Jump to content

Hazrat Ayesha Physically Immature Theen (جسمانی طور پر ناتواں تھیں جسمانی طور پر نادان تھیں ) Shia Or Yahoodi Aitraz


Abdullah Yusuf

تجویز کردہ جواب

امام  ابن  ہجر  عسقلانی  نے بخاری کی شرح  میں حضرت  عائشہ (raa)  کو جسمانی طور پر ناتواں لکھا ہے مطلب جسمانی طور  پر نابالغ لکھا ہے تو نبی کریم  (saw) کا نکاح حضرت عائشہ (raa)   سے کیسے جائز ہوا جب وہ جسمانی طور پر نادان تھیں ؟جاہلانہ اعتراض یہودیوں کا 

 

Edited by Abdullah Yusuf
Link to comment
Share on other sites

  • 3 weeks later...

امام  ابن  ہجر  عسقلانی  نے بخاری کی شرح  میں حضرت  عائشہ (raa)  کو جسمانی طور پر ناتواں لکھا ہے مطلب جسمانی طور  پر نابالغ لکھا ہے تو نبی کریم  (saw) کا نکاح حضرت عائشہ (raa)   سے کیسے جائز ہوا جب وہ جسمانی طور پر نادان تھیں ؟جاہلانہ اعتراض یہودیوں کا 

(bis)

 

(salam)

 

معترضین نہ صرف جاہل ہیں بلکہ خائن ہونے میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے۔

اصل عربی عبارت ہی لکھ دیتے تو ایسا بھونڈا استدلال کیسے کر پاتے!۔

 

post-14217-0-44098500-1488312099_thumb.jpg

 

 

 

post-14217-0-64821300-1488312169_thumb.jpg

 

 

 

post-14217-0-35163100-1488312281_thumb.jpg

 

 

 

 

http://tahaffuz.com/3843/#.WLXNk9J96DJ

 

یہود ونصاریٰ روز اول سے ہی اسلام اور پیغمبر اسلام رحمۃ للعالمینﷺ کے دشمن ہیں۔ ان کی ہر دور میں یہ کوشش رہی کہ وہ کسی نہ کسی طرح حضور کریمﷺ کی ذات بابرکات پر اعتراضات قائم کریں۔ یہود ونصاریٰ کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے چنانچہ کچھ عرصے پہلے انٹرنیٹ پر ایک یہودی عالم نے یہ اعتراض کیا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کا نکاح سید عالم نور مجسمﷺ کے ساتھ کم سنی میں ہوا۔ 6 سال کی عمر میں نکاح اور 9 سال کی عمر میں رخصتی ہوئی۔ اس کم سنی کی شادی پیغمبر اسلامﷺ کے لئے موزوں اور مناسب نہیں تھی؟

یہ بات حقیقت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کا نکاح نبی رحمت شفیع امتﷺ سے 6 سال کی عمر میں ہوا اور 9 سال کی عمرمیں ان کی والدہ ماجدہ حضرت ام رومان رضی اﷲ عنہا ( زینب) نے رخصتی کردی۔ اس پر بے جاء اعتراضات اور شکوک و شبہات نئے نہیں ہیں، بلکہ بہت پرانے ہیں، علماء اور محققین نے دلائل کی روشنی میں ان اعتراضات اور شکوک و شبہات کے جوابات دیئے ہیں۔

ماہ رمضان 10ھ نبوت میں جب ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ عنہا کا وصال ہوا تو اس جانثار اور غمگسار زوجہ کے وصال کے غم نے آقائے دوجہاںﷺ کو نہایت رنجیدہ کردیا۔ اس وقت آپﷺ نے ضروری سمجھاکہ میرے حرم میں کوئی ایسی چھوٹی (کم سن) عمر کی خاتون داخل ہوں جس نے اپنی آنکھ اسلامی ماحول میں کھولی ہو اور گھرانۂ نبوت میں آکر پروان چڑھیں تاکہ ان کی تعلیم و تربیت ہر لحاظ سے مکمل اور مثالی طریقہ پر ہو اور وہ مسلمان عورتوں اور مردوں میں اسلامی تعلیمات پھیلانے کا موثر ترین ذریعہ بن سکے۔

چنانچہ اس مقصد کے لئے مشیت الٰہی نے سیدنا صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کی لخت جگر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کو منتخب فرمایا اور شوال 3 قبل الہجرہ مطابق 620ء مئی میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے آپﷺ کا نکاح ہوا۔ اس وقت حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی عمر جمہور علماء کے نزدیک 6 سال تھی اور تین سال کے بعد جب 9 سال کی عمرمیں ہوئی تو آپ رضی اﷲ عنہا کی والدۂ ماجدہ حضرت ام رومان رضی اﷲ عنہا نے آثار و قرائن سے یہ اطمینان حاصل کرلیا تھا کہ وہ اب اس عمر کو پہنچ کی ہیں کہ رخصتی کی جاسکتی ہے تو حضور اکرم نور مجسمﷺ کے پاس روانہ فرمایا اور اس طرح رخصتی کا عمل انجام پایا (مسلم جلد دوم ص 456، اعلام النساء ص 11، جلد سوم، مطبوعہ بیروت)

حضور کریمﷺ کیلئے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کو

اﷲ تعالیٰ نے منتخب فرمایا

حدیث شریف: سید عالم نور مجسمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ (اے عائشہ رضی اﷲ عنہا) تم مجھے تین رات خواب میں دکھائی گئی تھیں۔ آپ کو فرشتہ ریشمی عمدہ کپڑے میں لاتا تھا۔ اس نے ہمیں کہا کہ یہ آپﷺ کی زوجہ ہیں۔ میں نے تمہارے رخ سے کپڑا اٹھایا تو اچانک وہ تم تھیں۔ میں نے کہاکہ اگر یہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو اسے پورا فرمائے گا (مشکوٰۃ شریف)

فائدہ: سید عالم نور مجسمﷺ کا یہ فرمانا کہ اگریہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو اسے پورا فرمائے گا یعنی اس لڑکی کومیرے عقد میں آنے کی سعادت نصیب ہوگی اور ایسا ہی ہوا چنانچہ معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے محبوبﷺ کے لئے منتخب  فرمایا ہے۔

حضرت امام ترمذی رضی اﷲعنہ فرماتے ہیںکہ بے شک حضرت جبرئیل امین علیہ السلام ریشم کے سبز ٹکڑے میں ان کی (سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا) تصویر حضور اکرم نور مجسمﷺ کی بارگاہ میں لائے اور عرض کی کہ یہ دنیا و آخرت میں آپﷺ کی بیوی ہے (مشکوٰۃ شریف، ترمذی شریف)

خیال رہے کہ تصویر کی حرمت قدوم مدینہ کے بعد ہے (حاشیہ ترمذی شریف جلد دوم ، ص 228)

سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا پر مشہور اعتراض اور اس کا جواب

یہ اعتراض درحقیقت اس مفروضہ پر مبنی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا میں وہ اہلیت و صلاحیت پیدا نہیں ہوئی تھی جو ایک خاتون کو اپنے شوہر کے پاس جانے کے لئے درکار ہوتی ہے، حالانکہ اگر عرب کے اس وقت کے جغرافیائی ماحول اور آب و ہوا کا تاریخی مطالعہ کریں تو یہ واقعات اس مفروضہ کی بنیاد کو کھوکھلی کردیں گے، جس کی بناء پر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے سلسلہ میں ناروا اور بیجا طریقہ پر قلم چلایا گیاہے۔

سب سے پہلے یہ ذہن میں رہے کہ اسلامی شریعت میں صحت نکاح کے لئے بلوغ شرط نہیں ہے ’’سورۂ طلاق‘‘ میں نابالغہ کی عدت تین ماہ بتائی گئی ہے۔ واللائی لم یعضن (سورۂ ماہدہ 4) اور ظاہر ہے کہ عدت کا سوال اسی عورت کے معاملے میں پیدا ہوتا ہے جس سے شوہر خلوت کرچکا ہو، کیونکہ خلوت سے پہلے طلاق کی صورت میں سرے سے کوئی عدت ہی نہیں ہے (سورۂ احزاب 49) اس لئے ’’واللائی لم یحضن‘‘ سے ایسی عورت کی عدت بیان کرنا جنہیں ماہواری آنا شروع نہ ہوا ہو، صراحت کے ساتھ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس عمر میں نہ صرف لڑکی کا نکاح کردینا جائز ہے بلکہ شوہر کا اس کے ساتھ خلوت کرنا بھی جائز ہے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی نسبت قابل وثوق ذرائع سے معلوم ہے کہ ان کے جسمانی قویٰ بہت بہتر تھے اور ان میں قوت نشوونما بہت زیادہ تھی۔ ایک تو خود عرب کی گرم آب و ہوا میں عورتوں کے غیر معمولی نشوونما کی صلاحیت ہے۔ دوسرے طور پر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جس طرح ممتاز اشخاص کے دماغی اور ذہنی قویٰ میں ترقی کی غیر معمولی استعداد ہوتی ہے۔ اسی طرح قدوقامت میں بھی بالیدگی کی خاص صلاحیت ہوتی ہے۔ اس لئے بہت تھوڑی عمر میں وہ قوت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا میں پیدا ہوگئی تھی جو شوہر کے پاس جانے کے لئے ایک عورت میں ضروری ہوتی ہے۔ دائودی نے لکھا ہے کہ ’’وکانت عائشۃ ثبت شبابا حسنا‘‘ یعنی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا نے بہت عمدگی کے ساتھ سن شباب تک ترقی کی تھی (نووی جلد 3ص 456)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے طبعی حالات تو ایسے تھے ہی ان کی والدہ محترمہ نے ان کے لئے ایسی باتوں کا بھی خاص اہتمام کیا تھا جو، ان کے لئے جسمانی نشوونما پانے میں ممدومعاون ثابت ہوئی چنانچہ ابو دائود جلد دوم ص 98 اور ابن ماجہ ص 246 میں خود حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کا بیان مذکور ہے کہ ’’میری والدہ نے میری جسمانی ترقی کے لئے بہت تدبیریں کیں۔ آخر ایک تدبیر سے خاطر خواہ فائدہ ہوا، اور میرے جسمانی حالات میں بہترین انقلاب پیدا ہوگیا‘‘

اس کے ساتھ اس نکتہ کو بھی فراموش نہ کرنا چاہئے کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کو خود ان کی والدہ نے بدون اس کے کہ آنحضرتﷺ کی طرف سے رخصتی کا تقاضا کیا گیا ہو، خدمت نبوی میں بھیجا تھا اور دنیا جانتی ہے کہ کوئی ماں اپنی بیٹی کی دشمن نہیں ہوتی، بلکہ لڑکی سب سے زیادہ اپنی ماں ہی کی عزیز اور محبوب ہوتی ہے۔ اس لئے ناممکن اور محال ہے کہ انہوں نے ازدواجی تعلقات قائم کرنے کی صلاحیت و اہلیت سے پہلے ان کی رخصتی کردی ہو اور اگر تھوڑی دیر کے لئے مان لیا جائے کہ عرب میں عموماً لڑکیاں 9 سال میں بالغ نہ ہوتی ہوں تو اس میں حیرت اور تعجب کی کیا بات ہے کہ استثنائی شکل میں طبی اعتبار سے اپنی ٹھوس صحت کے پس منظر میں کوئی لڑکی خلاف عادت 9 سال ہی میں بالغ ہوجائے۔ جو ذہن و دماغ منفی سوچ کا عادی ہوگئے ہوں وہ تو یہ واقعہ جاہلانہ طور پر پیش کرے گا، لیکن جو ہر طرح ذہنی عصبیت سے پاک ہو کر عدل و انصاف کے تناظر میں تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہتے ہوں، وہ جان لیں کہ نہایت مستند طریقہ سے ثابت ہے کہ عرب میں بعض لڑکیاں 9 برس میں ماں اور اٹھارہ برس میں نانی بن گئی ہیں۔

سنن دار قطنی میں ہے ’’حدثنی عباد المہلبی قال ادرکت فینا یعنی المہالبۃ امرأۃ صارت جدۃ وہی بنت ثمان عشرۃ سنۃ، ولدت سمع سنن ابنۃ، فولدت ابنتھا لتسع سنین فصارت ہی جدۃ وہی بنت ثمان عشرۃ سنۃ (دارقطنی جلد 3ص 323، مطبوعہ لاہور)

اعتراض کرنے والے یہ پروپیگنڈہ تو کرتے ہیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کا نکاح پیغمبر اسلامﷺ سے چھوٹی عمر میں ہوا لیکن یہ بات کیوں نہیں بتاتے کہ پیغمبر اسلامﷺ کی حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے علاوہ جملہ ازواج مطہرات بیوہ، مطلقہ اور شوہر دیدہ تھیں۔ ظالموں کے پروپیگنڈے نے واضح کردیا کہ ان کے دل میں پیغمبر اسلامﷺ کے متعلق بغض و عداوت ہے۔

امام زرقانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ آپﷺ نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے کم سنی میں ہی اس لئے نکاح کرلیا گیا تاکہ وہ آپﷺ سے زیادہ سے زیادہ عرصہ تک اکتساب علوم کرسکیں اور حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے توسط سے لوگوں کو دین و شریعت کے زیادہ سے زیادہ علوم حاصل ہوسکیں۔ چنانچہ آنحضرتﷺ کے وصال کے بعد حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا اڑتالیس برس حیات رہیں۔ 66ھ میں سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا کا وصال ہوا۔ 9 سال کی عمر میں رخصتی ہوئی۔ آپﷺ کی خدمت میں 9 سال رہنے کا شرف حاصل ہوا۔ آپﷺ کے وصال کے وقت سیدہ کی عمر 18 سال تھی (زرقانی، الاستعیاب)

حضور اکرم نور مجسمﷺ کے ساتھ 7 سال ایسے گزارے کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے اپنی  نوعمری میں کتاب و سنت کے علوم میں گہری بصیرت حاصل کی۔ اسوۂ حسنہ اور سید عالم نور مجسمﷺ کے اعمال و ارشادات کا بہت بڑا ذخیرہ اپنے ذہن میں محفوظ رکھا اور درس و تدریس اور نقل و روایت کے ذریعہ سے اسے پوری امت کے حوالہ کردیا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے اپنے اقوال و آثار کے علاوہ ان سے دوہزار دو سو دس مرفوع احادیث صحیحہ مروی ہیں۔ حصرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ کو چھوڑ کرصحابہ و صحابیات میں سے کسی کی بھی تعداد حدیث  اس سے زائد نہیں۔

آپ رضی اﷲ عنہا امت کی سب سے بڑی مفسرہ، سب سے بڑی محدثہ، سب سے بڑی معلمہ اور سب سے زیادہ مسائل جاننے والی ہستی ہیں۔ یہی وجہ سے صحابہ کرام علیہم الرضوان اور حضرات تابعین رحمہم اﷲ آپ رضی اﷲ عنہا کی خداداد ذہانت و فراست، ذکاوت و بصیرت اور علم و عرفان سے فیض حاصل کرتے رہے اور اس طرح ان کے علمی و عرفانی فیوض و برکات ایک لمبے عرصہ تک جاری رہے۔

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...