Jump to content

Bade Wisal Gairullah Se Madad Mangna


RAZVI TALWAR

تجویز کردہ جواب

اس معاملہ میں تحقیق سے ہٹ کر باتیں کیں جا رہی ہیں،

مخالفین الاعمش کی تدلیس اور محدثین کرام کی حدیث کی تصحیح کا معاملہ بڑا کر کے پیش کر رہے ہیں۔

اگر ہم کوئی بات کریں تو شاید بات سمجھ نہ آئے،مناسب ہوگا کہ ان کو ان ہی کی زبان میں بات سمجھائی جائے،

امام اعمش رحمہ اللہ کے شیوخ واساتذہ



امام اعمش نے صحابہ میں سے صرف سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو دیکھا تھا اور ان کی نماز کے طریقے پر ایک حکایت بھی نقل کی ہے مگر اس کے علاوہ ان سے روایت نہیں لی۔ اس اعتبار سے آپ کے سب سے افضل ترین شیخ صحابی رسول تھے۔
اس کے علاوہ آپ نے بے شمار کبار وصغار تابعین سے روایات لی ہیں جن میں: أبو وائل، زيد بن وهب، أبي عمرو الشيباني، إبراهيم النخعي، سعيد بن جبير، أبي صالح السمان، مجاهد، أبي ظبيان، خيثمة بن عبد الرحمن، زر بن حبيش، عبد الرحمن بن أبي ليلى، كميل بن زياد، المعرور بن سويد، الوليد بن عبادة بن الصامت، تميم بن سلمة، سالم بن أبي الجعد، عبد الله بن مرة الهمداني، عمارة بن عمير الليثي، قيس بن أبي حازم، محمد بن عبد الرحمن بن يزيد النخعي، هلال بن يساف، أبي حازم الأشجعي سلمان، أبي العالية الرياحي، إسماعيل بن رجاء، ثابت بن عبيد، أبي بشر، حبيب بن أبي ثابت، الحكم، ذر بن عبد الله، زياد بن الحصين، سعيد بن عبيدة، الشعبي، المنهال بن عمرو، أبي سبرة النخعي، أبي السفر الهمداني، عمرو بن مرة، اور يحيى بن وثاب وغیرہ شامل ہیں۔

اپنے ان شیوخ میں سے ابو صالح السمان کے متعلق امام اعمش نے خود فرمایا ہے کہ:
"سمعت من أبي صالح ألف حديث"
"میں نے ابو صالح سے ایک ہزار احادیث سنی"

(العلل و معرفۃ الرجال روایۃ عبد اللہ: 2910، 5588)​

گویا ابو صالح آپ کے سے قریبی شیوخ میں سے ہیں جن سے انہوں نے سب سے زیادہ استفادہ کیا۔ بلکہ آپ کی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت بزریعہ ابو صالح کو محدثین نے اصح الاسانید بھی قرار دیا ہے۔

اس کے علاوہ ابراہیم النخعی بھی آپ کے قریبی شیوخ میں سے تھے جن کی احادیث کو آپ دوسروں کی نسبت سب سے زیادہ جانتے تھے، چنانچہ آپ کے شاگرد امام وکیع فرماتے ہیں:
"الأعمش أحفظ لإسناد إبراهيم من منصور"
"اعمش ابراہیم (نخعی) کی اسناد کے منصور (بن معتمر) سے زیادہ بڑے حافظ ہیں۔"

(سنن الترمذی: تحت ح 70 واسنادہ صحیح)​

جبکہ یحیی بن وثاب سے آپ نے عبد اللہ بن مسعود کی قراءت کا علم حاصل کیا۔
اور کہا جاتا ہے کہ آپ نے ابو العالیہ الریاحی سے بھی علم قراءت سیکھا ہے۔

مغلطائی حنفی نے اکمال میں حافظ اسماعیلی کی ایک کتاب کو ذکر کیا ہے جس میں انہوں نے امام اعمش کے شیوخ کو جمع کیا ہے۔ اس کتاب کا نام ہے:

امام اعمش رحمہ اللہ کے تلامذہ


امام اعمش کے تلامذہ میں بڑے بڑے علماء محدثین و فقہاء شامل ہیں۔ آپ کے علمی رتبے کی وجہ سے آپ کے ساتھیوں اور ہم عصر لوگوں نے بھی آپ سے روایتیں لی ہیں۔ ان میں الحكم بن عتيبة، أبو إسحاق السبيعي، طلحة بن مصرف، حبيب بن أبي ثابت، عاصم بن أبي النجود، أيوب السختياني، زيد بن أسلم، صفوان بن سليم، سهيل بن أبي صالح، أبان بن تغلب، خالد الحذاء، سليمان التيمي، اور إسماعيل بن أبي خالد شامل ہیں، یہ سب آپ کے اقران یا ہم عصر ساتھیوں میں سے تھے۔

ان کے علاوہ آپ سے درج ذیل لوگوں نے بھی شرف تلمذ حاصل کیا ہے: 
أبو حنيفة نعمان بن ثابت، الأوزاعي، سعيد بن أبي عروبة، ابن إسحاق، شعبة، معمر، سفيان الثوري، شيبان، جرير بن حازم، زائدة، جرير بن عبد الحميد، أبو معاوية، حفص بن غياث، عبد الله بن إدريس، علي بن مسهر، وكيع، أبو أسامة، سفيان بن عيينة، أحمد بن بشير، إسحاق بن يوسف الأزرق، سعد بن الصلت، عبد الله بن نمير، عبد الرحمن بن مغراء، عثام بن علي، يحيى بن سعيد الأموي، يحيى بن سعيد القطان، يونس بن بكير، يعلى بن عبيد، جعفر بن عون، الخريبي، عبيد الله بن موسى، اور أبو نعيم الفضل بن دكين وغیرہ۔ 

ان میں سے امام سفیان الثوری کے متعلق کہا جاتا ہے کہ امام اعمش کی حدیث کو سب سے زیادہ جانتے تھے۔ چنانچہ ابو بکر بن ابی عتاب الاعین نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا:
"من أحب الناس إليك في حديث الأعمش؟"
"آپ کو اعمش کی حدیث میں کون سب سے زیادہ محبوب ہے؟"
آپ نے فرمایا:
"سفيان، قلت شعبة؟ قال: سفيان"
"سفیان زیاد محبوب ہیں" میں نے پوچھا شعبہ نہیں؟ آپ نے پھر فرمایا: "سفیان"۔


(الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: 1/63-64)​

اسی طرح امام یحیی بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"لم يكن أحد أعلم بحديث الأعمش من الثوري"
"ثوری سے زیادہ اعمش کی حدیث کو کوئی نہیں جانتا"


(ایضا)​

امام اعمش کے ایک دوسرے شاگرد ابو معاویہ فرماتے ہیں:
"كان سفيان يأتيني ههنا فيذاكرني حديث الأعمش فما رأيت أحدا أعلم بحديث الأعمش منه"
"سفیان میرے پاس یہاں تشریف لائے اور آپ نے اعمش کی حدیث ذکر کرنا شروع کیں، تو میں نے ان سے زیادہ کسی کو اعمش کی حدیث کا عالم نہیں دیکھا"


(ایضا)​

امام ابو حاتم الرازی فرماتے ہیں:
"أحفظ أصحاب الأعمش الثوري"
"الثوری اعمش کے سب سے احفظ اصحاب میں سے ہیں"


(ایضا)​

اور ابو معاویہ کے متعلق امام حاکم نے فرمایا:
"أبا معاوية أحفظ أصحاب الأعمش"
"ابو معاویہ اعمش کے سب سے احفظ اصحاب میں سے ہیں"


(مستدرک علی الصحیحین: 1/501)​

اسی طرح حفص بن غیاث کو اوثق اصحاب اعمش کہا گیا ہے چنانچہ امام علی بن المدینی فرماتے ہیں:
"سمعت يحيى ابن سعيد يقول : أوثق أصحاب الأعمش حفص بن غياث . فأنكرت ذلك ، ثم قدمت الكوفة بأخرة ، فأخرج إلى عمر بن حفص كتاب أبيه عن الأعمش ، فجعلت أترحم على يحيى ، فقال لى : تنظر فى كتاب أبى و تترحم على يحيى ؟ قلت : سمعته يقول : حفص أوثق أصحاب الأعمش ، و لم أعلم حتى رأيت كتابه"
"میں یحیی بن سعید (القطان) کو کہتے سنا کہ حفص بن غیاث اوثق اصحاب اعمش ہیں۔ تو میں نے ان کی اس بات کا انکار کیا۔ بعد میں جب میں کوفہ آیا تو حفص کے بیٹے عمر اپنے والد کی کتاب میرے پاس لے آئے جس میں انہوں نے اعمش کی روایات لکھ رکھی تھیں، میں نے اس کتاب کو دیکھا تو یحیی کی تعریف کرنے لگا۔ عمر بن حفص نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کتاب میرے والد کی دیکھ رہے ہیں اور تعریف آپ یحی کی کر رہے ہیں؟ تو میں نے کہا کہ میں نے یحیی کو کہتے سنا تھا کہ حفص اوثق اصحاب اعمش ہیں اور اس بات کا علم مجھے نہیں تھا جب تک میں نے ان کی یہ کتاب نہیں پڑھی تھی۔"


(تاریخ بغداد: 8/198

 

"شيوخ الأعمش" (اکمال: 6/94)۔

اب محدث فورم پر غیر مقلد کے ہی ایک صاحب نے اپنے مسلک کے متعصب عالم زبیر علی زئی کا رد لکھا،مضمون پیش خدمت ہے۔

امام اعمش رحمہ اللہ اور تدلیس



امام اعمش ثقہ ہونے کے ساتھ ساتھ کثیر التدلیس بھی تھے اس لئے ان کی غیر مسموع معنعن روایات عام طور پر ضعیف ہوتی ہیں سوائے ان خاص روایات کہ جن میں یہ صراحت مل جائے کہ اس میں انہوں نے تدلیس نہیں کی ہے مثلا کسی خاص شیخ سے روایت یا کسی خاص شاگرد سے روایت۔

1- چنانچہ امام عبد اللہ بن المبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"إنما أفسد حديث أهل الكوفة الأعمش وأبو إسحاق"
"اہل کوفہ کی حدیث کو اعمش اور ابو اسحاق نے مفسد کیا ہے" یعنی تدلیس کی وجہ سے۔

(احوال الرجال: 1/126، واسنادہ صحیح)​

2- مغیرہ بن مقسم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"أهلك أهل الكوفة أبو إسحاق وأعيمشكم هذا"
"اہل کوفہ کو ابو اسحاق اور تمہارے ان اعمش نے ہلاک کر دیا ہے"

(احوال الرجال: 1/129، واسنادہ صحیح، ومیزان الاعتدال: 2/224)​

3- امام ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"وقالوا لا يقبل تدليس الأعمش لأنه إذا وقف أحال على غير مليء يعنون على غير ثقة إذا سألته عمن هذا"
"اور انہوں (محدثین) نے کہا: اعمش کی تدلیس غیر مقبول ہے کیونکہ انہیں جب (معنعن روایت میں) پوچھا جاتا تو غیر ثقہ کا حوالہ دیتے تھے۔ جب آپ سے پوچھا جاتا کہ یہ روایت کس سے ہے؟ تو کہتے: موسیٰ بن طریف سے (کذاب)، عبایہ بن ربعی سے (متروک متہم) اور حسن بن ذکوان سے (ضعیف)"

(التمہید: 1/30)​

4- حافظ علائی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"مشهور بالتدليس مكثر منه"
"آپ تدلیس کے ساتھ مشہور ہیں اور آپ کثرت سے تدلیس کیا کرتے تھے"

(جامع التحصیل: 1/188)​

5- امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"أحد الائمة الثقات، عداده في صغار التابعين، ما نقموا عليه إلا التدليس"
"آپ آئمہ ثقات میں سے تھے۔ آپ کا شمار صغار تابعین میں ہوتا ہے۔ آپ پر کسی قسم کی کوئی جرح نہیں ہے سوائے تدلیس کے"

(میزان الاعتدال: 2/224)​

آپ مزید فرماتے ہیں:
"قلت: وهو يدلس، وربما دلس عن ضعيف، ولا يدرى به، فمتى قال حدثنا فلا كلام، ومتى قال " عن " تطرق إلى احتمال التدليس"
"میں کہتا ہوں کہ اعمش تدلیس کیا کرتے تھے اور بعض اوقات آپ ضعیف راوی سے بھی تدلیس کیا کرتے تھےاور آپ کو اس کا علم نہ ہوتا۔ لہٰذا جب آپ حدثنا کہیں تو ان کی روایت کے حجت ہونے میں کوئی کلام نہیں لیکن جب آپ "عن" کہیں تو اس میں تدلیس کا احتمال موجود ہے۔"

(میزان الاعتدال: 2/224)​

6- حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب طبقات المدلسین (ص 33) میں امام اعمش کو دوسرے طبقے کا مدلس شمار کیا۔ البتہ بعد میں آپ نے خود اس بات سے رجوع کرتے ہوئے النکت علی کتاب ابن الصلاح میں انہیں تیسرے طبقے میں شمار کیا ہے، چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
"الثالثة: من أكثروا من التدليس وعرفوا به، وهم..... وسليمان الاعمش....."
"تیسرا طبقہ ان لوگوں کا ہے جو کثرت سے تدلیس کرنے کی وجہ سے جانے جاتے تھے اور وہ ہیں۔۔۔۔ اور سلیمان الاعمش۔۔۔"

(النکت علی کتاب ابن الصلاح لابن حجر: 2/640)​

یاد رہے کہ النکت علی ابن الصلاح کو ابن حجر نے طبقات المدلسین کے بعد تالیف کیا تھا۔ لہٰذا یہی ابن حجر کا آخری موقف ہے۔ اس کے علاوہ دیگر مقامات پر ابن حجر نے اعمش کی کئی روایات کو ان کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف بھی قرار دیا ہے۔
7- بلکہ امام اعمش تو کبھی کبھار تدلیس تسویہ بھی کیا کرتے تھے (یعنی اس میں راوی اپنے شیخ سے اوپر کے کسی ضعیف وغیرہ راوی کو گراتا ہے)، چنانچہ علامہ نووی نے "الارشاد" (34) میں اور خطیب بغدادی نے "الکفایہ" (ص 3644) میں امام عثمان بن سعید الدارمی سے نقل کیا ہے امام اعمش بعض اوقات تدلیس تسویہ بھی کیا کرتے تھے۔ لیکن چونکہ اس تدلیس کا وقوع امام اعمش سے بہت قلیل ہوا ہے اس لئے ان کی تمام روایات کو اس تدلیس کی وجہ سے رد نہیں کیا جاتا بلکہ صرف اسی خاص روایت کو رد کیا جائے جس میں ان سے تدلیس تسویہ ثابت ہو۔ البتہ جو لوگ مدلس کے ایک بار تدلیس کرنے پر بھی اس کی تمام معنعن روایات کو ضعیف ٹھہراتے ہیں، ان کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے۔

نیز دیکھیں انوار البدر فی وضع الدین علی الصدر للشیخ کفایت اللہ السنابلی: 118-122​


پس ثابت ہوا کہ امام اعمش کثرت سے تدلیس کیا کرتے تھے لہٰذا ان کی معنعن روایات عدم سماع وعدم متابعت کی صورت میں غیر مقبول ہوں گی۔ لیکن اس اصول کی چند استثنائی حالتیں بھی ہیں جن کا ذکر ہم اب کریں گے، ان شاء اللہ:

استثنائی حالت # 1:
امام اعمش رحمہ اللہ سے روایت کرنے والے اگر امام شعبہ بن الحجاج رحمہ اللہ ہوں تو ان کی معنعن روایات بھی سماع پر محمول ہوتی ہیں کیونکہ امام شعبہ اپنے شیوخ سے صرف وہی احادیث لیتے تھے جو انہوں نے اپنے شیخ سے براہ راست سنی ہوں۔

چنانچہ امام شعبہ فرماتے ہیں:
"كل شئ حدثتكم به فذلك الرجل حدثني انه سمعه من فلان"
"جو حدیث بھی میں تمہیں کسی شخص سے بیان کروں تو اس روایت کو اس شخص نے مجھے براہ راست سنائی ہے کہ اس نے خود اسے فلان سے سنا ہے۔"

(الجرح والتعدیل: 1/173)​

امام شعبہ مزید فرماتے ہیں:
"كفيتكم تدليس ثلاثة: الاعمش وابي اسحاق و قتاده"
" میں آپ کے لئے تین اشخاص کی تدلیس کے لئے کافی ہوں: اعمش، ابو اسحاق، قتادہ"

(طبقات المدلسین لابن حجر: ص 151)​

اسی طرح امام یحیی بن سعید القطان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"كلما حدث به شعبة عن رجل فقد كفاك امره فلا تحتاج ان تقول لذلك الرجل سمع ممن حدث عنه"
"جو روایت بھی شعبہ کسی شخص سے بیان کریں تو تمہیں ان کا یہ عمل ہی کافی ہو گا لہٰذاتمہیں اس شخص کے متعلق یہ سوال پوچھنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی کہ اس نے یہ روایت اپنے شیخ سے سنی ہے یا نہیں۔"

(الجرح والتعدیل: 2/35، واسنادہ صحیح)​

اسی لئے حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ امام شعبہ کے متعلق فرماتے ہیں:
كان لا يأخذ عن أحد ممن وصف بالتدليس إلا ما صرح فيه ذلك المدلس بسماعه من شيخه"
"شعبہ تدلیس سے متصف راویوں سے صرف وہی احادیث لیتے تھے جن میں انہوں نے اپنے شیخ سے سماع کی صراحت کی ہو "

(النکت علی ابن الصلاح: 1/259)​


استثنائی حالت # 2:
امام اعمش سے اگر امام یحیی بن سعید القطان رحمہ اللہ روایت کریں تو بھی ان کی روایت سماع پر محمول ہوتی ہے کیونکہ اپنے شیخ شعبہ کی طرح، امام قطان بھی اپنے مدلس شیوخ سے صرف وہی روایات لیتے ہیں جو انہوں نے اپنے شیخ سے خود سنی ہوں۔

چنانچہ حافظ ابن حجر العسقلانی فرماتے ہیں:
"والقطان لا يحمل من حديث شيوخه المدلسين الا ما كان مسموعا لهم صرح بذلك الإسماعيلي"
"اور القطان اپنے مدلس شیوخ سے صرف وہی حدیث لیتے تھے جن کا انہوں نے سماع کیا ہو، اس بات کی صراحت اسماعیلی نے کی ہے۔"

(فتح الباری: 1/309 ط دار المعرفہ)​


استثنائی حالت # 3:
امام اعمش کی جو روایات امام حفص بن غیاث رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں تو وہ بھی سماع پر محمول ہوتی ہیں۔
محمد بن عبد اللہ بن عمار الموصلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"كان عامة حديث الأعمش عند حفص بن غياث على الخبر والسماع"
"حفص بن غیاث کے پاس اعمش کی عام روایتیں خبر وسماع پر محمول ہیں۔"

(تاریخ بغداد: 8/194، واسنادہ صحیح)​

اسی طرح حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
"قلت اعتمد البخاري على حفص هذا في حديث الأعمش لأنه كان يميز بين ما صرح به الأعمش بالسماع وبين ما دلسه نبه على ذلك أبو الفضل بن طاهر وهو كما"
"میں کہتا ہوں کہ امام بخاری نے اس حدیث میں اعمش کی حدیث میں سماع کے لئے ان کی حفص سے روایت پر اعتماد کیا ہے کیونکہ حفص اعمش کی مصرح بالسماع اور مدلس روایات میں تمیز کیا کرتے تھے، اس کی ابو الفضل بن طاہر نے صراحت کی ہے اور یہ ایسا ہی ہے جیسا انہوں نے کہا ہے۔"

(فتح الباری: 1/398)​


استثنائی حالت # 4:
امام اعمش اگر ابو سفیان طلحہ بن نافع رحمہ اللہ سے روایت کریں تو ان کی معنعن روایات صحیح ہوتی ہیں کیونکہ:
1- ابراہیم نخعی کے بعد امام اعمش نے سب سے زیادہ روایات اپنے اس شیخ سے لی ہیں۔ اور اعمش کو ان کی روایات میں تخصص حاصل ہے حتی کہ ابو سفیان کو "صاحبِ اعمش" کہا جانے لگا اور اعمش کےمتعلق کہا جانے لگا: "رَاويتُه" کہ وہ ابو سفیان کا راوی ہے۔
2- امام الجرح والتعدیل ابن عدی نے فرمایا ہے کہ اعمش کی ابو سفیان سے روایات مستقیم ہیں۔ چنانچہ آپ ابو سفیان کے متعلق فرماتے ہیں: "روى عن جابر أحاديثَ صالحة؛ رواها الأعمش عنه، ورواها عن الأعمشِ الثِّقاتُ، وهو لا بأسَ به، وقد روى الأعمشُ عنه أحاديثَ مستقيمة" کہ انہوں نے جابر سے صالح احادیث روایت کی ہیں انہیں اعمش نے ان سے روایت کیا ہے اور اعمش سے انہیں ثقہ راویوں نے نقل کیا ہے، ان (ابو سفیان) میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اعمش نے ان سے مستقیم روایات نقل کی ہیں۔

(الکامل لابن عدی: 5/181: قال الشيخ أبو إسحاق الحويني: ووقع فيه تصحيف واضطراب، تصويبه من مختصره، للمقريزي (ص: 440 - 441)، ومن النقل في تهذيب الكمال (13/440)، وهدي الساري (ص: 4111)، وغيرها)​

حدیث کی استقامت تدلیس قادح کے عدم وجود پر دلیل ہے۔

استثنائی حالت # 4، 5، 6:
امام اعمش اگر اپنے درج ذیل تین اساتذہ سے روایت کریں تو ان کی روایت سماع پر محمول ہوتی ہے الا یہ کہ کسی خاص روایت میں تدلیس ثابت ہو جائے۔
1- ابو صالح السمان
2- ابو وائل شقیق
3- ابراہیم بن یزید النخعی
چنانچہ امام ذہبی فرماتے ہیں:
"قلت: وهو يدلس، وربما دلس عن ضعيف، ولا يدرى به، فمتى قال حدثنا فلا كلام، ومتى قال " عن " تطرق إلى احتمال التدليس إلا في شيوخ له أكثر عنهم: كإبراهيم، ]وأبي[ وائل، وأبي صالح السمان، فإن روايته عن هذا الصنف محمولة على الاتصال"
" میں کہتا ہوں کہ اعمش تدلیس کیا کرتے تھے اور بعض اوقات آپ ضعیف راوی سے بھی تدلیس کیا کرتے تھے اور انہیں اس کا علم نہیں ہوتا لہٰذا جب آپ حدثنا کہیں تو اس کی روایت کے حجت ہونے میں کوئی کلام نہیں اور جب آپ "عن" کہیں تو اس میں تدلیس کا احتمال آجاتا ہے سوائے ان شیوخ میں جن سے آپ نے کثرت سے روایات لی ہیں مثلا ابراہیم (النخعی)، ابی وائل (شقیق بن سلمہ)، اور ابو صالح السمان، کیونکہ ان کی روایت اس صنف سے اتصال پر محمول ہوتی ہے۔"

(میزان الاعتدال: 2/224)​


امام ذہبی اس فن کے امام اور صاحبِ استقراء التام ہیں، ان کی یہ تخصیص ان کے استقراء و تحقیق پر مبنی ہے لہٰذا ان کی یہ بات حجت ہے۔
شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ وغیرہ نے امام ذہبی کے اس فیصلے کو نہ مانتے ہوئے چند دلائل پیش کر کے فرمایا ہے کہ ذہبی کی یہ بات صحیح نہیں ہے تو ان کے استاد شیخ محب اللہ شاہ راشدی رحمہ اللہ نے ان کے رد میں ایک مضمون لکھا بنام "تسكين القلب المشوش باعطاء التحقيق في تدليس الثوري والأعمش" (دیکھیں مقالات راشدیہ: ج 1 ص 306) یہاں پر میں اس مضمون کا مختصر سے مختصر خلاصہ کرنے کی کوشش کروں گا۔اس مضمون میں آپ نے شیخ زبیر رحمہ اللہ کے ان دلائل کا مدلل رد کرتے ہوئے فرمایا جن کی بنیاد پر آپ نے اعمش کی ان شیوخ سے تدلیس ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ:
"درج بالا جو دلائل آپ نے پیش کیے ہیں وہ سب عمومی ہیں اور ان سے چند مخصوص شیوخ سے تدلیس نہ کرنے کی نفی لازم نہیں آتی بلکہ ایسے امثلہ موجود ہیں کہ مدلس راوی تیسرے مرتبہ کا ہے لیکن ائمہ نے کے متعلق یہ ےتصریح فرمائی ہے کہ یہ مدلس فلاں فلاں شیخ سے تدلیس نہیں کرتا۔۔۔۔ لہٰذا اعمش کے معرف بالتدلیس ہونے کے باوجود معین مخصوص شیوخ سے تدلیس نہ کرنے پر آپ متعجب کیوں ہو رہے ہیں۔" (ص 332)
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ حافظ نووی کا ابو صالح کی ایک روایت پر کلام نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"وكقوله من الأعمش عن أبي صالح والأعمش مدلس، والمدلس إذا قال "عن" لا يحتج به الا اذا ثبت السماع من جهة أخري" (شرح مسلم: 2/119)۔

تو شیخ محب اللہ راشدی رحمہ اللہ ان کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"لیکن میرے محترم یہ کوئی کلیہ تو نہیں کہ متقدم جو بھی کہے وہ صحیح ہوتا ہے اور جو ان سے متاخر کہے وہ صحیح نہیں ہوتا۔ امام نووی رحمہ اللہ نے ابو صالح سے اعمش کی روایت کے بارے میں یہ فرمایا کہ بغیر سماع کی تصریح کے ان کی روایت حجت نہیں تو یہ انہوں نے محض اس لئے کہا کہ اعمش معروف بالتدلیس ہے اس کی انہوں نے کوئی ٹھوس دلیل نہیں دی۔ اس کے برعکس حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی بات دلائل پر مبنی ہے جو آئندہ ان شاء اللہ ذکر کیے جا رہے ہیں۔ لہٰذا جب حافظ ذہبی رحمہ اللہ کو علم ہو گیا کہ اعمش کی ان ان شیوخ سے تدلیس نہیں کرتا تھا تو وہ امام نووی رحمہ اللہ پر حجت نہیں۔" (ص 332-333)
آگے چل کر آپ مزید فرماتے ہیں:
"کسی راوی پر ائمہ فن کے کلام – تعدیلا وتجریحا، توثیقا وتضعیفا – کے تین ماخذ ہوتے ہیں۔ کبھی یہ تینوں یک جا پائے جاتے ہیں کبھی ان میں سے کوئی ایک۔
1- کس امام نے کسی راوی پر کلام کیا ہے وہ اس کے معاصر تھے اور ان کا حال (حدیث میں) مشاہدہ سے معلوم کر کے اس پر کلام کیا ہو۔
2- وہ ان کے معاصر تھے لیکن ان سے متقدم ائمہ فن کے اس راوی پر کیے ہوئے کلام کی بناء پر ان پر کلام کیا۔
3- اس راوی کی روایت کو دوسرے ثقات رواۃ کی روایات سے مقابلہ کر کے اور اس کی روایت پر روایتا ودرایتا اچھی طرح تدبر کرنے کے بعد ان کے بارے میں کوئی فیصلہ دیا ہو۔
اس تیسری قسم کی التنکیل میں امام ابن معین وغیرہ کی مثالیں دے کر بخوبی وضاحت کر دی گئی ہے۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ اعمش کے معاصر تو یقینا نہیں تھے لیکن ان کے متعلق متقدمین کی تصریحات انہیں بوجہ اتم حاصل تھیں۔ اسی طرح کسی راوی کی روایات کی روایت ودرایت کے اصول پر پرکھ کر اس کے بارے میں کسی فیصلہ دینے کا بھی انہیں اچھا ملکہ حاصل تھا۔۔۔۔
میری گذارش یہ ہے کہ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے اعمش رحمہ اللہ کے متعلق جو کچھ فرمایا وہ متقدمین کی تصریحات اور خود ان کی تحقیق دونوں پر مبنی ہے۔
" (ص 333-334)
آگے شیخ راشدی مزید فرماتے ہیں:
"بہرحال حافظ ذہبی رحمہ اللہ کا اعمش کے بارے میں ان کبار شیوخ کو مستثنیٰ کرنا حقائق ودلائل اور ان کی روایات کو بدقت نظر پرکھنے پر مبنی ہے۔ اب اگر ان کی رائے کو صحیح نہیں سمجھتے تو یہ بے دلیل بات ہے آپ نے محض عمومی دلیل پیش کی ہے ان کبار شیوخ کے بارے میں متقدمین کی تصریحات سے خصوصی طور پر کوئی دلیل پیش نہیں فرمائی۔ یعنی اعمش ان سے بھی تدلیس کرتا تھا۔ محض مدلس ہونا تو حافظ ذہبی رحمہ اللہ کو بھی تسلیم ہے لیکن انہوں نے علی وجہ البصیرت اس عموم سے ایک استثناء کی ہے جس کو آپ ٹھوس دلائل سے رد نہیں کر سکتے۔"
آخر میں بطور تنبیہ شیخ صاحب فرماتے ہیں:
"تنبیہ: دنیا میں ایسا کوئی کلیہ نہیں جس سے کچھ نہ کچھ مستثنیات نہ ہوں یا ان میں سے کوئی شاذ ونادر فرد خارج نہ ہو لیکن پوری دنیا اکثریت پر ہی اعتماد کرتی ہے۔ اگر اکثر افراد اس کلیہ سے خارج نہیں ہوتے تو وہ کلیہ مسلمہ ہو جاتا ہے۔
امام اعمش کے متعلق اب تک جو کچھ تحریر کیا گیا ہے اس کا بھی یہ حال ہے کیونکہ دو تین مواضع ایسے ہیں جہاں ائمہ فن نے تصریح فرمائی ہے کہ یہاں اعمش نے ابو صالح یا ابو وائل سے تدلیس کی ہے اور قرائن بھی اس کے موید ہیں تو ان مواضع کو مستثنیات میں سے قرار دیا جائے گا اور وہاں عدم سماع وعدم انقطاع تسلیم کیا جائے گا۔ بصورت دیگر جہاں ائمہ فن میں سے نہ کسی امام نے یہ تصریح فرمائی ہو کہ یہاں اعمش نے ابو صالح، ابو وائل یا ابراہیم وغیرہ سے تدلیس کی ہے اور نہ وہاں کچھ ایسے قرائن ہی موجود ہوں جن سے تدلیس کا شبہ پڑتا ہو تو وہاں یہ کلیہ صحیح ہو گا اور وہاں اعمش کی معنعن روایات بھی سماع پر محمول ہوں گی۔ واللہ اعلم
" (ص 339)

شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے ایک مضمون لکھا ہے بنام "سلیمان الاعمش کی ابو صالح وغیرہ سے معنعن روایات کا حکم" (تحقیقی مقالات: ج 3 ص 300)۔ اس میں انہوں نے ایسی ہی اس کلیہ سے مستثنی چندروایات پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اعمش کی ابو صالح، ابو وائل اور ابراہیم سے تمام معنعن روایات ضعیف ہیں۔ حالانکہ شیخ راشدی نے صراحت کر دی ہے کہ چند مستثنیات کی بنیاد پر اس اصولِ کلیہ کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا شیخ زبیر نے اس مضمون میں جتنی بھی مثالیں پیش کی ہیں وہ ان مستثنیات میں شامل ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ اس مضمون میں جتنی بھی مثالیں پیش کی گئی ہیں ان میں سے مشکل ہی کسی روایت میں اعمش نے واقعی میں اپنے ان شیوخ سے تدلیس کی ہے، بلکہ محض ان پر اعتراض ہیں۔
ذیل میں ہم ان مثالوں کا جائزہ لیتے ہیں:
پہلی مثال پیش کرتے ہوئے شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"1) امام سفیان بن سعید الثوری رحمہ اللہ نے ایک روایت کے بارے میں فرمایا: "حديث الأعمش عن أبي صالح: الإمام ضامن، لا أراه سمعه من أبي صالح" اعمش کی ابو صالح سے الامام ضامن والی حدیث، میں نہیں سمجھتا کہ انہوں نے اسے ابو صالح سے سنا ہے۔ (تقدمہ الجرح والتعدیل ص 82 وسندہ صحیح)۔۔۔۔ معلوم ہوا کہ امام سفیان ثوری حافظ ذہبی کا مذکورہ قاعدہ نہیں مانتے تھے۔"

حالانکہ امام ثوری کا اعمش کی ابو صالح سے کسی خاص روایت پر کلام کرنے سے یہ ہرگز لازم نہیں آتا کہ یہ روایت اعمش نے ابو صالح سے اس لئے نہیں سنی کیونکہ انہوں نے لازما تدلیس کی ہے بلکہ تدلیس کے علاوہ اعمش کی غلطی یا وہم بھی اس انقطاع کی وجہ ہو سکتی ہے اور تو اور قرائن بھی اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
چنانچہ بعض روایات میں اعمش نے خود اس روایت کو نقل کرنے میں تردد اور شک کا اظہار کیا ہے، چنانچہ امام احمد اپنی مسند میں نقل کرتے ہیں: "حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، قَالَ: حُدِّثْتُ عَنْ أَبِي صَالِحٍ، وَلَا أُرَانِي إِلَّا قَدْ سَمِعْتُهُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قال: قال رسولُ صلي الله عليه وسلم: " الْإِمَامُ ضَامِنٌ" عبد اللہ بن نمیر نے ہمیں اعمش سے حدیث بیان کی انہوں نے کہا میں ابو صالح کے زریعے حدیث بیان کرتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث خود ان سے سنی ہے کہ ابو ہریرہ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: الامام ضامن۔۔۔۔
اولا: اس حدیث میں امام اعمش خود اسے ابو صالح سے روایت کرنے میں شک میں مبتلا ہیں تو ان کے شک ووہم کے بارے میں یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ یہ تدلیس ہے جو قصدا کی جاتی ہے؟
ثانیا: اگر امام ثوری کے محض "مجھے لگتا ہے" کو یقین پر محمول کیا جا سکتا ہے، تو امام اعمش کے اسی "مجھے لگتا ہے" کو کیوں یقین پر محمول کر کے یہ نہیں کہا جاتا کہ اعمش نے یہ روایت ابو صالح سے سنی ہے؟
ثالثا: اس حدیث میں دوسرے مقامات پر امام اعمش نے سماع کی تصریح بھی کردی ہے لہٰذا تدلیس ہو یا وہم سب شبہات اس سے دور ہو جاتے ہیں۔
چنانچہ امام طحاوی اس حدیث کی روایت میں فرماتے ہیں: "حدثنا أبو أمية قال: حدثنا سريج بن النعمان الجوهري قال: حدثنا هشيم , عن الأعمش قال: حدثنا أبو صالح , عن أبي هريرة , عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله" (شرح مشکل الآثار للطحاوی: 5/432، واسنادہ حسن)۔ اس میں امام اعمش نے بالیقین سماع کی تصریح کر دی ہے۔
اگر کوئی کہے کہ اس کی سند میں ہشیم مدلس ہیں اور عن سے روایت کرتے ہیں لہٰذا اس میں تدلیس کا "احتمال" ہے، تو عرض ہے کہ امام ہشیم اس میں منفرد نہیں ہیں۔
ابراہیم بن احمد الرؤاسی نے بھی اعمش سے اپنی روایت میں سماع کی تصریح نقل کی ہے، چنانچہ امام دارقطنی فرماتے ہیں: "وقال إبراهيم بن حميد الرؤاسي: عن الأعمش، عن رجل، عن أبي صالح، عن أبي هريرة. قال الأعمش: وقد سمعته من أبي صالح" ابراہیم بن احمد الرؤاسی (ثقہ) عن اعمش عن رجل عن ابو صالح عن ابو ہریرہ کے طریق سے اس حدیث کو نقل کرتے ہیں، اور اعمش نے کہا: کہ میں نے یہ حدیث ابو صالح سے سنی ہے۔ (علل الدارقطنی: 10/195)۔
اس کے علاوہ اس حدیث کو امام اعمش سے "حفص بن غیاث" نے بھی روایت کیا ہے۔ چنانچہ امام ترمذی فرماتے ہیں: "حديث أبي هريرة رواه سفيان الثوري، وحفص بن غياث، وغير واحد، عن الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم" ابو ہریرہ کی حدیث کو سفیان الثوری، حفص بن غیاث اور دوسروں نے اعمش عن ابو صالح عن ابو ہریرہ عن النبی ﷺ کے طریق سے روایت کیا ہے۔ (سنن الترمذی: 1/402)۔
نیز حفص کی روایت کے لئے دیکھیں شرح مشکل الآثار (5/432، واسنادہ صحیح)۔
اور اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ حفص کی اعمش سے روایت سماع پر محمول ہوتی ہے۔
لہٰذا اس حدیث میں اعمش پر تدلیس کا الزام رفع ہوا، والحمد للہ۔ اور اگر یہ روایت واقعی میں منقطع ہوتی تو بھی انقطاع کی وجہ تدلیس نہیں بلکہ اعمش کا وہم وشک ہو گا جیسا کہ انہوں نے خود اقرار کیا ہے۔

اس مثال کے بعد شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے دوسری، تیسری، پانچویں، چھٹی، بارہویں، اور تیرہویں مثالوں کے تحت امام حاکم،امام بیہقی، ابن القطان الفاسی، طحاوی، ابن الجوزی، اور ابن المدینی کے حوالے پیش کیے ہیں لیکن ان سب نے اسی الامام ضامن والی حدیث پر ہی کلام کیا ہے جس کا جواب اوپر دے دیا گیا ہے۔

شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ ایک اور مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

"اعمش کی عن ابو صالح والی ایک روایت کے بارے میں ابو الفضل محمد بن ابی الحسین احمد بن محمد بن عمار الہروی الشہید (متوفی 317 ھ) نے فرمایا: "والأعمش كان صاحب تدليس فربما أخذ عن غير الثقات" اور اعمش تدلیس کرنے والے تھے، وہ بعض اوقات غیرثقہ سے روایت لیتے (یعنی تدلیس کرتے) تھے۔ (علل الاحادیث فی کتاب الصحیح لمسلم بن الحجاج ج 1 ص 138 ح 35)"

حالانکہ اس حدیث میں بھی اصلا امام اعمش نے تدلیس کی ہی نہیں۔ بلکہ جس حدیث کے تحت مؤلف نے یہ بات کہی ہے وہ صحیح مسلم کی ہی حدیث ہے اور ابو الفضل ابن عمار نے اس سے پہلے خود کہا ہے کہ: "وهو حديث رواه الخلق عن الأعمش عن أبي صالح فلم يذكر الخبر في إسناده غير أبي أسامة فإنه قال فيه عن الأعمش قال حدثنا أبو صالح" اس حدیث کو ایک جماعت نے اعمش سے نقل کیا ہے لیکن انہوں نے اس سند میں خبر (یعنی سماع) ذکر نہیں کیا ہے سوائے ابو اسامہ (ثقہ ثبت) کے کیونکہ انہوں نے اعمش سے اپنی روایت میں کہا ہے: عن اعمش قال حدثنا ابو صالح۔ (علل الاحادیث فی صحیح مسلم: 1/136)۔
چنانچہ مصنف نے خود کہا ہے کہ اس روایت میں اعمش نے ابو صالح سے سماع کی تصریح کر دی ہے تو پھر اس میں تدلیس کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔

مزید مثال پیش کرتے ہوئے،شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"دارقطنی نے الاعمش عن ابی صالح والی ایک روایت کے بارے میں کہا: "ولعل الأعمش دلسه عن حبيب وأظهر اسمه مرة، والله أعلم" اور شاید اعمش نے حبیب (بن ابی ثابت) سے تدلیس کی اور ایک دفعہ اس کا نام ظاہر کر دیا۔ واللہ اعلم (العلل الواردۃ ج 10 ص 95 ح 1888)"

اس روایت میں امام دارقطنی کو خود بھی پورا یقین نہیں ہے کہ اعمش نے واقعتا تدلیس کی ہے یا نہیں۔ اس لئے "شاید" ہو سکتا ہے کہ انہوں نے یہاں تدلیس کی ہو اور اس صورت میں یہ روایت ان مستثنیات میں شمار ہو گی جن کا ذکر شیخ محب اللہ راشدی نے کیا ہے۔ لیکن یہاں ایک اور "شاید" کی گنجائش بھی ہے اور وہ یہ کہ شاید اعمش نے یہاں تدلیس نہ کی ہو بلکہ ان سے روایت کرنے والے کی طرف سے غلطی ہو۔
لہٰذا یہاں یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ اعمش نے تدلیس کی ہے۔ اور اگر تدلیس کی ہے تو اس خاص روایت کو اعمش کی ان مستثنیات میں شمار کیا جائے گا جن میں انہوں نے ابو صالح سے تدلیس کی ہے اور یہ نہیں کہ ان کی ابو صالح سے تمام معنعن روایات ضعیف ہو جاتی ہیں۔

نویں مثال دیتے ہوئے شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

"امام ابن خزیمہ نے اعمش عن ابی صالح والی ایک روایت کے بارے میں فرمایا: اسے اعمش نے ابو صالح سے سنا ہے اور اس میں تدلیس نہیں کی اور ابو سعید (الخدری رضی اللہ عنہ) کی حدیث اس سند کے ساتھ صحیح ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ (دیکھئے کتاب التوحید ص 109 ح 160)"

یہاں پر کوئی کلام کرنے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ امام ابن خزیمہ اور شیخ زبیر خود اقرار کر رہے ہیں کہ اس حدیث میں اعمش نے تدلیس نہیں کی ہے۔ لیکن شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کا اس مثال سے وجہ استدلال یہ ہے کہ امام ابن خزیمہ نے اعمش کی روایت کے ابو صالح سے ہونے کے باوجود اس میں ان کی تدلیس پر تحقیق کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اعمش کی ابو صالح سے تمام معنعن روایات کو سماع پر محمول نہیں سمجھتے تھے۔

البتہ اس کا جواب شیخ محب اللہ راشدی پہلے ہی اوپر دے چکے ہیں ان کے الفاظ کو میں دوبارہ یہاں نقل کرتا ہوں جو انہوں نے امام نووی کے قول کے جواب میں کہے تھے:
" لیکن میرے محترم یہ کوئی کلیہ تو نہیں کہ متقدم جو بھی کہے وہ صحیح ہوتا ہے اور جو ان سے متاخر کہے وہ صحیح نہیں ہوتا۔ امام نووی رحمہ اللہ نے ابو صالح سے اعمش  کی روایت کے بارے میں یہ فرمایا کہ بغیر سماع کی تصریح کے ان کی روایت حجت نہیں تو یہ انہوں نے محض اس لئے کہا کہ اعمش معروف بالتدلیس ہے اس کی انہوں نے کوئی ٹھوس دلیل نہیں دی۔ اس کے برعکس حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی بات دلائل پر مبنی ہے جو آئندہ ان شاء اللہ ذکر کیے جا رہے ہیں۔ لہٰذا جب حافظ ذہبی رحمہ اللہ کو علم ہو گیا کہ اعمش کی ان ان شیوخ سے تدلیس نہیں کرتا تھا تو وہ امام نووی رحمہ اللہ پر حجت نہیں۔"

اسی طرح ہم بھی کہتے ہیں کہ امام ابن خزیمہ ودیگر تمام لوگ جن کی مثالیں شیخ زبیر رحمہ اللہ نے اس مضمون میں بیان کی ہیں، انہوں نے ابو صالح سے اعمش کے سماع کی تحقیق کی ہے تو یہ انہوں نے محض اس لئے کیا کہ اعمش معروف بالتدلیس ہے اس کی انہوں نے کوئی ٹھوس دلیل نہیں دی۔ اس کے برعکس حافظ ذہبی رحمہ اللہ کی بات دلائل پر مبنی ہے۔ لہٰذا جب حافظ ذہبی رحمہ اللہ کو علم ہو گیا کہ اعمش ان ان شیوخ سے تدلیس نہیں کرتا تھا تو وہ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ یا دیگر کسی پر حجت نہیں۔
((من عرف حجة علي من لم يعرف – یعنی جو جانتا ہے وہ نہ جاننے والے پر حجت ہے))
آپ مزید لکھتے ہیں:
"آپ نے پہلے جو کچھ لکھا یا اس فقرہ میں امام نووی رحمہ اللہ کا حوالہ دیا ان میں اعمش کے ان تینوں ابراہیم، ابو وائل، ابو صالح کے متعلق کوئی خصوصی دلیل پیش نہیں کی گئی کہ یہ یا یہ دلیل ہے اس پر کہ اعمش واقعتا ان تینوں سے بھی تدلیس کرتا تھا۔ ہر جگہ صرف یہ ہے کہ "الاعمش مدلس" یا "کان یدلس" لیکن ان کی تدلیس سے وہ (ذہبی رحمہ اللہ) غیر واقف نہیں۔ دیکھئے المیزان وغیرہ۔ یعنی حافظ ذہبی رحمہ اللہ اعمش کے مدلس ہونے کے منکر نہیں بلکہ وہ چند شیوخ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ ان سے تدلیس نہیں کرتا تھا لہٰذا وہ روایات جو ان سے مروی ہیں وہ اتصال پر مبنی ہیں اور یہ تخصیص متقدمین کی تصریحات کے علاوہ ان کی اپنی تحقیق پر مبنی ہے۔ حافظ ذہبی علم الروایہ والدرایہ دونوں میں مہارت تامہ رکھتے ہیں اور وہ نقد الرجال میں صاحب الاستقراء التام ہیں۔ جب وہ چند شیوخ خصوصا ابراہیم ابووائل وابو صالح کی تخصیص کرتے ہیں تو لا محالہ ان کی یہ تخصیص علم وتحقیق کی روشنی پر مبنی ہو گی۔ انہوں نے اعمش کی روایات کو اچھی طرح پرکھا ہو گا۔ ان شیوخ سے جو روایات مروی ہیں ان کو دوسرے ثقات کی روایات سے مقابلہ اور ان سے موازنہ کیا ہو گا اور دواوین حدیث میں جو روایات اعمش کی ان شیوخ سے مروی ہیں ان پر دقت نظر ڈالی ہو گی، پھر اس تحقیق عمیق کے بعد انہوں نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ وہ ان شیوخ سے تدلیس نہیں کرتا تھا۔"

لہٰذا اس مثال ودیگر تمام مثالوں میں ابن خزیمہ وغیرہ نے اعمش کی ابو صالح سے روایت پر تحقیق صرف اس لئے کی کیونکہ اعمش معروف بالتدلیس ہیں لیکن انہوں نے کبھی امام ذہبی کے اس فیصلے کے خلاف کوئی ٹھوس دلیل نہیں دی کہ مام اعمش سے واقعی ان شیوخ کی عام روایات میں ویسے ہی تدلیس ثابت ہے جیسے ان کی دیگر رواۃ سے ثابت ہے۔ امام ذہبی نے اپنی تحقیق کے بعد یہ تخصیص کی ہے جبکہ دیگر ائمہ نے بنا کسی تحقیق کے عام حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے فیصلے کیے ہیں۔

اعمش عن ابو صالح پر مذکورہ مثالوں کے بعد شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ اعمش کی ابراہیم النخعی رحمہ اللہ سے تدلیس ثابت کرنے کے لئے فرماتے ہیں:

"اعمش نے ابراہیم نخعی سے ایک روایت عن کے ساتھ بیان کی جس کے بارے میں امام عبد الرحمن بن مہدی نے فرمایا: 'هذا من ضيعف حديث الأعمش' یہ اعمش کی ضعیف حدیثوں میں سے ہے۔ (کتاب العلل للامام احمد: 2/413 ت 2845 وسندہ صحیح)"

اللہ شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ پر رحم کرے، یہ مثال بہت عجیب ہے نہ تو اس میں کہیں دور دور تک یہ اشارہ ہے کہ اعمش نے اس میں تدلیس کی ہے اور نہ ابن مہدی کے قول میں کہیں کوئی اشارہ ہے کہ یہ حدیث اعمش کے عنعنہ یا تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے!
اس بات کا ثبوت کہاں ہے کہ ضعف کے بے شمار اسباب میں سے یہاں تدلیس ہی مراد ہے؟ یا پھر ایسا ہے کہ ضعیف حدیث کا صرف ایک ہی سبب ہو سکتا ہے اور وہ ہے تدلیس، دوسرا کوئی نہیں!؟؟
مزید یہ کہ اگر اس روایت میں وجہِ ضعف تدلیس ہوتی تو امام ابن مہدی یا تو اسے منقطع کہتے یا یہ کہتے کہ یہ روایت اعمش نے ابراہیم سے نہیں سنی جیسا کہ محدثین کا طریقہ ہے اور یہ کہ ضعف اس مجھول شخص سے آیا ہے جس کو سند سے گرایا گیا ہے۔ لیکن یہاں امام ابن مہدی نے ضعف کو امام اعمش کی طرف منسوب کیا ہے، گویا یہ حدیث ان کی نکارت، حافظہ، یا ان کے اپنے کسی دوسرے نقص کی وجہ سے ضعیف ہے۔ اگر وجہِ ضعف تدلیس ہوتی تو ضعف کو امام اعمش کی طرف منسوب نہ کیا جاتا بلکہ اس مجھول شخص کی طرف منسوب کیا جاتا جس سے اعمش نے یہ روایت لی ہے۔
لہٰذا بغیر کسی دلیل یہاں وجہِ ضعف تدلیس بتانا بالکل غلط ہے۔

اعمش کی ابراہیم سے تدلیس کے ثبوت کے لئے شیخ زبیر دوسری مثال پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

"اعمش عن ابراہیم النخعی والی ایک روایت کے بارے میں سفیان (ثوری) نے فرمایا: اعمش نے (نماز میں) ہنسنے کے بارے میں ابراہیم والی حدیث نہیں سنی۔ (کتاب العلل للامام احمد 2/67 ت 1569، وسندہ صحیح، تقدمہ الجرح والتعدیل ص 72 وسندہ صحیح)"

عرض ہے کہ یقینا یہ روایت اعمش اور ابراہیم کے درمیان منقطع ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس انقطاع کی وجہ لازما تدلیس ہی ہے؟؟ تو جواب ہے ہرگز نہیں بلکہ اس روایت میں انقطاع کی وجہ امام اعمش کی اپنی غلطی اور حافظے میں چوک ہے۔ اس روایت کو ابراہیم سے روایت کرنے میں امام اعمش کو غلطی لگی ہے اور اس بات کا اقرار خود انہوں نے کیا ہے اور حیرانگی کی بات ہے کہ اس بات کی وضاحت امام احمد نے امام سفیان کے اسی مذکورہ قول کے ساتھ ہی کر دی تھی جس کا ذکر شیخ زبیر نے اوپر کیا ہے لیکن انہوں نے شاید اسے نظر انداز کر دیا۔ چنانچہ امام احمد فرماتے ہیں:
"قال وكيع قال الأعمش أرى إبراهيم ذكره" وکیع کہتے ہیں کہ اعمش نے (اس حدیث کی روایت کے وقت) کہا مجھے لگتا ہے کہ اس حدیث کو ابراہیم نے ذکر کیا تھا۔ (کتاب العلل)
یعنی امام اعمش کو شک ہے کہ انہوں نے یہ حدیث ابراہیم سے لی ہے یا کسی اور سے۔ لہٰذامام اعمش کے شک کو تدلیس بتانا بہت بڑی غلطی ہے۔ وہم اور شک تو ہر کوئی کرتا ہے تو کیا ہر وہم کرنے والا مدلس ٹھہرے گا؟؟
اور تو اور امام احمد نے ایک دوسری جگہ اس بات کی مزید وضاحت فرمائی ہے کہ یہ روایت امام اعمش کے شک کی وجہ سے منقطع ہے نہ کہ تدلیس کی وجہ سے، چنانچہ امام ابو داؤد السجستانی فرماتے ہیں:
"سمعت أحمد، يقول في حديث الأعمش، عن إبراهيم " أن رجلا ضحك خلف النبي صلى الله عليه وسلم في الصلاة، فأمره النبي صلى الله عليه وسلم أن يعيد الوضوء والصلاة , قال أحمد: يقول الأعمش: أرى إبراهيم، قال: يعلم أنه ليس من حديث إبراهيم المشهور، يعني بقوله: لما قال وأبهم، يعني: بقوله أرى" میں نے احمد کو اعمش کی ابراہیم سے حدیث کے متعلق کہتے سنا کہ ایک شخص نبی ﷺ کے پیچھے نماز کے دوران ہنس پڑا تو نبی اکرم ﷺ نے اسے وضوء اور نماز دونوں کو دہرانے کا حکم دیا۔ امام احمد کہتے ہیں کہ اعمش نے اس حدیث کے متعلق کہا ہے کہ میرا خیال ہے ابراہیم نے اسے روایت کیا ہے۔ نیز احمد نے کہا: اعمش کو اس بات کا علم تھا کہ یہ حدیث ابراہیم کی مشہور حدیث میں سے نہیں ہے یعنی اعمش کے وہم کرنے کی وجہ سے یعنی ان کے 'میرا خیال ہے' کہنے کی وجہ سے۔ (مسائل الامام احمد روایۃ ابی داود السجستانی: 1/414-415)۔

لہٰذا اس حدیث میں وجہِ انقطاع وہم ہے نہ کہ تدلیس۔

آگے شیخ زبیر اعمش کی ابو وائل سے تدلیس کے ثبوت کے لئے فرماتے ہیں:

"اعمش عن ابو وائل والی ایک روایت کے بارے میں امام احمد بن حنبل نے فرمایا: نہ اسے ہشیم نے اعمش سے سنا ہے اور نہ اعمش نے اسے ابو وائل سے سنا ہے۔ (کتاب العلل: 2/252 ت 2155)"

امام اعمش نے اس حدیث میں بھی اصلا کوئی تدلیس نہیں کی ہے۔ امام احمد کے یہ کہنے کہ "اعمش نے اسے ابو وائل سے نہیں سنا" کی وجہ انہوں نے ایک دوسری روایت میں بیان کر دی ہے۔ چنانچہ مہنا فرماتے ہیں کہ میں نے احمد سے پوچھا کہ پھر یہ حدیث اعمش نے کس سے سنی ہے؟ تو امام احمد نے جواب دیا:
"كان الأعمش يرويه عن الحسن بن عمرو الفقيمي عن أبي وائل فخرج الحسن بن عمرو وجعله عن أبي وائل ولم يسمع منه" اعمش نے اس حدیث کو الحسن بن عمرو الفقیمی عن ابو وائل کے طریق سے روایت کیا ہے لیکن انہوں نے الحسن بن عمرو کو نکال دیا اور ابو وائل سے براہ راست روایت کر دی، اور یہ انہوں نے ان سے نہیں سنی۔ (جامع التحصیل: 1/189)۔

الغرض امام احمد کے مطابق یہ حدیث اعمش نے ابو وائل سے اس لئے نہیں سنی کیونکہ ایک دوسرے طریق میں اعمش اور ابو وائل کے درمیان الحسن بن عمرو کا واسطہ موجود ہے۔ حالانکہ اس واسطہ کے ساتھ یہ سند ضعیف ہے لہٰذا اس ضعیف سند کی بناء پر اس کو منقطع کہنا ٹھیک نہیں ہے۔
چنانچہ الحسن بن عمرو الفقیمی کی اس روایت کو امام ابن عدی نے الکامل میں اس طرح روایت کیا ہے:
"حدثنا ابن صاعد، حدثنا عبد الجبار بن العلاء، حدثنا عمرو بن عبد الغفار الفقيمي الكوفي لقيته بمكة، [ عن الأعمش ] (1) حدثنا الحسن بن عمرو عن شقيق بن سلمة، عن عبدا لله قال لقد رأيتني ما أكف شعرا، ولا ثوبا، ولا نتوضأ من موطىء." (الکامل لابن عدی: 6/253)۔
اس سند میں دیکھا جا سکتا ہے کہ امام اعمش سے اس روایت کو واسطہ کے ساتھ روایت کرنے والا عمرو بن عبد الغافر الفقیمی ہے اور یہ ضعیف ہے اور امام ابن عدی نے بھی اس کی اعمش سے تمام روایات کو غیر محفوظ کہا ہے، چنانچہ اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد امام ابن عدی فرماتے ہیں:

"وهذه الأحاديث، عن الأعمش غير محفوظة" اور یہ تمام روایتیں اعمش سے غیر محفوظ ہیں۔

لہٰذا کسی غیر محفوظ روایت میں وارد واسطے کی بنا پر بغیر واسطے والی روایت کو منقطع نہیں کہا جا سکتا۔ اس لئے یہاں امام اعمش پر تدلیس کا الزام غلط ہے۔


آخری مثال پیش کرتے ہوئے شیخ زبیر فرماتے ہیں:


"اعمش عن ابی وائل والی ایک روایت کے بارے میں ابو زرعہ الرازی نے فرمایا: "الأعمش ربما دلس" اعمش بعض اوقات تدلیس کرتے تھے۔ (علل الحدیث لابن ابی حاتم: 1/14 ح 9)"

حالانکہ جس روایت کے تحت امام ابو زرعہ نے یہ کہا ہے وہ بخاری و مسلم کی متفقہ روایت ہے اور اس روایت میں امام اعمش نے ابو وائل سے ایک سے زائد مقامات پر سماع کی تصریح کر دی ہے مثلا دیکھئے مسند احمد (ح 23241، 23414)۔ اس کے علاوہ امام ابو زرعہ خود فرماتے ہیں کہ اس روایت کو ان سے روایت کرنے والوں میں امام شعبہ، اورامام یحیی بن سعید القطان بھی شامل ہیں اور ان دونوں کی روایات اپنے شیوخ سے سماع پر محمول ہوتی ہیں، الغرض اس روایت کا شعبہ اور القطان سے ہونے کے باوجود بھی اگر امام ابو زرعہ نے اس میں اعمش کی تدلیس کا ذکر کیا ہے تو کیا ہمیں یہ بھی مان لینا چاہیے کہ شعبہ اور قطان کی روایات اعمش سے سماع پر محمول نہیں ہوتیں!؟ حالانکہ اس بات کے خود شیخ زبیر بھی قائل نہیں تھے۔ لہٰذا یہ سولہویں اور آخری مثال بھی صحیح نہیں ہے۔

شیخ زبیر نے امام اعمش کی ان تین شیوخ سے تدلیس ثابت کرنے کے لئے 16 مثالیں پیش کی ہیں اور حیرانگی کی بات ہے کہ ان سولہ کی سولہ مثالوں میں امام اعمش سے تدلیس کا ثبوت نہیں ملتا! لہٰذا امام ذہبی کی بات بالکل صحیح ثابت ہوتی ہے اور اس کے خلاف اب تک ایک بھی مثال ایسی نہیں ملی جس میں واقعتا امام اعمش نے ان شیوخ سے تدلیس کی ہو! اور اگر ایک دو مثالیں مل بھی جائیں تو ان سے اس اصول پر کوئی فرق نہیں پڑے گا اور وہ مثالیں محض اس کلیہ سے مستثنیٰ ہوں گی۔

--------------------------------
(1) - الکامل میں "عن الاعمش" کا حوالہ چھوٹ گیا ہے جو کہ غلطی ہے جبکہ سیاق و سباق پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اعمش کا واسطہ موجود ہے۔ اور امام احمد کی بات بھی اس پر تائید کرتی ہے کہ اس حدیث کو اعمش کے زریعے حسن بن عمرو سے روایت کیا گیا ہے۔

اس مضمون کا لنک بھی ملاحظہ کریں۔

Link to comment
Share on other sites

اب اس مسئلہ تدلیس پرجس غیر مقلد نےساری کہانی زبیر علی زئی سے لی ہے،اس کا رد قارئین کرام نےملاحظہ کیا۔

اب اسی مسئلہ تدلیس پر زبیر علی زئی متصعب غیر مقلد کے ایک شاگرد ابن البشیر الحسینوی نے جو لکھا وہ ملاحظہ کریں۔


 

ابن بشیر الحسینوی حفظہ اللہ 
فاضل مرکز التربیۃ الاسلامیۃ فیصل آباد 
مدرس جامعہ محمد بن اسماعیل البخاری گندھیاں اوتاڑ قصور
امام شافعی اور مسئلہ تدلیس میں وارد اشکالات اور ان کے جوابات

جس نے ایک بار بھی تدلیس کی اس کی عن والی حدیث ضعیف ہے ؟!
قال بعض الناس :
 
جس نے ایک بار بھی تدلیس کی اس کی عن والی حدیث ضعیف ہے خواہ وہ قلیل التدلیس ہو یا کثیر التدلیس ۔
یہ نظریہ درست نہیں اس نظریہ کو اپنانے میں بے شمار صحیح احادیث کو ضعیف کہا جائے گا حالانکہ وہ محدثین کے ہاں صحیح تھیں یہی خدشہ آج سے کئی سال پہلے استاد محترم کے استاذ محترم محب اللہ شاہ راشدی محدث سندھ محب اللہ رحمہ اللہ نے کہا تھا ۔کہ 
 
(لیکن اگر اس موقف کو سامنے رکھ کر ہم دواوین حدیث کو تلاش کرنا شروع کردیں تو بہت سی روایات جن کو سلف سے لے کر خلف تک صحیح ومتصل قرار دیتے آئے ہیں ان میں سے اچھی خاصی تعداد ضعیفہ بن جائے گی)(مقالات راشدیہ ١/٣٢٨)۔
ہماری معروضات پڑھ کر قاری علی وجہ البصیرت کہہ سکتا ہے کہ بعض الناس کی مسئلہ تدلیس میں تحقیقات سلف کے خلاف ہیں ۔اس کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں ۔
پہلی مثال:

قال بعض الناس :
''اسماعیل بن ابی خالد عنعن وھو مدلس (الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین :٣٦/٢ وھو من الثالثۃ)
اس بنا پر وہ کئی ایک احادیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں مثلا (انوار الصحیفۃ فی الاحادیث الضعیفۃ من السن الاربعۃ)میں سرسری نظر دیکھنے سے ہمیں مندرجہ ذیل احادیث پر اطلاع ہوئی ہے جن کوصرف اس وجہ سے ضعیف کہا گیا ہے کہ ان میں اسماعیل بن ابی خادلد مدلس راوی ہیں اور عن سے بیان کر رہے ہیں ۔ انوار الصحیفۃ فی الاحادیث الضعیفہ من السنن الاربعہ ص:١٠٦ ح ٢٩٣٠، ص١٥٢ ح ٤٢٧٠، ص ٤٣٧ ح:١٦١٢وغیرہ ۔

اسماعیل بن ابی خالد کے عنعنہ کا حکم:
ابن ابی خالد کا عنعنہ مقبول ہے، کیونکہ وہ قلیل التدلیس ہیں، چنانچہ امام یعقوب بن شیبۃ رحمہ اللہ نے امام علی بن مدینی رحمہ اللہ سے مدلس کی بابت دریافت کیا تو امام صاحب نے جواباً فرمایا:
''إن کان الغالب علیہ التدلیس فلا یقول: حدثنا''
''جب اس پر تدلیس غالب ہو تب اس کی روایت صراحتِ سماع کے ساتھ قبول کی جائے گی۔'' (الکفایۃ للبغدادی: ٢/ ٣٨٧، سندہ صحیح)
گویا قلیل التدلیس مدلس کا عنعنہ مقبول ہے، الا یہ کہ کسی روایت میں تدلیس ثابت ہوجائے تو وہ اس عمومی قاعدہ سے مستثنیٰ ہوگی۔

امام مسلم رحمہ اللہ بھی مقدمہ صحیح مسلم میں فرماتے ہیں:
''إنما کان تفقد من تفقد منھم سماع رواۃ الحدیث ممن روی عنھم إذا کان الراوي ممن عرف بالتدلیس في الحدیث وشھر بہ فحینئذٍ یبحثون عن سماعہ في روایتہ ویتفقدون ذلک منہ کی تنزاع عنھم علۃ التدلیس.''
(مقدمہ صحیح مسلم، ص: ٢٢)
امام مسلم رحمہ اللہ کے اس قول کا خلاصہ یہ ہے کہ جو راوی کثیر التدلیس ہو اس کے سماع کی صراحت تلاش کی جائے گی، جس کے لیے انھوں نے ''عُرِفَ'' اور''شُھِرَ بِہٖ'' کے الفاظ استعمال کیے ہیں اور کوئی راوی تدلیس میں اسی وقت مشہور ہوگا، جب وہ کثرت سے تدلیس کرے گا، گویا قلیل التدلیس راوی کا عنعنہ مقبول ہوگا اور آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ ابن ابی خالد کو نسائی نے مطلق طور پر مدلسین میں شمار کیا ہے اور حافظ عجلی نے توضیح فرما دی کہ وہ شعبی سے تدلیس کرتے ہیں۔
اور جو راوی کسی خاص استاد سے تدلیس کرے تو اس کی باقی شیوخ سے مرویات سماع پر محمول کی جاتی ہیں، چنانچہ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
''ذکر من عرف بالتدلیس وکان لہ شیوخ لا یدلس عنھم؛ فحدیثہ عنھم متصل.'' (شرح علل الترمذي: ٢/ ٨٥٧)
''وہ مدلسین جو خاص اساتذہ سے تدلیس کرتے ہیں ان کی دیگر شیوخ سے معنعن روایات سماع پر محمول کی جائیں گی۔''

شیخ محمد بن طلعت بھی رقمطراز ہیں:
''اسماعیل بن ابی خالد کی تدلیس شعبی سے روایت کرنے میں خاص ہے، لہٰذا کسی اور استاذ سے عنعنہ میں توقف نہیں کیا جائے گا۔''
(معجم المدلسین، ص: ٨٥)
اس لیے اسماعیل بن ابی خالد کی شعبی کے علاوہ دیگر شیوخ سے معنعن روایت سماع پر محمول کی جائے گی۔

جو مدلس راوی کسی شیخ کا خاص شاگرد ہو تو اس کی اس مخصوص استاذ سے معنعن روایت بھی سماع پر محمول ہوگی، جیسا کہ حافظ عجلی رحمہ اللہ کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ اسماعیل، قیس کے خاص ترین شاگرد ہیں، بلکہ أروی الناس ہیں، اور ان کی مرویات کی تعداد پانچ صد کے لگ بھگ بتلائی ہے، اس لیے اسماعیل کی قیس سے معنعن روایت سماع پر محمول کی جائے گی، چنانچہ امام حمیدی نے ابن جریج عن عطاء کو سماع پر محمول کیا ہے۔ (الکفایۃ للخطیب البغدادي: ٢/ ٤٠٩، رقم: ١١٩٠ ۔إسنادہ صحیح۔) کیونکہ ابن جریج عطاء کے اخص ترین شاگرد ہیں اور ابن جریج، اسماعیل بن ابی خالد سے بڑے مدلس ہیں۔

گویا ابن ابی خالد کی معنعن روایت کے مقبول ہونے کے قرائن تین ہیں:
١۔ وہ قلیل التدلیس ہیں۔
٢۔ صرف شعبی سے تدلیس کرتے ہیں۔
٣۔ قیس کے خاص شاگرد ہیں اور نوحہ والی روایت بھی قیس ہی سے بیان کرتے ہیں۔
ان تینوں قرائن کی مزید تفصیل ہمارے مضمون ''التوضیح والتنقیح في مسئلۃ التدلیس'' میں ملاحظہ فرمائیں۔

دوسرا جواب: شعبی سے تدلیس:
اسماعیل بن ابی خالد کے عنعنہ کے حوالے سے دوسرا جواب یہ ہے کہ موصوف صرف شعبی سے تدلیس کرتے ہیں، جیسا کہ امام احمد، امام یحییٰ بن سعید القطان سے نقل کرتے ہیں کہ ''دیۃ الخطأ أخماسا ما دون النفس'' والی حدیث اسماعیل نے شعبی سے نہیں سنی۔
(العلل و معرفۃ الرجال للإمام أحمد: ٢/ ٢٦٦، فقرۃ: ٢٢٠٥، مسائل الإمام أحمد و ابن راھویہ: ٢/ ٢١٤، مسئلۃ: ٢٣٥١، روایۃ الکوسج)
اسی طرح دوسری حدیث: ''لما جاء نعی جعفر'' بھی ابن ابی خالد نے شعبی سے سنی نہیں۔ (العلل و معرفۃ الرجال: ٣/ ٢١٦، فقرۃ: ٤٩٣٣)
امام عبداﷲ بن امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میرے والد محترم نے امام یحییٰ بن سعید القطان رحمہ اللہ سے ''إسماعیل بن أبي خالد عن عامر عن شریح'' وغیرہ کی احادیث کی بابت دریافت کیا کہ میری کتاب میں ''إسماعیل قال: حدثنا عامر عن شریح، حدثنا عامر عن شریح''ہے (اسماعیل صراحتِ سماع کے ساتھ روایت بیان کرتے ہیں)۔ 
امام یحییٰ فرمانے لگے: اسماعیل عن عامر؟ 
میں نے عرض کی: میری کتاب میں ''حدثنا عامر، حدثنا عامر'' ہے۔
مجھے یحییٰ رحمہ اللہ فرمانے لگے: یہ روایات صحیح ہیں، اگر ان کو اسماعیل نے عامر شعبی سے سنا نہ ہوتا تو میں اس کی خبر دیتا۔
(العلل و معرفۃ الرجال: ١/ ٥١٩، فقرۃ: ١٢١٨)
اس کی مزید توضیح یوں ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے امام یحییٰ بن سعید رحمہ اللہ سے سوال کیا کہ یہ سبھی احادیث صحیح ہیں؟
یعنی ابن ابی خالد عن عامر کی وہ احادیث جن میں وہ حدثنا عامر نہیں کہتے؟ گویا انھوں نے اثبات میں جواب دیا۔ 
امام یحییٰ رحمہ اللہ فرمانے لگے: جب ابن ابی خالد اسے سننے کا ارادہ نہ کریں (تدلیس کریں) تو میں آپ کو خبردار کر دیتا۔ (العلل و معرفۃ الرجال: ٣/ ٩٠، فقرہ: ٤٣٢٠)
امام علی بن مدینی رحمہ اللہ نے بھی امام یحییٰ بن سعید القطان رحمہ اللہ سے دریافت کیا کہ آپ اسماعیل عن عامر کو صحاح پر محمول کرتے ہیں؟ جواب دیا: ہاں!
(الجرح والتعدیل: ٢/ ١٧٥ ۔سندہ صحیح۔)
امام ابن القطان کے ان تینوں اقوال کو سامنے رکھنے سے یہ بات بخوبی معلوم ہوجاتی ہے کہ انھیں معلوم تھا کہ اسماعیل نے شعبی سے روایت کرتے ہوئے کن کن حدیثوں میں تدلیس کی ہے، پھر تدلیس شدہ روایات کی صراحت کر دی، جیسا کہ دو حدیثوں کا حوالہ ابھی گزر چکا ہے اور جن مرویات میں تدلیس نہیں ہے ان میں ابن ابی خالد کے عنعنہ کو قبول بھی کیا ہے، جیسا کہ امام علی بن مدینی رحمہ اللہ کے استفسار میں فرمایا۔ اسی طرح امام احمد رحمہ اللہ کو فرمایا کہ ابن ابی خالد اگر تدلیس کرتے تو میں ضرور اس کی اطلاع آپ کو دے دیتا، یعنی اسماعیل، شعبی سے روایت کرتے ہوئے، سبھی معنعن روایات میں تدلیس نہیں کرتے، اگر تدلیس ہے تو وہ بھی انتہائی تھوڑی ہے۔
 
سوال یہ ہے کہ اسماعیل کا کسی اور استاذ سے تدلیس کرنا ثابت ہے؟ بالخصوص قیس بن ابی حازم سے؟ اس کے جواب کا انتظار کیے بغیر ہم عرض کیے دیتے ہیں کہ اسماعیل کسی اور شیخ سے تدلیس نہیں کرتے، صرف چند احادیث میں شعبی سے تدلیس کرتے ہیں، لہٰذا شعبی کے علاوہ باقی شیوخ سے معنعن روایت مقبول ہوگی، الّا یہ کہ اس میں کوئی نکارت پائی جائے۔
یہ غلط ہے کہ جس نے زندگی میں صرف ایک بار تدلیس کی اس کی عن والی احادیث ضعیف ہے ،اسی غلطی کی بنا پر وہ بہت زیادہ احادیث کو ضعیف قرار دیتے ہیں حالانکہ وہ محدثین سلف و خلف کے نزدیک صحیح ہیں اس کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں ۔

پہلی مثال:

محدثین کے نزدیک اسماعیل بن ابی خالد کی عن والی حدیث صحیح اور استاد محترم کے نزدیک ضعیف ۔

محدثین کا اسماعیل بن خالد کی عن سے مروی حدیث کو قبول کرنا:
متعدد محدثین نے اسماعیل بن ابی خالد کے بدونِ تدلیس عنعنہ کو قبول کیا ہے۔ ذیل میں ان کے اسماء درج ہیں۔
١۔ امام ترمذی ٢٧٩ھ، سنن الترمذی (حدیث: ٢٥٥١، ٣٠٥٧، ٣٨٢١، وقال: حسن صحیح) و (حدیث: ١٩٢٥، ٢١٦٨ وقال: صحیح) و (حدیث: ٣٧١١، وقال: حسن صحیح غریب)۔
٢۔ امام الأئمۃ ابن خزیمہ ٣١١ھ۔ صحیح ابن خزیمۃ (٤/ ١٣، ح: ٢٢٥٩)
٣۔ امام ابو عوانہ ٣١٦ھ۔ مسند أبي عوانۃ، المستخرج علی صحیح مسلم (١/ ٣٧، ٥٨، ٥٩، ٩٦، ٣٧٦ و ٢/ ٨٦ مرتین، ص: ٣٦٦)۔
٤۔ امام ابو نُعیم ٤٣٠ھ۔ المسند المستخرج علی صحیح مسلم (١/ ١٣٧، ١٣٨، ح: ١٧٨ و ٢/ ٤٠٩، ٤١٠، ٤١١، ٤٩٤، ح: ١٨٤٣، ١٨٤٤، ١٨٤٧، ١٨٤٨، ٢٠٤٦ و ٣/ ١٠٩، ح: ٢٣٢٤ و ٤/ ٦٦، ح: ٣٢٤٥)۔
٥۔ امام ابن الجارود ٣٠٧ھ۔ المنتقی (حدیث: ٣٣٤)
اس کتاب کی روایت حسن درجہ سے کم نہیں ہے۔
(سیر أعلام النبلاء: ١٤/ ٢٣٩)
٦۔ امام ابن حبان ٣٥٤ھ۔ صحیح ابن حبان (١/ ١٥٢، ٢٦١۔ ٢٦٢ مرتین، ح: ٩٠، ٣٠٤، ٣٠٥ و ٣/ ٢٨٨، ح: ٢١٣٤ و ٤/ ٢٨٥، ح: ٢٩٨٨ و ٥/ ٩٩، ح: ٣٢٣٢ و ٦/ ١٧٥، ٢٦٨، ح: ٤١٢٩، ٤٣١٥ و ٧/ ٥٣، ٥٨٩، ح: ٤٥٦٤، ٥٩٥٣ و ٨/ ١١، ١٢١، ١٦٢، ٢٣٧، ح: ٢١٢٦، ٦٤١٢، ٦٤٩٤، ٦٦٣٩...)۔
٧۔ امام حاکم ٤٠٥ھ۔ المستدرک (١/ ٣٢٢۔ ٣٢٣ و ٢/ ٤٦٦، ٤٨٨ و ٣/ ٨٤، ٤٤٠ و ٤/ ٦، ٥٤٦، ٥٨٨) وقال: ھذا حدیث صحیح علی شرط الشیخین ولم یخرجاہ. و (٢/ ١٥٧) وقال: ھذا حدیث صحیح الإسناد علی شرط الشیخین ولم یخرجاہ. و (٣/ ٩٩، ٤٩٩) وقال: ھذا حدیث صحیح الإسناد ولم یخرجاہ.
٨۔ ابو الحسن احمد بن محمد بن منصور عتیقی ٤٤١ھ۔ (امام محدث ثقۃ) المنتقی: حافظ ابوبکر احمد بن محمد بن غالب برقانی خوارزمی ٤٢٥ھ (حافظ ثبت) في ''التخریج لصحیح الحدیث عن الشیوخ الثقات علی شرط کتاب محمد بن إسماعیل البخاري وکتاب مسلم بن الحجاج القشیری أو أحدھما'' (التخریج علی الصحیحین) (ص: ٣٩، حدیث: ١٣ وقال ھو حدیث صحیح) و (ص: ٥٢۔ ٥٣) حدیث: (٢٩، ٣٠)
٩۔ قاضی ابو یعلی الفراء ٤٥٨ھ۔ في ''ستۃ مجالس من أمالی'' (ص: ٥٠، ح: ٢) وقال: ھذا حدیث صحیح.
١٠۔ محدث امام البانی ١٤٢٠ھ۔ السلسلۃ الصحیحۃ (حدیث: ٤٧٥، ٧٦٤، ٧٦٨، ٨٠٨، ٨٣٣، ١٢٥٣، ١٥٦٤، ١٨٧٦، ٢٦٦٣، ٢٨٢٥، ٢٨٣١)
ظلال الجنۃ (حدیث: ٣٩٢، ٤٤٦۔ ٤٥١، (٤٦١ وراجع: الصحیحۃ: ٣٠٥٦) ٧٣٩، ١١٧٥، ١١٧٦)
سنن أبي داود (٧/ ٤٠٠، حدیث: ٢٣٨٠ و ٨/ ١٠٨)
صفۃ صلاۃ النبي (٣/ ٨٦٤) وغیرہ. تلک عشرۃ کاملۃ.
 
کیا بعض الناس ان محدثین کے مقابلے میں اپنی تائید میں کوئی معتبر حوالہ پیش کر سکتے ہیں؟
ملحوظ رہے کہ بعض مقامات پر اسماعیل بن ابی خالد کے متابع یا شاہد موجود ہیں، مگر ہمارا مقصود صرف اس قدر ہے کہ محدثین نے اسماعیل کے عنعنہ بدونِ تدلیس کو باعثِ جرح قرار نہیں دیا۔ جیسا کہ معترض باور کرا رہے ہیں۔
کیاخوب کہا یمن کے عظیم محدث شیخ مقبل بن ہادی رحمہ اللہ نے ،وہ فرماتے ہیں :
''و نحن ما نظن ان المتاخرین یعثرون علی ما لم یعثر علیہ المتقدمون اللھم الا فی النادر ۔''
ہمارا نہیں خیال کہ متاخرین اس بات پر اطلاع پا لیں جس پر متقدمین اطلاع نہ پا سکے ہوں ،ہاں کبھی کبھار ایسا ہو سکتا ہے ۔(اسئلۃ فی المصطلح ،السوال ٢٠)

نیز ایک سوال کے جواب میں کہا:
''ارونی شخصا یحفظ مثل یحفظ البخاری ،او احمد بن حنبل ،او تکون لہ معرفۃ بعلم الرجال مثل یحی بن معین ،او لہ معرفۃ بالعلل مثل علی بن المدینی ،والدارقطنی ،بل مثل معشار الواحد من ہولاء ،ففرق کبیر بین المتقدمین والمتاخرین ۔''
مجھے ایک ایسا شخص دکھائیں جو امام بخاری رحمہ اللہ یا امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی طرح کا حافظہ رکھتا ہو یا اسے امام یحی بن معین رحمہ اللہ کی طرح علم رجال کی معرفت ہو یا اسے امام علی بن مدینی رحمہ اللہ اور امام دار قطنی رحمہ اللہ کی طرح علل حدیث کی معرفت ہو ،بلکہ ان کے عشر عشیر کے برابر بھی موجودہ دور میں کوئی نہیں ۔لہذا متقدمین اور متاخرین میں بہت فرق ہے ۔

اس سنہری قول سے معلوم ہوا کہ جب کسی حدیث کو محدثین صحیح کہہ رہے ہوں تو ان کی تحقیق سر آنکھوں پر ہے اور جو ان کی تحقیق کی خلاف ورزی کرے گا اس کی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہے ۔ 
آج سے کئی سال پہلے محب اللہ شاہ راشدی محدث سندھ نے بعض الناس کے متعلق ظاہر کیا تھا ۔کہ (لیکن اگر اس موقف کو سامنے رکھ کر ہم دواوین حدیث کو تلاش کرنا شروع کردیں تو بہت سی روایات جن کو سلف سے کر خلف تک صحیح ومتصل قرار دیتے آئے ہیں ان میں سے اچھی خاصی تعداد ضعیفہ بن جائے گی)(مقالات راشدیہ ١/٣٢٨)۔
(مقالات اثریہ از حافظ خبیب احمد الاثری )

دوسری مثال :

محدثین کے نزدیک امام زہری کی عن والی حدیث صحیح اوربعض الناس کے نزدیک ضعیف !!


ہم اہل علم علماء سے انصاف چاہتے ہیں ؟

بعض الناس لکھتے ہیں :
 
''امام شافعی اس اصول میں اکیلے نہیں بلکہ جمہور علماء ان کے ساتھ ہیں لہذا زرکشی کا ''وہو نص غریب لم یحکمہ الجمہور ''(النکت:ص١٨٨)کہنا غلط ہے اگر کوئی شخص اس پر بضد ہے کہ اس منھج اور اصول میں امام شافعی اکیلے تھے یا جمھور کے خلاف تھے !!تو وہ درج ذیل اقتباسات پر ٹھنڈے دل سے غور کرے :
(٢)امام ابو قدید عبیداللہ بن فضالہ النسائی (ثقہ مامون )سے روایت ہے کہ (امام )اسحق بن راھویہ نے فرمایا:
میں نے احمد بن حنبل کی طرف لکھ کر بھیجا اور درخواست کی کہ وہ میری ضرورت کی ضرورت کے مطابق (امام)شافعی کی کتابوں میں سے (کچھ )بھیجیں تو انھوں نے میرے پاس الرسالہ بھیجی ۔(کتاب الجرح والتعدیل :٧/٢٠٤وسندہ صحیح ،تاریخ دمشق لابن عساکر :٥٤/٢٩١۔٢٩٢،نیز دیکھئے مناقب الشافعی للبیھقی :١/٢٣٤وسندہ صحیح )
اس اثر سے معلوم ہوا کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کتاب الرسالہ سے راضی (متفق)تھے اور تدلیس کے اس مسئلے میں ان کی طرف سے امام شافعی پر رد ثابت نہیں ،لہذا ان کے نزدیک بھی مدلس کی عن والی روایت ضعیف ہے چاہے قلیل التدلیس ہو یا کثیر التدلیس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک جگہ لکھتے ہیں:
امام اسحق بن راہویہ کے پاس امام شافعی کی کتاب الرسالہ پہنچی،لیکن انھوں نے تدلیس کے اس مسئلے پر کوئی رد نہیں فرمایا،جیسا کہ کسی روایت سے ثابت نہیں ،لہذا معلوم ہوا کہ وہ تدلیس کے مسئلے میں امام شافعی کے موافق تھے ۔''
(ماہنامہ محدث لاہور جنوری ٢٠١٠ص:٩٦۔٩٧)
جواب:
یہ کہاں کی تحقیق ہے کہ جمھور کو ثابت کرنے کی خاطر اس طرح کا طریقہ اپنایا جائے ،کتاب کی تعریف سے یہ کب لازم آتا ہے کہ اس کتاب میں جو کچھ بھی ہے ان سب چیزوں سے اتفاق ہو۔موصوف اس اندازسے استدلال کرنے میں اکیلے ہیں سلف و خلف میں ان کا ساتھی کوئی بھی نہیں ۔کیا کوئی شخص ہمیں دکھایا جا سکتا ہے کہ امام شافعی سے لے کرآج تک کسی عالم نے اس طریقے سے امام شافعی کے موقف کی تائید میں استدلال کیا ہواور کہا ہو کہ امام احمد اورامام اسحق بن راہویہ کا بھی امام شافعی والا موقف ہے !!!اور دلیل میں یہ حوالہ پیش کیا ہو اس طریقے سے جرح و تعدیل کے اصول ثابت کرنے والوں کی تحقیق کیا گل کھلائے گی ۔ہم نے تو اختصار کی خاطر صرف دو حوالے پیش کئے ورنہ سارا مضمون اسی طرح کی بے شمار بے بنیاد باتوں سے لبریز ہے ۔
قلیل اور کثیر تدلیس کے درمیان فرق کرنا عرب علماء نے شروع کیا ہے ؟!!

بعض الناس لکھتے ہیں :
 
''اصول حدیث کے اس بنیادی مسئلے کے خلاف عرب ممالک میں حاتم شریف العونی ،ناصر بن حمد الفھد اور عبداللہ بن عبدالرحمن سعد وغیرھم نے منھج المتقدمین والمتاخرین کے نام سے ایک نیا اصول متعارف کرانے کی کوشش شروع کر دی ہے اور وہ یہ ہے کہ مدلسین کی دو قسمیں ہیں :
(١) کثیر التدلیس مثلا بقیہ بن الولید ،حجاج بن ارطاۃ اور ابو جناب الکلبی وغیرھم۔
(٢) قلیل التدلیس مثلا قتادہ ،اعمش ،ہشیم ،ثوری،ابن جریج اور ولید بن مسلم وغیرھم ،دیکھئے :منھج المتقدمین والمتاخرین فی التدلیس لناصر بن حمد الفھد ،ص١٥٥،١٥٦۔
ان لوگوں کا خیال یہ ہے کہ صرف وہی روایت ضعیف ہو تی ہے جس میں اس کا تدلیس کرنا ثابت ہو ورنہ صحیح اور مقبول ہوتی ہے ۔''(الحدیث حضرو )
جواب :
بعض الناس کی عبارت سے معلوم سے ہوتا ہے کہ قلیل اور کثیر تدلیس کے درمیان فرق کرناپندرھویں صدی میں کچھ عرب علماء نے شروع کر دیا ہے ۔یہ بات درست نہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہ تحقیق کا معیار بالکل غلط ہے کہ جس اصول کو رد کرنا ہو وہاں بڑی دلیری سے کہہ دینا کہ یہ اصول اب کی ایجاد ہے اور جس اصول کو خود اپنانا ہو وہاں بے بنیاد باتوں سے عمارت کھڑی کرکے اپنا اصول ثابت کرلیا ،اس کی مثالیں اپنے وقت پر (اشکالات اور ان کے جوابات)میں آئیں گی ان شاء اللہ ۔لیکن یہ انداز بہرحال درست نہیں ہے زیر بحث اصول میں بھی کچھ ایسی ہی صورت نظر آتی ہے کیونکہ قلیل اور کثیر تدلیس کے درمیان فرق کرنا متقدمین محدثین بڑے بڑے جھابذہ سے صراحت کے ساتھ سے ثابت ہے۔تفصیل کے لئے دیکھئے (مقالات اثریہ از حافظ خبیب احمد الاثری )نیز قلیل و کثیر میں فرق تو بدیع الدین شاہ راشدی اور محب اللہ شاہ راشدی رحمھما اللہ بھی کرتے تھے کیا یہ بھی عرب علماء ہیں ۔!!
امام الجرح والتعدیل شیخ العرب والعجم بدیع الدین شاہ راشدی سندھی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :ابن عیینہ کی تدلیس مرتبہ ثانیہ کی تدلیس ہے اور محدثین کے نزدیک اس کی معنعن روایت مقبول ہے ،کما فی طبقات المدلسین لابن حجر ص دو)نشاط العبد ص16)

کیا محدث العصر ارشاد الحق اثری بھی قلیل و کثیر تدلیس کے قائل ہیں؟!

بعض الناس نے یہ بھی باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ اثری صاحب بھی قلیل و کثیر تدلیس کے فرق کے قائل نہیں ۔یہ بات بھی درست نہیں محض اپنے افراد زیادہ کرنے کی سعی ہے ،آئیں ملاحظہ فرمائیں کہ محدث العصر استاذ محترم ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ 
کا موقف کیا ہے ۔وہ لکھتے ہیں :
 
''ان کو بالفرض اصطلاحی مدلس کے معنی میں لیا جائے تب بھی غور طلب بات یہ ہے کہ امام مسلم رحمۃ اللہ تو اس مدلس کے معنعن روایت پر نقد کرتے ہیں جو تدلیس میں معروف و مشہورہو ۔اس کے الفاظ ہیں:اذا کان الراوی ممن عرف بالتدلیس فی الحدیث وشہر بہ ۔(مقدمہ صحیح مسلم ص:٢٣ج١)اسی طرح امام علی بن مدینی سے پوچھا گیا کہ راوی مدلس ہو اور وہ حدثنا کہے تو کیا وہ حجت ہے ؟انھوں نے فرمایا:اذا کان الغالب علیہ التدلیس فلا حتی یقول حدثنا ۔''(الکفایۃ ص ٥١٢)
جب اس پر تدلیس غالب ہو تو وہ اس وقت حجت نہیں ۔الا یہ کہ وہ حدثنا کہے ۔امام علی بن مدینی رحہ اللہ کے قول سے بھی معلوم ہوتا ہے اس مدلس کا عنعنہ ھجت نہیں جو کثیر التدلیس ہو اور تدلیس میں مشھور ہو اس اعتبار سے بھی مکحول رحمہ اللہ جب تدلیس میں معروف و مشھور نہیں تو اس کا عنعنہ مقبول ہے یہ بات ہم نے محض ایک رائے اور ایک مسلک کے طور پر ذکر کی ہے تا کہ قارئین اس نقطہ نظر سے بھی آگاہ ہو جائیں ۔
(توضیح الکلام ص:٣١٤،ط:جدید)
علماء امت کیا اثری صاحب قلیل و کثیر تدلیس کے فرق کے قائل نہیں ہیں ۔!!!؟کیا اپنے اصول کو اپنانے کے لئے اور افراد اپنے ساتھ ذکر کرنے کے انصاف کو چھوڑنا تحقیق ہے ۔

مزید تفصیلات کے لئے ہمارا قیمتی سلسلہ (اشکالات اور ان کے جوابات )کا مطالعہ کریں ۔

 
مسئلہ تدلیس اور امام شافعی کے رد میں حافظ خبیب احمد الاثری کا ایک مفصل مضمون بھی تکمیل کے مراحل میں ہے ۔وہ بھی محدث فورم پرآن لائن کریں گے ان شاء اللہ
 
 
Posted 14th March 2013 by ibnay basheer
 
 
Link to comment
Share on other sites

مزید عرض یہ ہے کہ زبیر علی زئی کے استاد محب اللہ شاہ راشدی نے بھی ان کی درگت بنائی تھی اس مسئلہ پر۔

تسکین القلب المشوش بإعطاء التحقیق فی تدلیس الثوری والأعمش
 یہ مطبوع ہے۔
مقالات راشدیہ جلد اول

Link to comment
Share on other sites

اب معاملہ رہا کہ محدثین کا کسی سند کو صحیح کہنا اس سند کی توثیق ہوتی ہے کہ نہیں۔

اس معاملہ پر غیر مقلدین کے ہی ۲ متعصب عالم کفایت اللہ سنابلی اور طاہر رفیق کی ایک پوسٹَ پیش خدمت ہے۔

ضمنی توثیق یہ میری اپنی تعبیر ہے لوگوں کو سمجھانے کے لئے ، اور یہ فرق بتانے کے لے کچھ رواۃ کی واضح طور پر توثیق ملتی ہے اور کچھ کی اس طرح کی اس سے مروی روایت کی کوئی ناقد صحیح کہہ دئے تو محدثین اسے بھی توثیق ہی کا نام دیتے ہیں میں نے ضمنی تعبیر دوونوں‌ حالتوں میں‌ تفریق کے لئے استمال کی ۔

جہاں تک محدثین کی بات ہے تو وہ واضح طور پر تصحیح کو ثقہ کہتے ہیں یعنی ضمنی توثیق کی تعبر نہ استعمال کرکے تقہ وتوثیق کا لفظ‌ استعمال کرتے ہیں۔


امام ابن القطان رحمه الله (المتوفى628)نے کہا:
وَفِي تَصْحِيح التِّرْمِذِيّ إِيَّاه توثيقها وتوثيق سعد بن إِسْحَاق، وَلَا يضر الثِّقَة أَن لَا يروي عَنهُ إِلَّا وَاحِد، وَالله أعلم. [بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام 5/ 395].

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
الثقة: من وثَّقَه كثيرٌ ولم يُضعَّف.ودُونَه: من لم يُوثق ولا ضُعِّف. فإن حُرِّج حديثُ هذا في ((الصحيحين))، فهو مُوَثَّق بذلك، وإن صَحَّح له مثلُ الترمذيِّ وابنِ خزيمة فجيِّدُ أيضاً، وإن صَحَّحَ له كالدارقطنيِّ والحاكم، فأقلُّ أحوالهِ: حُسْنُ حديثه. [الموقظة في علم مصطلح الحديث للذهبي: ص: 17].

امام زيلعي رحمه الله (المتوفى762)نے کہا:
فَكَذَلِكَ لَا يُوجِبُ جَهَالَةَ الْحَالِ بِانْفِرَادِ رَاوٍ وَاحِدٍ عَنْهُ بَعْدَ وُجُودِ مَا يَقْتَضِي تَعْدِيلَهُ، وَهُوَ تَصْحِيحُ التِّرْمِذِيِّ، [نصب الراية 1/ 149].

امام ابن الملقن رحمه الله (المتوفى804)نے کہا:
وَقَالَ غَيره: فِيهِ جَهَالَة، مَا رَوَى عَنهُ سُوَى ابْن خُنَيْس. وَجزم بِهَذَا الذَّهَبِيّ فِي «الْمُغنِي» فَقَالَ: لَا يعرف لَكِن صحّح الْحَاكِم حَدِيثه - كَمَا ترَى - وَكَذَا ابْن حبَان، وَهُوَ مُؤذن بمعرفته وثقته.[البدر المنير لابن الملقن: 4/ 269].

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
قلت صحح ابن خزيمة حديثه ومقتضاه أن يكون عنده من الثقات [تعجيل المنفعة ص: 248].

عصرحاضر میں علامہ البانی رحمہ اللہ نے کہا:
أن ضبة هذا قد وثقه ابن حبان، وقال الحافظ ابن خلفون الأندلسي: "ثقة مشهور"، وكذلك وثقه كل من صحّح حديثه؛ إما بإخراجه إياه في "الصحيح" كمسلم وأبي عوانة؛ أو بالنص على صحته كالترمذي. [سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها 7/ 16].

حافظ‌ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ کا بھی یہی اصول ہے جیساکہ متعدد کتب میں‌ انہوں نے صراحت کررکھی ہے۔

 

کفایت اللہ‏مارچ 16, 2013

 

جزاکم اللہ خیرا وبارک فیکم۔
اس میں تو کوئی شک نہیں کہ اگر کوئی محدث کی روایت کو صحیح الاسناد کہتا ہے تو اسکی طرف اسے اس سند میں موجود میں رواۃ کی ضمنا توثیق بھی ہوتی ہے ۔
لیکن یہاں میرے پیش نظر دو اہم باتیں ہیں 

۱۔ اس ضمنی توثیق اور بالصراحت توثیق میں فرق ۔

میں سمجھتا ہوں کہ یہ ضمنی توثیق یقینا ایک ناقد محدث کی طرف سے اس راوی کی توثیق ہی ہے لیکن اسکا درجہ اس ثقہ راوی والا نہیں ہے جسکی توثیق بالصراحت کی جائے گی ۔ اور اس فرق کا فائدہ اختلاف کے وقت ظاہر ہوگا ۔

۲۔ کوئی محدث صحیح احادیث جمع کرنے کی شرط لگا کر چند روایات جمع کرتا ہے اپنی کسی بھی کتاب میں اس میں موجود کسی مجہول یا ضعیف راوی, اور کسی خاص سند کو صحیح قرار دیتا ہے اس میں موجود اسی قبیل کے راوی کے درجہ کے درمیان فرق ۔


اس بارہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ صحیحین میں بھی کچھ مجروح وضعیف رواۃ کی مرویات موجود ہیں , لیکن صحیح بخاری یا مسلم میں انکی مرویات موجود ہونے کی وجہ سے ہم یہ نہیں کہتے کہ ان نقاد نے انکی توثیق کی ہے , بلکہ ہم کہتے ہیں کہ انکی مرویات انہوں نے اصالۃ ذکر نہیں کیں بلکہ استشادا وغیرہ پیش کی ہیں ۔ 
کیا یہ اصول دیگر محدثین کی کتب مثلا صحیح ابن حبان صحیح ابن خزیمہ , ابن الجارود وغیرہ پر نہیں لگ سکتا ؟
حالانکہ امت اس بات پر متفق نظر آتی ہے کہ ان برگزیدہ ہستیوں نے صرف صحیح احادیث جمع کرنی کی سعی مشکور تو کی ہے لیکن انہیں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی ۔
اور پھر انکی صحیح قرار شدہ احادیث پر جرح ونقد کرکے علتیں واضح کرکے انکے موقف کے سقم کو واضح کر دیا جاتا ہے ۔
تو کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ تصحیح حدیث میں جس طرح ان سے تسامح ہوا ہے ایسے ہی ان رواۃ کے بارہ میں بھی ہوا ہو جو انکی ان کتب میں مذکور ہیں ۔

ہاں اگر یہ ناقد محدثین کسی سند کو بعینہ صحیح الاسناد وغیرہ کہتے ہیں تو پھر انکی طرف سے رواۃ کی ثقاہت اور اتصال سند اور عدم علت کی گارنٹی ہی ہوگی ۔
مگر ہم دیکھتے ہیں کہ مثلا امام حاکم بہت سی احادیث کو على شرط الشیخین صحیح الاسناد قرار دیتے ہیں اور علامہ ذہبی انکی موافقت بھی کر رہے ہوتے ہیں مگر اسکے باوجود اس میں علت قادحہ پائی جاتی ہے ۔
جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان ائمہ کا صحیح الاسناد کہنا بھی کوئی اتنا زیادہ مضبوط نہیں ہے ۔ 

یہ میری کچھ آراء ہیں ان پر آپکے علمی رد کا انتظار ہے ۔
وجزاکم اللہ خیرا وبارک فیکم

Link to comment
Share on other sites

اس معاملہ میں عرض یہ کہ مالک الدار مجہول نہیں ہیں۔


کیونکہ ابن سعد نے ان کو معروف لکھا ہے۔


598- مالك الدار مولى عُمَر

بْن الْخَطَّاب. وقد انتموا إلى جبلان من حمير. وروى مالك الدار عَنْ أَبِي بَكْر الصِّدِّيق وعُمَر. رحمهما اللَّه. روى عَنْهُ أَبُو صالح السمان.

وكان معروفا.

الكتاب: الطبقات الكبرى

المؤلف: أبو عبد الله محمد بن سعد بن منيع الهاشمي بالولاء، البصري، البغدادي المعروف بابن سعد (المتوفى: 230هـ)

 


اور یہ بات مخفی نہیں کہ معروف سے مجہول کی نفی ہوتی ہے۔


حافظ خلیلی نے مالک الدار کو تابعی لکھا اور ساتھ ہی محدثین کرام سے ان کی تعریف ثابت کی۔


مَالِكُ الدَّارِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ الرِّعَاءِ عَنْهُ: تَابِعِيُّ , قَدِيمٌ , مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ , أَثْنَى عَلَيْهِ التَّابِعُونَ


الكتاب: الإرشاد في معرفة علماء الحديث

المؤلف: أبو يعلى الخليلي
Link to comment
Share on other sites

مزید عرض یہ ہے کہ محدث کی ویب سائٹ پر کسی صاحب نے اس حدیث پر یہ بھی اعتراض کیا ہے۔

ايك اور وجہ اس روايت كے ضعف كي يہ ہو سكتي ہے كی ابو صالح جو يہاں مالك بن عياض سے روايت كر رہے ہيں ان كا بقول امام ابو زرعة حضرت ابو ذر سے سماع ثابت نهيں كذا في التهذيب (3/190)۔ 
تحفة التحصيل (ص ١٠١) للعراقي اور جامع التحصيل (ص ١٧٤) للعلائي ميں يہ ہے كہ
ذكوان أبو صالح السمان معروف قال أبو زرعة لم يلق أبا ذر وهو عن أبي بكر وعن عمر وعن علي رضي الله عنهم مرسل
اس سے واضح ہے كہ ابو صالح كا حضرت علي سے بھي سماع ثابت نہيں ہے- تو يہ محال ہوگا کہ وہ مالک الدار سے روايت كریں جو كہ ايك مخضرم تھے- 
اسي اختلاف كي طرف الخليلي نے اشاره كيا ہے- جيسا كہ وه الارشاد ميں مالك الدار كے ترجمہ ميں فرماتے ہیں:
يقال : إن أبا صالح سمع مالك الدار هذا الحديث ، والباقون أرسلوه
"كها گيا هے كہ ابز صالح نے اس روايت كو مالك الدار سے سنا ہے- جبكہ باقي اسے مرسل روايت كرتے ہيں-"

 جواب:

عرض یہ ہے کہ  مذکورہ حوالہ میں کسی حوالہ سے ابا صالح ذکوان کا مالک الدار سے سماع کے نفی ثابت

نہں ہوتی۔

مزید یہ کہ محدثین کرام نے مالک الدار سے ابو صالح کی روایت کی تصریح کی ہے۔

8375- مالك بن عياض «1»

: مولى عمر، هو الّذي يقال له مالك الدّار.

له إدراك، وسمع من أبي بكر الصّديق، وروى عن الشّيخين، ومعاذ، وأبي عبيدة.

روى عنه أبو صالح السمان، وابناه: عون، وعبد اللَّه ابنا مالك.

وأخرج البخاريّ في التّاريخ من طريق أبي صالح ذكوان، عن مالك الدّار- أنّ عمر قال في قحوط المطر: يا رب، لا آلو إلا ما عجزت عنه.

الكتاب: الإصابة في تمييز الصحابة

المؤلف: أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ)
1295 -

 مالك بْن عياض الدار أن عُمَر قَالَ فِي قحط يا رب لا آلو إلا ما عجزت عنه قَالَه علي عَنْ مُحَمَّد بْن خازم (5) عن ابى صالح

عَنْ مالك الدار.

الكتاب: التاريخ الكبير
المؤلف: محمد بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري، أبو عبد الله (المتوفى: 256هـ)

مَالِكٌ الدَّارُ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ , وَقَدِ انْتَمَوْا إِلَى جُبْلَانَ مِنْ حِمْيَرَ , وَرَوَى مَالِكٌ الدَّارُ عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ وَعُمَرَ رَحِمَهُمَا اللَّهُ. رَوَى عَنْهُ أَبُو صَالِحٍ السَّمَّانُ , وَكَانَ مَعْرُوفًا

الكتاب: الطبقات الكبرى
المؤلف: أبو عبد الله محمد بن سعد بن منيع الهاشمي بالولاء، البصري، البغدادي المعروف بابن سعد (المتوفى: 230هـ)
 7180 -

 مالك بن عياض المعروف بمالك الدار المدني (4) مولى عمر بن الخطاب ويقال الجبلاني (5) سمع أبا بكر الصديق وعمر بن الخطاب وأبا عبيدة بن الجراح ومعاذ بن جبل وروى عنه أبو صالح السمان 

الكتاب: تاريخ دمشق
المؤلف: أبو القاسم علي بن الحسن بن هبة الله المعروف بابن عساكر (المتوفى: 571هـ)
1817-

 

1816) مالك الدار:
 سَمِعْتُ مُصْعَب بن عَبْد الله يقول: مالك الدار مولى عمر بن الخطاب، روى عن أبي بكر، وعمر بن الخطاب وقد انتسب [ق/122/أ] ولده في جبلان، روى عن مالك الدار: أبو صالح ذكوان.

 

 

 

 

 

 

 

 

Link to comment
Share on other sites

                          مالک الدار کو حافظ الخلیلی نے اپنی کتاب الارشاد میں متفق علیہ کہا ہے۔اگر کوئی اعتراض کرے کہ متفق علیہ سے ثقہ کیسے ثابت ہوتا ہے تو اس بارے میں چند اقوال پیش خدمت ہیں جس میں محدثین کرام نے متفق علیہ کہا اور اس سے مراد راوی کی توثیق ہے۔

 

 عبيد الله بن عمر بن حفص بن عاصم بن عمر بن الخطاب ( 1 / 192 برقم 16 الناشر مكتبة الرشد /الرياض الطبعة الأولى 1409 ، بتحقيق الدكتور محمد سعيد عمر إدريس ) : ( عالم متفق عليه مخرج ) ..

2)  عبد الله بن نافع الزبيري ( 1 / 228 برقم 53 الناشر مكتبة الرشد /الرياض الطبعة الأولى 1409 ، بتحقيق الدكتور محمد سعيد عمر إدريس ) : ( من أصحاب مالك متفق عليه ) ..

3)  ابو عاصم النبيل ( 1 / 239 برقم 70 الناشر مكتبة الرشد /الرياض الطبعة الأولى 1409 ، بتحقيق الدكتور محمد سعيد عمر إدريس ) : (متفق عليه مخرج يروي عنه البخاري ويفتخر به )


4)  عبد الرحمن بن القاسم العتقي الزاهد ( 1 / 239 برقم 70 الناشر مكتبة الرشد /الرياض الطبعة الأولى 1409 ، بتحقيق الدكتور محمد سعيد عمر إدريس ) : ( متفق عليه اول من حمل الموطأ الى مصر إمام روى عنه الحارث ابن مسكين واقرانه )


5)  الامام سفيان بن عيينة ( 1 / 239 برقم 70 الناشر مكتبة الرشد /الرياض الطبعة الأولى 1409 ، بتحقيق الدكتور محمد سعيد عمر إدريس ) : ( إمام متفق عليه بلا مدافعة ) أهـ ..

Link to comment
Share on other sites

''حدثنا ابو معاویة ،عن الاعمش ،عن ابی صالح ،عن مالک دار قال: وکان خازن عمر علی الطعام اصاب الناس قحط فی زمن عمرفجاء رجل الی قبرالنبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ; استسق الامتک فانھم قدھلکوا فاتی الرجل فی المنام فقیل لہ ائت عمر فاقرئہ السلام واخبرہ انکم ومسقیون ،و قل لہ:علیک الکیس :علیک الکیس فاتی عمرفاخبرہ عمر،ثم قال : یارب لا الوالا عجزت عنہ'' (رواہ المصنف ابن ابن شیبہ جلد 6ص356رقم32002)

 

''حضرت عمر کے زمانے میں لوگ قحط میں مبتلا ہوئے پھر ایک شخص حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر آیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ اپنی امت کے لئے سیرابی مانگئے کیونکہ وہ ہلاک ہو رہی ہے پھر خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ عمر کے پاس جاکر اسے میرا سلام کہو اور اسے بتائو کے تم سیراب کئے جائو گے اور عمر سے کہدو عقلمندی اختیار کرو؛ عقلمندی اختیار کروپھر وہ شخص عمر کے پاس آیا اور انھیں خبر دی تو حضرت عمر رو پڑے اور فرمایا : اے اللہ میں کوتاہی نہیں کرتا مگر یہ کہ عاجز ہو جائوں ۔''

 

 

اب ہم ذیل میں وہ دلائل نقل کررہے ہیں جن سے صاحب کتاب نے اس واقعہ کو سنداََ صحیح کہنے کی کوشش کی ہے:

 

 

امام ابن تمیہ نے اقتضاء الصراط المستقیم (ص373) میں، امام ذہبی نے تاریخ الاسلام(بدالخلفاء الراشدین 373 ) میں اورامام ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ (جلد5 ص164 ) میں اس روایت کے بارے میں کہا ہے کہ اس کی اسناد صحیح ہیں اسی سند کے ساتھ ابن ابی خثیمہ نے روایت کیا ہے جیساکہ حافظ عسقلانی الاصابہ فی تمیز 2746 میں لکھتے ہیں جبکہ وہ فتح الباری میں بھی لکھتے ہیں یہ روایت ابن ابی شیبہ نے صحیح اسناد کے ساتھ بیان کی ہے اور سیف بن عمر تمیمی نے الفتوح الکبیر میں بھی نقل کیا کہ خواب دیکھنے والے صحابی حضرت بلال بن حارث مزنی تھے امام قسطلانی نے المواہب الدنیہ (جلد4 ص276 ) میں کہا ہے اسے ابن ابی شیبہ نے صحیح اسناد کے ساتھ روایت کیا ہے جبکہ علامہ زرقانی نے اپنی شرح (11 / 150 ) میں امام قسطلانی کی تائید کی ہے ۔

 

 

اس کے ایک راوی اعمش کے مدلس ہونے کی وجہ سے اعتراض کیا جاتا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ اعمش اگر چہ مدلس ہے لیکن اس کی یہ روایت درج ذیل دو وجوہات کی بنا پر مقبول ہے چاہے اس کا سماع ثابت ہو یا نہ ہو ۔

 

 

(اعمش کا ذکر دوسرے درجے کے مدلسین میں کیا گیا ہے یعنی وہ مدلسین جن سے ائمہ احادیث نے اپنی صحیح میں روایات لی ہیں لہذا ثابت ہوا کہ اعمش کی روایت مقبول ہے ۔

 

 

دوسرا یہ کہ اگر ہم اعمش کا سماع ثابت ہونے پر ہی یہ روایت قبول کریں جیسا کہ تیسرے یا اس سے نچلے درجے کے مدلسین کے معاملے میں کیا جاتا ہے تو اعمش کی یہ روایت مقبول ہوگی کیونکہ اس نے ابو صالح سمان سے روایت نقل کی ہے امام ذہبی فرماتے ہیں جب اعمش لفظ عن کے ساتھ روایت کرے تو اس میں احتمال تدلیس ہوتا ہے مگر جب اپنے بہت سارے شیوخ مثلاََ ابراہیم، ابی وائل، ابو صالح سمان وغیرہ سے روایت کرے تو اتصال پر محمول کیا جاے گا۔(میزان الاعتدال جلد3 ص316 )امام ذہبی نے اسے ثقہ کہا ہے ۔

 

 

اس کے ایک راوی مالک دار پر مجہول ہونے کا الزام ہے اس اعتراض کا بطلان مالک دار کے اس سوانح تذکرہ سے ثابت ہے جیسا کہ ابن سعد نے مدنی تابعین کے دوسرے طبقے میں بیان کرتے ہوے کچھ یوں لکھا ہے مالک دار حضرت عمر کا آزاد کردہ غلام تھا اس نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر سے روایت کیا ہے اور اس سے ابو صالح سمان نے روایت لیں وہ معروف تھا۔ (ابن سعد جلد 5 ص12 )مزید براںیہ اعتراض حا فظ خلیلی کے مالک دار پر تبصرے سے غلط ثابت ہوتا ہے مالک دار (کی ثقاہت) متفق علیہ ہے اور تابعین کی جماعت نے اس کی بہت تعریف کی ہے اس کے علاوہ حافظ عسقلانی نے مالک دار کاجو سوانح خاکہ بیان کیا ہے اس سے بھی یہ اعتراض رد ہوتا ہے ۔

 

 

'' مالک بن عیاض'' حضرت عمرکے آزاد کردہ غلام کو مالک دار کہا جاتا تھا اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تھا اوراس نے حضرت ابوبکر سے حدیثیں سنی ہیں اس نے حضرت عمر،حضرت معاذ اور حضرت ابو عبیدہ سے روایت کیاہے اس سے ابو صالح سمان اوراس (مالک دار) کے دو بیٹوں عون اور عبداللہ نے روایت کیا ہے۔ اور امام بخاری نے کتاب التارخ الکبیر(7 / 304 ) میں مالک دار سے ابو صالح کے طریق سے روایت لی ہے کہ حضرت عمر نے زمانہ قحط میں کہا اے میرے پروردگار میں کوتاہی نہیں کرتا مگر یہ کہ عاجز ہو جاؤں ۔

 

 

ابن ابی خثیمہ نے ان الفاظ کے ساتھ ایک طویل روایت نقل کی ہے جسے امام بغوی نے جمع کیا ہے میں مالک دار سے بحوالہ عبدالرحمن بن سعید بن یربوع مخرومی روایت نقل کی ہے اس نے کہا کہ حضرت عمر نے ایک دن مجھے بلایا اور ان کے ہاتھ میں سونے کا بٹوہ تھا اس میں چار سو دینار تھے اور انہوں نے مجھے حکم دیا کہ اسے ابو عبیدہ کے پاس لے جاؤں پھراس نے بقیہ وا قع بیان کیا ابو عبیدہ نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ حضرت عمر نے اسے اپنے عیال کا نگراں مقرر کیا تھا پھر جب حضرت عثمان خلیفہ بنے تو انہوں نے اسے وزیر خزانہ بنا دیا اور اسی لئے اس کا نام (مالک دار) گھر کا مالک پڑ گیا ۔

 

 

اسمایل قاضی نے علی بن مدینی سے روایت کیا ہے کہ مالک دار حضرت عمر کے خزانچی تھے ۔ ابن حبان نے الثقات (5 / 384 ) میں مالک دار کو ثقہ قرار دیا ہے ۔

 

اب اگر حافظ منذری اور ابن ججری ہثیمی نے مالک دار کے بارے میں کہا ہے کہ ہم اس کو نہیں جانتے تو اس کا مطلب یہ کہ انہوں نے اسے ثقہ یا غیر ثقہ کچھ بھی نہیں کہا تاہم امام بخاری، ابن سعد، ابن مدینی ابن حبان اور حافظ ابن حجر جیسے دوسرے اجل محدثین بھی ہیں جو اسے جانتے تھے اور حافظ ابن حجر عسقلانی کا مرتبہ اسماء الرجال میں مخفی نہیں ہے ۔

 

 

پہلی دلیل کا رد:

پہلی دلیل یہ دی گئی ہے کہ اس کو مختلف ائمہ نے اپنی کتب میں نقل کیا ہے اور ابن ابی شیبہ کی اس روایت کو بعض نے صحیح کہا ہے اگر یہ روایت مستند ہوتی تو ابن ابی شیبہ اس روایت کو نقل فرماکر خود اسے صحیح کہہ دیتے مگر انہوں نے اس روایت پر سکوت اختیار کیا ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 6 / 356 رقم 32002) امام ذہبی کے بارے میں جو یہ کہا گیا ہے کہ انہوں نے اس روایت کی تائید کی ہے یہ ایک باطل کلام ہے جو امام ذہبی جیسے محقق پر باندھا گیا ہے امام ذہبی نے اس روایت کو اپنی تاریخ میں بیان ضرور کیا ہے مگر اس کی صحت پر سکوت اختیار کیا ہے انہوں نے اپنی اس کتاب میں متعدد روایت پر صحیح اور ضعیف کا حکم لگایا ہے مگر جن کی سند کا انھیں علم نہ ہوا یا جن کے بارے میں اطمینان نہ ہوا اس پر سکوت اختیار کیا ہے اور یہ روایت ان میں سے ایک ہے ۔(تاریخ الخلفاء راشدین ص 273 ) اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں جو اس روایت کا تذکرہ کیا ہے تو اس کی تمام سند کو صحیح قرار نہیں دیا ہے بلکہ اس روایت کو ابو صالح سمان تک صحیح فرمایا ہے اور ہم ان کا قول فتح الباری کے حوالے سے نقل کیے دیتے ہیں:

 

 

'' وروی ابن ابی شیبہ باسناد صحیح من روایة ابی صالح السمان عن مالک الداری ''(فتح الباری جلد3 ص430 باب کتاب استسقائ)

 

 

'' روایت کیا ابن ابی شیبہ نے صحیح اسناد سے ابو صالح سمان عن مالک دار''۔

 

 

اگر حافظ ابن حجر عسقلانی اس کی تمام اسناد کو صحیح مانتے تو وہ مالک دار سے روایت کو نقل کرکے کہتے کہ یہ روایت صحیح سند سے مالک دار سے مروی ہے مگر انہوں نے روایت کو ابوصالح تک صحیح نقل کیا ہے اور اس کے بعد مالک دار کا تذکرہ کیا ہے اور جس سے وہ یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ یہ روایت ابو صالح سمان تک صحیح ہے اور اس قول کی تائید مختلف دلائل سے ہوتی ہے مثلاََ حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں ابن ابی شیبہ کی ایک اور روایت نقل کی ہے کہ:

 

 

'' ابن ابی شیبہ من حدیث ابی سعید خدری '' خرجنا مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم الی خیبر لثمان عشرہ من رمضان '' الحدیث و اسنادہ حسن ''

( فتح الباری جلد 8 ص 395 تحت ح 4195 باب غزوہ خیبر)

 

 

اس روایت میں آپ غور سے دیکھ سکتے ہیں کہ حافظ عسقلانی نے اس روایت کی سند کو حسن کہا ہے اور صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک اس کی سند کو بیان کیا ہے اگر اس کی سند متصل نہ ہوتی تو وہ اس روایت کو بھی اسی سند تک صحیح ذکر کرتے جہاں تک یہ روایت صحیح متصل ہوتی مگر جبکہ یہ روایت صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک متصل ہے اس لئے اس کو صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک بیان کر کے اسے حسن کہا ہے اور ان کے اس موقف کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ علامہ ہثمی نے مجمع الزوائد میں مالک دار سے ایک اور روایت نقل کر کے اس کے بارے میں یہ فرمایا ہے کہ:

 

'' رواہ الطبرانی فی الکبیر و مالک دار لم اعرفہ و بقیة رجال ثقات ''

 

روایت کیا اسے طبرانی نے الکبیر میں اور تمام رجال اس کے ثقات ہیں مگر مالک دار معروف نہیںہے۔

(مجمع الزوائد ۔125/۳)

 

 

یہ وہی اسلوب ہے جو حافظ عسقلانی نے اختیار کیا ہے کہ روایت کو صرف ابوصالح سمان سے شروع کیا تاکہ یہ اندازہ ہو جائے کہ ان کے نزدیک مالک دار مجہول ہے ۔یہ ایک دقیق علم ہے اور اس کو وہی سمجھ سکتا ہے جس نے اس علم میں زندگی گزاری ہو یہ بات عصر حاضر کے محدث علامہ ناصر الدین البانی نے بیان کی ہے اور یہ نکتہ بھی انہوں نے ہی اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔

(دیکھئے: التوسل ،الحکامہ انواعہ)

 

 

اور الفتح الکبیر کے حوالے سے یہ نقل کیا ہے کہ وہ ایک صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت بلال بن حارث مزنی تھے اور روایت میں سیف بن عمر تمیمی ہے جو محدثین کے نزدیک بلااتفاق ضعیف ہے بلکہ اس کے بابت یہاں تک کہا گیا ہے کہ وہ من گھڑت حدیثیں بیان کرتا تھا۔(تھذیب التھذیب جلد 3ص583)

 

اس لیے الفتح الکبیر کی روایت کو تو محدثین نے سرے سے قابل حجت نہیں مانا ہے اور حافظ ابن حجر نے بھی مالک دار کو مجہول قرار دیا ہے اور اس روایت کی صحت پر عدم قبولیت کا اظہار کیا ہے اب اس روایت کی دوسری دلیل کی جانب چلتے ہیں ۔

 

 

دوسری دلیل کا رد :

اس دلیل میں الاعمش کے حوالے سے بات کی گئی ہے کہ الاعمش کی تدلیس قابل قبول ہے کیونکہ وہ دوسرے درجے کا مدلس ہے اور اس کی روایت دو وجوہات کی بنیاد پر قابل قبول ہے پہلی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے چونکہ یہ دوسرے درجے کا مدلس ہے اور اس سے ائمہ نے کتب صحیح میں روایت لی ہیں اس لئے اس کی روایت قابل قبول ہے ۔ اس قول کا باطل ہو نا صرف اسی اصول سے کافی ہے کہ امام نووی شرح مسلم میں نقل کرتے ہیں کہ:

 

'' والاعمش مدلس والمدلس اذا قال عن لا یحتج بہ الا اذا ثبت سماعہ من جھة اخری''۔

( شرح صحیح مسلم جلد1 ص72 تحت ح 109)

 

'' اور الاعمش مدلس ہے اور مدلس روای جب عن سے روایت کرتا ہے تو اس کی روایت قابل قبول نہیں ہے مگر اگر وہ کسی دوسری سند سے ثابت ہو۔''

 

اور الاعمش سے جو روایات صحیح میں لیں گئیں ہیں وہ دوسری سند سے ثابت ہیں اور اس کی دلیل میں امام نووی شرح مسلم میں فرماتے ہیں کہ:

''ان المدلس اذا قال:عن ،لا یحتج بہ الا یثبت سماعہ من جھة اُخری و ان ما کان فی (الصحیحین ) من ذلک فمحمول علی ثبوت سماعہ جھة اُخری ''

 

'' مدلس روای جب عن سے روایت کرتا ہے تو اس کی روایت قابل قبول نہیں ہے مگر اگر وہ کسی دوسری سند سے ثابت ہو اور صحیحین میں(بخاری اور مسلم)میں جو مدلسین سے روایت لیں گئیں ہیں وہ دوسری جہت سے ثابت ہیں۔''(المقدمہ صحیح مسلم جلد1 ص110 تحت باب النھی عن الحدیث بکل ما سمع)

 

امام نووی کے علاوہ یہی قول ابن الصلاح نے اپنے مقدمہ میں اور امام العلائی نے جامع التحصیل میں نقل کیا ہے ۔(مقدمہ ابن الصلاح ص171 ،جامع التحصیل ص113 ) اور مصنف ابن ابی شیبہ کی یہ روایت جس میں الاعمش ہے یہ اور کسی دوسرے جہت سے ثابت نہیں ہے اس لئے یہ قابل قبول نہیں ہے جب تک دوسری کوئی روایت صحیح سند سے اس کی تائید نہ کر دے اور (صحیحین) میں الاعمش کو دوسرے درجے کا مدلس روای درج کیا گیا ہے مگر دوسرے درجے کے مدلس کی روایت صرف بخاری اور مسلم ہی میں قبول کی جائے گی چاہے اس کی صراحت ہو یا نہ ہو مگر اس اصول کے باوجود بخاری اور مسلم نے تمام مدلسین جن سے انہوں نے روایت لیں ہیں اس کی سماع کی تصر یح کی ہے جیسا ہم نے امام نووی کا قول شرح مسلم کے حوالے سے نقل کیا ہے ا ور اس کے علاوہ اس راوی کی روایت کسی اور کتب میں قابل قبول نہیں ہو گی جب تک دوسری سند سے اس کے سماع کی تصریح نہ ہوجائے جیسا کہ حافظ ابن حجر نے اور امام العلائی نے دوسرے درجے کے مدلسین کے طبقات کے بارے میں اصول میں بیان کیا ہے کہ:

 

'' من احتمل الائمة تدلیسہ و خرجوا لہ فی الصحیح و ان لم یصرح بالسماع و ذلک اما لامامتہ او لقلة تدلیسہ فی جنب مارواہ ،واھل ھذہ المرتبہ روایتہم محمولة علی الاتصال صرحوا بالسماع او لم یصرحوا''۔

(جامع التحصیل ص113 )

 

'' جب ائمہ مرتبہ ثانیہ کی تدلیس کا احتمال کرتے ہیں اور اس کی روایت کو صحیح (بخاری یا مسلم) میں نکالا ہو اگرچہ اسکی سماع کی تصریح نہیں ہو اور یہ (روایت قابل قبول ہوگی) جب اس مرتبہ کا راوی اپنے شیوخ سے روایت کرے یا وہ کوتاہی سے تدلیس کرتا ہو اپنی روایت میں اور اس مرتبے میں روایت ان کی اتصال پر محمول ہے چاہے ان سے سماع کی تصریح ہو یا نہیں ہو۔''

 

اور ابن صلاح نے اپنے مقدمہ میں اسے تیسرے درجے کا مدلس نقل کیا ہے ۔( مقدمہ ابن الصلاح) اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے اسے پانچوئے درجہ کا مدلس بیان کیا ہے:

 

'' سلیمان بن مھران الاسدی الاعمش ثقہ لکنہ یدلیس من الخامسة''(تقریب تھذیب جلد1 ص229 )

 

'' سلیمان بن مہران الاسدی الاعمش ثقہ روای ہے مگر پانچوئے درجے کا مدلس ہے۔''

 

اس سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ اگرچہ صحیحین میں الاعمش دوسرے درجہ کا مدلس ہے اور اس سے شیخین نے روایت لیں ہیں اور دوسرے درجے کے مدلس کے لئے یہ اصول ہے کہ اگر اس سے صرف بخاری اور مسلم روایت کریں تو اور اس کی صراحت نہ بھی ہو تو اس کی روایت قابل قبول ہے مگر صحیحین نے جن مدلسین سے روایت لیں ہیں ان کے سماع کی تصریح کی ہے جیسا ہم نے اوپر امام نووی اور دوسرے محدثین کے اقوال نقل کیا ہے۔ تو ا ب یہ بات نکھر کر سامنے آئی ہے کہ اگر مدلس راوی عن سے روایت کرے گا تو جب تک مدلس روای کی روایت کا سماع ثابت نہ ہو وہ قابل قبول نہیں ہے اور ابن صلاح نے اسے تیسرے درجے کا مدلس نقل کیا ہے ۔( مقدمہ ابن الصلاح) اور حافظ نے پانچوے درجے کا مدلس نقل کیا ہے تو اگر صحیحین کا قول مان لیا جائے تو بھی یہ صرف صحیحین ہی تک محدود ہے او ر یہ واقعہ صاحب کتاب کا بدقسمتی سے صحیحین میں نقل نہیں ہوا ہے اور انہوں نے بھی مدلس راویوں کی روایات کو دوسرے سماع سے ثابت کیا ہے اوراگر ابن صلاح وغیرہ کی بات مان لیں تو دوسرے درجے کے مدلس راوی کی روایت اگر صحیحین میں ہو تو قبول ہو گی جبکہ وہ دوسری جہت سے ثابت ہو۔ اب تیسرے درجے کے مدلس کی روایت تو از خود رد ہو جاتی ہے جس کے سماع کی تصریح ثابت نہیں ہو اور تیسرے درجے کے مدلس کے بارے میں محدثین نے کیا اصول مرتب کیا ہے اس پر نظر ڈالتے ہیں:

 

'' المرتبہ الثالثہ: من اکثر من التدلیس فلح یحتج من احادیثھم الا بما صراحوا فیہ بالسماع و منھم رد حدیثھم مطلقا ، منھم قبلھم کابی الزبیر المکی ''(تعریف اھل التقدلیس ص23 )

 

''جو اکثر تدلیس کرتے ہیں تو ان کی روایت حجت نہیں ہے مگر یہ کہ اس میں سماع ثابت ہو جائے اور بعض نے ان کی روایت کا (سماع کے باوجود) مطلقا رد کر دیا اور بعض نے (سماع کے ساتھ) قبول بھی کیا جیسے ابو الزبیر المکی۔''

 

اب الاعمش دوسرے، تیسرے یا پانچوئے درجے کا مدلس ہو اس کی روایت کی تصریح جب تک ثابت نہیں ہوتی قابل قبول نہیں ہے اور جو امام ذہبی کا یہ قول کہ جب وہ اپنے شیوخ سے روایت کرے تو اسے اتصال پر محمول کیا جائے گا ، امام ذہبی کا یہ قول غریب (یعنی جدا ) ہے کیونکہ یہ اصول صرف صحیحین کی روایات کے لئے ہے جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے اس کے علاوہ کسی کے لئے یہ اصول بیان نہیں کیا گیا ہے اور مقدمین محدثین میں سے کسی ایک نے بھی یہ بات بیان نہیں کی ہے بلکہ مقدمین نے الاعمش کی تدلیس پر سخت جرح کی ہے جس کو ہم یہاں بیان کیے دیتے ہیں جس سے آپ کو اس کی تدلیس کے بارے میں محدثین کے اقوال کا بھی اندازہ جائے گا کہ اس کی تدلیس پر مقدمینِ محدثین نے کس قدر سخت جرح کی ہے :

 

حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ الاعمش پانچوئے درجے کا مدلس ہے (تقریب تھذیب جلد1 ص229 ) اور انہوں نے اسے اپنی کتاب طبقات المدلسین میں بھی نقل کیا ہے (الطبقات المدلسین ص43)اور انہوں نے ایسا کوئی اصول نہیں واضح کیا ہے جو امام ذہبی نے بیان کیا ہے ۔

 

امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں الاعمش کا ابو صالح سے سمع ثابت نہیں ہے۔

(تھذیب التھذیب جلد3 ص506-509)

 

سفیان فرماتے ہیں الاعمش کو ابو صالح سے سمع نہیں ہے ۔

(ابن ابی حاتم الجرح التعدیل جلد 1ص104کتاب المقدمہ)

 

امام نووی نے الاعمش کو مدلس کہاہے اور ان کا قول ہم اوپر نقل کر چکے ہیں ۔

(شرح صحیح مسلم جلد1ص72تحت ح109)

 

ابن القطان فرماتے ہیں یہ لازمی نہیں ہے کہ اگر روای ثقات ہوں تو روایت صحیح ہو گی جیسا کہ الاعمش ہے جوکہ مدلس ہے۔ ( التلخیص الحبیر جلد 3ص48)

 

یہاں ابن قطان نے یہ بات واضح کر دی کے یہ ضروری نہیں ہے کہ اگر روای ثقہ ہے تو روایت صحیح ہو گی اور انھوں نے اس کی تردید کے لئے الاعمش ہی کی مثال پیش کی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ الاعمش کی تدلس پر محدثین نے کڑی جرح کی ہے

 

امام بخاری نے بھی الاعمش کا اس روایت میں انقطاع ہی مانا ہے ذیل میں ہم اس کو تفصیل سے بیان کریں گے ۔(التاریخ الکبیر جلد 7 ص230 )

 

 

ان تمام بحث کا حصول یہ ہے کہ الاعمش مدلس ہے اور اس کی روایت قابل قبول نہیں ہوسکتی جب تک اس کے سماع کی تصریح ثابت نہیں ہوتی ، اور اس روایت میں الاعمش نے ابو صالح سمان سے روایت کی ہے اور مقدمین ِ محدثین نے ان کا آپس میں انقطاع بیان کیا ہے، یہ اس روایت کی پہلی علت ہے اور اس کے بعد اس روایت میں دوسری علت مالک دار موجود ہے جو مجہول ہے اور اس کی دلیل ہم ذیل میں بیان کیے دیتے ہیں ۔

 

تیسری دلیل کا رد:

تیسری دلیل یہ ہیے کہ مالک دار پر جو مجہول ہونے کا الزام اس کے رد میں یہ دلیل دی گئی ہے کہ مالک دار کو ابن سعد نے (الطبقة الاولی من اھل المدینہ من التابعین )میں نقل کیا ہے اور اسے معروف بتایا ہے ، ابن سعد کے حوالے سے ہم یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ ابن سعد نے مالک دار کو مجہول ہی نقل کیا ہے اور جہاں تک (الطبقة الاولی من اھل المدینہ من التابعین )میں نقل کیا ہے تو اس سے مالک دار کی ثقاہت اور ضبط وعدل اور معروف ہونا ثابت نہیں ہوتا ہے کیونکہ ایسے بہت سے راوی ہیں جن کو ابن سعد نے (الطبقة الاولی من اھل المدینہ من التابعین )میں نقل کیا ہے مگران کے ضبط و اتقان کی کوئی تصدیق نہیں کی ہے اور ان پر سکوت اختیار کیا ہے مثلا:

 

ابن سعد نے اسلم کو (الطبقة الاولی من اھل المدینہ من التابعین ) میں نقل کیا ہے اور یہ عمر کے غلام تھے۔(طبقات ابن سعد جلد5 ص10 )اس کی کوئی صراحت موجود نہیں

 

ابن سعد نے ھُنَیّ کو (الطبقة الاولی من اھل المدینہ من التابعین ) میں نقل کیا ہے مگر اس کے بابت بھی کوئی حکم نہیں لگایا ہے کہ یہ راوی ثقہ ہے نہیں ہے یا معروف ہے اور یہ بھی عمر کے غلام تھے ۔ان دونوں کے بارے میں ابن سعد نے کوئی حکم نہیں لگایا ہے مگر مالک دار کے بارے میں یہ اشارہ کیا ہے کہ وہ معروف نہیں ہے اور جب ان کو کسی روای کے بارے میں علم ہوتا تو اس کو بیان کر دیتے تھے اور ذیل میں ہم اس کی مثال نقل کر رہے ہیں :

 

ابن سعد نے ابو قُرةکو (الطبقة الاولی من اھل المدینہ من التابعین) نقل کیا ہے اور اس کے بارے میں کہا ہے یہ ثقہ ہے اور اس سے بہت کم روایات ہیں اور یہ عبدالرحمن بن الحارث کے غلام تھے ۔

 

ابن سعد نے ابن مرسا کو (الطبقة الاولی من اھل المدینہ من التابعین ) نقل کیا ہے اور اس کے بارے میں کہا ہے یہ ثقہ ہے اور اس سے بہت کم روایات ہیں۔

 

ایک راوی صہیب ہیں جو حضرت عباس کے غلام تھے جیسا مالک دار حضرت عمر کے غلام تھے صہیب کے بارے میں محدثین کیا فرماتے ہیں ذرا ملاحظہ فرمائیں:

 

امام حاتم نے صہیب کے مجہول ہونے کی جانب اشارہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے فقط ابو صالح سمان نے روایت کیاہے ۔(الجرح و التعدیل ابن ابی حاتم جلد 4 ص413 )

 

تحریر تھذیب التھذیب میں بیان ہوا ہے کہ صہیب مجہول ہے۔ (تحریر تھذیب التھذیب جلد2 ص144 )

 

امام ذہبی نے کہا کہ میں اسے نہیں جانتا ۔(الجرح التعدیل جلد1ص236،میزان الاعتدال جلد (ص247 )

 

ان راویوں کو آپ کے سامنے رکھنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ اگر کسی راوی کو اول مدینہ کے تابعین میں ابن سعد نے نقل کیا ہے اور اس کو معروف یا اس کے ضبط اوراتقان کو نقل نہیں کیا تو محض ابن سعد کے(الطبقة الاولی من اھل المدینہ من التابعین ) میں نقل کر دینے سے وہ راوی ثقہ یا معروف نہیں ہوجاتا ہے ابن سعد نے اہل مدینہ کے اول طبقے میں بہت سے راویوں کو نقل کیا ہے اور ان کی ثقاہت کے بارے میں بیان بھی کیا ہے مگر مالک دار کو بیان کرکے اس کے بارے میں خاموشی اختیار کی ہے اور ایسے متعدد راوی ہیں کہ جن کے بارے میں ابن سعد کو علم نہیں ہوا ان کے بارے میں انہوں نے سکوت اختیار کیا ہے اور اس کی مثالیں ہم نے اوپر پیش کیں ہیں۔

 

 

دوسرے راوی صہیب سے ابو صالح سمان نے ہی روایت کیا ہے جیسا کہ مالک دار سے روایت کیا ہے مگر محدثین نے صہیب کو مجہول قرار دیا ہے اس تمام بحث کا حصول یہی ہے کہ نیک ہونے کے ساتھ روای کی ثقاہت اور اس کا ضبط حدیث ثابت ہونا ضروری ہے نہ کہ یہ ثابت ہو کہ اس نے کس سے روایت کی ہے اور اس نے کون سا زمانہ پایا اگر نیک ہونے کے ساتھ حفظ و اتقان ہے تو راوی قابل قبول ہے وگرنہ کتنا ہی نیک ہو اس سے روایت قبول نہیں کی جائے گی جیسا

 

کہ امام مسلم نے اپنے مقدمہ میں لکھا ہے کہ:

'' ابی الزناد قال ادرکت بالمدینة مائة کلھم مامون مایوخذ عنھم الحدیث یقال لیس من اھلہ''

(مقدمہ صحیح مسلم ص 33 )

 

'' ابو الزناد (حدیث کے امام تھے) نے کہا میں نے مدینہ میں سولوگوں کو پایا سب کے سب نیک تھے مگر ان سے حدیث کی روایت نہیں کی جاتی تھی لوگ کہتے تھے وہ اس کے اہل نہیں ہیں ۔''

 

اس کی شرح میں امام نووی لکھتے ہیں کہ اگرچہ وہ دیندار تھے مگر حدیث کے مقبول ہونے کے لئے اور شرطیں بھی ضروری ہیں جیسے حفظ واتقان اور معرفت فقط زہدوریاضت کافی نہیں اس لئے ان سے روایت نہیں کرتے تھے(ایضاََ) اور امام یحیی بن سعید القطان فرماتے ہیں کہ میں ایک لاکھ دینار کے لئے جس آدمی کو صحیح سمجھتا ہوں ایک حدیث کیلئے اسے امین نہیں سمجھتا ہوں ۔(الکفایہ فی علم الروایہ) اب یہ بات بالکل واضح ہے کہ صرف روای کی سوانح حال سے یا اس کے خزانچی ہونے سے اس کی روایت قابل قبول نہیں ہوتی اگر ایسا ہوتا تو مالک دار کی سوانح حال کو بیان کرنے والے اس کی توثیق خود کرتے اور اسے ثقہ اور معروف بتاتے ۔

 

اس کے بعد اس نقطہ کی جانب آتے ہیں کہ ابن سعد نے مالک دار کے بارے میں کہا کہ یہ معروف ہے یہ ایک غلط قول ہے ابن سعد نے مالک دار کو معروف نہیں کہا بلکہ ابو صالح سمان کو معروف کہا ہے ابن سعد کا یہ قول ہم یہاں نقل کیے دیتے:

 

''وروی مالک الدار عن ابن بکر الصدیق و عمررضی اللہ عنہما روی عنہ ابو صالح السمان وکان معروفاََ'' ( طبقات ابن سعد جلد 5 ص12 )

 

'' اور روایت کیا مالک دار نے ابو بکر صدیق و عمر سے اور روایت کیا اس سے ابو صالح سمان نے اور وہ معروف ہے ۔''

ابن سعد نے ابو صالح سمان کو معروف کہا ہے نہ کہ مالک دار کو کیونکہ اگر یہاں مالک دار کو معروف کہا گیا ہے تو حافظ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں ابن ابی شعبہ کی روایت کو متصل مالک دار سے بیان کرتے مگر انہوں نے اسے ابو صالح سمان تک ہی صحیح کہا ہے کیونکہ وہ مالک دار کو نہیں پہچانتے جیسا ہم نے پہلی دلیل کے رد میں اسے بیان کیا ہے کیونکہ حافظ عسقلانی نے ابن سعد کا یہ قول اپنی کتاب التمیز فی صحابہ میں نقل کیا ہے اگر ابن سعد نے مالک دار کو معروف کہا ہوتا تو حافظ ابن حجر اس روایت کو صحیح مان لیتے کیونکہ وہ یہ قول اپنی کتاب میں بیان کرچکے ہیں مگر انہوں نے اس روایت کو صحیح نہیں مانا ہے اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ابن سعد نے ابو صالح سمان کو معروف کہا ہے نہ کہ مالک دار کو کہا ہے ۔

 

 

دوسری بات یہ کہ مالک دار کے حوالے سے تاریخ ابن عساکر سے جو باتیں نقل کی گئی ہیں اور جو واقعہ عبیدہ بن جراح سے نقل کیا گیا ہے یہ واقعہ امام ہیثمی نے مجمع الزوائد میں نقل کیا ہے اور اس میں مالک دار کو مجہول بتایا ہےتو یہ واقعہ ویسے ہی اعتبارکے قابل نہیں ہے۔(مجمع الزوائد جلد3 ص125 ) اور امام خیثمہ نے مالک دار کی سوانح حال بیان کیا مگر اس کے بارے میں کوئی توثیق نہیں کی ہے بلکہ امام ابن حاتم ہی کا الجرح التعدیل کا قول نقل کر دیا ہے تو اس سے بھی مالک دار کی کوئی توثیق نہیں ہوتی کہ وہ معروف ہے امام بخاری نے جو مالک دار سے روایت نقل کی ہے تاریخ الکبیر میں ہے اور اس میں بھی امام بخاری نے فقط یہی الفاظ نقل کیے ہیں:

'' فی زمانہ قحط یا رب الو الا ما عجزت عنہ ''(التاریخ الکبیر جلد 7 ص230 )

 

اگر امام بخاری اس واقعہ کو مستند مانتے تو اسے مکمل نقل کرتے مگر انہوں نے اس واقعہ کو مختصر نقل کیا ہے اور اس کی وجوہات ہم ذیل میں نقل کیے دیتے ہیں:

 

امام بخاری نے اس واقعہ کو اس لئے قبول نہیں کیا کہ یہ واقعہ مستند نہیں ہے کیونکہ یہ واقعہ الفتاح الکبیر میں بھی نقل ہوا ہے مگر اس کی سند میں ایک راوی سیف بن عمر تمیمی بلاتفاق محدثین ضعیف ہے ۔ (تہذیب التھذیب جلد3 ص583 ) اسی و جہ سے امام بخاری نے اس واقعہ کو نقل نہیں کیا ہے ۔

 

امام بخاری نے اس واقعہ کو اس لئے بھی نقل نہیں کیا ہے کہ ان کی نظر میں یہ واقعہ اس حد تک بھی صحیح نہیں ہے کہ اسے اپنی صحیح کے علاوہ کسی اور کتاب میں بھی درج کریں امام بخاری نے صرف اپنی صحیح کے لئے ہی یہ شرط رکھی ہے کہ وہ اس میں تمام صحیح روایات کو جمع کریں گے۔ ( فتح الباری جلد 1ص8-10 ) امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری کے لئے یہ شرط رکھی ہے کہ وہ اس میں صرف صحیح احادیث نقل کریں گے اور اس کے علاوہ کسی کتاب کے لئے یہ شرط نہیں رکھی ہے تو اس واقعہ کو امام بخاری نے اس حد تک بھی قبول نہیں کیا کہ اسے اپنی دوسری کتب میں نقل کر تے تو امام بخاری کے نزدیک بھی یہ واقعہ کوئی مستند نہیں ہے جس سے حجت لی جا سکے ۔

 

امام بخاری نے اپنی تاریخ الکبیر میں اس واقعہ کے جس حصے کو نقل کیا ہے اس کی سند کو بھی ایک علت کے ساتھ بیان کیا ہے پہلے ہم اس روایت کو نقل کیے دے دیتے ہیں اس کے بعد اس کی علت کی نشاندہی کریں گے جس کی طرف امام بخاری نے اشارہ کیا ہے:

 

''مالک بن عیاض الدار ان عمر قال فی قحط یا رب الو الا ما عجزت عنہ قالہ علی (ابن المدینی) عن محمد بن خازم عن ابی الصالح عن مالک الدار''(التاریخ الکبیر جلد 7 ص230 )

 

 

 

اس روایت میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ الاعمش درمیان سے غائب ہے جبکہ اس کی سندجو مصنف ابن ابی شیبہ میں بیان ہوئی ہےاس میں الاعمش موجود ہے جو ہم نے اوپر بیان کی ہےتو کیا وجہ ہےکہ امام بخاری نے الاعمش کو درمیان سے غائب کر دیا اس بات سے امام بخاری یہی باور کرانا چاہتے ہیں کہ ایک تو یہ واقعہ ہی مستند نہیں ہے اس لئے انہوں نے اس کو سرے سے نقل ہی نہیں کیا ہے اودوسرے اس کی سند میں الاعمش ہے جس کا ابو صالح سمان سے انقطاع موجود ہے اور یہی وجہ ہے کہ امام بخاری نے الاعمش کو درمیان سے غائب کر دیا جس سے انہوں نے اس بات کی جانب توجہ مبذول کرائی ہے کہ اس روایت کی سند بھی صحیح نہیں ہے اور اس میں الاعمش کا ابو صالح سمان سے انقطاع ہے اور جو بات ہم گزشتہ صفحات امام احمد بن حنبل اور سفیان کے حوالے سے نقل کر چکے ہیں اسی بات کی جانب امام بخاری نے بھی اشارہ کیا ہے ۔ 

 

اس روایت میں نہ الاعمش کو محدثین نے اس کی تدلیس کے باعث حجت مانا ہے اور نہ مالک دار کے بارے میں کوئی توثیق ملتی کہ وہ ایک معروف راوی اور ضبط اور اتقان میں محدثین کے اصولوں پر پورا اترے مالک دار کے بارے میں جو یہ کہا گیا کہ امام بخاری ،ابن سعد ،ابن المدینی، حافظ ابن حجر اور دوسرے محدثین اس کو جانتے تھے اس کلام کا باطل ہونا ہم نے اوپر دلائل سے ثابت کیا ہے حافظ ابن حجر نے اس کی روایت پر اعتماد نہیں کیا ہے بلکہ اس پر سکوت اختیار کیا ہے جس سے محدثین کی مراد یہی ہوتی ہے کہ ان کو اس روای کے عدل و ضبط اور اس کے حالات کا علم نہیں ہوا ہے اور ابن سعد نے بھی اس کو معروف نہیں کہا ہے جیسا اوپر اس کے بارے میں باطل دلیل دی جارہی تھی اور ابن المدینی کے حوالے سے جو بیان کیا گیا ہے کہ ابن المدینی نے مالک دار کو خازن بتایا ہے تو یہ بھی کوئی خاص بات نہیں ہے یہ بات تواس روایت کے شروع میں ہی موجود ہے کہ عمر کے خازن نے یہ واقعہ بیان کیا ہے ابن المدینی نے یہ بیان کرنے کے باوجود کہ مالک دار عمر کے خازن ہیں اس کے بارے میں کوئی کلام نہیں کیا کہ یہ روای معروف ہے یا ثقہ کسی راوی کا خازن ہونا اور بات ہے اور حدیث میں ثقہ ، معروف اور عدل وضبط میں پورا اترنا دوسری بات ہے جیسا کہ ہم نے اوپر امام مسلم اورامام یحیی بن سعید القطان کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ صرف نیک ہونا راوی کے صحیح ہونے کی دلیل نہیں ہے اگرایساکوئی محدثین کا اصول ہو تا تو وہ اس اصول کی روشنی میں مالک دار کی ثقاہت کو مانتے اور اس کی تصدیق ضرور کر تے مگر جیسا ہم نے اوپر بھی بیان کیا ہے کہ ایسا کوئی اصول محدثین نے مرتب نہیں کیا ہے یہی وجہ ہے کہ عمرکے خازن ہونے کہ باوجود ابن المدینی نے مالک دار کی توثیق نہیں کی بلکہ آخر میں ابن حاتم ہی کا قول نقل کر دیا گیا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ امام بخاری نے اس کی سند سے روایت تو لی ہے اور اس میں بھی الاعمش کی وجہ سے انقطاع بیان کیا ہے اور دوسرے اس واقعہ کو بیان ہی نہیں کیا ہے جو سب سے بڑھ کر اس بات کی دلیل ہے کہ محدثین میں سے کسی نے مالک دار سے یہ واقعہ قبول نہیں کیا ہے اور ان محدثین کے اقوال ہمارے موقف کی تائیدمیں ہیں اور امام ہیثمی نے اس سے ایک روایت بیان کرنے کہ بعد یہ کہا کہ: ومالک دار لم اعرفہ و بقیہ رجال ثقات(مجمع الزوائد جلد3 ص125 ) ترجمہ:''اور مالک دار کو میں نہیں جانتا او ر باقی رجال ثقہ ہیں ''َ

 

 

اور ابن ابی حاتم نے بھی فقط اتنا ہی بیان کیا ہے کہ مالک دار سے فقط ابو صالح سمان نے روایت کیا ہے اور یہ امام ابن حاتم کا اسلوب ہے جو راوی مجہول ہوتا ہے اس کے بارے میں ابن ابی حاتم فقط اتنا فرما کر سکوت اختیار کر لیتے ہیں کہ یہ اس روای سے روایت کرنے والا منفرد ہے جس سے وہ یہ باور کراتے ہیں کہ یہ روای معروف نہیں ہے اور اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں ہم چند پیش کیے دیتے ہیں :

 

صہیب غلام تھا حضرت عباس کا اور ابن ابی حاتم نے اس کے بارے میں بھی یہی کہا ہے کہ فقط ابو صالح سمان نے اس سے روایت کی ہے۔(الجرح و التعدیل جلد4 ص413 )

 

اورجیسا کہ تقریب التھذیب میں بیان ہوا ہےکہ صہیب مجہول ہے۔(تحریر تقریب والتھذیب جلد 2ص144 ) اورمحدثین کی یہ لم اعرفہ کی اصطلاح بھی بہت معروف ہے جب محدثین یہ اصطلاح استعمال کرتے ہیں اس سے مراد یہ نہیں ہوتا کہ وہ اسے جانتے نہیں ہے جیسا اوپر اس روایت کو صحیح کرنے کی دلیل میں بیان کیا گیا ہے بلکہ محدثین سے اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ یہ راوی مجہول ہے مثلا جیسا امام ذہبی نے صہیب کے بابت یہ کہا ہے کہ لم اعرفہ میں اسے نہیں جانتا تو اس کے معنی یہی ہے کہ وہ معروف نہیں ہے وہ مجہول ہے جیسا تحریر تقریب و التھذیب میں بیان ہوا ہے کہ صہیب مجہول ہے۔ (تحریر تقریب و التھذیب جلد 2 ص144 ) اور دوسری مثال ام ابان جو ایک مجہولہ راویہ ہے اس کے بارے میں امام ذہبی فرماتے ہیں کہ:

'' مجھول تفرد بروایة عبدا لرحمن بن الاعنق''(میزان الاعتدال جلد4 ص439 )

''یہ راویہ مجھولہ ہے اور عبدالرحمن بن الاعنق اس سے روایت کرنے میں منفرد ہے '' ۔

 

اس میں اس راویہ کو مجہول کہہ کر امام ذہبی بھی وہی بات کہہ رہے ہیں کہ اس سے روایت کرنے میں عبدالرحمن بن الاعنق منفرد ہے اور یہی بات امام ابن حاتم کہتے ہیں جب کوئی راوی ان کی نظر میں مجھول ہوتا ہے کہ یہ راوی اس سے روایت میں منفرد ہے ۔

 

تو محدثین جب کسی کو لم اعرفہ کہتے ہیں یا روایت کرنے والے کو منفرد کہتے ہیں تو اس سے وہ یہی باور کرانا چاہتے ہیں کہ یہ راوی مجہول ہے اور مالک دار کے بارے میں بھی امام ہیثمی اور امام ابن حاتم نے یہی اصطلاح استعمال کی ہے اور کسی بھی محدث نے اس واقعہ کو مستند نہیں مانا ہے جن کا ذکر کر کے صاحب کتاب نے اس واقعہ کوصحیح کرنے کی کوشش کی ہے ۔ 

 

متنِ حدیث پر کلام :

اگر اس روایت کو صحیح مان بھی لیا جائے جوایک نا ممکن بات ہے جیسا کہ اونٹ کا سوئی کے ناقے میں سے گزر جانا ، تو بھی اس روایت کے متن میں بھی ایسی خامی ہے جس سے حجت نہیں لی جا سکتی ہے اس روایت کے حوالے سے صاحب کتاب نے یہ بات بیان کی ہے کہ اس روایت میں حضرت عمر کو ایک عمل کے بارے میں پتا چلا اور انہوں نے اس سے روکا نہیں ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہ عمل درست ہے سب سے پہلے تو ہم یہی کہتے ہیں کہ اگر اس روایت پر غور کیا جائے تو اس دلیل کا بطلان ازخود ثابت ہو جائے گا اس روایت کو ہم ذیل میں نقل کرکے اس دلیل کے باطل ہونے کی وجہ بھی آپ کی خدمت میں پیش کریں گے۔

 

 

حدثنا ابو معاویة ،عن الاعمش ،عن ابی صالح ،عن مالک دار قال : وکان خازن عمر علی الطعام اصاب الناس قحط فی زمن عمر فجاء رجل الی قبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ; استسق الامتک فانھم قدھلکوا فاتی الرجل فی المنام فقیل لہ ائت عمر فاقرئہ السلام واخبرہ انکم ومسقیون ، و قل لہ:علیک الکیس :علیک الکیس فاتی عمرفاخبرہ عمر،ثم قال : یارب لا الوالا عجزت عنہ (اٰیضاََ)

 

 

اگر ہم اس روایت پر غور کریں تو دو باتیں سامنے آتی ہیں اول کہ یہ عمل حضرت عمر کے سامنے نہیں ہوا ہے اور کس نے کیا اس کا بھی علم نہیں اس لئے یہ حجت نہیں ہوسکتاہے ۔

 

 

دوسرے یہ کہ اس میں یہ بات کہی جا رہی ہے کہ عمر کو ایک عمل کی خبر ہوئی مگر انہوں نے نکیر نہیں فرمائی اس لئے یہ حجت ہے مگر ہم یہ عرض کرناچاہتے ہیں کہ اگر ہم روایت کے متن میں غور کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ عمر کو خبر دینے والے شخص نے انہوں پورا واقعہ نہیں بیان کیا بلکہ روایت میں یہ الفاظ موجود ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےاس شخص سے فرمایا :''فاقرئہ السلام واخبرہ انکم ومسقیون'' ترجمہ: کہ عمر کو میرا سلام دو اور ان کو خبر دو کے تم سیراب کیے جاؤ گے اور اس کے بعد اس شخص نے یہی خبر عمر کو آکر دی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آپ سیراب کیے جاؤگے اور اس کے لئے روایت میں جو الفاظ موجود ہیں وہ یہ ہیں کہ'' فاتی عمرفاخبرہ عمر'' پس وہ عمر کے پاس آیا اور انہیں خبر دی '' یعنی وہی خبر دی جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو دی تھی اگر وہ شخص پورا واقعہ بیان کرتا

 

تو الفاظ اس طرح موجود ہوتے ''فاتی عمر فبیانہ قصہ'' ترجمہ: وہ شخص عمر کے پاس آیا اور ان سے واقعہ بیان کیا ''۔ مگر روایت میں اخبرہ کے الفاظ یہ واضح کر رہے ہیں کہ عمر کو اس واقعہ کی اطلاع نہیں تھی انہیں تو صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر پہچائی گئی ہے یہ تو اس روایت کا متن تھا مگر اس کو بیان کرنے سے قبل ہی ہم بیان کر چکے کہ اس کی سند بھی ضعیف ہے اس لئے یہ روایت سندا اور متن دونوں کے لحاظ سے مستند نہیں ہے اور کسی طرح بھی حجت کے قابل نہیں ہے۔

 

حصول کلام : 

تمام محدثین کے اقوال اور ان کی آراء سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ اس واقعہ کی سند کے دو راویوں میں شدید کلام ہے

 

(١) سلیمان بن مہران الاعمش جو مدلس ہے اور مدلس جب عن سے روایت کرتا ہے تو اس کی روایت قابل قبول نہیں ہوتی اس لئے یہ واقعہ حجت کے قابل نہیں ہے ۔

 

(٢) دوسری علت اس روایت کی مالک دار ہے جو

مجہول ہے جس کی وجہ سے بھی یہ روایت قابل حجت نہیں ہے ۔ 

ان دونوں علتوں کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے اور کسی طرح سے حجت کے قابل نہیں ہے محدثین میں سے بعض نے الاعمش پر کوئی کلام نہیں کیا ہے جیسے ،حافظ ابن حجر ،امام ہثمی وغیرہ اور بعض نے الاعمش کی تدلیس پر کلام کیا ہے جیسا امام بخاری ، امام نووی ، احمد بن حنبل ، ابن ابی حاتم ،سفیان رحمہم اللہ وغیرہ ، مگرحصول کلام تمام کا یہی رہا ہے کہ تمام محدثین کرام نے اس واقعہ کو سرے سے قبول ہی نہیں کیا ہے جو اس واقعہ کے عدم حجت پر واضح دلیل ہے اور اس روایت سے حجت پکڑنا کسی صورت جائز نہیں ہے جبکہ اس ضعیف روایت کے مقابلہ میں صحیح بخاری میں روایت موجود ہے کہ عمر نے قحط میں عباس سے دعا ئے استسقاء کراوئی تھی۔ اس واقعہ کو حجت ماننا کسی صورت جائز نہیں ہے۔ اوراس واقعہ کی حقیقت کو بیان کرنے سے ہمارا مقصد فقط اصلاح کرنا ہے تاکہ عوام الناس کے سامنے حقیقت واضح ہو جائے اللہ ہمیں صحیح دین پر عمل کی توفیق دے ۔(آمین)

 

 

امام شافعی ؒ فرماتے ہیں:

 

’’ہم مدلس کی کوئی حدیث اس وقت تک قبول نہیں کریں گے جب تک وہ حدثنی یا سمعت نہ کہے۔‘‘

 

[الرسالہ:ص۵۳]​

 

اصول حدیث کے امام ابن الصلاحؒ فرماتے ہیں:

 

’’حکم یہ ہے کہ مدلس کی صرف وہی روایت قبول کی جائے جس میں وہ سماع کی تصریح کرے۔‘‘

 

[علوم الحدیث للامام ابن الصلاح:ص۹۹]​

 

فرقہ بریلویہ کے بانی احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں:

 

’’اور عنعنہ مدلس جمہور محدثین کے مذہب مختار و معتمدمیں مردود و نا مستند ہے۔‘‘

 

[فتاویٰ رضویہ:ج۵ص۲۴۵]​

 

فرقہ دیوبند کے امام اہل سنت سرفراز خان صفدر دیوبندی لکھتے ہیں:

 

’’مدلس راوی عن سے روایت کرے تو حجت نہیں الا یہ کہ وہ تحدیث کرے یا کوئی اس کا ثقہ متابع موجود ہو۔‘‘

 

[خزائن السنن:ج۱ص۱]

 

 

عباس رضوی بریلوی ایک روایت پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

 

’’ایک راوی امام اعمش ہیں جو اگرچہ بہت بڑے امام ہیں لیکن مدلس ہیں اور مدلس راوی جب عن سے روایت کرے تو اس کی روایت بالاتفاق مردود ہو گی۔‘‘

 

[آپ زندہ ہیں واللہ:ص۲۵۱]​

 

عباس رضوی بریلوی کے متعلق مشہور بریلوی عالم و محقق عبدالحکیم شرف قادری فرماتے ہیں:

’’وسیع النظرعدیم النظیر فاضل محدث‘‘ [آپ زندہ ہیں واللہ:ص۲۵]

 

 

 

امام ابن حبان ؒ نے فرمایا:

 

’’وہ مدلس راوی جو ثقہ عادل ہیں ہم ان کی صرف ان روایات سے حجت پکڑتے ہیں جن میں وہ سماع کی تصریح کریں مثلاًسفیان ثوری، الاعمش اورا بواسحاق وغیرہ جو کہ زبر دست ثقہ امام تھے۔‘‘

 

[صحیح ابن حبان(الاحسان):ج۱ص۹۰]​

 

حافظ ابن عبدالبر ؒ نے فرمایا:

 

’’اور انہوں(محدثین) نے کہا: اعمش کی تدلیس غیر مقبول ہے کیونکہ انہیں جب (معنعن روایات میں) پوچھا جاتا تو غیر ثقہ کا حوالہ دیتے تھے۔‘‘

 

[التمہید:ج۱ص۳۰]

 

 

 

امام نوویؒ  کا ایک حوالہ پیش کر دیتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:

 

’’سوائے ان اساتذہ کے جن سے انہوں (الاعمش) نے کثرت سے روایت بیان کی ہے جیسے ابراہیم(النخعی)،ابو وائل(شقیق بن سلمہ)اور ابو صالح السمان تو اس قسم والوں سے ان کی روایت اتصال پر محمول ہیں۔‘‘

 

[میزان الاعتدال:ج۲ ص۲۲۴]​

 

 

 

 

امام سفیان الثوریؒ نے ایک روایت کے بارے میں فرمایا:

 

’’اعمش کی ابو صالح سے الامام ضامن والی حدیث،میں نہیں سمجھتا کہ انہوں نے اسے ابو صالح سے سنا ہے۔‘‘

 

[تقدمہ الجرح و التعدیل:ص۸۲]​

 

امام سفیان ثوری ؒ نے اعمش کی ابو صالح سے معنعن روایت پر ایک اور جگہ بھی جرح کر رکھی ہے ۔دیکھئے السنن الکبریٰ للبیہقی (ج۳ص۱۲۷)

۲)امام حاکم نیشا پوریؒ نے اعمش کی ابو صالح سے ایک معنعن روایت پر اعتراض کیا اور سماع پر محمول ہونے کا انکار کرتے ہوئے کہا:

 

’’اعمش نے یہ حدیث ابو صالح سے نہیں سنی۔‘‘

 

[معرفۃ علوم الحدیث:ص۳۵]​

 

 

اسی طرح امام بیہقی نے ایک روایت کے متعلق فرمایا:

 

’’اور یہ حدیث اعمش نے یقینا ابو صالح سے نہیں سنی۔‘‘

 

[السنن الکبریٰ:ج۱ص۴۳۰]​

 

۴)اعمش عن ابی صالح والی سند پرجرح کرتے ہوئے امام ابو الفضل محمد الہروی الشہید(متوفی۳۱۷ھ) نے کہا:

 

’’اعمش تدلیس کرنے والے تھے، وہ بعض اوقات غیر ثقہ سے روایت لیتے تھے۔‘‘

 

[علل الاحادیث فی کتاب الصحیحلمسلم:ص۱۳۸]​

 

حافظ ابن القطان الفاسیؒنے اعمش عن ابی صالح کی سند والی روایت کے بارے میں فرمایا:

 

’’اور اعمش کی عن والی روایت انقطاع کا نشانہ ہے کیونکہ وہ مدلس تھے۔‘‘

 

[بیان الوہم و الایہام:ج۲ ص۴۳۵]​

 

اعمش عن ابی صالح کی سند والی روایت کے بارے میں حافظ ابن الجوزیؒ نے کہا:

 

’’یہ حدیث صحیح نہیں۔‘‘

 

[العلل المتناہیہ:ج۱ص۴۳۷]​

 

۷)مشہور محدث بزارؒ نے اعمش عن ابی صالح کی سندوالی روایت کے بارے میں فرمایا:

 

’’اور ہو سکتا ہے کہ اعمش نے اسے غیر ثقہ سے لے کر تدلیس کر دی ہو تو سند بظاہر صحیح بن گئی اور میرے نزدیک اس حدیث کی کوئی اصل نہیں۔‘‘

 

[فتح الباری:ج۸ص۴۶۲]

Link to comment
Share on other sites

ویسے قادری بھیا یہ کیا فارمولا ہے ہم لنکس دیں تو وہ حذف ہوجائے اور خود دو تو کوئی حرج نہیں

محدث فورم اور اردو مجلس میں کیا فرق ہے ذرا واضح کردو

ویسے اوپر پوری عبارت اردو مجلس اور محدث فورم کی ہی ہے

:)

عجیب منطقیں ہیں ایڈمنسٹریشن کی؟

Edited by Qadri Sultani
Links removed...Also from my posts..
Link to comment
Share on other sites

جناب عدیل وہابی صاحب اگر کوپی پیسٹ کہ علاوہ اور کچھ آتا ہے تو سرے سے ہر سوال کا با ترتیب جواب دو اور جواب لو یا پھر اپنے علماء کی تقلید کا اتنا ہی شوق ہے تو اپنے فورم کے لوگوں کو یہاں بلا لائوں یا مدد کہہ کر کیونکہ وہابی دھرم کی لنک لگانا یہاں رولس کے خلاف ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

Link to comment
Share on other sites

Phir wohi copy paste par jawab nadard......

Qadri Sultani Bhai jaan yeh copy paste k ilawa or kuch nai kr sakte 

yahan se hi pata chal jata hai wahabiyat ki maut hai 

khud ki koi tehqeeq nai bas copy paste kr kr k bichare guzara krte hain ab tak khalil rana bhai jan k kisi sawaal ka jawab nai aaya

or na hi Raza Asqalani bhai jaan k sawalon ka koi jawab aya

yeh adeel khan sirf copy paste janta hai 

Link to comment
Share on other sites

جناب کاپی پیسٹ کو چھوڑو خود کون سے مصنف اور مولف ہو یا عربی بھی خود لکھتے ہو اپنے اس فورم پر جو دلائل اوپر ہیں انکو دیکھو

 

 

آپ کے اعتراضات

 

اور آپکا ناکام دفاع ان تین باتوں پر ہے

 

پہلا اعتراض آپکا کہ اعمش کی تدلیس مضر نہیں

 

اسکا جواب بھی اوپر

 

دوسرا اعتراض آپکا کہ اس روایت کو حسن کہا ہے

اس طفل تسلی کا جواب بھی اوپر

 

تیسرا اعتراض کہ مالکدار مجہول نہیں

ڈوبتے کو تنکے کا سہارا یہ مثال بھی فٹ نہیں ہوتی آپ لوگوں پر

 

اسکا بھی جواب اوپر

Link to comment
Share on other sites

محترم عدیل خان صاحب

حضرت سلیمان بن اعمش کی تدلیس کا جواب خود آپ کے فورم میں موجود آرٹیکل سے ہی دے دیا گیا۔آس کے علاوہ آپ کے زبیر علی زئی صاحب کے استاد آپ کے تمام دلائل کا قلع قمع کر دیا

حضرت مالک الداروالی ایک روایت کو خود آپ کے البانی نے حسن لکھا اس کا جواب آپ گول کر گئے

مالک الدار کا مجہول نہ ہوناکا جواب بھی موجود ہے لیکن آپ کاپی پیسٹ کے علاہ کچھ کریں تو سمجھ آۓ

Link to comment
Share on other sites

ہاہاہاہاہا

بلکل صحیح کہا قادری بھائ ان جناب کے پاس آنکھ ہوتی اور کاش یہ سمجھ پاتے، بغض میں اتنا ڈوب چکے ہے کہ سوائے اپنی پوسٹ کے علاوہ ہمارے جواب کو دیکھ ہی نہیں رہے ہے۔۔۔۔۔

Link to comment
Share on other sites

امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں الاعمش کا ابو صالح سے سمع ثابت نہیں ہے۔

(تھذیب التھذیب جلد3 ص506-509)

 

سفیان فرماتے ہیں الاعمش کو ابو صالح سے سمع نہیں ہے ۔

(ابن ابی حاتم الجرح التعدیل جلد 1ص104کتاب المقدمہ)

 

Lo Janab iska Jawab Apny hi aalim se.. 

زبیر علی زئی کے استاد محب اللہ شاہ راشدی 

Aur Maine Apko is kitab ka kaha k yahan Apk mudallis waly is aitraaz ka tafseel se jawab majood hy..

Raza bhai ne kuch pages bhi lagaye, maine bhi kuch lagaye..

Qadri Sultani bhai ne link diya..

Per Janab Parhny ki zehmat kun nahi karty ap..

 

post-16996-0-27342300-1485177921_thumb.jpg

post-16996-0-39044600-1485177945_thumb.jpg

 

Link to comment
Share on other sites

Adeel Apki Is Copy paste ka Jawab Wesy uper kafi diya ja chuka hy..

Magar Mazeed 1, 1 line likh k apko Isk jawab mil jaye ga apki shaikh se..

Balky janab apny copy_paste bohat jaldi mein ki hy..

 

aur Khud hi Apni hi baat mein apna rad kar diya howa hy..

Raat tak Apko  (ia)  iski nishandahi kara don ga..

Link to comment
Share on other sites

دوسری دلیل کا رد :

اس دلیل میں الاعمش کے حوالے سے بات کی گئی ہے کہ الاعمش کی تدلیس قابل قبول ہے کیونکہ وہ دوسرے درجے کا مدلس ہے اور اس کی روایت دو وجوہات کی بنیاد پر قابل قبول ہے پہلی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے چونکہ یہ دوسرے درجے کا مدلس ہے اور اس سے ائمہ نے کتب صحیح میں روایت لی ہیں اس لئے اس کی روایت قابل قبول ہے ۔ اس قول کا باطل ہو نا صرف اسی اصول سے کافی ہے کہ امام نووی شرح مسلم میں نقل کرتے ہیں کہ:

 

'' والاعمش مدلس والمدلس اذا قال عن لا یحتج بہ الا اذا ثبت سماعہ من جھة اخری''۔

( شرح صحیح مسلم جلد1 ص72 تحت ح 109)

 

'' اور الاعمش مدلس ہے اور مدلس روای جب عن سے روایت کرتا ہے تو اس کی روایت قابل قبول نہیں ہے مگر اگر وہ کسی دوسری سند سے ثابت ہو۔''

 

اور الاعمش سے جو روایات صحیح میں لیں گئیں ہیں وہ دوسری سند سے ثابت ہیں اور اس کی دلیل میں امام نووی شرح مسلم میں فرماتے ہیں کہ:

''ان المدلس اذا قال:عن ،لا یحتج بہ الا یثبت سماعہ من جھة اُخری و ان ما کان فی (الصحیحین ) من ذلک فمحمول علی ثبوت سماعہ جھة اُخری ''

 

'' مدلس روای جب عن سے روایت کرتا ہے تو اس کی روایت قابل قبول نہیں ہے مگر اگر وہ کسی دوسری سند سے ثابت ہو اور صحیحین میں(بخاری اور مسلم)میں جو مدلسین سے روایت لیں گئیں ہیں وہ دوسری جہت سے ثابت ہیں۔''(المقدمہ صحیح مسلم جلد1 ص110 تحت باب النھی عن الحدیث بکل ما سمع)

 

امام نووی کے علاوہ یہی قول ابن الصلاح نے اپنے مقدمہ میں اور امام العلائی نے جامع التحصیل میں نقل کیا ہے ۔(مقدمہ ابن الصلاح ص171 ،جامع التحصیل ص113 ) اور مصنف ابن ابی شیبہ کی یہ روایت جس میں الاعمش ہے یہ اور کسی دوسرے جہت سے ثابت نہیں ہے اس لئے یہ قابل قبول نہیں ہے جب تک دوسری کوئی روایت صحیح سند سے اس کی تائید نہ کر دے اور (صحیحین) میں الاعمش کو دوسرے درجے کا مدلس روای درج کیا گیا ہے مگر دوسرے درجے کے مدلس کی روایت صرف بخاری اور مسلم ہی میں قبول کی جائے گی چاہے اس کی صراحت ہو یا نہ ہو مگر اس اصول کے باوجود بخاری اور مسلم نے تمام مدلسین جن سے انہوں نے روایت لیں ہیں اس کی سماع کی تصر یح کی ہے جیسا ہم نے امام نووی کا قول شرح مسلم کے حوالے سے نقل کیا ہے ا ور اس کے علاوہ اس راوی کی روایت کسی اور کتب میں قابل قبول نہیں ہو گی جب تک دوسری سند سے اس کے سماع کی تصریح نہ ہوجائے 

 

اب الاعمش دوسرے، تیسرے یا پانچوئے درجے کا مدلس ہو اس کی روایت کی تصریح جب تک ثابت نہیں ہوتی قابل قبول نہیں ہے اور جو امام ذہبی کا یہ قول کہ جب وہ اپنے شیوخ سے روایت کرے تو اسے اتصال پر محمول کیا جائے گا ، امام ذہبی کا یہ قول غریب (یعنی جدا ) ہے کیونکہ یہ اصول صرف صحیحین کی روایات کے لئے ہے جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے اس کے علاوہ کسی کے لئے یہ اصول بیان نہیں کیا گیا ہے اور مقدمین محدثین میں سے کسی ایک نے بھی یہ بات بیان نہیں کی ہے بلکہ مقدمین نے الاعمش کی تدلیس پر سخت جرح کی ہے جس کو ہم یہاں بیان کیے دیتے ہیں جس سے آپ کو اس کی تدلیس کے بارے میں محدثین کے اقوال کا بھی اندازہ جائے گا کہ اس کی تدلیس پر مقدمینِ محدثین نے کس قدر سخت جرح کی ہے :

 

حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ الاعمش پانچوئے درجے کا مدلس ہے (تقریب تھذیب جلد1 ص229 ) اور انہوں نے اسے اپنی کتاب طبقات المدلسین میں بھی نقل کیا ہے (الطبقات المدلسین ص43)اور انہوں نے ایسا کوئی اصول نہیں واضح کیا ہے جو امام ذہبی نے بیان کیا ہے ۔

 

 

 

امام نووی نے الاعمش کو مدلس کہاہے اور ان کا قول ہم اوپر نقل کر چکے ہیں ۔

(شرح صحیح مسلم جلد1ص72تحت ح109)

 

ابن القطان فرماتے ہیں یہ لازمی نہیں ہے کہ اگر روای ثقات ہوں تو روایت صحیح ہو گی جیسا کہ الاعمش ہے جوکہ مدلس ہے۔ ( التلخیص الحبیر جلد 3ص48)

 

یہاں ابن قطان نے یہ بات واضح کر دی کے یہ ضروری نہیں ہے کہ اگر روای ثقہ ہے تو روایت صحیح ہو گی اور انھوں نے اس کی تردید کے لئے الاعمش ہی کی مثال پیش کی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ الاعمش کی تدلس پر محدثین نے کڑی جرح کی ہے

 

امام بخاری نے بھی الاعمش کا اس روایت میں انقطاع ہی مانا ہے ذیل میں ہم اس کو تفصیل سے بیان کریں گے ۔(التاریخ الکبیر جلد 7 ص230 )

 

 

ان تمام بحث کا حصول یہ ہے کہ الاعمش مدلس ہے اور اس کی روایت قابل قبول نہیں ہوسکتی جب تک اس کے سماع کی تصریح ثابت نہیں ہوتی ، اور اس روایت میں الاعمش نے ابو صالح سمان سے روایت کی ہے اور مقدمین ِ محدثین نے ان کا آپس میں انقطاع بیان کیا ہے، یہ اس روایت کی پہلی علت ہے اور اس کے بعد اس روایت میں دوسری علت مالک دار موجود ہے جو مجہول ہے اور اس کی دلیل ہم ذیل میں بیان کیے دیتے ہیں ۔

 

 

 

 

تو الفاظ اس طرح موجود ہوتے ''فاتی عمر فبیانہ قصہ'' ترجمہ: وہ شخص عمر کے پاس آیا اور ان سے واقعہ بیان کیا ''۔ مگر روایت میں اخبرہ کے الفاظ یہ واضح کر رہے ہیں کہ عمر کو اس واقعہ کی اطلاع نہیں تھی انہیں تو صرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر پہچائی گئی ہے یہ تو اس روایت کا متن تھا مگر اس کو بیان کرنے سے قبل ہی ہم بیان کر چکے کہ اس کی سند بھی ضعیف ہے اس لئے یہ روایت سندا اور متن دونوں کے لحاظ سے مستند نہیں ہے اور کسی طرح بھی حجت کے قابل نہیں ہے۔

 

 

 

 

امام نوویؒ  کا ایک حوالہ پیش کر دیتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:

 

’’سوائے ان اساتذہ کے جن سے انہوں (الاعمش) نے کثرت سے روایت بیان کی ہے جیسے ابراہیم(النخعی)،ابو وائل(شقیق بن سلمہ)اور ابو صالح السمان تو اس قسم والوں سے ان کی روایت اتصال پر محمول ہیں۔‘‘

 

[میزان الاعتدال:ج۲ ص۲۲۴]​

 

 

 

 

امام سفیان الثوریؒ نے ایک روایت کے بارے میں فرمایا:

 

’’اعمش کی ابو صالح سے الامام ضامن والی حدیث،میں نہیں سمجھتا کہ انہوں نے اسے ابو صالح سے سنا ہے۔‘‘

 

[تقدمہ الجرح و التعدیل:ص۸۲]​

 

Adeel Sahib khud ye post daikho aur btana k Apko copy_Paste mein ghalti lagi hy..

ya ye apki ilmi_qabliyat hy ya phir ham youn samjhain k Wahabi Bolta hy per samjhta nahi..

 

ye apki post hy.. 

is mein khud apk aitrazat aur khud hi apny jawab diye hain..

 

Apk Aitrazat ko green aur thora size bara kar diya hy..

aur Apki hi post mein jo uska rad hy usy Red aur Bara Kar diya hy..

 

1-Apny imam الاعمش ko Imam نوویؒ  k hawaly se mudallis aur unki عن wali Sari rewayat ka rad kiya..

aur Agy ye likha k Imam Apny In 3 shaikh se rewayat kary toh Sama per mehmool hogi ye bas Imam Zehbi ka hi Qoal hy..

 

2- Jab k Janab ne Agy Khud Imam Zehbi wali baat Imam  نوویؒ se hi sabit di..

 

امام نوویؒ  کا ایک حوالہ پیش کر دیتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:

 

’’سوائے ان اساتذہ کے جن سے انہوں (الاعمش) نے کثرت سے روایت بیان کی ہے جیسے ابراہیم(النخعی)،ابو وائل(شقیق بن سلمہ)اور ابو صالح السمان تو اس قسم والوں سے ان کی روایت اتصال پر محمول ہیں۔‘‘

 

[میزان الاعتدال:ج۲ ص۲۲۴]​

 

Khud Batao Ab ham Isy kiya samjhain..??

 

Link to comment
Share on other sites

افسوس کی بات ہے اپنے امام کا گلا گھونٹ کر چلیں ہیں رد کرنے

 

اور نشاندہی کرنے؟

 

:)

 

یہاں بھی روشنی ڈال لو افضل بھیا

 

 

فرقہ بریلویہ کے بانی احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں:

 

’’اور عنعنہ مدلس جمہور محدثین کے مذہب مختار و معتمدمیں مردود و نا مستند ہے۔‘‘

 

[فتاویٰ رضویہ:ج۵ص۲۴۵]​

 

فرقہ دیوبند کے امام اہل سنت سرفراز خان صفدر دیوبندی لکھتے ہیں:

 

’’مدلس راوی عن سے روایت کرے تو حجت نہیں الا یہ کہ وہ تحدیث کرے یا کوئی اس کا ثقہ متابع موجود ہو۔‘‘

 

[خزائن السنن:ج۱ص۱]

 

 

عباس رضوی بریلوی ایک روایت پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

 

’’ایک راوی امام اعمش ہیں جو اگرچہ بہت بڑے امام ہیں لیکن مدلس ہیں اور مدلس راوی جب عن سے روایت کرے تو اس کی روایت بالاتفاق مردود ہو گی۔‘‘

 

[آپ زندہ ہیں واللہ:ص۲۵۱]​

 

عباس رضوی بریلوی کے متعلق مشہور بریلوی عالم و محقق عبدالحکیم شرف قادری فرماتے ہیں:

’’وسیع النظرعدیم النظیر فاضل محدث‘‘ [آپ زندہ ہیں واللہ:ص۲۵]

Edited by Adeel Khan
Link to comment
Share on other sites

جناب عدیل خاں صاحب

لگتا ہے آپ کی بصارت بھی جواب دے گئی ہے۔سیدی اعلیٰ حضرت پر وارد اعتراض کا جواب فقیر نے لگا دیا ہے۔

عباس رضوی صاحب کی عبارت کا جواب بھی ان شاء اللہ کل تک دے دیا جائے گا۔لیکن انصاف سے کام لیتے ہوئے ہمارے بھی کچھ سوال آپ پر قرض ہیں ان کا جواب بھی دے دو یا مان لو کہ آپ لاجواب ہو چکے ہو

Link to comment
Share on other sites

Adeel Sahib khud ye post daikho aur btana k Apko copy_Paste mein ghalti lagi hy..

ya ye apki ilmi_qabliyat hy ya phir ham youn samjhain k Wahabi Bolta hy per samjhta nahi..

 

ye apki post hy..

is mein khud apk aitrazat aur khud hi apny jawab diye hain..

 

Apk Aitrazat ko green aur thora size bara kar diya hy..

aur Apki hi post mein jo uska rad hy usy Red aur Bara Kar diya hy..

 

1-Apny imam الاعمش ko Imam نوویؒ k hawaly se mudallis aur unki عن wali Sari rewayat ka rad kiya..

aur Agy ye likha k Imam Apny In 3 shaikh se rewayat kary toh Sama per mehmool hogi ye bas Imam Zehbi ka hi Qoal hy..

 

2- Jab k Janab ne Agy Khud Imam Zehbi wali baat Imam نوویؒ se hi sabit di..

 

امام نوویؒ کا ایک حوالہ پیش کر دیتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:

 

’’سوائے ان اساتذہ کے جن سے انہوں (الاعمش) نے کثرت سے روایت بیان کی ہے جیسے ابراہیم(النخعی)،ابو وائل(شقیق بن سلمہ)اور ابو صالح السمان تو اس قسم والوں سے ان کی روایت اتصال پر محمول ہیں۔‘‘

 

[میزان الاعتدال:ج۲ ص۲۲۴]​

 

Khud Batao Ab ham Isy kiya samjhain..??

 

کیا سجھیں اب ہم جناب محترم افضل بھیا؟

 

امام نوویؒ کا ایک حوالہ پیش کر دیتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:

 

’’سوائے ان اساتذہ کے جن سے انہوں (الاعمش) نے کثرت سے روایت بیان کی ہے جیسے ابراہیم(النخعی)،ابو وائل(شقیق بن سلمہ)اور ابو صالح السمان تو اس قسم والوں سے ان کی روایت اتصال پر محمول ہیں۔‘‘

 

[میزان الاعتدال:ج۲ ص۲۲۴]​

 

 

 

 

امام سفیان الثوریؒ نے ایک روایت کے بارے میں فرمایا:

 

’’اعمش کی ابو صالح سے الامام ضامن والی حدیث،میں نہیں سمجھتا کہ انہوں نے اسے ابو صالح سے سنا ہے۔‘‘

 

[تقدمہ الجرح و التعدیل:ص۸۲]​

 

امام سفیان ثوری ؒ نے اعمش کی ابو صالح سے معنعن روایت پر ایک اور جگہ بھی جرح کر رکھی ہے ۔دیکھئے السنن الکبریٰ للبیہقی (ج۳ص۱۲۷)

۲)امام حاکم نیشا پوریؒ نے اعمش کی ابو صالح سے ایک معنعن روایت پر اعتراض کیا اور سماع پر محمول ہونے کا انکار کرتے ہوئے کہا:

 

’’اعمش نے یہ حدیث ابو صالح سے نہیں سنی۔‘‘

 

[معرفۃ علوم الحدیث:ص۳۵]​

 

 

اسی طرح امام بیہقی نے ایک روایت کے متعلق فرمایا:

 

’’اور یہ حدیث اعمش نے یقینا ابو صالح سے نہیں سنی۔‘‘

 

[السنن الکبریٰ:ج۱ص۴۳۰]​

 

۴)اعمش عن ابی صالح والی سند پرجرح کرتے ہوئے امام ابو الفضل محمد الہروی الشہید(متوفی۳۱۷ھ) نے کہا:

 

’’اعمش تدلیس کرنے والے تھے، وہ بعض اوقات غیر ثقہ سے روایت لیتے تھے۔‘‘

 

[علل الاحادیث فی کتاب الصحیحلمسلم:ص۱۳۸]​

 

حافظ ابن القطان الفاسیؒنے اعمش عن ابی صالح کی سند والی روایت کے بارے میں فرمایا:

 

’’اور اعمش کی عن والی روایت انقطاع کا نشانہ ہے کیونکہ وہ مدلس تھے۔‘‘

 

[بیان الوہم و الایہام:ج۲ ص۴۳۵]​

 

اعمش عن ابی صالح کی سند والی روایت کے بارے میں حافظ ابن الجوزیؒ نے کہا:

 

’’یہ حدیث صحیح نہیں۔‘‘

 

[العلل المتناہیہ:ج۱ص۴۳۷]​

 

۷)مشہور محدث بزارؒ نے اعمش عن ابی صالح کی سندوالی روایت کے بارے میں فرمایا:

 

’’اور ہو سکتا ہے کہ اعمش نے اسے غیر ثقہ سے لے کر تدلیس کر دی ہو تو سند بظاہر صحیح بن گئی اور میرے نزدیک اس حدیث کی کوئی اصل نہیں۔‘‘

 

[فتح الباری:ج۸ص۴۶۲]

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...