کہ فاطمہ آپ کے پاس علی کی شکایت لے کر آ رہی ہیں۔ آپ علی کے متعلق ان کی کوئ شکایت   تسلیم نہ کریں۔ اتنے میں حضرت فاطمہ پہنچ گئیں۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  کہ تم علی کی شکایت لے کر میرے پاس آئ ہو؟ انہوں نے کہا ہاں رب کعبہ کی قسم۔ آپ نے فرمایا واپس جاؤ اور ان سے کہو کہ آپ کی خوشی کے لئے مجھے یہ ننگ و عار قبول ہے۔ پس حضرت فاطمہ واپس آئیں اورتین بار  کہا کہ اے ابو الحسن آپ کی خوشی کے لئے مجھے یہ ننگ و عار قبول ہے۔ 

جلاء العیون ، ص ۲۳۰، فصل ششم

 

 

Link to comment
Share on other sites

 

پس وصیت فرمود ای خواهر گرامی ترا سوگند میدهم کر چون من از تیغ اهل جفا بعالم بقا رحلت نمایم گریبان چاک مکنید و رو مخراشید و واویلاه مگریید. (ملاباقر مجلسی متوفی 1110هـ, جلاءالعیون ج 2 ص553 مطبوعه کتاب فروشی اسلامیه تهران 1398 هـ)

 

پس دیگر بار اهل بیت رسالت و پردگیان سرادق عصمت و طهارت را وداع نمود و ایشان را بصبر و شکیبای امر فرمود و بعده مثوبات غیر متناهی الهی تسکین داد و فرمود که چادر ها بر سر گیرید و آمادهء لشکر مصیبت بلا گردید و بدانید که حق تعالی حافظ و حامی شما است و شمارا از شر اعدا نجات میدهد و عاقبت شمارا بخیر میگرداند و دشمنان شمارا بانواع بلاها مبتلا می سازد و شمار را به عوض این بلاها دردنیا و عقبی بانواع نعمتها و کرامتها می نوازد دست از شکیبای بر مدارید و کلام ناخوشی بر زبان مدارید که موجب نقص ثواب شما گردد.(ملا باقر مجلسی متوفی 1110 هـ ,جلاءالعیون ج 2 ص 576, مطبوعه کتاب فروشی اسلامیه تهران,1398 هـ)

 

پس سکینه دختر آن حضرت چادر از سر کشید و گفت ای پدر بزرگوار تن به مرگ داده و مارا به کی میگذاری آن امام مظلوم گریست و فرمود ای نوردیده من هر که یاوری ندارد یقین مرگ را بر خود قرار میدهد ای دختر یاور هرکس خدا است و رحمت خدا دردنیا و عقبی از شما جدا نخواهد شد صبر کنید بر قضاهای خدا شکیبای ورزید که بزودی دنیا فانی منقضی میگردد و نعیم ابدی آخرت زوال ندارد (ملا باقر مجلسی متوفی 1110 هـ,جلا العیون ج2 ص 575,مطبوه کتاب فروشی اسلامیه تهران, 1398 هـ)

 

 

و فرمود که ای خواهر باجان برابر, حلم و بردباری پیشه خود کن وشیطان را بر خود تسلط مده و بر قضای حق تعالی صبر کن و فرمود که اگر می گذاشتند مرا با استراحت خود را بلکه نمی افکندم زینب خاتون گفت این بیشتر دل مارا مجروح می گرداند که راه چاره از تو منقطع گردیده و بضرورت شربت ناگوار مرگ را مینوشی و مارا غریب و بیکس و تنها درمیان اهل نفاق و شقاق می گذاری پس دستهای خودرا بلند کرد و گلگونه خود را خراشید و مقتع را از سر کشید و گریبان طاقت چاک کرد و بی هوش افتاد آن امام غریب برخواست و آب بر روی خواهر گرامی خود پاشید چون بهوش باز آمد گفت ای خواهر نیک اختر از خدا بترس و مقضای حق تعالی راضی شود بدانکه همه اهل زمین شربت ناگوار مرگ را می چشند و اهل آسان باقی نمی مانند و بجز ذات مقدس حق تعالی همه چیز در معرض زوال وفناست او همه را مییراند و بعد از مردن مبعوث می گرداند و او منفرد اس در بقا و برادر و مادر من شهید شدند وهمه از من بهتر بودند و حضرت رسول خدا (صلی الله علیه و اله و سلم) که اشرف خلایق بود در دنیا نماند و رحلت فرمود و بسیاری از این مواعظ پسندیده برای آن نوردیده بیان فرمود پس وصیت فرمود که ای خوهر گرامی ترا سوگند میدهم که چون من از تیغ اهل جفا بعالم بقا رحلت نمایم گریبان چاک مکنید و رو مخراشید و واویلا مگویید (ملا باقر مجلسی متوفی 110هـ ,جلاءالعیون ج2 ص 553, مطبوعه کتاب فروشی اسلامی تهران, 1398 هـ)

 

ابن بابونه به سند معتبر از امام محمد باقر روایت کرده است که حضرت رسول در هنگام وفات خود بحضرت فاطمه فرمود ای فاطمه چون بمیرم روی خود را برای من مخراش و گیسوی خود را پریشان مکن واویلاه مگو و نوحه گران را مطلب. (ملاباقر مجلسی متوفی 1110هـ, حیات القلوب ج 2 ص 687, مطبوعه کتاب فروشی اسلامی تهران ایران)

 

فرات بن ابراهیم بسند معتبر از جابر انصاری ورایت کرده است که رسول خدا در مرض آخر خود با حضرت فاطمه گفت(الی قوله) ای فاطمه برای پیغمبر گریبان نمی باید برید و روی نباید خراشید و واویلا نباید گفت و لیکن بگر آنچه پدر تو در وفات ابراهیم فرزند خود گفت که چشمان می گریند و دل بدردی اید. (ملا باقر مجلسی متوفی 110 هـ,حیات القلوب ج 4 ص687, مطبوعه کتاب فروشی اسلامی تهران ایران)

 

ام حکیم دختر حارث بن هشام که زن عکرمه پسر ابوجهل بود گفت یا رسول الله آن کدام معروفست که خدا گفته است معصیت تو در آن نکنیم حضرت فرمود در مصیبت طپانچه بر روی خود مزنید و روی خود را مخراشید و موی خود را مکیند و گریبان خود را چاک نکنید و جامه خود را سیاه مکنید وواویلا مگریید پس براین شرطها حضرت بایشان بیعت کرد. (ملا باقر مجلسی متوفی 1110 هـ , حیات القلوب ج2ص640,مطبوعه کتاب فروشی اسلامی تهران ایران)

 

روایت کرده است از امام محمد التقی که امیر المومنین فرمود روز من و فاطمه بخدمت خضرت رسول (ص)

رفتیم و آنحضرت بسیار میگریست عرض کردم پدرومادرم فدای تو باد یا رسول الله چه چیز سبب گریه تو شده است؟ فرمود یا علی شب که مرا به آسمان بردند چند زنی از امت خود را در عذاب شدید دیدم و گریه من برای اشانست (الی قوله) آنکه بصورت سگ بود و آتش درد برش می کردند خواننده و نوحه کنند و حسود بوده. (ملا باقر مجلسی متوفی 110هـ,حیات القلوب ج2ص293-292, مطبوعه کتاب فروشی اسلامی تهران ایران) 

 

پھردوسری بار اہل بیت رسالت اور خاندان اہل طہارت کو آپ نے الوداع کہا اور ان کو صبر اور ضبط کا حکم فرمایا اور اللہ تعالٰی کے غیر متناہی اجر و ثواب کے ساتھ تسلی دی اور فرمایا کہ اپنے سر پر چادر رکھو اور رنج و مصیبت کے لشکر کے لیے تیار ہو جاؤ ، اور جان لو کہ اللہ تعالٰی تمہارا حامی اور حافظ ہے۔ وہ تم کو دشمنوں کے شر سے نجات دے گا اور تمہاری آخرت اچھی کرے گا اور تمہارے دشمنوں کو مختلف بلاؤں میں مبتلا کرے گا اور تم کو ان مصیبتوں اور بلاؤں کے عوض آخرت میں عزت اور اجر سے نوازے گا۔ خبردار صبر کا دامن نہ چھوڑنا اور بے صبری کا کلام زبان پر نہ لانا ۔ اس سے تمہارے اجر و ثواب میں کمی ہوگی۔

 

 

پھر آپ کی صاحبزادی حضرت سکینہ نے دوپٹہ سر سے اتارا اور کہا ۔ اے ابا جان ، آپ مرنے کے لیے جارہے ہیں۔ مجھ کو کس پرچھوڑ کر جا رہے ہیں۔ امام مظلوم روئے اور فرمایا ، اے نور چشم جس کا مددگار نہیں ہوتا وہ بالیقین اپنے لیے موت سمجھ لیتا ہے۔ اے بیٹی ، ہر شخص کا خدا مددگار ہوتا ہے۔ دنیا اور آخرت میں اللہ تعالٰی کی رحمت تم سے جدا نہیں ہو گ ی۔ اللہ کی تقدیر پر راضی رہنا اور صبر کو اختیار کرنا، عنقریب دنیا فانی ختم ہو جائے گی اورآخرت کی ابدی نعمتوں کو زوال نہیں ہوگا۔

 

حضرت امام حسین نے حضرت زینب سے فرمایا ، اے میری بہن ، میری جان کے برابر، حلم و بردباری کو اختیار کریں اور اپنے اوپر شیطان کو قبضہ نہ دیں۔ اور اللہ تعالٰی کی تقدیر پر صبر کریں، اور فرمایا اگر یہ لوگ مجھ کو آرام سے رہنے دیتے تو میں ہلاکت کو اختیار نہ کرتا۔ حضرت زینب نے کہا اس بات سے تو ہمارا دل زخمی ہوتا ہے کہ آپ کے لیے اب کوئی چارہ کال نہیں ہے اور مجبوری کی وجہ سے ناپسندیدہ موت کا شربت پی رہے ہیں، اور ہم کو مخالفین اور منافقین کے درمیان بے یار و مددگار تنہا مسافرت میں چھوڑ کر جا رہے ہیں، حضرت زینب نے ہاتھ بلند کر کے رخسار نوچنا شروع کیا اور دوپٹہ سر سے اتار دیا ، گریبان چاک کیا اور بے ہوش ہو گئیں۔ امام نے اپنی بہن پر پانی چھڑکا اور ان کو ہوش میں لائے اور جب ہوش میں آگئٰں تو فرمایا ، اے بہن خدا سے ڈرو، اور اللہ تعالٰی کی تقدیر پر راضی ہو اور یہ جان لو کہ تمام زمین والوں نے ایک دن مرنا ہے اور آسمان والے بھی باقی نہیں رہیں گے ، سوا اللہ تعالٰی کے ہر چیز فنا ہے۔ وہ سب کو مارے گا اور مارنے کے بعد پھر زندہ کرے گا ، وہ باقی رہنے میں منفرد ہے ، یرے بھائی اور مان جو مجھ سے بہتر تھے وہ شہید ہو گئے اور رسول اللہ ﴿ص﴾ جو تمام مخلوق سے افضل تھے ، وہ بھی دنیا میں نہ رہے اور دار البقا کی طرف رحلت فرما گئے اور اپنی بہن کو بہت نصیحتیں کیں اور یہ وصیت کی کہ اے میری میزز بہن۔ میں آپ کو قسم دیتا ہوں کہ جب میں اہل جفا کی تلوار سے عالم بقا میںرحلت کر جاؤں تو گریبان چاک نہ کرنا چہرے پر خراشیں نہ ڈالنا اور واویلا نہ کرنا۔

 

 

ابن بابویہ نے سند معتبر کے ساتھ امام محمد باقر سے روایت کیا ہے کہ حضرت رسول اللہ ﴿ص﴾ نے اپنی وفات کے وقت حضرت فاطمہ سے فرمایا ، اے فاطمہ جب میں وفات پا جاؤں تو میرے لیے اپنے چہرے کو نہ چھیلنا، اپنے بالوں کو نہ بکھیرنا اور واویلا نہ کہنا، اور نوحہ والوں کو نہ بلانا۔ 

 

فرات بن ابراہیم نے سند معتبر کے ساتھ جابر انصاری سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﴿ص﴾ نے اپنے آخری مرض میں حضرت فاطمہ سے فرمایا ، اے فاطمہ جان لو کہ پیغمبر کے لیے گریبان پھاڑنا نہیں چاہیے ، اور چہرہ نہیں چھیلنا چاہیے اور واویلا نہیں کہنا چاہیے ، لیکن وہ جو تمہارے والد نے اپنے فرزند ابراہیم کی وفات کے موقعہ پر کہا تھا کہ آنکھیں رو رہی ہیں اور دل میں درد ہے۔

 

عکرمہ بن ابوجہل کی زوجہ ام حکیم بنت ہارث بن ہشام نے پوچھا ، یا رسول اللہ وہ کون سی نیکی ہے جس کے متعلق اللہ نے یہ کہا ہے کہ ہم اس میں آپ کی نافرمانی نہ کریں۔ حضرت نے فرمایا ، مصیبت میں اپنے چہرے پر طمانچے نہ مارو، چہرے کو نہ چھیلو، اپنے بال نہ نوچو، اپنے گریبان کو چاک نہ کرو۔ اپنے کپڑوں کو سیاہ نہ کرو، واویلا نہ کرو، پس ان شرطوں پر آپ نے ان عورتوں سے بیعت لے لی۔

 

امام محمد تقی سے روایت ہے کہ امیر المومنین نے فرمایا کہ ایک روز میں اور فاطمہ حضرت رسول اللہ ﴿ص﴾ کی خدمت میں گئے اور آنحضرت ﴿ص﴾ بہت رو رہے تھے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﴿ص﴾، میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ، آپ کے اس رونے کا سبب کیا ہے؟ آپ نے فرمایا اے علی، جس رات مجھے آسمان پر لے گئے میں نے اپنی امت کی چند عورتوں کو شدید عذاب میں مبتلا دیکھا اور میرا رونا انہی کی وجہ سے ہے۔ ﴿پھر آپ نے ان عورتوں کے بیان میں فرمایا﴾ جو عورت کتے کی صورت میں تھی ، اور اس کی دبر میں آگ ڈال رہے تھے، وہ چلانے والی ، نوحہ کرنے والی اور حسد کرنے والی تھی۔

Link to comment
Share on other sites

 

 

قال أبو الحسن الثالث عليه السلام: المصيبة للصابر واحدة، وللجازع اثنتان

 

امام علی النقی فرماتے ہیں کہ صبر كرنے والے كے لئے ایك مصیبت اور جزع و فزع كرنے والے كے لئے دوہری مصیبت ہے

 

بحار الأنوار - العلامة المجلسي - ج ٧٩ - الصفحة ٨٨

 

 

 

عزّى أمير المؤمنين عليه السلام الأشعث بن قيس على ابنه، فقال: إن تحزن فقد استحقَّ ذلك منك الرحم، وإن تصبر ففي الله خلفك من ابنك، وإن صبرت جرى عليك القدر وأنتَ مأجورٌ، وإن جزعت جرى عليك القدر وأنتَ مأثومٌ

Ameer al-Momineen (a.s) expressed his condolences to Ashath ibn Ghays who had lost his son, and said: "If you grieve for your child, it is fine, but if you are patient God will give you a reward in return for your son. If you are patient, divine destiny will happen and you will get rewarded, but if you mourn divine destiny will happen anyway, but you have committed a sin."

 

Mishkat al anwar , p. 692

 

 

 

عن أبي عبد الله عليه السلام قال: مَن أنعم الله عليه بنعمةٍ فجاء عند تلك النعمة بمِزمارٍ فقد كَفَرَها، ومَن أُصيب بُمصيبةٍ فجاء عند تلك المُصيبة بنائحةٍ فقد فجعها

Imam Sadiq (a.s) said: "Whoever is given divine blessings but uses them to engage in having fun has not been grateful for God's blessings. Whoever is stricken by a calamity, and cries out a lot only increases his own sorrow."

 

Mishkat al anwar, p. 813

 

 

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...