Jump to content

شرک کے حوالے سے اہلحدیثوں کے اعتراضات اور میرے سوالوں کا جواب چاہیے


kashmeerkhan

تجویز کردہ جواب

یہ نجدیوں لعینوں کے مضامین میں سے ہے۔ اسکا حتمی جواب چاہیے

''شرک تو صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو واجب الوجود مانا جائے یا اُس کی کسی صفت کو قدیم اور مستقل بالذات مانا جائے یا اس کو مستحقِ عبادت قرار دیا جائے۔ اس کے سوا کوئی قول اور فعل شرک نہیں ہے۔'' (نعمۃ الباري في شرح صحیح البخاري:۲؍۱۸۵)

 

شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ رقم طراز ہیں:

''واعلم أن للتوحید أربع مراتب: إحداھا حصر وجوب الوجود فیه تعالیٰ فلا یکون غیرہ واجبًا۔ والثانیة حصر خلق العرش والسموات والأرض وسائر الجواھر فیه تعالیٰ وھاتان المرتبتان لم تبحث الکتب الالھیة عنھما ولم یخالف فیھما مشرکوا العرب ولا الیھود ولا النصارٰی بل القرآن ناص علی أنھما من المقدمات المسلمة عندھم''

''تو جان لے یقینا توحید کے چار درجے ہیں:پہلا یہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی میں واجب الوجود ہونے کی صفت پائی جاتی ہے پس اس کے سوا واجب الوجود کوئی نہیں ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ ہی عرش، آسمانوں، زمینوں اور تمام جواہر کا خالق ہے۔ (یاد رہے کہ) آسمانی کتابوں نے ان دو مراتب سے بحث نہیں کی اور نہ ہی مشرکینِ عرب اور یہود و نصاریٰ نے ان میں اختلاف کیاہے بلکہ قرآنِ پاک کی اس پر نص قطعی ہے کہ ان کے نزدیک یہ دونوں باتیں مسلمات میں سے ہیں۔'' (حجۃ اﷲ البالغۃ:۱؍۵۹)

مشرکینِ عرب اپنے معبودانِ باطلہ کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق و ملکیت مانتے تھے اور ان کی صفات و اختیارات اور قوت کو قدیم اور مستقل بالذات نہیں مانتے تھے بلکہ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ صفات و اختیارات ان کے ذاتی نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی عطا کردہ ہیں اُسی کی ملکیت اور اُس کے ماتحت ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے، فرماتے ہیں:

کان المشرکون یقولون لبیك لا شریك لك قال فیقول رسول اﷲ ﷺ: ویلکم قدٍ قدٍ فیقولون: إلا شریکًا ھو لك تملکه وما مَلَك۔یقولون ھذا وھم یطوفون بالبیت (صحیح مسلم:۱۱۸۵)

''مشرکین بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے کہتے تھے:''لبیک لا شریک لک'' تو رسول اللہ1 فرماتے: ''ہلاکت ہو تمہارے لیے، اسی پر اکتفا کرو'' لیکن وہ کہتے ''إلا شریکًا ھو لک تملکہ وما مَلَک'' یعنی ''اے اللہ! تیرا کوئی شریک نہیں مگر ایسا شریک جو تیرے لیے ہے، تو اس شریک کا بھی مالک ہے اور اس چیز کا بھی مالک ہے جو اس شریک کے اختیار میں ہے۔''

مشرکین مکہ تقربِ الٰہی اور سفارش کے لئے دوسروں کو شریک کرتے تھے!

مشرکین عرب اپنے معبودوں کی پرستش اس لیے کرتے تھے کہ ان کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل ہوجائے یا اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ ہماری سفارش کریں، ان کو مستحق عبادت سمجھ کر ان کی پوجا نہیں کرتے تھے، کیونکہ سفارشی مستقل نہیں ہوتابلکہ غیر مستقل ہی ہوتا ہے

مجھے ان اعتراضوں کے شرعی جواب چاہیئیں۔

میری دماغی حالت ایسی ہے فی الحال کے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔۔ میں نے شاید کچھ سوالوں کو دہرا بھی دیا قدرے مختلف الفاظ سے۔۔ بدیہی بات بھی کہیں سمجھ نہیں سکا۔۔۔

و العذر عند کرام الناس مقبول

 

 

۱

شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی بات کا جاننا ہے کہ کیا واقعی اہل کتاب و مشرکین نے اللہ تعالی کو ہی واجب الوجود اور خالق کل شی مانا ہے اور اسمیں اختلاف نہیں کیا؟

۲

نجدیوں کی اس بات کا کیا جواب ہوگا کہ مشرکین اپنے بتوں کو اللہ کی مخلوق اور ملکیت مانتے تھے

۳

نجدیوں خبیثوں کی اس بات کا جواب کہ مشرکین کے جھوٹے معبودوں کے پاس جو اختیارات مانتے تھے، وہ اللہ کی عطا سے مانتے تھے

۴

نجدی لعینوں کا یہ اعتراض کہ مشرکین اپنے جھوٹے معبودوں کی پرستش ان  کو مستحق عبادت مان کر نہیں کرتے تھے

۵

یہ بات مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ جب مشرکین اپنے بتوں کو قدیم اور مستقل بالذات مانتے تھے تو پھر انہیں مملوک کیوں مانتے تھے؟

۶

اگر ایک بندہ پتھر کا ایک بت بنائے اور پھر یہ عقیدہ رکھے کہ اس بت کے پاس اللہ کی طرف سے عطا کردہ نفع و نقصان پہنچانے کی قوت ہے، تو کیا ایسا بندہ مشرک ہوگا یا نہیں؟

۷

کیا کسی کو واجب الوجود ماننا اسے الٰہ ماننا ہے؟ اور کیا کسی کو مستقل بالذات ماننا اسے الٰہ ماننا ہے؟

۹

ایک ٹوپک میں سیدی سعیدی صاحب نے لکھا تھا کہ ’’کسی غیرمستحق کو عبادت کے لائق ماننا اُسے الٰہ ماننا ہے۔‘‘ تو اللہ پاک کو مستحق عبادت ماننا سے الٰہ ماننا ہوگا؟

۱۰

اسی ٹوپک میں میرے سید علامہ سعیدی صاحب نے یہ بھی بیان فرمایا کہ ’’آپ نے الٰہ ماننے سے واجب الوجودماننا لازم سمجھا۔

آپ نے واجب الوجودماننے کوالٰہ ماننے کی شرط کادرجہ دیا۔وہ الٰہ برحق ماننے کی شرط ضرور ہے۔مطلق معبود

ماننے کی شرط ہرگزنہیں۔اس  کومطلق الٰہ ماننے کی شرط سمجھنا بھی آپ نے غلط سمجھا۔

  مجھے یہ پوچھنا ہے کہ مطلق معبود ماننے کی شرط کیا ہے؟ (جب کوئی کسی غیرخدا کو واجب الوجود مانے گا تو اسے الہ مان رہا ہوگا یا نہیں)؟ نیز گلشن توحید و رسالت جلد اول صفحہ ۴۰۰ اور ۴۰۱ پر میرے سید علامہ اشرف صاحب سیالوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ’’کسی کو الہ ماننے سے اسکے لیے عظمت ذاتی ماننا لازم ہے‘‘۔ کیا واجب الوجود ماننا اور عظمت ذاتی ماننا ایک ہی بات ہے یا نہیں اور گلشن توحید و رسالت کی مذکورہ بات کا اصل معنی و مفہوم بھی بیان فرمائیں۔

 

post-16911-0-24883600-1442209224_thumb.png

 

post-16911-0-78523700-1442209218_thumb.png

۱۱

ایس ٹوپک میں میرے شیخ جناب سعیدی صاحب نے ذکر فرمایا کہ ’’آپ نے محض

عطائی نہ مانناہی استقلال ذاتی سمجھا۔یہ بھی آپ غلط سمجھے۔‘‘ اسکی بھی مجھے سمجھ نہیں آ رہی۔۔جب اختیارات کو عطائی نہیں مانا جائے گا تو اسطرح وہ اختیارات ذاتی ثابت نہیں ہوں گے؟ اور یوں استقلال ثابت نہیں ہوگا؟

۱۲

اگلے صفحے پر مزید فرمایا میرے سید نے ’استقلال ذاتی ماننا تب ہوتاہے جب باذن اللہ کی قید کے بغیرمانا جائے۔‘‘ اس سے متعلق مجھے یہ پتہ کرنا ہے کہ اگر باذن اللہ کی قید سے مانا جائے مگر عطائی نہیں بلکہ ذاتی، تو اب شرک ہوگا یا نہیں؟

۱۳

میرے قابل صد احترام جناب خلیل رانا صاحب نے اسی ٹوپک میں اپنی پوسٹ میں تحریر فرمایا کہ ’’جب مشرکین نے اپنے بتوں کو الہ مان لیا تو کیا خدائی اختیارات کے بغیر الہ مان لیا‘‘ یعنی خدائی اختیارات مانے بغیر کسی کو الہ ماننا ناممکن ہے؟

۱۴

اگر کوئی شخص اپنے جھوٹے معبود کیلئے یہ مانے کہ ’’میرے بت جسے میں نے اپنا معبود بنایا ہوا ہے، کے پاس اختیارات باذن اللہ ہیں‘‘ اور ایک دوسرا شخص اپنے جھوٹے معبود کے متعلق یہ کہے ’’میں نے اپنے بت جسے میں نے اپنا معبود بنایا ہوا ہے، کے پاس اختیارات اللہ کی عطا سے ہیں‘‘ کیا ان دونوں اشخاص کے اقوال کا معنی و مطلب بعینہ ایک ہی ہے اور دونوں کا ایک ہی شرعی حکم ہے اور دونوں شرک کے مرتکب ہوئے یا نہیں اور دونوں نے کفر کیا یا نہیں؟؟

۱۵

اگر باذن اللہ کی قید سے غیر اللہ کے اختیارات مقید مانے جائیں تو اب شرک ہرگز نہیں ہوسکتا۔ لیکن اگر غیر اللہ کے اختیارات کو اللہ کی عطا کی قید سے مقید مانا جائے تو اب شرک ہو سکتا ہے؟؟؟

۱۶

باذن اللہ اور بعطا اللہ کا مفاد ایک ہی ہوتا ہے اس باب میں؟

۱۷

نجدیوں نے حدیث تلبیہ کا ترجمہ درست کیا ہے یا وما ملک کا ترجمہ اس چیز کا بھی مالک ہے جو اس شریک کے اختیار میں ہے

 کرتے ہوئے غلطی کی ہے؟ اگر غلطی ہے تو نشاندہی فرمائیں اور درست ترجمہ بھی عنایت فرما دیں اگر ہو سکے تو نجدیوں اہلحدیث کی معتبر کتاب سے۔

۱۹

نجدیوں نے مملوک ہونے سے ماذون ہونا مراد لیا ہے (ما تملکہ و ما ملک کے الفاظ سے)۔انکے اس اصول کا رد چاہیے دلائل شرعیہ سے۔ 

۲۰

مشرکین مکہ وغیرہ کا اصل شرک آخر تھا کیا؟ ان کے شرک کی کیا کیا اقسام تھیں؟

۲۱

اس بات کی کیا دلیل ہے کہ مشرکین مکہ اپنے جھوٹے معبودوں کیلئے استقلال ذاتی مانتے تھے یا انہیں واجب الوجود مانتے تھے؟ (جبکہ تلبیہ میں وہ انہیں مملوک بھی مان رہے تھے)۔پلیز اسکا بھی بتائیں۔،۔،۔

Edited by kashmeerkhan
Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
×
×
  • Create New...