Jump to content

اصول دین اور تفھیم بدعت


Aabid inayat

تجویز کردہ جواب

اصول دین اور تفھیم بدعت
دین میں حقیقی اضافہ کو " بدعت ضلالہ " کہتے ہیں جبکہ ہمارے نزدیک دین اسلام ایک عالمگیر دین ہے اور یہی وجہ ہے کہ دین اسلام ہرمسئلہ کا حل دیتا ہے اور وہ حل ہمیں قرآن و سنت اور اس کے وضع کردہ اصولوں کی بنیاد پر کہیں تفصیلا اور کہیں اجمالا ملتا ہے۔ اس (حل) کے لیے فقط یہی ضروری نہیں کہ مذکورہ مسئلہ زمانہ نبوی میں بعینہ پیش آیا ہو اور اس کا اسی طرح ذکر سنت آثار میں مذکورہو۔
بلکہ ہم یہ دیکھیں گے کونسا نیا مسئلہ در پیش ہے اگراس نئے مسئلہ کی کوئی نظیرہمیں زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ملتی ہے تو اسکا حل وہاں سے اخذ کریں گے اور اگر وہ مسئلہ اپنی ہیئت و کیفیت و ترکیب کے اعتبار سے زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مذکور نہیں ملتا تو پھر ہم اسے دین اسلام کے پیش کردہ مسلمہ اصولوں یعنی قرآن و سنت اور پھر اسکی اتباع میں اجتھاد سے کام لیتے ہوئے اجماع و قیاس پر اس مسئلہ کو پیش کریں گے اور پھر اس کا جو بھی حل نکلا وہ اپنی ہیئت کے اعتبار سے توبالیقین نیا ہوگا مگر اصول شرع سے متصادم نہ ہونے اعتبار سے بلکہ شرعی اصولوں کی پاسداری اور ان کا حق روا رکھتے ہوئے اپنے دریافتی حل کے اعتبار سے وہ دین میں اضافہ ہرگز نہیں بلکہ عین دین میں سے ہی ہوگا کیونکہ اس پر عمل کی صورت دین ہی کے ان اصولوں پر چل کر نکلی جو کہ مسلمات دین میں سے ہیں ۔حقیقی اضافہ سے مراد " دین کی حقیقت " میں اضافہ ہے اور دین نام ہے بنیادی طور پرعقائد کا اور اس کے دو بڑے ماخذ اور اصول ہیں یعنی قرآن و سنت پھر اس کے تابع دیگر اصول ہیں یعنی اجماع و قیاس کہ جن سب کو نظر میں رکھتے ہوئے ایک مجتھد اجتھاد کرتا ہے اور کسی نئے پیش آمدہ مسئلہ کاحل انہی اصولوں پر چل کر دریافت کرتا ہے لہذا حقیقی اضافہ دین میں ایسی چیز کہلائے گی جو کہ نہ تو دین کے اصول و مبادی میں سے ہوگی اور نہ ہی اصول و مبادی کی ریاعت کرتے ہوئے اسے وضع کیا گیا ہوگا بلکہ اس کے برعکس وہ شئے ان اصول اورمبادی سے ٹکراتی ہوگی ۔اسے آپ درج ذیل حدیث سے سمجھ سکتے ہیں ۔
حضرت عائشہ فرماتیں ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد ۔ البخاری والمسلم

یعنی جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی بات پیدا کرے جو اس میں﴿یعنی دین میں سے ﴾ نہ ہو تو وہ رد ہے ۔
اس حدیث میں لفظ "احدث اور ما لیس منہ " قابل غور ہیں عرف عام میں احدث کا معنی دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کرنا ہے اور لفظ "ما لیس منہ احدث " کے مفہوم کی وضاحت کر رہا ہے کہ احدث سے مراد ایسی نئی چیز ہوگی جو اس دین میں سے نہ ہو حدیث کے اس مفہوم سے ذہن میں ایک سوال ابھرتا ہے کہ
اگر احدث سے مراد دین میں کوئی نئی چیز پیدا کرنا ہے تو پھر جب، ایک چیز نئی ہی پیدا ہورہی ہے تو پھر
" ما لیس منہ " کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی ؟ کیونکہ اگر وہ اس( یعنی دین ) میں سے ہی تھی ﴿یعنی پہلے سے ہی دین کا حصہ تھی یا دین میں شامل تھی ﴾تو پھراسے (احدث ) یعنی نیا کہنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔
اور جس کو نئی چیز کہہ دیا تو لفظ " احدث" ذکر کرنے کے بعد " ما لیس منہ " کے اضافے کی ضرورت نہیں رہتی ۔ مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی چیز پہلے سے ہی " ما لیس منہ " ﴿یعنی دین ہی میں سے ﴾ ہے تو وہ نئی یعنی
"محدثہ " نہ رہی ۔ کیونکہ وہ تو پہلے سے ہی دین میں تھی اور دین تو وہ ہے جو کمپلیٹ ہوچکا جیسا کے اکثر احباب اس موقع پر " الیوم اکملت لکم دینکم " کی آیت کا حوالہ دیتے ہیں۔ جبکہ اگر کوئی چیز فی الحقیقت نئی ہی ہے تو پھر " ما لیس منہ " کی قید لگانے کی کیا ضرورت تھی؟ کیونکہ نئی چیز تو کہتے ہی اسے ہیں کہ جس کا وجود پہلے سے نہ ہو جبکہ جو پہلے سے دین میں ہو تو پھر لفظ " احدث " چہ معنی دارد؟
اس مغالطہ کا اصل جواب یہ ہے کہ " من احدث فی امرنا ھذا مالیس منہ فھو رد " میں "فھو رد " کا اطلاق نہ محض "مالیس منہ " پر ہوتا ہے اور نہ فقط "احدث " پر، بلکہ اس کا صحیح اور درست اطلاق اس صورت میں ہوگا جب یہ دونوں چیزیں جمع ہوں گی یعنی " احدث اور مالیس منہ " یعنی مردود فقط وہی عمل ہوگا جو کہ ظاہرا نیا بھی ہو اورحقیقی اعتبار سے اسکی کوئی سابق مثال بھی شریعت میں نہ ملتی ہو یا پھر اس کی دین میں کسی جہت سے بھی کوئی دلیل نہ بنتی ہو اور کسی جہت سے دین کا اس سے کوئی تعلق نظر نہ آتا ہو پس ثابت ہوا کہ کسی بھی محدثہ کے بدعت ضلالة ہونے کا ضابطہ دو شرائط کے ساتھ خاص ہے ایک یہ کہ دین میں اس کی کوئی اصل ، مثال یا دلیل موجود نہ ہو اور دوسرا یہ کہ وہ محدثہ نہ صرف دین کے مخالف و متضاد ہو بلکہ دین کی نفی کرنے والی ہو یعنی حقیقتا دین میں اضافہ کا باعث ہو۔ لیکن اس سب کہ برعکس جب کوئی محدثہ محض صورۃ " احدث " ہویعنی نیا ہو یعنی اس کی ہیئت کذائیہ و ترکیب یا ظاہری صورت و شکل نئی ہو مگر اس کا وجود حقیقی کسی نہ کسی اعتبار سے مثال سابق دین میں یا پھر دین ہی کہ کسی اصول کے تحت دریافت کیا گیا ہوتو وہ چیز اپنی وضع میں تو نئی یعنی بدعت ہوگئی مگر دین میں اصلا یا حقیقی اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے بدعت ضلالہ نہ ہوگی بلکہ " ما لیس منہ " ہی کی قید کہ تحت دین کا ہی حصہ تصور کی جائے گی کیونکہ ا س پرعمل پیرا ہونے کی صورت دین ہی کہ اصول و مبادی پر اجتھاد کرنے کہ بعد پیدا ہوئی ۔ اس حدیث میں جو لفظ ما لیس منہ اور احدث ایک ساتھ آئے ہیں اسی کی تشریح کہ بطور ہم نے لفظ " حقیقی اضافہ " کو انکے متبادل کہ طور پر استعمال کیا ۔

 

والسلام

 

Edited by Aabid inayat
Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...