Jump to content

غیرمقلد زبیرعلی زئی اور اس کے استاد بدیع الزمان سندھی کی صحیح بخاری کی ایک سند پر تحقیقی تبصرہ


Raza Asqalani

تجویز کردہ جواب

غیرمقلد زبیرعلی زئی اور اس کے استاد بدیع الزمان سندھی کی صحیح بخاری کی ایک سند پر تحقیقی تبصرہ

 

گستاخ المحدثین زبیرعلی زئی غیرمقلد اپنے استادبدیع الزمان سندھی  کے ایک رسالہ  "منجدالمستجیز لروایۃ السنۃ والکتاب العزیز" کے بارے میں لکھتاہے۔

یہ رسالہ شاہ صاحب کی اسناد کا مجموعہ ہے جو آپ اپنے شاگردوں اور مستجیزین کو مرحمت فرماتے تھے۔آپ نے اپنے دستخطوں اور مہر کے ساتھ 8/7/1406 ھ کو یہ اجازت نامہ مجھے بھی عطا فرمایا تھا۔اس  میں ایک مقام پر آپ نے صحیح بخاری کی سند درج ذیل الفاظ میں رقم کی:

"فاخبرنی الشیخ عبدالحق الھاشمی قال:اخبرنا احمد بن عبداللہ بن سالم البغدادی عن عبدالرحمن بن حسن بن محمد بن عبدالوھاب عن جدہ شیخ الاسلام عن عبداللہ بن ابراھیم المدنی عن عبدالقادر التغلبی عن عبدالباقی عن احمد الوفائی عن موسی الحجازی عن احمد الشویکی عن العسکری عن الحافظ شمس الدین ابن القیم عن  شیخ الاسلام الحافظ تقی الدین ابی العباس ابن تیمیۃ عن الفخرابن البخاری عن ابی ذرالھروی عن شیوخہ الثلاثۃ السرخسی والمستملی والکشمیھنی عن محمد بن یوسف الفربری عن امام الدنیا ابی عبداللہ محمدبن اسماعیل البخاری"

(منجدالمستجیز ص 10-11)

اس سند میں نہ شاہ ولی اللہ دہلوی ہیں اور نہ شاہ عبدالعزیز و محمداسحاق

(تحقیقی، اصلاحی اور علمی مقالات ج1  ص 488-489)

59915c68a6f02_Zubairzaikisanad.thumb.jpg.b080748e005c469377c51d3d46b04c86.jpg

زبیر زئی غیرمقلدوں کے لیے  ثقہ محدث ہے کیونکہ وہ جو بھی نقل کرتا ہے غیرمقلدوں کے لیے قابل اعتماد ہوتا ہے اکثر غیرمقلد اس کی ہی باتوں کو صحیح سمجھتے ہیں۔ اس لیے ہم اس زبیرعلی زئی کی تحریر پر ہی تحقیق کر کےاس کی اور اس کے استاد کی صحیح بخاری کی اس سند کو ضعیف و باطل ثابت کرتے ہیں۔

غیرمقلد زبیرعلی زئی کی پیش کردہ سند کی صحیح اسنادی تحقیق:

غیرمقلد زبیر علی زئی کی پیش کردہ صحیح بخاری کی یہ سند معضل منقطع اور باطل ہے کیونکہ فخرابن بخاری کا ابوذرالہروی سے نہ ملاقات ثابت اور نہ ہی سماع بلکہ امام فخرابن بخاری کی پیدائش سے پہلے ہی امام ابوذرالہروی وفات پاچکے تھے۔

امام فخر ابن بخاری کی پیدائش کی تاریخ:

امام ذہبی لکھتے ہیں:

عَلِيّ بْن أَحْمَد بْن عَبْد الواحد بْن أَحْمَد، الشّيْخ الإِمَام، الصّالح، الورع، المعمّر، العالم، مُسْند العالم، فخر الدّين، أَبُو الْحَسَن ابن العلامة شمس الدّين أَبِي الْعَبَّاس المقدسيّ، الصّالحيّ، الحنبليّ، [المتوفى: 690 هـ]

المعروف والده بالبُخاري.

وُلِد فِي آخر سنة خمسٍ وتسعين وخمسمائة.

595ہجری سال کے آخر میں پیداہوئے۔   

(تاریخ الاسلام،15/665)

599162059d2cc_TarikhIslamaurIbneBukhari.jpg.3ab08af1c3b6f3cc5ff6a0d2cef336c9.jpg

اور امام ذہبی نے ابن تیمیہ کو امام فخرابن بخاری کے شاگردوں میں لکھا۔اس کا ثبوت یہ ہے

وقد روى عَنْهُ الدمياطيّ وقاضي القضاة ابن دقيق العيد، وقاضي القضاة ابن جماعة، وقاضي القضاة ابن صَصْرى، وقاضي القضاة تقيّ الدّين سُلَيْمَان، وقاضي القضاة سعد الدّين مَسْعُود، وأبو الحَجّاج المِزّيّ، وأبو مُحَمَّد البِرْزاليّ، وشيخنا أَبُو حفص ابن القواس، وأبو الوليد بن الحاج، وأبو بَكْر بْن القاسم التُّونسيّ المقرئ، وأبو الْحَسَن عَلِيّ بْن أيّوب المقدسيّ، وأبو الْحَسَن الختني، وأبو محمد ابن المحب، وأبو محمد الحلبي، وأبو الحسن ابن العطّار، وأبو عَبْد اللَّه العسقلاني رفيقنا، وأبو العباس البكري الشريشي، وأبو العباس ابن تيمية.

 (تاریخ الاسلام،15/665)

5991621bb42ae_Taimiakitareef.jpg.806ea6d080decd4f4c515d1accff75ae.jpg

بلکہ امام ذہبی نے ابن تیمیہ سے امام فخربن بخاری کی تعریف نقل کی جو یہ ہے۔

وقال شيخنا ابن تيمية: ينشرح صدري إذا أدخلت ابن البخاري بيني وبين النبي صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حديث.

اور ہمارے شیخ ابن تیمیہ نے کہا: میرا سینہ کھل گیا جب میں نے (فخر) ابن بخاری کو اپنے اور نبی ﷺ کے درمیان (سند)حدیث میں داخل کیا۔

(تاریخ الاسلام،15/665)

اس سے واضح ہو گیا کہ ابن تیمیہ امام  فخرابن بخاری سے ہی روایت نقل کرتا ہے جن کی پیدائش 595 ہجری کو ہوئی۔

علامہ ابن رجب  نے بھی امام فخر ابن بخاری کی پیدائش 795  کے آخر یا 796 ہجری کے  شروع میں لکھتے ہیں جس کا ثبوت یہ ہے۔

علي بن أحمد بن عَبْد الْوَاحِد بْن أَحْمَد بْن عَبْد الرَّحْمَنِ السعدي، المقدسي الصالحي، الفقيه المحدث المعمر، سند الوقت، فخر الدين

أَبُو الْحَسَن، ابْن الشيخ شمس الدين الْبُخَارِي، وَقَدْ سبق ذكر أَبِيهِ، وعمه الحافظ الضياء. ولد فِي آخر سنة خمس وسبعين وخمسمائة، أو أول سنة ست وسبعين.

575 ہجری کے آخر میں پیدا ہوئےیا  76سال کے شروع میں

(ذیل طبقات الحنابلۃ4/241-242)

599162a52e0ca_tabqathanbilaaurbukhari.thumb.png.aa0522d8bd6b4fb9dead9fa07ee8d054.png

مجھے لگتا ہے علامہ ابن رجب سے خطا ہو گئی جو انہوں نے  تسعین کی جگہ سبعین لکھ دیا ۔ (واللہ اعلم)

امام زرکلی نے بھی امام فخرابن بخاری کی پیدائش 595 ہجری ہی لکھی ہے یہ ہے اس کا ثبوت

ابن البُخاري

(595 - 690 هـ = 1199 - 1291 م)

علي بن أحمد بن عبد الواحد السعدي المقدسي الصالحي الحنبلي، فخر الدين، أبو الحسن، المعروف بابن البخاري: عالمة بالحديث، نعته الذهبي بمسند الدنيا. أجاز له ابن الجوزي وكثيرون. قال ابن تيمية: ينشرح صدري إذا أدخلت ابن البخاري ببيني وبين النبي صلى الله عليه وسلم في حديث. وحدث نحوا من ستين سنة، ببلاد كثيرة بدمشق ومصر وبغداد وغيرها.

(الاعلام للزرکلی 4/257)

599162b4a5f6c_ibnebukharizarkali.jpg.62e3936392b56ef44a07844441a614f1.jpg

اس بات سے واضح ہو گیا کہ امام فخر ابن بخاری 595 ہجری میں ہی پیدا ہوئے۔

 

امام ابوذرالہروی کی وفات کی تاریخ

خطیب بغدادی امام ابوذر الہروی کی وفات کے بارے میں  لکھتے ہیں:

ومات بمكة لخمس خلون من ذي القعدة سنة أربع وثلاثين وأربعمائة.

اور مکہ میں فوت ہوئے 5 ذی القعد سن 434 ہجری کو

تاريخ بغداد(12/456، رقم 5791)

5991639bab897_tarikhbaghdadseabuzarkiwafat.thumb.jpg.42600536053b0aac2dadd79f41321118.jpg

امام ابن عساکر امام ابوذر الہروی کی وفات 434 ہجری ہی کو لکھتے ہیں

توفي أبو ذر عبد بن أحمد بن محمد الهروي الحافظ رحمه الله بمكة لخمس خلون من ذي القعدة سنة أربع وثلاثين وأربعمائة

(تاریخ دمشق، ج37، ص393، رقم 4413)

59916425f1768_Tarikhibneasakar.jpg.4b0e7d6256e9192c455aa4d5420a9d41.jpg

علامہ ابن منظور بھی امام ابو ذر الہروی کی وفات 434 ہجری کو ہی لکھتے ہیں:

مات بمكة لخمس خلون من ذي القعدة سنة أربع وثلاثين وأربعمائة.

(مختصر تاریخ دمشق، ج 15، ص 299)

علامہ برہان الیعمری (متوفی 799ھ) امام ابوذرالہروی کی وفات 435 ہجر ی لکھتے ہیں اس کا ثبوت یہ ہے۔

توفي رحمه الله تعالى في ذي القعدة سنة خمس وثلاثين وأربعمائة.

الديباج المذهب في معرفة أعيان علماء المذهب (2/132)

امام ذہبی   بھی امام ابوذر الہروی کی وفات  434 ہجری  ہی لکھتے ہیں جس کا ثبوت یہ ہے۔

مَاتَ بِمَكَّةَ فِي ذِي القَعْدَةِ سَنَةَ أَرْبَعٍ وثَلاَثِيْنَ وَأَرْبَعِ مائَةٍ

(سیر اعلام النبلاء 17/557)

599164bb7b499_SeersewafatAbduZarki.thumb.jpg.3dbf043d45a9a04c59a1f990f2742336.jpg

ان آئمہ حدیث کی تحقیق سے ثابت ہو گیا کہ امام ابوذر الہروی کی وفات 434 یا 435 ہجری میں ہوئی ہے۔اور جب امام ابوذرالہروی کی وفات ہوئی اس وقت امام فخرابن بخاری پیدا بھی نہیں ہوئے تھے کیونکہ ان کی پیدائش 595 یا 596 ہجری میں ہوئی ہے۔

امام ابوذر الہروی کی وفات اور امام فخرابن بخاری کی پیدائش میں تقریبا 160 یا 161 سال کا فاصلہ ہے ۔ پھر زبیر علی زئی اور اس کے استاد نے اپنی سند میں  الفخرابن البخاری عن ابی ذرالھروی کیسے کہہ دیا؟؟؟

کم از کم دو تین اور راویوں کا فاصلہ ہے سند میں۔

لہذا ہماری بات کا خلاصہ تحقیق یہ ہے کی گستاخ المحدثین زبیرعلی زئی اور اس کے استاد کی بخاری شریف کی یہ سند معضل منقطع اور باطل ہے۔کیونکہ یہ سند متصل نہیں 160 یا161 سال کا فاصلہ ہے رواۃ میں۔

گستاخ المحدثین ز بیر علی زئی کو میرا یہ کہنا ہے کہ اس سند سے تو شاہ ولی اللہ ،شاہ عبدالعزیز سے اس لیے بچ رہا تھا کے وہ تقلید کرتے ہیں  لیکن خود زبیر علی زئی اور اس کے استاد کی اس مردود سند میں بھی مقلد راوی  موجودہیں ۔امام ابوذرالہروی خود امام مالک کے مقلد ہیں۔

امام ابن عساکر امام ابوذر الہروی کے بارے میں لکھتے ہیں:

توفي أبو ذر عبد بن أحمد بن محمد الهروي الحافظ رحمه الله بمكة لخمس خلون من ذي القعدة سنة أربع وثلاثين وأربعمائة وكان يذكر أن مولده سنة خمس أو ست وخمسين وثلاثمائة شك في ذلك كذا ذكر شيخنا الإمام الحافظ أبو بكر الخطيب رحمه الله وكذا رأيته بخط أبي عبد الله الحميدي رحمه الله وكان أحد الحفاظ الأثبات وكان علي مذهب مالك بن أنس رحمه الله عليه في الفروع ومذهب أبي الحسن في الأصول

(تاریخ دمشق، ج37، ص393، رقم 4413)

59916425f1768_Tarikhibneasakar.jpg.4b0e7d6256e9192c455aa4d5420a9d41.jpg

امام ذہبی لکھتے ہیں امام ابوذر الہروی کے بارے میں لکھتے ہیں:

وَكَانَ عَلَى مَذْهَبِ مَالِكٍ وَمَذْهب الأَشْعَرِيِّ

(سیر اعلام النبلاء 17/557)

599164bb7b499_SeersewafatAbduZarki.thumb.jpg.3dbf043d45a9a04c59a1f990f2742336.jpg

جب غیرمقلد تقلید کو حرام سمجھتے ہیں تو مقلد راویوں سے سند حدیث کیوں لیتے ہیں؟؟؟

ایک آخری بات جب کوئی سنی حنفی ا مام ابوحنیفہ کو امام الاعظم کہتا ہے تو غیرمقلد فورا اعتراض شروع کر دیتے ہیں

لیکن خود اپنا غیرمقلد زبیرعلی زئی اور اس کا استاد بدیع الزمان امام بخاری کو امام الدنیا لکھ رہے ہیں اپنی سند حدیث میں تو پھر غیرمقلد خاموش کیوں ہیں؟؟؟

لگتا ہے ان کے ہاں اپنوں کے لیے خصوصی رعایت ہے باقیوں کے لیے بدعت کے فتوے تیار رکھتے ہیں۔

زبیر علی زئی اور اس کے استاد کی سند کو مردود ثابت کرنے کے لئے اور بھی حوالہ جات موجود  ہیں لیکن محققین حدیث کے لیے اتنے حوالہ جات بھی کافی ہیں ۔

 

خادم حدیث شریف الفقیر رضاءالعسقلانی

tabqat hanbila aur bukhari.png

Edited by Raza Asqalani
Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...