Jump to content

زندہ ولی کا دور سے سننا اور مدد کرنا


Abdul wahab

تجویز کردہ جواب

اللہ کی عطا سے ہزاروں میل دور کی آواز سننا اور مدد پر قادر ہونا آپ کے نزدیک ممکن ہے یا نہیں؟


یا پھر سننا ممکن، مگر مدد پر قادر ہونا محال؟


یا اس کے برعکس؟


یا پھر ایسا سننا اور مدد پر قادر ہونا دونوں محال؟


کچھ ارشاد فرمائیے تاکہ آپ کے اس سادہ سے مطالبے کی وضاحت ہو سکے اور پتہ چلے وہ کون سی بےچینی ہے جس نے اس مطالبے پر مجبور کیا۔

Link to comment
Share on other sites

 

اللہ کی عطا سے ہزاروں میل دور کی آواز سننا اور مدد پر قادر ہونا آپ کے نزدیک ممکن ہے یا نہیں؟

یا پھر سننا ممکن، مگر مدد پر قادر ہونا محال؟

یا اس کے برعکس؟

یا پھر ایسا سننا اور مدد پر قادر ہونا دونوں محال؟

کچھ ارشاد فرمائیے تاکہ آپ کے اس سادہ سے مطالبے کی وضاحت ہو سکے اور پتہ چلے وہ کون سی بےچینی ہے جس نے اس مطالبے پر مجبور کیا۔

 

سننا اور مدد پر قادر ہونا دونوں محال

Link to comment
Share on other sites

 

سننا اور مدد پر قادر ہونا دونوں محال

 

 

 

محال عقلی ہے؟

محال شرعی؟

یا محال عادی؟

 

مزید برآں، فاصلہ اگر ہزاروں میل کے بجائے سینکڑوں میل یا اس سے کم ہو، مثلاً دس، بیس یا پچاس میل، تب بھی محال ہی ہو گا؟

Edited by Ahmad Lahore
Link to comment
Share on other sites

 

موجودہ دور کی شرط کا مطلب ھے کہ سابقہ دور میں آپ مانتے ھیں۔

 

آپ لوگوں کا ولی ابلیس یہ اختیارات رکھتا ھے یا نہین؟

 

سابقہ دور والے قبر شریف میں  موجود ہیں اس لئے موجودہ دور کا کہا ۔۔۔۔ ابلیس تو تمہارا ولی ہے تمہارے اعلی حضرت نے اسے نماز پڑھتے بھی دیکھا ہے 

Link to comment
Share on other sites

 

محال عقلی ہے؟

محال شرعی؟

یا محال عادی؟

 

مزید برآں، فاصلہ اگر ہزاروں میل کے بجائے سینکڑوں میل یا اس سے کم ہو، مثلاً دس، بیس یا پچاس میل، تب بھی محال ہی ہو گا؟

 

عقلی ، شرعی ، اور عادی

فاصلے کو اور کم کر لو ۔۔۔ تمہارے موجودہ ولی کے گھر سے چند میٹر دور

 

Link to comment
Share on other sites

 

 

محال عقلی ہے؟

محال شرعی؟

یا محال عادی؟

 

مزید برآں، فاصلہ اگر ہزاروں میل کے بجائے سینکڑوں میل یا اس سے کم ہو، مثلاً دس، بیس یا پچاس میل، تب بھی محال ہی ہو گا؟

 

عقلی ، شرعی ، اور عادی

فاصلے کو اور کم کر لو ۔۔۔ تمہارے موجودہ ولی کے گھر سے چند میٹر دور

 

 

 

 

  یعنی عقلاً، شرعاً، عادتاً ہر طرح محال۔ اور فاصلہ بھی ہزاروں میل سے گھٹا کر محض چند میٹر کر دیا؟ لگتا ہے جذبات کی رَو میں کچھ زیادہ ہی بہک گئے۔

اب ذرا سورہ النمل کی آیت 18 اور 19 کو ملاحظہ کرو۔

ترجمہ: حتی کہ جب وہ چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا، اے چیونٹیو! اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ، کہیں سلیمان اور ان کا لشکر بےخبری میں تمہیں روند نہ ڈالے۔ اس کی بات سے سلیمان مسکرا کر ہنس دیے۔الخ

 

اس کے بعد اسی سورہ النمل کی آیت 38 تا 41 ملاحظہ کرو۔

ترجمہ: سلیمان نے کہا اے سردارو! تم میں کون ان کے اطاعت گزار ہو کر آنے سے پہلے اس کا تخت میرے پاس لا سکتا ہے؟ ایک بہت بڑے جن نے کہا میں آپ کے مجلس برخواست کرنے سے پہلے اس تخت کو اس کے پاس حاضر کر دوں گا اور میں اس پر ضرور قادر اور امین ہوں۔ جس شخص کے پاس کتاب کا علم تھا اس نے کہا میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے اس تخت کو آپ کے پاس حاضر کر دوں گا، سو جب سلیمان نے اس تخت کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا تو کہا یہ میرے رب کے فضل سے ہے۔ الخ

 

کیوں جناب؟ قرآن حکیم نے تمہارے محال عقلی و شرعی و عادی کا کیا حال کیا؟

ایک طرف سیدنا سلیمان علیہ السلام نے انسان کجا، ایک چیونٹی کی بات نہ صرف سن لی بلکہ سمجھ بھی لی۔ کتنے میٹر یا کلومیٹر سے سنی اور سمجھی، یہ اپنے کسی مولوی سے پوچھ لو اگرچہ وہ خود کسی چیونٹی کی بات کان لگا کر بھی سننے کے قابل نہ ہو، سمجھنا تو دور کی بات ہے۔

دوسری طرف سیدنا سلیمان علیہ السلام کے ایک درباری کی قوت اور تصرف ملاحظہ کرو کہ آنکھ جھپکنے کی دیر میں ملکہ بلقیس کا تخت خدمت میں حاضر کر دیا جو ہزاروں میل کے فاصلے پر سخت پہروں میں رکھا تھا، جسے لانے کے لیے ایک عفریت جن نے بھی مجلس کے خاتمے تک کی مہلت مانگی تھی۔

 

تو کیا ہوا تمہارے محال عقلی، محال شرعی و محال عادی کا؟

Edited by Ahmad Lahore
Link to comment
Share on other sites

 

  یعنی عقلاً، شرعاً، عادتاً ہر طرح محال۔ اور فاصلہ بھی ہزاروں میل سے گھٹا کر محض چند میٹر کر دیا؟ لگتا ہے جذبات کی رَو میں کچھ زیادہ ہی بہک گئے۔

اب ذرا سورہ النمل کی آیت 18 اور 19 کو ملاحظہ کرو۔

ترجمہ: حتی کہ جب وہ چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا، اے چیونٹیو! اپنے اپنے بلوں میں گھس جاؤ، کہیں سلیمان اور ان کا لشکر بےخبری میں تمہیں روند نہ ڈالے۔ اس کی بات سے سلیمان مسکرا کر ہنس دیے۔الخ

 

اس کے بعد اسی سورہ النمل کی آیت 38 تا 41 ملاحظہ کرو۔

ترجمہ: سلیمان نے کہا اے سردارو! تم میں کون ان کے اطاعت گزار ہو کر آنے سے پہلے اس کا تخت میرے پاس لا سکتا ہے؟ ایک بہت بڑے جن نے کہا میں آپ کے مجلس برخواست کرنے سے پہلے اس تخت کو اس کے پاس حاضر کر دوں گا اور میں اس پر ضرور قادر اور امین ہوں۔ جس شخص کے پاس کتاب کا علم تھا اس نے کہا میں آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے اس تخت کو آپ کے پاس حاضر کر دوں گا، سو جب سلیمان نے اس تخت کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا تو کہا یہ میرے رب کے فضل سے ہے۔ الخ

 

کیوں جناب؟ قرآن حکیم نے تمہارے محال عقلی و شرعی و عادی کا کیا حال کیا؟

ایک طرف سیدنا سلیمان علیہ السلام نے انسان کجا، ایک چیونٹی کی بات نہ صرف سن لی بلکہ سمجھ بھی لی۔ کتنے میٹر یا کلومیٹر سے سنی اور سمجھی، یہ اپنے کسی مولوی سے پوچھ لو اگرچہ وہ خود کسی چیونٹی کی بات کان لگا کر بھی سننے کے قابل نہ ہو، سمجھنا تو دور کی بات ہے۔

دوسری طرف سیدنا سلیمان علیہ السلام کے ایک درباری کی قوت اور تصرف ملاحظہ کرو کہ آنکھ جھپکنے کی دیر میں ملکہ بلقیس کا تخت خدمت میں حاضر کر دیا جو ہزاروں میل کے فاصلے پر سخت پہروں میں رکھا تھا، جسے لانے کے لیے ایک عفریت جن نے بھی مجلس کے خاتمے تک کی مہلت مانگی تھی۔

 

تو کیا ہوا تمہارے محال عقلی، محال شرعی و محال عادی کا؟

میں نے موجودہ دور کے تمہارے والی کا نام پوچھا ہے ۔۔۔۔ یہ ساری تفصیل نہیں

اور میں نے تمہارے ولی کا پوچھا ۔۔۔۔۔ تم حضرت سلیمان کی مثال کیوں دینے لگے ؟؟؟ کیا حضرت سلیمان تمہارے اولیا میں شمار ہوتے ہیں ؟؟؟؟

جانوروں کی بولیاں سننا حضرت سلیمان کے معجزات میں شمار ہوتا ہے اور معجزہ تو ہوتا ہی وہ جو انسانی عقل میں نہ آ سکے ۔۔۔۔

 

Link to comment
Share on other sites

جناب نے کیا سمجھا، میں نے بغیر وجہ کے سوال کیا تھا؟ نہیں، بلکہ سوچ سمجھ کر ہی پوچھا تھا۔


سیدنا سلیمان علیہ السلام جلیل القدر نبی ہیں۔ ان کی مثال دینے کی بھی ایک وجہ تھی، جو تمہاری سمجھ میں نہیں آئے گی۔ اور جب آئے گی، تب تک دیر ہو چکی ہو گی۔


جی ہاں، جانوروں کی بولیاں سمجھنا سیدنا سلیمان علیہ السلام کے معجزات میں شمار ہوتا ہے۔ مگر جناب کو معلوم نہیں کہ دعویٰ محال عقلی و محال شرعی و محال عادی کا کیا تھا۔ تو کیا معجزات کو باوجود وقوع کے محال کہتے ہو؟ کیا تمہارے فرقے میں اور بھی کسی نے معجزے یا کرامت کو محال کہا یا تم ہی وہ پہلے فاضل ہو جس نے یہ دعویٰ کیا؟


کچھ کچھ سمجھ تو گئے ہو گے کہ اگر عقل ہوتی تو محال عقلی کا اور شریعت سے کچھ تعلق ہوتا تو محال شرعی کا دعویٰ نہ کرتے۔ تو کہاں گیا اب وہ دعویٰ؟ یا پھر محال عقلی و محال شرعی کا مطلب ہی نہیں جانتے؟


اور سیدنا سلیمان علیہ السلام کے خادم کے تخت حاضر کر دینے کا معاملہ کیوں گول کر گئے؟ وہ تو نبی بھی نہیں تھے نہ ہی ان کا یہ عمل ان کا معجزہ تھا۔ اس بارے میں بھی کچھ لب کشائی کی ہوتی۔ 

Link to comment
Share on other sites

(bis)

بد حواس نجدی امام احمد رضا علیہ الرحمہ نے ابلیس کو نماز پڑھتے نہیں دیکھا بلکہ یہ بات

تو تمہارے نہایت قابل اعتماد محدث ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ شارح بخاری نے اپنی معتبر کتاب

الاصابہ میں لکھی ہے ،اور یہی واقعہ امام احمد رضا علیہ  الرحمہ نے ملفوظات میں بیان کیا ہے۔

اس حدیث کو اکیلے ابن جوزی نے موضوع کہا ہے ، حافظ ذ ھبی نے بھی اسے ابن جوزی کے 

حوالے سے موضوع کہا ہے ،ابن جوزی ضعیف حدیث کو بھی موضوع کہنے میں متشدد ہے ، جیسا کہ

امام جلال الدین سیوطی نے اس بارے میں ابن جوزی کا تعاقب کیا ہے۔

farea 1.jpg

farea 2.jpg

a.jpg

b.jpg

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...