Jump to content

دیوبندیو کیا امام حافظ ابن حجر عسقلانی بھی بریلوی تھے؟؟؟ جو میلاد شریف کے جواز پہ دلیل قائم کر رہے ہیں


Syed Kamran Qadri

تجویز کردہ جواب

امام حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں میلاد
ابن حجرعسقلانی کی شخصیت کے متعلق سیدی اعلیحضرت علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں
میری نظر میں امام ابنِ حجر عسقلانی شارحِ صحیح بخاری(علیہ رحمۃ اللہ الباری) کی وُقعت (یعنی عظمت) اِبتداء ًامام بدر الدین محمود عینی شار ح صحیح بخاری (علیہ رحمۃ اللہ الباری)سے زیادہ تھی ۔''فُضلاتِ شریفہ'' کی طہارت کی بحث ان دونوں صاحبوں نے کی ہے۔ امام ابنِ حجر ( رحمۃ اللہ علیہ)نے اَبْحَاثِ مُحَدِّثانہ لکھی ہیں،امام عینی ( رحمۃ اللہ علیہ)نے بھی شرح بخاری میں اس بحث کو بہت بَسْط( یعنی تفصیل) سے لکھا ہے۔ آخر میں لکھتے ہیں کہ ''یہ سب کچھ اَبحاث ہیں۔ جو شخص طہارت کا قائل ہو اُس کو میں مانتا ہوں اور جو اس کے خلاف کہے اس کے لیے میرے کان بہرے ہیں، میں سنتا نہیں ۔''
(عمدۃ القاری،کتاب الوضو، باب الماء الذی یغسل بہ شعر الانسان ،ج۲،ص ۴۸۱وفتح الباری کتاب الوضو،باب الماء الذی یغسل بہ شعر الانسان،ج۲،ص۲۴۶)
یہ لفظ ان کی کمالِ محبت کو ثابت کرتا ہے اور میرے دل میں ایسا اثر کر گیا کہ ان کی وُقعت
(یعنی عظمت)بہت ہوگئی۔ (ملفوظات اعلیحضرت ص 458)
شارحِ صحیح البخاری حافظ شہاب الدین ابو الفضل احمد بن علی بن حجر عسقلانی نے عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شرعی حیثیت واضح طور پر متحقق کی ہے اور یوم میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منانے کی اِباحت پر دلیل قائم کی ہے۔ حافظ اِبن حجر عسقلانی کا اِستدلال نقل کرتے ہوئے اِمام جلال الدین سیوطی (849۔ 911ھ) لکھتے ہیں :
وقد سئل شيخ الإسلام حافظ العصر أبوالفضل ابن حجر عن عمل المولد، فأجاب بما نصه : قال :
وقد ظهر لي تخريجها علي أصل ثابت، وهو ما ثبت في الصحيحين من : ’’أن النبي صلي الله عليه وآله وسلم قدم المدينة، فوجد اليهود يصومون يوم عاشوراء، فسألهم، فقالوا : هو يوم اغرق اﷲ فيه فرعون، ونجي موسي، فنحن نصومه شکرًا  ﷲ تعالي.
فيستفاد منه فعل الشکر ﷲ تعالي علي ما منَّ به في يوم معين من إسداء نعمة، أو دفع نقمة، ويعاد ذلک في نظير ذلک اليوم من کل سنة.
والشکر ﷲ تعالي يحصل بأنواع العبادات کالسجود والصيام والصدقة والتلاوة، وأيّ نعمة أعظم من النعمة ببروز هذا النبي صلي الله عليه وآله وسلم الذي هو نبي الرحمة في ذلک اليوم.
وعلي هذا فينبغي أن يتحري اليوم بعينه، حتي يطابق قصة موسي عليه السلام في يوم عاشوراء.
ومن لم يلاحظ ذلک لا يبالي بعمل المولد في أيّ يوم في الشهر، بل توسَّع قوم حتي نقلوه إلي يوم من السنة. وفيه ما فيه. فهذا ما يتعلق بأصل عمل المولد.
وأما ما يُعمل فيه فينبغي أن يقتصر فيه علي ما يفهم الشکر ﷲ تعالي من نحو ما تقدم ذکره من التلاوة، والإطعام، والصدقة، وإنشاد شيء من المدائح النبوية والزهدية المحرکة للقلوب إلي فعل الخيرات والعمل للآخرة.
’’شیخ الاسلام حافظ العصر ابو الفضل ابن حجر سے میلاد شریف کے عمل کے حوالے سے پوچھا گیا تو آپ نے اس کا جواب کچھ یوں دیا :
’’مجھے میلاد شریف کے بارے میں اصل تخریج کا پتہ چلا ہے۔ ’’صحیحین‘‘ سے ثابت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہود کو عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا : ایسا کیوں کرتے ہو؟ اس پر وہ عرض کناں ہوئے کہ اس دن ﷲ تعالیٰ نے فرعون کو غرق کیا اور موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی، سو ہم ﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں شکر بجا لانے کے لیے اس دن کا روزہ رکھتے ہیں۔
’’اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ ﷲ تعالیٰ کی طرف سے کسی اِحسان و اِنعام کے عطا ہونے یا کسی مصیبت کے ٹل جانے پر کسی معین دن میں ﷲ تعالیٰ کا شکر بجا لانا اور ہر سال اس دن کی یاد تازہ کرنا مناسب تر ہے۔
’’ﷲ تعالیٰ کا شکر نماز و سجدہ، روزہ، صدقہ اور تلاوتِ قرآن و دیگر عبادات کے ذریعہ بجا لایا جا سکتا ہے اور حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے بڑھ کر ﷲ کی نعمتوں میں سے کون سی نعمت ہے؟ اس لیے اس دن ضرور شکرانہ بجا لانا چاہیے۔
’’اس وجہ سے ضروری ہے کہ اسی معین دن کو منایا جائے تاکہ یومِ عاشوراء کے حوالے سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ سے مطابقت ہو۔
’’اور اگر کوئی اس چیز کو ملحوظ نہ رکھے تو میلادِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل کو ماہ کے کسی بھی دن منانے میں حرج نہیں بلکہ بعض نے تو اسے یہاں تک وسیع کیا ہے کہ سال میں سے کوئی دن بھی منا لیا جائے۔ پس یہی ہے جو کہ عملِ مولد کی اصل سے متعلق ہے۔
’’جب کہ وہ چیزیں جن پر عمل کیا جاتا ہے ضروری ہے کہ ان پر اکتفا کیا جائے جس سے شکرِ خداوندی سمجھ آئے۔ جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ (ان میں) ذکر، تلاوت، ضیافت، صدقہ، نعتیں، صوفیانہ کلام جو کہ دلوں کو اچھے کاموں کی طرف راغب کرے اور آخرت کی یاد دلائے (وغیرہ جیسے اُمور شامل ہیں)۔‘‘
1. سيوطي، حسن المقصد في عمل المولد : 63، 64
2. سيوطي، الحاوي للفتاوي : 205، 206
3. صالحي، سبل الهديٰ والرشاد في سيرة خير العباد صلي الله عليه وآله وسلم ، 1 : 366
4. زرقاني، شرح المواهب اللدنية بالمنح المحمدية، 1 : 263
5. احمد بن زيني دحلان، السيرة النبوية، 1 : 54
6. نبهاني، حجة اﷲ علي العالمين في معجزات سيد المرسلين صلي الله عليه وآله وسلم : 237
post-16668-0-99874600-1450492260_thumb.jpg
post-16668-0-86642700-1450492314_thumb.jpg
post-16668-0-27797000-1450492369_thumb.jpg
post-16668-0-95566900-1450492418_thumb.jpg
post-16668-0-35877600-1450492423_thumb.jpg
post-16668-0-24424100-1450492427_thumb.jpg
 

 

Edited by Syed Kamran Qadri
Link to comment
Share on other sites

امام ابنِ حجر عسقلانی اور امام جلال الدین سیوطی کو چھوڑ کر آج کے محدث ومفتی و فقہا کہاں جائیں گے۔ اگر انہوں نے میلاد شریف پر دلائل قائم کیے ہیں، تو یہ ان کے دلائل اس بات کر سند ہیں کہ میلاد شریف کا بابرکت عمل اس وقت بھی رائج العمل تھا، اور الحمدللہ آج اہلسنت سلف صالحین کے منہج پر عمل پیرا ہے۔ ثم الحمدللہ۔ 


Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...