Jump to content

قیامت کا علم صرف اللہ تعالی کو ہے۔ قیامت کا علم ہرنبی،رسول،ولی،مقرب فرشتوں سے پوشیدہ رکھا گیا ہے۔


Maham Ansari

تجویز کردہ جواب

(bis) 

 

 دلیل نمبر1
1-surah inaam 59


وَعِندَهُ ۥ مَفَاتِحُ ٱلۡغَيۡبِ لَا يَعۡلَمُهَآ إِلَّا هُوَ‌ۚ وَيَعۡلَمُ مَا فِى ٱلۡبَرِّ وَٱلۡبَحۡرِ‌ۚ وَمَا تَسۡقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلَّا يَعۡلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ۬ فِى ظُلُمَـٰتِ ٱلۡأَرۡضِ وَلَا رَطۡبٍ۬ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِى كِتَـٰبٍ۬ مُّبِين

اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کےسوا کوئی نہیں جانتا جو کچھ جنگل اور دریا میں ہے وہ سب جانتا ہے اور کوئی پتّہ نہیں گرتا مگر وہ اسے بھی جانتاہے اور کوئی دانہ زمین کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور خشک چیز ہے مگر یہ سب کچھ کتاب روشن میں ہیں

2-Surah e Luqman 34.
إِنَّ ٱللَّهَ عِندَهُ ۥ عِلۡمُ ٱلسَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ ٱلۡغَيۡثَ وَيَعۡلَمُ مَا فِى ٱلۡأَرۡحَامِ‌ۖ وَمَا تَدۡرِى نَفۡسٌ۬ مَّاذَا تَڪۡسِبُ غَدً۬ا‌ۖ وَمَا تَدۡرِى نَفۡسُۢ بِأَىِّ أَرۡضٍ۬ تَمُوتُ‌ۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرُۢ

بے شک الله ہی کو قیامت کی خبر ہے اور وہی مینہ برساتا ہے اور وہی جانتا ہے جو کچھ ماؤں کے پیٹوں میں ہوتا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا کرے گا اور کوئی نہیں جانتا کہ کس زمین پر مرے گا بے شک الله جاننے والا خبردار ہے

یعنی علمِ قیامت "مفاتح الغیب " میں سے ہے اور اسے اللہ کے سوا اسکا علم کسی کے پاس نہیں ہاں اللہ نے جتنا بتا دیا ہے قیامت کے بارے میں جیسے قیامت کی نشانیاں وغیرہ۔۔۔

 

Link to comment
Share on other sites

 

(bis)

 

 دلیل نمبر1

1-surah inaam 59

 

وَعِندَهُ ۥ مَفَاتِحُ ٱلۡغَيۡبِ لَا يَعۡلَمُهَآ إِلَّا هُوَ‌ۚ وَيَعۡلَمُ مَا فِى ٱلۡبَرِّ وَٱلۡبَحۡرِ‌ۚ وَمَا تَسۡقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلَّا يَعۡلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ۬ فِى ظُلُمَـٰتِ ٱلۡأَرۡضِ وَلَا رَطۡبٍ۬ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِى كِتَـٰبٍ۬ مُّبِين

 

اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کےسوا کوئی نہیں جانتا جو کچھ جنگل اور دریا میں ہے وہ سب جانتا ہے اور کوئی پتّہ نہیں گرتا مگر وہ اسے بھی جانتاہے اور کوئی دانہ زمین کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور خشک چیز ہے مگر یہ سب کچھ کتاب روشن میں ہیں

 

2-Surah e Luqman 34.

إِنَّ ٱللَّهَ عِندَهُ ۥ عِلۡمُ ٱلسَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ ٱلۡغَيۡثَ وَيَعۡلَمُ مَا فِى ٱلۡأَرۡحَامِ‌ۖ وَمَا تَدۡرِى نَفۡسٌ۬ مَّاذَا تَڪۡسِبُ غَدً۬ا‌ۖ وَمَا تَدۡرِى نَفۡسُۢ بِأَىِّ أَرۡضٍ۬ تَمُوتُ‌ۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرُۢ

 

بے شک الله ہی کو قیامت کی خبر ہے اور وہی مینہ برساتا ہے اور وہی جانتا ہے جو کچھ ماؤں کے پیٹوں میں ہوتا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا کرے گا اور کوئی نہیں جانتا کہ کس زمین پر مرے گا بے شک الله جاننے والا خبردار ہے

 

یعنی علمِ قیامت "مفاتح الغیب " میں سے ہے اور اسے اللہ کے سوا اسکا علم کسی کے پاس نہیں ہاں اللہ نے جتنا بتا دیا ہے قیامت کے بارے میں جیسے قیامت کی نشانیاں وغیرہ۔۔۔

 

Wahabi is tarjumai k base per zara in baton ke jawab dein:

 

1) Allah ko Ghaib janne k lea Kunji ke zaroorat nahi phir ye "Ghaib ke Kunjian" kis lea banae gae hain.

 

2) Dawa tu ye hai k Allah ke Ilawa koe ghaib nahi janta....per "Roshan Kitab" k bare mei ye aqeeda kai os mei har khusk o tur bayan hai.

 

Roshan Kitab beh Allah ke makhlooq hai ...jis Qalam se Roshan Kitab mai likha gaya hai woh beh Allah ke makhooq hai.

 

tere tarjume se he ye sabit ho gaya kai "Roshan Kitab" & "Qalam" ko Ghaib ka ilm hai...yani yeh maloom hai k kal kya ho ga......is ko manta hai ya aqal se farigh ho kar tarjuma paste kar dya hay?

Edited by AbuAhmad
Link to comment
Share on other sites

 

(bis)

 

 دلیل نمبر1

1-surah inaam 59

 

وَعِندَهُ ۥ مَفَاتِحُ ٱلۡغَيۡبِ لَا يَعۡلَمُهَآ إِلَّا هُوَ‌ۚ وَيَعۡلَمُ مَا فِى ٱلۡبَرِّ وَٱلۡبَحۡرِ‌ۚ وَمَا تَسۡقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلَّا يَعۡلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ۬ فِى ظُلُمَـٰتِ ٱلۡأَرۡضِ وَلَا رَطۡبٍ۬ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِى كِتَـٰبٍ۬ مُّبِين

 

اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کےسوا کوئی نہیں جانتا جو کچھ جنگل اور دریا میں ہے وہ سب جانتا ہے اور کوئی پتّہ نہیں گرتا مگر وہ اسے بھی جانتاہے اور کوئی دانہ زمین کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور خشک چیز ہے مگر یہ سب کچھ کتاب روشن میں ہیں

 

2-Surah e Luqman 34.

إِنَّ ٱللَّهَ عِندَهُ ۥ عِلۡمُ ٱلسَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ ٱلۡغَيۡثَ وَيَعۡلَمُ مَا فِى ٱلۡأَرۡحَامِ‌ۖ وَمَا تَدۡرِى نَفۡسٌ۬ مَّاذَا تَڪۡسِبُ غَدً۬ا‌ۖ وَمَا تَدۡرِى نَفۡسُۢ بِأَىِّ أَرۡضٍ۬ تَمُوتُ‌ۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرُۢ

 

بے شک الله ہی کو قیامت کی خبر ہے اور وہی مینہ برساتا ہے اور وہی جانتا ہے جو کچھ ماؤں کے پیٹوں میں ہوتا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ کل کیا کرے گا اور کوئی نہیں جانتا کہ کس زمین پر مرے گا بے شک الله جاننے والا خبردار ہے

 

یعنی علمِ قیامت "مفاتح الغیب " میں سے ہے اور اسے اللہ کے سوا اسکا علم کسی کے پاس نہیں ہاں اللہ نے جتنا بتا دیا ہے قیامت کے بارے میں جیسے قیامت کی نشانیاں وغیرہ۔۔۔

 

 

Aur kitab ka ilm Dono Alam ke sarkar  (saw)  ke paas hai... jab har cheez is kitab me hai to kon si aesi baat hai jo nabi  (saw)  ko pata nahi chali???

Link to comment
Share on other sites

مراسلہ: (ترمیم شدہ)

 

 

 

 

Kya aap log is ayat ka inkar kar rahay ho?Iska jawab hay aap logo kay pas?

 

وَعِندَهُ ۥ مَفَاتِحُ ٱلۡغَيۡبِ لَا يَعۡلَمُهَآ إِلَّا هُوَ‌ۚ وَيَعۡلَمُ

اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کےسوا کوئی نہیں جانتا

Edited by Maham Ansari
Link to comment
Share on other sites

Kya aap log is ayat ka inkar kar rahay ho?Iska jawab hay aap logo kay pas?

 

وَعِندَهُ ۥ مَفَاتِحُ ٱلۡغَيۡبِ لَا يَعۡلَمُهَآ إِلَّا هُوَ‌ۚ وَيَعۡلَمُ

اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کےسوا کوئی نہیں جانتا

 

ab jab tumhare tarjume se he tumhre aqeeay ka radd kya hai tu adhi ayaat ko maan rahe ho aor adhi ayaat ko choor.....kion?

 

Pori ayaat se matlab waziha hai k ....Allah he zaati tor per yani khud se jaanta hai...Ose ne Roshan Kitab mai likh dya hai.

 

Sirf sawal na karo...jo pocha hai un k jawab beh do.

Link to comment
Share on other sites

 

May nay mutlaqan Ilm Ghaib par to sawal hi nahi kiya. Kya aap is ayat ko mantay hay ya nahi?Agar ha to phir is may kis cheez ki nafi kee ja rahi hay?( Tarjuma Molana Shah Rafiuddin Muhadis Dehlavi Rahimahulla ka hay).

 

post-16660-0-43894400-1424586345_thumb.png

 

 

Link to comment
Share on other sites

hum to mante ke hai Sirf Allah (azw)  hi janta hai... lekin Allah (azw)  kisi ko bataye ga nahi, ye nahi likha... 

 

Jee bilkul likha hay. Chalay hum khud hi Huzoor  (saw) say hi is baat ki tasdeek kar letay hay:

 

عن ابن عمر رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال : أوتيت مفاتيح كل شيء الا الخمس إن الله عنده علم الساعة , الآية رواه احمد والطبراني بإسناد صحيح

حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے ہر چیز کی چابیاں عطا کی گئیں ہیں مگر ان پانچ چیزوں کی عطا نہیں کی گئیں ،اللہ ہی کے پاس ہیں علم قیامت کا اور بارش نازل کرنے کا اور مافی الرحام کا خبیر تک (جو سورہ لقمان کی آخری آیتیں ہیں)(کنز العمال ج 6 ص 106 )(مسند احمد ج2 ص 85 )(درمنشور ج5 ص 170 )(تفسیر ابن کثیر ج 3 ص 454 )(امام سیوطی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں بسند صحیح خصائص الکبریٰ ج 2 ص 195 )(علامہ عزیزی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں قال الشیخ الحدیث صحیح (السراج المنیر ج2 ص79 )(علامہ آلوسی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں بسند صحیح (روح المعانی ج 21 ص 99 )

Link to comment
Share on other sites

(bis)

  (saw)

محترمہ ماہم انصاری آپ نے جو آیات پیش کی ہیں ان کا جواب یہاں پہلے ہی موجود ہے۔نیا ٹاپک بنانے سے پہلے دیکھ لیا کریں۔

 

اور آپ جو احادیث پیش کر رہی ہیں ان سب میں علم غیب ذاتی کی نفی ہے نہ کہ عطای کی۔۔

 

2.jpg

3.jpg

4.jpg

5.jpg

6.jpg

Link to comment
Share on other sites

مراسلہ: (ترمیم شدہ)

 

اور آپ جو احادیث پیش کر رہی ہیں ان سب میں علم غیب ذاتی کی نفی ہے نہ کہ عطای کی۔۔

 

 

 میرے بھائیوں بزرگو اور دوستو!

فریق مخالف کے اس مغالطہ (یعنی جن مقامات پر حضورصلیٰ اللہ علیہ وسلم کے لئے غیب جاننے کی”نفی“ آجائے وہاں لفظ ”ذاتی “ کا استعمال کرکے اپنے موقف کا دفاع کیا جاسکے)پرسے پردہ اٹھا نے کے لئے ہم آپ کے سامنے ایسی صحیح احادیث پاک پیش کر رہے ہیں جن میں غیب کا ”اثبات “اور” نفی“ بھی ہے“

دیکھتے ہیں نیچے بیان کی گئی صحیح احادیث پاک کے جواب میں فریق مخالف کیا فرماتے ہیں؟؟؟
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے ہر چیز کی چابیاں عطا کی گئیں ہیں مگر ان پانچ چیزوں کی عطا نہیں کی گئیں ،اللہ ہی کے پاس ہیں علم قیامت کا اور بارش نازل کرنے کا اور مافی الرحام کا خبیر تک (جو سورہ لقمان کی آخری آیتیں ہیں)(کنز العمال ج 6 ص 106 )(مسند احمد ج2 ص 85 )(درمنشور ج5 ص 170 )(تفسیر ابن کثیر ج 3 ص 454 )(امام سیوطی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں بسند صحیح خصائص الکبریٰ ج 2 ص 195 )(علامہ عزیزی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں قال الشیخ الحدیث صحیح (السراج المنیر ج2 ص79 )(علامہ آلوسی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں بسند صحیح (روح المعانی ج 21 ص 99 )

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (المتوفی32 ھ ) فرماتے ہیں:

تمہارے نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم غیب کے خزانے عطا کئے گئے ہیں مگر یہ پانچ امورعطا نہیں کئے گئے جو سورہ لقمان کی آخر میں ہیں“(مسند احمد ج 4 ص 438 )

نیز فرماتے ہیں کہ:

نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو ہر چیز کا علم عطا کیا گیا ہے سوائے ان پانچ چیزوں کے (کہ ان کا علم کسی کوبھی عطا نہیں ہوا)(فتح الباری ج 1 ص 115 ۔اور ج 8 ص395 ۔جلد 13 ص 308 )(تفسیر ابن کثیر ج 3 ص 454)وقال ہذا اسناد حسن و در منشور ج 5 ص 170 )

ہمارا فریق مخالف سے سوال ہے کہ:

کیا یہ احادیث پاک صحیح ہیں ؟؟؟

اگریہ احادیث پاک صحیح ہیں تو ان احادیث پاک میں بیان ہوا ہے کہ(مثال کے طور پر) عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ

” حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے سب چیز کی چابیاں دی گئیں مگر ان پانچ چیزوں کی عطا نہیں کی گئیں“(جو سورہ لقمان کی آخری آیات ہیں)

فریق مخالف فرمائیں گے کہ ”جن پانچ چیزوں کی چابیاں عطا ءنہیں کی گئیں“ کا بیان ہے اس سے مراد ”ذاتی “ ہے ”عطائی “ نہیں۔

پھر آپ جواب دیں کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”مجھے سب چیز کی چابیاں دیں گئیں ہیں

اس سے کیا مفہوم ثابت ہوتا ہے ؟

کیا جن چیزوں کی چابیاں عطا کئے جانے کا بیان آیا ہے وہ ”ذاتی“ کے لئے ہے ؟

(جبکہ ذاتی ہونے کا فریق مخالف بھی قائل نہیں)

تو پھر ”عطائی “ کے لئے ہے ۔

(جیسا کہ ان احادیث پاک کے الفاظ سے ہی واضح ہو رہا ہے ”عطا کی گئیں“)

تو پھر ان احادیث پاک میں حضور صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے جن پانچ چیزوں کی چابیوں کی نفی کی ہے وہ کیا ہیں؟

Edited by Maham Ansari
Link to comment
Share on other sites

 

(bis)

 

 دلیل نمبر1

1-surah inaam 59

 

وَعِندَهُ ۥ مَفَاتِحُ ٱلۡغَيۡبِ لَا يَعۡلَمُهَآ إِلَّا هُوَ‌ۚ وَيَعۡلَمُ مَا فِى ٱلۡبَرِّ وَٱلۡبَحۡرِ‌ۚ وَمَا تَسۡقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلَّا يَعۡلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ۬ فِى ظُلُمَـٰتِ ٱلۡأَرۡضِ وَلَا رَطۡبٍ۬ وَلَا يَابِسٍ إِلَّا فِى كِتَـٰبٍ۬ مُّبِين

 

اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کےسوا کوئی نہیں جانتا جو کچھ جنگل اور دریا میں ہے وہ سب جانتا ہے اور کوئی پتّہ نہیں گرتا مگر وہ اسے بھی جانتاہے اور کوئی دانہ زمین کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور خشک چیز ہے مگر یہ سب کچھ کتاب روشن میں ہیں

 

 

 

 

 

 

 

 میرے بھائیوں بزرگو اور دوستو!

فریق مخالف کے اس مغالطہ (یعنی جن مقامات پر حضورصلیٰ اللہ علیہ وسلم کے لئے غیب جاننے کی”نفی“ آجائے وہاں لفظ ”ذاتی “ کا استعمال کرکے اپنے موقف کا دفاع کیا جاسکے)پرسے پردہ اٹھا نے کے لئے ہم آپ کے سامنے ایسی صحیح احادیث پاک پیش کر رہے ہیں جن میں غیب کا ”اثبات “اور” نفی“ بھی ہے“

دیکھتے ہیں نیچے بیان کی گئی صحیح احادیث پاک کے جواب میں فریق مخالف کیا فرماتے ہیں؟؟؟
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایامجھے ہر چیز کی چابیاں عطا کی گئیں ہیں مگر ان پانچ چیزوں کی عطا نہیں کی گئیں ،اللہ ہی کے پاس ہیں علم قیامت کا اور بارش نازل کرنے کا اور مافی الرحام کا خبیر تک (جو سورہ لقمان کی آخری آیتیں ہیں)(کنز العمال ج 6 ص 106 )(مسند احمد ج2 ص 85 )(درمنشور ج5 ص 170 )(تفسیر ابن کثیر ج 3 ص 454 )(امام سیوطی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں بسند صحیح خصائص الکبریٰ ج 2 ص 195 )(علامہ عزیزی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں قال الشیخ الحدیث صحیح (السراج المنیر ج2 ص79 )(علامہ آلوسی رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں بسند صحیح (روح المعانی ج 21 ص 99 )

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (المتوفی32 ھ ) فرماتے ہیں:

تمہارے نبی صلیٰ اللہ علیہ وسلم غیب کے خزانے عطا کئے گئے ہیں مگر یہ پانچ امورعطا نہیں کئے گئے جو سورہ لقمان کی آخر میں ہیں“(مسند احمد ج 4 ص 438 )

نیز فرماتے ہیں کہ:

نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کو ہر چیز کا علم عطا کیا گیا ہے سوائے ان پانچ چیزوں کے (کہ ان کا علم کسی کوبھی عطا نہیں ہوا)(فتح الباری ج 1 ص 115 ۔اور ج 8 ص395 ۔جلد 13 ص 308 )(تفسیر ابن کثیر ج 3 ص 454)وقال ہذا اسناد حسن و در منشور ج 5 ص 170 )

 

 

 

 

 

 

انصاری صاحب نے پہلی پوسٹ میں اپنے موقف کے حق میں بطور دلیلِ اوّل سورہ انعام کی آیت 59 پیش کی، جس کا ترجمہ یوں لکھا

اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جنہیں اس کےسوا کوئی نہیں جانتا جو کچھ جنگل اور دریا میں ہے وہ سب جانتا ہے اور کوئی پتّہ نہیں گرتا مگر وہ اسے بھی جانتاہے اور کوئی دانہ زمین کے تاریک حصوں میں نہیں پڑتا اور نہ کوئی تر اور خشک چیز ہے مگر یہ سب کچھ کتاب روشن میں ہیں۔

 

اس کے بعد پوسٹ نمبر 13 میں بعض احادیث نقل کر کے یہ دعویٰ کیا کہ نبی کریم ﷺ کو ہر چیز کی چابیاں اور غیب کے خزانے عطا کیے گئے ہیں، سوائے پانچ چیزوں کے، اور ان پانچ چیزوں کا ذکر سورہ لقمان کی آخری آیات میں ہے۔ یوں انصاری صاحب نے علم غیبِ رسول ﷺ کے اثبات اور نفی، دونوں پر دلائل پیش کر دیے ہیں۔ مزید برآں، انصاری صاحب نے نفی کی عبارات اور لفظ نفی کو سرخ رنگ، جبکہ اثبات کی عبارات اور لفظ اثبات کو نیلے رنگ سے نمایاں کیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب انہوں نے بظاہر ہوش و حواس ہی میں لکھا ہے، باقی واللہ تعالیٰ اعلم۔ بہرکیف، جن علوم کی انہوں نے نفی کی، وہ ہیں

 

قیامت کے وقت کا علم

بارش کے برسنے  کا علم

ما فی الارحام کا علم

اس بات کا علم کہ کون کل کیا کمائے گا

اس بات کا علم کہ کون کس زمین میں مرے گا

 

لہذا بقول انصاری صاحب، ان پانچ چیزوں کا علم نبی کریم ﷺ کو نہیں، جبکہ ان کے علاوہ باقی تمام باتوں کا علم آپ ﷺ کو حاصل ہے۔ اس پر دلیل ان کی اپنی پیش کردہ صحیح احادیث اور ان کے اپنے ہی کئے گئے ترجمے کے الفاظ، یعنی

 

مجھے ہر چیز کی چابیاں عطا کی گئی ہیں، مگر ان پانچ چیزوں کی عطا نہیں کی گئیں۔

 

اب ان پانچ کے علاوہ کون سی باتوں کا علم مراد ہوا، مدعی ہی کی پیش کردہ سورہ انعام کی آیت سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

 

بقول مدعی، جو کچھ بھی جنگل اور دریا میں ہے، ہمارے نبی کریم ﷺ اس سب کا علم رکھتے ہیں، کہ اس علم کی نفی سورہ لقمان کی آخری آیت میں نہیں، بلکہ مدعی کی پیش کردہ صحیح احادیث سے اس کا اثبات ہوتا ہے۔

 

اور بقول مدعی، دنیا میں اگر کہیں کوئی پتّہ بھی گرتا ہے، ہمارے نبی کریم ﷺ اس کا علم رکھتے ہیں، کہ اس علم کی نفی بھی سورہ لقمان کی آخری آیت میں نہیں، بلکہ مدعی کی پیش کردہ صحیح احادیث سے اس کا اثبات ہوتا ہے۔

 

اور بقول مدعی، زمین کے کسی تاریک حصے میں اگر کوئی دانہ بھی پڑا ہو، ہمارے نبی کریم ﷺ کے علم سے باہر نہیں، کہ اس علم کی نفی بھی سورہ لقمان کی آخری آیت میں نہیں، بلکہ مدعی کی پیش کردہ صحیح احادیث سے اس کا اثبات ہوتا ہے۔

 

اور بقول مدعی، اس کائنات میں نہ کوئی تر چیز ہے اور نہ کوئی خشک چیز، جس کا علم ہمارے نبی کریم ﷺ کو نہ ہو، کہ اس علم کی نفی بھی سورہ لقمان کی آخری آیت میں نہیں، بلکہ مدعی کی پیش کردہ صحیح احادیث سے اس کا اثبات ہی ہوتا ہے۔

 

فی الحال سورہ الانعام کی آیت کے الفاظ کے تحت چند غیوبات کی نشاندہی پر اکتفا کیا گیا ہے، مدعی کی پیش کردہ نصوص ان کے علاوہ جن علوم پر دلالت کرتی ہیں، ان کی فقط فہرست مرتب کرنے کو ہی طویل وقت درکار ہو گا۔

 

جن پانچ علوم کا انکار کیا گیا ہے، ان پر گفتگو اہل علم حضرات کی طرف سے چلتی رہے گی، مجھے تو فی الوقت اس بات سے دلچسپی ہے کہ نہ نہ کرنے کی کوشش میں انصاری جی جانے انجانے جو کچھ تسلیم کر بیٹھے ہیں، اس کا انکار اب کس منہ  سے اور کن الفاظ میں کریں گے۔ چلئے دیکھتے ہیں۔ ویسے میرا مشورہ ہے کہ جس عجلت کا مظاہرہ انہوں نے دلائل پیش کرنے میں کیا، جواب دینے میں ایسی سرعت کا مظاہرہ کرنے کے بجائے پہلے کسی "بڑے" سے مشورہ کر لیں تو مناسب ہو گا۔

Link to comment
Share on other sites

آپ سے عرض کی تھی کہ آپ کے ہر سوال کا جواب پہلے ہی موجود ہے لیکن لگتا آپ نے ٹاپکس دیکھنے کی زحمت نہیں کی۔


اس لیے آپ کی خدمت میں کچھ سوالات پیش خدمت ہیں۔


١۔سورہ لقمان کی آیت ۳۴ کے بارے میں آپ کا موٴقف ہے کہ اس میں پانچ اشیا کے علم کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے ساتھ خاص فرما لیا۔بنسبت دوسرے غیوب کے اسلیے یہ کسی بھی طرح مخلوق کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ہمارا موٴقف یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کی عطا سے ان باتوں کو جانتے ہیں۔وہ کونسا مانع ہے جو معاذاللہ اعلام الٰہی میں مانع ہو سکتا ہے؟


 


۲


ان پانچ میں جو اختصاص مان کر سلب مانا ہے تو کیا سلب عموم کو مانتے ہو ﴿کہ ان کا علم محیط کسی کو نہیں﴾یا عموم سلب مانتے ہو ﴿کہ دوسرا ان میں سے کوئی نہیں جانتا﴾اگر سلب عموم مانتے ہو پھر ان پانچ کے علاوہ جمیع غیوب میں تم نے عموم اعلام مانا اور خاص ان پانچ کے بعض میں بھی اعلام مان لیا حالانکہ سلب عموم مراد لینا سراسر باطل ہے۔کیوں کہ لازم آئے گا کہ اللہ تعالٰی نے کنہ ذات و صفات ودیگر امور غیر متناہیہ بالفعل کا بھی علم تفصیلی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دے دیا یو جو ان پانچ سے دجا علم ہیں اور یہ درست نہیں،نہ اہلسنے اسکے قائلین ہیں نہ مخالفین۔اگر عموم عموم سلب مراد ہے تو یہ بھی باطل اس لیے کہ اس سے لازم آتا ہے کہ اللہ تعالٰی نے ان پانچ میں سے بعض کا علم بھی کسی کو نہ دیا ہو اور یہ ثابت شدہ روایات متواترہ المعنی کے خلاف ہے۔۔۔۔﴿الدولة المکیة،ص ١۰۴﴾۔


۳


آپ نے یہ سوچا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سورہ لقمان کی آیت ۳۴ میں پانچ چیزوں کے علم کا حصر سمجھا جبکہ ینزل الغیث اور یعلم ما فی الارحام میں حصر و قصر نام کی کوئی چیز نہیں ۔دراصل ان پانچ امور کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آیت مفاتح الغیب کی تفسیر قرارد ے دیا اور اس آیت کہ اس حصہ  لا یعلمھا الا ھو کی وجہ سے سورة لقمان کی آیت میں پانچ امور کے علم کا حصر اللہ تعالٰی کی ذات کے لیے مانا۔یہ کہنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آیت لقمان سے ہی حصر سمجھا ،سراسر خطا و تحکم ہے۔۔﴿الفیوضات الملکیة،ص ۹۲﴾۔


بحوالہ  کتاب منکرین وسعت علم نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علمی و تحقیقی محاسبہ،علامہ منور عتیق رضوی صاحب


 


تو محترمہ انصاری صاحبہ،آپ نے جو دوسری بات چابیوں کے عطا نہ کرنے کی کی اس کا جواب بھی حاضر


ہے۔۔۔


1.jpg


2.jpg


3.jpg


 


 


Link to comment
Share on other sites

 

اس لیے آپ کی خدمت میں کچھ سوالات پیش خدمت ہیں۔

 

(bis)

 

Koi bhi jawab khud say nahi dena chahiyay.Jaha tak Surah Luqman ki ayat ka taluq hay to us ka zabardast jawab Allama Alusi Rahimahullah ki tafseer say peesh khidmat hay:

 

وأنه يجوز أن يطلع الله تعالى بعض أصفيائه على إحدى هذه الخمس ويرزقه عز وجل العلم بذلك في الجملة وعلمها الخاص به جل وعلا ما كان على وجه الإحاطة والشمول لأحوال كل منها وتفصيله على الوجه الأتم، وفي «شرح المناوي الكبير للجامع الصغير» في الكلام على حديث بريدة السابق «خمس لا يعلمهن إلا الله» على وجه الاحاطة والشمول كلياً وجزئياً فلا ينافيه إطلاع الله تعالى بعض خواصه على بعض المغيبات حتى من هذه الخمس لأنها جزئيات معدودة،

 

Aur jaha tak meri peesh karda hadeeth ka taluq hay uska jawab apki poori tehrer may nahi balkay ulta apkay Saeedi sahab nay jo chalaki ki hay woh mulahiza ho:

 

 

post-16660-0-78198000-1424756493_thumb.png

 

Batai konsi hadith may istashna kay baghair aya hay?Poori hadeeth ko yaha uski sanad kay sath peesh karay.

 

fi-aman:

 

 

 

 

لہذا بقول انصاری صاحب، ان پانچ چیزوں کا علم نبی کریم ﷺ کو نہیں، جبکہ ان کے علاوہ باقی تمام باتوں کا علم آپ ﷺ کو حاصل ہے۔

 

Iska Jawab Allama Alusi Rahimahullah nay surah luqman ki ayat 34 kay teht diya hay:Mulahiza ho:

 

 

والذي ينبغي أن يعلم أن كل غيب لا يعلمه إلا الله عز وجل وليس المغيبات محصورة بهذه الخمس وإنما خصت بالذكر لوقوع السؤال عنها أو لأنها كثيراً ما تشتاق النفوس إلى العلم بها [Ruh al Ma`ani (15/477)]

Aur phir التفسير الكبير/ الرازي may hay:

 

يقول بعض المفسرين إن الله تعالى نفى علم أمور خمسة بهذه الآية عن غيره وهو كذلك لكن المقصود ليس ذلك، لأن الله يعلم الجوهر الفرد الذي كان في كثيب رمل في زمان الطوفان ونقله الريح من المشرق إلى المغرب كم مرة، ويعلم أنه أين هو ولا يعلمه غيره، ولأن يعلم أنه يوجد بعد هذه السنين ذرة في برية لا يسلكها أحد ولا يعلمه غيره، فلا وجه لاختصاص هذه الأشياء بالذكر وإنما الحق فيه أن نقول

 

Apko asal may lafz كل say mughalta huwa hay: Dekhay Surha naml ki ayat 23 may ata hay:

 

إِنِّي وَجَدتُّ امْرَأَةً تَمْلِكُهُمْ وَأُوتِيَتْ مِن كُلِّ شَيْءٍ وَلَهَا عَرْشٌ عَظِيمٌ

 

Ab iska aap kya matlab lengay?

 

تفسير لباب التأويل في معاني التنزيل/ الخازن may hay:

 

قلت لفظة كل لا تقتضي الشمول والإحاطة بدليل قوله تعالى وأوتيت من كل شي ولم تؤت ملك سليمان

 

Aur aap logo ki yay muraad bhi poori hogai kay:

 

post-16660-0-43634100-1424760065_thumb.png

 

fi-aman:

 

 

 

 

 

 

 

adhi ayat per imaan aur adhi ka inkaar

 

Yay sab cheezy Loh-e-Mehfooz may likhi hay.Is say kisi ko inkar nahi.

 

 

(bis)

 

post-16660-0-15643600-1424761783_thumb.jpgpost-16660-0-49477500-1424761798_thumb.jpg

 

mod edit: merged 4 posts. please don't make consecutive posts. make a single post for all replies / use edit button for modification.

Link to comment
Share on other sites

میڈم جی میں نے اوپر کچھ سوال بھی پیش کیے تھے ان کا جواب بھی عنایت دے دیں۔


علامہ آلوسی کی تفسیر میں تحریف موجود ہے لیکن اس کا جواب بھی دیا جاے گا۔


باقی سعیدی صاحب کا جواب آنکھیں کھول کے پڑھیں۔


 


1.jpg


2.jpg


 


Link to comment
Share on other sites

 

 

 

(bis)

 

1.) AAP nay kaha kay 

علامہ آلوسی کی تفسیر میں تحریف موجود ہے

 

to janab yay khyal apko ab aya hay? Ja-Alhaq to is say bari pari hay  :excl:  :o

 

 

2. ) Eik taraf aap kehtay ho kay:

 

اور آپ جو احادیث پیش کر رہی ہیں ان سب میں علم غیب ذاتی کی نفی ہے نہ کہ عطای کی

 

Aur ab kehta ho kay Ata na hona pehli ki baat hay aur ata hona baad ki baat. Yay kya mazak banaya huwa hay aap logo nay?

 

3. ) To kya may ab yay samjho kay Surah Luqman ki ayat 34 ab mansookh hay?

 

4. ) Ab nay apni peesh karda hadeeth may bhi khiyanat say kaam liya hay:Poori hadith to likh detay:

 

. وفى الحديث عن ابن مسعود رضي الله عنه مرفوعاً: "أعطى نبيكم صلى الله عليه وسلم مفاتيح الغيب إلا الخمس ثم تلا قوله تعالى: {إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ

Kyon jee?Yay Hadeeth to abhi bhi aap kay khilaf hay

 

5. ) Isi hadeeth say mutaliq may nay aap say sawal kiya tha jis ka jawab nahi mila.

 

post-16660-0-66142200-1424774696_thumb.png

 

6.) Kya May Peer Mehr Ali Shah Sahab ki baat mano ya Saeedi Sahab ki baat ka?

Link to comment
Share on other sites

 

 

کیا جن چیزوں کی چابیاں عطا کئے جانے کا بیان آیا ہے وہ ”ذاتی“ کے لئے ہے ؟

(جبکہ ذاتی ہونے کا فریق مخالف بھی قائل نہیں)​

 

kia khob swal hy....wah....ye swal ilmiyat ka inkishaf hy..........manazry harna aor forums pr behs....wah

jahilon sy behs waqai mushkil kam hy

Link to comment
Share on other sites

Iska Jawab Allama Alusi Rahimahullah nay surah luqman ki ayat 34 kay teht diya hay:Mulahiza ho:

 

والذي ينبغي أن يعلم أن كل غيب لا يعلمه إلا الله عز وجل وليس المغيبات محصورة بهذه الخمس وإنما خصت بالذكر لوقوع السؤال عنها أو لأنها كثيراً ما تشتاق النفوس إلى العلم بها [Ruh al Ma`ani (15/477)]

Aur phir التفسير الكبير/ الرازي may hay:

 

يقول بعض المفسرين إن الله تعالى نفى علم أمور خمسة بهذه الآية عن غيره وهو كذلك لكن المقصود ليس ذلك، لأن الله يعلم الجوهر الفرد الذي كان في كثيب رمل في زمان الطوفان ونقله الريح من المشرق إلى المغرب كم مرة، ويعلم أنه أين هو ولا يعلمه غيره، ولأن يعلم أنه يوجد بعد هذه السنين ذرة في برية لا يسلكها أحد ولا يعلمه غيره، فلا وجه لاختصاص هذه الأشياء بالذكر وإنما الحق فيه أن نقول

 

Apko asal may lafz كل say mughalta huwa hay: Dekhay Surha naml ki ayat 23 may ata hay:

 

ارے! آپ تو بالکل ہی حواس باختہ ہو گئے۔ آنجناب نے یہ کہاں سے اخذ کر لیا کہ مجھے لفظ "کل" سے کوئی مغالطہ لگا؟ حالانکہ میں نے اس لفظ کا ذکر کیا نہ ہی بطور حوالہ اس کا تذکرہ کیا۔ میں نے تو آپ ہی کے نقل کردہ الفاظ کا حوالہ دیا تھا۔ یعنی پہلے تو آپ نے سورہ الانعام کی آیت کریمہ کے ذریعے ہمارے علم میں اضافہ فرمایا کہ مفاتیح الغیب سے کیا مراد ہے، اور پھر "صحیح احادیث" کے ذریعے یہ بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کو "ہر چیز" کی چابیاں عطا کی گئیں سوائے پانچ کے۔ اور یہ کہ نبی کریم ﷺ کو "ہر چیز" کا علم عطا کیا گیا سوائے ان پانچ چیزوں کے۔

اب جو آپ علامہ آلوسی اور امام رازی علیہما الرحمہ کے حوالے سے اپنی ہی پیش کردہ دلیل کا "جواب" عنایت فرما رہے ہیں، اس سے میرے کسی دعوے کا ردّ نہیں ہو رہا، بلکہ یہ ثابت ہو رہا ہے کہ خود آپ کو اپنے دعوے کے حق میں دلیل پیش کرنے کی بھی تمیز نہیں۔ میں نے تو پہلے ہی عرض کیا تھا کہ جانے انجانے میں آپ نے جس بات کا اقرار کر لیا ہے، دیکھتے ہیں اس کا انکار اب کس منہ اور کن الفاظ سے کرتے ہیں۔ تو فرمائیے! آپ نے بعینہ اس عاجز کے کہے پر عمل کیا یا نہیں؟

 

 

 

Aur aap logo ki yay muraad bhi poori hogai kay:

 

attachicon.gifata.PNG

 

fi-aman:

 

اس کے بعد آپ نے یہ عجیب و غریب بات لکھی، جس کا سر ہے نہ پیر، نہ یہ معلوم ہو رہا ہے کہ اس سے آپ کا مقصد کیا ہے۔ خدا جانے ہماری کون سی مراد پوری کرنے کی کوشش کی آپ نے؟ اگر وضاحت فرما دیں تو شاید کچھ سمجھ میں آ جائے۔

پہلے تو یہ فرمائیے کہ یہ "ازاحۃ الغیب" کیا ہے؟ کس کی تصنیف ہے؟ کس قدر معتبر ہے؟

مزیدبرآں، نامعلوم تحریر کا جو حصہ آپ نے پیش کیا اس میں ہے کہ

جب علم غیب کا منکر اپنے دعوے پر دلائل قائم کرے تو "چار" باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے

جبکہ نقل آپ نے صرف "دو" باتیں کی ہیں۔ بقیہ دو کے چھپانے میں آخر کیا مصلحت تھی؟

 

ہاں، حضرت بریلوی علیہ الرحمہ کا ایک رسالہ ہے، مگر اس کا نام "ازاحۃ العیب بسیف الغیب"ہے۔ ممکن ہے آپ کی مراد یہی رسالہ مبارکہ ہو۔ اگر ایسا ہے، تو کیسی دلچسپ بات ہے کہ جس رسالہ کا آپ نے حوالہ دیا، اس کے مضمون کجا، نام تک سے آپ واقف نہیں۔ اب ملاحظہ کیجئے، اس رسالہ کی تحریر

 

post-13840-0-09005100-1424798858_thumb.gif

 

روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آپ کے ان چاروں باتوں کو نقل کر دینے سے ہماری مراد تو ضرور پوری ہو جاتی، آپ مگر اسی طرح نامراد رہتے۔ ممکن ہے یہی سوچ کر آپ نے دو کے بتانے اور دو کے چھپانے میں بھلائی جانی ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے کسی "اپنے" پر اندھا اعتماد کرتے ہوئے بلا تحقیق یہ ٹکڑا کہیں سے لے کر یہاں چسپاں کر ڈالا ہو۔ تو فرمائیے آپ کے اس عمل کو کھلی خیانت کہا جائے یا سکّہ بند جہالت؟ خود سے کوئی فیصلہ سنانے کے بجائے اسے آپ پر چھوڑتے ہیں کہ دونوں میں سے جس شق کو چاہیں اختیار فرمائیں۔ ویسے کوئی پابندی نہیں، چاہیں تو دونوں کو اختیار کر لیں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ مگر براہ مہربانی جواب ضرور دیجئے گا۔

Edited by Ahmad Lahore
Link to comment
Share on other sites

ماہم انصاری نے گزشتہ پوسٹ میں ایک تحریر کا نامکمل حصہ نقل کرتے ہوئے میری کوئی نامعلوم مراد پوری کرنے کا دعوی کیا تھا۔ چونکہ حوالہ موجود نہ تھا، اس لیے اندازے سے کام چلانا پڑا اور مضمون میں قریب قریب یکسانیت کی بنا پر گمان گزرا کہ مذکورہ تحریر کا مآخذ اعلیٰ حضرت کا رسالہ "ازاحۃ العیب بسیف الغیب" رہا ہو گا۔ مگر اب لگتا ہے کہ یہ نامکمل تحریر جاءالحق سے لی گئی ہے کیونکہ الفاظ ہوبہو وہی ہیں اور قوسین میں "ازاحۃ الغیب" بھی لکھا ہوا ہے جو غالباً "ازاحۃ العیب بسیف الغیب" ہونا چاہئے مگر شاید طباعت میں غلطی ہے۔


دیانت کا تقاضا یہ تھا کہ دلیل باحوالہ پیش کی جاتی تاکہ میرا جواب مفروضوں پر نہیں، حقائق کی بنیاد پر ہوتا۔ یہی سوچ کر فی الحال میں اپنے مزید تبصرے کو ملتوی کر رہا ہوں تآنکہ ماہم انصاری کی طرف سے تصدیق یا تردید آئے، اگرچہ غالب گمان یہی ہے کہ تحریر کا یہ ٹکڑا جاءالحق ہی سے لیا گیا ہے، اور اگر ایسا ہی ہے تو مجھے حیرت ہے ماہم انصاری پر۔

Link to comment
Share on other sites

  • 4 weeks later...

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...