Jump to content

Abu Talib Momin Ya Kafir


Abdul mustafa92

تجویز کردہ جواب

ابو طالب مومن یا کافر
قرآن وحدیث ا ورائمہ اہل سنت کی روشنی میں


آج اہل سنت وجماعت بڑے ہی نازک دور سے گذر رہی ہے ایک طرف خوارج وہابیہ کا حملہ تو دوسری طرف رافضی شعیہ کی منافقانہ چالیں روافض جن کے یہاں جھوٹ بولنا ایمان کی نشانی ہے تکیہ جن کے مذہب کا شعار ہے وہ ائے دن کچھ نہ کچھ فریب کاریاں اہل سنت وجماعت کی صفوں میں چند ایمان فروشوں کے ہاتھوں سر انجام دے رہے ہیں
ابھی واٹساپ پر ایک ایسا ہی پر فریب جھوٹ سے لبریز پوسٹ پڑھنے میں آیا ہے جس کا عنوان تھا *ایمان ابو طالب اور موقف اہل سنت* لکھنے والے نے بڑے ہی فریبی انداز میں یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ ابو طالب کا ایمان ثابت ہے اور امام اہل سنت امام احمد رضا علیہ الرحمہ کے پیر گھرانہ مارہرہ شریف کی کتاب سبع سنابل شریف میں ابو طالب کے ایمان کو ثابت کیا گیا ہے لکھنے والے نے کتنا بڑا جھوٹ بکا ہے اس کا ثبوت آپ آگے دیکھیں گے مگر ہم اس سے پہلے قرآن و حدیث سے ابو طالب کے ایمان کے متعلق روشنی ڈالیں گے تاکہ مخالفین کے فریب کا جواب سیدھے جواب اصل کتب سے ہی مل جائے پھر اکابرین اہل سنت کا بھی موقف آپ کے سامنے رکھیں گے
قرآن پاک اور مفسرین اور عدم ایمان ابو طالب

قرآن پاک میں ارشاد باری تعالی ہے

آیت نمبر1
مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَنۡ یَّسْتَغْفِرُوۡا لِلْمُشْرِکِیۡنَ وَلَوْکَانُوۡۤا اُولِیۡ قُرْبٰی مِنۡۢ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمْ اَنَّہُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیۡمِ ﴿۱۱۳﴾
*سورہ التوبة ۱۱۳*
امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ اس آیت کا شان نزول ذکر فرماتے ہیں کہ *اس آیت کے نزول کا تعلق نبی علیہ السلام کا اپنے چچا ابو طالب کے لئے استغفار اور بعض صحابہ کا اپنے والدین مشرکین کے لئے استغفار کرنے سے ہے*
تفسیر جلالین شریف
صرف حضرت امام سیوطی ہی نے اس کا شان نزول ابو طالب کے لئے کہا بلکہ کئ اور مفسرین نے بھی لکھا ہے جن میں *تفسیر بیضاوی تفسیر صاوی تفسیر مدارک تفسر معالم التنزیل تفسیر خازن تفسیر قرطبی تفسیر نیشاپوری تفسیر ابو سعود تفسیر کبیر تفسیر جریر طبری تفسیر در منثور تفسیر بحر المحیط تفسیر السراج المنیر تفسیر روح البیان تفسیر فرقان القرآن تفسیر روح المعانی تفسیر حسینی تفسیر ابن کثیر*
ان تمام مفسرین کا اتفاق ہے کہ آیت ابو طالب کے تعلق سے نازل ہوئی

آیت نمبر2
انك لا تهدى من احببت ولكن الله يهدى من يشآء
*سوره القصص 56*
اس آیت کے شان نزل کے تعلق سے مفسیر قرآن امام طبری فرماتے ہیں کہ
*ذکر کیا گیا ہےکہ یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس وقت نازل ہوئ جب آپ نے اپنے چچا ابو طالب کو ایمان لانے کی دعوت دی اور ابو طالب نے آپ کی دعوت کا انکار کردیا*

*ترجمہ:نبی اور ایمان والوں کو لائق نہیں کہ مشرکوں کی بخشش چاہیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہوں جبکہ انہیں کھل چکا کہ وہ دوزخی ہیں*
ہندوستان کے مشہور بزرگ حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ لکھتے ہیں

*" امام مسلم رحمہ اللہ نے حضرت ابوہرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا ابو طالب سے کہا لا اللہ الہ الا اللہ پڑھ لو قیامت کے روز میں تمہاری گواہی دوں گا ابو طالب نے کہا اگر قریش مجھے یہ کہہ کر کہ عار نہ دلاتے کہ انہیں ڈر اور خوف نے لاالہ الا اللہ پڑھنے پر مجبور کیا ہے تو میں کلمہ طیبہ پڑھ کر ضرور تمہاری انکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا اس وقت اللہ نے یہ ارشاد فرمایا انك لا تهد ى من احببت ولكن الله يهدى من يشاء*

اس آیت کے شان نزول پر بھی تمام مفسرین یہی کہتے ہیں کہ آیت مذکورہ کا تعلق ابو طالب سے ہے

*احادیث کریمہ اور ایمان ابو طالب*

بخاری شریف اور عدم ایمان ابو طالب

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَی عَنْ سُفْيَانَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِکِ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَغْنَيْتَ عَنْ عَمِّکَ فَإِنَّهُ کَانَ يَحُوطُکَ وَيَغْضَبُ لَکَ قَالَ هُوَ فِي ضَحْضَاحٍ مِنْ نَارٍ وَلَوْلَا أَنَا لَکَانَ فِي الدَّرَکِ الْأَسْفَلِ مِنْ النَّارِ
مسدد یحیی سفیان عبدالملک عبداللہ بن حارث حضرت عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا ابوطالب کو کچھ نفع پہنچایا کیونکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف داری میں (مخالفوں پر) غصہ کیا کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ صرف ٹخنوں تک آگ میں ہیں اور اگر میں نہ ہوتا تو وہ دوزخ کے نچلے طبقہ میں ہوتے۔

صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ انبیاء علیہم السلام کا بیان ۔ حدیث 1116

صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ انبیاء علیہم السلام کا بیان ۔ حدیث 1117

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ حَدَّثَنَا ابْنُ الْهَادِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَبَّابٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَذُکِرَ عِنْدَهُ عَمُّهُ فَقَالَ لَعَلَّهُ تَنْفَعُهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيُجْعَلُ فِي ضَحْضَاحٍ مِنْ النَّارِ يَبْلُغُ کَعْبَيْهِ يَغْلِي مِنْهُ دِمَاغُهُ
عبداللہ بن یوسف لیث ابن ہاد عبداللہ بن خباب حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا (ابو طالب) کا ذکر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ امید ہے قیامت کے دن انہیں میری شفاعت کچھ نفع دے جائے گی کہ وہ آگ کے درمیان درجہ میں کردیئے جائیں گے کہ آگ ان کے ٹخنوں تک پہنچے گی جس سے ان کا دماغ کھولنے لگے گا۔

*صحیح بخاری ۔ جلد دوم ۔ انبیاء علیہم السلام کا بیان ۔ حدیث 1118*

مسلم شریف اور عدم ایمان ابو طالب

حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَی التُّجِيبِيُّ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ قَالَ أَخْبَرَنِي يُونُسُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا طَالِبٍ الْوَفَاةُ جَائَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ عِنْدَهُ أَبَا جَهْلٍ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أُمَيَّةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا عَمِّ قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کَلِمَةً أَشْهَدُ لَکَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ يَا أَبَا طَالِبٍ أَتَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَلَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْرِضُهَا عَلَيْهِ وَيُعِيدُ لَهُ تِلْکَ الْمَقَالَةَ حَتَّی قَالَ أَبُو طَالِبٍ آخِرَ مَا کَلَّمَهُمْ هُوَ عَلَی مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وَأَبَی أَنْ يَقُولَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَا وَاللَّهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَکَ مَا لَمْ أُنْهَ عَنْکَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَا کَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِکِينَ وَلَوْ کَانُوا أُولِي قُرْبَی مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ وَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَی فِي أَبِي طَالِبٍ فَقَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّکَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَکِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَائُ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ
حرملة بن یحیی، عبداللہ بن وہب، یونس، ابن شہاب، سعید بن مسیب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے تو ابوجہل اور عبداللہ بن امیہ بن مغیرہ کو ان کے پاس موجود پایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے چچا لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کا کلمہ کہہ دو میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اس کی گواہی دوں گا ابوجہل اور ابن امیہ کہنے لگے کیا تم عبدالمطلب کے دین سے پھر رہے ہو؟ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باربار کلمہ تو حید اپنے چچا ابوطالب کے سامنے پیش کرتے رہے اور یہی بات دھراتے رہے بالآخر ابوطالب نے لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کہنے سے انکار کردیا اور آخری الفاظ یہ کہے کہ میں عبدالمطلب کے دین پر ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تک مجھے روکا نہیں جائے گا میں تو برابر دعائے مغفرت کرتا رہوں گا اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت (مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْ ا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْ ا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ) 9۔ التوبہ : 113) نازل فرمائی نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مومنوں کے لئے یہ بات مناسب نہیں کہ مشرکوں کے لئے مغفرت کی دعا کریں اگرچہ وہ رشتہ دار ہوں جبکہ ان پر یہ ظاہر ہوگیا ہو کہ وہ دوزخی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ابوطالب کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خطاب فرماتے ہوئے یہ آیت نازل فرمائی (اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَا ءُ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ)

*صحیح مسلم ۔ جلد اول ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 135*

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ وَابْنُ أَبِي عُمَرَ قَالَا حَدَّثَنَا مَرْوَانُ عَنْ يَزِيدَ وَهُوَ ابْنُ کَيْسَانَ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَمِّهِ عِنْدَ الْمَوْتِ قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ لَکَ بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَبَی فَأَنْزَلَ اللَّهُ إِنَّکَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ الْآيَةَ
محمد بن عباد، ابن ابی عمر، مروان، یزید یعنی ابن کیسان، ابوکیسان، ابوحازم ، ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا سے ان کی موت کے وقت فرمایا لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کہہ دو میں قیامت کے دن اس کی گواہی دے دوں گا ابوطالب نے انکار کردیا اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت (اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَا ءُ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِيْنَ) 28۔ القصص : 56) نازل فرمائی یعنی بے شک تو ہدایت نہیں کر سکتا جسے تو چاہے لیکن اللہ ہدایت کرتا ہے جسے چاہے اور وہ ہدایت والوں کو خوب جانتا ہے۔

*صحیح مسلم ۔ جلد اول ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 137*

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ قَالَ سَمِعْتُ الْعَبَّاسَ يَقُولُا قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبَا طَالِبٍ کَانَ يَحُوطُکَ وَيَنْصُرُکَ فَهَلْ نَفَعَهُ ذَلِکَ قَالَ نَعَمْ وَجَدْتُهُ فِي غَمَرَاتٍ مِنْ النَّارِ فَأَخْرَجْتُهُ إِلَی ضَحْضَاحٍ
ابن ابی عمر، سفیان، عبدالملک، بن عمیر، عبداللہ بن حارث، ابن عباس فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابوطالب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدد کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے لوگوں پر غصے ہوتے تھے تو کیا ان باتوں کی وجہ سے ان کو کوئی فائدہ ہوا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں میں نے انہیں آگ کی ش'دت میں پایا تو میں انہیں ہلکی آگ میں نکال کر لے آیا۔

*صحیح مسلم ۔ جلد اول ۔ ایمان کا بیان ۔ حدیث 511*


نسائی شریف اور عدم ایمان ابو طالب

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی عَنْ مُحَمَّدٍ قَالَ حَدَّثَنِي شُعْبَةُ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ قَالَ سَمِعْتُ نَاجِيَةَ بْنَ کَعْبٍ عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ أَتَی النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّ أَبَا طَالِبٍ مَاتَ فَقَالَ اذْهَبْ فَوَارِهِ قَالَ إِنَّهُ مَاتَ مُشْرِکًا قَالَ اذْهَبْ فَوَارِهِ فَلَمَّا وَارَيْتُهُ رَجَعْتُ إِلَيْهِ فَقَالَ لِي اغْتَسِلْ
محمد بن مثنی، محمد، شعبہ، ابواسحاق، ناجیہ بن کعب، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ابوطالب گزر گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم لوگ جاؤ اور ان کو زمین میں دبا دو۔ میں نے کہا وہ تو کافر و مشرک ہونے کی حالت میں مرے ہیں پس ان کو دبا دینا کیا ضروری ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جاؤ ان کو زمین میں دبا دو۔ میں جس وقت ان کو زمین میں دبا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا غسل کرو۔
*سنن نسائی ۔ جلد اول ۔ پاکی کا بیان ۔ حدیث 192*

أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنَا يَحْيَی عَنْ سُفْيَانَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو إِسْحَقَ عَنْ نَاجِيَةَ بْنِ کَعْبٍ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ قُلْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ عَمَّکَ الشَّيْخَ الضَّالَّ مَاتَ فَمَنْ يُوَارِيهِ قَالَ اذْهَبْ فَوَارِ أَبَاکَ وَلَا تُحْدِثَنَّ حَدَثًا حَتَّی تَأْتِيَنِي فَوَارَيْتُهُ ثُمَّ جِئْتُ فَأَمَرَنِي فَاغْتَسَلْتُ وَدَعَا لِي وَذَکَرَ دُعَائً لَمْ أَحْفَظْهُ
عبیداللہ بن سعید، یحیی، سفیان، ابواسحاق ، ناجیة بن کعب، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بوڑھا چچا ابوطالب مر گیا ہے۔ اب ان کو کون آدمی دفن کرے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم لوگ جاؤ اور اپنے والد کو دفن کر کے آجاؤ اور تم لوگ کسی قسم کی کوئی نئی بات نہ کرنا چنانچہ میں گیا اور میں ان کو زمین کے اندر چھپا کر واپس آگیا پھر میں خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ کو غسل کرنے کا حکم فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے واسطے دعا فرمائی اور ایک دعا اس قسم کی بیان فرمائی کہ جو مجھ کو یاد نہیں۔

*سنن نسائی ۔ جلد اول ۔ جنائز کے متعلق احادیث ۔ حدیث 2012*

أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ وَهُوَ ابْنُ ثَوْرٍ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا طَالِبٍ الْوَفَاةُ دَخَلَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ فَقَالَ أَيْ عَمِّ قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کَلِمَةً أُحَاجُّ لَکَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فَقَالَ لَهُ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ يَا أَبَا طَالِبٍ أَتَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَلَمْ يَزَالَا يُکَلِّمَانِهِ حَتَّی کَانَ آخِرُ شَيْئٍ کَلَّمَهُمْ بِهِ عَلَی مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَکَ مَا لَمْ أُنْهَ عَنْکَ فَنَزَلَتْ مَا کَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِکِينَ وَنَزَلَتْ إِنَّکَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ
محمد بن عبدالاعلی، محمد و ابن ثور، معمر، زہری، سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد ماجد سے سنا کہ جس وقت (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا) ابوطالب کی وفات کا وقت آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے وہاں پر ابوجہل اور عبداللہ بن امیہ بیٹھے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے میرے چچا! تم لَا اِلٰہِ اِلَّا اللہ کہو اس جملہ کی وجہ سے میں تمہارے واسطے بارگاہ الٰہی میں حجت کروں گا (سفارش کی کوشش کروں گا) اس پر ابوجہل اور عبداللہ بن امیہ نے کہا اے ابوطالب! کیا تم عبدالمطلب کے دین سے نفرت کرتے ہو؟ پھر وہ دونوں ان سے گفتگو کرنے لگے۔ یہاں تک کہ ابوطالب کی زبان سے آخری جملہ یہ نکلا کہ میں تو عبدالمطلب کے دین پر ہی قائم ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں تمہارے واسطے اس وقت تک دعا مانگوں گا جب تک مجھ کو ممانعت نہ ہوگی اس پر آیت کریمہ مَا کَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِکِينَ نازل ہوئی

*سنن نسائی ۔ جلد اول ۔ جنائز کے متعلق احادیث ۔ حدیث 2041*


ترمذی شریف اور عدم ایمان ابو طالب

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ کَيْسَانَ حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ الْأَشْجَعِيُّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَمِّهِ قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ لَکَ بِهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ قَالَ لَوْلَا أَنْ تُعَيِّرَنِي بِهَا قُرَيْشٌ أَنَّ مَا يَحْمِلُهُ عَلَيْهِ الْجَزَعُ لَأَقْرَرْتُ بِهَا عَيْنَکَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِنَّکَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَکِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَائُ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَزِيدَ بْنِ کَيْسَانَ
محمد بن بشار، یحیی بن سعید، یزید بن کیسان، ابوحازم اشجعی، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا (ابوطالب) سے فرمایا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہہ دیجئے تاکہ میں قیامت کے دن آپ کے متعلق ایمان کی گواہی دے سکوں۔ وہ کہنے لگے اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ قریش کہیں گے کہ (ابوطالب) نے موت کی گھبرا ہٹ کی وجہ سے کلمہ پڑھ لیا تو میں یہ کلمہ پڑھ کر تمہاری آنکھیں ٹھنڈی کر دیتا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی (اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَا ءُ ) 28۔ القصص : 56) (بے شک تو ہدایت نہیں کر سکتا جسے تو چاہے لیکن اللہ ہدایت کرتا ہے جسے چاہے اور وہ ہدایت والوں کو خوب جانتا ہے۔) یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اس حدیث کو صرف یزید بن کیسان کی روایت سے جانتے ہیں۔

*جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ قرآن کی تفسیر کا بیان ۔ حدیث 1136*

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ الْمَعْنَی وَاحِدٌ قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ يَحْيَی قَالَ عَبْدٌ هُوَ ابْنُ عَبَّادٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ مَرِضَ أَبُو طَالِبٍ فَجَائَتْهُ قُرَيْشٌ وَجَائَهُ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَ أَبِي طَالِبٍ مَجْلِسُ رَجُلٍ فَقَامَ أَبُو جَهْلٍ کَيْ يَمْنَعَهُ وَشَکَوْهُ إِلَی أَبِي طَالِبٍ فَقَالَ يَا ابْنَ أَخِي مَا تُرِيدُ مِنْ قَوْمِکَ قَالَ إِنِّي أُرِيدُ مِنْهُمْ کَلِمَةً وَاحِدَةً تَدِينُ لَهُمْ بِهَا الْعَرَبُ وَتُؤَدِّي إِلَيْهِمْ الْعَجَمُ الْجِزْيَةَ قَالَ کَلِمَةً وَاحِدَةً قَالَ کَلِمَةً وَاحِدَةً قَالَ يَا عَمِّ قُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَقَالُوا إِلَهًا وَاحِدًا مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ إِنْ هَذَا إِلَّا اخْتِلَاقٌ قَالَ فَنَزَلَ فِيهِمْ الْقُرْآنُ ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّکْرِ بَلْ الَّذِينَ کَفَرُوا فِي عِزَّةٍ وَشِقَاقٍ إِلَی قَوْلِهِ مَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي الْمِلَّةِ الْآخِرَةِ إِنْ هَذَا إِلَّا اخْتِلَاقٌ قَالَ أَبُو عِيسَی هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ حَدَّثَنَا يَحْيَی بْنُ سَعِيدٍ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ الْأَعْمَشِ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ و قَالَ يَحْيَی بْنُ عِمَارَةَ
محمود بن غیلان وعبد بن حمید، ابواحمد، سفیان، اعمش، یحیی، عبد بن عباد، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ جب ابوطالب بیمار ہوئے تو قریش اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے۔ ابوطالب کے پاس ایک ہی آدمی کے بیٹھنے کی جگہ تھی۔ ابوجہل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں بیٹھنے سے منع کرنے کے لئے اٹھا اور لوگوں نے ابوطالب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکایت کی، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا بھتیجے ! اپنی قوم سے کیا چاہتے ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں چاہتا ہوں کہ یہ لوگ ایک کلمہ کہنے لگیں اگر یہ لوگ میری اس دعوت کو قبول کرلیں گے تو عرب پر حاکم ہو جائیں گے اور عجمیوں سے جزیہ وصول کریں گے۔ ابوطالب نے پوچھا ایک ہی کلمہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ایک ہی کلمہ۔ چچا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہہ لیجئے۔ وہ سب کہنے لگے کیا ہم ایک ہی اللہ کی عبادت کرنے لگیں ہم نے تو کسی پچھلے دین میں یہ بات نہیں سنی (بس یہ من گھڑت ہے) راوی کہتے ہیں کہ پھر ان کے متعلق یہ آیات نازل ہوئیں (ص وَالْقُرْاٰنِ ذِي الذِّكْرِ بَلِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فِيْ عِزَّةٍ وَّشِقَاقٍ ) 38۔ص : 1-2) (قرآن کی قسم ! جو سراسر نصیحت ہے بلکہ جو لگ منکر ہیں وہ محض تکبر اور مخالفت میں پڑے ہوئے ہیں۔ ہم نے انسے پہلے کتنی قومیں ہلاک کر دیں ہیں، سو انہوں نے بڑی ہائے پکار کی اور وہ وقت خلاصی کا نہ تھا اور انہوں نے تعجب کیا کہ ان کے پاس انہی میں سے ڈرانے ولاء آیا اور منکروں نے کہا کہ یہ تو ایک بڑا جادوگر ہے، کیا اس نے کئی معبودوں کو صرف ایک معبود بنادیا۔ بے شک یہ بڑی عجیب بات ہے اور ان میں سے سردار یہ کہتے ہوئے چل پڑے کہ چلو اور اپنے معبودوں پر جمے رہو۔ بے شک اس میں کچھ غرض ہے۔ ہم نے یہ بات اپنے پچھلے دین میں نہیں سنی۔ یہ تو ایک بنائی ہوئی بات ہے۔) ۔ یہ حدیث حسن ہے۔ بندار، یحیی بن سعید، سفیان، اعمش، یحیی بن عمارة،

*جامع ترمذی ۔ جلد دوم ۔ قرآن کی تفسیر کا بیان ۔ حدیث 1180*

ابو داؤد شریف اور عدم ایمان ابو طالب

حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَی عَنْ سُفْيَانَ حَدَّثَنِي أَبُو إِسْحَقَ عَنْ نَاجِيَةَ بْنِ کَعْبٍ عَنْ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلَام قَالَ قُلْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ عَمَّکَ الشَّيْخَ الضَّالَّ قَدْ مَاتَ قَالَ اذْهَبْ فَوَارِ أَبَاکَ ثُمَّ لَا تُحْدِثَنَّ شَيْئًا حَتَّی تَأْتِيَنِي فَذَهَبْتُ فَوَارَيْتُهُ وَجِئْتُهُ فَأَمَرَنِي فَاغْتَسَلْتُ وَدَعَا لِي
مسدد، یحیی، سفیان، ابواسحاق ، ناجیہ بن کعب، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ (جب میرے والد ابوطالب کا انتقال ہوا تو) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کے بوڑھے اور گمراہ چچا کا انتقال ہو گیا ہے آپ نے فرمایا جا اور اپنے باپ کو دفن کر آ اور اس کے علاوہ کوئی اور کام نہ کرنا یہاں تک کہ تو میرے پاس لوٹ آئے لہذا میں گیا اور ان کو دفن کر کے آ گیا۔ پس آپ نے مجھے غسل کرنے کا حکم فرمایا پس میں نے غسل کیا اور اپنے میرے لئے دعا فرمائی۔

*سنن ابوداؤد ۔ جلد دوم ۔ جنازوں کا بیان ۔ حدیث 1446*

مسند امام احمد اور عدم ایمان ابو طالب

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ نَاجِيَةَ بْنِ كَعْبٍ عَنْ عَلِيٍّ قَالَ لَمَّا مَاتَ أَبُو طَالِبٍ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ إِنَّ عَمَّكَ الشَّيْخَ الضَّالَّ قَدْ مَاتَ فَقَالَ انْطَلِقْ فَوَارِهِ وَلَا تُحْدِثْ شَيْئًا حَتَّى تَأْتِيَنِي قَالَ فَانْطَلَقْتُ فَوَارَيْتُهُ فَأَمَرَنِي فَاغْتَسَلْتُ ثُمَّ دَعَا لِي بِدَعَوَاتٍ مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِهِنَّ مَا عَرُضَ مِنْ شَيْءٍ
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب ابو طالب کا انتقال ہوگیا تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ آپ کا بوڑھا اور گمراہ چچا مر گیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جا کر اسے کسی گڑھے میں چھپا دو اور میرے پاس آنے سے پہلے کسی سے کوئی بات نہ کرنا، چنانچہ میں گیا اور اسے ایک گڑھے میں چھپا دیا، نبی صلی اللہ علیہ نے اس کے بعد مجھے غسل کرنے کا حکم دیا اور مجھے اتنی دعائیں دیں کہ ان کے مقابلے میں کسی وسیع و عریض چیز کی میری نگاہوں میں کوئی حیثیت نہیں ۔


*مسند احمد ۔ جلد اول ۔ حدیث 1039*
حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ قَالَ أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَهْوَنُ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا أَبُو طَالِبٍ وَهُوَ مُنْتَعِلٌ نَعْلَيْنِ مِنْ نَارٍ يَغْلِي مِنْهُمَا دِمَاغُهُ
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اہل جہنم میں سب سے ہلکاعذاب ابو طالب کو ہوگا، انہوں نے آگ کی دو جوتیاں پہن رکھی ہوں گی جس سے ان کا دماغ ہنڈیا کی طرح ابلتا ہوگا۔

*مسند احمد ۔ جلد دوم ۔ حدیث 764*

مزید اور کتب حدیث میں روایات موجود ہیں جس سے ابو طالب کے ایمان نہ لانے اور کفر پر فوت ہونے کی صحیح روایات موجود ہیں

*وہ کتب جن میں ابو طالب کے کفر پر خاتمہ کا ذکر آیا ہے*
*مسند احمد مشکوہ شریف کنزالعمال حاکم مستدرک جامع صغیر مسند ابوداود طیالسی طبقات ابن سعد اسد الغابہ معجم طبرانی مصنف عبدالرزاق مصنف ابن ابی شیبہ مسند اسحق راہویہ مسند بزار مدارج النبوہ الوفاء ابن جوزی کتاب الشفاء حلیہ الاولیاء تاریخ ابن عساکر سیرت حلبیہ وغیرہ کتب دیکھی جاسکتی ہیں*

*کیا اعلی حضرت کے پیر گھرانہ کی کتاب سبع سنابل شریف میں ابو طالب کو مسلمان کہا گیا ہے*

سبع سنابل کے حوالے سے رافضی نے یہ دھوکا دینے کی کوشش کی ہے کہ حضرت میر عبدالواحید بلگرامی علیہ الرحمہ ابو طالب کو مسلمان سمجھتے تھے؟ جب یہ اتنا بڑا جھوٹ ہے کہ رافضی کو بولنے سے پہلے لکھنے سے پہلے یہ سوچنا چاہئے تھا کہ سبع سنابل شریف اب بھی چھپ رہی ہے جو چاہے وہ پڑھ کر خود ہی اندازہ لگا سکتا ہے کہ حضرت میر عبدلواحید بلگرامی علیہ الرحمہ کا وہی موقف ہے جو چودھویں صدی کے مجدد کا موقف ہے جمع اہل سنت وجماعت کے اکابرین کا موقف ہے یعنی ابو طالب کا خاتمہ کفر پر ہوا

اب آئیے سبع سنابل شریف کی عبارت آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں آپ خود فیصلہ کر لیجئے گا

حضرت میر عبدالواحید بلگرامی سبع سنابل شریف میں فرماتے ہیں
*میرے بھائ اگر چہ مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و شرف کے کمالات اہل معرفت کے دلوں میں نہیں سماں سکتے اور ان کے سچے دوستوں کے نہاں خانوں میں منزل نہیں بنا سکتے* *_اس کے با وجود ان کے ان نسب عالوں میں اپنا کامل اثر نہیں دکھا سکتے خواہ وہ آباؤ اجداد ہوں یا اولاد در اولاد چنانچہ ابو طالب میں اس نسب نے کوئی اثر نہیں کیا حالانکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بارے میں بلیغ کوشش فرماتے رہے لیکن چونکہ خدائے قدوس جل و علا نے ان کے دل پر روز اول ہی سے مہر لگا دی تھی لہذا جواب دیا اخرت النار على العار میں عار پر نار کو ترجیح دیتا ہوں_* *جیسا کہ مشہور ہے منقول ہے کہ جب ابو طالب کا انتقال ہوا مولی علی کرم اللہ وجہہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچائی کہ مات عمك الضال حضور کے گمراہ چچا کا انتقال ہوگیا بیت-کبھی ایسے گوہر پیدا کرنے والے گھرانہ میں ابو طالب جیسے کو (خالق بے نیاز) پتھر پھینکنے والا بنا دیتا ہے*
سبع سنابل شریف صفحہ ۸۹


لیجئے اب تو امام اہل سنت کے پیر گھرانہ سے بھی امام اہل سنت کی تائید ہوگئی

آخر میں ان جھوٹے مکار فراڈی پوسٹ بنانے والے کہ تعلق سے اتنا ہی کہوں گا
*جھوٹوں پر اللہ کی لعنت*

post-17766-0-29782600-1470565611_thumb.jpg

post-17766-0-54132900-1470566025_thumb.jpg

post-17766-0-61363100-1470566317_thumb.jpg

post-17766-0-99052600-1470566552_thumb.jpg

post-17766-0-18572100-1470566764_thumb.jpg

post-17766-0-08169800-1470566970_thumb.jpg

post-17766-0-37121600-1470567068_thumb.jpg

post-17766-0-13533300-1470567137_thumb.jpg

post-17766-0-46335000-1470567204_thumb.jpg

post-17766-0-65531700-1470567273_thumb.jpg

post-17766-0-80899300-1470567353_thumb.jpg

post-17766-0-15595100-1470567417_thumb.jpg

post-17766-0-57763900-1470567479_thumb.jpg

post-17766-0-41328000-1470567666_thumb.jpg

post-17766-0-53904200-1470567727_thumb.jpg

post-17766-0-41676200-1470567779_thumb.jpg

Edited by Abdul mustafa92
Link to comment
Share on other sites

  • 1 year later...

 

Assalamu alaikum bhaiyo..hazrat kya mujhe isska scan mil sakta hai..to badi meharbani hogi..ye maine ek deobandi ko bheja tha.. use scan dikhana hai..

 

 

*میرے بھائ اگر چہ مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و شرف کے کمالات اہل معرفت کے دلوں میں نہیں سماں سکتے اور ان کے سچے دوستوں کے نہاں خانوں میں منزل نہیں بنا سکتے* *_اس کے با وجود ان کے ان نسب عالوں میں اپنا کامل اثر نہیں دکھا سکتے خواہ وہ آباؤ اجداد ہوں یا اولاد در اولاد چنانچہ ابو طالب میں اس نسب نے کوئی اثر نہیں کیا حالانکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بارے میں بلیغ کوشش فرماتے رہے لیکن چونکہ خدائے قدوس جل و علا نے ان کے دل پر روز اول ہی سے مہر لگا دی تھی لہذا جواب دیا اخرت النار على العار میں عار پر نار کو ترجیح دیتا ہوں_* *جیسا کہ مشہور ہے منقول ہے کہ جب ابو طالب کا انتقال ہوا مولی علی کرم اللہ وجہہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچائی کہ مات عمك الضال حضور کے گمراہ چچا کا انتقال ہوگیا بیت-کبھی ایسے گوہر پیدا کرنے والے گھرانہ میں ابو طالب جیسے کو (خالق بے نیاز) پتھر پھینکنے والا بنا دیتا ہے*

سبع سنابل شریف صفحہ ۸۹

Link to comment
Share on other sites

تحریر:
ضربِ رضا بغدادی
یکے از تلمیذانِ اسدِ رضا

آج کے اس پُرفتن دور میں ہر جانب سے حقائق کو مسخ کیا جارہا ہے اور حقیقت سے منہ چڑایا جا رہا ہے
اہلسنت کے مختلف فیہ مسائل یا شاذ اقوال یا شطحیات یا تفردات یا معاصرانہ چپقلش کو بنیاد بنا کر باطل اپنے دھرم کا بھرم بڑھاتے ہوئے بےشرم تک بنتا جا رہا ہے
ان بے شرموں میں کچھ وہ لوگ ہیں جو سیدی امامِ اہلسنت احمد رضا خان رحمہ اللہ سے اپنے اجداد کی ذلت آمیز شکستوں کا بدلہ اپنے پروپگنڈے کے ذریعہ لے رہے ہیں اور سادہ لوح مسلمانوں کے عقائد و نظریات کو کسی نہ کسی طریقے سے بدلنے میں مصروفِ عمل ہیں
ان ہی بدبختوں میں ایک فتنہ #تفضیلیوں کا ہے جو اپنا تشیع ظاہر کئے بنا حبِّ اہلبیت رضوان اللّٰہ علیھم اجمعین کے نام پر مسلمانوں کو زہر پلا رہے ہے
ایسے ہی زہریلے اژدہوں میں ایک تفضیلی کا مضمون ایمانِ ابی طالب کے مسئلہ پر ہماری ٹیم کو ارسال کیا گیا اگر اس مضمون میں محض اپنا عقیدہ بتایا جاتا تب تو بات الگ تھی مگر اس مضمون میں امامِ اہلسنت رحمہ اللہ کے خلاف بکواسات کی گئیں تھیں اس ہی لئے استاذی علی معاویہ رضوی سلمہ اللّٰہ القوی کے حکم پر اسکا ردّ لکھنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں

عام طور پر تمامی شیعوں کا یہ طریقہ نظر آتا ہے کہ وہ خود کو سید کہہ کر مسلمانوں کی سادات کی محبت اور احترام کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں
معترض نے بھی اپنا نام ظاہر کرتے ہوئے خود کو سید لکھا ہے اور ساتھ ہی اپنا تعلق جامعہ مہریہ سے بتایا ہے
ہمارے جوابی مضمون سے آپکے سامنے معترض عنید کی جامعہ مہریہ سے تعلق کی قلعی بھی کھل جائے گی
آئیے معترض کے اعتراضات کا جائزہ لیتے ہیں

#عنادی_تفضیلی
فاضلِ بریلوی کے نزدیک آیاتِ ظاہرہ احادیثِ باہرہ و متعدد اقوال مفسرین و فقہاء سے ثابت و روشن ہے کہ ابوطالب مسلمان نہ تھے جیسا کہ شرح المطالب میں لکھا ہے جبکہ احکامِ شریعت میں فرمایا کہ مذہب و عقیدہ کفر پر مطلع ہوکر اسکے کفر میں شک کرے تو البتہ کافرجائے گا
لہذا وکیلِ کفر جواب دیں کہ فاضلِ بریلوی کے نزدیک شیخ دحلان مکی اور میر عبدالواحد بلگرامی مسلمان رہے یا نہ رہے چونکہ حضرت دحلان مکی و میر بلگرامی ایمانِ ابی طالب کے قائل تھے (ملخصاً)

#اقول
جب انسان کو کسی بات کے سمجھنے کی لیاقت نہیں ہوتی تو وہ ایسی ہی بے تکی باتیں کرتے ہوئے مجنونانہ واویلے کرتا پھرتا ہے
امامِ اہلسنت احمد رضا خان رحمہ اللّٰہ نے فصل هشتم کے آخر میں بڑی وضاحت سے یہ لکها هے کہ
" *ہاں ابولہب وابلیس لعنہماﷲ کی مثل کہنا محض افراط اور خون انصاف کرنا ہے،* ابوطالب کی عمر خدمت و کفالت و نصرت و حمایتِ حضرت رسالت علیہ وعلٰی آلہ الصلوۃ والتحیۃ میں کٹی اور یہ ملا عنہ درپردہ وعلانیہ درپے ایذاء واضرار رہے کہاں وہ جس کا وظیفہ مدح وستائش ہواور کہاں وہ شقی جس کا ورد ذم ونکوہش ہو ایک اگرچہ خود محروم اور اسلام سے مصروف مگر بتسخیر تقدیر نفع اسلام میں مصروف اور دوسرا مردود و متمرد و عدو و معاند ہمہ تن کسر بیضہ اسلام میں مشغوف ۔عببیں تفاوت رہ ازکجا ست تابہ کجا ( ان میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ت)آخرنہ دیکھا جو صحیح حدیث میں ارشاد ہوا کہ ابوطالب پر تمام کفار سے کم عقاب ہے اور یہ اشقیاء اُن میں ہیں جن پر اشد العذاب ہے، ابوطالب کے صرف پاؤں آگ میں ہیں اور یہ ملاعنہ اُن میں کہ:لھم من فوقھم ظلل من النارومن تحتھم ظلل۱؂ ۔اُن کے اوپر آگ کی تہیں ہیں اور اُن کے نیچے آگ کی تہیں۔ ( ۱ ؎ القرآن الکریم ۳۹ /۱۶)لھم من جہنّم مھادٌ ومن فوقھم غواش ۲؂ ۔ان کے نیچے آگ کا بچھونا اور اوپر آگ کے لحاف۔ ( ۲ ؎ القرآن الکریم ۷ /۴۱)سراپا آگ، ہر طرف سے آگ۔والعیاذ باﷲ رب العلمین ( اور اﷲ رب العالمین کی پناہ۔ت)
*بلکہ دونوں کا ثبوتِ کفر بھی ایک سا نہیں،*
*ابوطالب کے باب میں اگرچہ قول حق و صواب وہی کفر و عذاب،اور اس کا خلاف شاذ ومردود باطل و مطرود پھر بھی اس حد کا نہیں کہ معاذﷲ خلاف پر تکفیر کا احتمال ہو اور ان اعداءﷲ کا کافر و ابدی جہنمی ہونا تو ضروریاتِ دین سے ہے جس کا منکر خود جہنمی کا فر، توفریقین کا نہ کفر یکساں نہ ثبوت یکساں، نہ عمل یکساں نہ سزا یکساں، ہر جگہ فرقِ زمین و آسمان، پھر مماثلت کہاں۔* " نسأل اﷲ سلوک سوی الصراط ونعوذ باﷲ من التفریظ والافراط"۔ہم اﷲ تعالٰی سے سیدھے راستے پر چلنے کا سوال کرتے ہیں، اور افراط و تفریط سے اس کی پناہ مانگتے ہیں۔(ت)"
(فتاوی رضویہ جلد ٢٩ صفحہ نمبر ٧٤٠ تا ٤٧١)
اس طویل اقتباس سے یہ بات واضح ہوگئی کے امامِ اہلسنت احمد رضا خان رحمۃ اللّٰہ علیہ مسئلہ ایمانِ ابی طالب کو ضروریاتِ دین سے نہیں سمجھتے اور جو احکامِ شریعت سے جزئیہ بیان کیا گیا وہ اُن کےلئے ہے جو ضروریاتِ دین کے منکر ہیں
اس طویل اقتباس اور وضاحت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ معترض جاہل رافضی ہے یا پھر متعصب عنادی

#عنادی_تفضیلی
فاضلِ بریلوی کہتے ہیں کہ سبع سنابل بارگاہِ رسالت ﷺ میں مقبول ہے اور میر عبدالواحد بلگرامی نے ابوطالب کا ایمان مانا ہے تو ثابت ہوا کہ ابوطالب کا ایمان مقبولِ بارگاہِ رسالت ﷺ ہے لہذا فاضل بریلوی کا کیا مقام رہا؟؟؟ (ملخصاً)

#اقول
بعض اوقات الزامی جواب پر الزامی جواب بھی دیا جاتا ہے اس لئے تفضیلی عنادی کو ہم اسکی زبان میں جواب دیتے ہیں
ہر وہ شخص جو اس مسئلہ سے واقف ہے وہ جانتا ہے کہ بخاری و مسلم میں کفرِ ابی طالب پر روایات موجود ہیں اب محدثینِ صحیحین کی کتب کے فضائل سنیں

١) شیخ محقق علی الاطلاق عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ اشعة اللمعات ج ١ ص: ١٠ پر بخاری شریف کے بارگاہِ رسالت ﷺ میں مقبولیت کا قول نقل فرماتے ہیں

٢) حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ہدی الساری ج ٢ ص: ٢٦٢ پر بخاری شریف کو بارگاہِ نبوی ﷺ میں مقبول مان رہے ہیں

٣) امامِ اہلسنت قاطع رافضیت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللّٰہ بستان المحدثین ٢٨١ پر ابوعلی زعفرانی کی بخشش کے اسباب میں مسلم شریف کے چند اجزاء کا ذکر فرمایا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم شریف کا اللّٰہ ربّ العلمین ﷻ کی بارگاہ میں کیا مقام ہے

ان مختصر اقوالِ محدثین سے صحیحین شریفین کا مقام اللّٰہ و رسول ﷻ و ﷺ کے نزدیک ظاہر ہے لہذا اب تفضیلی صاحب بتائیں کے نفئ ایمانِ ابی طالب کا مسئلہ اللّٰہ اور اسکے حبیب کی بارگاہ میں مقبول تو تفضیلیت کا کیا مقام ہوا؟
ماکان جوابکم فھو جوابنا

تفضیلی عنادی نے خود کو عاشقِ پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللّٰہ علیہ ظاہر کیا لہذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تفضیلی عنادی کو یہ زور دار طمانچہ رسید کیا جائے
فاتح قادیانیت پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں
”آنحضرت ﷺ کے چچے اور پھوپھیاں حارث, قثم, حمزہ, عباس, ابوطالب, عبدالکعبہ, جحل, ضرّار, غیداق, ابولہب, صفیہ, عاتکہ, اروی, اُمّ حکیم, بّرہ, امیمہ اس جماعت میں سے حضرت حمزہ و عباس و حضرت صفیہ رضوان اللّٰہ علیھم اجمعین وعلیھن ایمان لائے
(تحقیق الحق فی کلمة الحق ص:١٥٣)

کیا خیال ہے تفضیلی صاحب؟؟؟
یہاں بھی ابوطالب کو مسلمان نہ مانا گیا اور آپ جو امامِ اہلسنت بریلوی کو گالیاں اس ہی وجہ سے بک رہے تھے اب حضرت گولڑوی کے بارے میں عشق کا دعوی کا کب ختم کرینگے؟؟؟
بغضِ فاضلِ بریلوی تم میں صرف اس لئے ہے کہ میرے امام احمدرضا خان رحمۃ اللّٰہ علیہ نے خال المؤمنین کاتبِ وحی مولٰی امیر معاویہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کا دفاع فرمایا ہے اور تمہاری ذریت کو جہنم کا کتا کہا ہے
تمہارا امامِ اہلسنت پر بھوکنا #حبِّ_علی میں نہیں بلکہ #بغض_معاویہ میں ہے
اگر تم واقعی یہ سب مولٰی علی مشکل کشا کرّم اللّٰہ وجہہ الکریم کی محبت میں کر رہے تو عشقِ حضرت گولڑوی کا دعوی باطل
حقیقت تو یہ ہے کہ تم درپردہ شیعہ رافضی ہو اور تقیہ کرتے یوکے والے کی پیروی میں مسلمانوں کے ایمان خراب کررہے ہو
اللّٰہ کریم تمہارے شر سے مسلمانوں کو بچائے

No automatic alt text available.

 

Link to comment
Share on other sites

On Friday, August 11, 2017 at 8:44 PM, p ahmed raza said:

 

Assalamu alaikum bhaiyo..hazrat kya mujhe isska scan mil sakta hai..to badi meharbani hogi..ye maine ek deobandi ko bheja tha.. use scan dikhana hai..

 

 

*میرے بھائ اگر چہ مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل و شرف کے کمالات اہل معرفت کے دلوں میں نہیں سماں سکتے اور ان کے سچے دوستوں کے نہاں خانوں میں منزل نہیں بنا سکتے* *_اس کے با وجود ان کے ان نسب عالوں میں اپنا کامل اثر نہیں دکھا سکتے خواہ وہ آباؤ اجداد ہوں یا اولاد در اولاد چنانچہ ابو طالب میں اس نسب نے کوئی اثر نہیں کیا حالانکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بارے میں بلیغ کوشش فرماتے رہے لیکن چونکہ خدائے قدوس جل و علا نے ان کے دل پر روز اول ہی سے مہر لگا دی تھی لہذا جواب دیا اخرت النار على العار میں عار پر نار کو ترجیح دیتا ہوں_* *جیسا کہ مشہور ہے منقول ہے کہ جب ابو طالب کا انتقال ہوا مولی علی کرم اللہ وجہہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچائی کہ مات عمك الضال حضور کے گمراہ چچا کا انتقال ہوگیا بیت-کبھی ایسے گوہر پیدا کرنے والے گھرانہ میں ابو طالب جیسے کو (خالق بے نیاز) پتھر پھینکنے والا بنا دیتا ہے*

سبع سنابل شریف صفحہ ۸۹

Assalamu alaikum bhaiyo..koi Hazrat iss ka scan bhi dedijiye badi meharbani hogi

Jazak allah 

Link to comment
Share on other sites

On Sunday, August 13, 2017 at 3:18 AM, p ahmed raza said:

Assalamu alaikum bhaiyo..koi Hazrat iss ka scan bhi dedijiye badi meharbani hogi

Jazak allah 

Assalamu alaikum bhaiyo..Mujhe ye scan mil gaya...Abdul mustufa bhai aur exposing nifaq Bhai ka shukriYa bht hi umdah sharing ki hai..

Allah jaza e khair ataa kare

Aameeeeen 

IMG-20170819-WA0019.jpg

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...