Jump to content

کشمیر خان صاحب کی خدمت میں


Khalil Rana

تجویز کردہ جواب

ہر بدعت گمراہی ہے۔
قرون ثلاثہ کی قید کی حقیقت
جواب نمبر۱:
تو اس کا جواب اپنے حکیم الامت سے سماعت کریں آپ کے حکیم الامت صاحب لکھتے ہیں
اگر بدعت کے یہ معنی ہیں جو ان حضرات نے سمجھے ہیں کہ جو چیز خیرا القرون میں نہ ہو۔ تو خیر القرون میں ان کا وجود بھی نہ تھا پس یہ مجسم بدعت ہوئے کیا خر ا فات ہے
آگے لکھتے ہیں
خیرالقرون میں نہ ہونا اب ہونا بدعت کو مستلزم نہیں۔(ملفوظات حکیم الامت ج ۲ ص ۹اا ملفوظ نمبر۱۵۸)
تو مجسم بدعت جناب مومن صاحب پہلی بات تو یہ کہ کسی عمل کا خیر القرون میں اس کو بدعت نہیں بناتا۔
ایسے ہی فتاوی دار العلوم زکریا میں مفتی رضا الحق لکھتا ہے
مثلا کوئی کہے کہ موجودہ ترتیب کے ساتھ مجالس ذکر اور عمل دعوت آنحضرت اور صحابہ نے نہیں کیا تو یہ بدعت ہے صحیح نہیں۔(ج۱ ص ۵ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ۱۷)
پھر فتاوی فریدیہ میں بدعت کی بحث کرتے ہوئے مفتی فرید کہتا ہے
جو چیز خیر القرون میں نہ بنفسہ ثابت ہو نہ با اصلہ ثابت ہو تو وہ بدعت سیۂ ہے۔اور جو بنفسہ ثابت نہ ہو۔لیکن با صلہ ثابت ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے۔(فتاوی فریدیہ ج۱ص۲۸۵)
پھر دیکھے آپ کے مولوی رشید احمد گنگوہی سے سوال ہوا کہ
سوال: کسی مصیبت کے وقت بخا ری شریف کا ختم کرانا قرون ثلاثہ سے ثابت ہے کہ نہیں اور بدعت ہے یا نہیں۔
اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ
الجواب: قرون ثلاثہ میں بخاری تالیف نہیں ہوئی تھی مگر اس کا ختم درست ہے کہ ذکر خیر کے بعد دعا قبول ہوتی ہے ۔اس کی اصل شرع سے ثابت ہے لہذا بدعت نہیں۔(فتاوی رشیدیہ حصہ دوئم ۸۹)
ان تمام عبارات سے واضح ہوگیا کہ قرون ثلا ثہ میں کسی چیز کا نہ ہونا بدعت کو ملتزم نہیں ۔اگر کسی چیز کی اصل ثابت ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے جو اصل میں سنت ہی ہے (فتاوی رشیدیہ ج۱ ص۸۸)
اب مولوی اشرف علی تھانوی قل بفضل اللہ و برحمتہ۔۔۔الخ کے تحت لکھتا ہے کہ
اور خو ب سمجھ لینا چاہیے کہ جب قرآن مجید میں خود حضور کے وجود با وجود کی نسبت ۔۔صیغہ امرفلیفر حو موجود ہے تو اس فر حت کو کون منع کرسکتا ہے غرض حضور کی ولادت شریفہ پر فرحت اور سرور کو کوئی منع نہیں کر سکتا۔(مواعظ میلاد النبی ص۹۵)
اسی طرح لکھتا ہے :
معلوم ہو ا کہ ولادت پر فرح ،جائز و موجب برکت ہے(۵۰)
تو جناب آپ کے رشید صاحب کہتے ہیں کہ ختم بخاری کی شرع ثابت ہے اس لیے بد عت نہیں اوئے عقل کے اندھے جب تیرے اشرف علی کے مطابق جشن میلاد خو د قرآن سے ثابت ہو گیا تو پھر یہ بدعت کیسے
Link to comment
Share on other sites

(bis)

کشمیر خان صاحب

آپ وھابیہ کے سوالات اس فورم پر دیتے ہیں

ایک ہمارا سوال بھی اُن سے کریں تاکہ وہ اس کا جواب دیں

 

bad mezhab najdee kieya jewaab da skta ha????!

wahaabi hona ka liyeay jaahil, wahayaaat, gusstaakh, khabeees honaa lazim ha aorr aek ehm baaat ka ghairat ka khaatma ka baaad hee koui wahaaaabii ban sektta ha.

pocchhoon ga wahabiyyio sa ka abb 3 qroon kee qaed kehaan ghaas charna gaei? imam bukhaari biddaati thay? unn ka iss ammal kee asl kidhr ha? bukhaaree parastee ku ha???

Link to comment
Share on other sites

ہر بدعت گمراہی ہے۔

قرون ثلاثہ کی قید کی حقیقت

جواب نمبر۱:

تو اس کا جواب اپنے حکیم الامت سے سماعت کریں آپ کے حکیم الامت صاحب لکھتے ہیں

اگر بدعت کے یہ معنی ہیں جو ان حضرات نے سمجھے ہیں کہ جو چیز خیرا القرون میں نہ ہو۔ تو خیر القرون میں ان کا وجود بھی نہ تھا پس یہ مجسم بدعت ہوئے کیا خر ا فات ہے

آگے لکھتے ہیں

خیرالقرون میں نہ ہونا اب ہونا بدعت کو مستلزم نہیں۔(ملفوظات حکیم الامت ج ۲ ص ۹اا ملفوظ نمبر۱۵۸)

تو مجسم بدعت جناب مومن صاحب پہلی بات تو یہ کہ کسی عمل کا خیر القرون میں اس کو بدعت نہیں بناتا۔

ایسے ہی فتاوی دار العلوم زکریا میں مفتی رضا الحق لکھتا ہے

مثلا کوئی کہے کہ موجودہ ترتیب کے ساتھ مجالس ذکر اور عمل دعوت آنحضرت اور صحابہ نے نہیں کیا تو یہ بدعت ہے صحیح نہیں۔(ج۱ ص ۵ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ۱۷)

پھر فتاوی فریدیہ میں بدعت کی بحث کرتے ہوئے مفتی فرید کہتا ہے

جو چیز خیر القرون میں نہ بنفسہ ثابت ہو نہ با اصلہ ثابت ہو تو وہ بدعت سیۂ ہے۔اور جو بنفسہ ثابت نہ ہو۔لیکن با صلہ ثابت ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے۔(فتاوی فریدیہ ج۱ص۲۸۵)

پھر دیکھے آپ کے مولوی رشید احمد گنگوہی سے سوال ہوا کہ

سوال: کسی مصیبت کے وقت بخا ری شریف کا ختم کرانا قرون ثلاثہ سے ثابت ہے کہ نہیں اور بدعت ہے یا نہیں۔

اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ

الجواب: قرون ثلاثہ میں بخاری تالیف نہیں ہوئی تھی مگر اس کا ختم درست ہے کہ ذکر خیر کے بعد دعا قبول ہوتی ہے ۔اس کی اصل شرع سے ثابت ہے لہذا بدعت نہیں۔(فتاوی رشیدیہ حصہ دوئم ۸۹)

ان تمام عبارات سے واضح ہوگیا کہ قرون ثلا ثہ میں کسی چیز کا نہ ہونا بدعت کو ملتزم نہیں ۔اگر کسی چیز کی اصل ثابت ہو تو وہ بدعت حسنہ ہے جو اصل میں سنت ہی ہے (فتاوی رشیدیہ ج۱ ص۸۸)

اب مولوی اشرف علی تھانوی قل بفضل اللہ و برحمتہ۔۔۔الخ کے تحت لکھتا ہے کہ

اور خو ب سمجھ لینا چاہیے کہ جب قرآن مجید میں خود حضور کے وجود با وجود کی نسبت ۔۔صیغہ امرفلیفر حو موجود ہے تو اس فر حت کو کون منع کرسکتا ہے غرض حضور کی ولادت شریفہ پر فرحت اور سرور کو کوئی منع نہیں کر سکتا۔(مواعظ میلاد النبی ص۹۵)

اسی طرح لکھتا ہے :

معلوم ہو ا کہ ولادت پر فرح ،جائز و موجب برکت ہے(۵۰)

تو جناب آپ کے رشید صاحب کہتے ہیں کہ ختم بخاری کی شرع ثابت ہے اس لیے بد عت نہیں اوئے عقل کے اندھے جب تیرے اشرف علی کے مطابق جشن میلاد خو د قرآن سے ثابت ہو گیا تو پھر یہ بدعت کیسے

jannaab g.

thaanvee maloon, gangoohi khabees aorr inn ka aznaab qattaan murtadd ha.

mara inn sa koui talluq nah ha.

mojhh par yee kuttay mtt thonpainn.

jo imam ahmad raza alaahadrat ka nahee, woh hmarraa kasay ho sakktaa ha??

ma sunni ho, thaa, aorr rahoon gaa!!

maray nzddik biddaat ke bht see qismay ha. aorr ma biddat_i_hasanaa ka az_qbeel_i_sunnat jaanta maanta honn.

maslak_i_alaahadrt zendabaaad!!!

Link to comment
Share on other sites

jo imam ahmad raza alaahadrat ka nahee, woh hmarraa kasay ho sakktaa ha??

 

tanz apki bat bat se tapakta hay. yahan per jumlaa yon hona chahye tha.

 

Jo Allah ke Nabi (saw) ka nahi, woh hamara kesay ho sakta hay.

 

Alahazrat (ra) bhi tu mere Aaqa (saw) ke ghulam hain, is lye Aala ho gaye. Aala kerne wale ko jo manta hay asal iman dar wohi hay. Khud Alahazrat fermate hain.

 

Aur tum pr mere Aaqa (saw) ki inayat na sahi

Najdiyo kalima pedhane ka bhi ehsan gaya

 

Uff re munkir ye bedha josh e taasub aakhir

Bheed men hath se kambakht ke iman gaya

 

Unhen jana unhen mana na rakha ghair se kam

Lilah il hamd main dunya se musalman gaya

Edited by Kilk-e-Raza
Link to comment
Share on other sites

tanz apki bat bat se tapakta hay. yahan per jumlaa yon hona chahye tha.

 

Jo Allah ke Nabi (saw) ka nahi, woh hamara kesay ho sakta hay.

 

Alahazrat (ra) bhi tu mere Aaqa (saw) ke ghulam hain, is lye Aala ho gaye. Aala kerne wale ko jo manta hay asal iman dar wohi hay. Khud Alahazrat fermate hain.

 

Aur tum pr mere Aaqa (saw) ki inayat na sahi

Najdiyo kalima pedhane ka bhi ehsan gaya

 

Uff re munkir ye berda josh e taasub aakhir

Bheed men hath se kambakht ke iman gaya

داد دینی پڑے گی آپ کی سمجھ کی۔۔۔

جب آپکی نظر میرے عیب ہی ڈھونڈنے پر تلی ہے تو میری ٹھیک بات بھی الٹی لگتی ہےے۔

آپ نے میرے لکھے ہوئ پر جو اعتراض کیا ، اپنے اعتراض کو مبرہن تو کر دیجے۔

میرے سید میرے رہنما میرے آقا میرے مولا اعلیحضرت عظیم المرتبت عشق رسول میں نہایت اعلی مقام پر ہیں اور وہ فنا فی الرسول کے مرتبے پر آب و تاب سے فائز ہیں

تو اگر میں نے اس طرح لکھا تو آپ کو کیا اعتراض ہے؟؟؟؟

میں تھک طکا ہوں آپ کے فضول اعترضات پر۔۔۔

ْْْْْْْْ۔ْ۔۔۔ْ۔

آپ بتائیں با دلیل کہ کیا یوں کہنا لکھنا ٹھیک نہیں ،،جو اعلیضرت کا نہیں ، وہ ہمارا نہیں،،ا

Link to comment
Share on other sites

bar e aazam africa ke hisse men rehne wala africi musalman jis ne aalahazrat ka naam tak nahi suna, mager us ke aqaid theek hain tu main usse apna bhai manta hoon.. or 7 samunder par aik bandah jis ne aalahazrat ka naam tak nahi sunna mager uske aqaid wahabion ya shiyon wale hain, main usko jahanum ka kutta manta hoon.

Link to comment
Share on other sites

bar e aazam africa ke hisse men rehne wala africi musalman jis ne aalahazrat ka naam tak nahi suna, mager us ke aqaid theek hain tu main usse apna bhai manta hoon.. or 7 samunder par aik bandah jis ne aalahazrat ka naam tak nahi sunna mager uske aqaid wahabion ya shiyon wale hain, main usko jahanum ka kutta manta hoon.

محترم بھائی صاحب!۔

یہ دونوں باتیں اپنی جگہ ٹھیک ہیں۔

ناچیز نے یہ عرض کرنا ہے کہ براعظم افریقہ یا سات سمندر پار جو بندہ رہ رہا ہے چاہے وہ اعلیحضرت مجدد دین و ملت امام اہل سنت کو نام مبارک سے جانتا ہے یا نہیں جانتا ، پھر بھی وہ اعلیحضرت کا ہی ہے اس وقت تک کہ جب تک اس کے عقائد و نظریات خلاف اسلام نہ ہوں!!۔

ناچیز نے دارالافتاء اہلسنت سے بذریعہ فون سُوال کیا اسی حوالے سے تو مُفتی صاحب قبلہ نے یہی جواب عنایت فرمایا جو اوپر لکھا گیا۔ساتھ ہی اسکا بھی مُفتی صاحب مدظلہ العالی سے پوچھا کہ ایسا کہنا شرعا کیسا ہے ’’جو اعلیحضرت کا نہیں ، وہ ہمارا نہیں‘‘ تو قبلہ مُفتی صاحب نے ارشاد فرمایا کہ (مفہوم) فی زمانہ مسلک اعلیحضرت جو کہا جاتا ہے اور مشہور ہے تو در حقیقت یہ اہل سنت و جماعت کا ہی نام ہے۔لہذا ایسا کہنا شرعََا جائز ہے۔ مسلک اعلیحضرت اہل سنت و جماعت کے عقائد و نظریات کو عرف میں کہا جاتا ہے تو جس کے عقائد اہل سنت والے ہوئے وہی ہمارا ہے اور جو اہل سنت کے عقائد سے ہٹ گیا تو وہ ہمارا نہیں ہو سکتا!!َ۔

Link to comment
Share on other sites

bad mezhab najdee kieya jewaab da skta ha????!

wahaabi hona ka liyeay jaahil, wahayaaat, gusstaakh, khabeees honaa lazim ha aorr aek ehm baaat ka ghairat ka khaatma ka baaad hee koui wahaaaabii ban sektta ha.

pocchhoon ga wahabiyyio sa ka abb 3 qroon kee qaed kehaan ghaas charna gaei? imam bukhaari biddaati thay? unn ka iss ammal kee asl kidhr ha? bukhaaree parastee ku ha???

محترم جناب کشمیر خان صاحب!۔

جب کبھی نجدیوں سے پالا پڑے تو ان سے یہ بھی پوچھیے گا کہ

 

تم جیسے عقیدے والے لوگ قرونِ ثلثہ میں موجود تھے یا نہیں؟ اگر کہیں کہ موجود تھے تو پوچھیں کہ اُن میں سے کتنے لوگ تمہاری طرح ابنِ تیمیہ اور البانی کے فدائی تھے ، اگر کہیں کہ موجود نہ تھے تو پھر آپ ان سے پوچھیں کہ تمہاری بدعت کی اپنی تعریف کہ مطابق تم خود بدمذہب ٹھرتے ہو (کیونکہ تمہارے جیسے عقیدے تو قرونِ ثلثہ میں کسی مسلمان کے نہ تھے اور تھے بھی سہی تو حرقوص بن زہیر یعنی ذوالخویصرہ تمیمی کے تھے)۔

 

کتنے مسلمانوں نے قرونِ ثلثہ میں ۶ کلمے خاص طور پر یاد کیے؟

 

کس کس نے قرونِ ثلثہ میں انگریزوں کو خط لکھ کر اپنا نام اہلحدیث الاٹ کروایا؟
 
کس کس نے قرونِ ثلثہ میں اشرف علی تھانوی کو حکیم الامت کہا؟
 
کس کس نے قرونِ ثلثہ میں کتاب تقویۃ الایمان لکھی ، چھاپی اور اسے اچھا کہا؟
 
کس کس نے یہ اُصول قرونِ ثلثہ میں مانا یا بنایا کہ ’’جو کام قرونِ ثلثہ میں نہ ہوا، وہ شریعت میں ناجائز و حرام ہے‘‘۔
 
خلیفۂ اوّل اَفضَلُ البَشَر بَعدَ الانبیاء سیدُنا حضرت ابوبکر صدیق اور خلیفۂ ثانی فارقِ حق و باطل سیدُنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنھما نے جمعہ کے لیے ایک ہی اذان برقرار رکھی مگر خلیفۂ ثالث ذی النورین سیدُنا حضرت عُثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ایک کی بجائے دو اذانوں کا نظام کس اُصول کی روشنی میں مقرر فرمایا؟ جب سید الانبیاء و المرسلین شفیع المذنبین محبوب ربّ العالمین سیدنا محمد مصطفے احمد مجتبی علیہ افضل الصلوۃ و السلام اور پہلے دو خلفائے راشدین نے یہ کام نہیں کیا تھا تو خلیفۂ ثالث ذی النورین سیدُنا حضرت عُثمان غنی رضی اللہ عنہ نے یہ جانتے ہوئے بھی ایسا کیوں کیا؟
 
اگر کسی کام کا جواز یا عدم جواز محض اس کے قرونِ ثلثہ میں پائے یا نہ پائے جانے سے ہوتا تو پھر ایسا کیوں نہیں ہے کہ خاص قرونِ ثلثہ کی تاریخ کی ایک کتاب لکھ کر نجدی شائع کریں اور بخاری و مسلم وغیرہ کتبِ حدیث سے اور ابن تیمیہ و البانی کے فرمودات سے اور اسماعیل دہلوی کی تقویۃ الایمان سے اور اپنے متاخرین کے فتاوی سے قطعا لا تعلق ہو کر اپنے تمام معاملات اسی کتابِ تاریخ کے مطابق عمل میں لائیں؟
 
محفل میلاد کو کس کس نے قرون ثلثہ میں ناجائز کہا ہے اور سیرتُ النبی کے جلسوں کو کس کس نے قرونِ ثلثہ میں جائز کہا ہے؟
 
قرونِ ثلثہ میں لوگ قرآن و سنت پر عمل کرتے تھے یا اپنی مرضی سے حلال حرام ٹھہرا لیتے تھے ؟
 
اگر کوئی نیا مسٔلہ پیش آ جاتا تو اسے قرآن و سنت و اجماع و قیاس سے حل کرتے تھے یا محض قرون ثلثہ میں ہونے کی وجہ سے اسے جائز قرار دیتے تھے؟ اگر کہیں کہ قرآن و سنت سے حل کرتے تھے تو پھر پوچھیں کہ کیا اہلسنت کے معمولات کے اُصول قرآن و سنت میں موجود ہیں یا نہیں؟ اگر کہیں کہ موجود نہیں ہیں تو پوچھیں کہ عقیدۂ واسطیہ میں ابن تیمیہ نے اہلسنت کو ہی اہل اسلام کیوں گردانا ہے؟؟ اور اگر کہیں کہ محض قرونِ ثلثہ میں ہونے کی وجہ سے وہ نئے مسائل کو جائز مان لیتے تھے تو اب دو باتیں ان سے پوچھیں کہ اس پر کوئی دلیل تو لاؤ اور اگر ایسا ہی تھا تو حجاج کے مظالم کو کیوں ناجائز کہا گیا جبکہ وہ بھی تو اسی دور میں ہوئے تھے؟؟ 
Edited by AqeelAhmedWaqas
Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...