Jump to content

Urs Syeda Khadeeja - 10 Ramadan


Qaseem

تجویز کردہ جواب

تعارف سیدہ خدیجہ

اہل مکہ کے سب سے زیادہ متموّل اور مالدار تاجروں میں سرفہرست حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کا نام لیا جاتا ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب یہ ہے۔۔۔ خدیجہ بنت ُخویلد بن اسد بن عبدالعزٰی بن قصی۔ سیدہ خدیجہ ایک کامیاب اور متمول تاجرہ ہونے کے ساتھ ساتھ مکارم اخلاق کا پیکر جمیل تھیں۔ عفت و پاک دامنی کے باعث ُاس عہد جاہلیت میں بھی ۔۔۔طاہرۃ۔۔۔ کے لقب سے ملقب تھیں۔ رحم دلی، غریب پروری اور سخاوت آپکی امتیازی خصوصیات تھیں۔ جب اہل مکہ کا تجارتی قافلہ بیرون ملک جاتا تو آپ کے تجارتی سامان سے لدے ہوئے اونٹ بھی اس کے ہمراہ ہوتے اور جتنا بھی سامان تجارت تمام اہل قافلہ کا ہوتا، اتنا ہی سامان سیدہ خدیجہ کا ہوتا تھا۔

مؤمنین کی پہلی ماں

سیدہ خدیجہ کے حضورعلیہ الصلوۃ والسلام سے خاص کاروباری تعلقات قائم تھے۔ سرور دوعالم علیہ الصلوۃ والسلام کی عفت و دیانت، سیرت کی پختگی، کردار کی بلندی، حسن سلوک، معاملہ فہمی، کاروباری مہارت اور ذاتی خصال حمیدہ کا ذکر سن کر سیدہ خدیجہ نے ادب و احترام کے ساتھ حضورعلیہ الصلوۃ والسلام سے نکاح کی خواہش کا اظہار کیا تو حضورعلیہ الصلوۃ والسلام نے اسے قبول کرلیا۔ ہادئ انس و جاں علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ پہلی شادی مبارک تھی جو قیامت تک ُامت کے لئے َان گنت خیرات و برکات کا سرچشمہ بنی۔ اس وقت حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کی عمر مبارک پچیس جبکہ ام المؤمنین سیدہ خدیجہ کی چالیس برس تھی۔ قبیلہ قریش کی اس معزز، دانشمند اور دور اندیش خاتون کو عبد المطلب کے جواں بخت پوتے علیہ الصلوۃ والسلام کے فضائل و شمائل نے ایسا گرویدہ کردیا تھا کہ انہوں نے اپنا دل، جان اور مال و متاع سب کچھ ان کے قدموں پر نثار کردیا تھا، اور اس سودے پر وہ صرف خوش نہیں بلکہ نازاں تھیں کہ پیکر جمال و کمال علیہ الصلوۃ والسلام نے انہیں اپنی چاکری میں قبول فرمایا ہے۔

شہزادے اور شہزادیاں

یہ عقد بڑا با برکت ثابت ہوا اور سیدہ خدیجہ کے بطن اطہر سے حضورعلیہ الصلوۃ السلام کے بیٹے قاسم جن کی وجہ سے حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کی کنیت ابو القاسم ہوئی، اور عبداللہ پیدا ہوئے۔ دونوں شہزادے بچپن میں ہی انتقال فرماگئے۔ اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی چاروں شہزادیاں رقیہ، زینب، ام کلثوم اور سیدہ النسآء فاطمۃ الزہرا کی ولادت باسعادت بھی سیدہ خدیجہ کے مبارک شکم سے ہوئی۔

اوّلین مؤمن شخصیت

تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ کی ساری مخلوق میں سب سے پہلے ام المؤمنین سیدہ خدیجہ اسلام لائیں۔۔۔ چنانچہ علامہ ابن ہشام اپنی سیرت کی کتاب میں رقمطراز ہیں۔۔۔ کہ۔۔۔۔

نبی کریم علیہ الصلوۃ و التسلیم پر حضرت خدیجہ بنت خویلد ایمان لے آئیں، حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کی تصدیق کی اور رسالت کی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کی ڈھارس بندھائی۔ آپ حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کی تصدیق کرتے ہوئے سب سے پہلے اللہ اور اسکے رسول پر ایمان لے آئیں۔ اللہ تعالٰی نے ان کے ذریعے اپنے محبوب نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے بوجھ کو ہلکا فرمایا کہ جب مخالفین حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ تلخ کلامی کرتے یا جھٹلاتے تو حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کو بہت ُدکھ ہوتا لیکن حضورعلیہ الصلوۃ والسلام جب گھر تشریف لاتے تو ام المؤمنین ایسی گفتگو کرتیں کہ غم و اندوہ کے بادل چھٹ جاتے۔ وہ حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کو ثابت قدمی پر ابھارتیں۔ اس غم کو ہلکا کرتیں۔ حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کی تصدیق کرتیں۔ اس طرح لوگوں کی مخالفتوں کے باعث دل انور کو جو ملال اور رنج پہنچتا، اس کا ِازالہ کردیتیں۔۔۔ اللہ تعالٰی کی آپ پر رحمتیں ہوں۔۔

السیرۃ النبویہ، ابن ہشام، ج1، ص259۔۔۔

جنت میں موتیوں کا محل

علامہ احمد بن زینی دحلان فرماتے ہیں۔۔۔

ایمان لانے والوں میں سب سے سبقت لے جانے اور ہر مرحلے پر حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کی دل جوئی اور حوصلہ افزائی کرتے رہنے کا صلہ بارگاہ الٰہی سے ام المؤمنین خدیجۃ الکبرٰی کو یہ مِلا کہ اللہ نے حضرت جبریل کو حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے پاس بھیجا کہ جب حضورعلیہ الصلوۃ والسلام غار حرا میں تشریف فرما تھے۔ انہوں نے آکر عرض کی۔۔۔ یارسول اللہ علیہ الصلوۃ والسلام۔۔۔ اپنے رب کی طرف سے اور میری طرف سے حضرت خدیجہ کو سلام پہنچائیے، اورانہیں خوشخبری دیجئے کہ اللہ تعالٰی نے ان کے لئے جنت میں موتیوں کا بنا ہوا ایک محل مضصوص کیا ہے، جس میں کوئی شور نہیں ہوگا اور نہ ہی کوئی پریشانی۔۔۔ بعد از آں اس پر حضرت سیدہ خدیجہ نے جواب دیا۔۔۔ اللہ ہی سلام ہے، ساری سلامتیاں اسی سے ہیں۔۔۔ اور جبریل پر سلام ہو۔۔۔ اور یارسول اللہ علیہ الصلوۃ والسلام آپ پر سلام ہو، نیز اللہ کی رحمتیں اور اسکی برکتیں ہوں۔۔۔

السیرۃ النبویہ، احمد بن زینی دحلان، ج1، ص175۔۔۔

دیگر ازواج مطہرہ پر فضیلت

حضورعلیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت سیدہ خدیجہ کی جو توصیف و مدح فرمائی ہے، اس سے ان کی افضلیت کی مزید تائید ہوتی ہے۔۔۔ حضورعلیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں۔۔۔

اللہ تعالٰی نے اس سے بہتر اس کے بدلے مجھے کوئی زوجہ نہیں دی، وہ مجھ پر اس وقت ایمان لائی جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا۔۔۔ اس نے اس وقت اپنے مال سے میری دل جوئی کی جب لوگوں نے مجھے محروم کیا۔۔۔ اللہ تعالٰی نے مجھے اس سے اولاد عطا فرمائی جبکہ دوسری ازواج سے اولاد پیدا نہ ہوئی۔۔۔

محمد رسول اللہ از محمد الصادق، ج1، ص523۔۔۔

نوٹ۔۔۔ مذکورہ بالا حدیث مبارکہ ام المؤمنین حضرت رقیہ قبطیہ سے نکاح سے قبل کی ہے، کہ ان سے حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے ایک اور شہزادے حضرت ابراہیم پیدا ہوئے۔۔۔ کہ جن کو حضورعلیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے پیارے نواسے سیدنا امام حسین پہ قربان کردیا تھا۔۔ اس طرح۔۔۔ کہ اللہ کی طرف سے دونوں شہزادوں میں سے ایک کی زندگی کو اختیار کرنے کا حکم حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کو دیا گیا تو حضورعلیہ الصلوۃ والسلام نے امام حسین کو ُچنا، اور حضرت ابراہیم کا انتقال ہوگیا۔۔۔

وفات حسرت آیات

اعلان نبوت کے دسویں سال، سفر ہجرت سے تین سال پہلے حضرت ابو طالب کی وفات کو ابھی صرف پینتیس دن ہی گزرے تھے کہ 10رمضان المبارک کو حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کی وفا شعار اور غمگسار رفیقہ حیات ام المؤمنین سیدہ خدیجہ نے پیک اجل کو لبیک کہی۔ ایسی وفا شعار اور خدمت گزار، زیرک اور دانا، عالی ظرف اور بلند نگاہ رفیقہ حیات کا اس وقت داغ مفارقت دے جانا، کہ جب دعوت حق بڑے کٹھن مرحلوں سے گزر رہی تھی، حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کے لئے کتنا تکلیف دہ اور باعث رنج و غم ہوا ہوگا، اس کا با آسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ دونوں روح فرسا حادثے ایک ہی سال میں بڑے قلیل مدت میں ہوئے تھے، اس لئے حضورعلیہ الصلوۃ والسلام نے اس سال کو ۔۔۔عامُ الحزن۔۔۔ یعنی غم و اندوہ کے سال سے موسوم کیا۔ حضرت سیدہ خدیجہ نے 65سال کی عمر میں وفات پائی۔ حجون کے قبرستان میں اپ کو دفن کیا گیا۔ جب مرقد مبارک تیار ہو گئی تو حضورعلیہ الصلوۃ والسلام خود اس میں تشریف لے گئے، اور پھر اس مرقد میں انہیں اللہ کے سپرد کردیا گیا۔

انساب الاشراف، ج1، ص406۔۔۔

شان ِسخاوت

اغیار بھی سیدہ خدیجہ کی صفات جلیلہ کے صدق دل سے معترف ہیں۔ چنانچہ کونستانس جورجیو لکھتا ہے کہ۔۔۔

جس روز آپ رضی اللہ عنہا نے وفات پائی تو ان کے پاس کھجور کی گٹھلی میں سیاہ نشان کے برابر بھی مال و دولت نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ مسلمانوں میں دو ہستیاں ایسی گزری ہیں۔۔۔ کہ جنہوں نے اپنی ساری دولت، دعوت اسلامیہ کی ترقی کے راہ میں خرچ کر ڈالی۔۔۔ وہ دو ہستیاں حضرت خدیجہ اور حضرت ابوبکر صدیق ہیں، کہ اسلام لانے سے پہلے یہ دونوں بڑے دولت مند تھے، اور انہوں نے وفات پائی تو ان کے پاس پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی۔

نظرۃ جدیدۃ، ج1، ص116۔۔۔

_______________________________________

Source: Zia-un-Nabi علیہ الصلوۃ والسلام

Edited by Qaseem
Link to comment
Share on other sites

(salam) MASALLAh bohat he nice posting hai .ALLAH azwjal hamain b un k sadkay main dunia o akhrat ke balain naseeb farmay ammen ALLAH azwjal app ko or deen ka kaam karnay ke tofiiq ata farmay ammen or hamain b ammaen (wasalam)
Link to comment
Share on other sites

  • 8 months later...
  • 2 years later...
Guest pakistanisunni

 

PLEASE KOCH TO KHIAAL KARO, "ORS" KA WORD CHANGE KARO, GONAAH HOGA BOHT, GHAM KI SHAHDAT KO "ORS" KA NAAM NAHI DETE, "ORS" KHOSHI KA WORD HAI.. HAZOOR PAAK ( SATAWAW) ROE THAY AOR ISS SAAL KO HAZOOR PAAK ( SATAWAW) NE GHAM KA SAAL QARAR DIAA AOR PATA NAHI KITNA ARSAA GHAM KARTE RAHE, AAP URS AOR KHOSHI KE WORDS SUE KAR RAHE HO?? MENE SAMJHA DIYA AAGE AAPKI MARZI, AGR KHOD HI APNE LIYE JAHANAM BANANA CHATE HO TO,

AGR YE ORS WALII BAAT HOTI TO HAZOOR PAAK ( SATAWAW) BAQI ASHAAB ( RA) KI TARAH 3 DIN GHAM KAR KE HAR SAAL ORS KI TARAH LETE. MAGR ISS MOQA PE AESA NAHI THA, 3 DIN NAHI POORA SAAL HAZOOR PAAK ( SATAWAW) ROTE RAHE...

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...