Jump to content

Ghair Ul Allah Say Madad


K.Ahmed92

تجویز کردہ جواب

Aik sahab nay yeh ietaraz kya hai kay is munajat may shirk ka pahlo hay "Ya ilahi reham farma mustafa kay wastay  Ya Rasool ALLAH karam ki jiye khuda kay wastay" (dousray misray main). Koi sahab Quran hadith key roshni may iss key wazahat famayeen gay aur yeh batain gay kay kya ghair ul ALLAH say madad mangna najaiz hai?

 

Link to comment
Share on other sites

جناب پہلی بات یہ کہ دلیل پیش کرنا تو معترض کی زمہ داری ہے۔ 


 اور دوسری بات یہ کہ آپ ہم سے غیر اللہ سے مدد مانگنا ناجائز ہونے کی عضاحت کیسے مانگ سکتے ہیں بجکہ ہمارے نزدیک مدد مانگنا ناجائز نہیں بلکہ جائز ہے۔


 


Link to comment
Share on other sites

آپ کے جواب کا شکریہ،دوسرے مصرے کو اگرپڑھیں تو اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیۃ وسلم سے استغاثہ بیان کیا گیا ہے- اگر قرآن اور حدیث کی روشنی میں اس کا جواب دے دیں تو نوازش ہوگی-

Link to comment
Share on other sites

  • 4 weeks later...

متعلقہ حصے کا ترجمہ پوسٹ کے پہلے امیج میں موجود ہے۔ صلح حدیبیہ والا واقعہ اس حصے کا خلاصہ ہے۔ جس میں عمرو بن سالم خزاعی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد کے اشعار پڑھے۔ وہ  واقعہ اور اشعار فتح الباری میں نقل ہیں اور نیچے حدیث کو حسن کہا گیا ہے، جو حصہ انڈر لائن ہے۔


Link to comment
Share on other sites

محترم

فتح الباری کے سکین سے تو کہیں سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ سالم الخزاعی نے یہ اشعار کہیں دور سے پڑھے تھے بلکہ فتح الباری میں تو لکھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ اشعار پڑھے گئے

جہاں سے اشعار شروع ہوتے ہیں اس سے پہلے کی لائن دیکھ لیں

Edited by Mustafvi
Link to comment
Share on other sites

محترم

فتح الباری کے سکین سے تو کہیں سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ سالم الخزاعی نے یہ اشعار کہیں دور سے پڑھے تھے بلکہ فتح الباری میں تو لکھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ اشعار پڑھے گئے

جہاں سے اشعار شروع ہوتے ہیں اس سے پہلے کی لائن دیکھ لیں

آپ اس سے پہلے کی لائنیں دیکھتے رہیے

انڈر لائنڈ سے آگے پڑھنے کی زحمت بھی کر لو۔

بر سبیل تنزل اگر خاص اس ایک روایت سے یہ ثابت بھی ہو جائے کہ اُنہوں نے دور سے نہیں

بلکہ سامنے سے پکارا ہے تو بھی ہمیں کیا مضر؟؟

آپ یہ بتا دیں کہ اگر رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایسا کہا تو اگر یہ دور سے کہنا شرک ہوتا تو اب بھی بدستور شرک ہی رہتا!!۔

آپکا شرک بھی عجیب نہیں بلکہ بہت زیادہ عجیب ہے جو فاصلہ کم زیادہ ہونے اور موجودگی و غیبت سے بدلتا رہتا ہے۔۔۔

جیسا آپ نے کہا کہ رسول پاک ﷺ کے سامنے انہوں نے کہا ایسا سب ، تو اگر یہ کہنا شرک ہوتا تو نبی پاک شاہ بنی آدم ﷺ انہیں روک نہ دیتے؟؟

ہمارے نظریے کی بنیاد یہی ایک روایت تو نہیں ہے!۔

کیا آپکو سینکڑوں وہ ثبوت پلس حوالے نظر نہیں آ رہے جو اسی ٹاپک میں میرے جلیل القدر ساتھیوں نے پیش کیے ہیں۔

لگے ہاتھوں آپ ذرا قرآن و حدیث یا قرون ثلثہ سے اس بات کا ثبوت تو دیے دیں کہ انٹرنیٹ چلانا ، کمپیوٹر یا موبائل وغیرہ کو اسلامی کاموں کے لیے استعمال کرنا جائز ہے؟

کون کون سے صحابی نے اسلامی محفل پر سنیوں کے نظریات پر فتح الباری کی روایت کی توثیق کا مطالبہ کیا تھا؟

کن بندوں نے قرون ثلثہ میں اپنا نام مصطفوی رکھا تھا؟

کس صحابی نے مطالبہ کیا تھا کہ فتح الباری کے خاص اسی پیج کا اردو ترجمہ کر کے لگاو جیسے آپ نے اوپر اپنی پوسٹ میں ایسا مطالبہ کرا ہے؟

اگر آپ ان سوالوں کا جواب قرآن میں سے نہیں دے سکتے تو حدیث میں سے دے دو یا اگر حدیث میں سے نہیں دے سکتے تو قرون ثلثہ میں سے دے دو!!!!!!۔

انتظار رہے گا ، جواب جلد دینا اگر واقعی مصطفوی ہو!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!َ۔

Edited by kashmeerkhan
Link to comment
Share on other sites

 

آپ اس سے پہلے کی لائنیں دیکھتے رہیے

انڈر لائنڈ سے آگے پڑھنے کی زحمت بھی کر لو۔

 

 

جی محترم میں نے زحمت کر کے آگے بھی پڑھا ہے لیکن وہاں بھی ایسا کچھ نہیں  ہے ۔

 

آپ یہ بتا دیں کہ اگر رسول اللہ ﷺ کے سامنے ایسا کہا تو اگر یہ دور سے کہنا شرک ہوتا تو اب بھی بدستور شرک ہی رہتا!!۔

آپکا شرک بھی عجیب نہیں بلکہ بہت زیادہ عجیب ہے جو فاصلہ کم زیادہ ہونے اور موجودگی و غیبت سے بدلتا رہتا ہے۔۔۔

 

 

یہ شرک بیچ میں کہاں سے آ گیا ؟ میں نے شرک یا عدم شرک کی کوئی بات ہی نہیں چھیڑی 

رضا صاحب نے اپنے موقف میں ایک دلیل پیش کی تھی میں نے اس حوالے سے کچھ وضاحت کا عرض کیا تھا ۔

 

اسی طرح آپ کے باقی سوالات بھی بالکل غیر متعلقہ ہیں 

Edited by Mustafvi
Link to comment
Share on other sites

محترم

فتح الباری کے سکین سے تو کہیں سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ سالم الخزاعی نے یہ اشعار کہیں دور سے پڑھے تھے بلکہ فتح الباری میں تو لکھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ اشعار پڑھے گئے

جہاں سے اشعار شروع ہوتے ہیں اس سے پہلے کی لائن دیکھ لیں

 

 وأخرجه الطبراني من حديث ميمونة بنت الحارث مطولا وفيه أيضا أنها "سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ليلا وهو في متوضئه: نصرت نصرت، فسألته فقال: هذا راجز بني كعب يستصرخني، وزعم أن قريشا أعانت عليهم بني بكر. قالت: فأقمنا ثلاثا، ثم صلى الصبح بالناس، ثم سمعت الراجز ينشده"

 

.......

saamnay baad ma parhay gaeiy woh ashaaar  (jes ka zekr حديث ميمونة بنت الحارث mai aakheree hissa ma aya ha)

, is sa pahlay 3 din ke musaafat sa parhay gaeiy thay (jes ka zekr حديث ميمونة بنت الحارث mai ibtedaaaie hissa ma aya ha)

......

-----

aor apna shaikh najdee ke book ka scan bhee parhoo

......

mary koch sawaal ager ghair-mutalqa ha toh en ka liay alag sa topicc bana ka jawaab da dana, challange ha ya!!

Edited by kashmeerkhan
Link to comment
Share on other sites

محترم

فتح الباری کے سکین سے تو کہیں سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ سالم الخزاعی نے یہ اشعار کہیں دور سے پڑھے تھے بلکہ فتح الباری میں تو لکھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ اشعار پڑھے گئے

جہاں سے اشعار شروع ہوتے ہیں اس سے پہلے کی لائن دیکھ لیں

 

آج میں نے اپنا بہت وقت لگایا ہے نجدیوں کی ترجمہ شدہ کتاب ڈھونڈنے میں تاکہ انکو خود وہیں سے انکا اپنا ترجمہ دکھا سکے۔

پورے چھے گھنٹہ اور اکیس منٹ لگے اس سب تک پہنچنے میں!۔

مگر اس وقت مجھے نہایت شاک لگا جب متعلقہ صفحے پر پہنچا تو دیکھا کہ ایک دو نہیں بلکہ دس بارہ یا اس سے بھی زیادہ لائنین چھوڑ دی مترجمین نجدیہ نے۔

یہ فٹ کام کرا ہے جی کہ جو بات اپنی اندھی تقلید کے خلاف ہو ، اسے لکھو ہی مت۔

واہ رے نجدیو۔۔۔۔۔ بے غیرتی کی ساری حدیں پار کرنے والی لنگڑی قوم۔۔۔۔

بخاری بخاری کر کے سیدھوں کو ٹیڑھا کرنے کی کوشش کرنے والے جاہلو اب بخاری کی شرح میں ہی رد و بدل کر ڈالا۔۔۔

 

post-16911-0-05095500-1439399089_thumb.gif

 

 

 

post-16911-0-05796400-1439399075_thumb.gif

 

 

 

post-16911-0-27841300-1439399082_thumb.gif

 

 میں ایک باری پھر کہتا ہوں کہ ہمارے عقیدے کی بنیاد محض یہی فتح الباری کی روایت تو نہیں ہے بلکہ ہم نے تو ادلہ اربعہ سے اپنا پوائنٹ آف ویو سامنے رکھا ہے اور صرف یہ میرا یا ایک دو بندوں کا نظریہ ہرگز نہیں بلکہ پوری کی پوری امت مسلمہ (سوائے اکا دکا) کا یہی عقیدہ ہی تو ہے۔

اپنی خباثت چیک کرو کہ اتنے حوالے جو اسی سنگل ٹاپک میں پڑے ہیں ،کو چھوڑ کر اسی ایک روایت کے پیچھے چپک گئے۔۔۔

بفرض اگر یہ ثابت ہو جائے کہ صحابی نے ایسا کام نہں کیا جیسا ہم کہہ رہے تو اس سے ہمیں کیا نقصان آنا ہے ،اور کچھ نہیں پھر بھی نجدیہ کا منہ کالا ہونا ہے۔۔

mary woh sawaal jin koh tom na ghair-mutalqa keha ha toh en ka liay alag sa topicc bana ka ya essi topic ma jawaab da dana, challange ha ya!!

jald azz jald unn ka jewaab doo....

Edited by kashmeerkhan
Link to comment
Share on other sites

برادر کشمیر خان

مجھے نہیں معلوم کہ آپ میرے ایک استفسار پر اس قدر جذباتی پن کا مظاہرہ کیوں فرما رہے ہیں 

حالانکہ تحمل مزاجی اور شائستہ انداز میں بھی بات ہو سکتی ہے 

 

فتح الباری کی صحیح روایت سے جو بات ثابت ہو رہی ہے وہ فقط یہی ہے کہ سالم الخزاعی نے وہ اشعار نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھے 

 

جہاں تک تعلق ہے طبرانی کی روایت کا وہاں بھی یہ بات قیاسا ہی کہی جا سکتی ہے کہ سالم الخزاعی نے وہ اشعار 3 دن کی مسافت سے پڑھے 

سند کے اعتبار سے بھی یہ روایت کوئی مضبوط روایت نہیں ہے 

1. امام ہیثمیؒ اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد رقم طراز ہیں کہ ''رواہ الطبراني في الصغير والكبير وفيه يحي سليمان بن نضلة وھو ضعيف'' (مجمع الزوائد :۶؍۱۶۴) ''اسے امام طبرانی نے المعجم الکبیر اور المعجم الصغیر میں روایت کیا ہے اور اس کی سند میں یحییٰ بن سلیمان نامی راوی ضعیف ہے۔''


2. امام ذہبیؒ اور حافظ ابن حجرؒ نے بھی اس راوی پر کلام کیا ہے۔ ملاحظہ ہو میزان الاعتدال : ۳؍۲۹۲ اور لسان المیزان :۶؍۲۶۱

3. اس کی سند میں محمد بن عبداللہ نامی راوی کے بارے میں امام ذہبیؒ فرماتے ہیں کہ لایعرف(میزان الاعتدال :۳؍۸۳) یعنی یہ راوی مجہول ہے اور مجہول راوی کی روایت ضعیف کہلاتی ہے۔

4. اس کی سند میں محمد بن نضلہ نامی راوی کے حالات کتب ِرجال سے نہیں ملتے لہٰذا یہ بھی کوئی مجہول راوی ہے۔

Link to comment
Share on other sites

برادر کشمیر خان

مجھے نہیں معلوم کہ آپ میرے ایک استفسار پر اس قدر جذباتی پن کا مظاہرہ کیوں فرما رہے ہیں 

حالانکہ تحمل مزاجی اور شائستہ انداز میں بھی بات ہو سکتی ہے 

 

فتح الباری کی صحیح روایت سے جو بات ثابت ہو رہی ہے وہ فقط یہی ہے کہ سالم الخزاعی نے وہ اشعار نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھے 

 

جہاں تک تعلق ہے طبرانی کی روایت کا وہاں بھی یہ بات قیاسا ہی کہی جا سکتی ہے کہ سالم الخزاعی نے وہ اشعار 3 دن کی مسافت سے پڑھے 

سند کے اعتبار سے بھی یہ روایت کوئی مضبوط روایت نہیں ہے 

1. امام ہیثمیؒ اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد رقم طراز ہیں کہ ''رواہ الطبراني في الصغير والكبير وفيه يحي سليمان بن نضلة وھو ضعيف'' (مجمع الزوائد :۶؍۱۶۴) ''اسے امام طبرانی نے المعجم الکبیر اور المعجم الصغیر میں روایت کیا ہے اور اس کی سند میں یحییٰ بن سلیمان نامی راوی ضعیف ہے۔''

2. امام ذہبیؒ اور حافظ ابن حجرؒ نے بھی اس راوی پر کلام کیا ہے۔ ملاحظہ ہو میزان الاعتدال : ۳؍۲۹۲ اور لسان المیزان :۶؍۲۶۱

 

3. اس کی سند میں محمد بن عبداللہ نامی راوی کے بارے میں امام ذہبیؒ فرماتے ہیں کہ لایعرف(میزان الاعتدال :۳؍۸۳) یعنی یہ راوی مجہول ہے اور مجہول راوی کی روایت ضعیف کہلاتی ہے۔

 

4. اس کی سند میں محمد بن نضلہ نامی راوی کے حالات کتب ِرجال سے نہیں ملتے لہٰذا یہ بھی کوئی مجہول راوی ہے۔

میرا یہ کہنا ہے کہ میرے نزدیک تم بھی مجہول ہو تاوقتیکہ نچلے سوالوں کے جواب دو

سب سے ۱

اعلیحضرت امام اہل سنت الشاہ احمد رضا خان فاضل بریلوی کے متعلق اپنا نظریہ بتاو کیونکہ فورم کافی دیکھ چکے ہو اور اس حوالے سے جواب دینا تمہیں مشکل نہیں

۱

پہلے اکابر دیوبند کی کفریہ عبارات پر جو فتاوی مثلا حسام الحرمین ہیں ، انکے بارے اپنئ راے بتاو۔

نام لیکر بتاو کہ اشرفعلی تھانوی اور رشید احمد گنگوہی اور قاسم نانوتوی اور خلیل انبیٹھوی کے متعلق کیا نظریہ ہے بلحاظ انکے کفر و ایمان درروشنئ عبارات گستاخانہ جو اسی فورم پر بھی موجود ہیں وہاں سے دیکھ کر لکھو اپنا نظریہ۔۔

۲

کتاب تقویۃ الایمان کے متعلق واضح بتاو کہ کیسی ہے بلحاظ مضامین وغیرہ، اگر یہ نہیں ہے تمہارے پاس تو بتاو، لنک میں بھیج دوں گا۔۔۔

۳

تقلید کی شرعی حیثت مختصر بتاو

۔۔،،۔۔۔،،۔۔۔،،،۔۔۔۔،،۔۔۔۔،،،

جب تک ان سوالوں کا واضح غیر محتمل جواب نہیں دیتے ، یہ بحث موقوف ہے یہیں۔۔

،،۔۔۔۔،،،۔۔۔،،،۔۔۔،،،۔۔۔

ہمیں پتہ تو چلے کہ ہمارا مقابل کس نظرئیے کا حامی ہے تاکہ سوال و جواب یا قیام و انہدام اعتراض میں دقت نہ رہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ بات بعد میں کریے گا حدیث کی سند کی ، پہلے مسئولہ باتوں کا ایسا جواب دیں کہ آپکی شخصیت کو انڈر آبزریشن سے نکال کر متعین کیا جا سکے

کیونکہ ایسے اگر بحث کرتے رہے آپکو متعین کیے بنا تو کیا فائدہ۔۔۔۔

ابھی سے آپ کا طرز عمل خاصا متکلم فیہ ہے

جیسے

جب ہمارا نظریہ دیگر کثیر دلائل بلکہ ادلہ سے ثابت ہے تو پھر ایک ہی روایت کے پیچھے کیوں پڑے ہیں اور حوالے نظر نہیں آتے؟

اپنے مکتب فکر کے مولویوں کی ترجمے میں خیانت کیوں نظر انداز کر دی گئی؟

Link to comment
Share on other sites

 

میرا یہ کہنا ہے کہ میرے نزدیک تم بھی مجہول ہو تاوقتیکہ نچلے سوالوں کے جواب دو

دعا ہے کہ اللہ کریم آپ کو شائستہ انداز میں گفتگو کرنے کی توفیق عطا فرمائے 

میرے بھائی میرے مجہول ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے میں کوئی حدیث تو روایت کر نہیں رہا کہ میرے بارے میں ساری معلومات معلوم ہونا ضروری ہو ۔

 

بات تو دلیل کی ہے اور آپ کو جذباتی پن چھوڑ کر دلیل کا جواب دلیل سے دینا چاہئے ۔

 

آپ کے سوالات میں سے اکثر سوالات کے جواب بہت عرصہ پہلے اسی فورم میں کسی جگہ دے چکا ہوں 

یہ لنک چیک کر لیں 

 

http://www.islamimehfil.com/topic/19737-mustafvi-sahib-say-suwal/?hl=mustafvi

 

ویسے میرے خیال میں آپ کے سوالات بے مقصد ہیں 

دلیل سے بات کرنا سیکھیں 

Edited by Mustafvi
Link to comment
Share on other sites

اس مبارک روایت کو تقریباً تمام اہل سیرت نے نقل کیا ہے۔شارح بخاری امام محمد قسطلانی اسے معروف کتاب الموھب اللدنیہ میں بھی لائے ،اس کی تشریح امام زرقانی نے جو کی وہ من وعن حاضر ہے۔﴿ت،١١۲۲﴾ ۔جب وضو خانہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تیں دفعہ فرمایا میں تمہاری مدد کو پہنچا۔حضرت ام المومنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس کے ساتھ ہم کلام تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا


رجز شعر کی ایک قسم کا نام ہے یہ لفظ راجز ہے نہ کہ راجل ،ایسا پڑھنے والے نے غلطی کی ہے،بنو کعب ،بنو خزاعہ کی ایک شاخ ہےاس نے مجھے پکارا یعنی اس نے مجھ سے مدد طلب کی اور کہا قریش نے ان کے خلاف بنوبکر کی امداد کی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس وفد سے پہلے ان کی خبر و اطلاع دینا ،علامات نبوت میں سے بڑی واضح نشانی ہے۔راجز نے جو کچھ اپنے ذہن میں سوچا اور تصور کیا اسے وحی کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جان لیا یا انہوں نے اپنے دوستوں سے گفتگو کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے قبول کر کے فرمایا تمہاری مدد کو پہنچا۔اس نے یہ سارا کچھ دوران سفر کیا تو اللہ تعالٰی عزوجل نے انکی آمد کے تین دن پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنوا دیا اور اس میں کوئی بعد و پریشانی نہیں کیوں کہ امام ابو نعیم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان نقل کیا ہے کہ میں آسمانوں کی چڑچڑاہٹ سنتا ہوں اور ان کے چڑ چڑاھنے پر کوئی ملامت نہیں۔


حضرت سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتی ہیں کہ وفد آنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نکلے اور حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو تیاری کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ کسی کو مت بتاو ۔راویہ حدیث حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کے ہاں حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور تیاری کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگیں اللہ کی قسم میں نہیں جانتی۔


 


امام زرقانی کی گفتگو سے چند فوائد سامنے آتےہیں۔


١۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے وضو خانہ میں فرمایا میں تمہاری امداد کے لیے حاضر ہوں اس وقت وہاں کوئی موجود نہ تھا۔جس کی وجہ سے حضرت سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالٰی عنہا نے پو چھا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کس سے گفتگو فرما رہے تھے۔


۲


آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آمد وفد سے تین دن پہلے یہ الفاظ مبارکہ فرمائے۔میں تمہاری مدد کے لیے حاضر ہوں


۳


فاقمنا ثلاثا ،،یہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے الفاظ ہیں نہ کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے۔امام زرقانی کے الفاط قالت میمونتہ کما ھو روایت الطبرانی ۔۔اسے نہایت ہی آشکار کر رہے ہیں۔


۴


فاقمنا ثلاثا ،کی تشریح میں لکھا ہے کی حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا یہ راجز بن کعب ہے۔اس ارشاد عالی کے تین دن بعد ایسا ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نماز فجر پڑھائی تو پھر میں نے یہ اشعار سنے۔۔


 


لہذا آپ کا یہ کہنا ہر گز درست نہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو خانے میں فرمایا میں مدد کو پہنچا،حضرت راجز وہاں موجود تھے کیوںکہ حضرت سیدہ واضح کر رہی ہیں کہ اس قوت کوئی موجود نہ تھا ۔البتہ تین دن کے بعد وفد آیا اور پھر حضرت راجز نے شعر پڑھے۔۔۔


حدیث کی سند پر کلام نماز مغرب کے بعد ان شاء اللہ عزوجل


Link to comment
Share on other sites

یہ حدیث مبارکہ صحیح ہے طبرانی کبیر کے محشیٰ ﴿جو کہ غیر مقلد ہے﴾نے مجمع الزوائد کے حوالے سے لکھا ہے کہ اسکی سند میں یحییٰ بن سلیمان نضلة ہے جو کہ ضعیف ہے۔اسکاجواب یہ ہے کہ یہ جرح مبہم جو کہ طے شدہ اصولوں کے مطابق قبول نہیں۔علامہ ہیثمی علیہ الرحمت کی یہ جرح مبہم ہے اس لیے قابل قبول نہیں۔دوم امام  ا بن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ یحییٰ بن سلیمان رحمة اللہ علیہ کے بارے میں لکھتے ہیں۔


وذکرہ بن حبان فی الثقات﴿لسان المیزان ،جلد ٦ ص،۲٦١﴾ ۔


امام الحافظ عبداللہ بن عدی الجرجانی لکھتے ہیں۔


اس کی عام احادیث مستقیم ہیں﴿الکامل فی ضعفاءالرجال ،ج ۷ ص ۲۵۵﴾۔


ماخوذ از سعید الحق 


Link to comment
Share on other sites

دعا ہے کہ اللہ کریم آپ کو شائستہ انداز میں گفتگو کرنے کی توفیق عطا فرمائے 

میرے بھائی میرے مجہول ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے میں کوئی حدیث تو روایت کر نہیں رہا کہ میرے بارے میں ساری معلومات معلوم ہونا ضروری ہو ۔

 

بات تو دلیل کی ہے اور آپ کو جذباتی پن چھوڑ کر دلیل کا جواب دلیل سے دینا چاہئے ۔

 

آپ کے سوالات میں سے اکثر سوالات کے جواب بہت عرصہ پہلے اسی فورم میں کسی جگہ دے چکا ہوں 

یہ لنک چیک کر لیں 

 

http://www.islamimehfil.com/topic/19737-mustafvi-sahib-say-suwal/?hl=mustafvi

 

ویسے میرے خیال میں آپ کے سوالات بے مقصد ہیں 

دلیل سے بات کرنا سیکھیں 

 

(bis)

 

post-14217-0-83718000-1439564354_thumb.gif

Link to comment
Share on other sites

محترم جناب 

Qadri Sultani

 

 جہاں تک امام زرقانی کی یہ بات ہے کہ

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس وفد سے پہلے ان کی خبر و اطلاع دینا ،علامات نبوت میں سے بڑی واضح نشانی ہے۔راجز نے جو کچھ اپنے ذہن میں سوچا اور تصور کیا اسے وحی کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جان لیا یا انہوں نے اپنے دوستوں سے گفتگو کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے قبول کر کے فرمایا تمہاری مدد کو پہنچا۔اس نے یہ سارا کچھ دوران سفر کیا تو اللہ تعالٰی عزوجل نے انکی آمد کے تین دن پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنوا دیا اور اس میں کوئی بعد و پریشانی نہیں کیوں کہ امام ابو نعیم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان نقل کیا ہے کہ میں آسمانوں کی چڑچڑاہٹ سنتا ہوں اور ان کے چڑ چڑاھنے پر کوئی ملامت نہیں۔

 

 

تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور اسے نبی صلی اللہ علیہ کے معجزات میں سے شمار کیا جائے گا  کہ 

 آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ ہی میں بغیرکسی ظاہری واسطہ کے عمرو کی بات سنوا دی 

لیکن اس روایت سے جس کی صحت قابل بحث ہے اس سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا جو

 

Kilk-e-Raza

نے پوسٹ نمبر 5 میں نکالنے کی کوشش کی ہے 

Link to comment
Share on other sites

یہ حدیث مبارکہ صحیح ہے طبرانی کبیر کے محشیٰ ﴿جو کہ غیر مقلد ہے﴾نے مجمع الزوائد کے حوالے سے لکھا ہے کہ اسکی سند میں یحییٰ بن سلیمان نضلة ہے جو کہ ضعیف ہے۔اسکاجواب یہ ہے کہ یہ جرح مبہم جو کہ طے شدہ اصولوں کے مطابق قبول نہیں۔علامہ ہیثمی علیہ الرحمت کی یہ جرح مبہم ہے اس لیے قابل قبول نہیں۔دوم امام  ا بن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ یحییٰ بن سلیمان رحمة اللہ علیہ کے بارے میں لکھتے ہیں۔

وذکرہ بن حبان فی الثقات﴿لسان المیزان ،جلد ٦ ص،۲٦١﴾ ۔

امام الحافظ عبداللہ بن عدی الجرجانی لکھتے ہیں۔

اس کی عام احادیث مستقیم ہیں﴿الکامل فی ضعفاءالرجال ،ج ۷ ص ۲۵۵﴾۔

ماخوذ از سعید الحق 

 

 

میرے بھائی جرح مفسر تو آپ کو خال خال ہی نظر آئے گی ۔

زیادہ تر انہیں جروحات مبہم سے کام لیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ میں نے دو اور راویوں کا بھی میں ذکر کیا تھا ان پر بھی کچھ ارشاد فرمائیں

ابن حبان کی مکمل جرح لسان المیزان میں یوں ہے 

 

وذَكَره ابن حِبَّان في الثقات فقال: يخطىء ويهم.

میزان الاعتدال میں ہے 

قال أبو حاتم: يكتب حديثه، ليس هو بالقوى.

وقال البخاري: منكر الحديث.

لسان المیزان میں ہے 

 

وقال ابن عقدة: سَمِعتُ ابن خراش يقول: لا يسوى شيئا

Edited by Mustafvi
Link to comment
Share on other sites

AqeelAhmedWaqas

 برادر 

میں نے اپنے بارے کچھ نہیں چھپایا میں نے جس لنک کا ایڈریس دیا تھا اس میں کافی حد تک اپنے بارے میں معلومات فراہم کر چکا ہوں 

آپ نے پوچھا کہ اگر اس حدیث کو غیر ضعیف ثابت کر دیا جائے تو ؟

تو جناب اگر یہ حدیث صحیح ثابت بھی ہو جائے تو 

اسے نبی صلی اللہ علیہ کے معجزات میں سے شمار کیا جائے گا  کہ 

 آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ ہی میں بغیرکسی ظاہری واسطہ کے عمرو کی بات سنوا دی 

لیکن اس روایت سے  یہ نتیجہ نہیں نکلتا جو

 

Kilk-e-Raza

نے پوسٹ نمبر 5 میں نکالنے کی کوشش کی ہے 

Link to comment
Share on other sites

AqeelAhmedWaqas

 برادر 

میں نے اپنے بارے کچھ نہیں چھپایا میں نے جس لنک کا ایڈریس دیا تھا اس میں کافی حد تک اپنے بارے میں معلومات فراہم کر چکا ہوں 

آپ نے پوچھا کہ اگر اس حدیث کو غیر ضعیف ثابت کر دیا جائے تو ؟

تو جناب اگر یہ حدیث صحیح ثابت بھی ہو جائے تو 

اسے نبی صلی اللہ علیہ کے معجزات میں سے شمار کیا جائے گا  کہ 

 آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ ہی میں بغیرکسی ظاہری واسطہ کے عمرو کی بات سنوا دی 

لیکن اس روایت سے  یہ نتیجہ نہیں نکلتا جو

 

Kilk-e-Raza

نے پوسٹ نمبر 5 میں نکالنے کی کوشش کی ہے 

 

 

آپ نے ان کا جواب نہیں دیا

۔’’آپ بجائے غیر جانبدارانہ تحقیق کے غیرمقلدین کی سی روش پر ہیں‘‘۔

۔’’محترم کشمیر خان صاحب کے اعتراضات آپ پر اب بھی قائم ہیں‘‘۔

میں نے اپنے بارے کچھ نہیں چھپایا میں نے جس لنک کا ایڈریس دیا تھا اس میں کافی حد تک اپنے بارے میں معلومات فراہم کر چکا ہوں 

 

ایک طرف آپ کا یہ کہنا ہے کہ ’’اپنے بارے کچھ نہیں چھپایا‘‘ اور ساتھ ہی یوں کہہ دیا کہ ’’کافی حد تک اپنے بارے میں معلومات فراہم کر چکا ہوں‘‘۔ ’’کچھ نہیں‘‘ کا مقابل ’’کافی حد تک‘‘ بنتا ہے؟؟

 

تو جناب اگر یہ حدیث صحیح ثابت بھی ہو جائے تو

فی الحال اتنا بتائیں کہ

۔۔۔   جرح مبہم مقبول ہے یا غیر مقبول؟

۔۔۔   جرح و تعدیل میں تعارض ہو تو اس صورت میں آپ کسے قبول کریں گے؟

۔۔۔   اگر حدیث بلحاظ سند صحیح کے درجے سے کم اور ضعیف کے درجے سے زیادہ ثابت ہو جائے تو آپکا کیا رد عمل ہوگا؟

 

 

ہو جائے تواسے نبی صلی اللہ علیہ کے معجزات میں سے شمار کیا جائے گا  کہ 

 آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ ہی میں بغیرکسی ظاہری واسطہ کے عمرو کی بات سنوا دی 

سبحان اللہ!۔
یعنی اگر یہ حدیث غیر ضعیف ثابت ہو جائے تو اسے معجزہ مان لیں گے۔
کہنے کو تو بہت کچھ ہے مگر ابھی کیلئے صرف اتنا ہی:۔
۔۔۔   آپ نے اپنی پوسٹ نمبر ۹ اور ۱۱ میں صراحتا کہا ہے کہ فتح الباری کی روایت سے یہ بالکل ثابت نہیں ہوتا کہ وہ اشعار کہیں دور سے پڑھے گئے ، جبکہ اب آپ کہہ رہے ہیں کہ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ ہی میں بغیرکسی ظاہری واسطہ کے عمرو کی بات سنوا دی۔ اس پلٹا کھانے کی وجہ (آپ واضح طور پر اقرار کر رہے ہیں کہ واقعی وہ اشعار سامنے نہیں بلکہ تین دن کی دوری سے پڑھے گئے تھے!) ؟؟
۔۔۔   جناب! اس ٹاپک میں آپ استمداد پر اعتراض (یا نفی) کر رہے تھے یا معجزہ پر؟؟ آپ اتنی سی بات نہیں سمجھ پائے کہ آپکا یہ کلام خلط مبحث ہے۔
۔۔۔   جوازِ استمداد میں (آپ کے نزدیک غیر صحیح) ہماری دلیل فعلِ صحابی (دور سے اشعار پڑھ کر رسول اللہ ﷺ سے مدد طلب کرنا) تھی یا قدرتِ رسول (مدینۂ منورہ میں ہی رہتے ہوئے تین دن کی مسافت سے آواز بھی سننا، صحابی کا علم بھی ہونا، اس کے قبیلے کا بھی جان لینا، اسکا مقصد بھی معلوم ہونا وغیرہ)؟؟؟؟ آپ بیچ راہ میں یہ بھول گئے کہ ہماری دلیل آخر تھی کیا اور ٹاپک کیا تھا!۔ ہم نے کب اپنا مؤقف قدرتِ رسول سے ثابت کیا ہے جو آپ اسے مان کر ہم پر احسان کرنے چلے ہیں!۔
 
لیکن اس روایت سے  یہ نتیجہ نہیں نکلتا جو

Kilk-e-Raza

نے پوسٹ نمبر 5 میں نکالنے کی کوشش کی ہے 

 

 
۔۔۔    اب تک یہی بات سامنے آئی ہے کہ آپ کے عدم قبولِ استمداد کی علت ضعف روایتِ مذکورہ ہے۔ یعنی آپکا انکارِ استمداد معلول بہ علت ہے تو جب علت ہی نہ رہے گی (جیسے آپ نے ’’اگر‘‘ سے فرض کیا) پھر بھی آپ کے نزدیک اثباتِ استمداد نہ ہوگا!!۔ عجیب اُلٹی منطق ہے آپکی۔
آپ نے قدرتِ رسول و معجزۂ رسول کے زاویے سے تو مان لیا اگر روایت غیر ضعیف ثابت ہو جائے تو۔
مگر
اصل بات کو نظر انداز کر دیا کہ صحابئ رسول کے عمل مبارک سے کیا کیا امور ثابت ہوں گے اگر یہ روایت غیر ضعیف ثابت ہو جائے!!!!!۔
ذرا اس پر بھی روشنی ڈالیں۔ 
Edited by AqeelAhmedWaqas
Link to comment
Share on other sites

آپ نے ان کا جواب نہیں دیا

۔’’آپ بجائے غیر جانبدارانہ تحقیق کے غیرمقلدین کی سی روش پر ہیں‘‘۔

۔’’محترم کشمیر خان صاحب کے اعتراضات آپ پر اب بھی قائم ہیں‘‘۔

 

 

اس میں جواب دینے والی کیا بات ہے ؟ یہ خان صاحب کی میرے بارے ان کی اپنی رائے ہے 

خان صاحب کے اعتراضات اگر قائم ہیں تو وہ خود استفسار کر سکتے ہیں ۔

 

 

میں نے اپنے بارے کچھ نہیں چھپایا میں نے جس لنک کا ایڈریس دیا تھا اس میں کافی حد تک اپنے بارے میں معلومات فراہم کر چکا ہوں 

 

ایک طرف آپ کا یہ کہنا ہے کہ ’’اپنے بارے کچھ نہیں چھپایا‘‘ اور ساتھ ہی یوں کہہ دیا کہ’’کافی حد تک اپنے بارے میں معلومات فراہم کر چکا ہوں‘‘۔ ’’کچھ نہیں‘‘ کا مقابل ’’کافی حد تک‘‘ بنتا ہے؟؟

 

 

کچھ نہیں کا تعلق ان ہی معلومات سے ہے جو مجھ سے پوچھی گئی تھیں اور کچھ نہیں استغراق عرفی کے سینس میں ہے اور کافی حد تک کا یہی مفہوم ہے

کہ حتی الوسع

 

فی الحال اتنا بتائیں کہ

۔۔۔   جرح مبہم مقبول ہے یا غیر مقبول؟

۔۔۔   جرح و تعدیل میں تعارض ہو تو اس صورت میں آپ کسے قبول کریں گے؟

۔۔۔   اگر حدیث بلحاظ سند صحیح کے درجے سے کم اور ضعیف کے درجے سے زیادہ ثابت ہو جائے تو آپکا کیا رد عمل ہوگا؟

 

 

میرے بھائی زیادہ تکنیکی باتوں میں نہ جائیں کیوں کہ اس معاملے میں بھی علما، جرح و تعدیل کی آرا مختلف ہیں 

 

   آپ نے اپنی پوسٹ نمبر ۹ اور ۱۱ میں صراحتا کہا ہے کہ فتح الباری کی روایت سے یہ بالکل ثابت نہیں ہوتا کہ وہ اشعار کہیں دور سے پڑھے گئے ، جبکہ اب آپ کہہ رہے ہیں کہ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ منورہ ہی میں بغیرکسی ظاہری واسطہ کے عمرو کی بات سنوا دی۔ اس پلٹا کھانے کی وجہ (آپ واضح طور پر اقرار کر رہے ہیں کہ واقعی وہ اشعار سامنے نہیں بلکہ تین دن کی دوری سے پڑھے گئے تھے!) ؟؟

 

 

میرے بھائی اس طرح کے جوابات بطور فرض کے ہوتے ہیں 

 

اوپر ایک بھائی نے امام زرقانی کی چند توضیحات بیان کی تھیں 

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس وفد سے پہلے ان کی خبر و اطلاع دینا ،علامات نبوت میں سے بڑی واضح نشانی ہے۔راجز نے جو کچھ اپنے ذہن میں سوچا اور تصور کیا اسے وحی کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جان لیا یا انہوں نے اپنے دوستوں سے گفتگو کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے قبول کر کے فرمایا تمہاری مدد کو پہنچا۔اس نے یہ سارا کچھ دوران سفر کیا تو اللہ تعالٰی عزوجل نے انکی آمد کے تین دن پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنوا دیا اور اس میں کوئی بعد و پریشانی نہیں کیوں کہ امام ابو نعیم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان نقل کیا ہے کہ میں آسمانوں کی چڑچڑاہٹ سنتا ہوں اور ان کے چڑ چڑاھنے پر کوئی ملامت نہیں۔

 

 

اب ان توضیحات کو دیکھ لیں کہ یہی کنفرم نہیں ہو رہا کہ راجز نے اصل میں کیا کیا تھا ؟

جو کچھ اس کے ذہن نے سوچا اللہ نے وحی کے ذریعے بتا دیا 

 

یا اس نے اپنے دوستوں سے گفتگو کی

 

یا

 

 یہ سارا کچھ دوران سفر کیا تو اللہ تعالٰی عزوجل نے انکی آمد کے تین دن پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سنوا دیا  

 

اب یہاں سے کہاں ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دور دراز سے پکارنے اور ان سے مدد مانگنے کا عقیدہ رکھتے تھے ؟؟؟؟

 

 

اب راجز نے فرض کیا کوئی اشعار راستے میں پڑھے بھی تھے تو یہ کیسے معلوم ہو گا کہ وہ کس نیت و ارادے سے پڑھ رہا تھا 

کیا واقعی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارنا اور مدد مانگنا مقصود تھا 

یا

یہ صرف اس کے اضطراب کے اظہار کا طریقہ تھا ۔

 

تو میرے بھائی ایسی ضعیف روایات سے محض قیاس کی بنیاد پر عقیدے بنانا چھوڑ دیں 

 

اب تک آپ یہی فرما رہے ہیں کہ اگر یہ روایت غیر ضعیف ثابت ہو جائے تو 

 

تو بھائی اگر مگر کو چھوڑیں اور اس روایت کا غیر ضعیف ہونا ثابت فرما دیں 

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
×
×
  • Create New...