Jump to content

Gous E Azam Ka Hazrat Izrail Sai Rouh Chinana


Rashid Usman

تجویز کردہ جواب

اگرچہ مذکورہ کتاب اور اس کے مصنف کے بارے میں تو مجھے علم نہیں لیکن اس روایت سے متعلق چند گزارشات پیش کر دیتا ہوں، امید ہے آپ انہیں مفید پائیں گے۔


 


کتاب "تفریح الخاطر فی مناقب الشیخ عبدالقادر" از سید عبدالقادر اربلی میں اس سے ملتی جلتی ایک روایت ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے:


"شیخ ابوالعباس احمد رفاعی سے روایت ہے کہ سیدنا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کا ایک خادم فوت ہو گیا۔ اس کی بیوی آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی اور آہ و زاری کرنے لگی اور اپنے خاوند کے زندہ ہونے کی التجاء کی۔ سیدنا غوث اعظم علیہ الرحمہ نے مراقبہ کیا اور علم باطن سے آپ نے دیکھا کہ ملک الموت نے اس دن جتنی ارواح قبض کی تھیں وہ ان کو آسمان کی طرف لے جا رہے ہیں۔ آپ نے ملک الموت کو ٹھہرنے کا حکم دیاکہ میرے فلاں خادم کی روح واپس کر دو تو ملک الموت نے جواب دیا کہ میں نے تمام ارواح کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے قبض کیا ہے اور رب ذوالجلال کی بارگاہ میں پیش کرنی ہیں، تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں آپ کے خادم کی روح کو واپس کر دوں جس کو میں بحکم الٰہی قبض کر چکا ہوں۔ تب آپ نے دوبارہ کہا مگر ملک الموت نہ مانے۔ ان کے ہاتھ میں ٹوکری تھی جس میں تمام روحیں ڈالی ہوئی تھیں جو اس دن قبض کی تھیں۔ پس آپ نے قوت محبوبیت سے ٹوکری ان سے چھین لی اور تمام روحیں نکل کر اپنے اپنے جسموں میں چلی گئیں۔ ملک الموت نے بارگاہ رب العزت میں شکایت کی اور عرض کیا کہ مولیٰ کریم تو جانتا ہے جو میرے اور عبدالقادر کے درمیان تکرار ہوئی کہ اس نے آج مجھ سے تمام ارواح جو قبض کی تھیں چھین لی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا  اے ملک الموت بیشک عبدالقادر میرا محبوب ہے، تو نے اس کے خادم کی روح کو واپس کیوں نہ کیا۔ اگر ایک روح واپس کر دیتے تو  اتنی روحیں اپنے ہاتھ سے دیتے نہ پریشان ہوتے"۔


 


اس کے بعد ملاحظہ کیجئے کہ فتاویٰ رضویہ طبع جدید کی جلد ۲۸ صفحہ ۴۱۴ پر ایک سوال اس طرح سے  ہے:


"تیسرے یہ کہ زنبیل ارواح کی عزرائیل علیہ السلام سے حضرت پیران پیر نے ناراض اورغصہ میں ہوکر چھین لی تھی"۔


 


اس سوال کے جواب میں اعلٰیحضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:


"زنبیل ارواح چھین لینا خرافات مخترعہ جہّال سے ہے ۔سیدنا عزرائیل علیہ الصلوٰۃ والسلام رسل ملائکہ سے ہیں اوررسل ملائکہ ، اولیاء بشر سے بالاجماع افضل۔ تو مسلمانوں کو ایسے اباطیل واہیہ سے احترام لازم۔  واللہ الہادی الٰی سبیل الرشاد"۔


 


مزید فتاویٰ رضویہ جلد ۲۹ کے صفحہ ۶۲۹ پر ایک سوال ان الفاظ میں ہے:


"دوسرے یہ کہ حضرت کے ایک مرید کا انتقال ہوگیا،  موتٰی کا لڑکا حضرت کی خدمت میں حاضر ہوا اور حضرت سے عرض کیا کہ میرے والد کا انتقال ہوگیا۔ اس پر لڑکا زیادہ رویا پیٹا اور اُڑ گیا۔ تو آپ کو رحم آیا آپ نے وعدہ فرمایا اور لڑکے کی تسکین کی۔ بعدہ حضرت عزرائیل علیہ السلام کو مراقب ہو کر روکا،  جب حضرت عزرائیل علیہ السلام رکے آپ نے دریافت کیا کہ ہمارے مرید کی روح تم نے قبض کی ہے؟ جواب دیا کہ ہاں آپ نے فرمایا۔ روح ہمارے مرید کی چھوڑ دو  عزرائیل علیہ السلام نے کہا کہ میں نے بحکم رب العالمین رُوح قبض کی ہے ۔ بغیر حکم نہیں چھوڑ سکتا۔ اس پر جھگڑا ہوا۔ آپ نے تھپڑ مارا،  حضرت کے تھپڑ سے عزرائیل علیہ السلام کی ایک آنکھ نکل پڑی اورآپ نے ان سے زنبیل چھین کر اس روز کی تمام رُوحیں جو کہ قبض کی تھیں چھوڑ دیں۔ اس پر حضرت عزرائیل علیہ السلام نے رب العالمین سے عرض کیا وہاں سے حکم ہوا کہ ہمارے محبوب نے ایک رُوح چھوڑنے کو کہاتھا تم نے کیوں نہیں چھوڑ ی ہم کو ان کی خاطر منظور ہے اگر انہوں نے تمام روحیں چھوڑدیں تو کچھ مضائقہ نہیں"۔


 


اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فاضل بریلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:


"اور دوسری روایت ابلیس کی گھڑی ہوئی ہے اور اُس کا پڑھنا اور سُننا دونوں حرام ۔ احمق،  جاہل بے ادب نے یہ جانا کہ وہ اس میں حضور سیدنا غوث اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کی تعظیم کرتا ہے حالانکہ وہ حضور کی سخت توہین کررہا ہے،  کسی عالم مسلمان کی اس سے زیادہ توہین کیا ہوگی کہ معاذ اﷲ اُسے کفر کی طرف نسبت کیا جائے نہ کہ محبوبانِ الہٰی سیدنا عزرائیل علیہ السلام مرسلین ملائکہ میں سے ہیں اور مرسلین ملائکہ بالاجماع تمام غیر انبیاء سے افضل ہیں کسی رسول کے ساتھ ایسی حرکت کرنا توہین رسول کے سبب معاذ اﷲ اس کے لیے باعثِ کفر ہے،  اﷲ تعالٰی جہالت و ضلالت سے پناہ دے۔ واﷲ تعالٰی اعلم"۔


 


مندرجہ بالا تصریحات سے ایک بات بالکل واضح ہو گئی کہ یہ روایت من گھڑت ہے۔ اگرچہ تفریح الخاطر معروف کتاب ہے، لیکن محض ایسی کسی کتاب میں نقل ہونا کسی روایت کے درست ہونے کی دلیل نہیں، کہ بعض کتب میں رطب و یابس سب جمع ہو جاتا ہے۔ لہذا "رموز درویش" نامی کسی غیر معروف کتاب میں ایسی روایت کا پایا جانا نہ تو اس کی صحت کی قطعی دلیل ہو سکتا ہے، اور نہ ہمارے خلاف حجت، جبکہ اس روایت کو حضرت بریلوی علیہ الرحمہ صراحتاً باطل قرار دیں اور اس کے بطلان کی علت بھی بیان فرما دیں۔ بلکہ اس روایت کی شناعت تو فتاویٰ رضویہ میں مذکور روایات سے بھی بڑھ کر ہے  کہ اس کے آخر میں یہ الفاظ اضافی ہیں کہ "پھر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ شکر کرو انہوں نے تمہیں یہ نہیں کہہ دیا کہ دوبارہ دنیا میں نہ آنا۔ اگر وہ ایسا کہہ دیتے تو پھر تم دوبارہ کبھی بھی دنیا میں نہ جا سکتے"۔ العیاذ باللہ تعالیٰ۔ 


Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...