Jump to content

Milad Ke Upar Kuch Aitraaz


Wadi Raza Ki

تجویز کردہ جواب

عید میلاد النبی منانے والوں کے دلچسپ تضادات
×=×=×==×=×=×=×=×=×=
تحرير :کفایت اللہ سنابلی
 
عید میلاد النبی منانے والے عیدمیلاد کے دلائل پر بات کرتے ہیں تو متضاد باتیں‌سننے کوملتی ہیں
مثلا
1۔سنت ثابتہ یا بدعت حسنہ
میلادی ایک طرف کہتے ہیں کہ عید میلاد منانے کاثبوت قرآن وحدیث دونوں میں ہے دوسری طرف جب ان سے یہ پوچھا جائے کہ خیرالقرون میں تواس کارواج نہ تھا توکہتے ہیں
اگرچہ یہ بعد کی ایجاد ہے یعنی بدعت ہے لیکن ’’بدعت حسنہ ‘‘ہے
عرض ہے کہ یہ دونوں‌ باتیں ایک دوسرے کے خلاف ہیں،
اگرکتاب وسنت سے یہ عید ثابت ہے تو پھراسے بدعت حسنہ نہیں بلکہ سنت ثابتہ کہا جائے گا، اوراگریہ‌’’ بدعت حسنہ ‘‘ یعنی بعد کی ایجاد ہے تو پھر کتاب وسنت سے اس کا ثبوت ممکن ہی نہیں ہے۔
 
2۔کبھی صراحت کی شرط اورکبھی اس سے نظرپوشی
جب ہم میلادیوں کے سامنے کتاب وسنت سے ردبدعت کے نصوص پیش کرتے ہیں اورکہتے ہیں کہ عید میلاد بھی بدعت ہے لہذا کتاب وسنت کے ان نصوص کی روشنی میں مردودہے
تو یہ میلادی کہتے ہیں کہ کتاب وسنت میں عید میلاد کے الفاظ کے ساتھ اس کا رد پیش کرو۔
لیکن جب یہ عید میلاد کے جواز پر قرآنی آیات واحادیث‌ پیش کرتے ہیں تویہ شرط بھول جاتے ہیں !
کیا کوئی ایک آیت یا کوئی ایک حدیث‌ ایسی پیش کی جاسکتی ہے جس میں عید میلاد النبی کے الفاظ کے ساتھ اس کے جواز کی بات کہی گئی ہو؟
 
3-کبھی مقلد اورکبھی غیر مقلد
میلادی حضرات کہتے ہیں کہ ہم مقلد ہیں اورہمارے اصل دلائل ہمارے امام کے اقوال ہیں ۔
لیکن جب عید میلاد کی بات آتی ہے تواس موقع پر یہ غیر مقلد بن جاتے ہیں !
کیا کوئی شخص ائمہ اربعہ رحمہم اللہ میں سے کسی ایک سے بھی عید میلاد کے جواز کا قول پیش کرسکتا ہے؟
 
4-کبھی جاہل مطلق اور کبھی مجتھد اعظم
میلادی ایک طرف کہتے ہیں کہ ہم کتاب وسنت سے براہ راست مسائل اخذ نہیں کرسکتے ،اس لئے امام اعظم ابوحنیفہ کی تقلید کرتے ہیں ۔
دوسری طرف جب عید میلاد کی بات آتی ہے تو براہ راست قران وحدیث‌ لیکر اجتہاد کرنے اورفتوی دینے بیٹھ جاتے ہیں
، اورقرآن وحدیث‌سے ایسے مسائل ڈھونڈ نکالتے ہیں جن تک ان کے امام کی بھی رسائی نہیں ہوسکی !
کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ ایک جاہل مقلد کوفتوی دینے کا اختیار کس نے دیا؟
 
5-نور یا بشر
میلادی کبھی ایسی باتیں کرتے ہیں جن سے لازم آتا ہے کہ آپ کی کوئی تاریخ‌ پیدائش ہے ہی نہیں ،
چنانچہ یہ حضرات ایک خودساختہ حدیث‌ پر ایمان رکھتے ہیں کہ ’’ اول ما خلق اللہ نوری‘‘ یعنی اللہ نے سب سے پہلے میرے نور کوپیدا کیا۔
جب تمام مخلوقات میں سب سے پہلے نور نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو پیدا کیا گیا
تواس وقت سورج وچاند بھی پیدا نہ ہوئے تھے اورتاریخیں سورج اورچاند ہی سے بنتی ہیں ،
لہذا اس عقیدہ کی بنیاد پر آپکی کوئی تاریخ پیدائش ہوہی نہیں‌سکتی ! لہذا جب آپ کی کوئی تاریخ پیدائش ہی نہیں ہے توپھر تاریخ پیدائش منانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اوراگریہ کہا جائے کہ دنیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم والدین کے ذریعہ جس تاریخ کوآئے وہی تاریخ پیدائش ہے ۔ توعرض ہے کہ والدین کے ذریعہ دنیا میں پیدا ہونا یہ تو بشر کی خوبی ہے اوراہل بدعت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشرمانتے ہی نہیں بلکہ نور مانتے ہیں ، لہٰذا اگر نور، والدین کے مراحل سے گذرے تواسے ایک دوسری شکل اپنا نا کہہ سکتے ہیں پیداہونا تو نہیں کہہ سکتے ، کیونکہ نور کی شکل میں پیدائش تو سب سے پہلے ہوچکی ہے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ میلادی حضرات عید میلادکے جوازوغیرہ سے متعلق متضاد قسم کی باتیں کرتے ہیں لہذا ان کی ساری کی ساری باتیں ایک دوسرے سے ٹکرا کر ساقط ہوگئیں ۔
واضح رہے کہ ان کے نزدیک قرآن کی بعض آیات دوسری آیات سے ٹکرانے کے سبب دونوں قسم کی آیات ساقط ہوجاتی ہیں  (خلاصۃ الافکار شرح مختصر المنار:ص:197،198)
 
عرض ہے کہ جب ان کے بقول (نعوذباللہ ) قرآن کی آیات دوسری آیات سے ٹکراجائیں تودونوں قسم کی آیات ساقط ہوجاتیں ہیں ،توپھران کے اپنے اقوال اگر انہیں کے دوسرے اقوال سے ٹکرا جائیں تو ان کا کیا حشرہونا چاہئے، اس کا اندازہ خود لگالیں۔
ہم اگرعرض کریں گے توشکایت ہوگی

 

Is Tehreer Ka Text me hi Jawab Inayat Kiya Jay 1-1 point ka muh tod...!!!

Edited by Zeeshan Raza
Link to comment
Share on other sites

مراسلہ: (ترمیم شدہ)

جناب عثمان صاحب آپ نے جو لنک دی ہے اس میں ویسے جواب نہیں موجود ہیں جس طرح اعتراض کیا گیا ہیں

بلکہ ٹکڑوں میں ہیں اور دوسری بات یہ ہے اس لنک میں اکثر اعتراض کے جواب ہیں ہی نہیں بدمزہب اس تحریر کو سوشل میڈیا پر باخوبی طرح سے چلا رہے ہیں ہمیں چاہیے جس طرح اعتراض کیا گیا ہیں اسی طرح جواب بھی علمی انداز میں دیں۔۔۔۔

جزاک اللہ

Edited by Zeeshan Raza
Link to comment
Share on other sites

یوں تو اسلامی محفل پر اہل علم حضرات نے اس موضوع کے تقریباً ہر پہلو پر مدلل اور بھرپور گفتگو فرمائی ہے، جس میں آپ کو تمام اعتراضات کے جوابات تلاش کرنے پر مل جائیں گے، انتہائی اختصار کے ساتھ ان پانچ نکات پر چند معروضات ملاحظہ فرمائیے۔

1۔ معترض کا کہنا کہ
اگرکتاب وسنت سے یہ عید ثابت ہے تو پھراسے بدعت حسنہ نہیں بلکہ سنت ثابتہ کہا جائے گا، اوراگریہ‌بدعت حسنہ یعنی بعد کی ایجاد ہے تو پھر کتاب و سنت سے اس کا ثبوت ممکن ہی نہیں۔

یہ اس کے جاہل مطلق ہونے کی دلیل ہے۔ بیچارہ اتنا نہیں جانتا کہ بدعت حسنہ ہوتی ہی وہ ہے جس کی اصل قرآن و سنت سے ثابت ہو۔ اسے چاہئے پہلے اباحت اور استحباب کے مابین فرق کسی سے پوچھ لے، پھر اعتراض کرے۔

 

2۔ مانعین کے پاس منع کی کوئی صریح دلیل نہیں مگر پھر بھی انکار کا راگ الاپتے رہتے ہیں۔ یہ مانتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی دنیا میں تشریف آوری اہل ایمان کے حق میں نعمت ہے، یہ نعت خوانی، سیرت طیبہ کے تذکرے، ذات مبارکہ کے فضائل و محاسن کے بیان اور دیگر مستحبات کا انکار نہیں کرتے نہ ایسے امور کے حق میں ثبوت مانگتے ہیں، مگر جونہی محفل میلاد کا نام لیجئے، جو انہی یا ان میں سے بعض کے مجموعے کا نام ہے، فوراً بدعت کی گردان شروع کر دیتے ہیں۔ کیا اس پر یہ سوال نہیں بنتا کہ جب یہ تمام امور انفرادی طور پر تمہارے نزدیک جائز ہیں، پھر ان کے مجموعے کو ناجائز و بدعت قرار دینے کی تمہارے پاس کیا دلیل ہے؟ کیا عید میلاد النبی کی ممانعت پر خاص نص اتری ہے تم پر؟ ہمارے لیے تو اس کے جواز کے لیے اتنا کافی کہ شریعت میں اس کی ممانعت کی دلیل نہیں۔

 

3۔ ہمارے نزدیک یہ ضروری نہیں کہ نام لے کر امام نے اسے جائز کہا ہو، بس اتنا کافی کہ عدم جواز پر کوئی ثبوت نہیں۔

 

4۔ یہ کس نے کہا کہ عید میلاد النبی کا جواز اجتہاد مطلق سے ثابت ہوا؟ ائمہ فقہ کے بیان کردہ اصول و قواعد کی پیروی دراصل انہی کی تقلید کرنا ہے نہ کہ ذاتی اجتہاد۔ غیر مقلد مگر کیا جانیں۔

 

5۔ لعنۃ اللہ علی الکاذبین۔ معترض اپنا یہ افتراء کبھی ثابت نہیں کر سکتا کہ اہلسنت نبی کریم ﷺ کو بشر تسلیم ہی نہیں کرتے۔ چنانچہ اس افتراء کی بنیاد پر بعد کی واہی تباہی سب بیکار جس کا جواب دینا ہم پر کچھ لازم نہیں۔ 

Link to comment
Share on other sites

مختصراً کچھ عرض کرتا ہوں


اباحت


اباحت سے مراد کسی مسٔلہ کی ایسی نوعیت ہے کہ شرعاً نہ تو اس کا کرنا مطلوب ہو نہ ہی چھوڑنا۔ نہ اس کی انجام دہی پر ثواب ہو نہ ہی ترک پر گرفت۔ مباحات ہی کی قسم میں ایک درجہ عفو کا بھی ہےجس سے مراد وہ احکام ہیں جن کا شریعت نے اثباتاً یا نفیاً کوئی تذکرہ نہ کیا ہو اور نہ ہی شریعت میں کوئی دوسری ایسی نظیر ملے جس پر اس کو قیاس کیا جا سکے۔ یعنی محض شریعت کے اس بارے میں خاموش رہنے پر انہیں مباح مان لیا جائے۔


مندوب یا مستحب


یہ حکم شرعی تکلیفی کی قسم ہے۔ مندوب کو نفل، مستحب، تطوّع نیز احسان بھی کہا جاتا ہے۔ لفظ مندوب "الندب" سے مشتق ہےجس سے مراد کسی اہم معاملے کی طرف بلانا اور دعوت دینا ہے۔ اصطلاح شرع میں مندوب سے مراد ایسا فعل ہےجس کے کرنے پر مدح و تعریف کی جائے لیکن چھوڑنے پر مذمت نہ کی جائے۔ جبکہ استحباب کا مادہ "حب" ہے جس کا معنی ہے "پسندیدہ"۔


 


لغوی طور پر علمائے کرام نے بدعت کی جو تعریفیں بیان فرمائیں، ان میں "بدعت مباحہ" اور "بدعت حسنہ" شامل ہیں۔ اوپر بیان کئے گئے اباحت اور استحباب کے تعارف کی روشنی میں انہیں سمجھا جا سکتا ہے۔ مخالف کا کہنا کہ اگر عید میلاد النبی بدعت حسنہ ہے تو پھر قرآن و سنت سے اس کا ثبوت ممکن ہی نہیں، یہ غلط محض ہے۔ وہ یوں کہ بدعت حسنہ کے حق میں اگر قرآن و سنت کی روشنی میں کوئی دلیل سرے سے موجود ہی نہ ہو، پھر اسے حسنہ کیونکر کہا جا سکتا ہے، پھر تو یہ مباح ہو گی؟ بلکہ  ایسی صورت میں بدعت مباحہ اور حسنہ کا فرق ہی بے معنی ہو گا۔ مخالفین کا مسٔلہ یہ ہے کہ جیسے ہی یہ لفظ بدعت سنتے ہیں، فی الفور اس سے مراد بدعت ضلالہ لے لیتے ہیں، حالانکہ بدعت ناصرف مباح اور حسن حتیٰ کہ بعض اوقات واجب ہوتی ہے۔ جماعت تراویح کے بارے میں سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول مبارک "نعم البدعۃ ھذہ" اس کی عام فہم مثال ہے۔ کہ یہاں بدعت سے مراد وہ نیا طریقہ ہے جو نبی کریم ﷺ اور پھر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں نہ تھا مگر چونکہ یہ بنفسہ اچھا تھا، اس لیے اس کی تعریف فرمائی اور حسن کہا۔

Link to comment
Share on other sites

  • 4 years later...
اگر میلاد کا مطلب ذکر مصطفے کرنا اور درود و سلام پڑھنا ہے آپکی سیرت و احوال کا بیان کرنا ہے تاکہ آپ کی معرفت ہو اور دل میں آپ کی محبت پیدا ہو تو یہ فرض ہے
اگر میلاد کا معنی محبت رسول سے آگاہی حاصل کرنا اور آپ کا ذکر خیر کرنا کہ اللہ رب العزت نے بھی کیا ہے تو یہ واجب ہے
اگر میلاد کا معنی آپکی ولادت کے دن روزہ رکھنا اور اسکی وجہ بیان کرنا ہے تو یہ سنت ہے
اگر ایک مجلس یا محفل سجا کر لوگوں کو دعوت دیکر بلوانا اور محفل کے بعد اچھے اچھے کھانوں سے مہمانوں کی ضیافت کرنا ہے تو یہ میلاد مستحب ہے
ساونڈ سسٹم لگانا (جس سے کسی بزرگ بیمار کو تکلیف نہ ہو) لائٹیوں اور جھنڈیوں سے گلی یا بازار سجانا سٹیج بنا کے یا جلوس کی شکل میں نعتیں پڑھتے ہوئے جانا جگہ جگہ پہ علما کی تقاریر کروانا لنگر تقسیم کرنا اچھے اور صاف کپڑے پہن کر محفل میں جلوس میں شرکت کرنا میلاد کی جائز و مباح قسم ہے _____ لہذا جس جس عالم یا مفکر و محقق کے پیش نظر جو جو حالات تھے انہی حالات کے پیش نظر انہوں نے اپنا موقف پیش کردیا
اگر کوئی اسے فرض و واجب نہیں مانتا تو بھی بچ جائے گا کہ اسکے پیش نظر وہ کچھ ہوگا جس سے فرضیت ثابت نہیں ہوتی مگر اسے اجر مل جائے گا کیونکہ مستحب و سنت و مباح تو مانتا ہوگا
اگر کوئی اسے سنت نہ مانے تو اس سے پوچھا جائے گا کہ سنت کیوں نہیں مانتے ؟؟ اگر وہ کہے کہ نبی علیہ السلام یا صحابہ نے سپیکر نہیں لگائے جھنڈیاں نہیں لگائیں نعرے نہیں لگائے کارڈ یا دعوت نامے نہیں چھپوائے تو ہم کہیں گے بالکل ٹھیک یہ کام سنت نہیں ہیں لہذا وہ مستحب و جائز سمجھتا ہوگا ____ وہ تو ہر صورت بچ جائے گا لیکن جو اسے ایسی بدعت کہیں کہ جو جہنم میں لے جائے ____ وہ کس دلیل سے بچے گا اسکا جواب کون دے گا؟

https://www.facebook.com/photo/?fbid=539947511109596&set=a.107859080985110
Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...