Jump to content

فتنہ نجدیت (آل سعود اور وہابیت): تاریخ کی روشنی میں


امتی

تجویز کردہ جواب

اسلام علیکم! اس فورم پہ آنے کا مقصد فتنہ نجدیت(آل سعود اور وہابیت) کو تاریخ کی روشنی میں بیان کرنا اور ان دشمنان اسلام کو بے نقاب کرنا ہے جو آج حجاز کے مقدس خطہ پر قابض ہیں اور شعائر اسلام کی کھلم کھلا توہین کر رہے ہیں۔ 

اللہ پاک سے دعا ہے کہ حق کی جانب ہماری رہنمائی فرمائے اور حق کو سمجھ کر قبول کرنے جبکہ باطل کو سمجھ کر مسترد کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین۔

n00715482-b.jpg

Link to comment
Share on other sites

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

اسلام علیکم!

آل سعود اور وہابیت:

جزیرہ نما عرب کی موجودہ صورتحال:

عصر حاضر میں جزیرہ نما عرب پہ سعودیہ عرب کے نام سے ایک ریاست قائم ہے جہاں بادشاہی نظام رائج ہے اور وہابی مکتبہ فکر کو سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔

ریاست سعودیہ عرب کی امت مسلمہ کے لئے اہمیت:

ماضی کے حوالے سے:

یہ ریاست مسلم امہ میں اس وجہ سے خاص اہمیت کی حامل ہے کہ یہاں حجاز کی وہ مقدس سرزمین ہے جہاں سے اسلام کا نور ساری دنیا میں پھیلا ہے۔ اسی حجاز مقدس میں مکہ مکرمہ کا مقدس ترین شہر ہے  جہاں خاتم النبیین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا غار حرا سے ظہور ہوا اور دین اسلام کی ابتدا ہوئی۔  یہیں مدینہ منورہ کا مقدس ترین شہر ہے جہاں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی اور ایک بے مثال ریاست قائم فرمائی۔
اسلام کے مقدس ترین مقامات مسجد حرام (مکہ مکرمہ) اور مسجد نبوی (مدینہ منورہ) حجاز کی مقدس سرزمین پہ واقع ہیں جہاں ہر سال لاکھوں مسلمان حج اور عمرہ کے لئے جاتے ہیں۔
سعودیہ عرب کی اس مقدس سرزمین میں تبوک، خیبر، طائف، یمامہ کے علاقے ہیں جو اسلام کے ابتدائی دور میں خاص اہمیت کے حامل ہیں۔

مستقبل کے حوالے سے:

سعودی خطہ ناجائز صیہونی ریاست اسرائیل کے بہت قریب ہے اور  صیہونیوں کے گریٹر اسرائیل منصوبہ میں سعودیہ عرب کا خیبر تک کا علاقہ شامل ہے۔

آخری زمانے کے حوالے سے احادیث مبارکہ میں اس خطہ کی اہمیت: مدینہ منورہ کو ایمان کا مرکز اور دجال کے خلاف محفوظ پناہگاہ قرار دیا گیا ہے۔
  

سعودیہ عرب کے موجودہ فرمانروا شاہ سلمان بن عبد العزیز اور ان کے بیٹے ولی عہد محمد بن سلمان کی جدت پسندی اور اس کے نتیجے میں سلطنت میں تیزی سے رونما ہونے والی تبدیلیوں کو ہر ذی شعور مسلمان تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔ جس رفتار سے سعودی ریاست مغربی جدیدیت کی منازل طے کر رہی ہے، ہر صاحبِ بصیرت سوچنے پہ مجبور ہے کہ آیا کہ آل سعود ابھی اس جنون میں مبتلا ہوئے ہیں یا پھر یہ سب کسی قدیم طے شدہ کہانی کا حصہ ہے!! حالات ہمیں دعوت فکر دے رہے ہیں کہ ہم آل سعود کی تاریخ میں غوطہ زن ہوں اور وہابیت کی ابتدا کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

 

آل سعود کی تاریخ:

محمد بن سعود بن مقرن کو آل سعود کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ آل سعود کی نسبت سعود بن مقرن سے ہے۔ سلطنت سعودیہ عرب کا نام بھی انہی سعود بن مقرن کے نام پہ رکھا گیا ہے۔ محمد بن سعود بن مقرن سے پہلے یہ خاندان آل مقرن کہلاتا تھا۔
اہل علم کا دعویٰ ہے کہ سعود بن مقرن کا تعلق بدوی عرب قبیلہ بنی حنیفہ سے ہے جو ربیعہ کی ایک شاخ ہے جو آل عدنان سے ہے۔ (اسی آل عدنان کے قبیلہ قریش کے خاندان بنو ہاشم سے سرور کائنات آقا دو جہاں محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں)۔

 

آل سعود کی تاریخ:

قبیلہ آل سعود "بنی حنیفہ" کی ابتدائی تاریخ:

بنی حنیفہ کی ابتدائی تاریخ:

اسلام کی آمد سے قبل قبیلہ بنی حنیفہ اور دیگر ربیعہ قبائل (بنی بکر) اکثریت میں تھے اور صحرائے عرب کے بیشتر رقبہ پہ پھیلے ہوئے تھے۔

ربیعہ کے بیشتر قبائل خصوصاً بنی حنیفہ اور بنی بکر کی اکثریت عیسائی مذہب کی پیروکار تھی۔
قبیلہ بنی حنیفہ کا مرکز موجودہ نجد(سابقہ یمامہ) تھا۔

ظہور اسلام کے بعد جب مدینہ منورہ میں اسلامی ریاست قائم ہو گئی اور دعوت اسلام کے لئے سفیر بھیجے جانے لگے اور وفود باہر سے مدینہ منورہ آنے لگے تو بنی حنیفہ کا ایک وفد بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور اسلام قبول کر لیا۔

مسیلمہ کذاب بنی حنیفہ کا ایک فرد تھا جس نے وصال آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ عرصہ قبل نبوت کا دعویٰ کیا اس وفد کے ہمراہ تھا۔ بعد ازاں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللّٰہ عنہ نے مسیلمہ کے خلاف جہاد کیا تو جنگ یمامہ کا معرکہ پیش آیا جس میں مسلمانوں کو بڑانقصان اٹھا کر فتح نصیب ہوئی۔

خلیفہ راشد سوم حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ عنہ کے خلاف جب خوارج نے بغاوت کی تو اس قبیلہ کے افراد بھی شامل تھے۔ کوفہ کو مرکز بنایا۔ پھر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خلاف نکلے، مدینہ کا محاصرہ کیا اور آپ رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا۔

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللّٰہ عنہ کے دور خلافت میں جنگ جمل اور جنگ صفین بھی قاتلین عثمان اور دیگر باغیوں کی وجہ سے رونما ہوئیں اور خوارج کا فتنہ بھی ان باغیوں سے نکلا۔

محمد بن سعود بن مقرن: بانئ آل سعود:

محمد بن سعود کے آبا و اجداد نجد کے علاقے درعیہ میں سکونت پذیر تھے۔ 16ویں صدی عیسوی میں انہوں نے کھجوروں کی کاشت شروع کی اور کچھ عرصہ میں ایک نخلستان کے مالک بن گئے۔ اس سے اس خاندان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔


محمد بن سعود بن مقرن خود درعیہ میں ایک وسیع و عریض نخلستان کا مالک تھا اور اسے علاقے میں آچھا خاصا اثر و رسوخ حاصل تھا۔ یہ عرب میں پہلی سعودی ریاست "امارات درعیہ" کا بانی اور اس کا پہلا امیر بنا۔

Link to comment
Share on other sites

خطہ عرب اور خلافت عثمانیہ:

عرب سمیت اسلامی دنیا کے بیشتر خطے اس وقت خلافت عثمانیہ کے ماتحت تھے۔ خلافت عثمانیہ اندرونی اور بیرونی سازشوں کا شکار تھی اور کسی حد تک کمزور پڑ چکی تھی۔ عرب مسلمانوں کے بعض گروہ عثمانی خلفاء سے نفرت کرتے تھے۔ یہ عرب خلافت کو عربوں کی میراث سمجھتے تھے اور ان کے نزدیک خلافت عثمانیہ کے ذریعے ترک مسلمانوں نے عرب مسلمانوں کے حق پہ ڈاکہ ڈالا تھا۔ نفرت کی ایک اور وجہ عرب مسلمانوں کا محکوم اور ترک مسلمانوں کا حاکم ہونا تھا۔ عثمانی خلفاء کو اس حقیقت کا ادراک تھا اور وہ عرب مسلمانوں کے احساس محرومی کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہتے تھے۔ عرب خطوں میں عرب ہی گورنر اور والی مقرر کیے جاتے تھے پھر بھی اگر کہیں حق تلفی ہو جائے تو اتنی بڑی سلطنت میں یہ کوئی عجیب بات نہیں۔ انصاف کے دروازے ہر خاص و عام کے لئے ہر وقت کھلے رہتے تھے۔ خطہ عرب میں اس وقت بھی قبائلی نظام تھا کچھ قبائل خلافت عثمانیہ کے وفادار جب کہ کچھ خلاف تھے۔

خلافت عثمانیہ کے اس دور میں بھی اسلامی خطوں کی اس جدید جغرافیائی تقسیم کا کوئی تصور نہیں تھا۔ سارا عالم عرب ایک تھا اور انتظامی بنیادوں پر صوبوں میں تقسیم تھا۔ موجودہ سعودیہ عرب میں خلافت عثمانیہ کے حجاز اور نجد کے بڑے صوبے تھے۔ صوبہ حجاز کا گورنر شریف مکہ کہلاتا تھا اور مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ اسی کے سپرد تھے۔

17 ویں صدی عیسوی کی ابتدا میں دنیا میں طاقت کا توازن:
17ویں صدی عیسوی کی ابتدا  میں دنیائے کفر میں طاقت کا مرکز یورپ تھا۔ برطانیہ کا شمار دنیا کی بڑی طاقتوں میں ہوتا تھا۔ فرانس، جرمنی، سپین، پرتگال، پولینڈ سب طاقتور ممالک تھے۔ روس بھی ایک بڑی طاقت بن کر ابھر رہا تھا۔ امریکہ، اسرائیل، چین، بھارت کا کوئی وجود نہ تھا۔ یورپی ممالک بالخصوص پولینڈ، آسٹریا، روس جن کے ساتھ سلطنت عثمانیہ کی سرحدیں ملتی تھیں خلافت عثمانیہ کے بڑے حریف تھے
اسلامی دنیا میں خلافت عثمانیہ مرکزی حیثیت رکھتی تھی اور ایشیاء، افریقہ، یورپ تینوں براعظموں پر پھیلی ہوئی تھی۔ افریقہ کی ساحلی پٹی ( الجیریا- مصر)، ایشیا میں عرب دنیا(فلسطین، شام، اردن، عراق، سعودیہ عرب، یمن، کویت، قطر، بحرین), ترکی، مغربی ایران، جارجیا، آرمینیا، آذربائجان، یورپ میں یونان، البانیہ، مقدونیہ، مونٹینیگرو، سربیا، بلغاریہ،بوسنیا، رومانیہ، مولڈووا، یوکرائن، کروشیا، سلووینیا، ہنگری، سلوواکیہ کے موجودہ ممالک سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھے۔
جنوبی ایشیا میں سلطنت مغلیہ ایک بڑی قوت تھی۔

ایشیاء میں فارس کی صفوی سلطنت بھی ایک بڑی قوت تھی اور خلافت عثمانیہ کی نظریاتی حریف تھی۔

Link to comment
Share on other sites

عالم اسلام اور امت مسلمہ کے خلاف صیہونیت کی سازشیں:

صیہونی عیسائیت کے پروٹیسٹنٹ فرقے کے ذریعے مغربی یورپ پہ غالب آ چکے تھے۔ اور دنیا کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کے لئے سازشیں کر رہے تھے۔ صیہونی نظام کی راہ میں خلافت عثمانیہ سب سے بڑی رکاوٹ تھی کیوں کہ بیت المقدس جہاں صیہونی قبضہ کرنا چاہتے تھے اس وقت خلافت عثمانیہ کی حفاظت میں تھا۔ مزید یہ کہ ایک مضبوط اسلامی خلافت کی موجودگی یں صیہونی عالمی نظام کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکتا تھا۔ یہی وہ دور تھا جب خلافت عثمانیہ کے خلاف باقاعدہ منظم سازش کا آغاز ہوا۔ اب تک کی تاریخ پہ غور کرنے سے اس سازش کے اہم نکات درجہ ذیل معلوم ہوتے ہیں:

جو پوری ہو چکی ہیں:

خلافت اسلامیہ کے خاتمے سے پہلے:

1 سلطنت عثمانیہ کی ناکہ بندی کرنا(دیگر اسلامی خطوں پہ قبضہ کرنا).


2 سلطنت عثمانیہ کو جنگوں میں الجھانا


3 سلطنت عثمانیہ میں بغاوتوں کو ہوا دینا


4 مسلمانوں کو ایمانی اعتبار سے کمزور کرنا


5 سلطنت عثمانیہ کو جدیدیت اور مغربیت کی طرف مائل کرنا


6 خلیفہ کے کردار کو مشکوک بنانا اور خلافت کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنا


7 عالمی جنگ کے ذریعےخلافت عثمانیہ کا خاتمہ کرنا اور فلسطین میں یہودی ریاست کے لئے راہ ہموار کرنا

خلافت اسلامیہ کے سقوط کے بعد:

8 سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ کرنا اور  تمام عالم اسلام پہ مغرب (یورپ) کے ذریعے  قبضہ کرنا اور فلسطین پہ صیہونی تسلط قائم کرنا۔


9 عالمی جنگ کے ذریعے مغرب(امریکہ) کی سرپرستی میں فلسطین میں صیہونی ریاست قائم کرنا اور عالم اسلام کو  جدید مغربی طرز کی برائے نام اسلامی ریاستوں میں تقسیم کر دینا۔


10 خطہ عرب پہ جارحیت کے ذریعے صیہونی ریاست کی دھاک بٹھانا اور عربوں کو مصالحت اور دفاعی حکمت عملی اپنانے پر مجبور کرنا۔


11 عرب ریاستوں کے حکمرانوں کو اپنی مٹھی میں کرنا اور صیہونی ریاست کا حامی بنا کر فلسطینی مسلمانوں کو ان کی حمایت سے محروم کرنا۔


12 جہاد کو بدنام کرنا اور مسلمانوں کو جہاد سے دور کرنا


13 ملحقہ عرب خطوں (جو مستقبل کے گریٹر اسرائیل منصوبہ میں شامل ہیں) قبضہ کرنے کی راہ ہموار کرنا۔

 

جو ابھی پوری نہیں ہوئیں:


14 عالمی جنگ کے ذریعے دنیا کو برباد کر کے گریٹر اسرائیل قائم کرنا اور عالمی قوت کا مرکز بنانا۔


15 بیت المقدس پہ قبضہ جما کر اس کی جگہ ہیکل سلیمانی قائم کرنا اور دنیا کو عالمی دجالی صیہونی نظام کے پنجہ فولاد میں جکڑنا۔

خلافت و سلطنت عثمانیہ کی امت مسلمہ کے لئے اہمیت:

 

جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا کہ خلافت عثمانیہ ایک وسیع و عریض خطے پہ پھیلی ہوئی تھی اور ماتحت مسلمانوں میں علاقہ، رنگ،  نسل، زبان، مذہبی نظریات کے معاملے میں بہت امتیاز تھا مگر اسلام کے عالمگیر رشتے نے مسلمانوں کو اس سب کے باوجود آپس میں جوڑ رکھا تھا اور منصب خلافت کا تقدس و احترام ایسا تھا کہ وہ اسلامی خطے مثلاً افغان، برصغیر وغیرہ، جو خلافت کے ماتحت نہیں تھے، وہاں کا مسلمان بھی خلیفہ سے بہت عقیدت رکھتا اور اس واسطے ترک مسلمانوں سے محبت کرتا اور عثمانی خلیفہ کو اسلام کی تلوار اور مسلم امہ کی ڈھال سمجھا جاتا۔ یہ اس واسطے بھی تھا کہ تھا کہ مقدس خطہ حجاز کی حفاظت بھی عثمانی خلفاء کی زمہ داری تھی۔ اور ہر ذی شعور مسلمان جانتا تھا کہ خلافت عثمانیہ کی بقا و سلامتی میں اسلام اور امت مسلمہ کی بقا و سلامتی ہے اور امت مسلمہ کا ایک فرد ہونے کے ناطے اسی میں اس کی بقا، سلامتی، خوشحالی، فلاح و کامیابی ہے۔  یہی وجہ تھی کہ عامتہ المسلمین خلافت عثمانیہ کی حفاظت کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے کو ہمہ وقت تیار رہتے تھے اور سلطنت عثمانیہ کے ایک ایک انچ کے بدلے اپنے لہو کا آخری قطرہ بھی بہانے پہ آمادہ تھے۔ اگر مشرق کے مسلمانوں اور سلطنت عثمانیہ کے درمیان ایران حائل تو ہوتا تو شاید سلطنت عثمانیہ  کی سرحدیں مشرق میں موجودہ انڈونیشیا، ملائیشیا اور مال دیپ تک پھیلی ہوتیں!  تو صیہونی سازش پہ عملدرآمد نا ممکن ہو جاتا۔

Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...