Jump to content

تراویح بیس ہوں گی سعودی حکومت کامساجد کے لئےحکم


Raza11

تجویز کردہ جواب

ایک غیر مقلد کا بیس رکعات تراویح پر اعتراض پڑھنے کو ملا، آگر حضرت ان اعتراضات کا جواب دے سکتا ہے تو مہربانی کرکے دے اس میں بعض اقوال دیوبند علماء کے ہے علمی لحاظ سے معترض کو جواب دیا جائے تو بھتر ہے 

 

8 رکعت تراویح کے سنّت ہونے پر احناف کے گھر کی 15 گواہیاں

1- علامہ ابن الھمام الحنفی لکھتے ہیں:
فَتَحْصُلُ مِنْ هَذَا كُلِّهِ أَنَّ قِيَامَ رَمَضَانَ سُنَّةٌ إحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً بِالْوِتْرِ فِي جَمَاعَةٍ
ان سب کا حاصل یہ کہ قیام رمضان (تراویح) گیارہ رکعت مع وتر جماعت کے ساتھ سنّت ہے۔
(فتح القدیر شرح الہدایہ ج1ص 486،485)

2- امام الطحاوی الحنفی لکھتے ہیں:
لأنّ النبي عليه الصلٰوة والسلام لم يصلها عشرين،بل ثماني
کیونکہ نبی ﷺ نے بیس رکعت نہیں پڑی بلکہ آٹھ ( رکعت پڑھی ہے۔
(حاشیہ الطحاویہ علی در المختار ج1ص 295)

3- علامہ ابن نجیم المصری الحنفی نے ابن الھمام حنفی سے بطور اقرار نقل کیا:
فَإِذَنْ يَكُونُ الْمَسْنُونُ عَلَى أُصُولِ مَشَايِخِنَا ثَمَانِيَةٌ مِنْهَا وَالْمُسْتَحَبُّ اثْنَا عَشَرَ
کہ ہمارے مشائخ کے اصول پر اس طرح ہے کہ آٹھ ( رکعت مسنون اور بارہ (12) رکعت مستحب ہو جاتی ہیں۔
(البحر الرائق شرح کنز الدقائق ج2ص 72)

4- ملا علی قاری حنفی لکھتے ہیں:
فتحصل من هذا كله ان قيام رمضان سنة اِحدي عشرة بالوتر في جماعة فعله عليه الصلاة والسلام
کہ ان سب کا حاصل (نتیجہ) یہ ہے کہ قیام رمضان (تراویح) گیارہ (11) رکعت مع وتر جماعت کے ساتھ سنّت ہے، یہ آپﷺ کا عمل ہے۔
(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ج3ص 345)

5۔ محمد احسن نانوتوی حنفی لکھتے ہیں:
لأن النبي صلى الله عليه وسلم لم يصلها عشرين بل ثمانياً
کیونکہ نبی ﷺ نے بیس (20) رکعت نہیں پڑھی بلکہ آٹھ (رکعت پڑھی ہیں۔
(حاشیہ کنز الدقائق ص 36 حاشیہ:4)

6۔ عبدالشکور لکھنوی حنفی لکھتے ہیں:
اگرچہ نبی ﷺ سے 8 رکعت تراویح مسنون ہے اور ایک ضعیف روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے 20 رکعت بھی مگر۔۔
(علم الفقہ ص 195، حاشیہ)

7۔ عبدالحئی لکھنوی حنفی لکھتے ہیں:
کہ نبیﷺ نے تراویح دو طرح ادا کی ہے 1) 20 رکعتیں باجماعت لیکن اس کی سند ضعیف ہے، 2) 8 رکعتیں اور 3 وتر با جماعت۔۔(
(فتاویٰ عبدالحئی ج1ص 332،331)
 
8- خلیل احمد سہارنپوری حنفی لکھتے ہیں:
البتہ بعض علماء نے جیسے ابن ہمام نے آٹھ ( کو سنّت اور زائد کو مستحب لکھا ہے سو یہ قول قابلِ طعن کے نہیں۔
ایک اور جگہ سہانپوری صاحب لکھتے ہیں:
اور سنتِ مؤکدہ ہونا تراویح کا آٹھ رکعت تو اباتفاق ہے اگر خلاف (اختلاف) ہے تو بارہ( 12) میں ہے۔
(البراہین القاطعہ ص9،195)

9۔ محمد یوسف بنوری حنفی لکھتے ہیں:
فلا بد من تسليم أنه صلى الله عليه وسلم صلّى التراويح ايضاً ثماني ركعات
اس بات کو تسلیم کیئے بغیر کوئی چارہ نہیں کہ نبی ﷺ نے 8 رکعت تراویح بھی پڑھی ہے۔
(معارف السنن ج5ص 543)
10۔ مولانا یوسف لدھیانوی حنفی جابر رضی اللہ عنہ کی 11 رکعت والی روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
اس طرح آپﷺ کی رضامندی کی بنا پر یہ (11 رکعت ) سنّت ہوئی۔
(حیاۃ الصحابہ ج2 ص 165)

11- زکریا کاندھلوی دیوبندی حنفی لکھتے ہیں:
“لاشك في أنّ تحديد التراويح في عشرين ركعة لم يثبت مرفوعا عن النبيّ صلى الله عليه وسلم بطريق صحيح على أصول المحدثين وماورد فيه من رواية ابن عباس رضي الله عنهمامتكلّم فيها على أصولهم
یقیناً محدثین کے اصولوں کے مطابق 20 رکعت نمازِ تراویح نبی کریم ﷺ سے مرفوعاً ثابت نہیں بلکہ ابن عباس والی روایت محدثین کے اصولوں کے مطابق مجروح ہے۔
(أجز المسالک الی موطا امام مالک ج2ص 534)

12- شاہ ولی محدث دہلوی حنفی لکھتے ہیں:
از فعل آنحضرت صلعم یازدہ رکعت ثابت شدہ و در قیام رمضان
رسول اللہ ﷺ کے عمل سے اا رکعات ایک ثابت شدہ حقیقت ہے۔
(مصفیٰ شرح مؤطا ص 175)

13- احمد علی سہارنپوری حنفی لکھتے ہیں:
فتحصل من هذا كله ان قيام رمضان سنة احدي عشة ركعة بالوتر فى جماعة
ان سب کا حاصل یہ ہے کہ قیام رمضان 11 رکعت سنٗت ہے وتر کے ساتھ باجماعت۔
(حاشیہ بخاری شریف ج1ص 154)

14- حسن بن عمار الشرنبلالی حنفی لکھتے ہیں:
وصلاتها بالجماعة سنة كفاية” لما ثبت أنه صلى الله عليه وسلم صلى بالجماعة إحدى عشر ركعة بالوتر
اور اس کی باجماعت نماز سنّت کفایہ ہے کیونکہ یہ ثابت ہے کہ نبی ﷺ نے جماعت کے ساتھ 11 رکعتیں مع وتر پڑھی ہیں۔
(مراقی الفلاح شرح نور الیضاح ص 159)

15- مولانا انور شاہ کشمیری حنفی لکھتے ہیں:
ولا مناص من تسليم أن تراويحه كانت ثمانية ركعات ولم يثبت في رواية من الروايات أنه صلى التراويح والتهجد على حدة في رمضان
اس بات کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چھٹکارہ نہیں کہ آپ ﷺ کی تراویح 8 رکعت تھی اور روایات میں سے کسی ایک روایت سے بھی یہ ثابت نہیں آپﷺ نے رمضان میں تراویح اور تہجد علیحدہ پڑھی ہوں۔
آگے چل کر لکھتے ہیں:
وأما النبي – صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – فصح عنه ثمان ركعات، وأما عشرون ركعة فهو عنه بسند ضعيف وعلى ضعفه اتفاق
رہے نبی ﷺ تو ان سے 8 رکعت ثابت ہے اور رہی 20 رکعت تو وہ آپ ﷺ سے ضعیف سند کے ساتھ ہے اور اس کے ضعیف ہونے پر سب کا اتفاق ہے۔
(العرف الشذی ج2 ص 208)
Link to comment
Share on other sites

بحث میں حصہ لیں

آپ ابھی پوسٹ کرکے بعد میں رجسٹر ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ پہلے سے رجسٹرڈ ہیں تو سائن اِن کریں اور اپنے اکاؤنٹ سے پوسٹ کریں۔
نوٹ: آپ کی پوسٹ ناظم کی اجازت کے بعد نظر آئے گی۔

Guest
اس ٹاپک پر جواب دیں

×   Pasted as rich text.   Paste as plain text instead

  Only 75 emoji are allowed.

×   Your link has been automatically embedded.   Display as a link instead

×   Your previous content has been restored.   Clear editor

×   You cannot paste images directly. Upload or insert images from URL.

Loading...
  • حالیہ دیکھنے والے   0 اراکین

    • کوئی رجسٹرڈ رُکن اس صفحے کو نہیں دیکھ رہا
×
×
  • Create New...